سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام

(’اے ولیم‘)

حضرت مسیح موعود ؑ کا عشقِ قرآن

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے ایک منظوم پاکیزہ کلام میں فرماتے ہیں :

دل میں یہی ہے ہر دم تیرا صحیفہ چوموں
قرآں کے گرد گھوموں کعبہ مرا یہی ہے

(قادیان کے آریہ اور ہم، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 457)

حضرت اقدس مسیحِ موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

“قرآنِ شریف وہ کتاب ہے جس نے اپنی عظمتوں ، اپنی حکمتوں ، اپنی صداقتوں ، اپنی بلاغتوں ، اپنے لطائف و نکات، اپنے انوارِ روحانی کا آپ دعویٰ کیا ہے اور اپنا بے نظیر ہونا آپ ظاہر فرما دیا ہے۔یہ بات ہر گز نہیں کہ صرف مسلمانوں نے فقط اپنے خیال میں اُس کی خوبیوں کو قرار دے دیا ہے بلکہ وہ تو خود اپنی خوبیوں اور اپنے کمالات کو بیان فرماتا ہے اور اپنا بے مثل و مانند ہونا تمام مخلوقات کے مقابلہ پر پیش کر رہا ہے اور بلند آواز سے ہَلْ مِنْ مَعَارِض کا نقارہ بجا رہا ہے اور دقائق حقائق اُس کے صرف دو تین نہیں جس میں کوئی نادان شک بھی کرے بلکہ اُس کے دقائق تو بحرِزخار کی طرح جوش مار رہے ہیں ۔اور آسمان کے ستاروں کی طرح جہاں نظر ڈالو چمکتے نظر آتے ہیں ۔کوئی صداقت نہیں جو اُس سے باہر ہو۔کوئی حکمت نہیں جو اُس کے محیط بیان سے رہ گئی ہو۔کوئی نور نہیں جو اُس کی متابعت سے نہ ملتا ہو۔اور یہ باتیں بلا ثبوت نہیں ۔کوئی ایسا امر نہیں جو صرف زبان سے کہا جاتا ہے بلکہ یہ وہ محقق اور بدیہی الثبوت صداقت ہے کہ جو تیرہ سو برس سے برابر اپنی روشنی دکھلاتی چلی آئی ہے اور ہم نے بھی اِس صداقت کو اپنی اِس کتاب میں نہایت تفصیل سے لکھا ہے اور دقائق اور معارفِ قرآنی کو اِس قدر بیان کیا ہے کہ جو ایک طالبِ صادق کی تسلی اور تشفی کے لیے بحرِعظیم کی طرح جوش مار رہے ہیں ۔”

(براہینِ احمدیہ، روحانی خزائن جلد1 صفحہ 662 تا 665 حاشیہ 11)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

“ہم اس بات کے گواہ ہیں اور تمام دنیا کے سامنے اس شہادت کو ادا کرتے ہیں کہ ہم نے اس حقیقت کو جو خدا تک پہنچاتی ہے قرآن سے پایا۔ہم نے اس خدا کی آواز سنی اور اس کے پُر زور بازو کے نشان دیکھے جس نے قرآن کو بھیجا۔سو ہم یقین لائے کہ وہی سچا خدا اور تمام جہانوں کا مالک ہے۔ہمارا دل اس یقین سے ایسا پُر ہے جیسا کہ سمندر کی زمین پانی سے۔سوہم بصیرت کی راہ سے اس دین اور اس روشنی کی طرف ہر ایک کو بلاتے ہیں ۔ہم نے اس نورِ حقیقی کو پایا جس کے ساتھ سب ظلماتی پردے اٹھ جاتے ہیں ۔اور غیر اللہ سے درحقیقت دل ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔یہی ایک راہ ہے جس سے انسان نفسانی جذبات اور ظلمات سے ایسا باہر آ جاتا ہے جیسا کہ سانپ اپنی کینچلی سے۔”

(کتاب البریہ ، روحانی خزائن جلد 13 صفحہ 65)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

“یقیناً یہ سمجھو کہ جس طرح یہ ممکن نہیں کہ ہم بغیر آنکھوں کے دیکھ سکیں یا بغیر کانوں کے سن سکیں یا بغیر زبان کے بول سکیں اسی طرح یہ بھی ممکن نہیں کہ بغیر قرآن کے اس پیارے محبوب کا منہ دیکھ سکیں ۔مَیں جوان تھا اب بوڑھا ہوا مگر مَیں نے کوئی نہ پایا جس نے بغیر اس پاک چشمہ کے اس کھلی کھلی معرفت کا پیالہ پیا ہو۔”

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 442-443)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

“مَیں جوان تھا اب بوڑھا ہو گیا اور اگر لوگ چاہیں تو گواہی دے سکتے ہیں کہ مَیں دنیاداری کے کاموں میں نہیں پڑا اور دینی شغل میں ہمیشہ میری دلچسپی رہی۔مَیں نے اس کلام کو جس کا نام قرآن ہے نہایت درجہ تک پاک اور روحانی حکمت سے بھرا ہوا پایا۔نہ وہ کسی انسان کو خدا بناتا اور نہ روحوں اور جسموں کو اس کی پیدائش سے باہر رکھ کر اس کی مذمت اور نندیا کرتاہے۔اور وہ برکت جس کے لیے مذہب قبول کیا جاتا ہے اس کو یہ کلام آخر انسان کے دل پر وارد کر دیتا ہے اور خدا کے فضل کا اس کو مالک بنا دیتا ہے۔پس کیونکر ہم روشنی پاکر پھر تاریکی میں آویں ۔اور آنکھیں پا کر پھر اندھے بن جاویں ۔”

(سناتن دھرم ، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 474)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے بیان فرماتے ہیں :

“بیان کیا مجھ سے مرزا سلطان احمد صاحب نے بواسطہ مولوی رحیم بخش صاحب ایم۔اے کہ والد صاحب تین کتابیں بہت کثرت کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔یعنی قرآن مجید،مثنوی رومی اور دلائل الخیرات اور کچھ نوٹ بھی لیاکرتے تھے اور قرآن شریف بہت کثرت سے پڑھا کرتے تھے۔”

(سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر190)

حضرت صاحبزادہ مرز ا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے بیان فرماتے ہیں :

“بیان کیا مجھ سے میری نانی اماّں نے کہ ایک دفعہ جب تمہارے نانا کی بدلی کاہنووان میں ہوئی تھی۔میں بیمار ہو گئی تو تمہارے نانا مجھے ڈولی میں بیٹھا کر قادیان تمہارے دادا کے پاس علاج کے لیے لائے تھے۔اور اسی دن میں واپس چلی گئی تھی۔تمہارے دادا نے میری نبض دیکھ کر نسخہ لکھ دیا تھا۔اور تمہارے نانا کو یہاں اَور ٹھہرنے کے لیے کہا تھا۔مگر ہم نہیں ٹھہر سکے۔کیونکہ پیچھے تمہاری ا مّاں کو اکیلا چھوڑ آئے تھے۔نیز نانی امّاں نے بیان کیا کہ جس وقت میں گھر میں آئی تھی میں نے حضرت صاحب کو پیٹھ کی طرف سے دیکھا تھا کہ ایک کمرے میں الگ بیٹھے ہوئے رحل پر قرآن شریف رکھ کر پڑھ رہے تھے۔میں نے گھر والیوں سے پوچھا کہ یہ کون ہے ؟ تو انہوں نے کہا کہ یہ مرزا صاحب کا چھوٹا لڑکا ہے اور بالکل ولی آدمی ہے۔قرآن ہی پڑھتا رہتا ہے۔”

(سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر 239)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب ایم۔اے بیان فرماتے ہیں :

“مکرمی مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے حضرت مسیح موعوؑد کو صرف ایک دفعہ روتے دیکھا ہے اور وہ اس طرح کہ ایک دفعہ آپ خدام کے ساتھ سیر کے لیے تشریف لے جارہے تھے اور ان دنو ں میں حاجی حبیب الرحمن صاحب حاجی پورہ والوں کے دامادقادیان آئے ہو ئے تھے۔کسی شخص نے حضرت صاحب سے عرض کیا کہ حضور یہ قرآن شریف بہت اچھا پڑھتے ہیں۔حضرت صاحب وہیں راستہ کے ایک طرف بیٹھ گئے اور فرمایا کہ کچھ قرآن شریف پڑھ کر سنائیں۔چنانچہ انہوں نے قرآن شریف سنایا تو اس وقت میں نے دیکھا کہ آپ کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے اور حضرت مولوی عبدالکریم صاحب کی وفات پر میں نے بہت غور سے دیکھا مگر میں نے آپ کو روتے نہیں پایا۔حالانکہ آپ کو مولوی صاحب کی وفات کا نہایت سخت صدمہ تھا۔

خاکسار عرض کرتا ہے کہ یہ بالکل درست ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بہت کم روتے تھے اور آپؑ کو اپنے آپ پر بہت ضبط حاصل تھا اور جب کبھی آپؑ روتے بھی تھے تو صرف اس حد تک روتے تھے کہ آپ کی آنکھیں ڈبڈباآتی تھیں ۔اس سے زیادہ آپؑ کو روتے نہیں دیکھا گیا۔”

(سیرت المہدی جلد اوّل روایت نمبر 436)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے بیان فرماتے ہیں کہ میاں فخر الدین صاحب ملتانی ثم قادیانی نے مجھ سے بیان کیا کہ

“جب 1907ء میں حضرت بیوی صاحبہ لاہور تشریف لے گئیں توان کی واپسی کی اطلاع آنے پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام ان کو لانے کے لیے بٹالہ تک تشریف لے گئے۔میں نے بھی مولوی سید محمد احسن صاحب مرحوم کے واسطے سے حضرت صاحب سے آپ کے ساتھ جانے کی اجازت حاصل کی اور حضرت صاحب نے اجازت عطا فرمائی مگر مولوی صاحب سے فرمایا کہ فخر الدین سے کہہ دیں کہ اور کسی کو خبر نہ کرے اور خاموشی سے ساتھ چلا چلے ،بعض اور لوگ بھی حضرت صاحب کے ساتھ ہم رکاب ہوئے۔حضرت صاحب پالکی میں بیٹھ کر روانہ ہوئے جسے آٹھ کہار باری باری اُٹھا تے تھے۔قادیان سے نکلتے ہی حضرت صاحب نے قرآن شریف کھول کر اپنے سامنے رکھ لیا اور سورہ فاتحہ کی تلاوت شروع فرمائی اور میں غور کے ساتھ دیکھتا گیا کہ بٹالہ تک حضرت صاحب سورہ ٔفاتحہ ہی پڑھتے چلے گئے اور دوسرا ورق نہیں اُلٹا۔راستہ میں ایک دفعہ نہر پر حضرت صاحب نے اتر کر پیشاب کیا اور پھر وضو کر کے پالکی میں بیٹھ گئے اور اس کے بعد پھر اسی طرح سورۃ فاتحہ کی تلاوت میں مصروف ہو گئے۔بٹالہ پہنچ کر حضرت صاحب نے سب خدام کی معیت میں کھاناکھایا اور پھر سٹیشن پر تشریف لےگئے۔جب حضرت صاحب سٹیشن پر پہنچے تو گاڑی آچکی تھی اور حضرت بیوی صاحبہ گاڑی سے اُتر کر آئی ہوئی تھیں اور حضرت صاحب کو اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھیں ۔حضرت صاحب بھی بیوی صاحبہ کو دیکھتے پھرتے تھے کہ اتنے میں لوگوں کے مجمع میں حضرت بیوی صاحبہ کی نظر حضرت صاحب پر پڑگئی اور انہوں نے”محمود کے ابا” کہہ کر حضرت صاحب کو اپنی طرف متوجہ کیا اور پھر حضرت صاحب نے سٹیشن پر ہی سب لوگوں کے سامنے بیوی صاحبہ کے ساتھ مصافحہ فرمایا اورا ن کو ساتھ لے کر فرودگاہ پر واپس تشریف لے گئے۔”

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 438)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔اے بیان فرماتے ہیں :

“ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ جس دن شب کو عشاء کے قریب حسین کامی سفیر روم قادیان آیا اس دن نماز مغرب کے بعد حضرت صاحب مسجد مبارک میں شاہ نشین پر احباب کے ساتھ بیٹھے تھے کہ آپ کو دوران سر کا دورہ شروع ہوا اور آپ شاہ نشین سے نیچے اتر کر فرش پر لیٹ گئے اور بعض لوگ آپ کو دبانے لگ گئے مگر حضور نے دیر میں سب کو ہٹا دیا۔جب اکثر دوست وہاں سے رخصت ہوگئے تو آپ نے مولوی عبدالکریم صاحب مرحوم سے فرمایا کہ کچھ قرآن شریف پڑھ کر سنائیں ۔مولوی صاحب مرحو م دیر تک نہایت خوش الحانی سے قرآن شریف سُناتے رہے یہاں تک کہ آپ کو اِفاقہ ہو گیا۔”

(سیرت المہدی جلداول روایت نمبر 462)

حضرت شیخ یعقوب علی صاحبؓ عرفانی فرماتے ہیں :

“مرزا صاحب کی مرغوب خاطر اگر کوئی چیز تھی تو وہ مسجد اور قرآن شریف۔مسجد ہی میں عموماً ٹہلتے رہتے اور ٹہلنے کا اس قدر شوق تھا اور محو ہو کر اتنا ٹہلتے کہ جس زمین پر ٹہلتے وہ دب دب کر باقی زمین سے متمیز ہو جاتی۔”

(حیات احمد جلد اول از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ 81)

حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ تحریر فرماتے ہیں :

“آپؑ کے مشاغل بجز عبادت و ذکر الٰہی اور تلاوت قرآن مجید اور کچھ نہ تھے۔آپؑ کو یہ عادت تھی کہ عموماً ٹہلتے رہتے اور پڑھتے رہتے۔دوسرے لوگ جو حقائق سے ناواقف تھے وہ اکثر آپؑ کے اس شغل پر ہنسی کرتے۔قرآن مجید کی تلاوت اس پر تدبر اور تفکر کی بہت عادت تھی۔خان بہادر مرزا سلطان احمد صاحب بیان کرتے ہیں کہ آپؑ کے پاس ایک قرآن مجید تھا۔اس کو پڑھتے اور اس پر نشان کرتے رہتے تھے۔وہ کہتے ہیں کہ مَیں بلا مبالغہ کہہ سکتا ہوں کہ شاید دس ہزار مرتبہ اس کو پڑھا ہو! اس قدر تلاوت قرآن مجید کا شوق اور جوش ظاہر کرتا ہے کہ آپؑ کو خدا تعالیٰ کی اس مجید کتاب سے کس قدر محبت اور تعلق تھا۔اور آپؑ کو کلام الٰہی سے کیسی مناسبت اور دلچسپی تھی۔”

(حیات احمد جلد اول از شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی صفحہ 172،173)

(جاری ہے)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button