خطاب حضور انور

دُنیا کو فتح کرنے کا صحیح طریق یہ ہے کہ غریب اَقوام کو وہ مقام دینے کی ہر کوشش کی جائے جو اُن کا حق ہے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:

دنیا میں اَمن قائم کرنے کی خاطر ہمیں ایک اَور اُصول یہ سکھایا گیا ہے کہ دوسروں کی دولت کو للچائی نظروں سے مت دیکھو۔ قرآن کریم فرماتا ہے: ترجمہ: ’’اور اپنی آنکھیں اُس عارضی متاع کی طرف نہ پسار جو ہم نے اُن میں سے بعض گروہوں کو دُنیوی زندگی کی زینت کے طور پر عطا کی ہے تاکہ ہم اِس میں اُن کی آزمائش کریں۔ اور تیرے ربّ کا رزق بہت اچھا اور زیادہ باقی رہنے والا ہے۔‘‘ (سورۃ طٰہٰ:132)

دوسروں کی دولت کو لالچ اور حسد سے دیکھنا بھی دنیا میں بڑھتی ہوئی بے چینی کی ایک وجہ ہے۔ ہر مادی آسائش کے حصول میں دوسروں سے آگے نکلنے کی کوشش کے نتیجہ میں ایک نہ ختم ہونے والے لالچ اور حرص نے جنم لیا ہے۔ انفرادی سطح پر اِس دَوڑ نے معاشرہ کے امن کو تباہ کر دیا ہے۔ قومی سطح پر لالچ کی اِس دوڑ کے نتیجہ میں دنیا کا امن برباد ہوا ہے۔ تاریخ سے ثابت ہے اور ہر عقل مند آدمی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ دوسروں کی دولت کے حصول کی خواہش لالچ اور حسد کو بڑھاتی ہے جو درحقیقت خسارہ کا سودا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ان کو چاہیے کہ وہ اپنے وسائل پر نظر رکھیں اور ان سے فائدہ اٹھائیں۔ اَرضی فتوحات کی کوششیں در اصل ان علاقوں کے قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانے کے لیے کی جاتی ہیں۔ قوموں کے گٹھ جوڑ اور بلاکس بنانا درحقیقت بعض ممالک کے قدرتی وسائل کے حصول کے لیے ہے۔ اس سلسلہ میں کئی مصنفین نے جو حکومتوں کے مشیر رہ چکے ہیں کتابیں لکھی ہیں جن میں اِس اَمرکی تفصیل ملتی ہے کہ کس طرح بعض ممالک نے بعض دیگر اقوام کے وسائل پر قبضہ کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ ان مصنفین کے بیانات کس حد تک سچ ہیں یہ وہ خود جانتے ہیں یا خدا بہتر جانتا ہے لیکن ان کے پڑھنے سے جو صورتحال سامنے آتی ہے اس سے ان لوگوں کے دلوں میں جو اپنے غریب ممالک کے وفادار ہیں غصہ پیدا ہوتا ہے۔ اور دہشت گردی اور اسلحہ کی دَوڑ میں اضافہ کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ آج یہ سمجھا جاتا ہے کہ دنیا ماضی کی نسبت زیادہ ہوش مند، باشعور اور تعلیم یافتہ ہے۔ غریب ممالک میں بھی ایسے ذہین لوگ موجود ہیں جنہوںنے اپنے اپنے میدانِ علم میں کمال حاصل کر لیا ہے۔ دنیا کے بڑے تحقیقی مراکز میں انتہا درجہ کے ذہین لوگ مل کر مصروفِ کار ہیں۔ اِن حالات میں ہونا یہ چاہیے کہ لوگ اکٹھے ہو کر اِس غلط طرزِ فکر کا خاتمہ کریں اور ماضی کی اُن غلطیوں کو دُور کریں جن کے نتیجہ میں عداوتوں نے جنم لیا تھا اور جو خوفناک جنگوں پر منتج ہوئی تھیں۔ خداداد ذہانت اور سائنسی ترقی انسانیت کی بہبود کے لیے استعمال ہونی چاہیےتھی اور ایسا جائز طریق وضع ہونا چاہیے تھا جس پر چل کر ایک دوسرے کے وسائل سے استفادہ کیا جا سکے۔ اللہ تعالیٰ نے دُنیا کے ہر ملک کو قدرتی وسائل عطا فرمائے ہیں۔ ان تمام وسائل کو اس رنگ میں بھرپور طریق پر استعمال کرنا چاہیے تھا کہ دنیا امن کا گہوارہ بن جاتی۔ اللہ تعالیٰ نے بہت سے ممالک کو مختلف فصلیں اُگانے کے لیے بہترین آب و ہوا اور ماحول عطا کر رکھا ہے۔ اگر زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کو صحیح منصوبہ بندی کے ساتھ استعمال کیا جاتا تو دنیا کی اقتصادی حالت مضبوط ہو جاتی اور کُرّۂ اَرض سے بھوک کا خاتمہ ہو جاتا۔ جو ممالک معدنی وسائل رکھتے ہیں اُنہیں ترقی کرنے کا حق ملنا چاہیے اور مناسب قیمت پر آزاد تجارت کے مواقع ملنے چاہئیں۔ مختلف ممالک کو ایک دوسرے کے وسائل سے فائدہ اٹھانا چاہیے جس کا صحیح طریق یہی ہے اور یہی طریق خدا تعالیٰ کو پسند ہے۔

خدا تعالیٰ انبیاء کو مبعوث کرتا ہے تاکہ وہ ان راہوں کا پتہ دیں جن پر چل کر لوگ خدا کا قرب حاصل کریں مگر اِس کے ساتھ ساتھ خدا تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ دین کے معاملہ میں مکمل آزادی ہے۔ ہمارے عقائد کے مطابق موت کے بعد جزا سزا ہو گی مگر جب اُس کی مخلوق پر ظلم ہوتا ہے اور عدل و انصاف کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو خدا تعالیٰ کے وضع کردہ نظام کے تابع قوانین قدرت کے ذریعہ اسی دنیا میں ہی اس کے نتائج دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایسی بے انصافیوں کا شدید ردِّ عمل لوگوں کی طرف سے بھی ہوتا ہے اور اِس ردِّ عمل کے صحیح یا غلط ہونے کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ دُنیا کو فتح کرنے کا صحیح طریق یہ ہے کہ غریب اَقوام کو وہ مقام دینے کی ہر کوشش کی جائے جو اُن کا حق ہے۔

(خطاب فرمودہ 22؍اکتوبر 2008ء بمقام برطانوی پارلیمنٹ ہاؤس آف کامنز)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button