خلاصہ خطبہ جمعہ

اخلاص و وفا کے پیکر بدری صحابی حضرت زید بن حارثہ رضی اللّٰہ عنہ کی سیرت مبارکہ کا دلنشین تذکرہ

محترمہ مریم سلمان گل بنت مبارک احمد صدیقی صاحب کی وفات۔ مرحومہ کا ذکر خیر اور نماز جنازہ حاضر

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 21؍جون2019ء بمقام مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، سرے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیز نے 21؍ جون 2019ء کو مسجد مبارک، اسلام آباد، ٹلفورڈ، سرے میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشرکیا گیا ۔ جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم فیروز عالم صاحب کے حصہ میں آئی۔
تشہد، تعوذ، اور سورۃ الفاتحہ کی تلاوت کے بعد سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا:

گذشتہ خطبے میں حضرت زیدبن حارثہؓ کے حوالے سے باتیں کر رہا تھا۔ اس ضمن میں حضرت زینب بنت جحش کی آنحضرت ﷺ سے شادی کے متعلق کچھ مزید باتیں بیان ہونے والی ہیں۔ آنحضرت ﷺ سے شادی کے وقت حضرت زینبؓ کی عمر35؍ برس تھی۔ آپؓ نہایت متقی،پرہیزگار اور مخیّر خاتون تھیں۔ تمام ازواج میں زینبؓ ہی حضرت عائشہؓ کامقابلہ کرنے کا دم بھرتی تھیں۔ لیکن اس کےباوجود عائشہؓ ،زینبؓ کے تقویٰ ،طہارت،راست گوئی اور صلہ رحمی کی بڑی مداح تھیں۔ایک دفعہ آنحضورؐ نےفرمایا کہ تم میں سے جو زیادہ لمبے ہاتھوں والی ہے وہ میری وفات کے بعد سب سے پہلے میرے پاس پہنچے گی۔ ازواج اس سےظاہری ہاتھ سمجھ کر اپنے ہاتھ ناپا کرتیں۔ جب آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد حضرت زینبؓ سب سے پہلے فوت ہوئیں تب یہ راز کُھلا کہ ہاتھ سے صدقہ و خیرات کا ہاتھ مراد تھا۔

حضورِانور نے حضرت صاحب زادہ مرزا بشیراحمد صاحبؓ کے حوالے سے آنحضورؐ کی حضرت زینبؓ سے شادی پر منافقین کے اعتراضات کا تذکرہ فرمایا۔ ابنِ سعد اور طبری کی غلط روایت جس میں آپؐ کے حضرت زیدؓ کے گھر جانے اور زیدؓ کی عدم موجودگی کے باعث واپس چلےآنے کا ذکر آتا ہے۔ اُس کا تفصیلی جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ سرتاپا محض جھوٹ ہے۔ اس کے راویوں میں واقدی اور عبداللہ بن عامر اسلمی کا واسطہ آتا ہےجو بالکل ضعیف اور ناقابلِ اعتماد ہیں۔

اِس روایت کے بالمقابل بخاری کی وہ روایت جس میں حضرت زیدؓ کے حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر زینبؓ کے بدسلوکی کرنے کا ذکرآتاہے زیادہ قابلِ اعتبار ہے۔ عقلاً بھی یہ بات درست نہیں کیوں کہ زینبؓ آپؐ کی چچازاد بہن تھیں۔ اُس وقت تک پردے کا حکم بھی نازل نہ ہوا تھا، سوآپؐ نے ہزاروں مرتبہ زینبؓ کا دیکھا ہوگا۔پس یہ بات صریح اور بدیہی بطلان اور جھوٹ ہے ۔

سیرت خاتم النبیین کے مطابق وہ زمانہ منافقین کےپورے زور کا زمانہ تھا۔ عبداللہ بن ابی بن سلول کی سرکردگی میں منافقین ایسے بےجا قصّے گھڑ کر خفیہ پھیلاتے رہتےتھے۔ اسی زمانے میں حضرت عائشہؓ کے خلاف بہتان لگائے جانے کا خطرناک واقعہ پیش آیا۔

حضرت زینبؓ سے شادی کے بارے میں سر ولیم میور نے واقدی کی اس غلط روایت کو قبول کرکے، بڑھتی عمر میں آپؐ کے نعوذ باللہ نفسانی خواہشات کے بڑھنے کا طعنہ دیا ہے۔ حضرت مرزا بشیر احمدصاحبؓ نے اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ آپؐ نے پچیس برس کی عمرمیں چالیس سالہ ادھیڑ عمر کی بیوہ سےشادی کی اور اس رشتے کو پچاس سال کی عمرتک خوبی اوروفاداری سے نبھایا۔مکّہ والوں نے ریاست، دولت اور پسندکی لڑکی سے شادی کی طمع دلائی تو بھی آپؐ ان سب کو ٹھکرا دیا۔ یہ سب حقائق میور صاحب کے علم میں تھے۔ لیکن انہوں نے تعصب سے کام لے کر آپؐ کی ایک سے زائد شادیوں پر بے جا اعتراض کیے۔

تاریخ پڑھنے والا یہ بات جانتا ہے کہ آپؐ کی یہ شادیاں اُس دور میں ہوئیں جب آپؐ پر فرائضِ نبوت کا سب سے زیادہ بارتھا۔ یہ شادیاں آپؐ کے فرائضِ نبوت کا حصّہ تھیں جو آپؐ نے اپنی خانگی خوشی کو برباد کرتے ہوئے تبلیغ و تربیت کی اغراض کے تحت کیں۔

حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حضرت مصلح موعودؓ کا بیان فرمودہ ایک اہم نکتہ پیش فرمایا جو آپؓ نے اپنے ایک نکاح کے خطبے میں بیان فرمایا تھا کہ زید ؓ کو لوگ ابنِ محمد کہا کرتے تھے۔ حضرت زینب ؓ سے جو زیدؓ کی مطلقہ تھیں، آپؐ کا نکاح کروا کے خدا تعالیٰ نے لوگوں کو یہ بات سمجھائی کہ قانونِ ملکی کےلحاظ سے اولاد قانونِ قدرت والی اولاد کی طرح نہیں ہوتی۔

حضورِ انور نے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی تحریر کی روشنی میں غلاموں سے متعلق اسلامی تعلیم کاتذکرہ فرمایا۔ آزاد شدہ غلاموں کے ساتھ برتاؤ میں آنحضورﷺ نے پرانے خیالات کی اصلاح فرمائی۔ آپؐ نے آزاد کردہ غلام زیدؓ اور اُن کے بیٹے اسامہؓ بن زید کو جنگوں میں امیر مقرر فرمایا۔ اگر کسی نے اعتراض کیا تو آپؐ نے اِس بات کو ناپسند فرمایا اور جواب دیا کہ یہ میرے محبوب ترین لوگ اور امارت کے اہل ہیں۔اس ارشادِ نبوی سے اسلام کی حقیقی مساوات کی تعلیم کا علم ہوتا ہے۔ اسلام میں اصل معیار صرف تقویٰ ہے۔

ارے قرآن میں اگرکسی صحابی کا نام آیا ہے تو وہ حضرت زیدؓ ہیں۔اسلام نے غلاموں کی آزادی کاایسا نظام وضع فرمایا جس کے طفیل آزاد ہونے والے غلام ترقی کے اعلیٰ ترین مقام تک پہنچے۔

حضرت زیدؓ غزوۂ بدر،احد،خندق، حدیبیہ اور خیبر کے موقعے پر آپؐ کے ساتھ رہے۔ آپؓ ماہر تیرانداز تھے۔ غزوۂ بنو مصطلق شعبان5؍ ہجری کے موقعے پر آنحضورﷺ نے زیدؓ کو مدینے میں امیر مقرر فرمایا۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے زیدؓ کو جب بھی کسی لشکر کے ساتھ روانہ کیا تو انہیں لشکرکا امیر ہی مقرر فرمایا۔

2؍ہجری میں پیش آنے والے غزوۂ سفوان جسے بدر اولیٰ بھی کہتے ہیں کہ موقعےپر آپؐ نے زید ؓ کو اپنے پیچھے مدینےکا امیر مقرر فرمایا۔

اس موقعے پر حضورِ انورؓ نے غزوہ اور سریہ کا فرق بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جس مہم میں آنحضرتﷺ شامل ہوئے ہوں اسے غزوہ جبکہ اس مہم کو سریہ یا بعث کہتے ہیں جس میں آپؐ شامل نہیں ہوئے۔غزوہ اور سریہ میں تلوار کے جہاد کےلیے نکلنا ضروری نہیں۔ بلکہ ہر وہ سفر جس میں آنحضرتﷺ جنگ کی حالت میں شریک ہوئے ہوں غزوہ کہلاتا ہے۔

جنگِ بدر کے اختتام پر آپؐ نے زیدؓ کو مدینہ روانہ فرمایا تاکہ وہ جلد جلد جاکر اہلِ مدینہ کو فتح کی خوش خبری دے دیں۔

قریش تجارت کے لیے عموماً حجاز کا ساحلی راستہ استعمال کرتے۔ جب اس راستے پر آباد قبائل مسلمانوں کے حلیف بن گئے تو قریش نے نجدی راستہ اختیار کرلیاجو عراق کو جاتا تھا۔ جمادی الآخرکےمہینے میں آپؐ کو اطلاع موصول ہوئی کہ قریشِ مکّہ کا ایک تجارتی قافلہ نجدی راستے سےگزرنے والا ہے۔ ان راستوں پر قریش کے حلیف قبائل آباد تھے، جو قریش ہی کی طرح مسلمانوں کے خون کے پیاسے تھے۔ یہ بھی خطرہ تھا کہ قریش اِن قبائل کے ساتھ مل کر مدینے پر خفیہ چھاپہ نہ ماردیں۔ اس خبر کے ملتے ہی آپؐ نے اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہؓ کی سرداری میں ایک دستہ روانہ فرمایا۔

قریش کے اس قافلے میں ابوسفیان بن حرب اور صفوان بن امیہ جیسے رؤسا بھی موجود تھے۔ زیدؓ کے دستے نے نجد کے مقام قردہ میں اِن دشمنانِ اسلام کو جا پکڑا۔ قریش اپنے اموال چھوڑ کربھاگ گئے۔ حضرت زید بن حارثہؓ اور ان کے ساتھی کثیر مالِ غنیمت کے ساتھ ،کامیاب و کامران مدینہ واپس آئے۔ حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ جب زیدؓ واپس آئے تو آنحضورﷺ نے اُن کااستقبال کیا۔ انہیں گلے لگایا اور بوسہ لیا۔ غزوۂ خندق کے موقعے پر مہاجرین کا جھنڈا بھی زیدؓ کے پاس تھا۔ حضورِ انور نےفرمایا کہ شاید ابھی حضرت زیدؓ کا ذکر مزید آگے بھی چلے۔

خطبہ جمعہ کے آخر میں حضورِ انور نے محترمہ مریم سلمان گل صاحبہ بنت مبارک احمد صدیقی صاحب کی وفات کا ذکر فرمایا۔ مریم صاحبہ مختصر بیماری کے بعد 17؍ جون کو 25؍ برس کی عمر میں وفات پاگئی تھیں۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ مرحومہ بڑی ملنسار اور خوش اخلاق تھیں۔ نمازوں کی پابند،ہم درد، خدمت گزار ، خلافت سے بڑا محبت کا تعلق رکھنے والی تھیں۔ آپ نے شوہراور والدین کے علاوہ دو بیٹیاں نایاب جس کی عمر پانچ سال اور زریاب جس کی عمرڈیڑھ سال ہےیادگار چھوڑی ہیں۔ مریم صاحبہ اپنی جماعت ایپسم (Epsom)کی سیکریٹری نومبائعات تھیں۔ ان کے حلقے کی صدر لجنہ کہتی ہیں کہ بطور سیکریٹری نومبائعات بہت اچھا اور مثالی کام کر رہی تھیں۔

مریم صاحبہ کے والد مکرم مبارک احمد صدیقی صاحب لکھتے ہیں کہ بڑی باقاعدگی سے خطبات سنتی تھیں۔ ہر کام میں دین کو مقدم رکھتی تھیں۔ وفات سے دو دن قبل جب مرحومہ آئی سی یو میں داخل تھیں تو میں نے ان کی بیماری کی وجہ سے مجلسِ شوریٰ سے رخصت لینے کے ارادے کا اظہار کیا تو مرحومہ نے منع کردیا اور کہاکہ میری وجہ سے جماعت کا پروگرام نہیں چھوڑنا۔ مرحومہ انگریزی نظمیں بھی کہتی تھیں۔
آخر میں حضورِ انور نے مرحومہ کی نمازِ جنازہ پڑھانے کا اعلان فرمایا اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ مرحومہ کی مغفرت فرمائے اور رحم کا سلوک فرمائے درجات بلند فرماتا رہے۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کی بچیوں کو بھی اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھے ۔ والدین کو بھی صبر اور حوصلہ عطا فرمائے۔ ان کے خاوند کو بھی بچیوں کو ماں اور باپ دونوں کا پیار دینے والا بنائے۔نمازِ جمعہ کے بعد حضورِ انور نے موصوفہ کی نمازِ جنازہ (حاضر) پڑھاہی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button