آسٹریلیا (رپورٹس)

جماعت احمدیہ آسٹریلیا کےچونتیسویں جلسہ سالانہ کا انعقاد

خدا تعالیٰ کے فضل سے جماعت احمدیہ آسٹریلیا کو اپنا چونتیسواں جلسہ سالانہ 19؍تا 20؍ اپریل 2019ء بروز جمعۃ المبارک ، ہفتہ اور اتوار سڈنی میں منعقد کرنے کی توفیق ملی۔

19؍اپریل کو مقامی جمعہ مکرم انعام الحق کوثر صاحب ، امیر و مشنری انچارج جماعت احمدیہ آسٹریلیا نے پڑھایا۔ آپ نے اپنے خطبہ میں جماعت احمدیہ عالمگیرکے نئے مرکز ،اسلام آباد ، یوکےکے قیام اور اللہ تعالیٰ کے جماعتِ احمدیہ پر بے شمار احسانات کا ذکر کیا۔بعد ازاں اس خوشی میں تمام حاضرینِ جلسہ میں مٹھائی تقسیم کی گئی۔

افتتاحی اجلاس

سہ پہر سوا تین بجےتقریب پرچم کُشائی ہوئی۔ مکرم امیر صاحب نے لوائے احمدیت لہرایا جبکہ نائب امیر صاحب نے آسٹریلیا کا جھنڈا لہرایا۔ آسٹریلیا کا قومی پرچم حال ہی میں جماعت احمدیہ آسٹریلیا کو اس وقت بطور تحفہ دیا گیا جب تمام مبلغینِ سلسلہ آسٹریلیا کے ایک ممبر آف پارلیمنٹ کی دعوت پر فیڈرل پارلیمنٹ گئے جہاں Hon. Scott Buchholz نے محترم امیر صاحب کو آسٹریلیا کا جھنڈا پیش کیا اور بتایا کہ یہ جھنڈا مورخہ 17ستمبر 2018ء کوآسٹریلین پارلیمنٹ میں لہرایا گیا تھا۔ پرچم کُشائی کے بعد محترم امیر صاحب نے دُعا کروائی۔ اس طرح جلسہ کا بابرکت آغاز ہوا۔

پرچم کشائی کے معاً بعد جلسہ کے افتتاحی اجلاس کا آغاز ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت مکرم امیر صاحب آسٹریلیا نے کی۔ مکرم قمر احمد چوہان صاحب نے تلاوت قرآن کریم اور متلو آیات کا انگریزی ترجمہ پیش کیا۔

مکرم شجر احمد صاحب نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کا پاکیزہ منظوم کلام، ’’ہمیں اُس یار سے تقویٰ عطا ہے‘‘ نہایت دلنشین انداز میں پیش کیا۔

مکرم امیر صاحب نے اپنی افتتاحی تقریر میں اللہ تعالیٰ کے احسانوں کا شکر اداکیا اور جلسہ سالانہ کی مختلف ممالک میں منعقد ہونے کے حوالہ سے بات کی اور پھر حضرت مسیح موعود ؑ کے پاکیزہ ارشادات کی روشنی میں جلسہ سالانہ کے انعقاد کی غرض و غایت، ہماری اخلاقی اور روحانی ترقی کی ضرورت اور جلسہ میں شامل ہونے والوں کے لیے حضور ؑکی دعائیں پیش کیں۔ مکرم امیر صاحب نے جلسہ کے تینوں ایام ، دعائیں، استغفار اور خدا تعالیٰ کی حمد و ثناء میں صرف کرنے کی نصیحت کی۔ آخر پر محترم امیر صاحب نے دعا کروائی۔

پہلا اجلاس

جلسہ کے پہلے اجلاس کا آغازساڑھے چار بجے سہ پہر ہوا۔ اس کی صدارت مکرم ناصر احمد کاہلوں صاحب نائب امیر جماعت احمدیہ آسٹریلیا نے کی۔ مکرم طاہر احمد اعوان صاحب نے خوبصورت انداز میں حضرت مسیح موعود ؑ کا پاکیزہ منظوم کلام:

؎ہے شکر ِربِ عزو جل خارج از بیان

ترنم کے ساتھ پڑھا۔ اس نظم کا انگریزی ترجمہ عزیزم نوشیروان ناصر صاحب نے پیش کیا۔

مکرم امام احمد ندیم صاحب مربی سلسلہ وکٹوریہ نے انگریزی زبان میں تقریر کی۔ اس تقریر کا عنوان ’’اتقوا اللہ سے کیا مراد ہے؟‘‘ آپ نے ’’اتقو االلہ‘‘ کے مفہوم کو بیان کیااور بتایا تقویٰ خدا تعالیٰ سے محبت کے نتیجہ میں پیدا ہونے والا خوف ہے کہ اگر ہم نے خدا تعالیٰ کے حکموں کونہ مانا تو وہ ناراض ہوگا۔ اس کے بعد مکرم پروفیسر یوسف عباسی صاحب ،صدر قضا بورڈ آسٹریلیا نے اردو میں ’’آنحضور ﷺ کا شوق عبادت‘‘ کے موضوع پر تقریر کی۔آپ نے عبادت کے معنی بیان کیے اورآنحضور ﷺ کے شوق ِ عبادت کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ آپؐ کا دن ، دین کی اشاعت اور دیگر امور کی انجام دہی میں اور رات خدا تعالیٰ کے حضور حاضری اور اس کے ساتھ راز و نیاز میں گزرتی تھی۔ اس تقریر کا انگریزی ترجمہ مکرم ڈاکٹر عمران خان صاحب نے پیش کیا۔

تیسری تقریر مکرم ڈاکٹر عامر محمود صاحب، صدر جماعت احمدیہ تسمانیہ کی تھی۔ اس تقریر کا عنوان ’’حضرت مسیح موعود ؑ کی محبت الٰہی‘‘ تھا اور یہ تقریر انگریزی زبان میں تھی۔ مقرر نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود ؑ عالمِ شباب سے ہی کس قدر خدا تعالیٰ کی محبت میں محو تھے ۔ آپ ؑ خدا تعالیٰ کی محبت میں فنا تھے۔ اس تقریر کے بعد اعلانات ہوئے اور اجلاس کی کارروائی اپنے اختتام کو پہنچی۔ آج کے روز شاملین جلسہ کی حاضری 2770 تھی۔

دوسرادن بروزہفتہ

20اپریل2019ء۔دوسرا سیشن

دوسرے اجلاس کی صدارت مکرم ابراہیم نونن صاحب، مشنری انچارج آئرلینڈ نے کی۔ اجلاس کا آغاز 10:30بجے صبح ہوا۔ مکرم رفیق احمد گھمن صاحب نے قرآن کریم کی تلاوت کی۔ تلاوت کا انگریزی ترجمہ مکرم عزیزم فرحان احمد خالدصاحب نے پیش کیا۔

مکرم عبداللہ شفیق صاحب نے نظم

؎’’عہد شکنی نہ کرو، اہلِ وفا ہو جائو‘‘

پیش کی۔ اس نظم کا انگریزی ترجمہ مکرم عمیر شمس صاحب نے پیش کیا۔ اس اجلاس کی پہلی تقریر مکرم نورالدین عباس صاحب نے انگریزی میں پیش کی۔ تقریر کا عنوان تھا ’’ہر اک نیکی کی جڑ یہ اتقاء ہے‘‘ مقرر نے قرآن کریم ، احادیث اور ارشاداتِ مسیح موعود کی روشنی میں مضمون کو خوب کھول کر بیان کیا۔ مقرر نے بیان کیا کہ کسی بھی مقام تک پہنچنے کے لیے کوئی وسیلہ ، ذریعہ یا راستہ ہوتا ہے۔ لہٰذا خدا تعالیٰ تک پہنچنے کا ذریعہ تقویٰ ہے اور تقویٰ کے حصول کے لیے قرآن و سنت پر عمل کرنا، تہجد کی ادائیگی ، امام وقت کے ارشادات اور خلافت سے مضبوط تعلق ہے۔

اس اجلاس کی دوسری تقریر مکرم سیف علی شاہد صاحب نیشنل سیکرٹری رشتہ ناطہ نے پیش کی ۔ یہ تقریر اردو میں تھی۔ اس کا عنوان تھا ’’شادی بیاہ کے معاملات میں تقویٰ کو مدنظر رکھیں‘‘ مقرر نے بتایا کہ مذہب اسلام کی یہ خوبی ہے کہ تمام امور خدا تعالیٰ کی طرف لے جائے جاتے ہیں۔ رشتہ طے کرتے وقت تقویٰ اور قولِ سدید سے کام لیا جائے۔ بعض اوقات رشتہ طے کرتے وقت باتیں چھپائی جاتی ہیں اور بعد میں سامنے آنے پر مشکلات پیدا ہوتی ہے یہاں تک کے بات طلاق تک جا پہنچتی ہے۔ مقرر نے قرآن و حدیث اور خلفائے احمدیت کے حوالہ جات سے مضمون کو خوب واضح کیا۔ اس تقریر کا انگریزی خلاصہ مکرم سید طارق احمد صاحب نے پیش کیا۔

اس کے بعد مکرم ظفر مصطفیٰ صاحب نے دلکش انداز میں نظم پیش کی۔ ’’زندہ وہی ہیں جو کہ خدا کے قریب ہیں‘‘ اور مکرم عزیزم فرحان احمد صاحب نے اس نظم کا انگریزی ترجمہ پیش کیا۔ اس اجلاس کی تیسری تقریر مکرم سرفراز رحیم صاحب نیشنل سیکرٹری تعلیم نے پیش کی۔ اس کا عنوان تھا ’’مطالعہ کتب حضرت مسیح موعودؑ کی اہمیت ‘‘ یہ تقریر انگریزی زبان میں تھی۔ مقرر نے زمانہ کے امام، حکم اور عدل ، سلطان القلم کی تحریر کردہ کتب کو علم و حکمت کا خزانہ قرار دیتے ہوئے ان کے مطالعہ کی اہمیت واضح کی نیز یہ بتایا کہ افراد جماعت کو حضرت مسیح موعود ؑ کی کتب کا مطالعہ کم از کم تین مرتبہ کرنا چاہیے تاکہ اسلامی تعلیمات کی اصلیت واضح ہو۔ اور روحانی تبدیلی پیدا ہو۔ مقرر نے حضرت مسیح موعود ؑ کی کتب کا مختصر تعارف کروا یا۔

اس اجلاس کی چوتھی تقریر مکرم امام عین الیقین صاحب، مشنری انچارج ملائیشیا کی تھی۔ اس تقریر کا عنوان تھا ’’ہماری تعلیم۔ حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات کی رو سے‘‘ مکرم امام صاحب نے یہ تقریر انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں پیش کی۔ مقرر نے بتایا کہ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے آپ کو ، اپنے خاندان اور معاشرہ کو بچائیں۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ہم اسلام کی حقیقی تعلیمات پر عمل کریں جو کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے پیش کیں۔ تقویٰ کے حقیقی مفہوم کو سمجھیں اور تقویٰ کے حصول کے لیے عاجزی و انکساری کو اپنائیں۔ مقرر نے کتاب «کشتی نوح» کے حوالے سے اپنے مضمون کو انتہائی تفصیل سے بیان کیااور اس کتاب سے متعدد اقتباسات بیان کئے۔ اس اجلاس کی آخری تقریر کا عنوان ’’حضور ِانور کے خطبات اور MTA خلافت سے وابستگی کا اہم ذریعہ‘‘ تھا۔ یہ تقریر انگریزی زبان میں تھی اور مقرر مکرم کامران مبشر صاحب مشنری ویسٹرن آسٹریلیا تھے۔ آپ نے سورۃ جمعہ کی آیات 3,4کی تلاوت اور ترجمہ پیش کیا اور انتہائی خوبصورت انداز میں مضمون کا حق ادا کیا۔ مقرر نے بیان کیا کہ خدا کا ایک فرستادہ ، ایک گمنام بستی سے اٹھا، دنیا اسے جانتی نہ تھی، دنیاوی طاقت و دولت نہ تھی لیکن خدا تعالیٰ نے اس کی آواز کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دیا ہے۔ اس برکت کی وجہ MTA ہے جس کے ذریعہ یہ آواز دنیا کے کناروں تک جا پہنچی۔ لہٰذا ہم سب کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ ہم MTA کی اس عظیم نعمت سے خوب استفادہ کریں۔ خلیفہ وقت کو براہ راست سنیںتا کہ خلافت سے مضبوط تعلق پیدا ہو۔ براہ راست سننے سے پاکیزہ تبدیلی پیدا ہوتی ہے۔ نئی ٹیکنالوجی نے یہ بات اور بھی آسان کر دی ہے۔ حضور انور کے خطبات کو سننا اور MTA کو دیکھنا محض ایک کلک کے فاصلے پر ہے اور یہ سب چیزیں نہایت آسانی سے موبائل فون پر بھی میسر ہیں۔ اب تو کوئی بہانہ یا عُذر باقی نہیں۔ اگر ہم حضور انور کے خطبا ت کو اہتمام سے سنیں گے تو ہم باوجود مختلف رنگ و نسل کے تربیت کے ایک ہی سانچے میں ڈھل جائیں گے اور دنیا بھر کے احمدی امت ِواحدہ بن جائیں گے۔

تیسرا اجلاس

آج کے تیسرے اجلاس کا آغاز 3:30بجے سہ پہر ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت مکرم ناصر احمد کاہلوں صاحب، نائب امیر جماعت آسٹریلیا نے تلاوت قرآن کریم ، مکرم حافظ سہیل ارشد رانا صاحب نے کی اور انگریزی ترجمہ مکرم عقیل ابراہیم صاحب نے پیش کیا۔ مکرم محمد شفیق صاحب نے حضرت مصلح موعود ؓ کا کلام ’’بڑھتی رہے خدا کی محبت، خدا کرے‘‘ خوبصورت انداز میں پیش کیا۔ اس نظم کا انگریزی ترجمہ مکرم سید ولید احمد صاحب نے پیش کیا۔ یہ سیشن مہمانوں کا سیشن تھا ا ور خدا تعالیٰ کے فضل سے کثیر تعداد میں مہمان تشریف لائے تھے۔ اس اجلاس کی پہلی تقریر امام ودود احمدجنود صاحب نے کی ۔ یہ تقریر انگریزی زبان میں تھی اور اس کا عنوان تھا ’’حب الوطنِ من الایمان‘‘۔ محترم امام صاحب نے بیان کیا کہ مذہب اسلام کے ماننے کے باعث اور وطن کی محبت کا ایمان کا حصہ سمجھنے کے باعث مَیں دنیا کے جس کونے میں بھی گیا ہوںمجھے اپنا وطن بہت یاد آیا۔ گویا میرے عقیدہ نے وطن سے محبت کو میرے ایمان و یقین کا حصہ بنا دیا ہے۔ اب میں خدا کے فضل سے اپنے وطن آسٹریلیا سے وفاداری کا عہد باندھ چکا ہوں اور میری طرح اس ملک کا ہر احمدی اپنے ملک آسٹریلیا سے وفاداری اور محبت کا عہد کرتا ہے۔ مقرر نے جنگ عظیم اول اور دوئم میں مسلمانوں کی اپنے وطن آسٹریلیا کے لیے قربانیوں کا ذکر کیا۔ مقرر نے نہایت خوبصورتی سے اس بات کو واضح کیا کہ احمدی مسلمان اپنے اس عقیدہ ’’حب الوطنِ من الایمان‘‘ کا عملی مظاہرہ ریڈ کراس ڈونیشن، فلڈ ریلیف کیمپس، بلڈ ڈونیشن، کلین اپ آسٹریلیا ڈے پر صفائی کے عمل، درختوں کی کاشت اور ہر ضرورت کی جگہ پہنچ کر اپنے فرض کی ادائیگی سے کرتے ہیں۔ اس اجلاس کی دوسری تقریر کا عنوان تھا ’’اسلام۔ امن اور سلامتی کا مذہب‘‘۔ مقرر مکرم امام عطا ءربی ہادی صاحب تھے۔ آپ نے قرآن کریم کی آیات پیش کرتے ہوئے واضح کیا خدا تعالیٰ امن و سلامتی کی تعلیم دیتا ہے اور ا س تعلیم کا عملی مظاہر پیغمبرِ اسلام حضرت محمد مصطفی ﷺ نے اپنے عمل سے کر کے دکھایا۔ آپ ؐ نے ہر ظلم کا جواب امن سے دیا۔ مقرر نے بتایا کہ امن و سلامتی کا قیام معاشرتی انصاف سے عمل میں آتا ہے۔ لہٰذا اسلام نے ہر فرد کے معاشرتی حقوق کی خوب حفاظت کی ہے۔ یہ بات واضح کی گئی ہے کہ ہر رنگ و نسل اور مذہب و ملت کا انسان برابر ہے۔ کسی کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر، عربی کو عجمی اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں بجز تقویٰ کے۔ مرد او ر عورت کے حقوق برابر ہیں، خاوند اور اہلیہ ایک دوسرے ایک دوسرے کا لباس ہیں، تمام مذاہب کی عزت لازم ہے، مذہبی رواداری بنیادی اصول ہے۔ دولت کی تقسیم اور وسائل کی تقسیم منصفانہ ہے۔ یہ وہ سب عقائد اور اعمال ہیں جو معاشرے کو امن کی جانب لے جاتے ہیں۔ پس مذہب اسلام امن و سلامتی کا مذہب ہے۔

اس اجلاس کی تیسری تقریر اس جلسہ کے مہمانِ خصوصی اور مرکزی نمائندہ امام ابراہیم نونن صاحب نے کی۔ آپ مشنری انچارج جماعت آئرلینڈ ہیں۔ اور آپ کی تقریر کا عنوان تھا ’’What Islam Means to the World?‘‘ یہ تقریر انگریزی زبان میں تھی۔ مقرر نے بتایا کہ مضمون بہت وسیع ہے لیکن وہ اس کو سمیٹنے کی کوشش کریں گے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ پیدائشی احمدی نہیں بلکہ کیتھولک تھے اور ان کے والد بھی کیتھولک تھے۔ وہ احمدی مسلمان نہ تھے، پھر بھی ایک اچھے ، ایماندار اور عاجزی اور انکساری کرنے والے انسان تھے اور وہ تمام خُوبیان اُن میں تھیں جو اب ہیں۔ اور اسلام کو باقی دُنیا کی طرح فساد والا مذہب سمجھتا تھا لیکن جب مجھے خُدا تعالیٰ نے تحقیق و مطالعہ کی توفیق دی تومیں نے اسے ایک مختلف اور پُر امن مذہب پایا۔ جبکہ دُنیا آج بھی درُست ادراک نہیں رکھتی اور اس مذہب کو خُونی مذہب سمجھتی ہے۔ میری تحقیق کے بعد مجھے یہ بات بہت چبھتی تھی اور چبھتی ہے کہ اس امن کے مذہب کو خونریزی کا مذہب کیوں سمجھا جاتا ہے۔ میرے اسلام قبول کرنے کی وجہ میرے پُرانے عقیدہ کا یہ تصور تھا کہ جو حضرت عیسیٰؑ کو خُدا نہیں مانتاوہ جہنم میں چلا جائے گا۔ لیکن مذہب اسلام نے یہ عُقدہ کھولاکہ تمام انبیاء پر ایمان لانا لازم ہے بشمول حضرت عیسیٰؑ کے۔ اور خُدا تعالیٰ عمدہ اعمال کرنے والے کو بخش دے گا۔ پس آج دنیا کے نزدیک اگر اسلام امن کا مذہب نہیں تو اس کی محض اور محض ایک ہی وجہ ہے کہ وہ اسلام کی اصلیت سے ناواقف ہیں اور اسے غلط طور پر پیش کرتے ہیں۔

اس تقریر کے بعد مہمانوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جلسہ میں شمولیت کرنے والے مہمانوں میں مقامی کونسل اور گورنمنٹ کے نمائندگان ، پولیس کے نمائندگان، مختلف سماجی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد اور کثیر تعداد میں دیگر مذاہب کے افراد شامل تھے۔ جن مہمانوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور جماعت احمدیہ کی ملک و ملت کے لیے خدمات کو سراہا ان میں درج ذیل مہمان شامل تھے۔

Hon. Stephen Bali – Mayor City of Blacktownنے کہا کہ ہم آپ کے عقیدہ حقوق اللہ اور حقوق العباد کے عملی مظاہرہ کو فخر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

Prue Car NSW state member of parliament for Londonderry نے اپنے خیالات کا اظہار ان الفاظ میں کیا کہ ہمیں جماعت احمدیہ پرفخر ہے۔ میں یہاں کئی بار آچکی ہوں اور لگتا ہے کہ سب میرے جاننے والے ہیں۔ ہمیں آپ کے کاموں اور خدمات پر فخر ہے۔ یہ علاقہ ویسٹرن سڈنی بہت ترقی کر رہا ہے اور آپ کو اپنی امن پسندانہ تعلیمات کو عام کرنے کا بہت موقع ملے گا۔

Edmond Atalla (Member of the Legislative Assembly & Member for Mount Druitt Member) نے کہا کہ جماعت احمدیہ نے ’’حُب الوطنِ مِن الایمان‘‘ کا عملی مظاہرہ کر کے دکھایا ہے۔

ایک اَور مہمان نے کہا کہ یہ مسجد اور جماعت احمدیہ نہایت گرم جوشی سے ہر آنے والے کا استقبال کرتے ہیں۔ یہاں آکر آپ کی طرف سے بہت عزت ملتی ہے۔

دُعا کے بعد یہ اجلاس ختم ہوا۔ مہمانوں کو عشائیہ پیش کیا گیا اور مسجد میں نمائش کا ٹور کرایا گیا۔

اختتامی اجلاس

تیسرا دن 21اپریل 2019ء بروز اتوار

اس اجلاس کی کارروائی کا آغاز 10:30 بجے صبح تلاوت قرآن کریم سے ہوا۔ مکرم حافظ وقاص نعیم صاحب نے تلاوت کی۔ مکرم رضوان شریف نے انگریزی ترجمہ پیش کیا۔

نظم مکرم احتشام احمد صاحب نے پیش کی

؎’نونہالانِ جماعت مجھے کچھ کہنا ہے‘

اس نظم کا انگریزی ترجمہ مکرم صوفی عبدالحکیم صاحب نے پیش کیا۔

اس اجلاس کی پہلی تقریر مکرم وقاص احمد صاحب، صدر مجلس خدام الاحمدیہ آسٹریلیا نے کی ۔ اس کا عنوان تھا ’خدمتِ دین کو اک فضلِ الٰہی جانو‘۔ مقرر نے حاضرین کو اپنا عہد یاد دلاتے ہوئے دین کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو پیش کرنے کی نصیحت کی اور بتایا کہ ضروری نہیں کہ خدمت کے لیے عہدہ بھی ہو۔ ہم سب کے آبائو اجداد کی قربانیاں اور خدمات تھیں کہ ہم یہاں پہنچے۔ اب ہمارا فرض ہے کہ اس ذمہ داری کو محض اللہ کا فضل سمجھ کر ادا کریں۔ مقرر نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ کے متعدد حوالہ جات سے خدمتِ دین کی اہمیت اور افادیت کو واضح کیا۔

اس اجلاس کی دوسری تقریر مکرم رحمت سمیع اللہ صاحب نے کہ۔ یہ تقریر بھی انگریزی زبان میں تھی اور اس کا عنوان تھا ’’The coming of the Messiah as a Gatherer‘‘ ، سورۂ جمعہ کی آیت3,4 اور اس کا ترجمہ پیش کر کے اپنے مضمون کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔

i۔ مسیح کی آمد ii۔ قوموں کو اکٹھا کرنے کا مشن

مقرر نے حضرت عیسیٰ ؑکی آمد ، مشن اور پھر وفات کی تفصیل بیان کی۔ پھر بتایا کہ دوبارہ آمد کے لیے کیا نشانیاں احادیث میں بیان ہوئی ہیں۔ اور ان حوالہ جات کی رو سے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑ ہی مسیح موعود ہیں۔ اپنی تقریر کے دوسرے حصہ میں بتایا کہ ہر مذہب کے لوگ مختلف ناموں کے تحت ایک ہی شخص کی آمد کے منتظر تھے اورہیں لیکن وہ شخص حضرت مرزا غلام احمد قادیانی ؑکی شکل میں ظاہر ہوچکا ہے۔ اور اُسی کے ہاتھ پر دُنیا کی ہر قوم، نسل، رنگ اور ملت کا شخص جمع ہو چکا ہے۔ آج خلیفہ ٔ احمدیت جب عالمی بیعت لیتے ہیں تو یہ نظارہ دیکھا جا سکتا ہے۔

اختتامی اجلاس کی تیسری تقریر مکرم امام امتیاز احمد نوید صاحب مشنریNSWنے اُردو میں کی۔ امام صاحب نے نہائیت خوبصورتی سے اپنے مضمون بعنوان ’’نظام جماعت اور ہماری ذمہ داریاں‘‘ کا حق ادا کیا۔ امام صاحب نے اطیعو اللہ و اطیعو الرُسول و اولادی الامرِ منکمکی روشنی میں وضاحت کی کہ کسی قوم کی ترقی، اُس قوم کے معیارِ اطاعت سے وابستہ ہے اور اطاعت کی کمی ، ترقی میں کمی اور روحانیت میں کمی کا باعث بنتی ہے۔

محترم امام صاحب نے نہایت خوبصورتی سے بتایا کہ جماعت احمدیہ کا ہر فرد، مرد یا عورت کس طرح نظامِ جماعت میں پروئے جاتے ہیں اور کس طرح اطفال، ناصرات، خدام، لجنہ اور انصار کی لڑی میں پروئے جاتے ہیں اور پھر نظام جماعت میں سموئے جاتے ہیں۔ جماعتی نظام اول ہے اور ہر فرد ذیلی تنظیم میں رہتے ہوئے جماعت کا اور نظامِ جماعت کا احترام سیکھتا ہے۔ پھر نصیحت کی کہ آپس میں پیار و محبت سے کام لینا چاہیے۔ عہدہ داروں کو اپنی ذمہ داریاں نہایت عاجزی سے ادا کرنی چاہئیں اور اگر کسی وقت آزمائش آئے تو اطاعت کے دائرے میں رہتے ہوئے اس ابتلا کو صبر اور دُعا سے گزارا جائے تو بخشش کا سامان پیدا ہوجاتا ہے۔ اس تقریر کا انگریزی ترجمہ مکرم ڈاکٹر تنویر عارف صاحب نے پیش کیا۔

مکرم ابراہیم اعظمی صاحب نے فارسی کلام پیش کیا۔اس کا ترجمہ مکرم عثمان مطیع صاحب نے پیش کیا۔
پھر تقریب تقسیم ایوارڈز ہوئی۔ علمی میدان میں نمایاں کارکردگی دکھانے والے افرادِ جماعت کو امام ابراہیم نونن صاحب نے ایوارڈز سے نوازا۔

مکرم و محترم فیروز علی شاہ صاحب افسر جلسہ سالانہ آسٹریلیا نے جلسہ میں شاملین اور اس کے انتظامات میں حصہ لینے والے افرادِ جماعت کی خدمات کو سراہا اور شکریہ ادا کیا۔

مکرم زین العابدین صاحب نے انتہائی خوبصورت انداز و آواز میں حضرت مُصلح موعود ؑ کا کلام ’ہے دستِ قبلہ نُما لا لاالہ الااللہ‘ پیش کیا۔ حاضرین نے لاالہ الا اللہ کی آواز پر کلام کو دہرایا اور ایک وجد طاری ہوگیا۔ اس کلام کا انگریزی ترجمہ بھی پیش کیاگیا۔

اس اجلاس کے آخر میں صدر ِاجلاس امام ابراہیم نُونن صاحب نے اختتامی خطاب کیا۔ اس خطاب کا عُنوان تھا ’قُربِ الہٰی کے ذرائع‘۔

محترم امام صاحب نے اپنے قبولِ اسلام کے واقعات کو بیان کیا جو کہ انتہائی ایمان افروز تھے۔ امام صاحب نے بتایا کہ جب وہ مسیحٰ تھے تو ایک ہی سوال اُن کے ذہن میں تھا کہ مسیحیت کاخُدا بولتا کیوں نہیں اور اپنے بندوں سے کلام کیوں نہیں کرتا۔ اس سوال کا جواب انہیں اسلام قبول کرنے سے مل گیا۔ غیر از جماعت علماء نے انہیں احمدیت میں داخل ہونے پر کہا کہ احمدی تو کافر ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ میں بہت پریشان ہوا اور سجدے میں گر گیا اور اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دُعا کی کہ اگر مرزا غلام احمد ؑ سچے مسیح موعود ہیں تو میں انہیں دیکھنا چاہتا ہوں۔اور خُدا نے اُسی رات مجھے خواب میں دکھا دیے اور حضور ؑ نے فرمایا کہ تسلی رکھو تم بالکل ٹھیک اور ہدایت کے راستہ پر ہو۔ اسی طرح آپ نے دعائوں کی قبولیت اور صالحین کی صحبت سے بہت سی باتیں سیکھنے کے ایمان افروز واقعات بیان فرمائے۔

آخر میں امام صاحب نے دُعا کرائی اور یہ بابرکت جلسہ انتہائی کامیابی سے اختتام پذیر ہوا۔ اس جلسہ میں 16ممالک کے 86مہمانوں نے شرکت کی۔

جلسہ کی حاضری

اس جلہ کے پہلے روز2770،دوسرے روز 2865؍ جبکہ تیسرے روز2456؍ احباب و خواتین نے شرکت کی۔ اللہ تعالیٰ اس جلسے کے تمام شاملین کو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جلسہ سالانہ میں شمولیت اختیار کرنے والے احباب کے حق میں کی جانے والی دعاؤں کا حق دار ٹھہرائے۔ آمین

(رپورٹ: منصور احمد قادر۔آسٹریلیا)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button