کلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

آدابِ تلاوت

(حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود علیہ الصلوٰۃ و السلام)

ایک صاحب نے سوال کیا کہ قرآن شریف کس طرح پڑھا جاوے؟ حضرت اقدس (علیہ الصلوٰۃ و السلام) نے فرمایا:

قرآن شریف تدبر و تفکر و غور سے پڑھنا چاہیے۔ حدیث شریف میں آیا ہے رُبَّ قَارٍ یَلْعَنُہُ الْقُرْاٰنُ۔ یعنی بہت ایسے قرآ ن کریم کے قاری ہوتے ہیں جن پر قرآن کریم لعنت بھیجتا ہے۔ جو شخص قرآن پڑھتا اور اس پر عمل نہیں کرتا اس پر قرآن مجید لعنت بھیجتا ہے۔ تلاوت کرتے وقت جب قرآن کریم کی آیت رحمت پر گذر ہو تو وہاں خدا تعالیٰ سے رحمت طلب کی جاوے اور جہاں کسی قوم کے عذاب کا ذکر ہو تو وہاں خدا تعالیٰ کے عذاب سے خدا تعالیٰ کے آگے پناہ کی درخواست کی جاوے اور تدبّر و غور سے پڑھنا چاہیے اور اس پر عمل کیا جاوے۔

(ملفوظات جلد 5 صفحہ 157۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

تلاوت قرآن کریم کی غرض

…قرآن شریف کی اصل غرض اور غایت دنیا کو تقویٰ کی تعلیم دینا ہے۔ جس کے ذریعہ وہ ہدایت کے منشاء کو حاصل کر سکے۔ اب اس آیت میں تقویٰ کے تین مراتب کو بیان کیا ہے

اَلَّذِیۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡغَیۡبِ وَ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ مِمَّا رَزَقۡنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ(البقرہ:4)

لوگ قرآن شریف پڑھتے ہیں، مگر طوطے کی طرح یونہی بغیر سوچے سمجھے چلے جاتے ہیں۔ جیسے ایک پنڈت اپنی پوتھی کو اندھا دھند پڑھتا جاتا ہے۔ نہ خود سمجھتا ہے اور نہ سننے والوں کو پتہ لگتا ہے۔ اسی طرح پر قرآن شریف کی تلاوت کا طریق صرف یہ رہ گیا ہے کہ دو چار سپارے پڑھ لیے اور کچھ معلوم نہیں کہ کیا پڑھا۔ زیادہ سے زیادہ یہ کہ سُر لگا کر پڑھ لیا اور ق اور ع کو پورے طور پر ادا کر دیا۔ قرآن شریف کو عمدہ طور پر اور خوش الحانی سے پڑھنا بھی ایک اچھی بات ہے، مگر قرآن شریف کی تلاوت کی اصل غرض تو یہ ہے کہ اس کے حقائق اور معارف پر اطلاع ملے اور انسان ایک تبدیلی اپنے اندر پیدا کرے۔

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 285۔ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

قرآن شریف پر غور کی ضرورت

افسوس ہے کہ لوگ جوش اور سرگرمی کے ساتھ قرآن شریف کی طرف توجہ نہیں کرتے جیسا کہ دنیا دار اپنی دنیاداری پر یا ایک شاعر اپنے اشعار پر غور کرتا ہے۔ ویسا بھی قرآن شریف پر غور نہیں کیا جاتا۔ بٹالہ میں ایک شاعر تھا۔ اس کا ایک دیوان ہے۔ اس نے ایک دفعہ ایک مصرعہ کہا۔

صبا شرمندہ مے گردد بروئے گل نگہ کردن

مگر دوسرے مصرعہ کی تلاش میں برابر چھ مہینے سر گردان و حیران پھرتا رہا۔ بالآخر ایک دن ایک بزاز کی دوکان پر کپڑا خریدنے گیا۔ بزاز نے کئی تھان کپڑوں کے نکالے، پر اس کو کوئی پسند نہ آیا۔ آخر بغیر کچھ خریدنے کے جب اُٹھ کھڑا ہوا تو بزاز ناراض ہوا کہ تم نے اتنے تھان کھلوائے اور بے فائدہ تکلیف دی۔ اس پر اُس کو دوسرا مصرعہ سُوجھ گیا اور اپنا شعر اس طرح سے پُورا کیا۔ ؎

صبا شرمندہ مے گردد بروئے گل نگہ کردن
کہ رخت ِغنچہ راواکردد نتوانست تہ کردن

جس قدر محنت اس نے ایک مصرعہ کے لیے اٹھائی۔ اتنی محنت اب لوگ ایک آیتِ قرآنی کے سمجھنے کے لیے نہیں اُٹھاتے۔ قرآن جواہرات کی تھیلی ہے اور لوگ اس سے بے خبر ہیں۔

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 542۔ ایڈیشن 2003ء مطبوعہ ربوہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button