حضرت مصلح موعود ؓ

سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (قسط نمبر 11)

(حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)

رسول کریم ﷺ کی جائیداد

نہ صرف یہ کہ رسول کریم ؐنے اپنی اولاد کو صدقہ سے محروم کر دیا بلکہ خود بھی کو ئی ایسی جائیداد نہیں چھوڑی جس سے آپؐ کے بعد آپؐ کی بیویوں اور اولاد کی پر ورش اور گزارہ کا انتظام ہوسکتا ۔ ممکن تھا کہ یہ خیال کر لیا جا تا کہ گو آپؐ نے اپنی آل کے لیے ہمیشہ کے لیے کو ئی سامان نہیں مہیا کیا لیکن اپنے موجودہ رشتہ داروں کے لیے کو ئی سا مان کر دیا۔لیکن یہ بھی نہیں ہوا ۔اور جس وقت فوت ہو ئے ہیں اس وقت آپؐ کے گھر میں کو ئی روپیہ نہیں تھا۔ عمروبن حرثؓ فر ما تے ہیں

مَاتَرَکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلیْہِ وَسلَّمَ عِنْدَ مَوْتِہٖ دِرْھَمًا وَلَا دِیْنَارًا وَلَا عَبَدًاوَلَااَمَۃًوَلَاشَیْئًا اِلَّا بَغْلَتَہُ الْبَیْضَآء وَسِلَا حَہٗ وَاَرْضًا جَعَلَھَا صَدَقَۃً (بخاری کتاب الوصایا)

رسول کریم ﷺ نے اپنی وفات کے وقت کچھ نہیں چھوڑانہ کو ئی درہم نہ دینار نہ غلام نہ لونڈی اور نہ کچھ اور چیز سوائے اپنی سفید خچر اور اپنے ہتھیاروں کے اورایک زمین کے جسے آپؐ صدقہ میں دے چکے تھے۔یادرکھنا چاہیے کہ آپؐ کی حیثیت ایک بادشاہ کی تھی اور آپؐ چاہتے تو اپنے رشتہ داروں کے لیے سامان کر سکتے تھےاور کم سے کم اس قدر روپیہ چھوڑ جا نا تو آپؐ کے لیے کچھ مشکل نہ تھا کہ جس سے آپؐ کی بیویوں اور اولاد کا گزارہ ہو سکے۔

آپؐ کے پا س صرف خزانہ کا رو پیہ ہی نہ رہتا تھا کہ جس کا اپنی ذات پر خرچ کرنا آپؐ گناہ تصور فرماتے تھےاور اس کا ایک حبّہ بھی آپؐ استعمال نہیں کر تے تھے بلکہ خود آپؐ کی ذات کے لیے بھی آپؐ کے پاس بہت مال آتا تھا اور صحابہ ؓ اس اخلاص اور عشق کے سبب جو انہیں آپ سے تھا بہت سے تحائف پیش کرتے رہتےتھے اور اگر آپؐ اس خیال سے کہ میرے بعد میرے رشتہ دار کس طرح گزارہ کریں گے ایک رقم جمع کر جا تے تو کر سکتے تھے لیکن آپ ؐکے وسیع دل میں جو خدا تعالیٰ کی ہیبت اور اس کے جلال کا جلوہ گاہ تھا۔جو یقین و معرفت کا خزانہ تھا یہ دنیاوی خیال سما بھی نہیں سکتا تھا۔جو کچھ آتا آپؐ اسے غرباء میں تقسیم کر دیتے اور اپنے گھر میں کچھ بھی نہ رکھتے حتیٰ کہ آپؐ کی وفات نے ثابت کر دیا کہ وہ خدا کا بندہ جو دنیا سے نہیں بلکہ خدا سے تعلق رکھتا تھا دنیاوی آلائشوں سے پا ک اپنے بھیجنے والے کے پاس چلا گیا۔

اَللّٰھُمَّ صِلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّ عَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔

رسول کریم ﷺ کی نہایت پیاری بیٹی موجود تھیں اور ان کی آگے اولاد تھی اور اولاد کی اولاد اپنی ہی اولادہو تی ہے مگر آپؐ نے نہ کو ئی مال اپنی بیویوں کے لیے چھوڑا اور نہ اولاد کے لیے۔

ہاں بعض لوگوں کو خیال ہو تا ہے کہ ہماری بیویاں اور اولاد خود دولت مند ہیں۔ہمیں ان کے گزارہ کی کچھ فکر نہیں مگر یہاں یہ معاملہ بھی نہ تھا آپؐ کی بیویوں کی کو ئی ایسی جائیداد الگ موجود نہ تھی کہ جس سے وہ اپنا گزارہ کر سکیں نہ ہی آپؐ کی اولاد آسودہ حال تھی کہ جس سے آپ بے فکر ہوں ان کے پاس کو ئی جائیداد کو ئی روپیہ کو ئی مال نہ تھا کہ جس پر دنیا سے بے فکر ہو جا ئیں ایسی صورت میں اگر آپؐ ان لو گوں کے لیے خود کو ئی اندوختہ چھوڑ جا تے تو کسی شریعت کسی قانون انسا نیت کے خلاف نہ ہوتا اور دنیا میں کسی انسان کا حق نہ ہو تا کہ وہ آپؐ کے اس فعل پر اعتراض کر تا لیکن آپؐ ان جذبات اور خیالات کے ماتحت کا م نہیں کر تے تھے جو ایک معمولی آدمی کے دل میں موجزن ہو تے ہیں۔آپؐ کے محسوسات اور محرکات ہی اَور تھے آپؐ نے خدا تعالیٰ کی قدرت اور طاقت کو اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا تھا اور اس کے فضلوں کی وسعت کو جا نتے تھے۔آپؐ کو یقین تھا کہ میں اپنے پیچھے اگر مال چھوڑ کر نہیں جا تا تو کچھ حرج نہیں میری وفات کے بعدمیرے پسماندگان کا ایک نگران ہے جس پر کبھی موت نہیں آتی، جو کبھی غافل نہیں ہو تا، جو اپنے پیاروں کو ان کی مصیبتوں کے وقت کبھی نہیں چھوڑتا، جو ان کی ہرضرورت کو پورا کر نے کے لیے تیار رہتا اور ضرورتوں کے پیدا ہو نے سے پہلے ان کے پورا کرنے کے سامان کر دیتا ہے خدا تعالیٰ کے وسیع خزانوں کو دیکھتے ہوئےآپؐ اس بات کو ایک سیکنڈ کے لیے پسند نہیں کر سکتے تھے کہ اپنے پسماند گان کے لیے خود کو ئی سامان کر جا ئیںخدا پر آپ کو توکل تھا اور اس پر بھروسہ کر تے تھے اور یہ وہ توکل کا اعلیٰ مقام ہی تھا کہ جس پر قائم ہو نے کی وجہ سے دنیاداروں کے خلاف آپؐ کی تو جہ بجائے دنیاوی ساما نوںکے آسمانی اسباب پر پڑتی تھی۔

مسیلمہ کا دعویٰ

جیسا کہ میں پہلے ثابت کر آیاہوں رسول کریم ؐ کو کسی کام میں بھی دنیا اور اہل دنیا کی طرف تو جہ نہ تھی اور ارضی اسباب کی طرف آپؐ آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتے تھے بلکہ ہر کا م میں آپ کی نظر خدا تعالیٰ ہی کی طرف لگی رہتی کہ وہی کچھ کرے گا گو یا کہ توکل کا ایک کامل نمونہ تھے جس کی نظیر نہ پہلے انبیاء میں ملتی ہے نہ آپؐ کے بعد آپؐ کے سے تو کل والا کو ئی انسان پیدا ہوا ہے۔

مسیلمہ کے نام سے سب مسلمان واقف ہیں اس شخص نے رسول کریم ﷺ کے بعد حضرت ابوبکرؓ کی خلافت میں سخت مقابلہ کیا تھا۔ اگر چہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں ہی یہ شخص نبوت کا دعویٰ کر بیٹھا تھا مگر مقابلہ اور جنگ حضرت ابوبکر ؓکے لشکر ہی سے ہوا اور ان ہی ا فواجِ قاہرہ نے اس کو شکست دی۔مسیلمہ رسول کریم ؐکی زندگی میں ایک لشکر جرار لے کر آپ کے پاس مدینہ میں آیا اور آپ سے اس بات کی درخواست کی کہ اگر آپؐ اسے اپنے بعد خلیفہ بنا لیں تو وہ اپنی جماعت سمیت آپ کی اتباع اختیار کر لے گا اور اسلام کی حالت چاہتی تھی کہ آپ اس ذریعہ کو اختیار کر لیتے اور اس کی مدد سے فائدہ اٹھا لیتے لیکن جس پاک وجود کو خدا تعالیٰ کی طاقت پر بھروسہ اور توکل تھا اور وہ انسانی منصوبوں کی ذرہ بھر بھی پروا نہ کر سکتا تھا آپ نے اس کی در خواست کو فوراً رد کر دیا۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

قَدِمَ مُسَیْلِمَۃُ الْکَذَّابُ عَلٰی عَھْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَجَعَلَ یَقُوْلُ اِنْ جَعَلَ لِیْ مُحَمَّدٌ اَلْاَمْرَ مِنْ بِعْدِہٖ تَبِعْتُہُ وَقَدِمَھَا فِیْ بَشَرٍکَثِیْرٍ مِنْ قَوْمِہٖ فَاَقْبَلَ اِلَیْہِ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ وَمَعَہٗ ثَابِتُ ابْنُ قَیْسٍ بْنِ شَمَّاسٍ وَفِیْ یَدِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قِطْعَۃُ جَرِیْدٍ حَتّٰی وَقَفَ عَلیٰ مُسَیْلَمَۃَ فِیْ اَصْحَابِہٖ فَقَالَ لَوْ سَاَلْتَنِیْ ھٰذِہِ الْقِطْعَۃَ مَا اَعْطَیْتُکَھَا وَلَنْ تَعْدُ وَاَمْرَاللّٰہِ فِیْکَ وَلَئِنْ اَدْبَرْتَ لَیَعْقِرنَّکَ اللّٰہُ وَاِنَّیْ لَاَرَاکَ الَّذِیْ اُرِیْتُ فِیْہِ مَا رَاَیْتُ وَھٰذَا ثَا بِتٌ یُجِیْبُکَ عَنِّیْ ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْہُ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فَسَالْتُ عَنْ قَوْلِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّکَ اَرَی الَّذِیْ اُرِیْتُ فِیْہِ مَا رَاَیْتُ فَاَخْبَرَ نِیْ اَبُوْ ھُرَیْرَۃَ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ بَیْنَا اَنَا نَائِمٌ رَاَیْتُ فِیْ یَدِیْ سَوَارَ یْنَ مِنْ ذَھَبٍ فَاَھَمَّنِیْ شَاْنُھُمَا فَاُ وْحِیَ اِلَیَّ فِی الْمَنَا مِ اَنْ اَنْفُخَھُمَا فَنَفَخْتُھُمَا فَطَارَا فَاَوَّلْتُھُمَا کَذَّابَیْنِ یَخْرُجَانِ بَعْدِیْ اَحَدُھُمَا العَنْسِیُّ وَالْاٰ خَرُ مُسَیْلِمَۃُ۔

(بخاری کتاب المغاذی باب وفدبنی حنیفۃ و حدیث ثما مۃ بن اُثال )

رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں مسیلمہ کذاب آیا اور کہنے لگا کہ اگر محمد ﷺ اپنے بعد مجھے حاکم مقرر کر دیں تو میں ان کا متبع ہو جاؤں اور اس وقت وہ اپنے سا تھ اپنی قوم میں سے ایک جماعت کثیر لا یا تھا۔رسول کریمؐ یہ بات سن کر اس کی طرف آئے اور ثابت ابن قیس ابن شماس رضی اللہ عنہ آپؐ کے سا تھ تھے اور رسول کریم ؐ کے ہا تھ میں کھجور کی ایک شاخ کا ٹکڑا تھا۔آپؐ آئے یہاں تک کہ مسیلمہ کے سامنے کھڑے ہو گئے اور وہ اپنے ساتھیوں میں بیٹھا تھا۔آپؐ نے فر ما یا کہ اگر تو مجھ سے یہ شاخ بھی مانگے تو میں تجھے نہ دوں اور جو کچھ خد انے تیرے لیے مقدر کیا ہے تو اس سے آگے نہیں بڑھے گا اور اگر تو پیٹھ پھیر کر چلا جائےگا تو اللہ تیری کو نچیں کاٹ دے گا او رمیں تو تجھے وہی شخص پا تا ہوں جس کی نسبت مجھے وہ نظارہ دیکھا یا گیا تھا جو میں نے دیکھا اور یہ ثابت ہیں میری طرف سے تجھے جواب دیں گے پھر آپ وہاں سے چلے گئے۔حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں میں نے پوچھا کہ یہ رسول اللہ ؐنے کیا فر ما یا ہے کہ میں تو تجھے وہی شخص پاتا ہوں جس کی نسبت وہ نظارہ دکھا یا گیا تھا جو میں نے دیکھا اس پر مجھے حضرت ابو ہریرہؓ نے بتا یا کہ رسول کریمؐ نے فر ما یا تھا کہ ایک دفعہ میں سو رہا تھا کہ میںنے دیکھا میرے دونوں ہا تھوں میں دو کڑے ہیں جو سونے کے ہیں ان کا ہو نا مجھے کچھ نا پسند سا معلوم ہوا اس پر مجھے خواب میں وحی نازل ہو ئی کہ میں ان پر پھونکوں جب میں نے پھونکا تو وہ دونوں اڑ گئے۔پس میں نے تعبیر کی کہ دو جھوٹے ہوں گے جو میرے بعد نکلیں گے ایک تو عنسی ہے اور دوسرا مسیلمہ۔

اس واقعہ سے معلوم ہو سکتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کو خدا تعالیٰ پر کیسا یقین تھا اور آپ خدا تعالیٰ کی مدد پر کیسے مطمئن تھے۔آپ کے چاروں طرف کافروں کا زور تھا جو ہر وقت آپ کو دکھ دیتے اور ایذا پہنچانے میں مشغول رہتے تھے اور جن جن ذرائع سے ممکن ہو تا آپ کو تکلیف پہنچاتے تھے۔قیصر و کسریٰ بھی اپنے اپنےحکام کو آپ کے مقابلہ کے لیے احکام پراحکام بھیج رہے تھے بنی غسان لڑنے کے لیے تیاریاں کر رہے تھے ایرانی اس بڑھتی ہو ئی طاقت کو حسدو حیرت کی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے اور ہر ایک حکومت اس نئی تحریک پر شک و شبہ کی نگاہیں ڈال رہی تھی۔ایسے وقت میںجب تک ایک لشکر جرار آنحضرت ؐکے ارد گرد جمع نہ ہو تا آپ کے لیے اپنے دشمنوں کی زد سے بچنا بظا ہر مشکل بلکہ ناممکن نظر آتا تھا۔مدینہ منورہ سے لے کر مکہ مکرمہ تک کی فتوحات نے آپ کو ہر ایک آس پا س کی حکومت کے مد مقابل کھڑا کر دیا تھا اور دور بیں نگا ہیں ابتداءِ امر میں ہی اس بڑھنے والی طا قت کو تباہ کر دینے کی فکر میں تھیں کیونکہ انہیں یقین تھا کہ یہ طاقت اگراور زیا دہ بڑھ گئی تو ہمارے بڑے بڑے قصور محلات کی اینٹ سے اینٹ بجا دے گی پھر آنحضرتؐ ان عظیم الشان مظاہروں کے مقابلہ کے لیے جو کچھ تیاری کر تے کم تھی۔انسانی عقل ایسی حالت میں جس طرح دوست و دشمن کو اپنے سا تھ ملانا چاہتی ہے اور جن جن تدابیر سے غیروں کو بھی اپنےاندر شامل کر نا چاہتی ہے وہ تا ریخ کے پڑھنے والوں کو آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہیں۔

لیکن وہ میرا پیارا زمینی نہیں بلکہ آسمانی تھا۔بڑھتے ہو ئے لشکر اور دوڑتے ہو ئے گھوڑے۔ اٹھتے ہو ئے نیزے اور چمکتی ہو ئی تلواریں اس کی آنکھوں میں کچھ حقیقت نہیں رکھتی تھیں وہ ملا ئکہ ٔآسمانی کا نزول دیکھ رہا تھا اور زمین وآسمان کا پیدا کنندہ اس کے کان میں ہر دم تسلی آمیز کلام ڈال رہا تھا ۔اس کا دل یقین سے پُر اور سینہ ایمان سے معمور تھا۔غرضیکہ بجائے دنیاوی اسباب پر بھروسہ کر نے کے اس کا تو کل خدا پر تھا۔پھر بھلا ان مصائب سے وہ کب گھبرا سکتا تھا اس نے مسیلمہ اور اس کے لشکر پر بھروسہ کر نا ایک دم کے لیے بھی مناسب نہ جا نا اور صاف کہہ دیا کہ خلافت کا دھوکہ دے کر تجھے اپنے سا تھ ملانا اور تیری قوم کی اعانت حاصل کر نی تو علیحدہ امر ہے ایک کھجور کی شاخ کے بدلہ میں بھی اگر تیری حمایت حاصل کر نی پڑے تو میں اس کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھوں۔

اس غیور دل کی حالت پر غور کرو۔اس متوکل انسان کی شا ن پر نظر ڈالو۔اس یقین سے پر دل کیفیت کا احساس اپنے دلوں کے اندر پیدا کرکے دیکھو کہ کس یقین اور تو کل کے ماتحت وہ مسیلمہ کو جواب دیتا ہے۔ کیا کو ئی بادشاہ ایسے اوقات میں اس جرأت او ر دلیری کو کام میں لا سکتا ہے ؟ کیا تاریخ کسی گوشت اور پو ست سے بنے ہو ئے انسان کو ایسے مواقع میں سے اس سلامتی سے نکلتا ہوا دکھا سکتی ہے ؟ اگر نہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ آپؐ کی زندگی سے مقابلہ کر نا ہی غلط ہے کیونکہ آپ نبی تھے ۔اگر آپؐ کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے تو انبیاءؑ سے مگر جو شان آپؐ کو حاصل ہے اس کی نظیر انبیاء میں بھی نہیں مل سکتی کیونکہ آپ ؐکو سب انبیاء پر فضیلت ہے۔

اس جگہ یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ مسیلمہ کو جواب دیتے وقت رسول کریم ﷺ کے یہ مد نظر نہ تھا کہ آپ حکومت کے حق کو اپنی اولاد کے لیے محفوظ رکھنا چاہتے تھے کیونکہ اگر ایسا ہو تا تو آپ کا انکارتو کل علی اللہ کے با عث نہیں بلکہ اپنی اولاد کی محبت کی وجہ سے قرار دیا جاتا لیکن رسول کریمؐ نے اپنی اولاد کو اپنے بعد اپنا جانشین نہیں بنا یا بلکہ حضرت ابوبکر ؓ کی خلافت کی طرف اشارہ فر ما یا جس سے معلوم ہو تا ہے کہ آپ کا انکار کسی دنیاوی غرض کے لیے نہ تھا بلکہ ایک بے پایاں یقین کا نتیجہ تھا۔

اسی طرح یہ بھی یادرکھنا چاہیے کہ مسیلمہ کذاب کی مدد حاصل کر نا بظاہر مذہبی لحاظ سے بھی مضر نہ تھا کیونکہ اگر وہ یہ شرط پیش کرتا کہ میں آپؐ کی اتباع اس شرط پر کر تا ہوں کہ آپؐ فلاں فلاں دینی با توں میں میری مان لیں تو بھی یہ کہا جا سکتا تھا کہ اپنی با ت کی پچ کی وجہ سے آپؐ نے اس کے مطالبہ کا انکار کر دیا لیکن اس نے کو ئی ایسی بات نہیں کی جس سے معلوم ہو کہ وہ مذہب میں تبدیلی چاہتا تھا۔پس آپؐ کا انکار صرف اس تو کل اور یقین کا نتیجہ تھا جو آپ کو خدا تعالیٰ پر تھا۔

ایک اَور بات بھی یادرکھنے کے قابل ہے کہ آپؐ اگر چاہتے تو اس وقت مسیلمہ کو پکڑا کر مروا دیتے کیونکہ گو وہ ایک کثیر جماعت کے سا تھ آیا تھا مگر پھر بھی مدینہ میں تھا اور آپؐ کے ہا تھ کے نیچے لیکن اس معاملہ میں بھی آپؐ نے اللہ تعالیٰ پر تو کل کیا کہ وہ خود اس موذی کو ہلاک کرے گا۔

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلیٰ مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّبَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔

(………باقی آئندہ )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button