متفرق مضامین

الفضل ………حضور کا یہ خط ہے جو میرے نام آ یا

(پروفیسر محمد شریف خان۔ امریکہ)

الفضل سے میرا پہلا تعارف

1945ء میں بھائی جان ڈاکٹر محمد حفیظ خان صاحب (حال ٹورنٹو، کینیڈا)کی شادی قادیان دارلامان میں محترم حضرت بھائی مرزا برکت علی صاحب رفیق حضرت مسیحِ موعود علیہ السلام کی دختر نیک اختر کے ساتھ طے پا ئی۔ اباجی، ڈاکٹر حبیب اللہ خان صاحب نے اپنے اکثر غیراحمدی رشتہ داروں کو اس تقریبِ سعید میں مدعو کیا تھا، کہ اس بہانے قادیان آکر یہاں کا ماحول دیکھیں۔اُن مدعوویان میںابا جی کے ایک قریبی رشتہ دار مولوی مدد علی صاحب بھی شامل تھے جو وزیر آباد میں احمدیت کے مانے ہو ئے معا ند سمجھے جاتے تھے۔مو صوف ہائی سکول میں عربی کے ٹیچر تھے،انہیں اپنے علم پر بڑامان تھا۔ دو تین دن قادیان میں ٹھرے، اس دوران ’’الفضل‘‘ میں بھائی جان کی شادی کی خبر دعا کی درخواست کے ساتھ شائع ہو ئی۔مو لوی مو صوف نے اباجی سے الفضل کا شمارہ لیا۔اعلان کے الفاظ کی شستگی اور دعا کی درخواست سے جل بھن گئے۔ یہ کہتے ہو ئے کہ ’’دیکھتا ہوں تمہارے خلیفہ اور تمہاری دعائیں کیسے قبول ہو تی ہیں؟ میں پیش گو ئی کر تا ہوں، یہ شادی مہینہ بھی نہیں چلے گی‘‘۔ میری عمر اس وقت چھ سات سال تھی، مولوی نے اتنا شورو غوغا مچایا تھا، کہ یہ واقعہ میری یاد داشت میں اب تک نقش ہے۔ الفضل کا شمارہ جس رعونت کے ساتھ انہوں نے طے کر کے اپنے تھیلے میںگھسیڑا، اس سے ان کی احمدیت سے تعصب کی غمازی ہو تی تھی۔اللہ تعالیٰ کے فضل اور احباب کی دعاؤں کے طفیل اب اس جوڑ سے آٹھ کنبے جر منی، امریکہ اور کینیڈا میں پھیلے جماعت کی دعاؤںکی قبولیت کا ثبوت فراہم کر رہے ہیں۔

تقسیم ہند کے بعد ہم چک سان، ضلع گوجرانوالہ اپنے آبائی گھر آگئے، ابا جی افریقہ سے 1948ء میں پیشگی ریٹائرمنٹ لے کر ہم سے آ ملے۔ ڈاک کا انتظام ٹھیک نہیں تھا، ڈاکخانہ گاؤں سے تین میل ایک پرا ئمری سکول میں تھا۔ ہر کارہ گاؤں میں نمبر دار کے پاس ڈاک پہنچا جا یا کر تا تھا، کبھی الفضل ملتا کبھی نہ ملتا۔ جب ملتا تو الفضل پر گا لیاں اوربُرے الفاظ لکھے ہو تے۔ ابا جی لا حول اور دعا ئیں اوریہ مصرعہ خوش الہانی سے پڑھتے ہوئے ’’حضور کا یہ خط ہے جو میرے نام آیا‘‘ الفضل کھولتے، اور اس کے مضامین میں گُم ہو جا تے۔ نمازِ عصر کے بعد جب ہم قرآنِ کریم پڑھنے بیٹھتے، تو ابا جی ہمیںالفضل میںسے حضوراید ہ اللہ کی صحت اور دوسری اہم خبریں پڑھ کر سنا تے۔ میں کچھ کچھ اردو الفاظ اُٹھا نے لگا تھا۔ مجھ سے دو تین پیرے سنتے اور مطلب بتاتے۔ ان میں حضرت مسیحِ مو عودؑ کے ملفوظات کے علاوہ، تربیتی مضامین اور جماعتی اور ملکی خبریں ہو تیں۔

جب ہم 1952ء میں گکھڑ منڈی منتقل ہو ئے، یہاں ڈاک کا نظام کچھ ٹھیک تھا۔ یہاں میں چھٹی کا طالب علم تھا، ہماری مسجد تھی، باقاعدہ با جماعت نمازیں ادا ہو تیں، صبح کی نماز کے بعد تفسیرِ کبیر اور عصر کے بعد ملفوظات کا درس معمول تھا۔ جمعہ میں حضرت خلیفہ المسیح الثانی ایدہ اللہ کا خطبہ الفضل سے پڑھ کر سنایا جا تا۔ ہم بچے نماز سے پہلے مسجد میں پہنچ کر الماری میں الفضل کے گزشہ شماروں سے استفادہ کرتے۔

1953ء میں فسادات کے دوران جب الفضل پرپابندی لگا دی گئی۔اگر چہ یہ ہماری رگ جان کاٹ دینے کی کو شش تھی مگر دشمن ’’الفضل‘‘ سے ہمارا رابطہ کاٹنے میں نا کام رہے، یہ روحانی پانی مسجد کی الماری میں الفضل کے گزشتہ شماروں کے کوزوں میں ذخیرہ ہمارے کام آتارہا۔ عام جہازی قدو کاٹھ کے اخبارات سے ممتاز اس چار ورقہ اخبار کے ہرصفحے پر زندہ مذہب کی زندہ حقیقتوں کو اجاگر کر تے ہو ئے زندہ مضامین ہماری روحانی اشتہا بجھاتے اورحضرت مسیحِ مو عودؑ اور خلیفۂ وقت کے صدا بہار ارشادات جماعت کی ہر لمحہ راہنمائی کر تے رہے۔ تعصب اور ڈھٹائی نے جوالفضل کے سیلِ رواں کو روکنے کے لیے جتنے بند باندھے تھے، اللہ تعالیٰ کے فضل اور جماعت کی دعاؤں کے طفیل چند مہینوں میں تحلیل ہو کر بہ گئے، اور سلسلۂ احمدیت کا شجر اس روحانی مائدے سے پھر سے مستفید ہو نے لگا۔

وقفِ زند گی اور الفضل

انہیں دنوں حضرت خلیفہ الثانی ایدہ اللہ کے وقفِ زندگی کے موضوع پر تین چار خطبات الفضل میں چھپے، جنہوں نے احمدی والدین کے ذہنوں میں ایک ہلچل پیدا کر دی۔ان خطبات کے سننے کے بعد ابّا جی مر حوم کی ذہنی کیفیت کا اندازہ اس بات سے کیجیے ، ابا جی کئی دن بے تاب سے رہے ، ایسا لگتا تھا کہ آپ کے ذہن پرکچھ بو جھ ہے ۔ آخر ایک دن مجھے اپنے پاس بلا یا اور کہا: ’’شریف بیٹے، تم نے حضرت صاحب کے خطبات سنے اور پڑھے ہیں۔ میری خواہش ہے تم اپنی زندگی وقف کر دو۔ پہلے تمہارا بھائی منیر وقف ِزندگی تھا، شہید ہو کر اللہ کے پاس چلا گیا۔تمہارے دونوںبڑے بھائی اپنے اپنے کاموں میں مشغول ہیں۔ تم ہو جو ابھی پڑھ رہے ہو۔ اگر تم زندگی وقف کر دو تو مجھے بڑی خوشی ہو گی‘‘ ۔میرا ’’ہاں‘‘ میں جواب سن کر بہت خوش ہو ئے ، اور فوراًحضرت صاحب کی خدمت میں منظوری کے لیے عریضہ لکھا، اور جب حضورسے منظوری آئی تو مسجد میں مٹھائی بانٹی اور بار بار خدا تعالیٰ کا شکر ادا کر تے رہے۔اور پھر مجھ سے وصیت کر وائی ، الفضل کا وہ پرچہ جس میں میری وصیت کا اعلان ہوا ، میں نے ایک عرصے تک سنبھالے رکھا، امریکہ آنے کی اُکھاڑ پچھار میں کہیں گُم ہو گیا۔

یہاں تحدیث نعمت کے طور پر بیان کر تا چلوں، جب میں 1963ء میں تعلیم الاسلام کالج میں لیکچرر مقرر ہوا، اور محترم مکرم میر مسعود احمد صاحب مر حوم سے تعا رف ہوا تواپنے مخصوص دھیمے انداز میں مسکراتے ہو ئے فرمانے لگے: ’’ تو اچھا آپ ہیں محمد شریف ، آپ کے والد صاحب کا نام ڈاکٹر حبیب اللہ خان صاحب ہے نا، اور آپ گکھڑ جماعت سے تعلق رکھتے ہی‘‘، میرا ہاں میں جواب سن کر فرمایا کہ’’جامعہ سے فراغت کے بعد میری پہلی تعیناتی دفتر دیوان تحریکِ جدید میں ہو ئی تھی۔ اور میرا سب سے پہلا کام نئے واقفین کے نام رجسٹر میں اندراج کرنا تھا۔ مجھے یاد ہے آپ کے نام کا اندراج میں نے سب سے پہلے کیا تھا‘‘۔اللہ تعالیٰ میر صاحب مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام سے نوازے۔ آ مین

دنیا داروں کے لیے تو اپنے بچوں کو دینی تعلیم حاصل کرنے پر لگا دینے کا خیال ایک امتحان سے کم نہیں ہو تا۔ قربان جائیں اس جما عت کے جو خدا تعالیٰ کی رضا جو ئی کی خاطر خلیفۂ وقت کے ایک اشارے پر اپنا تن من دھن اسلام کی خدمت میں نچھاور کر نے کے لیے ہر وقت کمر بستہ رہتی ہے خلیفۂ وقت کے ادنیٰ سے اشارے پر اپنے ہو نہارنو نوجوان بچوں کو خدمتِ دین کے لیے خلیفہ کے قدموں میں لاڈالتی ہے ، الحمد للہ میں بھی ان خوش نصیب بچوں میں شامل ہوں۔اس جذبے میں جماعت کی الفضل کے ذریعے بتدریج تر بیت کابڑا دخل ہے۔ منظوری کی اطلاع کے بعد ابا جی مجھے مسلسل با قا عدہ الفضل پڑھنے کے تلقین کرتے رہتے۔ اور اکثر کو ئی اہم مضمون مجھ سے پڑھواکر سنتے۔مشکل مقامات پر میری راہنمائی فرماتے۔

فضلِ عمر ہو سٹل ربوہ میں الفضل

میڑک کے بعد کچھ ایسے حالات پیدا ہو ئے کہ ارادہ تو جامعہ میں داخلے کا تھا، مگر جامعہ میں چھٹیوں کے باعث حضرت مو لا نا ابو العطاصاحب جا لندھری پر نسپل جامعہ کی تحریک پر تعلیم الاسلام کالج میں داخل ہوا اور فضل عمر ہو سٹل میں رہا۔ ہو سٹل کے common room میں جہاں دوسرے ملکی اخبارمہیا ہو تے وہاں طلباء کی روحانی تسکین کے لیے الفضل بھی نیوز سٹینڈ پر مہیا ہو تا۔میں اور کئی لڑکے با قا عدہ الفضل کے قاری تھے، ابا جی مرحوم بھی اپنے خطوط میں الفضل پڑھنے کی تحریک کر تے رہتے۔

لا ہور میں رہا ئش کے دوران الفضل کی دستیابی

بی ایس سی اور ایم ایس سی کے دوران میں لاہور چار سال رہا۔ نمازِ جمعہ کے لیے مسجد احمدیہ بیرون دہلی گیٹ جاتا جہاں نماز کے بعدمیری طرح کئی لوگ الفضل کا مطا لعہ کرتے۔ مربی صاحب کے پاس تو ایک ہی پر چہ آتا، مگر کئی احباب سارے ہفتے کے اخبار اکھٹے کر کے ہماری طرح کے قاریوں کے لیے مسجد لے آ تے۔اس طرح ربوہ سے تعلیمی اغراض سے دوری کا مداوا الفضل کا مطالعہ کر دیتا۔

میرے افعال و کر دار کی تر بیت حضور کے ارشادات کرتے رہے۔اور میری تربیت اور راہنمائی میں الفضل میں شائع ہو نے والے مضامین نے بڑا کر دار ادا کیا۔ ہمیشہ میرے پیشِ نظر رہا کہ میں وقفِ زندگی ہوں، ایک فرشتہ میری نگرانی کر رہا ہے، کہ میں اپنے فرائضِ منصبی میں کو تا ہی نہ کروں، اور وہ فرشتہ ’’الفضل اخبار‘‘ تھا۔ تحدیثِ نعمت کے طور پر بیان کرتا ہوں کہ بی ایس سی کے نتائج کے مطا بق مجھے اسلامیہ کالج سے میڈل اور role of honour دیا گیا، الحمدللہ۔

پنجاب یو نیورسٹی میں 1961ء کی ایم ایس سی زوالوجی کلاس میں ہم پا کستان کے مختلف علاقوں سے آ ئے ہوئے بیس طالب علم تھے، کچھ بی ایس سی میں مجھ سے اچھے نمبر لے کر آئے تھے۔ سب کو علم تھا کہ میں احمدی ہوں، بہت اچھا ما حول تھا، میری نکیل فرشتے کے ہا تھ میں تھی، کلاس ٹیسٹوں میں میرے ساتھ تین چار لوگ تھے، ہم میں سے کو ئی فرسٹ آ تا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل اور راہنمائی سے میں 1963ءکے یو نیورسٹی کے امتحان میں فرسٹ آیا اور Sir Willians Roberts Gold Medal کا حقدار قرار پایا۔ الحمد للہ

حضرت مسیحِ مو عود علیہ السلام کا درج ِذیل ارشاد ہمیشہ میرے مدّنظر رہا:

’’میں ان مسلمانوں کو غلطی پر جانتا ہوں جو علومِ جدیدہ کے مخالف ہیں۔ وہ در اصل اپنی غلطی اور کمزوری کو چھپانے کے لیے ایسا کر تے ہیں۔ ان کے ذہن میں یہ بات سمائی ہو ئی ہے کہ علومِ جدیدہ کی تحقیقات اسلام سے بد ظن کر دیتی ہے اور وہ یہ قرار دیے بیٹھے ہیںکہ گویا عقل اور سا ئنس اسلام سے با لکل متزاد چیزیں ہیں۔ کیونکہ خود فلسفہ کی کمزوریوں کو ظاہر کر نے کی طاقت نہیں رکھتے اس لیے اپنی اس کمزوری کو چھپانے کے لیے یہ بات تراشتے ہیں کہ علومِ جدیدہ کاپڑھنا ہی جا ئز نہیں۔ ان کی روح فلسفہ سے کانپتی ہے اور نئی تحقیقات کے سامنے سجدہ کر تی ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ43)

الفضل دفتر کی دراز میں

بھلے وقتوں کی بات ہے جب اردو سائنس بورڈ والے ، مختلف شعبوں میں ماہر سائنس دانوں کو ان کے علم سے متعلق اردو میں کتب لکھنے کی دعوت دیا کر تے تھے ۔اس وقت کے بورڈ کے چیئر مین اشفاق احمد خان صاحب نے 1991ءمیں مجھ سے رابطہ کیا۔ میں نے پاکستان میں پا ئے جانے والے سانپوں پر کتاب کا مسودہ لکھ کر بھجوا دیا۔ شرائط طے کر نے کے سلسلے میں اشفاق صاحب سے ان کے دفتر لاہورمیں جا کر ملا۔ کتاب کا کیا سائز ہو گا، اس پر بات کر تے ہوئے خان صاحب نے اپنی میز کی پہلی دراز کھولی اور اس میں سے الفضل کا تازہ شمارہ نکال کر میز پر پھیلا دیا اوردوہرا کر کے کہا، ’’آپ کے اخبار الفضل کے دوہرے سائز کے مطابق ہم کتاب چھا پیں گ‘‘۔ اللہ کے فضل سے الفضل نے میری جگہ جگہ رہنمائی کی ۔

ادارہ الفضل کی تحسین و تبریک

زندگی اک جُہدِ مسلسل ہے، جس میں کو ئی پڑاؤ نہیں آتا، جو ٹھرا گیا!حضرت مسیحِ پاکؑ کے قائم کردہ تعلیم الاسلام کالج میںپڑھنا اورپھر پڑھا نا،میرے لیے ایک بڑی سعادت تھی، اللہ تعالیٰ کا انعام تھا۔ربوہ میں اپنے مفّوضہ فرائض سے عہدہ برا ہو نے کے بعد اپنا اکثر وقت اللہ تعالیٰ کی یاد اور اپنی علمی استعداد کی ترقی پر صرف کر تا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے ربوہ میں رہتے ہو ئے میرے مضمون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری سے نوازا، الحمدللہ تعالیٰ۔

میری محنت کو سراہتے ہو ئے مرحوم محترم یوسف سہیل صاحب شوق، نا ئب ایڈیٹر الفضل نے میرے تعلیمی کیریئر اور ریسرچ سے متعلق میرا تفصیلی انٹرویو لیا جو الفضل کے1996ءکے جلسہ سالانہ نمبر میں چھپا، الحمدللہ۔ اس طرح الفضل کا ساتھ میری ہر کا میابی کے خوشی میںایک خیر خواہ دوست کی طرح مسلسل میرے ساتھ رہا، یہ راہنما رو شنی میرے دائیں بھی رہی اور با ئیں بھی رہی، اور اوپر بھی سایہ فگن ہے ۔الحمدللہ

’’الفضل‘‘ اور خدائی فضلوں کا تسلسل

اللہ تعالیٰ کس طرح اپنے فرستادے کی مسلسل تا ئیدو نصرت فرماتا ہے، اس کی ان گنت مثالیںتاریخِ احمدیت میںانمول چمک دار ہیروںکی طرح مسلسل اپنی چمکار دکھا رہی ہیں اور سعید روحیںاس راہنمائی میں راہِ حق کی طرف کھچی چلی آ رہی ہیں…… جبکہ یہ چمک دشمنوں کی آنکھوں کو خیرہ اور سوچوں کو مختل کیے جا رہی ہے ا ن غلطی خوردہ لوگوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ کیا ہو رہا ہے کہ ان کی ہر معا ندانہ تر کیب جماعت کی ترقی کا باعث اور ان کے لیے مزلت کا با عث کیوں ہے ؟ افضال کی لمبی فہرست سے کچھ کا ذکر درجِ ذیل ہے:

٭۔1908ءسے قائم خلافتِ احمدیہ کا استحکام اور تسلسل، دنیا میں ہر لمحے نئے نئے پیدا ہو نے والے مسائل کے حل کے لیے خلیفۂ وقت عالمِ اسلام اور جما عت احمدیہ کی مسلسل رہنمائی مل رہی ہے ، یہ وہ خدائی روشنی ہے جو جماعت کے ساتھ ساتھ چل رہی ہے!

٭۔1898میں مسیحِ وقت کی دعاؤں سے قائم ہو نے والے قادیان میں مدرسہ تعلیم الاسلام ، پرائمری سے میٹرک ، انٹر کالج اور ڈگری کالج کے مدا رج طے کرتا ہوا، پاکستان اور بیرونی پا کستان کے طلباء کوگزشتہ ایک صدی سے علم سے منور کر تا رہا۔ اور اب اس تطامِ تعلیم کے تسلسل میں قائم ہو نے والے ادارے اکنافِ عالم میں علم کے روشنی سے خلق اللہ کو منور کر رہے ہیں۔

٭۔ جماعت میں نئے علماء کی تیاری کے لیے مدرسہ احمدیہ 1898ء میں قادیان دارالا مان میں قائم فرمایاگیا۔ جس کے تسلسل میں ساری دنیا میں مسلسل قا ئم ہو نے والے جامعاتِ احمدیہ میںتربیت پانے والے منادی ، اسلام کا پیغام دنیا کی چار جہات میں پھیلانے کے لیے ہر سال سینکڑوںکی تعداد میں کھیپ در کھیپ فارغ ہو رہے ہیں۔ یہ علماء نہ صرف اسلامی علوم بلکہ دنیاوی علوم کے ماہربھی ہیں اور بفضل اللہ تعالیٰ دنیا کو جلد اسلام کے جھنڈے تلے جمع کرنے کے لیے اپنی ذمہ داری خوب نبھا رہے ہیں۔

٭۔1891ءمیںقادیان میں پہلے سالانہ جلسے کا انعقاد ہوا، جس میں 75خوش نصیب افراد شامل ہوئے۔اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے ہر ملک میں منعقد ہو نے والے جلسہائے سالانہ کے ایم ٹی اے پر دکھا ئے جانے مناظر دنیا کے کناروں تک تبلیغ کے پہنچنے کا روح پرور نظارہ پیش کر تے ہیں۔

٭۔اوریہ الفضل چارورقی اخبار جو 1913ءکی صبح شروع ہوا ، تمام انسانی حدوقواعد میں رہتے ہو ئے گزشتہ سو سال کے دوران دشمنوں کی نیندوں اور دل کے سکون کو حرام کیے ہوئے ہے۔ اب اس کا انٹر نیشنل ایڈیشن دیارِ مغرب میں بھی ضوفشاںمسلسل ترقی کی طرف گامزن ہے۔

اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے الفضل کاتازہ بتازہ شمارہ، بلکہ اس کے سالہائے گزشتہ کے شماروں کا خزانہ انٹر نیٹ پر مہیا ہے ۔کمپیوٹرکی ایک کلک پر ہر شمارہ دستیاب ہے۔صبح نماز کے بعدالفضل کا تازہ شمارہ ذہنی سکون اور ازدیادِ ایمان کا با عث بنتا ہے۔ الحمدللہ

الفضل تاریخ کے جھروکے سے

یہ قدرتی بات ہے جب کوئی کسی روشنی میں زندگی کا سفر طے کررہا ہوتا ہے، تو کبھی نہ کبھی اس کی نظرروشنی کا منبع جا ننے کے لیے پیچھے اُٹھ جاتی ہے۔الفضل کا ماضی شاندار اور مستقبل تابناک ہے ، کیونکہ یہ چشمۂ رواں 18 جون1913ء بروز بدھ اپنے بانی کی معصوم مستجا ب دعا:

’’یں الفضل کی کشتی کے چلانے کے وقت اللہ تعالیٰ کے حضور بصد عجزو انکسار دعا کر تا ہوں کہ ……اللہ کے نام کے ساتھ اور اس کی بر کت سے اس کا چلنا اور لنگر ڈالنا ہو۔ تحقیق میرا رب بڑا بخشنے والا اور رحیم ہے……اس کے فیض کو لاکھوں نہیں کروڑوں پر وسیع کر اورآنے والی نسلوں کے لیے بھی اس کو مفید بنا اور بہت سی جانوں کو ہدایت ہو‘‘ کی بر کت سے پھوٹا، اورہزاروں لاکھوں کوسیر اب کرتا ہوا اب دنیا کے دوسرے ممالک کو سیراب کر رہا ہے، الحمدللہ

گو الفضل کے ماتھے کا خوبصورت جھومر آیتِ مبارکہ… ’’یقیناً فضل اللہ کے ہاتھ میںہے جسے چاہتا ہے دیتا ہے‘‘……دنیا داروں کے خود ساختہ قواعد و قوانین نے چھین لیا ہے، مگر اللہ تعالیٰ کی فعلی شہادت الفضل کی دن دو گنی اور رات چو گنی ترقی سے ثابت ہے۔ خدائی فضل ہمیشہ الفضل کے ساتھ رہا ہے، اور رہے گا! انشا اللہ تعالیٰ

تکمیلِ رسالت اور تکمیلِ اشاعت

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے تکمیل رسالت و ہدا یت ہو ئی جبکہ مسیحِ موعودؑ کے زمانے میں صحف کی اشا عت اوراقوام کا اجتماع مقدر تھا۔ مسیحِ مو عود ؑکی سوانح پاک کا مطالعہ کیجیے کس لگن اورمحنت سے ان نا مسا عد حالات میں تصنیف، کتابت، پروف دیکھنے، اشاعت کے دماغ سوز مرا حل ، لاہور، امرتسر اور بٹالے کے مختلف چھاپا خانوں میں میلوں پیدل، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر ہچکو لے کھاتے تانگوں ، بیلیوں پر تھکا دینے والے سفر، کاتبوں اور چھا پا خانوں کے مالکوں کے حیلے بہانے۔ حضورؑنے اللہ تعالیٰ کی دی ہو ئی ہمت اور تو فیق سے یہ سب کچھ برداشت کیا اور صحف کے چھپوانے کا انتظام فرمایا۔ ازل سے یہ سعادت اس مردِ جری کے نام لکھی تھی، علیک سلام ۔

خدا کی وحی سے ہدایت یافتہ لوگ دیکھتے ہی دیکھتے اس گُلِ رعنا کی جنتی خوشبو پر ا کنافِ عالم سے پروانہ وار آ کرحضور کے اردگرد قادیان میں آ آباد ہو ئے ۔وہ بستی جس کا نقشہ حضرت بھائی عبد الرحمٰن صاحب قادیانی 1885ء میں ان الفاظ میں کھینچتے ہیں:

’’جدھر نگاہ اُٹھائو ویرانہ کھنڈر، عمارات بر باد اور مکانات مسمار، بچے کچھے اکثر مقفل اور بے چراغ، خال خال کوئی آ باد، اور جو آباد بھی تھے ان پر بھی ایک قسم کی اُداسی اُداسی برستی دکھائی دیتی تھی جیسے کسی اُجڑے دیار کا سو گ منا رہے ہوں……زیادہ سے زیادہ پانچ سو نفوس رہتے ہوں گے……تعلیم کا یہ حال تھا کہ (حضورکے)اس خاندان اور اس سے تعلق رکھنے والوں کو الگ کر کے بمشکل ایک یا زیادہ سے زیادہ دو فیصد ی معمولی نوشت و خواندکے آدمی مل سکتے ہوں گے‘‘۔ (الحکم 14 فروری 1940ء)

اور حضور علیہ السلام فرماتے ہیں:

میں تھا غریب و بے کس و گم نام و بے ہنر
کوئی نہ جا نتا تھا کہ ہے قادیان کدھر
پھر دیکھتے ہو کیسا رجوعِ جہاں ہوا
اک مرجعِ خواص یہی قادیان ہوا

رستوں کے گڑھے، معا ندین کی کھڑی کی ہو ئی روکوں کو عبور کر تے ہو ئے اکنافِ عالم سے کھنچے آتے لوگ مسیحِ وقت کے دست و بازو بن کر اس کٹھن کام میں آپ کے ممدو معاون بن کر خدائی انعامات سے سر فراز ہو ئے، اور اس روحانی کشش نے اس سیلِ رواں کوایک متلاطم خیرو بر کت کے سمندرمیں بدل دیا ۔

ایں چشمۂ رواں کہ بخلقِ خدا دہم
یک قطرۂ زبحر کمالِ محمد است

اور دیکھتے دیکھتے یہ بستی ایک ہنستا بستا شہر بن گئی اور اکنافِ عالم میں شہرت پا گئی۔

حرفِ آخر ’’الفضل‘‘ کا پہلا اداریہ

’’خدا کا نام اور اس کے فضلوں اور احسانوں پر بھروسہ رکھتے ہو ئے اُس سے نصرت و تو فیق چا ہتے ہو ئے الفضل جاری کر تا ہوں……میرے حقیقی مالک ، میرے متولی ، تجھے علم ہے کہ محض تیری رضا حاصل کر نے کے لیے اور تیرے دین کی خدمت کے ارادے سے یہ کام میں نے شروع کیا ہے۔تیرے پاک رسول کے نام کو بلند کرنے اور تیرے معمور کی سچائیاں دنیا پر ظاہر کر نے کے لیے یہ ہمت میں نے کی ہے……اے میرے مولیٰ ! اس مشتِ خاک نے ایک کام شروع کیا ہے اس میں برکت دے اور اسے کامیاب کر۔ میں اندھیر وں میں ہوں تو آپ ہی راستہ د کھا۔ لوگوں کے دلوں میں الہام کر کہ وہ الفضل سے فا ئدہ اُٹھا ئیںاور اس کے فیض لاکھوں نہیں کروڑوں پر وسیع کراور آئندہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی اسے مفید بنا ‘‘۔

(الفضل 18 جون 1913ء)

ہمارے لیے لمحہ ٔفکریہ

’’آج لوگوں کے نزدیک الفضل کوئی قیمتی چیز نہیں مگر وہ دن آ رہے ہیں اور وہ زمانہ آنے والا ہے ۔ جب الفضل کی ایک جلد کی قیمت ایک ہزار روپیہ ہو گی لیکن کو تہ بین نگا ہوں سے یہ بات ابھی پو شیدہ ہے‘‘۔

(28 مارچ 1946ء)

’’اخبار قوم کی زند گی کی علامت ہو تا ہے۔ جوقوم زندہ رہنا چاہتی ہے اسے اخبار کو زندہ رکھنا چاہیے اور اپنے اخبارکے مطالعہ کی عادت ڈالنی چا ہیے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو ان امور پر عمل کر نے کی تو فیق بخشے‘‘۔ آمین

(31 دسمبر 1954ء )

٭٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button