سیرت صحابہ کرام ؓ

حضرت حافظہ زینب بی بی صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا

(بشریٰ داؤد ناصر۔ جرمنی)

میری دادی جان کا نام زینب بی بی صاحبہ تھا ۔آپ چک سکندر سے تعلق رکھتی تھیں ۔ ایک نہایت نیک فطرت اور پاکباز خاتون تھیں ۔آپ کی ابتدائی تربیت ہی ایسے ہاتھوں میں ہوئی تھی جو علاقہ بھر میں اپنی پاک بازی اور دینداری کی وجہ سے شہرہ آفاق تھے یعنی ان کے والد حضرت حافظ احمد دین صاحب جن کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے 313 صحابہ میں شامل فرمایا تھا۔

روحانی خزائن جلد 11صفحہ327 صحابی 202 ایڈیشن 2008ء نظارت اشاعت ربوہ)

ہماری دادی جان حافظہ قرآن تھیں اور اُس زمانے میں جبکہ ناظرہ قرآن پڑھنا بھی ہر کوئی نہیں جانتا تھا آپ ترجمہ کے ساتھ قرآن پڑھی ہوئی تھیں ۔ جب آپ شادی کے بعد کھاریاں آئیں تو ان کے وجود سے کھاریاں کی بستی میں مستورات میں قرآن کریم ناظرہ اور باترجمہ پڑھنے کا آغاز ہوا ۔ کھاریاں کی لڑکیوں نے قرآن باترجمہ آپ سے پڑھا ۔ اور وہ اس طرح ایک ثوابِ جاریہ اپنے پیچھے چھوڑ گئیں ۔

میرے بچپن کی یادوں میں ایک یاد یہ ہے کہ جب ہم اپنی دادی جان کے گھر جاتے تھے تو دیکھتے تھے کہ باہر صحن میں ایک تخت بچھا ہوتا تھا جس پر وہ بیٹھی ہوتی تھیں اور برآمدے میں لڑکیوں کی ایک لمبی قطار اپنا اپنا سبق یاد کر رہی ہوتی تھی ۔ان کی وفات کے بعد یہ سلسلہ ان کی بیٹی یعنی ہماری پھو پھی جان نے جاری رکھا اور ان کے بعد میری امی جان نے ۔ اس طرح یہ ہمارے خاندان کا ایک طرہ امتیاز بن گیا اور آج بھی ہم بہنیں اس سلسلہ کو جاری رکھے ہوئے ہیں، الحمد للہ۔ آپ کے حفظِ قرآن کا واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ آپ حضرت مسیح موعود د علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ملاقات کے لیے گئیں تو حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دورانِ گفتگو فرمایا کہ تمہارے والد حافظ ِقرآن ہیں ،تمہارے شوہر بھی حافظِ قرآن ہیں ( میرے دادا جان حافظ مولوی فضل الدین رضی اللہ تعالیٰ عنہ ،وہ بھی حضور علیہ السلام کے 313صحابہ میں شامل تھے، صحابی نمبر2۔ (روحانی خزائن جلد 11صفحہ325 صحابی 202ایڈیشن 2008ء نظارت اشاعت ربوہ)تمہیں بھی قرآن حفظ کرنا چاہیے ۔ آپ رضی اللہ عنہا نے یہ بات دل و جان سے قبول کی اور گھر آکر قرآن حفظ کرنا شروع کر دیا ،اس طرح شادی کے بعد بچوں کے ساتھ آپ رضی اللہ عنہا نے قرآن حفظ کیا اور یوں احمدی خواتین میں پہلی حافظہ قرآن بنیں ۔ لوائے احمدیت کے لیے جن صحابیات نے سوت کاتا تھا، آپ بھی ان میں شامل تھیں ۔آپ کافی بلند آواز میں تلاوت قرآن کریم کرتی تھیں۔ ایک دن آپ نے اپنے والد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ تلاوت قرآن کریم کرتے ہوئے میری آواز باہر تک جاتی ہے اس کا میں کیا کروں ؟ آپ کے والد نے فرمایا کوئی حرج نہیں جہاں تک آپ کی آواز جائے گی آپ کے حق میں شہادت جائے گی یعنی قیامت کے روز قرآن کریم آپ کا گواہ ہو گا ۔

آپ کا چونکہ زمیندار گھرانہ تھا اس لیے زندگی کافی مصروف تھی۔ گھر کے سارے کام خود کرتی تھیں اور پھر عورتوں اور بچوں کو قرآن کریم بھی پڑھاتی تھیں۔ایک دن کہنے لگیں کہ ہم بھی کیسے ہیں اپنے ہی دھندوں میں پھنسے رہتے ہیں ۔میرا دل تڑپتا ہے کہ ہم بھی قادیان جائیں،مسیح موعود علیہ السلام کا قرب حاصل کریں ۔میرے دادا جان نے فرمایا کہ کرایہ کا بندوبست کر لوں تو آپ چلی جائیں ۔چنانچہ آپ دو ماہ کے لیے قادیان تشریف لے گئیں۔ اس وقت میرے ابا جان آپ کی گود میں تھے اور ان کی عمر نو ماہ تھی۔ سردیوں کا موسم تھا ۔ جب آپ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ملاقات کے لیے ان کے گھر گئیں تو حضور علیہ السلام نے دیکھا کہ بچے کے سر پر ٹوپی نہیں ہے ۔آپ علیہ السلام نے فوراً حضرت اماں جان رضی اللہ عنہاسے فرمایا کہ مبارک احمد کی ٹوپی اس بچے کو پہنا دو ورنہ اسے سردی لگ جائے گی ۔حضرت اماں جان رضی اللہ عنہانے ٹوپی لا کر میرے ابا جان کو پہنا د ی ۔ وہ ٹوپی ایک مدت تک میری دادی جان کے گھر میں محفوظ رہی ۔ان کی وفات کے بعد افسوس کہ وہ کہیں ضائع ہو گئی۔آپ اکثر حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اپنے بچوں کے لیے دعا کی درخواست کرتی رہتی تھیں ۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ دعا کے لیے لکھ کر بیت الدعا کی کتابوں کی الماری پر لٹکا دو جب بھی میری نظر پڑے گی میں دعا کروں گا لہٰذا آپ نے اسی طرح کیا ۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک دفعہ زندگی وقف کرنے کی تحریک فرمائی تو دادی جان رضی اللہ عنہا نے اپنی ساری اولاد کو اس کی تحریک کی اور خود بھی مرکز میں لکھا کہ میں اپنی ساری اولاد وقف کرتی ہوں ۔ میری دو بیٹیاں ہیں ۔ آپ کو مرکز سے ہدایت ملی کہ ان کی شادیاں واقفین زندگی سے کریں سو انہوں نے اپنی دونوں بیٹیوں کی شادیاں واقفین زندگی سے کیں ۔ میری دادی جان رضی اللہ عنہا ایک بہت اچھی شاعرہ بھی تھیں ۔آپ نے کئی انبیاء کا ذکر نظم کی صورت میں کیا کہ کس طرح شیطان نیک لوگوں کو بہکاتا رہتا ہے لیکن خدا کے یہ نیک بندے کبھی اس کے بہکاوے میں نہیں آتے ۔آج مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ میں بھی وہ ڈٹ گیا ہے لیکن دیکھنا ! محتاط رہنا !کہیں شیطان کے نرغے میں پھنس نہ جانا ۔اگر اس کے دھوکے میں پھنس گئے تو وہ تمہیں ذلیل و رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا ۔ آپ رضی اللہ عنہا نے ایک سہ حرفی نظم لکھی تھی ۔ سہ حرفی میں حروف تہجی کے ہر حرف کے ساتھ ایک شعر ہوتا ہے ۔ مجھے ان کے ایک دو شعر یاد ہیں جو اس طرح ہیں کہ :

؎آؤ سیّو رَل مل کم کرئیے کماں باجھ نہ ملن مزدوریاں نیں

باجھ مانواں پیکے نئیں چھانواں پانویں لکھ خوشامداں ہوندیاں نیں

زینب اپنی ماں دا حال ڈٹھا شاید ایہو جیاں مانواں ہوندیاں نیں

ترجمہ :آؤ مل جل کے کام کریں ۔کام کے بغیر مزدوری نہیں ملتی۔ مائوں کے بغیر میکے کی کوئی چھائوں نہیں ہوتی ۔چاہے کوئی کتنی ہی خوشامد کرے ۔زینب نے اپنی ماں کا حال دیکھا ہوا ہے۔ شاید مائیں اسی طرح کی ہوتی ہیں ۔

افسوس یہ سہ حرفی بھی محفوظ نہیں رہ سکی ۔ ہم لوگ بہت چھوٹے چھوٹے تھے جب ان کی وفات ہوگئی تھی ۔

1934ء میں جب کھاریاں میں لجنہ اماء اللہ قائم ہوئی تو آپ اس کی پہلی صدر مقرر ہوئیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کے گھر میں باقاعدگی سے اجلاس ہوتے تھے ۔مرکز سے جو بھی حکم ملتا آپ اس پر نہایت مستعدی اور خلوص سے عمل کرتیں اور کرواتی بھی تھیں۔ آپ بہت نیک ،متقی ،پرہیز گار ،تہجد گذار اور ہمدردی ٔ خلق رکھنے والی خاتون تھیں۔ آپ ابھی کافی رات ہوتی تو تہجد ادا کرنے کے لیے اٹھ جاتی تھیں ۔ نہایت سوز وگداز کے ساتھ تہجد ادا کرتیں اور صبح کی اذان ہونے پر نماز فجر ادا کرکے بڑی دیر تک تسبیح و تحمید میں مصروف رہتیں اور پھر روشنی پھیلنے پر قرآن کریم کی تلاوت میں مصروف ہو جاتیں اور اس کے بعد اسکول جانے والے بچے یسرناالقرآن اور قرآن کریم پڑھنے آجاتے۔پھر وہ بچے جو سکو ل نہیں جاتے تھے وہ قرآن پڑھنے آجاتے اوراس کے بعد عورتیں بھی گھریلو امور سے فارغ ہو کر قرآن پڑھنے آجاتیں۔ آپ نے قرآن کریم پڑھانے میں کبھی احمدی اور غیر احمدی کا فرق نہیں رکھا تھا۔آپ قرآن پڑھانے کے دوران ساتھ ساتھ تبلیغ بھی کرتی جاتیں تھیں ۔ مغرب کی نماز سے کچھ دیر پہلے قرآن پڑھنے والوں کی چھٹی ہو جاتی۔ آپ مغرب کی نماز کے لیے وضو کرتیں اور ساتھ ساتھ مسنون دعائیں بھی پڑھتی جاتی تھیں۔ تقسیم ہندوستان کے وقت آپ نے اپنے سارے کپڑے مہاجرین میں تقسیم کردیئے۔1948ء میں آپ کی صحت بہت کمزور ہو گئی اور آپ جلد ہی اس دار فانی سے منہ موڑ گئیں ۔خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ میری داد ی جان ،دادا جان اور میرے والدین کو اعلیٰ علیّین میں جگہ دے اور ہمیں ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق دے ۔آمین ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button