ادبیات

درّثمین اردوکی چوتھی نظم: عیسائیوں سے خطاب

(حافظ نعمان احمد خان ۔ استاد جامعہ احمدیہ ربوہ)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا ساراکلام نظم و نثر آفاقی ہے۔ ہر زمانے اور خطّے کےلیے آپؑ کےفرمودات زندگی بخش پیغام لیے ہوئے ہیں۔ حضورؑ کے اردومنظوم کلام کا یہ مطالعہ ،ان نظموں پر غور کرنے کی ایک کوشش ہے۔

درِّثمین میں شامل چوتھی نظم ’’عیسائیوں سے خطاب‘‘ سیّدنا حضرت اقدس مسیح موعودؑکی تصنیفِ لطیف ’’براہینِ احمدیہ‘‘ حصّہ سوم، مطبوعہ 1882ءسے ماخوذ ہے۔تیس اشعار پرمشتمل نظم ہئیت کے اعتبارسے مثنوی کہی جاسکتی ہے۔ یہ نظم بحرِِخفیف مسدس میں ہے:مخبون محذوف مقطوع۔

براہینِ احمدیہ حصّہ سوم میں مندرج حاشیہ نمبر 11کی سرخی ’وسوسہ دہم‘ میں حضورؑ نے بعض لوگوں کے اس وہم کا ذکر فرمایا ہے کہ الہام ،معرفتِ کامل تک پہنچنے کی راہ میں مانع و مزاحم ہے۔ اس جگہ آپؑ نے حاشیہ در حاشیہ نمبر 2 میں اس امر کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایاکہ الہامِ کامل ہر قسم کے وساوس کو بکلّی دُور کرتا ہے۔ حق کے طالبوں کےلیے یقینِ کامل کا مرتبہ پانا بجز قرآن کریم کے ممکن نہیں، قرآن کریم ہی وہ کتاب ہے جو تمام فرقوں کے باطل وہموں کو دُور کرتی اور انسان کو حق الیقین کے مقام تک پہنچاتی ہے۔باطل عقائدپر ضد اور ہٹ دھرمی سےقائم رہنےکے حوالے سے حضورؑ نے عیسائیوں کی مثال دی۔ عیسائیوں نےایک عاجز انسان کو رب العالمین بنا رکھا ہے، اور خدا تعالیٰ سے اس حد تک بے پروا ،بے غرض ہوچکے ہیں کہ مؤاخذے کے دن سے بھی نہیں ڈرتے۔

براہینِ احمدیہ حصّہ سوم ،پہلی فصل کی تمہید میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ’امورِ محتاج التکمیل‘ کے ذیل میں فرمایا تھاکہ کتبِ الہامیہ میں جو امورِ تعلیم ناقص اور ادھورے ہوں وہ ایک ایسی الہامی کتاب کے محتاج ہوتے ہیں جو مرتبہ کمال تک پہنچادے۔نظم ’عیسائیوں سے خطاب‘ سے پیشتر اسی امر کی تفصیل مرقوم ہے۔ چنانچہ حضورؑ پرچہ ’نورافشاں‘ 3 مارچ 1882ء میں شائع شدہ ایک پادری صاحب کے اعتراض کا حوالہ دیتے ہیں ،جنہوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ ابدی زندگی کی نسبت ایسے کون سے امور کتابِ مقدس میں نہ تھے جوقرآن نے بیان کیے۔ کن تعلیمات کے بیان میں قرآن انجیل پر فوقیت رکھتا ہے۔ انجیل کے بعد قرآن کی کیا ضرورت تھی۔

اسی طرح آپؑ نے ایک عربی رسالے ’عبد المسیح ابن اسحاق الکندی‘ کا ذکر فرمایا جس میں انجیل کی ناقص اور آلودہ تعلیم کو عوام کی نظروں میں قابلِ تعریف ٹھہرانےکی کوشش کی گئی نیز قرآن کی تعلیم پر بےجا الزامات لگائے گئے۔ ظاہر ہے کہ دلیل کے بغیر ایسے دعوے بےحیثیت ہیں چنانچہ آپؑ نے عیسائی حضرات کو چیلنج دیتے ہوئے فرمایا:

’’ہم نے اسی کتاب میں انجیلی تعلیم کا حقانیت سے بےنصیب ہونا اور قرآنی تعلیم کا مجمع الانوار ہوناصدہا دلائل سے ثابت کردیا ہے اور اس پر نہ صرف دس ہزار روپیہ کا اشتہار دیابلکہ ہمارا خداوندکریم کہ جو دلوں کے پوشیدہ بھیدوں کو خوب جانتا ہے، اس بات پر گواہ ہے کہ اگر کوئی شخص ایک ذرّہ کا ہزارم حصّہ بھی قرآن شریف کی تعلیم میں کچھ نقص نکال سکے یا بمقابلہ اس کےاپنی کسی کتاب کی ایک ذرّہ بھر کوئی ایسی خوبی ثابت کرسکےکہ جو قرآنی تعلیم کے برخلاف ہو۔اور اس سے بہتر ہو۔تو ہم سزائے موت بھی قبول کرنے کو طیّار ہیں۔‘‘

(براہینِ احمدیہ حصّہ سوم،روحانی خزائن جلد اوّل ،بقیہ حاشیہ درحاشیہ نمبر2،صفحہ 292)

حاشیہ در حاشیہ نمبر 2 میں اس جگہ یہ نظم درج ہے۔ نظم کے آغاز میں ہی آپؑ نے عیسائیوں کو مقرر چیلنج دیا ہے کہ قرآن میں جس قدر خوبیاں ہیں ویسی انجیل میں دکھا ؤ۔پھردنیا کی بےثباتی کا تذکرہ فرماتے ہوئے، عیسائی حضرات کوبغض و کینہ کوترک کرکے درست راہ اختیار کرنے کی ترغیب دلائی۔ حیاتِ ابدی کی نسبت پرچہ ’نورافشاں‘ 3 مارچ 1882ء والے اعتراض کا منظوم جواب ملاحظہ ہو۔ فرمایا:

اے عزیزو! سنو کہ بے قرآں
حق کو ملتا نہیں کبھی انساں
ہے یہ فرقاں میں اک عجیب اثر
کہ بناتا ہے عاشقِ دلبر

قرآن کریم کے اوصاف اور کمالات کے دل نشیں بیان کے بعد آخر میں مخالفین کو دوبارہ چیلنج کیا گیا ہے۔

اس کے منکر جو بات کہتے ہیں
یونہی اک واہیات کہتے ہیں
بات جب ہو کہ میرے پاس آویں
میرے منہ پر وہ بات کہہ جاویں

اس نظم کے آٹھویں شعر میں ’خرابہ‘ لفظ ہے۔ اس عربی، مذکراسم کے معنی ویران مکان اور کھنڈر کے ہیں۔ شاعری میں یہ لفظ دنیا یا عالمِ فانی کے لیے بھی مستعمل ہے۔ ’فرہنگِ آصفیہ‘ نے میرؔ کا شعر بطور مثال درج کیا ہے۔

اب خرابہ ہوا جہاں آباد
ورنہ ہراک قدم پہ یاں گھر تھا
پریم بھنڈاری کا یہ شعر دیکھیے۔
گونگا آنگن ہے بہری دیواریں
یہ خرابہ ہے اپنا گھر شاید

چھبیسویں شعر میں ’خورِ ہدیٰ‘ کی ترکیب ہے۔ خور، سورج کے لیے فارسی لفظ خورشید کا مخفف ہے۔ سو اس ترکیب کے معنی ہدایت کا سورج یا ہدایت کی روشنی کے ہوئے۔ غالبؔ کا مشہور شعر ہے:

پرتو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں ایک عنایت کی نظر ہونے تک

اس نظم میں حضورؑ نے قرآن کریم کےلیے ’نور‘ اور ’فرقان‘ جیسے القاب کے ساتھ بعض بہت عمدہ خطاب استعمال فرمائے ہیں جیسے نیّرِ اکبر، بحرِحکمت، خورِ ہدیٰ اور درد مندوں کی دوا وغیرہ۔

درج ذیل دو مصرعے دیکھیے۔

’’اس خرابہ میں کیوں لگاؤ دل‘‘

اور

’’سینہ میں نقشِ حق جماتی ہے‘‘

ان دونوں مصرعوں میں علمِ صرف کا قاعدہ ’امالہ‘ لاگو ہوگا۔ یعنی لفظ ’خرابہ‘ اور ’سینہ‘ دونوں کے بعد کیوں کے ’میں‘(حرفِ جار)آرہا ہےاس لیے ’خرابہ‘ اور ’سینہ‘ دونوں الفاظ کے آخر میں آنے والی ہائے ہوّز(ہ)کو یائے مجہول (ے)سے بدل دیا جائے گا۔ گویا درست ادائیگی کچھ یوں ہوگی کہ

اس خرابے میں کیوں لگاؤ دل

اور

سینے میں نقشِ حق جماتی ہے

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button