متفرق مضامین

گھانا کی جھلکیاں (اپنے سہانے سفر کی داستان)

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان، لیکن پھر بھی کم نکلے

سفر کے حالات لکھتے ہوئے غالب کا یہ شعر ذہن میں آگیا ہے اورمیںیہ لکھنے پر مجبور ہو گئی ہوں کہ کبھی ایسا سوچابھی نہ تھا کہ میں ایسٹ افریقہ میں ایک مدّت مدید رہنے کے بعد اور پھر لندن میں لمبا عرصہ گزار کر کبھی ’گھانا‘ بھی جاؤں گی ۔مگرحقیقت یہ ہے کہ ہوتا وہی ہے جو منظورخداہوتا ہے۔ بچپن میں جب میںاپنے بھائیوں کے ساتھ stamp البم بنانے میںان کی مدد کرتی تھی تو گھانا کے خوبصورت ڈاک ٹکٹ دیکھ کربہت خوش ہوا کرتی تھی اور مختلف رنگوں اورسائزوں کے مطابق انہیں ترتیب سے لگایاکرتی تھی۔اور اب ایک زمانے کے بعد جب میں اس ملک سے ہوکر واپس آئی ہوں تو ایک مرتبہ پھر کچھ یادیں جمع کرکے آئی ہوں جو قلمبند کرنے بیٹھی ہوں۔

ملک کا عمومی تعارف

سب سے پہلے اس ملک کے بارہ میں یہ بتاتی چلوں کہ یہ ملک خط استوا سے چند ڈگری مغرب میں واقع ہے۔ اسی وجہ سے یہاں شدید گرمی ہوتی ہے ۔ ملک کے نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ قدیم زمانے میںموجودہ علاقوں اور کسی قدر جنوبی علاقوں کو شامل کرکے یہاں ایک مضبوط مملکت قائم تھی جسے گھانا کہا جاتا تھا۔گھانا کا مطلب ’’Warrior King‘‘ ہے۔ گھانا میں ایک جھیل جس کا نامLake Voltaہے جو رقبے کے اعتبار سے دنیا کی بڑی مصنوعی جھیلوں میں سے ایک ہے اور اکوسومبو ڈیم سے لے کر گھانا کے جنوبی علاقوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ اس جھیل کے اندر سیاحوں کی دلچسپی کا مرکزتین جزیرے بھی ہیںجن کے نام ڈوڈی(Dodi)، ڈوارف اور کپوروے ہیں۔جبکہ اسی جھیل کی ایک جانب Digya National Parkکی صورت میں وسیع و عریض جنگلات موجود ہیں۔ ملک کا بلند ترین مقام Mount Afadjaہے جو2904 فٹ اونچا ہے۔ آب وہوا Tropicalہے۔ گھانا کے شمال میں بورکینافاسو ہے۔ آئیوری کوسٹ مغرب میں اور Togoمشرق میں ہے۔GMTکی وہ فرضی لائن جس سے ساری دنیا میں وقت معین کیا جاتا ہے وہ انگلستان کے عین شمال میں واقع ہونے کے سبب گھانا کے ایک شہرTemaسے بھی گزرتی ہے دیکھنے والی چیز ہے۔وقت کی قلت کے سبب ہم تو نہیں جا سکے صرف معلومات لی ہیں۔لیکن اس حوالے سے سب سے دلچسپ امر یہ ہے کہ چونکہ خط استوا اورGMTلائن دونوں گھانا سے نہ صرف گزرتی ہیں بلکہ گھانا کی سمندری حدود میں ایک مقام پر ایک دوسرے کو کراس بھی کرتی ہیں اس لیے یہ کہا جاتا ہے کہ زمین کے مرکز سے نزدیک ترین ملک گھانا ہے۔

گھانا میں احمدیت

گھانا میں احمدیت کی قبولیت کی تیاری اللہ تعالیٰ کے فضل سے 1870ء سے ہی شروع ہوچکی تھی جب ایک میتھوڈیسٹ چیف بنیامین سام نے اسلام قبول کر لیا اور قبول اسلام کے بعد وہ بن یامین کہلانے لگے جلد ہی انہوں نے ایک قریبی دوست کو بھی مسلمان بنا لیا جن کا اسلامی نام مہدی رکھا گیا۔ بن یامین نے اپنے علاقہ میں اسلام کے فروغ کے لیے بڑی محنت کی اور جلدہی ایک بہت بڑی تعداد ان کے پیروکاروں میں شامل ہو گئی۔ یہ پیروکار پہلے پہل تو اپنے چیف بن یامین کے گھر پر ہی نمازیں اداکیا کرتے تھے اور دیگر دینی امور میں راہنمائی حاصل کرتے تھے لیکن جلد ہی انہوں نے ایک بڑا ٹکڑا زمین کا حاصل کر لیا تاکہ وہ آزادی سے اپنے چیف کے ساتھ اجتماعی عبادات بجا لا سکیں۔ چنانچہ اس اراضی پر ایک نئے قصبے کی بنیاد ڈالی گئی۔جو اب بھیEkrawfoکے نام سے آباد ہے۔ 1905ءمیں بن یامین کی وفات کے بعد ان کے معتمدچیف مہدی آپانے اس گروپ کی قیادت سنبھالی۔ جنگ عظیم اوّل کے بعد چیف مہدی آپا کے ایک پیروکار یوسف نے خواب میں سفید رنگ کے بعض لوگوں کو اسلامی رنگ میں عبادت کرتے ہوئے دیکھا۔ جب یوسف نے اپنا خواب اپنے بزرگوں اور دوسرے لوگوں کو سنایا تو انہوں نے ایسے لوگوں کی تلاش شروع کی کیونکہ اس وقت تک ان کے خیال میں سفیدفام لوگ تمام کے تمام عیسائی ہی ہوا کرتے تھے۔اسی اثناء میں یوسف کے ایک دوست نے انہیں بتایا کہ اس قسم کے لوگ ہندوستان میں بھی رہتے ہیں۔ چنانچہ یوسف اور ان کے دوستوں نے ہندوستان میں رہنے والے ایسے مذہبی لوگوں کے ساتھ خط وکتابت شروع کردی اور بالآخر ان کا رابطہ جماعت احمدیہ سے ہوگیا۔ چیف مہدی آپا کو بتایا گیا کہ اگر کرایہ کے لیےتین سو پونڈ ز سٹرلنگ کا انتظام کر دیا جائے تو انہیں دینی تعلیم دینے کے لیے ایک مبلغ بھجوایا جا سکتا ہے۔ چیف مہدی آپا اور ان کے مریدوں نے اپنی جائیدادیں اور قیمتی اشیاء کے ذریعے یہ رقم جمع کر کے ہندوستان بھیجی اور پھر ایک لمبے انتظار کے بعد افریقہ کے لیے پہلے مبلغ احمدیت حضرت مولوی عبد الرحیم نیّرؓ صاحب 1921ءمیں سالٹ پانڈ کے ساحل پر اترے۔

دیکھیے کس کس طرح کی مشکلات اور قربانیاں کر کے اس ملک میں اسلام اور احمدیت کی تبلیغ کے لیے مبلغین حاصل ہوئے اور اب کس قدر تیزی سے احمدیت اس ملک میں پھیل رہی ہے جس کی تفصیل میں نے لکھ دی ہے جا کر دیکھنے سے جو مزا آیا ہے وہ الگ کہانی ہے۔

1874ء میں گولڈ کوسٹ (گھانا) برطانیہ کی کالونی بن گیا۔1874ءمیں برطانیہ نے Ashanti قبیلہ کو شکست دے کر گولڈ کوسٹ کے مرکزی حصہ پر قبضہ کر کے اپنی کالونی بنا لیا اور 1897ءمیں پورے گولڈ کوسٹ کو فتح کر لیا اور پھر سونے اور ناریل کی تجارت سے بہت فائدہ اٹھایا۔ جنگ عظیم دوم کے بعد یہاں پربھی تحریک آزادی نے جنم لیا اور 6مارچ1957ءکو اس کی آزادی کا اعلان کر کے اس کا نیا نام غانا رکھ دیا گیا ۔ 1970ءمیں حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے غانا کا پہلا دورہ فرمایا۔ جب آپ اکرا کے ایئرپورٹ پر پہنچے تو استقبال کرنے والے ہزاروں احمدیوں میں ٹرانسپورٹ اور دفاع کے وزیر بھی شامل تھے۔ جس دن حضور وہاں پہنچے اتوار کا دن تھا جو چھٹی کا دن ہوتا ہے لیکن ملک کے صدرنے اُسی دن حضور سے ملاقات کے لیے وقت لیا۔ اس سفر میں حضرت خلیفتہ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے نصرت جہاں سکیم کا آغاز فرمایا چنانچہ اس کے تحت ٹیچی مان میں ابتدائی طور پر ایک احمدی کے مکان میں ہسپتال کھولاگیا جس میں خدمت کے لیے مردان سے مکرم ڈاکٹر بشیر احمد صاحب وہاں پہنچے اور پھر نصرت جہاں سکیم کے تحت اور بہت سے ہسپتال اور سکول کھولے گئے جو ملک اور قوم کی بہترین خدمت کر رہے ہیں۔ماشاء اللہ۔

گھانا میں ہمارا قیام

گھانا کی کل آبادی 30ملین ہے۔عمومی طور پر لوگ انگلش بولتے سمجھتے اور پڑھتے ہیں ۔ ڈرائیونگ میں بھی دقت نہیں ہوئی کہ سب سائن بورڈ انگلش میں لکھے ہوتے ہیں البتہ ڈرائیونگ کرتے ہوئے ڈرائیور بائیں طرف بیٹھتا ہے اور سڑک پر گاڑیاں دائیں جانب چلتی ہیں جو انگلستان سے مختلف اور یورپ کے مطابق ہے۔ عورتیں بہت کم ڈرائیونگ کرتی نظر آتی ہیں تاہم ملک میں عورتوں کی ڈرائیونگ پر کوئی قدغن نہیں بلکہ بہت سی حکومتی کمپنیوں میں عورتیں بڑی بڑی بسیں چلاتی بھی نظر آتی ہیں ۔ یہاں کی برآمدات میں سونا، خام تیل، کوکو اور ٹمبر معروف ہیں۔ ماہی گیری اور ناریل سے بھی بزنس ہوتا ہے۔ دستکاری کا کام بھی بہت خوبصورتی سے ہوتا ہے۔ Seashellsسے بہت سی چیزیں بناتے ہیں۔میں نے بھی لجنہ کے سٹال سے ایک خوبصورت Tissue Boxخریدا جو جمعہ کی نماز کے بعد مسجد کے احاطے میں لگایا گیا تھا۔یہ باکس یہاں لندن میں سب کو بڑا پسند آیا ۔

گھانا کا سفر اور اس کی تیاریاں

اب ذرا ہمارے سفر کی روئیداد بتاؤں کہ ایاز صاحب کو پیارے حضور کے ارشاد پر گھانا میں پہلی پیس کانفرنس میں Key Note Speaker کے طور پر جانا تھا ۔ ایسٹ افریقہ میں ایک لمبا عرصہ رہنے کے بعد ویسٹ افریقہ میںاوروہ بھی گھانا جانے کا سن کر قدرے فکر اور گھبراہٹ بھی ہوئی کہ اس سفر کی ویکسی نیشن کے لیے ہمیں Yellow fever, Hepatitis اور Tetanus کے انجکشن بھی لگوانے ہوں گے۔ خیر ضروری سامان کے علاوہ مچھروں سے بچنے اور ملیریا کی ادویات بھی حاصل کر لیں اور حضور کے ارشادکے مطابق دعائیں کرتے ہوئے سفر کے لیے 6اکتوبر2018ءکو اللہ کے فضلوں کی تیز بارش میں بھیگتے ہوئے ہیتھروایئرپورٹ پہنچ گئے۔ خیال تھا کہ آج بھی فلائٹ لیٹ یا کینسل ہو گی چونکہ گزشتہ کل تو کئی فلائٹس کینسل ہو گئی تھیں مگر ہمارے ساتھ پیارے حضور کی دعائیں تھیں اور بار بار یہ اناؤنسمنٹ سن رہے تھے کہ آخری مسافر ایاز فیملی کے لیے انتظار ہو رہا ہے۔ سیکیورٹی میںلمبی قطار لگی ہوئی تھی، مگر امید واثق تھی کہ ہم ضرور اس فلائٹ سے جا پائیں گے وگرنہ کانفرنس پر بروقت پہنچنا ناممکن ہو جائے گا۔ ہم قطار میں کھڑے انتظار کیے جا رہے تھے کہ ایک شخص بھاگا بھاگا آیا اور ڈاکٹر صاحب سے کہنے لگا کہ بالکل نہ گھبرائیں بلکہ الگ ہو کر میرے ساتھ چلیں،گو آپکی بکنگ اکانومی کلاس میںتھی لیکن آپ کو اپ گریڈ کرکے آپ کی سیٹ کلب ورلڈ میں کر دی گئی ہے ۔ہم نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا کہ یہ کیا ماجرا ہے۔ میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے اور آرام اور سہولتیں مہیا فرماتا ہے۔ ہم نے کسی کو نہیں کہا یا درخواست کی صرف دعائیں کیے جا رہے تھے کہ یا اللہ آج کی فلائٹ سے ہم جا سکیں اور پروگرام اپنے مقررہ وقت پر بہترین طور پر ہو سکے۔ یہ اللہ کا خاص فضل و انعام ہی تھا جو سفر شروع ہوتے ہی ہو رہا ہے ۔ہم تو فبای الاء ربکما تکذبان ہی پڑھنے لگے۔ اب سفر زیادہ آرام دہ بھی ہو گیا اور مزید دعاؤں کی طرف توجہ ہوئی کہ یااللہ یہ پہلا موقع ہے کہ کسی افریقن ملک میں پیس کانفرنس ہے ۔ تُوبہت کامیاب کرنا کیونکہ امیر صاحب گھانا نے یہ بتا رکھا تھا کہ لوگ بہت دلچسپی لے رہے ہیں غیر ازجماعت اور دوسرے مہمان حضرات بھی بکثرت شمولیت کے لیے آرہے ہیں۔ ہم اپنی سیٹوں پر بیٹھ گئے اور ائرہوسٹس ہمیں Welcome کہا اور کولڈ ڈرنک کے ساتھ ایک پیکٹ میں چِھلے ہوئے بادام ساتھ رکھ گئی ۔ چونکہ مجھے تو افریقہ میں لمبا عرصہ گزارنا یاد تھااس لیے میں اپنی یادوں میں موجود واقعات کو دہراتے ہوئے موازنہ بھی کرتی چلی جارہی تھی۔ یہ لوگ بڑی محبت کرنے والے، صاف گو، صفائی پسند اور مخلص ہیں البتہ اگر کوئی ان سے ذرا بھی تلخی سے بات کرے توبہت جلد ناراض بھی ہو جاتے ہیں ۔ پیار محبت کی بڑی قدر کرتے ہیں۔ خلیفہ وقت سے بڑی محبت و عقیدت رکھتے ہیں۔ احترام کرتے ہیں اور اطاعت کرتے اور کرواتے ہیں۔ بچوں سے بھی ملنا ہوا۔ ناصرات کا پروگرام بھی دیکھا اور سنا بڑا ہی اچھا تھا دل خوش ہو گیا۔ لجنہ نے بھی کمال محبت سے اپنی جنرل میٹنگ میں مجھے بلایا ۔ ساری سیکرٹریان نے اپنی اپنی رپورٹ میٹنگ ہال میں کھڑے ہو کر مائیک پر انگلش میں پڑھ کر سنائی۔ انگلش زبان سبھی بولتے اور سمجھتے ہیں ۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ہمار ا سفر تو 6 1/2گھنٹوں میں بڑا خوشگوار گزرا۔تھوڑا بہت آرام بھی کر لیا اور امیر صاحب کو مشن ہاؤس میں مل کر سیدھے ہوٹل میں جا کر ACوالے کمرے میں سو گئے۔ مجھے جہاز کا کھانا ضرور بتانا چاہیے جو کافی دلچسپ تھا اور مزے کا بھی تھا۔ 5بجے لندن ٹائم کے مطابق ہمیں کھانا دیا گیا سٹارٹر میں سلاد اور Cheese کے ساتھ مرغ کی کلیجی کے کباب جو کبھی نہ دیکھے نہ سنے تھے آم کی مزیدار چٹنی کے ساتھ لائے اور پھر آدھے گھنٹے کے بعد کاجو اور مختلف دالوں کے ساتھ پکایا ہوا بکرے کا گوشت اور ابلے ہوئے چاولوں کے ساتھ چھوٹی چھوٹی بھنڈیا ں فرائی کر کے پیش کی گئیں۔ کھانے کا جوڑ کچھ عجیب چیزوں کا تھا بہرحال بھوک لگ رہی تھی اس لیے تھوڑا بہت کھا ہی لیا۔ مگر بعد میں تازہ فروٹ اور کیک چائے اور کافی کے ساتھ آگیا توبہت اچھا لگا۔اکرا ائرپورٹ پر ہمیںVIP Loungeمیں لے آئے اورApple Juice پلایا اور ہم سامان کے انتظار میں بیٹھ گئے جو کہ جلد ہی ہمارے میزبان بآسانی لے آئے۔ رات ہوٹل کے کمرے میں کافی آرام تھا۔ ACچل رہا تھا خوب گھوڑے بیچ کر سوئے۔ الحمدللہ

حضور کا گھانا میں قیام

اب تو یہ ملک کافی ترقی کر چکا ہے لیکن جس زمانے میں ہمارے پیارے حضور حضرت مرزا مسرور احمد ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے وقف کر کے حضرت خلیفہ ثالث رحمہ اللہ کے ارشاد پر یہاں قیام فرمایا وہ وقت بہت مشکل تھا۔ ان مشکل ترین حالات میں بھی آپ نے صبر اور حوصلہ سے یہ وقت گزارا اور اطاعت اور خدمت میں وہ عظیم کام کیے کہ وہاں کے لوگ اور ملک کو جو برکتوں پر برکتیں مل رہی ہیں سب اسی کا پھل معلوم ہوتی ہیں۔آپ کی اس قربانی میں حضور کی بیگم صاحبہ اور بعد ازاں بچے بھی شامل تھے جنہوں نے نہایت سادگی میں اور تنگی میں گزاراکیا۔اس وقت ملکی حالات اس قدر خراب تھے کہ اشیائے ضرورت بھی میسر نہ آتی تھیں۔ بچوں کے لیے دودھ مہیا کرنا بھی بڑاکام تھا۔ ایک ڈرائیور جو ہمیں جامعہ دکھانے لے جا رہے تھے راستے میں باتوں باتوں میں حضور کے ساتھ گزرا ہوا زمانہ یاد کر کے اداس ہو کر بتانے لگے کہ پانی بھی بہت دور سے جا کر لا کر ڈرم میں بھر کر رکھتے تھے۔ شدید گرمی ہوتی تھی ٹرانسپورٹ جس کا نام Boneshaker تھا ہم نے دیکھی۔ ٹرانسپورٹ کیا تھی بس لوہے کا ایک مضبوط ٹرک تھا جس میں صرف لکڑی کے بنچ لگے ہوتے ہیں اور راستے اس قدر دشوار گزار کہ ہر دم جھٹکے لگتے ہیں کبھی دائیں گرتے پڑتے ہیں اور کبھی بائیں۔اِس میں روزانہ سکول کے ٹیچر اور سکول کے بچوں کے علاوہ ملازمین کو بھی سفر کرنا پڑتا تھا ۔ضروری سامان خورو نوش مثلاََ آٹا ، گوشت، سبزیاں اور صابن کہیں دور جا کر لانا پڑتا تھا ۔ ان حالات میں حضور کو سکول کی تعمیر کے لیے سامان وغیرہ خریدنا ہوتا تھا اور یہ سب کوئی آسان کام نہیں تھا۔ صاحبزادہ مرزا وقاص احمد کی پیدائش بھی اسی ملک کی ہے وہ بھی اسی سال پہلی مرتبہ بچوں سمیت وہاں کی سیر کرنے گئے ہوئے تھے۔

قریبی علاقوں کی سیر کا آغاز

اگلے روز ہم جلدی اٹھے اور سادہ سا ناشتہ کر کے امیر صاحب گھانا سے ملاقات کے لیے ان کے آفس چلے گئے۔ بڑی اچھی طرح ملے اور خوش ہوئے کہ آپ آگئے ہیں اور پوچھا کہ اچھا ہوا آپ کی بیگم صاحبہ بھی آئی ہیں۔ ہماری لجنہ گھانا بہت اشتیاق رکھتی ہیں اور اُن سے ملنے کے لیے منتظر ہیں اور پوچھا کہ آپ نے کیا کیا دیکھناہے؟ گھانا کے جماعتی مقامات ، جامعات، سکول اور رقیم پریس کے علاوہ حضور کے گھر اور دیگر مقامات یعنی کماسی اور جلسہ سالانہ کی جگہ اور Beachپر بھی ہم آپ کو لے جائیں گے انشاء اللہ اور خاص طور پر جماعت گھانا کے ہسپتال کا بھی وزٹ ضرور کرائیں گے جو کہ مخلوق خدا کی بے انتہا خدمت کر رہے ہیں اور تبلیغ کا بھی بڑا ذریعہ ہیں۔ اس کے علاوہ باغ احمد اور بستان احمد وغیرہ بھی ضرور لے کر جائیں گے گویا امیر صاحب نے ہمیں خود ہی ساری سیرگاہوں اور قابل دید مقامات کی زبانی سیر بھی کرادی اور مزیدار باتیں بھی بتائیں ۔ بڑے ہی اچھے انسان ہیں۔کہنے لگے MTAکے کیمرامین کو نہ بھولیں وہ آپ کی ساتھ ساتھ تصاویر بھی لے گا۔ چونکہ پیس کانفرنس میں تین دن باقی تھے اس لیے تمام انتظامات چیک کر کے ڈاکٹر صاحب مطمئن ہو کر اپنیSpeechکی تیاری میں مصروف تھے کہ ہمارے میزبان صاحبان تشریف لے آئے کہ آپ کوبعض خاص مقامات کی سیر بھی کرانی ہے اوردن بہت کم ہیں لہذا چلیے آج سب سے پہلے رقیم پریس کا معائنہ رکھا ہے اور وہیں قریبی مسجد میں نماز ہو گی اور دوپہر کے کھانے کے بعد جامعہ دیکھنے چلے جائیں گے۔ اس طرح ایک ہی دن میں دو وزٹ ہو جائیں گے لہذا ہم صبح سویرے تیار ہو کر چل پڑے۔ موسم اس روز بھی شدید گرم تھا ۔ ایک گھنٹے میں ہم رقیم پریس پہنچ گئے جہاں ہماری دو پاکستانی بہنوں کے علاوہ لجنہ گھانا کی صدر صاحبہ اور جنرل سیکرٹری کے علاوہ چند اور ممبرات بھی موجود تھیں جنہوں نے مل کر دوپہر کا کھانا بنایا ہواتھا اور پھر سب نے مل کر نماز بھی پڑھی اور کھانا بھی کھایا اور پھر ہمیں پریس دکھانے لے گئے جو کہ ایک چھوٹی سی جگہ پر ہی مشینری سے اور کاغذوں اور کتابوں سے اٹا پڑا تھا۔پریس کی کارکردگی اور مصروفیات دیکھ کر یقین ہی نہ آتا تھا کہ ہمارے بھائی اس قدر لٹریچر اور کتابیں پرنٹ کر کے جماعت کی اہم خدمات بجا لا رہے ہیں۔ ہمیں بتایا گیا کہ عنقریب ان کو نیا فرنیچر اور پریس کی تمام تر مشینری ملنے والی ہے۔ الحمد للہ کہ یہ تحریر پوری لکھنے سے پہلے ہی یہ خوشخبری مل گئی ہے جس کے لیے بہت خوشی ہوئی ہے۔ الحمد اللہ یہ جگہ TEMAکا انڈسٹریل ایریاہے۔ ڈرائیو کرتے ہوئے بس بے حد دعائیں کرنے کا موقع ملا کہ اس ملک کو جو بھی برکتیں ملی ہیں یا ملیں گی ہمارے آقا کی دعاؤں اور قیام کی برکتوں سے ہی مل رہی ہیں۔ حضور نے جو قربانیاں کیں اُن کے پھل اب جماعت اور اہل گھانا اور ان کی نسلیں کھا رہی ہیں۔ اور گھانا کی جماعتی شہرت بھی کمال ہو گئی ہے کہ ہم جہاز میں بیٹھے تھے کہ ایک افریقن عورت جو ساتھ ہی بیٹھی تھی اُس نے ہم سے پوچھا کہ تم لوگ گھانا کس لیے جا رہے ہو۔ Holidaysپر؟ ہم نے بتایا کہ ہم تو ایک پیس کانفرنس میںشامل ہونے کے لیے جا رہے ہیں تو جھٹ سے کہنے لگی کہ تم سب احمدی ہو؟ میںبخوبی احمدیہ جماعت کو جانتی ہوں بلکہ جس کانفرنس میں تم جا رہے ہو اس کے لیے میں بھی مدعوہوں۔ اگرچہ میں آئرلینڈ میں کونسلر جنرل ہوں مگر میں گھانین ہوں۔ ہر ٹیکسی والا احمدیہ جماعت کو جانتا ہے بلکہ رات کو جب پولیس چوکی پر کار رکوا کر پوچھتے ہیں کہ کہاں جا رہے ہو ۔ چیکنگ ہوتی تو خود ہی کہہ دیتے تھے کہ ACCRAجا رہے ہو تو ضرور احمدیہ جماعت کے لگتے ہو۔ کبھی کسی نے نہ روکابس ایک نظر کار کے اندر باہر ڈالی اور جانے کا اشارہ کر دیتے ہیں۔ ٹیکسی کا ذکر ہوا تویہاں بتاتی چلوں کہ ٹیکسی کے لیے رنگ کی شرط نہیں ہے کوئی بھی کار لیکر آگے اورپیچھے کچھ حصے پر اورنج یعنی مالٹا رنگ کرکے ٹیکسی بنا لیتے ہیں اور اسے کمرشل گاڑی کے طور پر رجسٹرڈ کروالیا جاتا ہے۔گاڑی کی کمرشل نمبر پلیٹ، چھت پر ٹیکسی کا سائن اورفینڈرز پر اورنج رنگ اس بات کی نشانی ہوتی ہے کہ یہ ٹیکسی ہے۔ مزے کی چیز جو یہاںکی سڑکوں پر ہر وقت دیکھنے کو ملی کہ صبح ہوتے ہی اکثر عورتیں اور چند مرد اپنے سروں پر ہر قسم کا سامان خور ونوش حتیٰ کہ تولیے، جرابیں اور انناس، پپیتا، ناریل اور ناشتے کے لیے Buns، کیک بیچ رہے ہوتے ہیںگویا آپ ہر قسم کی اشیاءگھر بیٹھے یا کار میں بیٹھے خرید سکتے ہیں ،دکان پر جانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اتنی وزنی اشیاء سرپر اٹھا کرنا معلوم کیسے بیلنس کرتے ہیں اور چلتے ہوئے ہاتھ چھوڑ کر چلتے بلکہ بھاگتے بھی چلے جاتے ہیں۔ چھوٹی عمر کی لڑکیاں بالیاں بھی یہی کاروبار کرتی ہیں۔

جماعتی ادارہ جات کا وزٹ

جامعہ ہمارے ہوٹل سے تین گھنٹے کی مسافت پر ہے اس لیے علی الصبح ہی نکل پڑے اور راستے میں خوبصورت نظارے بھی دیکھے اور دشوار گزار راستوں سے خوب جھٹکے بھی کھاتے گئے۔ جماعت کا نہایت صاف اور خوبصورت پھولوں سے سجا ہوا قبرستان آگیا تو رک کر دعا بھی کی ۔ ہمارے دونوں مبلغ مولانا عبد الوہاب بن آدم مرحوم اور حافظ جبریل سعید مرحوم ساتھ ساتھ دفن ہیں۔ دعا کی اورتصاویر بھی لیں۔احباب جماعت اور لجنہ کی چند بہنیں بھی ہمارے ساتھ شامل ہو گئی تھیں۔ اب ہم باغ احمد کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ اکرا کی دوسرے نمبر پر Busy Roadہے۔ کل تو شدید گرمی تھی درجہ حرارت 39ڈگری تھا آج 25ڈگری ہے۔ رکنے کا تو ارادہ تھا مگر چونکہ رات کو واپس بھی آنا تھا اس لیے یہ جامعہ جاتے ہوئے جو کچھ راستے میں آیا اس کی دلچسپ اور قابل ذکر بات لکھتی جاتی ہوں تاکہ آپ سب بھی میرے ساتھ گھانا کی سیر کرتے جائیں۔ یہاں ہمیں بتایا گیا کہ یہ علاقہ جس میں سے اب ہم گزر رہے ہیں۔ حدیقتہ المہدی لندن کی طرح کھلی جگہ ہے اس کا نام باغ احمدہے اور یہیں جلسہ سالانہ ہوتا ہے اور اس وقت توجنگل کی طرح حالت تھی۔تمام علاقہ جھاڑیوں اور گھاس سے اٹا پڑا تھا۔ صرف ناریل کے جُھنڈ کے جُھنڈ دکھائی دے رہے تھے۔ اس جگہ کا نامPOMADZE ہے اور یہ جگہWinnebaشہر کے نواح میں واقع ہے۔430ایکڑ ہے۔ یہاں ایک کلینک بھی ہے جو جلسہ کے دنوں میں بہت کام کرتا ہے۔ مرغی فارم بھی ہمیں دکھایا گیا جس کی آمد مہمانوں کے کام آتی ہے جنگل کے بیچوں بیچ حضور اقدس کا گھر تھا جو کہ اب Renovateکیا گیا ہے چند گملے پھولوں کے بھی رکھے تھے ، ایک خوبصورت سا بنگلہ دکھائی دے رہا تھا مگر وہی بات کہ مسکن اداس ہے۔

راستے میں ایک سیکنڈری سکول کی معلومات حاصل کیں ٹیچرز کو ملے چند تصاویر لیں اور خوب انفارمیشن لی مثلاََ ہر بچہ اپنے ساتھ جھاڑو کیوں لے کر آتا ہے اس لیے تاکہ روزانہ اپنے ہوسٹل کے کمروں کی صفائی باری باری کرے۔ خواہ لڑکا ہو یا لڑکی سب کی یونیفارم ہے اور نظم و ضبط بہت ہے ۔ آرام اور سکون سے سب اساتذہ کی بات سنتے اور عمل کرتے ہیں۔ ادب اور تمیز کو کبھی نہیں چھوڑتے۔ ایسارچر نامی قصبے میںحضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا گھر بھی دیکھااور وہ سکول بھی جس کے حضورانور پرنسپل تھے۔ اس سکول کا نام تعلیم الاسلام سیکنڈری سکول ایسارچرہے۔ مسجد بھی سامنے بنی ہوئی ہے۔ بڑی خوبصورت بلڈنگ ہے۔ سکول کا یونیفارم دیدہ زیب ہے ہلکے نیلے رنگ کا لباس لمبا گھٹنوں تک۔ سفید جرابیں اور سفید سکارف ہر بچی کے سر پر اپنی شان دکھا رہا تھا۔ قطاروں میں چلتی چلی جاتی بچیاں بڑی اچھی لگ رہی تھیں۔

اب ہم انٹرنیشنل جامعہ کی طرف جا رہے ہیں جو کہ قابل ذکر ہے اور جماعت کا ایک اہم ادارہ ہے یہاں سے مبلغین تیار ہو کر گھانا اور دیگر ممالک چلے جاتے ہیں، دوسرے اردگرد سے اور دور دراز کے ملکوں سے بچے یہاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں۔ ہمارے جامعہ والوں نے خوبصورت Wrapperپر جامعہ کی تصویر چھپوا کر چاکلیٹ تیار کروائی ہوئی ہے اور جس کوبھی تحفہ پیش کرتے ہیں وہ خوش ہو جاتا ہے۔ یہ چاکلیٹ ایک خاص لذت رکھتی ہے۔اس کے اوپر ہمارے جامعہ گھانا کی خوبصورت بلڈنگ کی تصویرہے۔ جامعہ کیمپس 52ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے۔ دیدہ زیب بھی ہے۔جامعہ میں تمام سہولتوں کے ساتھ ساتھ کافی تعلیمی ڈیپارٹمنٹس بھی ہیں۔پرنسپل صاحب بڑے ہی عمدہ اخلاق کے مالک ہیں ہمیں جامعہ کی عمارت کاوزٹ کروایا۔ یہ قابل دید عمارت ہے منظم اور صفائی کا بلند معیار دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔ پرنسپل صاحب نے ہمیں بتایا کہ یہاں سارا نصاب اردو میں ہی پڑھایا جاتا ہے حالانکہ طلباء کی اکثریت افریقن ہے امتحان بھی اردو میں ہوتے ہیں۔ رات دیر گئے ہم واپس ہوٹل آئے اگلے دن کچھ کھانے کی چیزیں اور مشروب کے علاوہ فروٹ وغیرہ خریدنے کے لیے ہم کو لجنہ کی ایک بہن فاطمہ اور رحمت اپنی کار میں Accra Mall لے گئیں ۔ جہاں سے ضروری اشیائے خوردنی لے آئے ۔ شاپنگ کا طریق بالکل لندن کی طرح ہے البتہ مہنگائی بہت زیادہ ہے مل سب کچھ ہی جاتا ہے۔ الحمد للہ

ہم بستان احمد بھی گئے جہاں ہمارا MTAکا شاندار سٹوڈیو ہے اور ساتھ کئی آفسز بنائے گئے ہیں۔ یہاں لجنہ کی چند ممبرات ہمارے ساتھ ساتھ تھیں۔ ہمیں ہر جگہ لے کر گئیں۔ بڑا عمدہ انتظام شاندار بلڈنگ ہے۔ سیڑھیاں چڑھ کر اوپر جاتے ہیں جہاں سے MTAآفسز کے لیے نیچے کمروں میں جاتے ہیں۔ صفائی کا بے حد اچھا انتظام ہے۔ استقبالیہ سے آگے دونوں طرف برآمدے ہیں۔بہت اچھا لگا یہاں کی سیر کر کے تصاویر بھی لیں ایک پرائمری احمدیہ سکول بھی پاس ہی بنا ہوا ہے اور مسجد تو ہر سکول اور آفس کا حصہ لازم و ملزوم ہے۔ ہماری جماعت میں جونہی نما زکا وقت ہوتا ہے سبھی بچے سکول کے لڑکے اور لڑکیاں لائنوں میں اذان کی آواز سنتے ہی چلے آتے ہیں۔ باقاعدہ وضو کی جگہیں بنی ہیں اور سب آکر امام مسجد کے پیچھے لڑکے اور پیچھے ذرا ہٹ کر لڑکیاں نماز پڑھتی ہیں پھر لنچ بریک کے لیے سب کو لائنوں میں لگ کر کھانا ملتا ہے۔نماز کے بعد MTAکے لان میں خدام نے لیڈیز کے لیے بھی پارٹیشن ڈال کر کھانے کا انتظام کیا ہوا تھا۔ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک کافی دبلی پتلی عورت کو مجھ سے ملایا اور بتایا کہ آج کا کھانا اس عورت نے اکیلے بنایا ہے جو نہایت مزیدار اور گرما گرم بڑے بڑے دیگچوں میں پکا کر لائی تھی اور بڑی خوشی محسوس کر رہی تھی ۔ مرد اور عورتیں تقریباََ پچاس ضرور ہوں گے پھر کھانے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے اجتماعی دعا کرائی۔

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button