حضرت مصلح موعود ؓ

ارشادات حضرت مرزابشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ

(حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)

ایک نکا ح کے خطبہ میں حضر ت خلیفۃ المسیح الثا نی رضی اللہ عنہ نے فر مایا:

رسول کر یم ﷺ نے فر ما یا کہ جنّت ما ں کے قدموں کے نیچے ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ ظا ہر ی طور پر جنّت ما ں کے قد موں کے نیچے ہے بلکہ یہ ہے کہ ماں کی اچھی تر بیت سے جنّت مل جا تی ہے اور اگر ماں اچھی تر بیت نہ کر ے، بچہ کے اخلا ق کی اصلا ح نہ کرے، اس کو مذا ہب سے واقف نہ کر ے تو بچہ کی حا لت تبا ہ ہو جا تی ہے اور قطعاًایسی ما ں کے قد موں کے نیچے جنّت نہیں ہو تی۔ بے شک با پ مقو ّم ہو تا ہے، قیّم ہوتا ہے، نگران ہو تا ہے وہ اکثر معیشت کی فکر میں گھر سے با ہر رہتا ہے اور بہت کم وقت اُسے گھر میں رہنے کے لیے ملتا ہے اور اس تھوڑے سے عر صے میں وہ بچوں کی پوری نگرا نی نہیں کر سکتا۔ بچے کی وہ عمر جس میں وہ نقّا ل ہو تا ہے اور با تیں سیکھتا ہے پا نچ چھ سال کی ہو تی ہے۔ اس وقت نہ با پ اس کی اصلا ح اور نگرا نی کر سکتا ہے اور نہ وہ اس عمر میں کسی استا د یاادب سکھا نے والے کے پا س جا سکتا ہے جس سے وہ اخلا ق سیکھے۔ صر ف ما ں جس کے پا س وہ ہر وقت رہتا ہے اُ س کی نگرا نی کر سکتی ہے۔ اگر ما ں بچے کے سا منے جھوٹ بو لے گی تو بچہ بھی جھوٹ بو لنا سیکھ لے گا اور ماں چوری کرے گی تو بچہ بھی چو ری کر نا سیکھ جائے گا اوراگر ماں دین سے بے پروائی اور غفلت اختیارکرے گی تو بچہ بھی دین سے بے پرواہ اور غافل ہوجائے گالیکن اگر ماں اس کے سا منے سچ بو لے گی تو بچہ بھی سچ بو لنے کا عا دی ہو گا۔ اور اگر ماں دوسروں سے ملتے وقت اخلاق فا ضلہ سے پیش آئے گی تو بچے میں بھی اخلا ق ِ فا ضلہ پیدا ہو جائیں گے۔ اگر ماں غریبوں اور مسکینوں پر رحم کر ے گی تو بچہ میں بھی رحم کا مادہ پیدا ہو جا ئے گا۔ اگر ماں دیندار اور تقویٰ شعارہو گی تو بچہ بھی دیند ار اور تقویٰ شعار ہو جا ئے گا۔ غر ض ما ئوں کی تر بیت پر ہی بچہ کے مستقبل کا انحصا ر ہو تا ہے اور رسول کر یم ﷺ کے اس ارشا دکا کہ جنّت ما ں کے قدموں کے نیچے ہے یہی مطلب ہے۔ دنیا میں کئی مائیں ایسی ہو تی ہیں جو بچوں کی اچھی تربیت نہیں کرتیں بلکہ بجا ئے درست کرنے کے بگا ڑ دیتی ہیں۔ مذہب سے لا پرواہ بنا دیتی ہیں ایسی ماؤ ں کے قدموں کے نیچے جنّت کا ہو نا کو ئی معنے نہیں رکھتا۔جو اولاد اچھی نہ ہو لو گ اس کی ما ں کو بُرا کہیں گے اور اگراولاد اچھی ہو تو لوگ اس کی ماں کی تعریف کریں گے۔ کیونکہ ابتدائی تر بیت جس کا اثر بعد کی زندگی پر پڑ تا ہے ماں ہی کر تی ہے۔ با پ کا نا م اس لیے نہیں لیا جا تا کہ اُ سے نگرانی کے لیے مو قع بہت کم ملتا ہے۔ مگر ما ں کو ہر وقت نگرا نی اور اصلاح کرنے کا مو قع ملتا رہتا ہے۔ وہ ہر وقت بچہ کے سا تھ رہتی ہے اور بچہ بھی ہر وقت ما ں کی امداد کا طا لب ہو تا ہے۔ بچہ ہر وقت اپنی ماں کا سلوک اور محبت دیکھتا ہے۔ پھر وہی عادات جو اس کی ماں کی ہو تی ہیں خو اہ اچھی ہوں یا بری اس بچہ میں پید ا ہو جا تی ہیں کہ اس کے ذ ریعے انسا ن میں ایسا اہم تغیر پیدا ہو جا تا ہے جس کا بعد میں آنے والی زندگی پر بہت بڑا اثر پڑتا ہے ۔

(اوڑھنی والیوں کے لیے پھول صفحہ 312تا 313ر2008نظارت نشرواشاعت قادیان)

دین بچپن میں سکھا نا چا ہیے:۔ اسی طر ح ایک اور خر ابی یہ ہے کہ اور تو سا ری با تیں بچپن میں سکھا نے کی خو اہش کی جاتی ہے مگر دین کے متعلق کہتے ہیں کہ بچّہ بڑا ہو کر سیکھ لے گا ابھی کیا ضرورت ہے۔بچّہ نے ابھی ہو ش نہیں سنبھا لی ہو تی اور ڈا کٹر منع کر تا ہے کہ ابھی اسے پڑھنے نہ بھیجو مگر ما ں با پ اُ سے سکول بھیج دیتے ہیں اور گو وہ کہتے ہیں کہ چو نکہ آوارہ پھرتا ہے اس لیے سکو ل میں بیٹھارہے گا مگر اُن کی خو اہش یہی ہو تی ہے کہ وہ سا ل جو اس کے ہو ش میں آنے کے ہیں اُن میں بھی کچھ نہ کچھ پڑھ ہی لے۔ مگر نما ز کے لیے جب وہ بلو غت کے قر یب پہنچ جا تا ہے تب بھی یہی کہتے ہیں ابھی بچّہ ہے بڑا ہو کر سیکھ لے گا۔ اگر یہ کہا جا ئے کہ بچّے کو نما ز کے لیے جگا ئو تو کہتے ہیں نہ جگا ؤنیند خرا ب ہو گی لیکن اگر صُبح امتحا ن کے لیے انسپکٹر نے آنا ہو تو سا ری رات جگا ئے رکھیں گے۔ گو یا انسپکٹر کے سا منے جا نے کا تو اتنا فکر ہو تا ہے کہ مگر یہ نہیں کہ خداکے حضور جانے کے لیے جگا دیں۔ تو بچّے کو بچپن میں ہی دین سکھا نا چاہیے جو بچپن میں نہیں سکھا تے اُن کے بچے بڑے ہو کر بھی نہیں سیکھتے……پس جب تک ما ں با پ یہ نہ سمجھیں گے کہ دین سیکھنے کازما نہ بچپن ہے اور جب تک یہ نہ سمجھیں گے کہ ہما را اثر بچپن میں ہی بچوں پر پڑ سکتا ہے تب تک بچّے دیند ار نہیں بن سکیں گے۔

(اوڑھنی والیوں کے لیے پھول صفحہ127ستمبر2008نظارت نشرواشاعت قادیان)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button