سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

شمائل مہدی علیہ الصلوٰۃ والسلام

(’اے ولیم‘)

حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کے عشقِ الٰہی کا بیان

(گزشتہ سے پیوستہ )اپنی اسی محبت کا اظہار ایک اور رنگ میں فرماتے ہیں۔اور کیا ہی عاشقانہ رنگ ہے کہ اپنی عزت و آبرو اور جان ودل اور دین و دنیا کی بازی ہی لگادی۔خدا سے اس محبت کا فیصلہ اسی خدائے ذوالجلال سے چاہتے ہوئے یوں زاری کرتے ہیں :

اے قدیر و خالقِ ارض و سما
اے رحیم و مہربان و رہنما

اے کہ میداری تو بر دِلہا نظر
اے کہ از تو نیست چیزے مستتر

گر تُو مے بینی مرا پُرفسق و شر
گر تو دیداستی کہ ہستم بدگہر

پارہ پارہ کُن منِ بدکار را
شاد کُن ایں زُمرۂ اغیار را

آتش افشاں بر در و دیوارِ من
دشمنم باش و تبہ کُن کارِ مَن

در مرا از بندگانت یافتی
قبلۂ من آستانت یافتی

در دلِ من آں محبت دیدۂ
کز جہاں آں راز را پوشیدۂ

بامن از روئے محبت کارکُن
اندکے افشاءِ آں اسرار کُن

اے کہ آئی سوئے ہر جویندۂ
واقفی از سوزِ ہر سو زندۂ

زاں تعلق ہا کہ با تو داشتم
زاں محبت ہا کہ در دل کاشتم

خود بروں آ از پئے ابرائِ من
اے تو کہف و ملجا و ماوائے من

آتشے کاندر دلم افروختی
وزدمِ آں غیرِ خود را سوختی

ہم ازاں آتش رُخِ من بر فروز
وِیں شبِ تارم مبدّل کُن بروز

(حقیقت المہدی، روحانی خزائن جلد14 صفحہ434)

“یعنی اے میرے قادر و قدیر خدا! اے وہ جو زمین و آسمان کا واحد خالق و مالک ہے۔اے وہ جو اپنے بندوں پر بے انتہا رحم کرنے والا اور اُن کی ہدایت کا بےحد آرزو مند ہے۔ہاں اے میرے آسمانی آقا جو لوگوں کے دلوں کی گہرائیوں پر نظر رکھتا ہے۔جس پر زمین و آسمان کی کوئی چیز بھی پوشیدہ نہیں۔اگر تُو دیکھتا ہے کہ میرا اندرونہ فسق و فساد اور فتنہ و شر کی نجاست سے بھرا ہوا ہے۔اگر تُو مجھے ایک بدفطرت اور ناپاک سیرت انسان خیال کرتا ہے تو میں تجھے تیرے جبروت کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ مجھ بدکار کو پارہ پارہ کرکے رکھ دے اور میرے مخالفوں کے دلوں کو ٹھنڈا کر۔تُو میرے در و دیوار پر اپنے عذاب کی آگ برسا اور میرا دشمن بن کر میرے کاموں کو تباہ و برباد کردے۔لیکن اگر تُو جانتا ہے کہ میں تیرا اور صرف تیرا ہی بندہ ہوں ۔اور اگر تُو دیکھ رہا ہے کہ صرف تیرا ہی مبارک آستانہ میری پیشانی کی سجدہ گاہ ہے۔اگر تُو میرے دل میں اپنی وہ بےپناہ محبت پاتا ہے جس کا راز اِس وقت تک دنیا کی نظروں سے پوشیدہ ہے۔تو اے میرے پیارے آقا! تُو مجھے اپنی محبت کا کرشمہ دکھا اور میرے عشق کے پوشیدہ راز کو لوگوں پر ظاہر فرما دے۔

ہاں اے وہ جو کہ ہر متلاشی کی طرف خود چل کر آتا ہے اور ہر اُس شخص کے دل کی آگ سے واقف ہے جو تیری محبت میں جل رہا ہے۔میں تجھے اپنی اُس محبت کے پودے کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ جو میں نے تیرے لیے اپنے دل کی گہرائیوں میں لگا رکھا ہے کہ تُو میری بریّت کے لیے باہر نکل آ۔

ہاں ! ہاں ! اے وہ جو میری پناہ اور میرا سہارا اور میری حفاظت کا قلعہ ہے وہ محبت کی آگ جو تُو نے اپنے ہاتھ سے میرے دل میں روشن کی ہے اور جس کی وجہ سے میرے دل و دماغ میں تیرے سوا ہر دوسرا خیال جل کر راکھ ہو چکا ہے۔تُو اب اِسی آگ کے ذریعہ میرے پوشیدہ چہرے کو دنیا پر ظاہر کر دے اور میری تاریک رات کو دن کی روشنی میں بدل دے۔”

(ترجمہ ازسیرت طیبہ ص22-23)

حضرت اقدسؑ اوائل جوانی میں ڈلہوزی بھی متعدد مرتبہ گئے۔وہاں کے سفروں کے متعلق اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے فرمایاکرتے :

“جب کبھی ڈلہوزی جانے کامجھے اتفاق ہوتاتوپہاڑوں کے سبزہ زارحصوں اوربہتے ہوئے پانیوں کودیکھ کرطبیعت میں بے اختیار اللہ تعالیٰ کی حمدکاجوش پیداہوتااورعبادت میں ایک مزہ آتا…”

(تاریخ احمدیت جلداول صفحہ 76)

آپؑ فرماتے ہیں :

“جب میں ان بڑے بڑے اجرام کودیکھتاہوں اوران کی عظمت اورعجائبات پرغورکرتاہوں اوردیکھتاہوں کہ صرف ارادۂ الٰہی سے اور اس کے اشارہ سے ہی سب کچھ ہوگیا تو میری روح بے اختیاربول اٹھتی ہے کہ اے ہمارے قادرخدا توکیا ہی بزرگ قدرتوں والا ہے۔تیرے کام کیسے عجیب اور وراء العقل ہیں ۔نادان ہے وہ جو تیری قدرتوں سے انکار کرے۔”

(نسیم دعوت ،روحانی خزائن جلد19ص425حاشیہ)

آپ مزید فرماتے ہیں :

“اے سننے والو سنو!! کہ خدا تم سے کیا چاہتا ہے بس یہی کہ تم اُسی کے ہو جاؤ اُس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرو نہ آسمان میں نہ زمین میں ۔ہمارا خدا وہ خدا ہے جو اب بھی زندہ ہے جیسا کہ پہلے زندہ تھا اور اب بھی وہ بولتا ہے جیسا کہ وہ پہلے بولتا تھا اور اب بھی وہ سنتا ہے جیسا کہ پہلے سنتا تھا۔یہ خیال خام ہے کہ اس زمانہ میں وہ سنتا تو ہے مگر بولتا نہیں ۔بلکہ وہ سنتا اور بولتا بھی ہے، اس کی تمام صفات ازلی ابدی ہیں کوئی صفت بھی معطل نہیں اور نہ کبھی ہوگی۔وہ وہی واحد لاشریک ہے جس کا کوئی بیٹا نہیں اور جس کی کوئی بیوی نہیں ۔

وہ وہی بے مثل ہے جس کا کوئی ثانی نہیں اور جس کی طرح کوئی فرد کسی خاص صفت سے مخصوص نہیں اور جس کا کوئی ہمتا نہیں جس کا کوئی ہم صفات نہیں اور جس کی کوئی طاقت کم نہیں وہ قریب ہے باوجود دور ہونے کے۔اور دُور ہے باوجود نزدیک ہونے کے۔وہ تمثّل کے طور پر اہل کشف پر اپنے تئیں ظاہر کر سکتا ہے مگر اُس کے لیے نہ کوئی جسم ہے اور نہ کوئی شکل ہے اور وہ سب سے اوپر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ اُس کے نیچے کوئی اور بھی ہے۔اور وہ عرش پر ہے مگر نہیں کہہ سکتے کہ زمین پر نہیں ۔وہ مجمع ہے تمام صفات کاملہ کا، اور مظہر ہے تمام محامد حقہ کا، اور سرچشمہ ہے تمام خوبیوں کا۔اور جامع ہے تمام طاقتوں کا۔اور مبدء ہے تمام فیضوں کا۔اور مرجع ہے ہر ایک شَے کا۔اور مالک ہے ہر ایک ملک کا۔اور متّصف ہے ہر ایک کمال کا۔ اور منزّہ ہے ہر ایک عیب اور ضعف سے۔اور مخصوص ہے اِس امر میں کہ زمین والے اور آسمان والے اُسی کی عبادت کریں اور اُس کے آگے کوئی بات بھی اَنْ ہونی نہیں اور تمام روح اور اُن کی طاقتیں اور تمام ذرّات اور اُن کی طاقتیں اُسی کی پیدائش ہیں۔اُس کے بغیر کوئی چیز ظاہر نہیں ہوتی۔وہ اپنی طاقتوں اور اپنی قدرتوں اور اپنے نشانوں سے اپنے تئیں آپ ظاہر کرتا ہے اور اُس کو اسی کے ذریعہ سے ہم پا سکتے ہیں اور وہ راستبازوں پر ہمیشہ اپنا وجود ظاہر کرتا رہتاہے اور اپنی قدرتیں اُن کو دکھلاتا ہے اِسی سے وہ شناخت کیا جاتا اور اِسی سے اُس کی پسندیدہ راہ شناخت کی جاتی ہے۔

وہ دیکھتا ہے بغیر جسمانی آنکھوں کے۔اور سنتا ہے بغیر جسمانی کانوں کے۔اور بولتا ہے بغیر جسمانی زبان کے۔اسی طرح نیستی سے ہستی کرنا اُس کا کام ہے جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ خواب کے نظارہ میں بغیر کسی مادہ کے ایک عالم پیدا کر دیتا ہے اور ہر ایک فانی اور معدوم کو موجود دکھلا دیتا ہے پس اسی طرح اس کی تمام قدرتیں ہیں ۔نادان ہے وہ جو اُس کی قدرتوں سے انکار کرے۔اندھا ہے وہ جو اُس کی عمیق طاقتوں سے بےخبر ہے۔وہ سب کچھ کرتا ہے اور کر سکتا ہے بغیر اُن امور کے جو اُس کی شان کے مخالف ہیں یا اُس کے مواعید کے برخلاف ہیں۔اور وہ واحد ہے اپنی ذات میں اور صفات میں اور افعال میں اور قدرتوں میں ۔”

(الوصیت،روحانی خزائن جلد20 صفحہ 309-311)

حضرت اقدسؑ اپنے منظوم کلام میں فرماتے ہیں :

کس قدر ظاہر ہے نور اس مبدء الانوار کا
بن رہا ہے سارا عالَم آئینہ ابصار کا

چاند کو کل دیکھ کر میں سخت بے کل ہو گیا
کیونکہ کچھ کچھ تھا نشاں اس میں جمال یار کا

اُس بہار حُسن کا دل میں ہمارے جوش ہے
مت کرو کچھ ذکر ہم سے تُرک یا تاتار کا

ہے عجب جلوہ تری قدرت کا پیارے ہر طرف
جس طرف دیکھیں وہی رہ ہے ترے دیدار کا

چشمۂ خورشید میں موجیں تری مشہود ہیں
ہر ستارے میں تماشا ہے تری چمکار کا

تونے خود روحوں پہ اپنے ہاتھ سے چھڑکا نمک
اس سے ہے شورِ محبت عاشقان زار کا

کیا عجب تو نے ہر اک ذرّہ میں رکھے ہیں خواص
کون پڑھ سکتا ہے سارا دفتر اُن اسرار کا

تیری قدرت کا کوئی بھی انتہا پاتا نہیں
کس سے کھل سکتا ہے پیچ اس عقدۂ دشوار کا

خوبرویوں میں ملاحت ہے ترے اس حسن کی
ہر گُل و گلشن میں ہے رنگ اُس تری گلزار کا

چشم مست ہر حسیں ہر دم دکھاتی ہے تجھے
ہاتھ ہے تیری طرف ہر گیسوئے خم دار کا

آنکھ کے اندھوں کو حائل ہوگئے سو سو حجاب
ورنہ تھا قبلہ ترا رُخ کافر و دیندار کا

ہیں تری پیاری نگاہیں دلبرا اِک تیغ تیز
جن سے کٹ جاتا ہے سب جھگڑا غمِ اغیار کا

تیرے ملنے کے لیے ہم مل گئے ہیں خاک میں
تا مگر درماں ہو کچھ اِس ہجر کے آزار کا

ایک دم بھی کل نہیں پڑتی مجھے تیرے سوا
جاں گھٹی جاتی ہے جیسے دل گھٹے بیمار کا

شور کیسا ہے تیرے کوچہ میں لے جلدی خبر
خوں نہ ہوجائے کسی دیوانہ مجنوں وارکا

(سرمہ چشم آریہ، روحانی خزائن جلد2 صفحہ52)

(جاری ہے )

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button