ادبیات

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام (قسط نمبر 3)

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

اس زمانہ میں جنگ باطنی کے نمونے دکھانے مطلوب ہیں

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

’’اب اس زمانہ میں جس میں ہم ہیں ۔ظاہری جنگ کی مطلق ضرورت اور حاجت نہیں ۔بلکہ آخری دنوں میں جنگ باطنی کے نمونے دکھانے مطلوب تھے اور روحانی مقابلہ زیر نظر تھا ۔کیونکہ اس وقت باطنی ارتداداور الحاد کی اشاعت کے لیے بڑے بڑے سامان اور اسلحہ بنائے گئے اس لیے ان کا مقابلہ بھی اُسی قسم کے اسلحہ سے ضروری ہے کیونکہ آج کل امن وامان کا زمانہ ہے ۔اور ہم کو ہر طرح کی آسائش اور امن حاصل ہے آزادی سے ہر آدمی اپنے مذہب کی اشاعت اور تبلیغ اور احکام کی بجاآوری کرسکتاہے۔پھر اسلام جو امن کا سچا حامی ہے بلکہ حقیقتاً امن اور سلم اور آشتی کا اشاعت کنندہ ہی اسلام ہے ۔کیونکر اس زمانہ امن وآزادی میں اُس پہلے نمونہ کو دکھانا پسند کرسکتا تھا ؟پس آج کل وہی دوسرا نمونہ یعنی روحانی مجاہدہ مطلوب ہے کیونکہ

؂ کہ حلواچو یکبارخوردندوبس‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ 58)

٭…اس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فارسی کا یہ مصرع استعمال کیا ہے کِہْ حَلوَاچُوْیِکْ بَارْ خُوْردَنْدو بَسْ۔ ترجمہ:۔ حلوا جو ایک بار کھالیا کافی ہے۔

شیخ مصلح الدین سعدی نے گلستان کے چوتھے باب میں تحریر کیا ہے کہ فارسی ادب میں تکرار گوئی سے اجتناب آداب میں شامل ہے ۔جس کی مثال دیتے ہوئے لکھا ہےکہ سحبان بن وائل خوش کلامی اور نیک گفتاری میں ایک بے مثل شخص تھا ۔ ا ِس کی دلیل یہ ہے کہ وہ سال بھر کی گفتگو میں کوئی لفظ نہ دہراتا۔ اگر کسی لفظ کو دوبارہ استعمال کرنے کی ضرورت پیش آتی تو اس کا ہم معنی لفظ استعمال کرتا۔بادشاہوں کے ہم نشینوں کے آداب میں سے یہ ایک ادب ہے ۔

سُخَنْ گَرْچِہْ دِلْبَنْد وشِیْرِیْن بُوَدْ
سَزَاوَارِ تَصْدِیْق و تَحْسِیْن بُوَدْ

ترجمہ :۔کلام جتنا جاذب اوردلکش ہو۔اتنا ہی تصدیق و تحسین کے قابل ہوتا ہے ۔

چُوْیِکْ بَارْ گُفْتِی ،مَگُوْ بَازْ پَسْ
کِہْ حَلْوَاچُوْیِکْ بَارْ خُوْردَنْد،بس

ترجمہ :۔جو بات ایک بار کردی اسے دوبارہ نہ کہو کیونکہ حلوا جو ایک بار کھا لیا کافی ہے۔

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button