ادبیاتکلام امام الزمان علیہ الصلاۃ والسلام

ملفوظات حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام

(محمود احمد طلحہ ۔ استاد جامعہ احمدیہ یو کے)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی تحریروں اور تقریروں میں دوسرے اساتذہ کےفارسی کے قریبا ًدو اڑھائی سو اشعار نقل کیے ہیں۔یہ عام دستور ہے کہ مصنف اور مقرر استدلال یا استشہاد کی خاطر دوسرے شعراء کے شعر اپنی تحریر یا تقریر میں لے آتے ہیں چونکہ ایسے اشعار عموماًزبان زد خلائق ہوتے ہیں یا کم از کم علماء میں رائج ہوتے ہیں اس لیے تحریر یا تقریر میں یہ ظاہر کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی کہ وہ کس کے شعرہیں ۔دوسرے شاعر کا حوالہ دینا اس صورت میں ضروری ہے جب وہ شعر اپنی نظم میں شامل کیاجائے اور وہ ہوبھی غیرمشہورلیکن اگر نظم میں شامل نہ کیا جائے بلکہ ویسے ہی کسی تحریر یا تقریر میں نقل کیا جائے تو پھر ماخذ کا حوالہ دینے کی ضرورت نہیں خواہ وہ شعر مشہور ہو یا نہ ہو۔حسب دستور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلا م نے جہاں بھی ایسے اشعار کو نقل کیا ہے اُن کے ماخوذ کا حوالہ نہیں دیا ہاں بعض جگہ متعلقہ شاعر کا ذکر کر دیاہے۔محترم عبد الحق صاحب رامہ کی تحقیق کے مطابق آپؑ نے سب سے زیادہ یعنی (نوےسے اوپر )جس بزرگ کے اشعار استعمال فرمائے ہیں وہ شیخ سعدی رحمۃاللہ ہیں۔ ان کے بعد مولانا روم اور حافظ شیرازی کے پچیس پچیس اشعار، اسی طرح مولانا جامی کے چھے، مولانا نظام گنجوی کے پانچ، امیر خسرو کے چار، عمر خیام او رسرمد کے تین تین، عبداللہ انصاری کے دو اور بعض شعراء کا ایک ایک شعر اپنی تقریر و تحریر میں بیان فرما کر ان کی عزّت افزائی فرمائی ہے۔ ان کے علاوہ کچھ اشعار ضرب الامثال ہیں۔

یہ بعض فارسی شعراء کی خوش نصیبی ہے کہ ان کے بعض اشعار اور مصرعے حضرت اقدسؑ کو الہام بھی ہوئےجن میں سعدی کے آٹھ اور حافظ کے تین ،نظام گنجوی کے دو، ناصر علی سرہندی ،عمر خیام او ر امیر خسرو کا ایک ایک شعر شامل ہیں۔ اس خوش نصیبی کا سبب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ شاعر آ پؑ کے دل پسند شاعر تھے اور آپؑ کی پسند کی پاسداری میں اللہ تعالیٰ نے مختلف پیش آمدہ حالات کے مطابق آئندہ کی خبریں دینے کی غرض سے ان کے کلام میں آپؑ سے خطاب فرمایا اور آپؑ کی دل پسندی کا لحاظ فرمایا۔

یہ امر بھی قابل ذکر ہےکہ حضرت اقدسؑ نے دوسرے بزرگوں کے جو اشعار نقل کیے ہیں ان میں سے بعض کے الفاظ میں اور ان بزرگوں کی کتب کے مروجہ نسخوں میں مندرج ان اشعار کے الفاظ میں کہیں کہیں کچھ فرق ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں ایک یہ کہ نقل در نقل ہوتے ہوئے ان کتب کے مختلف نسخوں میں بہت سے اختلافات پیدا ہوگئے ہیں لہٰذ اممکن ہے کہ جس نسخے میں حضرت اقدسؑ نے کوئی شعر ملاحظہ فرمایا ہواس میں اسی طرح لکھا ہوجیسے حضرت اقدس نے نقل فرمایا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ آپؑ نے اس میں خود تبدیلی کرلی ہو مثلاً مثنوی مولانا روم کے ایک نسخے میں یہ شعر یوں لکھا ہے :

تَا دِلِ مَرْدِ خُدَا نَاَیَدْ بِدَرْد
ھِیْچ قَوْمِے رَاخُدَا رُسْوَانَکَرْد

یعنی جب تک کسی مرد خدا کےدل میں دردپیدا نہیں ہوتا خدا کسی قوم کو ذلیل نہیں کرتا ۔

مصرع اول میں ‘‘ناید’’کا لفظ جو کہ آمدن مصدر سے مضارع نفی کا صیغہ ہے سہو کاتب ہے ۔کیو نکہ دوسرے مصرع میں ‘‘نکرد’’فعل ماضی ہے لہٰذا پہلے مصرع میں بھی ماضی ہونا چاہیے نہ کہ مضارع چنانچہ حضرت اقدسؑ نے نقل کرتے وقت ‘ناید’کو ‘نامد’ سے بدل لیا۔ایسی تصحیح اہل فن کے نزدیک مستحسن ہے۔

الفضل انٹر نیشنل میں حضر ت مسیح موعود علیہ السلام کے فارسی منظوم کلام جو کہ درثمین فارسی کی صورت میں موجود ہے کے علاوہ آپ علیہ السلام کی تقاریر اور تحریرات میں آمدہ فارسی مواد کوسیاق وسباق ،اردو ترجمہ اور حوالہ کے ساتھ جبکہ بعض حوالوں کو مختصر وضاحت کے ساتھ پیش کرنے کا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے۔قارئین کی سہولت کےلیےفارسی حصوں پر اعراب بھی لگائے گئے ہیں ۔اس کا م کا آغاز ملفوظات حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے کیا جارہا ہے۔ جس میں دس جلدوں پر مشتمل ملفوظات ، ایڈیشن1984 مطبوعہ برطانیہ پیشِ نظر ہے ۔

انسان منافقانہ طرز نہ رکھے:‘‘(انسان کو لازم ہے )منافقانہ طرز نہ رکھے ۔مثلاًاگر ایک ہندو (خواہ حاکم یا عہدیدار ہو)کہے کہ رام اور رحیم ایک ہے ۔تو ایسے موقع پر ہاں میں ہاں نہ ملائے۔ اللہ تعالیٰ تہذیب سے منع نہیں کرتا ۔مہذبانہ جواب دیوے۔ حکمت کے یہ معنے نہیں ہیں کہ ایسی گفتگو کی جاوے ۔جس سے خواہ نخواہ جوش پیدا ہو اور بیہودہ جنگ ہو۔ کبھی اخفائے حق نہ کرے ہاں میں ہاں ملانے سے انسان کافر ہوجاتا ہے ۔

یارغالب شَوکہ تا غالب شوی

اللہ تعالیٰ کا لحاظ اور پاس رکھنا چاہیئے۔ہمارے دین میں کوئی بات تہذیب کے خلاف نہیں ۔’’ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 6)

٭…اس گفتگو میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فارسی کا یہ مصرع استعمال فرمایا ہے ؎

یَارِ غَالِبْ شَوْ کِہ تَا غَالِبْ شَوِیْ

جو کہ مولانا روم کے ایک شعر کا پہلا مصرع ہے۔ مکمل شعر کچھ یوں ہے ۔؎

یَارِ غَالِبْ شَوْ کِہ تَا غَالِبْ شَوِیْ
یَارِمَغْلُوْبَانْ مَشَوْ ھِیْن اَیْ غَوِیْ

ترجمہ:۔ توزبردست کاساتھی بن تاتوبھی غالب بن جائے۔ تو شکست خوردہ لوگوں کا ساتھی نہ بن کیوں کہ یہ احمقانہ طریق ہے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

ایک تبصرہ

  1. السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔الفضل انٹرنیشنل کا نیا دَور جس میں ہر ہفتہ دو دفعہ یہ مسیح محمدی کے موعود بیٹے کا لگایا گیا شیریں پھل ہماے دلوں کو روحانی غذا مہیا کرنے کے لیے میسر رہے گا۔سب احمدی احباب کو مبارک ہو۔۔نیز خلافت کے عظیم الشان پھل کو حاصل کرنے کے لیے ایمان اور عمل صالح کے پانی سے سیراب شدہ اعمال ہم سب احمدی احباب کی طرف سے ہر طرفۃ العین مقبول طور پر منصہ شہود پر آتے رہیں آمین۔خاکسار کی طرف سے الفضل انٹرنیشنل کی پوری ٹیم کو بہت بہت مبارک ہو۔

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button