الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

٭……٭……٭……٭……٭……٭

حضرت مصلح موعودؓ کا عشق رسولﷺ

مجلس خدام الاحمدیہ بھارت کے ماہنامہ ‘‘مشکوٰۃ’’ فروری 2012ء میں مکرم راشد احمد صاحب حیدرآبادی کے قلم سے ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں حضرت مصلح موعودؓ کے عشق رسولﷺ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

حضرت مصلح موعودؓ نے 1944ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

‘‘مَیں کسی خوبی کا اپنے لیے دعویدار نہیں ہوں۔ مَیں فقط خداتعالیٰ کی قدرت کا ایک نشان ہوں اور محمد رسول اللہﷺ کی شان کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے مجھے ہتھیار بنایا ہے۔ اس سے زیادہ نہ مجھے کوئی دعویٰ ہے نہ مجھے کسی دعویٰ میں خوشی ہے۔ میری ساری خوشی اسی میں ہے کہ میری خاک محمد رسول اللہﷺ کی کھیتی میں کھاد کے طور پر کام آجائے اور اللہ تعالیٰ مجھ سے راضی ہوجائے اور میرا خاتمہ رسول کریم ﷺ کے دین کے قیام کی کوشش پر ہو۔’’

نصف صدی سے زیادہ اسلام کا یہ بطلِ جلیل مسندِ خلافت پر رونق افروز رہا اور اس دوران معاندینِ اسلام نے کئی مرتبہ اپنی نادانی اور شرارت سے آنحضرت ﷺ کی ذاتِ اقدس پر کیچڑ اچھالنے کی ناپاک کوشش کی۔ کبھی ‘‘ورتمان’’ اخبار میں ناپاک مضمون چھپوائے تو کبھی ‘‘رنگیلا رسول’’ قسم کی دلوں کو چھلنی کردینے والی کتابیں شائع کی گئیں۔ حضرت مصلح موعودؓ کا دل یہ سب دیکھ کر لہولہان ہو جاتا تھا اور آپؓ اپنے محبوب ﷺ کی ناموس کے دفاع کے لیے سینہ سِپر ہوجاتے۔ کبھی یہ فرض تقریر و تحریر کے ذریعہ ادا کرتے اور کبھی جلسہ ہائے سیرت النبیﷺ اور یوم پیشوایان مذاہب کے سلسلہ کو جاری فرماکر۔

1927ء میں ایک ہندو اخبار ‘‘ورتمان’’ میں ایک مضمون شائع ہوا تو حضورؓ نے ایک پوسٹر کی شکل میں اپنا بیان ایک ہی رات میں طبع کرواکر ملک کے طول و عرض میں چسپاں کروادیا۔ اس میں آپؓ نے فرمایا:

‘‘مَیں پوچھتا ہوں کہ کیا مسلمانوں کو ستانے کے لیے ان لوگوں کو کوئی اَور راستہ نہیں ملتا۔ ہماری جانیں حاضر ہیں۔ ہماری اولادوں کی جانیں حاضر ہیں۔ جس قدر چاہیں ہمیں دکھ دے لیں لیکن خدارا نبیوں کے سردار محمد مصطفیٰ ﷺ کو گالیاں دے کر آپؐ کی ہتک کرکے اپنی دنیا اور آخرت کو تباہ نہ کریں کہ اس ذاتِ بابرکت سے ہمیں اس قدر تعلق اور وابستگی ہے کہ اِس پر حملہ کرنے والوں سے ہم کبھی صلح نہیں کرسکتے۔ ہماری طرف سے باربار کہا گیا ہے اور مَیں پھر دوبارہ ان لوگوں کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہماری جنگل کے درندوں اور بَن کے سانپوں سے صلح ہوسکتی ہے لیکن ان لوگوں سے ہرگز ہرگز صلح نہیں ہوسکتی جو رسول کریم ﷺ کو گالیاں دینے والے ہیں۔’’

(الفضل 10؍جون 1927ء)

اس پوسٹر کی اشاعت کے بعد مسلمانوں نے بھرپور احتجاج کیا۔ چنانچہ اخبار ‘‘ورتمان’’ کے مالک اور مضمون نگار پر مقدمہ چلا اور انہیں بالترتیب ایک سال اور چھ ماہ قید کی سزا ہوئی۔ مسلمانوں نے خوشی سے حضورؓ کو مبارکباد کے خطوط اور تار بھیجے۔ لیکن آپؓ نے ان کے جواب میں فرمایا:
میرا دل غمگین ہے کیونکہ مَیں اپنے آقا، اپنے سردار حضرت محمد مصطفی ﷺ کی ہتک عزّت کی قیمت ایک سال کے جیل خانے کو قرار نہیں دیتا۔ مَیں اُن لوگوں کی طرح ،جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو گالیاں دینے والے کی سزا قتل ہے، ایک آدمی کی جان کو بھی اس کی قیمت قرار نہیں دیتا۔ مَیں ایک قوم کی تباہی کو بھی اس کی قیمت قرار نہیں دیتا کیونکہ میرے آقاؐ کی عزّت اس سے بالا ہے کہ کسی فرد یا جماعت کا قتل اس کی قیمت قرار دیا جائے۔ کیونکہ کیا یہ سچ نہیں کہ میرا آقاؐ دنیا کو جِلا دینے کے لیے آیا تھا نہ کہ مارنے کے لیے۔ وہ لوگوں کو زندگی بخشنے کے لیے آیا تھا نہ کہ ان کی جان نکالنے کے لیے۔ غرض محمد رسول اللہ کی عزّت دنیا کے احیاء میں ہے نہ اِس کی موت میں۔ پس مَیں اپنے آقاؐ سے شرمندہ ہوںکیونکہ اسلام کے خلاف موجودہ شورش درحقیقت مسلمانوں کی تبلیغی سستی کا نتیجہ ہے۔ قانون ظاہری فتنہ کا علاج کرتا ہے نہ دل کا اور میرے لیے اس وقت تک خوشی نہیں جب تک کہ تمام دنیا کے دلوں سے محمد رسول اللہ ﷺ کا بغض نکال کر اس کی جگہ آپؐ کی محبت قائم نہ ہوجائے۔

(الفضل 19؍اگست 1927ء)

ایک موقع پر جب غیراحمدی مولویوں نے اعلان کیا کہ ہم عیسائیوں، یہودیوں، آریوں اور سکھوں سے صلح کرسکتے ہیں مگر احمدیوں کے ساتھ نہیں۔ تب حضورؓ نے جواباً فرمایا کہ باوجود اس کے کہ سب سے بڑھ کر ہماری مخالفت کرنے والے غیراحمدی ہیں اور باوجود اس کے کہ ان کے ملکوں میں ہمارے آدمیوں کو نہایت بے دردی اور ظلم کی راہ سے قتل کیا جاتا ہے لیکن مذاہب کے لحاظ سے مَیں غیراحمدیوں کو آریوں اور عیسائیوں سے کروڑہا درجے افضل جانتا ہوں۔ یہ کہیں گے کہ عیسائیوں کی حکومت اور ان کے ملک میں ہمارے لیے بہت امن اور انصاف ہے لیکن جب مذہب کا اصول آئے گا تو مَیں امیر امان اللہ خان کو کروڑوں درجے کِنگ جارج سے بڑھ کر سمجھوں گا کیونکہ وہ رسول کریم ﷺ کی عزت کرتے ہیں، انہیں خدا کا سچا رسول مانتے ہیں جو کہ ہمیں تمام چیزوں سے زیادہ عزیز اور پیارے ہیں۔

(الفضل 14؍جولائی 1925ء)

ایک بار مولوی محمد علی صاحب (امیرغیرمبائعین) نے اپنی کتاب میں لکھا کہ گویا حضرت مصلح موعودؓ اور آپؓ کی جماعت حضرت مسیح موعودؑ کو نبی مان کر آنحضرت ﷺ کی نبوت سے انکاری ہیں اور آپؐ کی ہتک کرتے ہیں۔ حضورؓ نے اس کا جواب دیتے ہوئے فرمایا:

‘‘نادان انسان ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ مسیح موعودؑ کو نبی مان کر گویا ہم آنحضرت ﷺ کی ہتک کرتے ہیں۔ اسے کسی کے دل کا حال کیا معلوم۔ اُسے اس محبت اور پیار اور عشق کا علم کس طرح ہو جو میرے دل کے ہر گوشہ میں محمد رسول اللہ ﷺ کے لیے ہے۔ وہ کیا جانے کہ محمد ﷺ کی محبت میرے اندر کس طرح سرایت کرگئی۔ وہ میری جان ہے۔ میرا دل ہے۔ میری مُراد ہے۔ میرا مطلوب ہے۔ اُس کی غلامی میرے لیے عزت کا باعث ہے اور اُس کی کفش برداری مجھے تختِ شاہی سے بڑھ کر معلوم دیتی ہے۔ اس کے گھر کی جاروب کشی کے مقابلہ میں بادشاہت ہفت اقلیم ہیچ ہے۔ وہ خداتعالیٰ کا پیارا ہے پھر مَیں کیوں اُس سے پیار نہ کروں۔ وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب ہے پھر مَیں کیوں اُس سے محبت نہ کروں۔ وہ خداتعالیٰ کا مقرّب ہے پھر مَیں کیوں اس کا قرب تلاش نہ کروں۔ میرا حال مسیح موعودؑ کے اس شعر کے مطابق ہے کہ

بعد از خدا بعشقِ محمدؐ مخمّرم
گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم

اور یہی محبت تو ہے جو مجھے اس بات پر مجبور کرتی ہے کہ بابِ نبوت سے بکلّی بند ہونے کے عقیدے کو جہاں تک ہوسکے باطل کروں کہ اِس میں آنحضرت ﷺ کی ہتک ہے۔’’ (حقیقۃالنبوّۃ)

حضرت مصلح موعودؓ نے جب جلسہ ہائے سیرت النبیﷺ کا اجرا فرمایا تو ان جلسوں کا مقصد یوں بیان فرمایا کہ لوگوں کو آپؐ پر حملہ کرنے کی جرأت اس لیے ہوتی ہے کہ وہ آپؐ کی زندگی کے صحیح حالات سے ناواقف ہیں اور اِس کا ایک ہی علاج ہے کہ رسول کریم ﷺ کی سوانح پر اس کثرت سے اور اس قدر زور کے ساتھ لیکچر دیے جائیں کہ ہندوستان کا بچہ بچہ آپؐ کے حالاتِ زندگی سے آگاہ ہوجائے اور کسی کو آپؐ کے متعلق زبانی درازی کی جرأت نہ رہے۔ جب کوئی حملہ کرتا ہے تو یہی سمجھ کر کہ دفاع کرنے والا کوئی نہ ہوگا۔ (تقریر جلسہ سالانہ 1937ء)

حضورؓ کی کوششوں کے نتیجہ میں 17؍جون 1928ء کو ہندوستان کے طول و عرض میں پہلی بار جلسہ ہائے سیرت النبیؐ کا انعقاد عمل میں آیا اور غیروں نے بھی اس کی تعریف کی۔ چنانچہ اخبار ‘‘مشرق’’ گورکھپور نے لکھا:
‘‘ہندوستان میں یہ تاریخ ہمیشہ زندہ رہے گی۔ … 17؍جون کو جلسے کی کامیابی پر ہم امام جماعت احمدیہ جناب مرزا محمود احمد صاحب کو مبارک باد دیتے ہیں۔ اگر شیعہ و سُنّی اور احمدی اسی طرح سال بھر میں دو چار مرتبہ ایک جگہ جمع ہوجایا کریں گے تو پھر کوئی قوّت اسلام کا مقابلہ اِس ملک میں نہیں کرسکتی۔’’

حضرت مصلح موعودؓ نے اٹھارہ سال کی عمر سے نعت ِ رسول کریم ﷺ کہنی شروع کی۔ 19 سال کی عمر میں کہی جانے والی ایک پُرکیف نعت میں عرض کیا:

محمدؐ پر ہماری جاں فدا ہے
کہ وہ کُوئے صنم کا رہنما ہے
مرا دل اُس نے روشن کردیا ہے
اندھیرے گھر کا میرے وہ دیا ہے
مرا ہر ذرّہ ہو قربانِ احمد
میرے دل کا یہی اِک مدّعا ہے
اسی کے عشق میں نکلے مری جاں
کہ یادِ یار میں بھی اِک مزا ہے
مجھے اس بات پر ہے فخر محمودؔ
مرا معشوق محبوبِ خدا ہے

٭……٭……٭……٭……٭……٭

ایک نَومسلم کی کھری کھری باتیں

مجلس خدام الاحمدیہ بھارت کے ماہنامہ ‘‘مشکوٰۃ’’ فروری 2012ء میں سری نگر کے روزنامہ ‘‘مومن’’ سے منقول ایک تحریر (مرسلہ مکرم عبدالرشید ضیاء صاحب مبلغ سلسلہ کشمیر) شائع کی گئی ہے جس میں میرٹھ کے ایک نَومسلم نے ‘‘کھری کھری باتیں’’ کے زیرعنوان اپنے قبولِ اسلام کی کہانی بیان کرنے کے بعد ایک افسوسناک واقعہ قلم بند کیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ مسلمان اس قدر گرچکے ہیں، اس کی مثال مجھے بہار میں ملی جہاں ایک نومسلم نے ایک مسلمان عورت سے شادی کرلی اور اس کے لیے اُس نے چند ایک مسلمانوں سے دوہزار دوسو روپے قرض لیے۔ شادی کے چند دن بعد قرض کی ادائیگی کا تقاضا ہوا تو نَومسلم نے چند دن کی مہلت مانگی لیکن اُن مسلمانوں نے ایک نہ سنی اور اُس کے گھر میں داخل ہوکر دلہن کا ہاتھ پکڑا اور باہر نکال کر کہا کہ جب تک تُو پیسوں کا بندوبست نہیں کرتا تیری بیوی ہمارے پاس گروی رہے گی۔

اس دوران قادیانیوں کی ایک جماعت وہاں پہنچ گئی اور انہوں نے نومسلم کو پانچ ہزار روپے دیے جس سے اُس نے مسلمانوں کا قرضہ چُکادیا۔ اب سُنا ہے کہ وہ نومسلم (عمر) اور اس کی بیوی دونوں قادیانی ہوگئے ہیںاور قادیانیوں کے مرکز قادیان میں رہائش پذیر ہیں۔

اب بتائیے ان دونوں میں گنہگار کون ہے؟ محض 22سو روپے کی مدد کے لیے اُس کی بیوی کو اُٹھالینا کونسا دین ہے!؟…۔

٭……٭……٭……٭……٭……٭

ماہنامہ ‘‘النور’’ امریکہ مارچ 2012ء میں مکرم راجہ محمد یوسف صاحب کی ایک نظم شائع ہوئی ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

بے تاب روز و شب ہیں ، لطافت تمام شُد
یعنی خیالِ یار کی لذّت تمام شُد
ارباب حل و عقد کو کچھ سوجھتا نہیں
سیلِ ہوس میں دانش و حکمت تمام شُد
بے درد حکمران تو بے فیض ائمہ
یہ سب اگر رہے تو ریاست تمام شُد
پھر سر بکف چلے ہیں سوئے دار نعرہ زن
ضبطِ فغاں کی لمبی ریاضت تمام شُد
ہو شہرِ دلفگار میں اِک رقصِ بے خودی
اس دلرُبا کی یاد میں خلوت تمام شُد
کیفِ اُمیدِ وصل سے سرشار ہے بدن
دشتِ غمِ فراق کی وحشت تمام شُد

متعلقہ مضمون

تبصرے 2

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button