متفرق مضامین

کرکٹ ورلڈ کپ کی تاریخ اورکرکٹ ورلڈ کپ 2019ء

(عطاء الحئی ناصر۔ یوکے)

کرکٹ جو کہ فٹ بال کے بعد دنیا کا سب سےمقبول کھیل ہے، روز بروز جدّت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ ٹی ٹونٹی فارمیٹ کے آنے سے کرکٹ کی مقبولیت میں بے حدّ اضافہ ہوا ہے۔مگر اس کھیل کا سب سے معروف پہلو “آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ”ہے جو کہ ‘‘ایک روزہ فارمیٹ”پر مشتمل ہوتا ہے۔

5جنوری1971ء کو پہلا ایک روزہ میچ ، آسٹریلیا اور انگلستان کے مابین کھیلا گیا تھا۔ اُس کے چار سال بعد، یعنی جون 1975ء میں پہلا کرکٹ ورلڈ کپ کھیلا گیا تھا جس کا میزبان انگلستان تھا۔

اب تک 11کرکٹ ورلڈ کپ منعقد ہو چکے ہیں جن میں سے5آسٹریلیا،2ویسٹ انڈیز، 2بھارت ، ایک پاکستان اور ایک ہی سری لنکا نے اپنے نام کیا۔

1975ء کے ورلڈ کپ میں 8ممالک نے حصہ لیا تھا جن میں سے 6 اُس وقت ٹیسٹ اسٹیٹس کے حامل ممالک تھے، جن میں آسٹریلیا، انگلستان، بھارت، نیوزی لینڈ ، پاکستان اور ویسٹ انڈیز شامل تھے جبکہ سری لنکا اور مشرقی افریقہ نے بطور ایسوسی ایٹ نیشنز حصہ لیا تھا۔یہ واحد ورلڈ کپ تھا کہ جس کے سیمی فائنلز میں برصغیر پاک و ہند کی کوئی بھی ٹیم نہ پہنچ سکی تھی۔ویسٹ انڈیز نے کرکٹ کا پہلا عالمی چیمپئن ہونے کا اعزاز حاصل کیا اورپھر اگلے ورلڈ کپ ، یعنی 1979ء میں اپنے اعزاز کا کامیاب دفاع کیا۔
کرکٹ ورلڈ کپ کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو چند اہم اور یادگار پہلو درج ذیل ہیں:

1983ء کا ورلڈ کپ فائنل بھارت اور ویسٹ انڈیز کے مابین کھیلا گیا تھا۔ ویسٹ انڈیز اس میچ کے لیے ‘فیورٹ’ تھا کیونکہ پہلے دونوں ورلڈ کپ ویسٹ انڈیز ہی جیتا تھا۔ مگربھارت نے یہ ورلڈ کپ جیت کر سب کو حیران کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس میچ کا سب سے اہم موڑ کپل دیو کا وہ عمدہ کیچ تھا ، جس نے سر وویَن رچرڈز کو Pavilionکی راہ دکھائی۔

1987ء کاورلڈ کپ پہلا ورلڈ کپ تھا جو کہ انگلستان سے باہر منعقد ہوا تھا۔اس کے مشترکہ میزبان پاکستان اور بھارت تھے اور اس مناسبت سے ان دونوں ممالک کو ‘فیورٹ ’قرار دیا جارہا تھا۔مگر بدقسمتی سے دونو ں میزبان ممالک سیمی فائنل میں ہار گئے اور اس ورلڈ کپ کا فاتح آسٹریلیا قرار پایا۔
1992ء کا ورلڈ کپ پہلا ورلڈ کپ تھا جو کہ مصنوئی روشنیوں اور رنگین لباس میں کھیلا گیا ۔ اس کے مشترکہ میزبان آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ تھے۔ اس ورلڈ کپ کا فاتح پاکستان تھا۔اسی ورلڈ کپ کا ایک یادگار واقعہ آج تک معروف ہے یعنی جنوبی افریقہ کے جونٹی روڈز کا پاکستان کے انضمام الحق کوغیر معمولی انداز میں رَن آؤٹ کرنا جو کہ اُن کی قابلیت اور حاضر دماغی کا ایک منہ بولتا ثبوت ہے۔

اُسی ورلڈ کپ میں پاکستان اور بھارت کے مقابلہ کے دوران پاکستانی بلےبازجاوید میانداد اوربھارتی وکٹ کیپر Kiran Moreکے مابین ہونے والی نوک جھوک اور جاوید میانداد کا مزاحیہ انداز بھی یادگار بات ہے۔
اسی ورلڈ کپ کی خاص بات یہ بھی تھی کہ نسلی تعصّب کے باعث پابندی کا شکار ہونے والے جنوبی افریقہ نے پہلی بار کرکٹ کے کسی ورلڈ کپ میں شرکت کی تھی اور سیمی فائنل تک رسائی حاصل کی۔ سیمی فائنل میں شکست کا ماجرا بھی دلچسپ ہے۔ جنوبی افریقہ کو فتح کے لیے 13گیندوں میں22رنز درکار تھے۔ مگر بارش کے وقفہ کے بعد ، اُس دَور کے قوانین کے مطابق 1بال میں 22رنز کا حدف مقرر کیا گیا۔ اور جنوبی افریقہ ہار گیا۔

اس ورلڈ کپ میں پاکستان کا آغاز مایوس کن رہا۔پہلے 5میچز میں سے صرف ایک جیتا اور انگلستان کے خلاف ایک میچ بارش کی نذر ہوگیا۔حالانکہ پاکستان 74رنز پر آؤٹ ہو گیا تھا مگر پاکستان کی خوش قسمتی تھی کہ بارش برس پڑی اور ایک پوائنٹ مل گیا۔مگر آخری تین میچز میں فتح حاصل کر کے پاکستان نے سیمی فائنل میں جگہ بنا لی۔

اس ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میزبان ہونے کے لحاظ سے ‘فیورٹ ’تھے مگر آسٹریلیا سیمی فائنل میں نہ پہنچ سکا اور نیوزی لینڈ کو سیمی فائنل میں پاکستان سے شکست کا سامنا ہوا۔ دلچسپ بات یہ کہ نیوزی لینڈ نے پورے ورلڈ کپ میں صرف 2میچز میں شکست کھائی تھی، اور وہ بھی یکے بعد دیگر پاکستان کے ہی خلاف۔ یعنی آخری گروپ میچ اور پھر سیمی فائنل۔
اور پھر آخر کار پاکستان نے فائنل میں انگلستان کو شکست دے کر عالمی چیمپئن ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔

1996ء کے ورلڈ کپ میں پاکستان ، بھارت اور سری لنکا میزبان تھے اور اس لحاظ سے پاکستان اور بھارت ‘فیورٹ’بھی تھے مگر پاکستان کو کوارٹر فائنل میں بھارت سے شکست ہوئی جبکہ سیمی فائنل میں بھارت کو سری لنکا سے شکست کھانی پڑی۔آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز نے حفاظتی خدشات کے باعث سری لنکا میں کھیلے جانے والے اپنے اپنے گروپ میچز کا بائیکاٹ کر دیا اور سری لنکا کو فاتح قرار دیا گیا۔ اس امر نے سری لنکا کو فائدہ پہنچایا۔ فائنل میں بظاہر ایک کمزور مگر پُر عزم ٹیم یعنی سری لنکا نے آسٹریلیا کو شکست دے کر یہ ورلڈ کپ اپنے نام کیا۔

1999ء کے ورلڈ کپ میں جنوبی افریقہ اور آسٹریلیا کے مابین کھیلا جانے والا سنسنی خیز سیمی فائنل بھی ایک یادگار مقابلہ ہے۔ گو کہ یہ میچ بغیر کسی فیصلہ کے ختم ہوا مگر Super Sixesمیں اُن کی پوزیشن نسبتاًبہتر ہونے کی وجہ سے آسٹریلیا نے فائنل میں جگہ بنالی۔ گروپ میچز اور پھر Super Sixesمیں اوّل پوزیشن حاصل کرنے والی ٹیم ،یعنی پاکستان کو فائنل میں آسٹریلیا سے شکست کا سامنا کرنا پڑا اور آسٹریلیا دوسری بار عالمی چیمپئن بن گیا۔

2003ء کےورلڈ کپ کے دوران پاکستان کے شعیب اختر نے انگلستان کے خلاف کرکٹ تاریخ کی تیز ترین گیند کرنے کا اعزاز حاصل کیا۔ اس گیند کی رفتار 161.3کلو میٹر فی گھنٹہ تھی۔

میزبان جنوبی افریقہ کو اس ورلڈ کپ کے لیے ‘فیورٹ’ ممالک میں شامل کیا جارہا تھا، مگر یہ ٹیم گروپ سٹیج میں ہی باہر ہو گئی۔ 1999ء کے ورلڈ کپ میں فائنل کھیلنے والی پاکستانی ٹیم سے بھی جو اچھی توقع کی جارہی تھی جبکہ ان کی کارکردگی بالکل اس کے برعکس رہی۔ دلچسپ بات یہ رہی کہ Super Sixesمیں کینیا اور زمبابوے کو رسائی حاصل ہو گئی تھی۔ مگر جنوبی افریقہ ، انگلستان اور پاکستان جیسے ممالک اس سے محروم رہے۔
2007ءکے ورلڈ کپ میںHerschelle Gibbsنےہالینڈ کے خلاف ایک اوور میں 6چھکے لگا کراس ایونٹ کو یادگار بنایا، وہیں دوسری جانب اس ورلڈ کپ کو ایک غمگین پہلو سے بھی یاد کیا جاتا ہے، اور وہ یہ کہ آئرلینڈ کے ہاتھوں پاکستان کی بدترین شکست کے اگلے روزپاکستانی کوچ باب وولمر ہوٹل کے کمرے میں وفات پاگئے۔ ان کی وفات کی وجہ آج تک ایک معمّہ ہے۔

اسی ورلڈ کپ کے ایک میچ میں برمودا کے کھلاڑی Dwayne Leverockنےسلپ پوزیشن پر بھارتی بلےباز Robin Uthappaکا ایک حیرت انگیز کیچ پکڑا جس کو تاریخ کے چند بہترین کیچز کی فہرست میں شامل کیا جانا بے جا نہ ہوگا۔

اس ورلڈ کپ میں پاکستان اور بھارت دونوں کو اَپ سیٹ شکست کا سامنا ہوا۔پاکستان کو آئرلینڈ ،جبکہ بھارت کو بنگلہ دیش نے شکست دے کر ٹورنامنٹ سے باہر کیا۔

اس ورلڈ کپ میں آسٹریلیا نے سری لنکا کو فائنل میں ہرا کر فتح حاصل کر کے 1996ء کی شکست کا بدلہ بھی لے لیا۔

2011ءکا ورلڈ کپ ابتدائی پروگرام کے مطابق پاکستان ، بھارت، سری لنکا اور بنگلہ دیش میں کھیلا جانا تھا۔مگر 3مارچ2009ء کو لاہور میں سری لنکن ٹیم پر حملے کے بعد، حفاظتی خدشات کے باعث پاکستان سے انٹرنیشنل کرکٹ کے ساتھ ساتھ ورلڈ کپ کی میزبانی بھی چھین لی گئی۔مگر پھر بھی اس ورلڈ کپ میں بھارت، پاکستان اور سری لنکا ‘فیورٹ’ تھے۔اس بار بھارت نے فائنل میں سری لنکا کو شکست دے کر دوسری بار عالمی چیمپئن ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔

یہ پہلا ورلڈ کپ تھا کہ جب کسی میزبان ملک نے ورلڈ کپ جیتا۔یعنی بھارت نے مشترکہ میزبان ملک ہونے کے ساتھ ساتھ فاتح بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا۔

اس ورلڈ کپ میں پاکستان نے گروپ سٹیج میں عمدہ کارکردگی دکھائی اور پھر کوارٹر فائنل میں بھی ویسٹ انڈیز کودس وکٹوں سے شکست دے کر 1992ء کی شکست کا بدلہ پورا کیا۔ مگر سیمی فائنل میں بھارت سے شکست کا سامنا ہوا۔

2015ء کے ورلڈ کپ میں نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میزبان ہونے کے لحاظ سے ‘فیورٹ’ تھے۔گو کہ نیوزی لینڈ نے گروپ میچ میں، ایک سنسنی خیز مقابلہ کے بعد آسٹریلیا کو شکست دی تھی مگر فائنل میں آسٹریلیا نے نیوزی لینڈ کو شکست دے کر ورلڈ کپ اپنے نام کیا۔

اس ورلڈ کپ کی خاص باتوں میں بنگلہ دیش کا کوارٹر فائنل میں جگہ بنانا اور پاکستانی گیند باز وہاب ریاض کی آسٹریلوی بلّے باز شین واٹسن کے خلاف غیر معمولی گیند بازی نمایاں ہے۔

ورلڈ کپ کی تاریخ کا ایک دلچسپ پہلو یہ ہے کہ انگلستان نے اب تک 3فائنل کھیلے ہیں مگر تینوں میں اُسے شکست ہوئی۔

کرکٹ ورلڈ کپ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کے تمام ممبران ممالک کے لیے Openہوتا ہے۔ تاہم میزبان ملک سمیت رینکنگ کے لحاظ سے چند بہترین ممالک اس کے لیے براہِ راست کوالیفائی کر جاتے ہیں۔ جبکہ باقی ممالک کو ایک کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنا پڑتا ہے۔ اور اُس کے بعد فیصلہ ہوتا ہے کہ مزید کون سے ممالک ورلڈ کپ کا حصہ ہوں گے۔

کرکٹ کےشائقین اس بات سے خوب آگاہ ہیں کہ 2019ء کا یہ ٹورنامنٹ یعنی بارہواں ورلڈکپ30؍مئی سے14؍جولائی تک انگلستان اور ویلز میں کھیلا جائے گا۔اس ورلڈ کپ میں10ممالک حصہ لیں گے۔ اس میں 10بہترین ممالک حصہ لے رہے ہیں جن میں انگلستان کے علاوہ آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جنوبی افریقہ، سری لنکا، پاکستان، بھارت اوربنگلہ دیش اپنی کارکردگی کی بنا پر جبکہ افغانستان اور ویسٹ انڈیز کوالیفائنگ راؤنڈ کھیل کر اس میں شامل ہو رہے ہیں۔ اس ورلڈ کپ میں Round-Robinفارمیٹ اپنایا گیا ہے۔ یعنی ہر ٹیم 9میچز کھیلے گی۔ اور پھر 4بہترین ٹیمز سیمی فائنل میں جگہ بنائیں گی۔
دیکھنا یہ ہے کہ اس ورلڈ کپ میں کیا کیانئے ریکارڈز بنتے ہیں اور کیسے کیسے یادگار لمحات وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ یقینی طور پر ہر ایک شائقِ کرکٹ اس ورلڈ کپ کا منتظر ہے۔ کیا آسٹریلیا اپنے اعزاز کا دفاع کرتے ہوئے چھٹی بارفاتح بنے گا؟یا پھر بھارت یا ویسٹ انڈیز میں سے کوئی تیسری بار یہ اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا؟ یا پاکستان اور سری لنکا میں سے کوئی اپنا نام 2 مرتبہ ورلڈ کپ جیتنے والے ممالک کی فہرست میں لکھوانے میں کامیاب ہوگا؟ یا پھر دنیا کسی نئے فاتح ملک کا نظارہ کارنے والی ہے! ان سب سوالوں کے جواب چند ہی ہفتوں میں واضح ہو جائیں گے۔

٭…٭…٭

(تصویر:

https://www.visitcardiff.com/event/icc-cricket-world-cup-trophy-tour/)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button