حضرت مصلح موعود ؓ

سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (قسط نمبر 4)

(حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)

رسول کریم ؐ کے اخلاق حسنہ کے متعلق آپؐ کی بیوی کی گواہی

اس وقت تک تو میں نے آنحضرت ؐکے اخلاق حسنہ کو آپؐ کے صحابہ ؓکی فدائیت سے ثا بت کیا ہے اب ایک اَور طریق سے اس امر پر رو شنی ڈالتا ہوں۔آدمی کا سب سے زیا دہ تعلق اپنی بیوی سے ہو تا ہے کیونکہ اس کے پاس روزانہ بہت سا وقت خرچ کر نا پڑتا ہے اور بہت سی ضررویات میں اس کے ساتھ مشارکت اختیار کر نی پڑتی ہے اس لیے یہ تو ممکن ہے کہ انسان باہر لوگوں کے سا تھ تکلف کے ساتھ نیک اخلاق کے سا تھ پیش آسکے اور ایک وقت کے لیے اس گند کو چھپا لے جو اس کے اندر پو شیدہ ہو لیکن یہ بات بالکل ناممکن ہے کہ کوئی اپنی برائیوں اور بد خلقیوں کو اپنی بیوی سے پو شیدہ رکھ سکے کیونکہ علا وہ ایک دائمی صحبت اور ہر وقت کے تعلق کےبیوی پر مرد کو کچھ اختیار بھی ہو تا ہے اور اس کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر وہ اپنی فطری بد اخلاقی کا اکثر اوقات اس کے سامنے اظہار کردیتا ہے۔پس انسان کے اخلاق کا بہتر سے بہتر گواہ اس کی بیوی ہو تی ہے جس کا تجربہ دوسرے لو گوں کے تجربہ سے بہت زیا دہ صحیح مشاہدات پر مبنی ہوتا ہے۔آنحضرت ﷺ کے اخلاق کے متعلق جو گواہی حضرت خدیجہؓ نے دی ہے وہ آپﷺ کے نیک اخلاق کو ثابت کر نے کے لیے کا فی سے زیا دہ ہے اور اس کے بعد کسی زائد شہادت کی ضرورت نہیں رہتی۔حضرت عائشہؓ وحی کی ابتدا بیان کرتے ہوئے فر ما تی ہیں کہ جب پہلی دفعہ آنحضرت ﷺ پر وحی نا زل ہو ئی تو آپؐ بہت گھبرا ئے اور غار حرا سے گھر کی طرف لو ٹے اور آپؐ کا دل دھڑک رہا تھا ۔ حضرت خدیجہ ؓ کے پاس آکر آپ ؐنے فرمایا کہ مجھے کپڑا اوڑھا دو۔جلد کپڑا اوڑھادو۔جس پر آپؐ پر کپڑا ڈالا گیا یہاں تک کہ آپؐ کا کچھ خوف کم ہوا اور آپؐ نے سب واقعہ حضرت خدیجہ ؓکو سنایا اور فر ما یا کہ مجھے تو اپنی نسبت کچھ خوف پیدا ہو گیاہے۔ اس بات کو سن کر جو کچھ حضرت خدیجہ ؓنے فر ما یا وہ یہ ہے کَلَّا وَاللّٰہِ مَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ اَبَدًا اِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وتَقْرِی الضَّیْفَ وَتُعِیْنُ عَلیٰ نَوَائِبِ الْحَقِّ (بخاری باب کیف کان بدء الوحی) یعنی سنو جی! میں خدا کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ خدا تجھے کبھی ذلیل نہیں کر ے گا کیونکہ تو رشتہ داروں کے سا تھ نیک سلوک کر تا ہے اور کمزوروں کا بو جھ اٹھا تا ہے اور تمام وہ نیک اخلاق جو دنیا سے معدوم ہو چکے ہیں ان پر عامل ہے۔مہمانوں کی خدمت کرتا ہے اور سچی مصیبتوں پر لوگوں کی مدد کر تا ہے۔اس کلام کے باقی حصوں پر تو اپنے وقت پر لکھوں گا سردست حضرت خدیجہؓ کی گواہی کو پیش کر تا ہوں جو آپؓ نے قسم کھا کر دی ہے۔یعنی تَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَکی گواہی گو کا فی تھی لیکن اپنے خدا کی قسم کے سا تھ مؤکّدکرکے بیان فرمایا ہے کہ رسول اللہ ﷺ میں تمام اخلاق حسنہ پائے جا تے ہیں حتّٰی کہ وہ اخلاق بھی جواس وقت ملک میں کسی اَور آدمی میں نہیں دیکھے جا تے تھے۔

یہ گوا ہی کیسی زبردست اور کیسی صاف اور پھر بیوی کی گواہی اس معاملے میں جیسا کہ میں پہلے لکھ آیا ہوں نہایت ہی معتبر ہے۔حضرت خدیجہ ؓ فر ما تی ہیں کہ کل اخلاق حسنہ جو دنیا سے معدوم ہو چکے ہیں آپؐ میںپا ئے جا تے تھے۔

خود رسول کریم ﷺ کی گوا ہی اپنے اخلاق کی نسبت

حضرت خدیجہ ؓکی گوا ہی پیش کر نے کے بعد میں خود آنحضرت ﷺ کی گوا ہی اپنی نیک سیرتی کی نسبت پیش کرتا ہوں۔شا ید اس پر بعض لوگ حیران ہوں کہ اپنی نسبت آپؐ گواہی کے کیا معنی ہو ئے لیکن یہ گواہی رسول کریم ﷺ نے ایسی بےتکلفی سے اور بغیر پہلےغور کے دی ہے کہ موافق تو الگ رہے مخالف کو بھی اس کے ماننے سے انکار نہیں ہو نا چاہیے۔اس حدیث میں جس میں حضرت خدیجہ ؓکی گوا ہی کا ذکر ہے آگے چل کر لکھا ہے کہ حضرت خدیجہ ؓآنحضرت ﷺ کو اپنے ساتھ اپنے بھا ئی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں اور انہیں کل حال سنایا انہوں نے سن کر کہا کہ یہ فرشتہ جو آپؐ پر نا زل ہؤا ہے یہ وہی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ پر نازل فر ما یا تھا اور فر ما یا کہ یَالَیْتَنِیْ فِیْھَا جَذَعًالَیْتَنِیْ اَکُوْنُ حَیًّا اِذْیُخْرِجُکَ قَوْمُکَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَوَ مُخْرِجِیَّ ھُمْ(بخاری جلد اول باب کیف کان بدء الوحی)یعنی اے کا ش !کہ میں اس وقت جو ان و توانا ہوں۔اے کاش!کہ میں اس وقت زندہ ہوں جبکہ تجھے تیری قوم نکال دے گی رسول اللہؐ نے سن کر فر مایا کیا وہ مجھے نکال دیں گے؟

اس گفتگو سے اور خصوصاً رسول کریم ﷺ کے اس قول سے کہ‘‘کیا مجھے میری قوم نکال دے گی’’معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ کا اندر کیسا صاف تھا۔اور جب آپؐ نے ورقہ بن نوفل سے یہ بات سنی کہ آپؐ کو اہل مکہ نکال دیں گے تو آپؐ کو اس سے سخت حیرت ہو ئی کیونکہ آپ اپنے نفس میں جانتے تھے کہ مجھ میں کچھ عیب نہیں۔اور اگر آپؐ ذرہ بھر بھی اپنی طبیعت میں تیزی پاتے تو اس قدر تعجب کااظہار نہ فر ما تے لیکن ورقہ کی بات سن کر اس پا ک فطرت انسان کے منہ سے بے اختیارنکل گیا کہ ہیں! کیا میری قوم مجھے نکال دے گی؟ اسے کیا معلوم تھا کہ بعض خبیث الفطرت ایسے بھی ہو تے ہیں کہ جو ہر نور کی مخالفت کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں۔وہ تو اس بات پر حیران تھا کہ اس پاک زندگی اور اس دردمند دل کے باوجود میری قوم مجھے کیوں کر نکال دے گی۔

اخلاق حمیدہ کی تفصیل

اخلاق پر ایک مجملا ًبحث کرنے کے بعد اب میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے آنحضرت ﷺ کے اخلاق کا تفصیلاً بیان کر نا چاہتا ہوں لیکن پیشتراس کے کہ میں فردا ً فرداً آپؐ کے اخلاق کا بیان کروں ان کی تقسیم کر دینا ضروری سمجھتا ہوں تا کہ اس تقسیم کومدنظر رکھ کر ناظرین پر یہ بات پو ری طرح عیاں ہو جا وے کہ تمام کے تمام شعبہ ہا ئے اخلاق میں آپؐ کمال کو پہنچ گئے تھے اور ہر حصہ زندگی میں آپؐ کے اخلاق اپنا جلوہ دکھا رہے تھے اور کوئی صنف خوبی کی با قی نہ رہی تھی جس میں آپؐ نے دوسرے تمام انسانوں کو اپنے پیچھے نہیں چھوڑ دیا۔

میں نے جہاں تک غور کیا ہے انسانی تعلقات تین طرح کے ہوتے ہیں۔سب سے پہلا تعلق تواس کاخدا سے ہو تا ہے کیونکہ وہ اس کا خالق ورازق ہے۔اس کے فضل کے بغیر اس کا ایک دم آرام سے نہیں گزر سکتا بلکہ آرام تو الگ رہا اس کی زندگی ہی محال ہے۔اس کے احسانات کی کو ئی حد نہیں ہر ایک لمحہ میں اس کے فضلوں کی با رش ہم پر ہو رہی ہے۔کمزور سے کمزور ضعیف سے ضعیف حالت سے اس نے ہمیں اس حد کو پہنچایا ہے اور عقل وخردبخش کر کل مخلوقات پر فضیلت بخشی ہے اس لیے اگر اس کے سا تھ ہمارے تعلقات درست نہ ہوں۔اگر ہمارے اخلاق تعلق با للہ میں ادنیٰ ہوں اور اس کے احسانات کو ہم فراموش کردیں تو ہم سے زیاد ہ کو ئی ذلیل نہیں۔

خالق کے بعد ہمارا تعلق مخلوق سے ہے کہ ان میں بھی کو ئی ہمارا محسن ہے،کو ئی ہمارا معلّم ہے،کو ئی ہمارا مہربان ہے،کوئی درد خواہ ہے،کو ئی ہمارے آرام وآسائش میں کو شاں ہے،کوئی ہما ری محبت اور توجہ کا محتاج ہے، کوئی اپنی کمزوریوں اور اپنی گری ہو ئی حالت اور اپنے ہمسفروں سےپیچھے رہ جا نے کی وجہ سے ہم سے نصرت و مدد کا متمنی ہے۔غرضیکہ ہزاروںطریق سے ہزاروں آدمی ہم سے متعلق ہیں اور اگر ہمارے معاملات ان سے درست نہ ہوں اگر ان سے بد خلقی سے پیش آئیں تب بھی دنیا کا امن وامان جا تا رہتا ہے اور فساد بغاوت میں تر قی ہو تی ہے پس اگر ہمارے اخلاق مخلوق سے درست نہ ہوں تو ہم ایک ڈاکو کی طرح ہیں جو دنیا سے اس کے امن و آرام کا متاع لوٹتا اورغارت کر تا ہے۔

تیسرا تعلق ہمارا خود اپنے نفس سے ہے کہ یہ بھی ہماری بہت سی تو جہات کا محتاج ہے اور جس طرح ہمارا خالق سے منہ موڑ نا یا مخلوق سے بد اخلا قی سے پیش آنا نہایت مضر اور مخرّب امن ہے اسی طرح ہمارا اپنے نفس سے بد سلوکی کر نا اور اخلاق رذیلہ سے پیش آنا نہایت خطر ناک اور با عث فساد ہے۔پس وہی انسان کامل ہو سکتا ہے کہ جو ان تینوں معاملات میں کامل ہو اور ان اصناف میں سے ایک صنف میں بھی کمزوری نہ دکھلا ئے۔

اگر ان تینوں اقسام اخلاق کو مد نظر رکھ کر دیکھا جا ئے تو معلوم ہو گا کہ اکثر انسان جو اخلاق میں کامل سمجھے جا تے ہیں بہت سی کمزوریاں رکھتے ہیں۔اوراگر ایک قسم کے اخلاق میںانہیں کمال حاصل ہے تو دوسری قسم میںانہیںکو ئی دسترس نہیں۔ہاں اللہ تعالیٰ کے پیاروں اور پاک بندوں کا گروہ ہی نکلے گا کہ جو ان تینوں اقسام اخلاق میں کمال رکھتا ہے اور کسی خوبی کو اس نے ہاتھ سےنہیں جانے دیا۔اور جب آپ رسول کریمﷺ کے اخلاق کا مطالعہ غور سے کریں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ وہ تمام صاحب کمال لو گوں کے سردار تھے اور باوجود اس کے کہ دنیا میںبہت سے صاحب کمال لوگ گزرے ہیں لیکن جس رنگ میں آپؐ رنگین تھے اس کے سامنے سب کے رنگ پھیکےپڑجاتے ہیں اور جن خوبیوں کےآپؐ جامع تھے ان کا عشر عشیر بھی کسی اَور انسان میں نہیں پا یا جا تا ؎

عجب نوریست دَر جانِ محمدؐ
عجب لعلیست دَر کانِ محمدؐ
ندانم ہیچ نفسے در دو عالَم
کہ دارد شوکت و شانِ محمدؐ

ہم اس بات سے قطعا ًمنکر نہیں ہیں کہ آپؐ کے پہلے بھی اور آپؐ کے بعد بھی بڑے بڑے صاحب کمال پیدا ہو ئے ہیں لیکن اس بات میں بھی کو ئی شک نہیں کہ ان کی مثال اور آنحضرت ﷺ کی مثال دیے اور سورج کی ہے اور سمندر اور دریا کی ہے کیونکہ وہ دلربا یکتا ان تمام خوبیوں کا جا مع تھا جو مختلف اوقات میں مختلف صاحب کمال لو گوں نے حاصل کیں۔آپؐ نے اپنےآپ کو اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے احکام کی اطاعت میں ایسا محو کر دیا تھا کہ دنیا میں اس کے رو شن مظہر ہو گئے تھے اور وہ تَخَلَّقُوْابِاَخْلَا قِ اللّٰہِ کہنے والا انسان خود اس قول کا کامل نمونہ تھا

زاں نمط شد محوِ دلبر کز کمالِ اتحاد
پیکرِ او شُد سراسر صورتِ ربِ رحیم
بو ئے محبوب حقیقی می دمد زاں رو ئے پا ک
ذات حقانی صفاتش مظہر ذاتِ قدیم

میں ان تینوں اقسام اخلاق میں سے پہلے تو اس کے اخلاق حسنہ میں سے وہ حصہ بیان کروں گا کہ جس سے آپؐ کا تعلق باللہ بدرجہ کمال ثابت ہو تا ہے۔پھر وہ جس سے آپؐ کے نفس کی پا کیزگی او رکمال ثابت ہو تا ہے۔اور آخر میں وہ حصہ جس سے مخلوق سے آپؐ کے تعلق کی کیفیت کھلتی ہے۔

…………………… (باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button