سیرت خلفائے کرام

خلافتِ احمدیہ کا احسان۔ نظام قضاء کا قیام

(حافظ راشد جاوید۔ ناظم دار القضاء ربوہ)

نظام قضاء کا قیام فرض کفایہ ہے۔ دنیا میں جتنے بھی انبیاءآئے وہ الہامی تعلیمات کے مطابق اس فرض کی بجاآوری کے لیے اقدامات کرتے رہے۔انبیاء کو عطاء کیے جانے والے یہی الٰہی نوشتے دنیا بھر میں موجود قوانین کا بنیادی ماخذ ہیں۔

دنیا کا سب سے بہترین اور کامل نظام حضرت محمد مصطفےٰصلی اللہ علیہ وسلم کا پیش کردہ نظامِ عدل ہے۔دیگر مسلمان ملکوں کی طرح سپین میں بھی جب تک مسلمانوں کی حکومت رہی وہاں یہ نظام پوری شان و شوکت کے ساتھ جلوہ فگن رہا اور وہیں سے خوشہ چینی کرتے ہوئے انگریزی نظام عدل معرض وجود میں آیا۔

لیکن کوئی بھی نظام اس وقت تک ہی بنی نوع انسان کےلیےحقیقی فائدہ مندہوسکتا ہے جب تک خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت اس کے شامل حال رہے۔چنانچہ ایک عام انسان کو آسان اور سستا انصاف فراہم کرنے میں جہاں خودکو جدید اقوام کہلانے والوں کے قائم کردہ نظامِ عدل بری طرح ناکام ہوئے وہاں اسلام کا قائم کردہ نظام عدل بھی جب خلافت کے سایہ سے محروم ہوکرملوکیت کی چھتری تلےپناہ گزین ہوا تو وہ بھی بنی نوع انسان کے فائدہ کی بجائےمشکلات میں اضافہ کا ہی باعث بنا اور پھر رفتہ رفتہ انگریزی نظام عدل کے سانچوں میں ڈھلتا ہوااپنا وجود ہی کھو بیٹھا۔

یہاں تک کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئیوں کے موافق اُس مسیح موعود علیہ السلام کا ظہور ہوا جس نے دنیا میں دوبارہ محمد مصطفےٰﷺکے حقیقی نظام حیات کو قائم کرنا تھا۔ بعثت اولیٰ کی طرح بعثت ثانیہ میں بھی خلافت ثانیہ کےبابرکت عہد میں ہی نظامِ قضاء کی صورت میں دنیا کو ایک بار پھر وہ نظام ِعدل عطاکیاگیا جس نے نہ توکسی طاقتور سے مرعوب ہونا تھا اور نہ ہی کسی کمزور سے متاثر۔بلکہ اس نظام کے قیام کا مقصد ہی عدل وانصاف کا قیام تھا۔بنی نوع انسان کے حقوق کا تحفظ تھا ۔ وہ حق خواہ امیر کا ہو یا غریب کا ،کمزور کا ہو یا طاقتور کا جس کا جو حق ہے اس کی حفاظت ہونی چاہیے یہی اسلامی نظام عدل کی بنیاد بھی ہے اور نصب العین بھی۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے بابرکت عہد میں یکم جنوری 1919ء کو دارالقضاء کاقیام عمل میں آیا۔ خلافت ثانیہ سےلے کر خلافت خامسہ تک کے بابرکت عہدمیں احمدیہ دارالقضاء کے 100سال کے سفر کا لمحہ لمحہ اس بات کا گواہ ہے کہ اگر خلافتِ احمدیہ کا سایہ اس پر نہ ہوتا تو اس کا نام ونشان بھی مٹ چکا ہوتا۔ لیکن اس کے برعکس قادیان کی چھوٹی سی بستی سے قائم ہونے والا یہ نظام عدل خلافت کی برکت سے آج دنیا بھر کے 17سے زائد ممالک میں قائم ہوچکا ہے۔یہ نظام عدل احمدیوں کے لیے کس طرح خوف کو امن میں بدلنے والا ثابت ہوا اور اس کے جماعت پر کیا اثرات مرتب ہوئےاس کے چند پہلو اختصار سے پیش خدمت ہیں۔

1۔بلا معاوضہ انصاف کی فراہمی

بیماری میں ہسپتال کی سہولت اور تنازع کی صورت میں اپنے حقوق کے حصول کے لیے کسی فیصلہ کرنے والے ادارے تک رسائی نہ ہو تو معاشرہ حد درجہ مایوسی کا شکا ر ہوکر بے چینی اور بد امنی میں مبتلا ہوجاتا ہے ۔اسی لیے اسلام نے تنازعات کے حل کی ذمہ داری انبیاء کےسپرد کی ہے اور لوگوں کے تنازعات کے بلا معاوضہ حل کے لیے نظام مہیا کرنا فرض کفایہ قرار دیا ہے۔

چنانچہ ثالثی طرز پر قائم احمدیہ دارالقضاء کا یہ طرّہ امتیاز ہے کہ یہاں بلامعاوضہ انصاف کی فراہمی کا التزام کیا جاتا ہے۔دنیا کی بڑی بڑی حکومتیں بھی کورٹ فیس کے نام پر ایک بھاری رقم وصول کرلیتی ہیں۔ پھر اس پر مستزاد وکلاء کی فیسوں کا بوجھ ہوتا ہے۔ جس کاشکار انسان کچھ عرصہ بعد خواہش کرتا ہے کہ کاش میں اپنے حق کے حصول کے لیے کوشش ہی نہ کرتا۔

یہ بھی نہیں کہ قضاء کے علاوہ دنیا میں ثالثی ادارے موجود نہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ احمدیہ دارالقضاء سے بھی قدیم ادارے موجود ہیں۔ اس جگہ بطور مثال ایک کا ذکر کرتے ہیں۔ The LCIA (London Court of International Arbitration)کے نام سے 1891ء سے ایک ادارہ قائم ہے ۔ یہ کمرشل تنازعات کا فیصلہ کرتا ہے ۔ اس میں کیس رجسٹر کرنے کی فیس ہی1750پاؤنڈ ہے جب کہ ثالثان فی گھنٹہ 175پاؤنڈ کے حساب سے اپنی فیس وصول کرتے ہیں۔

(مزید تفصیلات کے لیے دیکھیںwww.lcia.org)

احمدیہ دارالقضاء میں ایک دفعہ کسی غلط فہمی کی بناء پر دفتری اخراجات کے واسطےمقدمات کے تصفیہ کے لیے انتہائی معمولی رقم(اس وقت کے حساب سے ایک آنہ کے قریب تھی) لینا شروع کردی گئی ۔وہ بھی صرف اُنہیں سے لی جاتی تھی جوآسانی سے دے سکتے ۔ باقیوں سے کوئی معاوضہ نہیں لیا جاتا تھا۔ جب اس کا علم امام جماعت احمدیہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو ہوا تو آپ نے فوری طور پر اس کا سلسلہ بند کروایا اور مستقل ہدایت جاری کرتے ہوئے فرمایا:

“تنازعات کا فیصلہ کرنا تو ہمارا فرض ہے۔اس کے لیے کسی رقم کے لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ………اب جو پہلے ہو چکا وہ ہو چکا آئندہ کے لیے اب سب قاضیوں کو ہدایت کر دیں کہ کوئی رقم خواہ کوئی خوشی سے بھی دے تنازعات کے فیصلہ کے لیے نہ لیا کریں۔”

(حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے قضائی فیصلے وارشادات صفحہ نمبر65)

اب قضاء میں تمام مقدمات بلامعاوضہ طے کیے جاتے ہیں۔کورٹ فیس یا کسی قسم کی فیس کا تصوربھی موجود نہیں۔ یہ سب خلافت کی ہی برکت ہے۔اس حوالہ سے مزید سدباب کے لیے حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے یہ چیز نئے قواعد میں شامل فرمادی ہے ۔ چنانچہ قاعدہ نمبر13 میں ہےکہ تنازعات کے تصفیہ کے لیے کوئی اُجرت وصول نہیں کی جائے گی۔

یہی نہیں بلکہ ہم آئے روز عدالتوں اور دنیاوی ثالثی اداروں میں دیکھتے ہیں کہ فریقین دور دراز کا سفر کرکے آتے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میں تو اگر آپ کی سماعت ہے تو سارا دن ضائع ہونا لازمی ہوتا ہے۔ پھربھی ضروری نہیں ہوتا کہ اس دن سماعت ہو۔بلکہ اگلی تاریخ دے دی جاتی ہے۔ لیکن خلافتِ احمدیہ کے زیر سایہ جو نظامِ عدل پروان چڑھ رہا ہے اس میں اگر کسی وجہ سے قاضی موجود نہ ہو اور قبل از وقت فریقین کو سماعت ملتوی ہونے کی اطلاع بھی نہ ہوسکے تو خلفاء اس پر حاضر فریق کو کرایہ دلوانے کے احکامات صادر فرماتے ہیں۔ چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ایک تنازعہ کی رپورٹ پیش ہونے پر فرمایا :

“ایک فریق مقدمہ کے ذریعہ سے معلوم ہواہے کہ آپ نے انہیں مقدمہ کی جوابدہی کے لیے بلوایا لیکن قاضی سماعت کنندہ یہاں موجود نہیں تھے۔اس سے انکا روپیہ اور وقت کا حرج ہوا۔اس لیے میں فیصلہ کرتا ہوں کہ انہیں پورا سفرخرچ دے کر میرے پاس رپورٹ کی جائے کہ کس حساب سے خرچہ دیا گیا ہے اورآئندہ کے لیے فیصلہ کیا جائے کہ جب کوئی فریق کسی دن قادیان بلایا جائے اور دوسرا فریق حاضر نہ ہوتو دوسرے فریق سے باہر سے آنے والے فریق کو خرچہ دلایا جائے اور اگر قاضی موجود نہ ہوتو قضاء باہر سے آنے والوں کا خرچہ اداکرے۔ ”

(حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے قضائی فیصلے وارشادات صفحہ نمبر 567و568)

کچھ عرصہ قبل ربوہ میں بھی اسی طرح کا واقع ہوا۔ ایک معاملہ کی سماعت تھی جس میں ایک فریق کراچی کے تھے۔ لیکن ایک ممبر بورڈ کی مجبوری کی وجہ سے سماعت نہ ہوسکی اور حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے متاثرہ فریق کی شکایت پررپورٹ طلب فرمالی ۔ رپورٹ پیش ہونے پر فرمایا کہ اگر متاثرہ فریق کراچی سے خود ربوہ پہنچ گئے تھے اور سماعت نہیں ہوئی تو دارالقضاء ربوہ انہیں کراچی سے فیصل آباد تک ہوائی جہاز کا کرایہ ادا کرے۔

2۔نظام عدل تک آسان رسائی

دنیا کے بیشترعدالتی یا ثالثی اداروں تک رسائی کے لیے صرف کورٹ فیس کا ہی بوجھ نہیں ہوتا بلکہ وکلاء کی فیس بھی دینا پڑتی ہے۔ پاکستان جیسے ملکوں میں تو درخواست لکھوانے سے ہی خرچ شروع ہوجاتا ہے۔ جب کہ احمدیہ دارالقضاء میں کسی وکیل کی ضرورت نہیں۔آپ خود ہی درخواست لکھیں اس پر کارروائی شروع ہوجاتی ہے۔ پھر بسااوقات فریقین کی خواہش اور ضرورت ہوتی ہے کہ وہ قانونی پہلو جاننے والے کسی وکیل کی خدمات حاصل کریں۔ دنیا بھر میں وکلاء سائلین کی مجبوری کا فائدہ اٹھا کر منہ مانگی فیس وصول کرتے ہیں۔ لیکن احمدیہ دارالقضاء میں پہلے تو اس امر کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ خود یا مختار کے ذریعہ حاضر ہوکر معاملہ پیش کریں۔وکیل کی ضرورت ہی نہیں۔تاہم اگر کسی فریق کی بہت ہی خواہش ہو کہ اس نے ضرور وکیل کرنا ہے تو انہی وکلاء کو قضاء میں پیش ہونے کی اجازت ہوتی ہےکہ جو قواعد کے مطابق اجازت نامہ حاصل کرتے ہیں اور وہ بھی سائلین سے انتہائی معمولی فیس وصول کرسکتے ہیں۔خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جاتی ہے۔

پھر خلفائے سلسلہ نے احمدیہ نظام دارالقضاء میں درخواست دینے کواتنا سہل اور آسان بنایا ہے کہ باوجود اس کے کہ توجہ دلائی جاتی ہےکہ A4سائز کے کاغذ پر درخواست دیں تاہم کوئی کسی بھی کاغذ پر درخواست دے دے اس پر کارروائی کاآغاز ہوجاتا ہے۔ پاکستان میں تو بعض اوقات لوگ آدھے صفحہ پر یا پھٹے ہوئے کاغذپر بھی درخواست دے دیتے ہیں۔

1938ءکے بعد جب 2015ء میں حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے نئے قواعد کی منظوری عطا فرمائی تو اس میں جہاں اَور بہت سی تبدیلیاں فرمائیں وہاں ایک جگہ یہ قاعدہ بنایا گیا تھا کہ جب قضاء میں اپنا دعویٰ پیش کیا جائیگا تو اس کے ساتھ اپنا اور دوسرے فریق کا فون نمبر بھی مہیا کیا جائے۔یہ ہمارے ذہنوں میں بھی نہیں تھا اب بھی کچھ لوگ ہوسکتےہیں جن کے پاس فون کی سہولت مہیا نہ ہو۔ جب یہ مسودہ منظوری کے لیے حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت میں پیش ہوا تو اس قاعدہ کے حوالہ سے حضور نے ہدایت فرمائی کہ اس میں جہاں یہ لکھا ہوا ہے کہ فون نمبر دیا جائیگا وہاں یہ اضافہ کریں کہ“ اگر فون نمبر ہو تو’’۔ چنانچہ قواعد دارالقضاء قاعدہ نمبر 52جز‘‘د’’ میں یہ اضافہ لکھا ہوا دیکھا جاسکتا ہے۔ اب اس کے بعد کئی دفعہ ایسے لوگ سامنے آتے ہیں جن کے پاس فون نمبر نہیں ہوتا تو حیرت ہوتی ہے کہ خلفائے سلسلہ کس قدر باریک بینی سے لوگوں کی سہولت کا خیال رکھ رہے ہوتے ہیں۔

3۔عزت نفس کا خیال

قضاء میں آنے والے احباب اپنے تنازعات کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں۔ لازمی طورپر تنازعات کا پہلے گھریلو یا نجی سطح پر یا دیگر فورمز پر حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ جب کوئی صورت نہیں نکلتی تو قضاء سے رجوع کیا جاتا ہے۔ اُس وقت تک عموماً تلخیاں کافی بڑھ چکی ہوتی ہیں۔ اس لیے دوران سماعت بھی اس کے مناظر دیکھنے کو مل جاتے ہیں۔تاہم قضاء نہ تو کوئی دنیاوی ثالثی ادارہ ہے اور نہ ہی کوئی پنچایت یا عدالت۔ بلکہ یہ تو وہ ادارہ ہے کہ جو خلافتِ احمدیہ کے سائے تلے لوگوں کے تنازعات کا فیصلہ کرتا ہے ۔خلافت سے بڑھ کر وسعت حوصلہ اَور کس میں ہوسکتا ہے ،خلافت سے بڑھ کر شرف انسانیت کا محافظ اَور کون ہوسکتا ہے۔ اس لیے خلفاء کی طرف سے وابستگانِ قضاء کو بار بار یہی تلقین کی جاتی ہے کہ یہاں اپنا معاملہ پیش کرنے والے احباب کے ساتھ مکمل احترام کے ساتھ پیش آیا جائے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے ہدایت فرمائی کہ فریقَین کے نام کے ساتھ لازمی‘‘صاحب’’لکھا جائے۔ یعنی قضاء میں اپنا معاملہ پیش کرنے والوں کا احترام مدنظر رکھا جائے۔

پھر حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ

‘‘قاضیوں کو تاکید کریں کہ وہ اپنے فیصلوں میں ایسے الفاظ استعمال کیا کریں جو عمومی طور پر کسی کے لیے دل شکنی کا موجب نہ بنیں۔’’

(بحوالہ ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنام ناظم دارالقضاء ربوہ فرمودہ 20اگست 2010ء)

پھر ایک اور موقع پر حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:

‘‘قضاء کوئی دنیاوی عدالت نہیں ہے۔اس لیے کسی بھی صورت میں کوئی سخت کلمہ کسی کے لیے زبان سے نہیں نکالنا۔’’

(ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنام ناظم دارالقضاء ربوہ ۔فرمودہ 12جولائی 2006ء )

یہ بھی خلافت کی ہی برکت ہے کہ عائلی معاملات میں بطور خاص خواتین کے احترام کاخیال کیاجاتا ہے ۔ چنانچہ بالعموم دنیاوی عدالتوں میں عائلی معاملات میں وکلاء اپنے فریق کو درست ثابت کرنے کے لیے اس طرح کی جرح کرتے ہیں کہ جن سے خواتین کی دلآزاری کا اندیشہ ہوسکتا ہے۔ چنانچہ اس مسئلہ کے حل کے لیے دارالقضاء میں عائلی معاملات میں حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ پابندی عائدکردی گئی کہ وکلاء اس میں پیش نہیں ہونگے بلکہ مجبوری میں مربیان مقرر کردئیے گئے جو بطور نمائندہ پیش ہوتے ہیں اور انہیں بھی سختی سے ہدایت ہوتی ہے کہ عورت کی عزت واحترام کا پورا خیال رکھیں۔

4۔ فوری اور جلد انصاف کی فراہمی

حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ اور آپ کے بعد آنے والے خلفائے سلسلہ مسلسل اس امر کی نگرانی فرماتے ہیںکہ تنازعات کے حل میں غیر ضروری تاخیر نہ ہو۔ اس حوالہ سے کسی بھی فریق کی شکایت پر فوری رپورٹ طلب کی جاتی ہے اور رپورٹ پیش ہونے پر خلفائے سلسلہ کی طرف سے توجہ بھی دلائی جاتی ہے اور حسب ضرورت تنبیہ بھی کی جاتی ہے۔بطور خاص عائلی معاملات میں اس طرف بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے۔ حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے عائلی معاملات کے فیصلے کے لیے زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کا عرصہ مقرر کیا ہوا تھا۔

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی ایک سے زائد دفعہ اس حوالہ سے توجہ دلائی جاچکی ہے کہ عائلی معاملات زیادہ سے زیادہ 6ماہ میں مکمل فیصلہ پاجائیں۔

5۔ دارالقضاء خلافت کے سائے تلے احمدیوں کے باہمی تنازعات کے حل کا بین الاقوامی فورم

دارالقضاء کئی پہلوؤں سے احمدیوں کے لیے خلافت کا ایک بہت ہی عظیم احسان ہے۔ کیونکہ اس وقت احمدی احباب دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں۔ باہمی تعلقات بھی ہیں اور رشتہ داریاں بھی ۔ جب تعلق ہو تو لین دین بھی ہوسکتا ہے اور لین دین ہوتو مسائل بھی جنم لے سکتے ہیں۔ اب اگر ایک فریق پاکستان کا ہو اور دوسرا امریکہ کا یا ایک یوکے کا ہو اور دوسرا کینیڈا کا اور ان کے مابین لین دین کا مسئلہ پیدا ہوجائے یا کوئی عائلی تنازعہ جنم لے لے توجداجدا ملکوں کی شہریت کی وجہ سے تنازعات کا فیصلہ ناممکن نہ سہی انتہائی کٹھن اور مشکل تو ضرور ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی شخص جس ملک کا شہری ہے ڈھیروں پیسے خرچ کرکےوہاں کی عدالت سے ڈگری لے بھی لے تو اس کی تنفیذ(Implementation) ناممکن سی بات ہوتی ہے۔ پھر اگر تنازعہ معمولی رقم کا ہو اور اس کا حل کرنا ہو تو اس پر کئی گنا زیادہ لاگت آنے کاا ندیشہ ہوتا ہے۔لیکن احمدیوں کے لیے باہمی تنازعات کے حل کا کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ جس ملک میں ہیں وہیں کی قضاء میں صرف ایک درخواست دے دیں تو بغیر کسی خرچ کے مسئلہ کے حل کی طرف پیش رفت شروع ہوجاتی ہے۔ کیونکہ ہر ملک میں نظام جماعت موجود ہے۔ اس لیے متفرق ممالک کے شہری ہونے کے باوجود اگر خلافت کے سائے تلے ہیں تو خلافت ان کے باہمی تنازعات کے خوف کو امن میں بدل دیتی ہے۔ نہ صرف فیصلہ ہوتا ہے بلکہ اس کی تنفیذ بھی نظام جماعت کرواتا ہے۔ یہ خلافت کی برکت ہے کہ دو احمدیوں کے باہمی تنازعہ کے فیصلے اور پھر عملدرآمد کے لیے کئی نظام اور ادارے متحرک ہوجاتے ہیں۔ اب تو جدید ذرائع ابلاغ ہیں، سکائپ (Skype)پر بھی گواہیاں ریکارڈ ہوجاتی ہیں ۔جب یہ سب نہیں تھا تب بھی خلافت کی برکت سے ان مسائل کا حل نکالا جاتا تھا چنانچہ حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے عہد میں دارالقضاء قادیان میں زیر کارروائی ایک تنازعہ میں جس شخص کی گواہی کی ضرورت پڑی وہ رنگون میں تھا۔ چنانچہ حضور کی ہدایت پر وہاں نظام جماعت نے اس کی گواہی نوٹ کرکے بھجوائی ۔

6۔خلفائے سلسلہ کی طرف سے دارالقضاء کی مسلسل نگرانی

خلافتِ احمدیہ کے قیام کا مقصد ہی شریعت کا احیاء اور اس کا نفاذ ہے اس لیے خلفاء کے لیے یہ بات ناقابل برداشت ہے کہ جماعت کے کسی بھی سطح پر کوئی ایسا فیصلہ ہو جس میں شریعت کا کوئی بھی پہلو دانستہ یا نادانستہ نظر انداز ہوگیا ہو۔

خلفائے سلسلہ اپنی بے پناہ دینی مہمات اور گوناگوں مصروفیات کے باوجود احمدیوں کے مابین تنازعات کے تصفیہ کے لیے وقت دیتے ہیں، اس کی مسلسل نگرانی اور راہنمائی فرماتے ہیں اور حسبِ ضرورت خود بھی لوگوں کے باہمی تنازعات کے حل اورقضائی فیصلوں کی اپیلوں کی سماعت کرتے ہیں۔

ویسے تو قضاء میں اگر آخری مرحلہ یعنی مرافعہ عالیہ بورڈ کا اختلافی فیصلہ ہو تو خلیفہ وقت کی خدمت میں فریقین کی باقاعدہ دارالقضاء کی وساطت سے اپیل پیش ہوتی ہے۔ تاہم باقاعدہ اپیل کا حق نہ بھی ہو تو کوئی بھی احمدی کسی بھی مسئلہ پر خلیفہ وقت کی خدمت میں لکھ سکتا ہے۔جس پر عموماً خلفائے سلسلہ کی طرف سے رپورٹس طلب کی جاتی ہیں۔پھر اگر کوئی غلطی یا سہو سامنے آئے تو خلفائےسلسلہ راہنمائی فرماتے ہیں۔ یہ امر دارالقضاء کے لیے سب سے زیادہ باعث فخر ہے کہ خلفائے سلسلہ کی ہر لمحہ راہنمائی دارالقضاء کو حاصل رہتی ہے۔جس کی وجہ سے فیصلوں میں اگر کوئی سہو ہو بھی جائے تو اس کی اصلاح ہوجاتی ہے ۔ خلافت اور جماعت کا آپس میں اس طرح کا تعلق ہے کہ ہر شخص اپنے ہر مسئلہ کے لیے خلیفة المسیح سے رابطہ کرسکتا ہے۔ جس کا اُسے باقاعدہ جواب ملتا ہے ۔ اسی لیے قضائی مسائل پر بھی لوگ کثرت سے خلفائے سلسلہ کی خدمت میں لکھتے ہیں۔ اسلامی نظام عدل کے فلسفہ میں بنیادی اہمیت انصاف کو دی جاتی ہے۔ قواعد اور تکنیکی معاملات بھی مدنظر رکھے جاتے ہیں تاہم قانونی موشگافیوں میں پڑ کر کسی کو عدل سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ بشری تقاضوں کے باعث بسااوقات آخری مرحلہ تک غلطی کاامکان ہوسکتا ہے اور جب خلیفة المسیح کی خدمت میں معاملہ پیش ہوتا ہے تو بعض اوقات وہ پہلو سامنے آتے ہیں کہ جن کی طرف پہلے کسی کی توجہ نہیں ہوئی ہوتی۔ کیونکہ خلفائےسلسلہ کے نورِبصیرت کو خدا تعالیٰ کی تائید ونصرت حاصل ہوتی ہے۔ جب خلفائے سلسلہ پر یہ امر واضح ہوجائے کہ فیصلہ میں کسی جگہ سُقم رہ گیا ہے تو پھر خلفائے سلسلہ کی طرف سے ان فیصلہ جات کی تصحیح کی جاتی ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔تنازعات کے حل کی طرف خلفائے سلسلہ کی اس قدر توجہ ہوتی ہے کہ دنیا کے کسی اَور نظام میں اس کی مثال پیش کرنا ممکن ہی نہیں۔

خلافت ثالثہ میں ترکہ کے ایک معاملہ میں لوگوں نے دس دس دفعہ حضورؒ کی خدمت میں لکھا اور دس دفعہ ہی حضوؒر نے قضاء سے رپورٹس طلب فرمائیں۔ پھر ایک معاملہ جو کسی طرح حل ہونے میں نہ آتا تھا، بطور سپیشل جج حضرت مرزا طاہر احمد صاحب نے بھی اس کا فیصلہ فرمایا۔ ایک لمبا عرصہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ بھی اس معاملہ کے فیصلہ جات فرماتے رہے کئی دفعہ معاملہ حضور کی خدمت میں پیش ہوا۔ ہر فیصلہ کے بعد کوئی نہ کوئی فریق اعتراض کردیتا۔ ایک وقت آیا کہ حضور رحمہ اللہ مکرم ناظر صاحب اعلیٰ، ناظر صاحب امورعامہ اور ناظم صاحب دارالقضاء کے ہمراہ موقع پر دارالرحمت ربوہ تشریف لے گئےاور پھر موقعہ پر فیصلہ جات فرمائے اور ساتھ ہی فرمایا کہ اب اس کے بعد میں ان کا اس بارے میں کوئی جھگڑا نہ سنوں گا۔

ایک معاملہ میں جب امورعامہ ، دفتر پرائیویٹ سیکرٹری اور قضاء کی رپورٹس میں اختلاف کے باعث حضور نے سرزنش فرمائی اور اس پر متعلقہ اداروں کے سربراہوں کی طرف سے حضور کی خدمت میں معافی کا لکھا گیا تو اس پر حضورؒ نے یہ ارشاد فرمایا کہ :

“آپ دونوں سر جوڑ کر بھائیوں کی طرح مسل کا معائنہ کریں ’’

حضور کے اس فقرہ سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ لوگوں کا باہمی تنازعہ تھا لیکن چونکہ خلافت نے ہی عدل فراہم کرنا ہے اس لیے پورے غور سے مسل کے جائزےکی طرف توجہ دلائی ہے۔

جتنا انسان تقویٰ میں بڑھے گا اتنا ہی وہ بہتر انداز میں خلافت کے مقام کا ادراک کر سکے گا۔ اس کا ایک منظر ہمیں خلافت ثالثہ کے ایک کیس میں نظرآتا ہے ۔ لندن میں نظام ِجماعت کی طرف سے ایک معمولی عائلی معاملہ جب عالمی عدالت انصاف کے جج حضرت چوہدری سر محمد ظفراللہ خان صاحبؓ کی خدمت میں پیش ہوتا ہے کہ آپؓ بطور ثالث فیصلہ کردیں تو چوہدری صاحب جیسا وجود جن کو بوقت وفات خدا کے خلیفہ نے کلمۃ اللہ قرار دیا۔جو ممالک کے مابین جھگڑوں کا فیصلہ کیا کرتے تھے۔ جن کے فہم کا شہرہ چہاردانگ عالم میں تھا۔ وہ دو احمدیوں کے مابین ایک معمولی عائلی تنازعہ کا فیصلہ کرنے سے پہلے دونوں فریق کو واضح کردیتا ہے کہ مجھے اس حوالہ سے پہلے حضرت خلیفۃ المسیح سے استصواب کرنا پڑے گا۔ کیونکہ حضرت چوہدری صاحب تقویٰ کے جس مقام پر تھے آپ کو اسی قدر خلافت کے مقام کا ادرا ک تھا اور جانتے تھے کہ خلیفہ جس بصیرت سے معاملات کو دیکھ سکتا ہے، خواہ اَور کوئی بھی ہو اس کو وہ ہمت اور طاقت کہاں نصیب ہوسکتی ہے۔ خلیفہ خدا کے نور سے دیکھتاہے۔ چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ بھی کمال شفقت سے دوصفحات پر مشتمل تفصیلی راہنمائی فرماتے ہیں اور اسی کے مطابق حضرت چوہدری صاحب کا فیصلہ ہوتا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک کیس کے دوران بعض معاملات پیش ہونے پر فرمایا:

‘‘ میری یہ ہدایت سب قاضیوں تک پہنچا دی جائے۔سلسلہ عالیہ احمدیہ کی قضاء کا عدل و انصاف غیر جانبداری اور وقار ہر تعلق سے اعلیٰ اورارفع ہونا چاہیے۔ تا کبھی کسی کو اس پر کو ئی حرف رکھنے کا موقعہ نہ مل سکے۔’’

(بحوالہ حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے قضائی فیصلے وارشادات کیس نمبر 17 صفحہ نمبر 89)

بورڈ مرافعہ عالیہ کا باقاعدہ قیام چونکہ حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ نے فرمایا تھا اس لیے حضور کی توقعات بھی بورڈ سے بہت زیادہ تھیں۔ ایک معاملہ میں کچھ کوتاہی سامنے آنے پر بڑے ہی دردمندانہ انداز سے بورڈ کو توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

‘‘مرافعہ عالیہ یعنی پانچ ارکان پر مشتمل بورڈ پہلی بار میں نے قائم کیا اورکہا کہ ان کے متفقہ فیصلہ کے خلاف کسی فریق کو اپیل پیش کرنے کا حق نہیں ہوگا۔ ایسا کرکے خلیفہ وقت نے اپنے اختیارات پانچ رکنی بورڈ کو منتقل کردیے اوراس طرح سے پانچ رکنی بورڈ کا فیصلہ خلیفہ وقت کا فیصلہ قرار پاتا ہے۔ پیشتر ازیں ایسی صورتحال نہیں تھی۔بورڈ جو تین ارکان پرمشتمل ہوا کرتا تھا اس کا فیصلہ بورڈ قضاء کا فیصلہ شمار ہوتا تھا۔ کیونکہ اس فیصلہ کے خلاف فریقین کو خلیفہ وقت کی خدمت میں اپیل پیش کرنے کی اجازت حاصل تھی۔فیصلہ جس نے خلیفہ وقت کا فیصلہ شمار ہونا اور قرارپانا ہے۔ اس کو صادر کرتے وقت کس قدر احتیاط محنت اور ذمہ داری کی ضرورت ہے کیا اراکین بورڈ اس سے آگاہ نہیں اورکیا معاملہ زیرِنظر میں اس قدراحتیاط،محنت اور ذمہ داری کا ذرا سا بھی عنصر موجود ہے۔’’

(حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے قضائی فیصلے وارشادات کیس نمبر46 صفحہ229)

دنیاوی عدالتی نظام میں بالعموم اور ترقی پذیر ممالک میں بالخصوص عدالتی سقم اور غلطیوں پر یا تو پردہ ڈالنے کی کوشش کی جاتی ہے اور ان کو دبایا جاتا ہے یا پھر اعلیٰ عدلیہ غلطی کی نشاندہی کا سہرا ا پنے سر باندھنے کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے ۔ لیکن الٰہی سلسلوں میں اگر کوئی غلطی نظر آئے تو اس پر خلفائےسلسلہ نہ صرف توجہ دلاتے ہیں بلکہ حسبِ ضرورت تادیب بھی کرتے ہیں اور غلطی کے ملنے پر خدا کے شکر کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اس کو تقدیر الٰہی قرار دیتے ہیں۔چنانچہ ایک معاملہ میں حضور فرماتے ہیں :

‘‘ ایک بار فیصلہ دے دینے کے بعد کہ مدعی کو اپیل کا کوئی حق حاصل نہیں۔ ایک متفرق درخواست پرتمام معاملہ کو از سر نو کھلوانا اور فیصلہ میں ایک ایسے سقم کا نظر آجانا جس سے فیصلہ کا تقدس ختم ہوتا نظر آئے صاف تقدیر الٰہی کے تحت ہوتا نظر آتا ہے۔’’

(حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے قضائی فیصلے وارشادات کیس نمبر46صفحہ 230)

خلافت خامسہ میں ہمارے جائزے کے مطابق تقریباً ہر تین میں سے ایک کیس کے بارے میں کسی نہ کسی فریق کی طرف سے لازمی طورپر معاملہ حضورِ انورا یدہ اللہ تعالیٰ کی خدمت اقدس میں پیش کیا جاتا ہے۔

خلافت رابعہ میں پاکستان کے حالات کی خرابی کی وجہ سے جب کثرت سے لوگ بیرون ملک جانے پر مجبور ہوگئے تو اس وقت ضرورت تھی کہ بیرون ممالک میں بھی نظام قضاء کو مستحکم بنیادوں پر قائم کیا جائے۔ چنانچہ خلافت رابعہ میں بیرون ممالک میں نظام قضاء کا قیام شرو ع ہوا۔ خلافت رابعہ میں 8ممالک میں نظام قضاء قائم ہوچکا تھا جب کہ خلافت خامسہ میں 17سے زائد ممالک میں نظام قضاء قائم ہوچکا ہے۔ خلافت خامسہ میں قضاء کے 100سال پورے ہونے پر لندن میں ایک انٹرنیشنل ریفریشرکورس منعقد ہوا۔ جس میں وابستگانِ قضاء کو حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سے براہ راست کسبِ فیض کا موقع ملا۔ انفرادی ملاقاتوں میں بھی حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ قاضیوں کی علمی صلاحیتوں کا جائزہ لیتے رہے اور توجہ دلاتے رہے۔

صرف ایک کیس کے حوالہ سے جو چیز ذاتی طورپر سامنے آئی اس کا ذکر کردیتا ہوں۔ ایک عائلی معاملہ تھا جس پر کیس دائر کرتے وقت لڑکا واضح اظہار کررہا تھا کہ وہ بھی بچی کو کسی صورت بسانا نہیں چاہتا۔ جب اسے سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ پھر قرانی حکم کے موافق حقوق کے ساتھ بچی کو رخصت کرو تو کہنے لگا کہ اب خلع کی درخواست آگئی ہے۔ میں طلاق دے کر حق مہر کیوں واجب ٹھہراؤں ؟ چونکہ اس کا اظہار قضائی نہ تھا۔ قضائی کارروائی میں جو معاملات قضاء کے سامنے آئے تو اس میں اس نے ثابت کردیا کہ لڑکی کا قصور ہے اس لیے بچی کی خلع بغیر حقوق کے منظور ہوئی ۔بورڈ تک فیصلہ بحال رہا۔ تاہم بچی کی طرف سے بطور شکایت معاملہ حضرت خلیفة المسیح کے دربار میں پیش کیا گیا اور حضور کی طرف سے بچی کی شکایت منظور کرتے ہوئے فیصلہ آیا کہ باوجود خلع کے بچی حق مہر کی حقدار ہے۔ چونکہ لڑکے کے پہلے اظہار کو کافی عرصہ گزر چکا تھا وہ کچھ غصہ سے دفتر آیا اور کہنے لگا کہ بورڈ کا بھی فیصلہ متفقہ تھا ۔ حضور کی خدمت میں رپورٹ درست نہیں گئی ہوگی وغیرہ ۔ اس پر خاکسار نے اسے بتایا کہ مسل کی زیادہ چیزیں ساتھ گئی تھیں۔ لیکن کیوں بھولتے ہو کہ خلفائےسلسلہ خدا کے نور سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ بھول گئے ہو جب کہتے تھے کہ میں بھی بسانا تو نہیں چاہتا۔ پھر اگر چرب زبانی سے غلط فیصلہ کروالیا تو خلیفہ وقت کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے خلاف فیصلہ کروا کر تمہیں اپنی ناراضگی سے بچا لیا۔ اس پر وہ ایک دم ایسا مطمئن ہوا اور کہنے لگا کہ حضور کا فیصلہ تو ٹھیک ہے حق مہر تو بنتا ہی تھا میری والدہ بھی کہہ رہی تھیں اب فوری ادائیگی کرو۔ اور فوری ادائیگی کردی۔

7۔ خلیفۂ وقت۔ عدل وانصاف کا پیکر اور شفیق باپ

7۔ خلیفۂ وقت۔
عدل وانصاف کا پیکر اور شفیق باپ

قیام ِعدل خلافت کے بے شمار احسانات کا محض ایک پہلو ہے۔ جب قضائی فیصلہ ہوتا ہے تو اس میں تو پیش کردہ دلائل اور ثبوتوں کی بناء پر بہرحال عدل وانصاف کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔ اس میں یہ نہیں دیکھا جاتا کہ کون امیر ہے اور کون غریب بلکہ اگر کوئی غریب کسی امیر کا حق دبا رہا ہو تو محض اس وجہ سے کہ حق دبانے والا غریب ہے اس کے خلاف فیصلہ نہ کیا جائے یہ بات شریعت کے منافی ہے اور خلافتِ احمدیہ کا مقصد ہی شریعت کا احیاء اور قیام ہے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

‘‘اسلام انصاف کا حکم دیتا ہے۔ اگر کسی بڑے آدمی کا حق چھوٹا دبائے تواس بڑے کا حق بھی اس طرح دلوانا چاہیے جس طرح چھو ٹے کا۔ اگر کسی شخص ایسے کو جوتمدنی حیثیت دوسرے سے زیادہ رکھتا ہے اس کا حق دلوانے پر اعتراض کی اجازت دی جاوے کہ قاضی نے اس بڑے آدمی کا لحاظ کیا ہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہو گا کہ قاضی بڑے آدمیوں کے حق کو ضائع کریں گے۔ مگر اسلام حق کو مقدم رکھتا ہے۔ چھوٹے بڑے کا سوال اسلام میں پیدا نہیں ہوتا۔’’

(حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے قضائی فیصلے و ارشادات صفحہ نمبر422)

لیکن بعض اوقات ایک شخص جو حد سے زیادہ غریب ہے وہ اپنی کسی کمزوری کی وجہ سے ایسا زیر بار آتا ہے کہ باوجود اس کے کہ اس کا فرض تھا کہ وہ قضائی فیصلے کی تعمیل کرتا لیکن اس میں اس کی استطاعت ہی نہیں ہوتی۔ اگر ایسی صورتحال سامنے آئے تو خلفاء یہ نہیں کرتے کہ عدل وانصاف کو نظر انداز کرتے ہوئے محض غریب کی ہمدردی میں ناجائز طور پر فیصلہ اس کے حق میں کردیں بلکہ ایسے مواقع پر خلافت کے احسان کا ایک اَور پہلو جلوہ افروز ہوتا ہے اور زیر بار آنے والے کی مدد کے نظارے ہمیں دیکھنے کو ملتے ہیں۔اُس طرح کے مناظر پھر سامنے آجاتے ہیں کہ جب کہ دربار نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ایک شخص اپنی بشری کمزوری کی وجہ سے شرعی قصور کے ساتھ حاضر ہوتا ہے اور دربار نبویؐ سے اس کو کہا جاتا ہے کہ 60روزے رکھووہ کہتا ہے کہ ایک روزہ میں صبر نہیں کرسکا تو 60کی استطاعت کیسے ہوسکتی ہے۔ فرمایا جاتا ہے کہ 60مسکینوں کو کھانا کھلاؤ۔ عرض کرتا ہے کہ اس کی بھی استطاعت نہیں۔ ارشاد ہوتا ہے کہ یہا ں بیٹھ جاؤ کہیں سے صدقے کی کھجوروں کا ٹوکرا ا ٓتا ہے ۔ ارشاد نبویؐ ہوتا ہے کہ ان کو لے جاکر غریبوں میں بانٹ دو۔ عرض کرتا ہے کہ مدینہ میں میرے سے زیادہ غریب کون ہوگا ۔ شفقت و رحمت کا پیکر تبسم کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں جاؤ گھر لے جاؤ۔ اسی طرح جب کوئی اپنی نادانی اور کم فہمی کی وجہ سے زیر بار ہوجائے اور دیانت داری اور نیک نیتی سےفیصلے پر عمل کی کوشش بھی کرے توحسب موقع شفیق باپ کی طرح خلفاء اس کی مدد بھی کرتے ہیں چنانچہ ایک قضائی فیصلے میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

‘‘اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ جب ان کے پاس روپے ہیں ہی نہیں بلکہ وہ مقروض ہیں تو روپے کس طرح ادا کریں۔ میرے نزدیک گو یہ قرض انہوں نے بے جا غضب کی بناپر چڑھایا ہے۔ مگر ان کی موجودہ مالی حالت فی الواقع نازک ہے۔۔۔۔ اس لیے میں سفارش کرتا ہوں کہ صدر انجمن احمدیہ ان کے اس قرض کو پورا کرکے حسب سہولت ان سے واپس لے لے۔ لیکن اگر اس کی کوئی صورت ممکن نہ ہو تو چونکہ یہ قرض فوراً واجب الادا ہے ان کے مکان کو گروی یا فروخت کر کے اس قرضہ کی ادائیگی کی جائے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس میں ان کا بہت نقصان ہوگا اس لیے میں پھر ایک دفعہ انجمن کے پاس ان کی اعانت کی سفارش کرتاہوں۔’’

(بحوالہ حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کے قضائی فیصلے وارشادات کیس نمبر 3صفحہ نمبر11)

مذکورہ بالا معاملہ میں تو حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے صدرانجمن سے سفارش کی تھی۔ اس لیے فیصلے میں تحریر کردیا۔ لیکن زیادہ تر معاملات میں فریق کی عزت نفس کا بھی خیال رکھا جاتا ہے اور خلفائےسلسلہ کی طرف سے انتہائی خاموشی سے مدد ہورہی ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ ہر دَور خلافت میں جاری وساری ہے۔

8۔افرادجماعت کی تربیت کا خیال

خلافت اور دنیاوی سیاست میں یہی فرق ہوتا ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے ۔ اس لیے خلفاء سوائے اپنے خدا کے ہر چیز سے بے نیاز ہوتے ہیں ۔ جب کہ سیاست دان عوامی رجحانات کے غلام ہوتے ہیں۔ جب خلفاء افراد جماعت کو ان کی غلطیوں سے آگاہ کرتے ہوئے اس بات کی پروا بھی نہیں کرتے کہ کوئی ان کے بارے میں کیا سوچے گا۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ان کو قادرقیوم خدا نے خلیفہ بنایا ہے اگر ایک شخص اپنی بدبختی سے دور جائیگا تو خدا تعالیٰ اس کی جگہ بیسیوں مخلصین کو لے آئیگا۔ چنانچہ جہاں شفقت اور احسان کا پہلو ہوتا ہے وہاں تربیت کا بھی ہر ممکن لحاظ ہوتا ہے ۔ چنانچہ قضائی خدمت کرنے والوں کو عدل وانصاف کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے اور بار بار خدا کا خوف دلایا جاتا ہے ۔ ایک موقع پر جب کسی نے قضائی فیصلہ کے حوالہ سے شکوہ کیا تو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بڑے انذاری رنگ میں فرمایا :
‘‘میں قضاء کے فیصلہ میں دخل نہیں دے سکتا۔ اگروہ انصاف کے خلاف ہے تو اللہ تعالیٰ خود قاضیوں کو سزا دے گا۔ ’’

دوسری طرف افراد جماعت کو بھی نصیحت کی جاتی ہے کہ قضائی فیصلے پیش کردہ حقائق اور ثبوت پر ہوتے ہیں اس لیے حتمی طو رپر جو بھی فیصلہ ہوجائے اس کو تسلیم بھی کرلینا چاہیے۔ خواہ مخواہ قاضی صاحبان پر تنقید نہیں کرنی چاہیے۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔

‘‘قاضی صاحب کسی کے خلاف فیصلہ کریں یا موافق۔ وہ سلسلے کے خادم ہیں اور کسی قوم کے خدام کو اس طرح ہدف فحش ہونے دینا نہایت مکروہ اور مہلک امر ہے۔پس میں اس امر کے متعلق پھر وضاحت سے لکھ دینا چاہتا ہوں کہ عدالت مرافعہ کو چاہیے کہ ہمیشہ اس امر پر نوٹس لے اور میں سلسلہ کی ممتاز دانش و عقل سے امید کرتا ہوں کہ وہ اپنے قاضیوں کو ایسے ظالمانہ حملوں سے بچانے کی ہمیشہ کوشش کرے گی۔’’

(حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قضائی فیصلےصفحہ نمبر437)

حضرت خلیفة المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:

‘‘ آپ قضاء کے خلاف جس طرح الزام تراشیاں کررہے ہیں یہ اکثر کمزور ایمان والوں کا شیوہ ہے۔ یہ تو ناممکن ہے کہ قضاء دونوں فریق کے حق میں فیصلہ کرے۔ اس لیے 50 فیصد تو ضرور فیصلہ کے خلاف رہتے ہیں لیکن جو شرافت اور تقویٰ سے کام لیتے ہیں وہ عدلیہ کے سامنے سرجھکا دیتےہیں اورجنہوں نے خود سری دکھانی ہو وہ آخر وقت تک اعتراض کرتے چلے جاتے ہیں۔ خدا کے فضل سے سلسلہ کے متقی صاحب علم بزرگوں کو چُن کر قضاء بورڈ میں شامل کیا جاتا ہے جو اپنے فہم اورعلم کے مطابق انصاف سے فیصلے کرتے ہیں تاہم ان سے اگرکوئی بشری کمزوری سرزد ہوجائے تو کسی کا حق نہیں کہ ان کو ناپاک الزامات کا نشانہ بنائے…… ایسی صورت میں آپ جیسے لوگوں کوپھر دنیا کی عدالت میں جانا چاہیے۔ وہ ڈنڈے کے زورپر اپنے کیے ہوئے فیصلے منوابھی لیا کرتی ہیں۔۔۔۔۔’’

(حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالی کے قضائی فیصلے صفحہ نمبر277)

غرض دارالقضاء کاقیام اور پھر اس کا استحکام خلافت کے بہت بڑے احسانوں میں سے ایک احسان ہے۔لیکن دنیا دار لوگ شروع سے ہی اس نظام کو بطور خاص شک کی نگاہ سے دیکھتے رہے ہیں۔ 1919ء میں جب اس نظام کا آغاز ہواتو اس وقت ہندوستان میں انگریز کی حکومت تھی وہ بھی اس کو شک کی نظر دیکھا کرتے تھے ۔ چنانچہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ؓ کی تحریرات میں ہمیں اس کا وضاحت سے پتہ چلتا ہے اور اب بھی بطور خاص پاکستان میں احمدیہ مخالف تنظیموں کی طرف سے جو مطالبات پیش کیے جاتے ہیں ان میں نمایاں طور پر ایک یہ مطالبہ ہوتا ہے کہ احمدیوں نے اپنی عدالتیں بنائی ہوئی ہیں گویا ریاست کے اندر ریاست ہے۔ جبکہ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ دارالقضاء کا قیام صرف احمدیوں پر ہی احسان نہیں ہے بلکہ حکومت وقت پر بھی یہ خلافت کا احسان ہے کیونکہ احمدیوں کے بہت سے تنازعات جو باہمی تصفیہ سے طے پاسکتے ہیں ان کا بوجھ عدالتوں پر نہیں پڑتا۔کیونکہ ترقی پزیر ممالک میں تو عدالتوں میں لاکھوں کی تعداد میں کیس معرض التواء میں پڑے ہوتے ہیں۔ احمدیت کے بغض میں اس کو تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن ویسے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس صاحبان بھی تسلیم کرنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ پاکستان میں لوگوں کے تنازعات کے حل کے لیے ثالثی نظام کو موثر کرنے کی ضرورت ہے ۔ لیکن تعصب کی وجہ سے جو اتنا بہترین نظام چل رہا ہے اس پر اعتراض کیا جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافتِ احمدیہ کے قائم کردہ اس ادارے کی وجہ سے نہ صرف احمدیوں کے لاکھوں روپے بچتے ہیں بلکہ عدالتوں میں جاکر لوگ جو ذہنی پریشانی کا شکار ہوتے ہیں اس سے بھی بچت ہوجاتی ہے۔ وقت الگ بچتا ہے۔ حکومت کی مدد الگ ہوتی ہے۔ دارالقضاء میں آنے والے کیسز کا اگر جائزہ لیں تو یہاں ایک چادر کا بھی کیس چلا ہوا ہے (پاکستان، ہندوستان کے رہنے والے جانتے ہیں کہ سردیوں میں عموماً لوگ سردی سے بچاؤ کے لیے ایک چادر اوڑھتے ہیں۔ عام لوگوں کی وہ چادر نہایت معمولی قیمت کی ہوتی ہے۔)،پاکستان میں تقریباً تین ہزاریعنی تقریباً18پاؤنڈ کا بھی کیس چلا ہوا ہے۔ اور بیرون پاکستان سے ایک احمدی کا معاملہ لاکھوں ڈالر زکا بھی زیر سماعت آکر فیصلہ پاچکا ہے۔

احمدیوں پر یہ کتنا بڑا احسان ہے اس کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے کہ جب ایک فریق تعاون نہیں کرتا اور دوسرے فریق کو کہا جاتا ہے کہ ہم ثالثی ادارہ ہیں کیونکہ دوسر ا فریق ہم سے فیصلہ نہیں کروانا چاہتا اس لیے ہم مجبور ہیں آپ بھی سرکاری عدالت سے فیصلہ کروائیں۔ اس پر مجبور خواتین کے آنسو آئے روز دیکھنے کو ملتے ہیں۔ بلکہ ایک دلچسپ واقعہ بھی کچھ سال پہلے ہوا۔ چونکہ قضاء ثالثی ادارہ ہے اس لیے ثالثی فیصلوں کی تنفیذ بھی اسی صورت میں ہوسکتی ہے جب کہ دونوں فریق نظام جماعت کا حصہ ہوں۔ ایک شخص تعزیر کی وجہ سے نظام جماعت کا حصہ نہیں تھا ۔ اس کا کسی کے ساتھ تنازعہ ہوگیا جب اس نے قضاء میں درخواست دی تو اسے کہا گیا کہ چونکہ آپ نظام کا حصہ نہیں اس لیے قواعد کے مطابق ہم اس کا فیصلہ نہیں کرسکتے۔ اس پر اس شخص کا اصرار تھا کہ ہر صورت قضاء ہی یہ فیصلہ کرے۔ جب قواعد کے مطابق بالکل انکار کردیا گیا اور کہا گیا کہ اپنی داد رسی کے لیے ملکی عدالت سے رجوع کریں تو اس نے بجائے اپنے تنازعہ کے حوالہ سے دوسرے فریق پرکیس دائر کرنے کے ربوہ کے پاس تحصیل ہیڈکوارٹر لالیاں کی عدالت میں ناظم قضاء کے خلاف مقدمہ دائر کردیا اور عدالت سے استدعا کی کہ ان کو پابند کیا جائے کہ یہ میرا فیصلہ کریں۔ اس پر جج بھی حیران تھا اور ہمارے وکلاء کے مطابق ہنس کر ان صاحب کو کہہ رہا تھا کہ میں بیٹھا ہوں عدالتیں موجود ہیں تم یہاں آؤ ۔ مگر اس کا اصرار تھا کہ ربوہ کی قضاء کو حکم دیا جائے کہ وہ فیصلہ کرے۔ اس پر جج نے کہا کہ میں کسی ثالث کو کیسے کہہ سکتا ہوں کہ وہ لازمی فیصلہ کرے۔ غرض خلافتِ احمدیہ کی برکت سے جو نظام قضاء قائم ہے وہ خلافت کا اتنا بڑا احسان ہے کہ جس کااحاطہ کرنا ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ کارکنان قضاء اور افراد جماعت کو خلیفہ وقت کی کماحقہٗ اطاعت کی اس طرح توفیق عطا فرمائے کہ مولاکریم خود ہم سے راضی ہوجائے۔ تا خلافت کی نعمت دائمی طور پر ہم میں قائم رہے۔ آمین۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button