سیرت خلفائے کرام

خلافت کی عظیم الشّان برکات

(شیخ محمد احمد صاحب پانی پتی)

‘‘مجھے ان لوگوں کی باتوں پر تعجب آتا ہے جو چاہتے ہیں کہ خلافت ختم ہو جائے۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر خلافت جاتی رہی تو یہ لوگ ہر خیر و برکت سے محروم ہو جائیں گے اور اس کے بعد پوری طرح ذلیل ہو جائیں گے پھر وہ محرومی میں یہودیوں یا عیسائیوں کی طرح ہوں گے اور سب گمراہ ہونے میں برابر ہوں گے۔’’ (تاریخ ابن اثیر جلد 3 صفحہ 73)

قرآن شریف کی تعلیم اور سلسلۂ رسالت کی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ دنیا میں کسی رسول اور نبی کو بھیجتا ہے تو اس سے اس کی غرض یہ نہیں ہوتی کہ ایک آدمی دنیا میں آئے اور ایک آواز دے کر واپس چلا جائے بلکہ ہر نبی اور رسول کے وقت خدا تعالیٰ کا منشا یہ ہوتا ہے کہ دنیا میں ایک تغیر اور انقلاب پیدا کرے اور ایک نئی زمین اورنئےآسمان کی بنیاد رکھے لیکن اس کے لیے ظاہری اسباب کے ماتحت ایک لمبے نظام اور مسلسل جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ خدا تعالیٰ کی ہمیشہ سے یہ سنت چلی آئی ہے کہ وہ نبی کے ہاتھ سے صرف تخم ریزی کا کام لیتا ہے اور اس تخم ریزی کو انجام تک پہنچانے کے لیے نبی کی وفات کے بعد اس کی جماعت میں سے قابل اور اہل لوگوں کو یکے بعد دیگرے اس کے جانشین بنا کر اس کے کام کی تکمیل فرماتا ہے ۔ یہ جانشین اسلامی اصطلاح میں خلیفہکہلاتے ہیں۔ نظامِ خلافت میں نبی کے کام کی تکمیل کے علاوہ ایک حکمت یہ بھی مدنظر ہوتی ہے کہ تاجو دھکا نبی کی وفات کے وقت نبی کی نئی نئی جماعت کو لگتا ہے جو ایک ہولناک زلزلہ سے کم نہیں ہوتا اس میں جماعت کو سنبھالنے کا انتظام رہے ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اسی امر کو نہایت لطیف رنگ میں اس طرح پیش فرماتے ہیں:

یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے اور جب سے کہ اس نے انسان کو زمین میں پیدا کیا ہمیشہ اس سنت کو وہ ظاہر کرتا رہا ہے کہ وہ اپنے نبیوں اور رسولوں کی مدد کرتا ہے اور اُن کو غلبہ دیتا ہے۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغۡلِبَنَّ اَنَا وَ رُسُلِیۡ اور غلبہ سے مراد یہ ہے کہ جیسا کہ رسولوں اور نبیوں کا یہ منشا ہوتا ہے کہ خدا کی حجت زمین پر پوری ہوجائے اور اس کا مقابلہ کوئی نہ کرسکے اسی طرح خدا تعالیٰ قوی نشانوںکے ساتھ اُن کی سچائی ظاہر کر دیتا ہے اور جس راستبازی کو وہ دنیا میں پھیلانا چاہتے ہیں اُس کی تخم ریزی انہیں کے ہاتھ سے کردیتا ہے۔ لیکن اس کی پوری تکمیل ان کے ہاتھ سے نہیں کرتا بلکہ ایسے وقت میں ان کو وفات دے کر جو بظاہر ایک ناکامی کا خوف اپنے ساتھ رکھتا ہے مخالفوں کو ہنسی اور ٹھٹھے اور طعن اور تشنیع کا موقع دے دیتا ہے ۔ اور جب وہ ہنسی ٹھٹھا کرچکتے ہیں تو پھر ایک دوسرا ہاتھ اپنی قدرت کا دکھاتا ہے اور ایسے اسباب پیدا کردیتا ہے جن کے ذریعہ سے وہ مقاصد جو کسی قدر نا تمام رہ گئے تھے اپنے کمال کو پہنچتے ہیں ۔ غرض دو قسم کی قدرت ظاہر کرتا ہے (1) اوّل خود نبیوں کے ہاتھ سے اپنی قدرت کا ہاتھ دکھاتا ہے ۔ (2) دوسرے ایسے وقت میں جب نبی کی وفات کے بعد مشکلات کا سامنا پیدا ہوجاتا ہے اور دشمن زور میں آجاتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اب کام بگڑ گیا اور یقین کر لیتے ہیں کہ اب یہ جماعت نابود ہوجائے گی اور خود جماعت کے لوگ بھی تردّد میں پڑ جاتے ہیں اور ان کی کمریں ٹوٹ جاتی ہیں اور کئی بدقسمت مرتد ہونے کی راہیں اختیار کرلیتے ہیں تب خدا تعالی دوسری مرتبہ اپنی زبردست قدرت ظاہر کرتا ہے اور گرتی ہوئی جماعت کو سنبھال لیتا ہے۔ پس وہ جو اخیر تک صبر کرتا ہے خدا تعالیٰ کے اس معجزہ کو دیکھتا ہے

(روحانی خزائن جلد 20۔ الوصیت صفحہ 304)

اسی طرح ایک اَور جگہ فرماتے ہیں :

صوفیاء نے لکھا ہے کہ جو شخص کسی شیخ یا رسول یا نبی کے بعد خلیفہ ہونے والا ہوتا ہے تو سب سے پہلے خدا کی طرف سے اس کے دل میں حق ڈالا جاتا ہے ۔ جب کوئی رسول یا مشائخ وفات پاتے ہیں تو دنیا پر ایک زلزلہ آ جاتا ہے اور وہ ایک بہت ہی خطرناک وقت ہوتا ہے ۔ مگر خدا کسی خلیفہ کے ذریعہ اسے مٹاتا ہے اور پھر گویا اس امر کا از سرِ نو اس خلیفہ کے ذریعے اصلاح و استحکام ہوتا ہے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیوں اپنے بعد خلیفہ مقرر نہ کیا ؟ اس میں بھی یہی بھید تھا کہ آپؐ کو خوب علم تھا کہ اللہ تعالی خود ایک خلیفہ مقرر فرمائے گا کیونکہ یہ خدا ہی کا کام ہے ……ایک الہام میں اللہ تعالی نے ہمارا نام بھی شیخ لکھا ہے انت الشیخ المسیح الذی لا یضاع وقتہ ۔

( الحکم 14 اپریل 1908ء)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو کچھ بیان فرمایا ہے یہ محض خالی نظریہ نہیں بلکہ اس کے عملی شواہد بھی ہمیں نظر آتے ہیں۔ تاریخ اسلام سے معمولی واقفیت رکھنے والا شخص بھی اس ہولناک اور خطرناک فتنہ سے بے خبر نہیں ہوگا جو رسول اللہ صلی اللہ وسلم کی وفات کے بعد رونما ہوا تھا ۔ اس وقت بیشتر قبائلِ عرب نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا اور بعض نےسرے سے اسلام کو چھوڑ کر جھوٹی نبوت کے دعویدار وں کی پیروی اختیار کرلی وہ خلافت کو بغاوت کی کھلی کھلی دھمکیاں دینے لگے اور خلیفہ کے احکام کو ماننے سے قطعی انکار کردیا ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ،قلتِ انصار ملت اور کثرت اعدائے دین کے باعث مسلمانوں کی حالت حضرت عبداللہ بن مسعوؓد کے الفاظ میں بکریوں کے اس ریوڑ کی سی تھی جو بے حد و کنار صحرا میں سرماکی سرد رات کوبغیر چرواہے کے رہ جائے۔ اس وقت ارتداد و الحاد کی کثرت، دین خدا او رصراط مستقیم سے کھلے بندوں انحراف اور شدید ہیجان و اضطراب کی وجہ سے جزیرہ نما عرب ایک آتش فشاں پہاڑ کی صورت اختیار کر گیا تھا۔

اس نازک صورت حال سے عہدہ برآ ہونے کے لیے خدا تعالی نے ایک صاحب عزیمت نڈر اور کامل الایمان شخص حضرت ابوبکر صدیقؓ کو کھڑا کیا ۔ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر جب صحابہؓ مارے غم کے دیوانے ہو چکے تھے اور حضرت عمرؓ جیسے شخص تلوار کھینچے یہ کہہ رہے تھے کہ جو شخص یہ کہے گا رسول اللہؐ فوت ہوگئے ہیں میں اس تلوار سے اس کی گردن اڑا دوں گا۔ یہ حضرت صدیقؓ ہی کی شخصیت تھی جس نے مسلمانوں کو سنبھالا دیا اور جب کہ سارا عرب ارتداد کی بھڑکتی ہوئی آگ میں جل رہا تھا ۔ آپ نے مرتدین کے مقابلہ میں جو مدبرانہ کارروائی کی اور جس بےنظیر عزم و ہمت اور لا ثانی فہم و فراست کی بدولت ملک کو اس تباہ کن فتنے سے نجات دلائی اس نے خلافت کی اہمیت کوروزِ روشن کی طرح آشکارا کر دیا ۔ نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا المناک حادثہ اور نہ ہی قبائلِ عرب کی بغاوت کی روز افزوں خبریں حضرت صدیق کے عزم و ارادے اور ایمان کو متزلزل کر سکیں اور آپؐ اسلام کی کشتی کو خوف ناک بھنوروں کے درمیان سے سلامتی کے ساتھ نکال کر لے گئے۔

خلافت درحقیقت ایک بہت ہی بابرکت نظام ہے جو نبوت کےتتمہ یا تکملہ کے طور پر خدا کے خاص تصرف سے قائم ہوتا ہے ۔ نبی کے سپرد اللہ تعالیٰ نے جو فرائض کیے ہیں ان کا خلاصہ وہ ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے۔یَتۡلُوۡا عَلَیۡہِمۡ اٰیٰتِہٖ وَ یُزَکِّیۡہِمۡ وَ یُعَلِّمُہُمُ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ یعنی نبی کا کام یہ ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی آیات لوگوں پر پڑھے ۔ ان کا تزکیہ نفس کرے ، انہیں کتاب سکھائے اورانہیں حکمت کی تعلیم دے۔ نبی اپنے وقت میں ان فرائض کی بجا آوری نہایت احسن طریقہ سے کرتا ہے ۔ لیکن اس کی وفات کے بعد یہ کام سوائے خلیفہ کے اَور کوئی نہیں کر سکتا ۔ پس خلافت در اصل ایک چشمہ ہے جس سے روحانیت کے سوتے پھوٹ کر امت کی کھیتی کو ہر وقت سیراب کرتے رہتے ہیں اگر خدانخواستہ چشمہ سوکھ جائے تو امت کی لہلہاتی کھیتی دم کے دم میں خزاں رسیدہ ہو جائے۔

خلافت کی برکات کو خدا تعالیٰ نے ایک اور آیت میں یوں بیان فرمایا ہے:

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ(النور:56)

یعنی میں تم میں سے ان مومنوں سے جو نیکو کار ہیں وعدہ کرتا ہوں کہ انہیں زمین میں خلیفہ مقرر کروں گا جیسا کہ میں اس سے پہلی امتوں میں خلیفےبناتا رہا ہوں اور پھر ان خلفاء کے دین کو جو میرا پسندیدہ دین ہے تمکنت اور عظمت بخشوں گا اور ان کے خوف کے بعد انہیں امن عطا کروں گا ۔ وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں گے ۔ جو شخص اتنے بڑے انعام کے بعد بھی انکار کرے گا اور اس نعمت کی ناقدری کرے گا وہ یقیناً فاسق اوربد عہد ہیں۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت کی برکت سے دین کو تمکنت اور عظمت حاصل ہوتی ہے۔ امت کو امن نصیب ہوتا ہے اور لوگ نہایت آزادی اور بے خوفی سے خدا تعالیٰ کی عبادت بجا لا سکتے ہیں ۔ جب ہم خلافت راشدہ پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کی یہ پیشگوئی کس قدر بداہت اور صفائی کے ساتھ پوری ہوئی ۔وہ حیات دنیا میں منصورو مظفر ہوئے ۔ ان کے وقتوں میں اسلام کو قوت و شوکت نصیب ہوئی۔ ان کے عہد میں خوف امن سے بدل گیا ۔ ان کی کوششوں سے اسلام ہزارہا دیار میں پھیلا۔ لاکھوں بت خانے اللہ کی مسجدوں سے بدلے گئے ۔ انہوں نے قرآن کو اقصائے عالم میں پہنچایا ۔ اسلام کے اعدا نے ان کے آگے گردنیں خم کیں۔ زور و قوت پر مذہب کی حقیقت کا مدار ماننے والے ان کا لوہا مان کر اسلام کی حقیقت کے قائل ہوئے ۔ اسلام کو زندگی ان سے ملی۔ قرآن کی حفاظت ان کی وساطت سے ہوئی ۔ غور کرنے کی بات ہے کیا یہ برکات خلافت کے علاوہ کسی اَور ذریعے سے حاصل ہوسکتی تھیں ہرگز نہیں۔

خلافت کی ایک عظیم الشان برکت یہ ہے کہ اس کے ذریعہ وحد تِ قومی اور اتحاد ِملی قائم ہوتا ہے ۔ اس دنیا میں قومی کامیابی کے لیے اتحاد سے بڑھ کر کوئی قوت نہیں اور اسلام نے اس قوت کے لیے خلافت کو مرکز قرار دیا ہے ۔ جب تک خلافت راشدہ قائم رہی اور مسلمان ایک مسلک میں منسلک رہے ان کا قدم ہر میدان میں ترقی کی راہ پر گامزن رہا ۔ بڑی بڑی باجبروت بادشاہتیں ہرقسم کے سازوسامان سے لیس قوت و طاقت کے نشہ میں چور کمزورو بے حقیقت مسلمانوں کے مقابلے میں آئیں۔ لیکن اس اتحاد کی برکت سے جو محض خلافت کی وجہ سے ان میں قائم ہو چکا تھا انہوں نے ان پُر ہیبت سلطنتوں اور بادشاہتوں کو پرِ کاہ کے برابر بھی وقعت نہ دی اور نہایت بے خوفی سے ان کے مقابلہ میں صف آرا ہو کر ان کےجاہ و جلال کا چراغ ہمیشہ ہمیش کے لیے گل کر دیا ۔ لیکن جب انہوں نے اپنے ہاتھ سے خلافت کی عظیم الشان نعمت کو کھو دیا تو وحدتِ ملی بھی پارہ پارہ ہو گئی اور اس کے نتیجہ میں وہ ترقیاں بھی خاک میں مل گئیں جو خلافت کے دوران میں انہوں نے حاصل کی تھیں۔ دورِ اوّل کے مسلمان اس حقیقت سے اچھی طرح آشنا تھے کہ خلافت مسلمانوں کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہے ۔ جس کے بغیر انسانی جسم بے کار ہو جاتا ہے چنانچہ جب باغیوں نے حضرت عثمان کے خلاف شورشیں برپا کرنی شروع کیںتو اس وقت ایک صحابی نے نہایت درد بھرے الفاظ کے ساتھ یہ اشعار کہے تھے

عجبت لما یخوض الناس فیہ
یرومون الخلافۃ ان تزولا
و لو زالت لزال الخیر عنھم
و لاقوا بعدھا ذلا ذلیلا
و کانوا کالیھود او النصاریٰ
سواءً کلّھم ضلوا السبیلاً

یعنی مجھے ان لوگوں کی باتوں سے تعجب ہوتا ہے جو چاہتے ہیں کہ خلافت ختم ہوجائے واقعہ یہ ہے کہ اگر خلافت جاتی رہی تو یہ لوگ ہر خیرو برکت سے محروم ہوجائیں گے ۔ اور اس کے بعد پوری طرح ذلیل ہو جائیں گے پھر وہ محرومی میں یہودیوں یا عیسائیوں کی طرح ہوجائیں گے سب گمراہ ہونے میں برابر ہوں گے۔ ( تاریخ ابن اثیر جلد 3 صفحہ 73)

خلافت کی ایک اور عظیم الشان برکت جس کا خیال کر کے خلافت سے کامل طور پر وابستہ رہنے والے شخص کا دل لطف اندوز ہونے لگتا ہے وہ یہ ہے کہ خلیفہ کی صورت میں مومنوں کو ایک ایسا وجود میسر آجاتا ہے جو ہر دم ان کے لیے خدا تعالی کے حضور سربسجود رہتا ہے اور ان کے لیے خدا تعالی سے گڑگڑا کر دعائیں مانگتا رہتا ہے حضرت امیر المومنین خلیفتہ المسیح الثانی ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس امر کو نہایت ہی لطیف رنگ میں اس طرح بیان فرماتے ہیں:

دیکھنے والوں کو تو یہ ایک عجیب بات معلوم ہوتی ہوگی کہ کئی لاکھ کی جماعت پر حکومت مل گئی مگر خدارا غور کرو کیا تمہاری آزادی میں پہلے کی نسبت کچھ فرق پڑ گیا ہے ۔کیا کوئی تم سے غلامی کرواتا ہے یا تم پر حکومت کرتا ہے یا تم سے ماتحتوں اور قیدیوں کی طرح سلوک کرتا ہے؟ کیا تم میں اور ان میں جنہوں نے خلافت سے روگردانی کی ہے کوئی فرق ہے ؟ کوئی بھی فرق نہیں ۔لیکن نہیں۔ ایک بہت بڑا فرق بھی ہے اور وہ یہ کہ تمہارے لیے ایک شخص تمہارا درد رکھنے والا ، تمہاری محبت رکھنے والا ، تمہارے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنے والا ، تمہاری تکلیف کو اپنی تکلیف جاننے والا ، تمہارے لیے خدا کے حضور دعائیں کرنے والا ہے۔مگر ان کے لیے نہیں ۔ تمہارا اسے فکر ہے۔ درد ہے ۔ اور وہ تمہارے لیے اپنے مولا کے حضور تڑپتا رہتا ہے لیکن ان کے لیے ایسا کوئی نہیں ہے ۔ کسی کا اگر ایک بیمار ہو تو اس کو چین نہیں آتا ۔ کیا تم ایسے انسان کی حالت کا اندازہ کر سکتے ہو جس کے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں بیمار ہوں۔ پس تمہاری آزادی میں تو کوئی فرق نہیں آیا ۔ہاں تمہارے لیے ایک تم جیسے ہی آزاد پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوگئی ہیں۔ ( برکات خلافت صفحہ 5)

دیگر ابتلا ؤں سے قطع نظر جماعت پر پچھلے نو سال میں دو عظیم الشان ابتلا گزر چکے ہیں ۔ اور ان میں سے ہر ابتلا بظاہر جماعت کی ہستی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم کرانے والا تھا ۔ایک 1947ء کا قیامت خیز انقلاب اور دوسرا 1953ء کی ہولناک شورش۔ ان دونوں موقعوں پر تنظیم اور خلافت کی برکت اور جماعت کے پیارے امام کی شبانہ روز کی دعائیں ہی تھیں جنہوں نے جماعت کو نہ صرف تباہی و بربادی سے محفوظ رکھا بلکہ ا سے پہلے سے بھی کئی گنا ترقی کرنی نصیب ہوئی ۔ تقسیم ملک کے وقت ہمارا سارا اثاثہ، بیشتر جائیدادیں اور سب سے بڑھ کر ہمارا مقدس مرکز قادیان ہندوستان میں رہ گیا تھا ۔ قتل و غارت کا ایک بازار گرم تھا اور کسی قافلہ کا صحیح و سلامت پاکستان پہنچنا ناممکن دکھائی دے رہا تھا ۔ ان دنوں حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جس بے قراری کی حالت میں تھے اس کا اندازا صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جنہوں نے ان ایام میں حضور کی زیارت کی ہو ۔ نہ دن کو چین تھانہ رات کو آرام ۔ بالآخر آپؓ کی راتوں کی دعاؤں نے اپنا اثر دکھایا ۔تمام احمدی بعافیت پاکستان پہنچ گئے ۔ اپنے مرکز سے اکھڑی ہوئی جماعت ایک اَور مرکز میں جم گئی اور آج احمدیت کا قافلہ پہلے سے بھی زیادہ شان کے ساتھ رواں دواں ہے۔

جماعت احمدیہ کے لیے 1953ء کی شورش بھی 1947ء کے قیامت خیز حادثات سے کسی طرح کم نہ تھی۔ احمدیت کو تباہ و برباد کرنے کے لیے کوئی تدبیر نہ تھی جو بروئے کار نہ لائی گئی ہو۔ سارا پنجاب آتش فشاں پہاڑ بنا ہوا تھا ۔ لاہور آگ اور خون کے سیلاب میں ڈوبا ہوا تھا ۔ لاہور کے ایک ایک احمدی کی نظروں کے سامنے موت گردش کر رہی تھی اور ان میں سے کسی کو بھی اپنی زندگی کا یقین نہ تھا ۔اس وقت اگر کسی چیز نے انہیں یقینی موت سے نجات دی تو وہ ان کے پیارے آقا کی نیم شبی دعائیں ہی تو تھیں۔
سوچنے کی بات ہے کہ کیا دنیا کے پردہ پر کسی اَور قوم کو بھی کسی ایسے لیڈر کی خدمات میسر ہیں جو اس کے لیے اس طرح رات دن سجدے میں پڑا رہتا ہو۔اور اپنے پیروکاروں کی سلامتی اور بہبود کے لیے خدا تعالیٰ سے گڑگڑا گڑ گڑا کر دعائیں مانگتا رہتا ہو۔ اگر ایسا نہیں ہے اور یقینا ً ایسا نہیں ہے تو پھر ہمیں غور کرنا چاہیے کہ جب کہ خدا تعالیٰ نے تمام روئے زمین پر صرف ہمیں ہی اس نعمت سے بہرہ ور کیا ہے تو کیا ہمارا بھی فرض نہیں کہ ہم اس نعمت کی پوری طرح قدر کریں اور وہ اسی طرح ہوسکتی ہے کہ ہم خلافت کے دامن سے اپنے آپ کو اَور زیادہ مضبوطی سے وابستہ کر لیں ۔بصورت دیگر ہم اس خدائی وعید کے مصداق ثابت ہوں گے۔ لئن شکر تم لازیدنکم ولئن کفرتم ان عذابی لشدید

(روزنامہ الفضل ربوہ جلسہ سالانہ نمبر 1956ء صفحہ 10-11)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button