حضرت مصلح موعود ؓ

آیت استخلاف کی تفسیر بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ

(حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)

درس القرآن فرمودہ یکم مارچ 1921ء

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ(النور: 56)

یہ آیت اس زمانہ میں بہت ہی زیر بحث ہے۔ اس میں خلافت کا مضمون بیان کیا گیا ہے۔ میں خلافت کے مسئلہ کے متعلق کم بولتا ہوں۔ کیونکہ طبعاً میری طبیعت میں یہ بات داخل ہے کہ جس مسئلہ کا اثر میری ذات پر پڑتا ہو اسے میں بہت کم بیان کیا کرتا ہوں۔ ہاں جب کوئی اعتراض کرے۔ تو جواب دینے کے لیے بولنا پڑتاہے۔ حضرت خلیفہ اول رضی اللہ عنہ خلافت کے مسئلہ کے متعلق بہت زور دیا کرتے تھے۔ کیونکہ انہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے یہ علم دیا گیا تھا کہ اس کے متعلق فتنہ ہو گا اس وجہ سے لیکچروں، درسوں اور دعاؤں میں بہت زور دیا کرتے تھے۔

میرے نزدیک یہ مسئلہ اسلام کے ایک حصہ کی جان ہے، مختلف حصوں میں مذاہب کا عملی کام منقسم ہوتا ہے ۔ یہ مسئلہ جس حصہ مذہب سے تعلق رکھتا ہے وہ وحدت قومی ہے۔کوئی جماعت، کوئی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی۔ جب تک ایک رنگ کی اس میں وحدت نہ پائی جائے۔ مسلمانوں نے قومی لحاظ سے تنزل ہی اس وقت کیا ہے جب ان میں خلافت نہ رہی اور جب خلافت نہ رہی۔ تو وحدت نہ رہی۔ اور جب وحدت نہ رہی تو ترقی رک گئی اور تنزل شروع ہو گیا کیونکہ خلافت کے بغیر وحدت نہیں ہو سکتی۔ اور وحدت کے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی ترقی وحدت کے ذریعہ ہی ہو سکتی ہے۔ جب ایک ایسی رسی ہوتی ہے جو کسی قوم کو باندھے ہوئے ہوتی ہے تو اس قوم کے کمزور بھی طاقتوروں کے ساتھ ساتھ آگے بڑھتے جاتے ہیں۔ دیکھو اگر شاہ سوار کے پیچھے ایک چھوٹا لڑکا بٹھا کر باندھ دیا جائے۔ تو لڑکا بھی اسی جگہ پہنچ جائے گا جہاں شاہ سوار کو پہنچنا ہو گا۔ یہی حال قوم کا ہوتا ہے اگر وہ ایک رسی میں بندھی ہو۔ تو اس کے کمزور افراد بھی ساتھ دوڑے جاتے ہیں لیکن جب رسی کھل جائے تو گو کچھ دیر تک طاقتور دوڑتے رہتے ہیں لیکن کمزور پیچھے رہ جاتے ہیں اور آخر کار نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کئی طاقتور بھی پیچھے رہنے لگ جاتے ہیں کیونکہ کئی ایسے ہوتے ہیں جو کہتے ہیں فلاں جو پیچھے رہ گئے ہیں ہم بھی رہ جائیں پھر ان لوگوں میں جو آگے بڑھنے کی طاقت رکھتے اور آگے بڑھتے ہیں چلنے کی قابلیت نہیں رہتی ۔ مگر قومی اتحاد ایسا ہوتا ہے کہ ساری قوم کی قوم چٹان کی طرح مضبوط ہوتی ہے اور اس کی وجہ سے کمزور بھی آگے بڑھتے جاتے ہیں۔

جیسا کہ میں نے بتایا تھا سورۂ نور میں اسلام کی اور انسان کی روحانی ترقیات کے ذرائع کا ذکر ہے ان ذرائع میں سے بعض کا تو پہلے ذکر آ چکا ہے اور ایک ذریعہ اس آیت میں بیان کیا گیا ہے۔

خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪وعدہ فرمایا ہے اللہ نے ان لوگوں سے جو تم میں سے ایمان لائے اور عمل صالح کیے (اور یہ وعدہ معمولی نہیں بلکہ خدا تعالیٰ اپنی ذات کی قسم کھا کر فرماتاہے) کہ ان کو ضرور ضرور خلیفہ بنائے گا اس زمین میں جیسا کہ اس نے خلیفہ بنایا تم سے پہلوں کو۔

اس میں یہ بتایا ہے کہ خدا نے مومنوں سے یہ وعدہ کیا ہے۔ آگے اس وعدہ کی خصوصیات بیان فرماتا ہے۔
وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وہ ضرور قائم کر دے گا ، ثابت کر دے گا ان کے لیے ان کے دین کو جو ان کے لیے پسند کیا گیا۔

یہ ایک سلوک ہے۔ دوسرا سلوک ان سے یہ کرے گا کہوَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًاؕ اور خوف کے بعد امن سے ان کی حالت بدل دے گا۔ اس کا نتیجہ کیا ہو گا فرماتا ہے یہ کہ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕوہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گے۔

آگے فرماتا ہے یہ تمہارے لیے اتنا بڑا انعام ہے کہ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ جو اس کی قدر نہ کرے گا وہ ہمارے دفتر سے کاٹ دیا جائے گا۔

یہ اس قدر سخت وعید ہے کہ پچھلے کسی وعدہ کی ناقدری کے متعلق ایسی وعید نہیں رکھی گئی۔ اس زمانہ میں بدقسمتی سے بعض لوگوں نے خلافت سے اختلاف کیا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ خلافت کا سلسلہ حکومت سے تعلق رکھتا ہے۔ حالانکہ یہاں اللہ تعالیٰ نے جتنا زور دیا ہے مذہب پر ہی دیا ہے۔ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ ایک بات۔ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ دوسری بات۔ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ تیسری بات۔ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ چوتھی بات۔ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَپانچویں بات۔ یہ پانچوں باتیں تو صاف طور پر دین سے تعلق رکھتی ہیں۔ اور تمکین دین کے ساتھ امن کا آنا ظاہر کرتا ہے۔ کہ اس سے بھی دینی امن ہی مراد ہے۔ اس طرح اس آیت میں تمام کا تمام دین کا ذکر ہے۔ اور اس سے آگے بھی خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ یہ بھی دین ہی کے احکام ہیں۔ پس یہاں دین ہی دین کا ذکر ہے۔ ورنہ اگر یہاں یہ سمجھا جائے کہ سلطنت کا ذکر ہے۔ تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ روحانی ترقیات کے ذرائع بتانے کے سلسلہ میں سلطنت کا ذکر کیا تعلق رکھتا ہے۔ سلطنت تو کافر اور بدکار لوگ بھی قائم کر لیتے ہیں۔

اصل اور سچی بات یہی ہے کہ خلافت جو روحانی ترقیات کا ایک عظیم الشان ذریعہ ہے اسی کا یہاں ذکر ہے۔ سلطنت کا نہیں ہے۔ اس خلافت سے مراد خواہ خلافت ماموریت لے لو۔ یا خلافت نیابت مامورین لے لو بہرحال روحانی خلافت کا ہی یہاں ذکر ہے۔ یہ دونوں قسم کی خلافت روحانیت کی ترقی کا ذریعہ ہے۔ خلافت ماموریت تو اس طرح کہ اس کے ذریعہ ایک انسان خدا سے نور پا کر دوسروں کو منور کرتا ہے۔ اور خلافت نیابت مامورین اس طرح کہ اس انتظام اور نگرانی سے کمزوروں کی بھی حفاظت ہوتی جاتی ہے۔ پس ان دونوں قسم کی خلافتوں میں برکات ہیں اور دونوں روحانی ترقیات کا باعث ہیں۔ اور دونوں کے بغیر روحانیت مفقود ہو جاتی ہے چنانچہ دیکھو رسول کریم ﷺ کے بعد جب خلافت کا سلسلہ ٹوٹا۔ تو پھر اسلام کو کوئی نمایاں ترقی نہیں ہوئی لیکن رسول کریم ﷺ کے بعد جو خلافتیں تھیں۔ ان میں عظیم الشان تغیر ہوئے ۔ قوموں کی قومیں اسلام میں داخل ہو گئیں اور اسلام بڑی سرعت کے ساتھ پھیل گیا۔ لیکن جب روحانی خلافت کا سلسلہ نہ رہا۔ تو اسلام کی ترقی بھی رک گئی یا پھر ان لوگوں کے ذریعہ کسی قدر ترقی ہوئی۔ جو خدا سے الہام اور وحی پا کر اسلام کی خدمت کے لیے کھڑے ہوئے۔ تو روحانی خلافت کے بغیر اسلام کو کوئی ترقی نہ ہوئی بلکہ تنزل ہوتا رہا۔

آج بھی لوگ خلافت کا شور ڈال رہے ہیں اور خدا کی قدرت ہے چند ہی سال پہلے جو لوگ ہم پر اس وجہ سے شرک کا الزام لگاتے تھے کہ ہم خلافت کے قائل ہیں۔ اور کہتے تھے کہ خلافت کے مٹانے کا وقت آ گیا ہے۔ چنانچہ وہی ٹریکٹ جو ‘‘اظہار الحق’’کے نام سے شائع کیا گیا۔ اس کے مضمون کی بنیاد ہی اسی امر پر رکھی گئی تھی کہ ہر ایک مامور کسی خاص کام کے لیے آتا ہے اور حضرت مسیح موعود اس زمانہ میں اسی لیے آئے کہ ہر قسم کی شخصی حکومت مٹا کر جمہوری حکومت قائم کریں۔ یہ ٹریکٹ لاہور کے جن لوگوں کی مرضی اور منشاء کے ماتحت شائع ہوا تھا۔ آج وہی کہہ رہے ہیں کہ خلافت ٹرکی ضرور قائم رہنی چاہیے۔ اور یہ مسلمانوں کا مذہبی مسئلہ ہے ۔ کوئی ایسی بات نہیں ہونی چاہیےجس سے اس میں دست اندازی سمجھی جائے۔

اس سے ظاہر ہے کہ خدا تعالیٰ نے ان لوگوں کو مجبور کر کے ان کے مونہوں سے وہی باتیں نکلوائی ہیں جن کی بنا پر ہم سے اختلاف کر کے علیحدہ ہوئے تھے تا کہ معلوم ہو جائے کہ ان کے علیحدہ ہونے کی وجہ دنیاوی اغراض ہی تھیں دینی نہ تھیں کیونکہ اس وقت جب انہوں نے خلافت کے مسئلہ کو اپنی اغراض کے خلاف دیکھا تو اس کے مٹانے کے درپے ہو گئے اور اب عام مسلمانوں کو جب خلافت پر زور دیتے دیکھا تو ان کی ہمدردی حاصل کرنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی غرض سے خلافت کو دینی مسئلہ بنا لیا۔ ان کے مقابلہ میں ہمیں دیکھا جائے تو صاف ظاہر ہو گا کہ جو کچھ ہم نے پہلے خلافت کے متعلق کہا تھا۔ اب بھی اسی پر قائم ہیں اور ایک انچ اس سے آگے پیچھے نہیں ہوئے۔

خلافت اسلام کے اہم مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے اور اسلام کبھی ترقی نہیں کر سکتا جب تک خلافت نہ ہو ہمیشہ خلفاء کے ذریعہ اسلام نے ترقی کی ہے اور آئندہ بھی اسی ذریعہ سے ترقی کرے گا۔ اور ہمیشہ خدا تعالیٰ خلفاء مقرر کرتا رہا ہے۔ اور آئندہ بھی خدا تعالیٰ ہی خلفاء مقرر کرے گا۔ یہی ہماری جماعت میں جو خلافت کے متعلق جھگڑا ہوا۔ وہ لوگ جنہوں نے اس وقت کے حالات دیکھے۔ وہ جانتے ہیں کہ کتنا بڑا فتنہ بپا ہوا تھا۔ اب تو کہا جاتا ہے کہ منصوبہ کیا ہوا تھا۔ اس لیے کامیابی ہو گئی مگر اس وقت کے حالات کو جاننے والے جانتے ہیں۔ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ کہ خداتعالیٰ فرماتا ہے ہم خلیفہ بناتے ہیں جو کچھ ہوا اسی کے ماتحت ہوا وہ لوگ جو اب یہاں سے علیحدہ ہو گئے ہیں ان کے متعلق بچے (مدرسہ احمدیہ اور ہائی سکول کے لڑکے جو درس میں موجود تھے) نہیں سمجھ سکتے کہ ان کی یہاں کیسی حکومت تھی اور نہ نئے آدمی اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں لیکن یہاں کی ہر چیز پر ان کا اتنا قبضہ اور اقتدار تھا کہ خلافت کے اختلاف کے وقت سب سے پہلا سوال یہی پیدا ہوا کہ جب سب انتظام ان کے سپرد ہے تو ہمارا کام کس طرح چلے گا۔ اور ان کو اپنے قبضہ اور انتظام پر اتنا گھمنڈ تھا کہ انہوں نے علی الاعلان کہا ہم تو جاتے ہیں لیکن دس سال کے اندر اندر یہاں سکول وغیرہ کی عمارتوں پر عیسائیوں کا قبضہ ہو گا ۔ اس بات کو کہے ہوئے سات سال تو گزر چکے ہیں مگر سکول میں ہر طرح ترقی ہو رہی ہے لڑکے بھی پہلے کی نسبت زیادہ پڑھتے ہیں آبادی بھی دن بدن بڑھ رہی ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ خلیفہ خدا ہی بناتا ہے کیونکہ جس حالت میں وہ یہاں کے کاروبار کو چھوڑ کر گئے تھے۔ وہ ایسی تھی کہ تباہی کی حالت تھی چنانچہ جب وہ یہاں سے گئے تو چند آنے کے پیسے خزانے میں تھے اور انجمن اٹھارہ ہزار سے زیادہ کی مقروض تھی۔ ہماری ترقیات کے لحاظ سے قرضہ تو اب بھی ہو گیا ہے۔ مگر قرضہ سے زیادہ اس وقت ہماری دوسری مدات میں روپیہ موجود ہے۔ اور اب خدا تعالیٰ نے اس قدر فضل کیا ہے کہ ایک ایک احمدی 18،18 ہزار دے دیتا ہے۔ اور ہر محکمہ اور ہر صیغہ میں دن بدن ترقی ہو رہی ہے۔ وہ کہتے تھے جس کے ہاتھ میں جماعت کو دیا گیا ہے وہ نوجوان اور ناتجربہ کار ہے اور جماعت کو تباہ کر دے گا۔ چنانچہ ایک دفعہ حضرت خلیفہ اول کے وقت جب ان لوگوں کی کمیٹی مسجد میں ہو رہی تھی اور میں اندر ٹہل رہا تھا تو میں نے سنا شیخ رحمت اللہ صاحب کہہ رہے تھے کیسا غضب ہے بچہ کو خلیفہ بنانے کے لیے یہ فتنہ کھڑا کیا گیا ہے چونکہ میں نہیں جانتا تھا کس کے متعلق یہ کہا جا رہا ہے اس لیے حیران ہو رہا تھا کہ کون سا بچہ ہے جو خلیفہ بن جائے گا۔ مگر جیسا کہ خدا تعالیٰ کی ایک مقدس کتاب میں آیا ہے۔ کہ وہ پتھر جسے معماروں نے رد کر دیا وہی کونہ کا پتھر ہوا۔ ایسا ہی خدا تعالیٰ نے مجھے جس کی اس وقت مخالفت کی جا رہی تھی جبکہ میں بالکل ناواقف تھا وقت پر خلیفہ بنا دیا۔ اور میں سمجھتا ہوں خدا تعالیٰ نے مجھے ان لوگوں کی مخالفت کی وجہ سے ہی خلیفہ بنایا ہے ورنہ اگر وہ میری اتنی مخالفت نہ کرتے تو شاید میں خلیفہ نہ ہی بنتا۔ جب میرے دل میں خلافت کے متعلق کبھی خواہش نہ پیدا ہوئی جب مجھے اس کا کوئی خیال نہ تھا اس وقت ان لوگوں نے مجھے الزام دیا کہ یہ خلافت کے لیے کوشش کرتا ہے اس پر خداتعالیٰ کی غیرت بھڑکی اور اس نے کہا یہ لوگ جس کو حقیر جانتے اور جس کے خلاف کوشش کرتے ہیں اسی کو خلیفہ بناؤں گا چنانچہ اس نے ایسا ہی کیا اور پھر دکھا دیا کہ اس زمانہ خلافت میں جماعت ہر طرح سے ترقی کر رہی ہے۔ روحانیت میں ترقی کر رہی ہے۔ مال میں ترقی کر رہی ہے۔ اور وہ جس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ بچہ ہے۔ اور جماعت کو تباہ کر دے گا۔ اسی کی نسبت مخالفین کا اور خیال ہے۔ حال ہی میں ایک صاحب کا خط آیا ہے وہ لکھتے ہیں میں نے ایک شخص کو تبلیغ کی وہ کہتا ہے اگر تمہارے موجودہ خلیفہ کے بعد بھی سلسلہ قائم رہا۔ تو میں بیعت کرلوں گا اس سے ظاہر ہے کہ جس کی نسبت کہا جاتا تھا کہ جماعت کو تباہ کر دے گا۔ اسی کی نسبت مخالف یہ سمجھ رہے ہیں کہ اب سلسلہ اسی کی وجہ سے قائم ہے اس کے بعد سلسلہ قائم رہا۔ تو اسے سچا مان لیں گے۔ میں تو مر جاؤں گا لیکن میرے بعد جو حضرت مسیح موعودؑ کے قائم مقام ہوں گے ان کے متعلق اسی طرح کہا جائے گا کیونکہ جب تک خلافت رہے گی۔ یہ سلسلہ بھی قائم رہے گا۔ اور یاد رکھو کہ اگر یہ جڑ رہی تو سب کچھ رہے گا۔ اور ہماری جماعت دن بدن ترقی ہی کرتی رہے گی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بعد میں آنے والے خلفاء پہلوں کی نسبت زیادہ قابلیت رکھیں گے کہ ان کے زمانہ میں زیادہ ترقی ہو گی ۔ حضرت خلیفہ اول کے زمانہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس میں جماعت نے زیادہ ترقی کی اور اسی وجہ سے ایک نادان نے یہ لکھ دیا کہ مولوی صاحب مرزا صاحب سے بڑھ گئے۔ لیکن یہ غلط ہے اصل جماعت مسیح موعودؑ نے ہی قائم کی اور اس کا بیج ڈالا۔ آگے وہی بیج بڑھ رہا ہے اور اس سے پھل پیدا ہورہے ہیں حضرت خلیفہ اوّل کے وقت بھی اسی بیج کے پھل پیدا ہوئے اور اب بھی جماعت جو ترقی کر رہی ہے اسی بیج کی وجہ سے ترقی کر رہی ہے جو مسیح موعود علیہ السلام نے ڈالا ہے۔
پس تم خوب یاد رکھو کہ تمہاری ترقیات خلافت کے ساتھ وابستہ ہیں اور جس دن تم نے اس کو نہ سمجھا اور اسے قائم نہ رکھا وہی دن تمہاری ہلاکت اور تباہی کا دن ہوگا لیکن اگر تم اس کی حقیقت کو سمجھے رہو گے اور اسے قائم رکھو گے تو پھر اگر ساری دنیا مل کر بھی تمہیں ہلاک کرنا چاہے گی تو نہیں کر سکے گی اور تمہارے مقابلہ میں بالکل ناکام ونامراد رہے گی جیسا کہ مشہور ہے اسفندیار ایسا تھا کہ اس پر تیر اثر نہ کرتا تھا تمہارے لیے ایسی حالت خلافت کی وجہ سے پیدا ہو سکتی ہے جب تک تم اس کو پکڑے رکھو گے تو کبھی دنیا کی مخالفت تم پر اثر نہ کرسکے گی ۔ بے شک افراد مریں گے ، مشکلات آئیں گی ، تکالیف پہنچیں گی مگر جماعت کبھی تباہ نہ ہوگی بلکہ دن بدن بڑھے گی اور اس وقت تم میں سے کسی کا دشمنوں کے ہاتھوں مرنا ایسا ہی ہوگا جیسا کہ مشہور ہے کہ اگر ایک دیو کٹتا ہے تو ہزاروں پیدا ہو جاتے ہیں تم میں سے اگر ایک مارا جائے گا تو اس کی بجائے ہزاروں اس کے خون کے قطروں سے پیدا ہو جائیں گے۔
میں نے اس امر کے متعلق خدا تعالیٰ کی طرف سے بڑی بڑی عجیب باتیں مشاہدہ کی ہیں اور ایسے ایسے امور مشاہدہ کیے ہیں کہ جن کو خاص آنکھیں ہی دیکھ سکتی ہیں مگر یہ میری کسی فضیلت کی وجہ سے نہیں بلکہ اس مقام کی عزت کی وجہ سے میرے مشاہدہ میں آئے ہیں جس پر خدا نے مجھے کھڑا کیا ہے۔بعض لوگ میری ذات کے ساتھ خصوصیت سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے میں صاف طور پر سنائے دیتا ہوں کہ محض کسی کی ذات سے تعلق رکھنے والے عموماً ٹھوکر کھایا کرتے ہیں میرے خیال میں تو انبیاء کی صفات بھی ان کے درجہ اور عہدہ کے لحاظ سے ہی ہوتی ہیں نہ کہ ان کی ذات کے لحاظ سے۔پس تمہیں درجہ کی قدر کرنا چاہیے کسی کی ذات کو نہ دیکھنا چاہیے۔

میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک شخص خلافت پر اعتراض کرتا ہے میں اسے کہتا ہوں اگر تم سچے اعتراض تلاش کرکے بھی میری ذات پر کرو گے تو خدا کی تم پر لعنت ہو گی اور تم تباہ ہوجاؤ گے کیونکہ جس درجہ پر خدا نے مجھے کھڑا کیا ہے اس کے متعلق وہ غیرت رکھتا ہے۔

دراصل اس مقام کی عزت کے لیے خدا تعالیٰ اس کے مخالفین کو تباہ کردیتا ہے۔ دیکھو !پہلے خلفا ءپر لعنت کرنے والے خود کس طرح لعنتوں کے نیچے آگئے تم میں سے بھی اگر کوئی خلافت کی مخالفت کرے گا تو پکڑا جائے گا انہی کو دیکھ لو جو سلسلہ سے علیحدہ ہوگئے ہیں انہوں نے پہلے خلافت کا انکار کیا اور اس کے بعد اَور مسائل نکالے اور آخر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے درجہ کا بھی انکار کردیا ۔ جھگڑے اور اختلاف کے طور پر پہلا سوال خلافت کا ہی اٹھا ہے مگر اس کی مخالفت کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہی لوگ جنہوں نے صفحے کے صفحے حضرت مسیح موعودؑ کی تائید میں لکھے تھے جیسا کہ مولوی محمد علی صاحب ۔ انہوں نے مسیح موعود ؑکو نبی قرار دیتے ہوئے ایسے القاب دیے جو خود بھی مسیح موعودؑ نے اپنے متعلق نہیں لکھے مگر خلافت کا انکار کرنے کے بعد انہوں نے ہی کہا کہ اگر مرزا صاحب کی تحریروں سے ان کا نبوت کا دعویٰ نکل آئے تو ہم انہیں چھوڑ دیں گے اور عملی طور پر تو انہوں نے چھوڑ ہی دیا ہے۔ یہی حال ان کے ساتھیوں کا ہے یہ سب لوگ خلافت کا انکار کرنے کی وجہ سے جماعت سے نکل گئے آئندہ بھی اگر کوئی ایسا کرے گا تو نکل جائے گا اور مسیح موعودؑ کے سلسلہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں رہے گا۔

پس اس بات کو خوب اچھی طرح یاد رکھو کہ خلافت حبل اللہ ہے اور ایسی رسی ہے کہ اس کو پکڑ کر تم ترقی کر سکتے ہو اس کو جو چھوڑ دے گا وہ تباہ ہو جائے گا ۔آج غیر احمدیوں کو دیکھ لو تم ان سے بہت تھوڑے ہو تمہارے دشمن ان کی نسبت بہت زیادہ ہیں ۔ تمہیں ہر طرح کی تکلیفیں پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے تم اگر حکومت کی خدمت وفاداری کے طور پر کرتے ہو تو وہ تمہیں خوش آمدی سمجھتی ہے کہ تھوڑے ہیں کچھ نہیں کر سکتے اس لیے وفادار بنتے ہیں مگر تم دیکھو تمہارے دلوں میں کس قدر اطمینان ہے اس لیے تم سمجھتے ہو دنیا ہمارے مقابلہ میں کیا کر لے گی ۔ اس کے مقابلہ میں ان لوگوں کو دیکھو جو جتّھے والے ہیں مالدار ہیں بہت تعداد رکھتے ہیں وہ کس طرح کانپ رہے ہیں ۔اس سے اندازہ لگالو کہ تم پر خدا کا کتنا بڑا فضل ہے اور یہ فضل خلافت کی وجہ سے ہی ہے کیونکہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًاؕ میں ان کے خوف کو امن سے بدل دوں گا۔ اسی وعدہ کے مطابق خدا نے تمہارے خوف کو امن سے بدل دیا ہے ورنہ تم چند لاکھ ہو کیا؟ اور وہ بھی غریب۔ پھر وہ جن کے مقابلہ میں سب لوگ کھڑے ہیں پھر مقابلہ کرنے والے اوروہ جو لاکھوں نہیں کروڑوں ہیں اور وہ بھی ایسے جو دولت مند اور مالدار ہیں اس صورت میں کیوں تمہارے دلوں میں اطمینان ہے اور تمہارے مخالف کانپ رہے ہیں اسی لیے کہ تم دامن خلافت سے وابستہ ہو اور وہ خلافت کے منکر ہیں اگر وہ بھی اس خلافت کو مانتے تو ان کے دل میں بھی امن ہوتا اور ان کا خوف بھی امن سے بدل جاتا تم جب تک اس نعمت کی ناشکری نہ کرو گے۔ تمہارا ہر خوف امن سے بدل دیا جائے گا۔ لیکن اگر اس کو چھوڑ دو گے تو تمہارا امن بھی اسی طرح خوف سے بدل جائے گا جس طرح ان کا بدل گیا ہے جنہوں نے خلافت کو چھوڑ دیا ہے۔

درس فرمودہ 2؍مارچ 1921ء

وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہم نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو تم میںسے مومن ہوئے اور انہوں نے اعمال صالح کیے کس بات کا؟ اس بات کا کہ ضرور ضرور ان کو اسی طرح خلیفہ بناؤں گا جس طرح ان سے پہلوں کو بنایا۔

خدا تعالیٰ کی یہ سنت چلی آتی ہے کہ وہ ہمیشہ اپنے سلسلوں کی حفاظت کے لیے سامان کیا کرتا ہے اور اس وقت تک اپنے بندوں کو بغیر حفاظت کے نہیں چھوڑتا جب تک بندے خود اُسے نہ چھوڑ دیں اور یہ ایک عجیب بات ہے کہ دنیا میں معشوق عشاق سے بے اعتنائی کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ اور بندوں کے معاملہ میں اس سے الٹ ہوتا ہے۔ وہ حسین ہے اور سب حسینوں سے بڑھ کر حسین ہے۔ وہ کامل ہے اور وہی ایک ذات کامل اور بے عیب ہے مگر باوجود اس کے ہم دیکھتے ہیں لوگ ہی اسے چھوڑتے ہیں خدا تعالیٰ کی طرف سے بے اعتنائی نہیں ہوتی۔ ہمیشہ بندے ہی خدا کو ترک کرتے ہیں اور وہ ہمیشہ ان کو اپنی طرف کھینچنے کے سامان کرتا رہتا ہے۔ اس کے لیے انبیاء بھیجتا ہے۔ یہ کیسی پاک اور مطہر جماعت ہوتی ہے اور کس قدر لوگوں کے لیے دکھ اور تکالیف اٹھاتی ہے اور ان کو خدا کے آستانے پر لا کر ڈال دیتی ہے۔ نبیوں کی زندگی بذات خود معجزہ ہوتی ہے۔ ان کی صداقت کے لیے کسی اَور نشان کی ضرورت نہیں ہوتی۔ نشان صرف ان لوگوں کے لیے ہوتے ہیں جو کہ کم فہم ہوتے ہیں۔ اورجو فہم و فراست رکھتے ہیں اُن کے لیے نہیں ہوتے۔ دیکھو حضرت ابوبکرؓ نے رسول کریمؐ کو کوئی نشان دیکھ کر نہیں مانا تھا ۔ سفر سے واپس آ رہے تھے کہ کسی نے راستہ میں کہا کہ تمہارا دوست ‘‘محمد’’ (صلی اﷲ علیہ وسلم) کہتا ہے میں نبی ہوں انہوں نے کہا اگر وہ یہ کہتا ہے تو سچ کہتا ہے کیونکہ اس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور میں اس پر ایمان لاتا ہوں۔ دیکھو بغیر تحقیق اور بغیر کسی نشان دیکھے انہوں نے مان لیا۔ پھر اس زمانہ میں ہم حضرت خلیفۃ المسیح اوّل کو دیکھتے ہیں۔ انہوں نے بھی مسیح موعودؑ کا کوئی معجزہ اور نشان نہیں دیکھا تھا۔ جب سنا کہ آپ نے دعویٰ کیا ہے تو انہوں نے مان لیا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ

رسول کریمؐ کے متعلق واقعات اور حالات تو محفوظ رکھے گئے ہیں مگر دوسروں کے محفوظ نہیں۔ اگر رکھے جاتےتو کئی ایسے نکلتے جنہوں نے بغیر کوئی نشان دیکھے آپ کو قبول کیا۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں اس زمانہ میں بھی کئی لوگوں نے حضرت مسیح موعود کو اسی طرح قبول کیا اور گو بعض نے بعد میں قبول کیامگر جب انہیں پتہ لگا اسی وقت قبول کر لیا۔ ایسے آدمی اگرچہ بہت سے فوت ہو گئے ہیں لیکن اب بھی اگر تلاش کی جائےتو کئی ایسے نکل آئیں گے۔ جنہوں نے مسیح موعود علیہ السلام کے محض دعویٰ کو سن کر اور آپ کودیکھ کر قبول کر لیا اور کوئی نشان نہ دیکھا نہ مانگا۔ اور پھر اندھا دھند قبول نہ کیا بلکہ عرفان اور ایقان کے ساتھ قبول کیا۔

تو ایک جماعت ایسی ہوا کرتی ہے جو نبی کو فوراً قبول کر لیتی ہے۔ کیونکہ انبیاء کی زندگی بجائے خود معجزہ اور نشان ہوتی ہے ان کے بعد اور وجود ہوتے ہیں اور وہ بھی خدا کی ہستی کے نشان ہوتے ہیں اور انبیاء اگر سورج کی طرح روشن ہوتے ہیں اور دنیا کو منور کرتے ہیں تو یہ بھی ستاروں کی طرح دنیا کو ہدایت کی چمک دکھا جاتے ہیں۔ یہ ہستیاں خلفاء کی ہوتی ہیں ان کو بھی اللہ تعالیٰ ہی منتخب کرتا ہے چنانچہ فرماتا ہے وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِکہ مومنوں اور اعمال صالحہ رکھنے والوں سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ان کو زمین میں خلیفہ بنائے گا۔ خلفاء دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو وحی خدا سے دنیا کی اصلاح کے لیے کھڑے کیے جاتے ہیں۔ دوم وہ خلفاء ہوتے ہیں جو مامور خلیفہ نہیں ہوتے۔ مگر ان کے لے ان قابلیتوں کی ضرورت ہوتی ہے جو انتظامی ہوتی ہیں ان کے لیے ماموریت وحی اور الہام شرط نہیں ہوتی۔ ان کے لیے یہ شرط نہیں کہ خدا کے ایسے قریب ہوں کہ وحی نازل ہو۔ مگر یہ زائد بات ہو گی مجدد مامور تو بغیر وحی کے نہیں ہو سکے گا اور خلیفہ کو خدا مقرر کرے گا۔ مگر اس کے لیے وحی شرط نہ ہو گی۔ اس کے لیے یہی شرط ہے کہ وہ بے انصاف، ظالم، نفس پرست، لوگوں کا مال کھا جانے والا نہ ہو اور اس میں وہ باتیں پائی جائیں جو جماعت کے انتظام کے لیے ضروری ہیں جو شخص یہ خیال کرتے ہیں کہ مامور مرسل ہو تبھی خلیفہ ہو سکتا ہے یا جس کے پاس حکومت ہو وہ خلیفہ ہوتا ہے وہ نادان ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ حکومت ہی ایسی چیز نہیں ہے کہ جس کے لیے قوم کا شیرازہ بندھا رہنا ضروری ہے بلکہ اور بھی ایسے کام ہیں کہ جن میں حکومت دخل نہیں دیتی۔ مگر ان کے ذریعہ شیرازہ جماعت کی ضرورت ہوتی ہے مثلاً ہماری جماعت ہی ہے اس کی بہت سی انتظامی باتیں ایسی ہیں جن میں گورنمنٹ دخل نہیں دیتی۔ مگر ان کا انتظام کرنا ضروری ہوتا ہے۔

خلافت کے لیے خدا تعالیٰ ایسے لوگوں کو جن میں انتظام کی صلاحیت ہوتی ہے انتظام روحانی ہو یا جسمانی۔ ان کو منتخب کرتا ہے اور لوگوں کے دلوں میں یہ تحریک کرتا ہے کہ ان کی طرف مائل ہوں جیسا کہ حدیثوں میں آتا ہے۔ خدا تعالیٰ بعض آدمیوں کو پسند کرتا ہے اور قریب کے فرشتوں کو کہتا ہے میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تم بھی کرو وہ اگلے فرشتوں کو کہتے ہیں یہاں تک کہ تمام دنیا میں اس انسان کی محبت پھیلا دی جاتی ہے۔ اور نیک قلوب جن کا تعلق ملائکہ سے ہوتا ہے ۔ وہ ادھر مائل ہو جاتے ہیں۔ یہ ذریعہ ہوتا ہے ان خلفاء کے قیام کا ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو وحی اور الہام نہیں ہوتا تھا۔ مگر خدا نے لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف مائل کر دیا۔ اور تمام طبائع نے سمجھ لیا کہ اب اگر اسلام کا قیام ہے۔ تو ابوبکرؓ کے ذریعہ ہی ہے اور انہوں نے انہیں قبول کر لیا۔ پھر حضرت ابوبکرؓ کے دل میں خدا تعالیٰ نے ڈالاکہ میرے بعد عمرؓ کے ذریعہ اسلام قائم رہ سکتا ہے۔ اس لیے ان کو نامزد کر دیا پھران لوگوں کے دلوں میں جنہیں حضرت عمرؓ نے مقرر کیا۔ خدا نے یہ ڈالا کہ عثمانؓ کے ذریعہ اسلام کو استحکام ہو گا اس لیے ان کو خلیفہ چن لیا۔ اسی طرح حضرت علیؓ خلیفہ مقرر ہوئے۔ ان کے خلاف لوگوں نے تلوار اٹھائی۔ مگر ایسے لوگ بھی خلافت کے متعلق اعتراف کرتے تھے کہ اگر اور باتیں طے ہو جائیں تو ہم انہیں خلیفہ ماننے کے لیے تیار ہیں۔

پھر حضرت مسیح موعود کے وقت میں ہم دیکھتے ہیں اسی طرح خلافت قائم ہوئی اور جتنے کام حکومت سے تعلق نہیں رکھتے۔ وہ سارے کے سارے خواہ دینی ہوں یا دنیوی اس میں آ جاتے ہیں جب حضرت مولوی صاحب خلیفہ ہونے لگے۔ تو کس طرح خداتعالیٰ نے لوگوں کو ان کی طرف جھکا دیا۔ حضرت خلیفہ اوّل کا خیال تھا۔ اور ہم نے بھی سنا ہوا تھا کہ اب قریش سے خلیفہ نہیں ہو سکتا لیکن جب آپ یہ ِخیال رکھتے تھے کہ میں قریش سے ہوں اور میرا خلیفہ ہونا ناممکن ہے اس وقت خدا تعالیٰ نے ان لوگوں سے ان کی خلافت کی تائید کرا دی۔ اور ان کے آگے جھکا دیا جو بعد میں خلافت کے منکر ہو گئے۔ ان لوگوں نے یعنی مولوی محمد علی اور خواجہ کمال الدین وغیرہ نے اپنے دستخطوں سے اعلان کیا کہ حضرت مرزا صاحب کے بعد مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اوّل ہیں اور ان کی اطاعت ہم سب کے لیے ضروری ہے جیسی کہ حضرت مرزا صاحب کی تھی۔

جو لوگ اس زمانہ کے حالات جانتے ہیں انہیں معلوم ہوگا کہ مولوی محمد علی صاحب کو حضرت خلیفہ اوّلؓ سے اس قدر نقار تھا کہ جس مجلس میں آپ بیٹھتے اس میں مولوی محمد علی صاحب بیٹھنا پسند نہیں کرتے تھے مگر انہی کو خلیفہ ماننا یہ خدا کا ہی تصرف تھا۔

پھر حضرت خلیفہ اوّلؓ کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح خلیفہ بنا عام طور پر لوگوں کو گذشتہ باتیں بھول جاتی ہیں اور بعض نئے آدمی ہوتے ہیں اس لیے پھر سناتا ہوں تاکہ یہ باتیں ان لوگوں میں گڑ جائیں۔

حضرت خلیفہ اوّلؓ کے آخری ایام میں ایسا اختلاف رونما ہو گیا تھا کہ سب سمجھتے تھے کہ اس کا مٹنامشکل ہے چونکہ ذاتیات کے اختلاف بدل کر مسائل میں اختلاف شروع ہو گیا تھا اس لیے اس کا دور ہونا مشکل نظر آتا تھا جب حضرت خلیفہ اول کی حالت بہت نازک ہوگئی تو طبعاً خیال پیدا ہوا کہ کیا کرنا چاہیے چونکہ خلیفۂ اوّلؓ کی زندگی میں اس بات کی تعین کہ فلاں خلیفہ ہو شرعاً ناجائز تھی اس لیے ہم میں یہ تو سوال نہیں اٹھتا تھا کہ کون خلیفہ ہومگر یہ ضرور اٹھتا تھا کہ کن میں سے ہو ۔ مکرمی مولوی سید سرور شاہ صاحب اور میں ان دنوں سیر کو جایا کرتے تھے ان سے یہی تذکرہ ہوتا کہ بڑا فتنہ ہوگا۔ اس کے روکنے کے لیے کیا ہو ان کی طرف سے یہی کہا جاتا تھا کہ ہم کسی ایسے شخص کی بیعت کس طرح شرعی طور پر کرسکتے ہیں جوحضرت مسیح موعودؑ کی نبوت کا منکر ہو اور آپ کے درجہ کو گھٹاتا ہو اور میں یہی کہا کرتا کہ گو یہ اختلاف بہت بڑا ہے مگر اجتہاد پر ہے اور اگر ہم میں سے کوئی خلیفہ ہو ا تو وہ لوگ نہیں مانیں گے اور اختلاف بہت زیادہ بڑھ جائے گا اس لیے جماعت کے اتحاد کے لیے یہ اجتہادی اختلاف گوارا کر لینا چاہیے ۔غرض ایک لمبے عرصہ کی بحث و مباحثہ کے بعد میں نے ان کو اس بات کے لیے تیار کر لیا کہ ان لوگوں میں سے جو خلیفہ ہوگا اس کی ہم بیعت کر لیں گے۔ اس کے بعد میں نے حافظ روشن علی صاحب اور نواب صاحب اور دوسرے بڑے بڑے اصحاب کو ایک ایک کر کے اعتراف کرا لیا کہ ہم ان میں سے کسی کی بیعت کر لیں گے۔

جب حضرت خلیفۂ اوّلؓ فوت ہو گئے۔ تو میں نے گھر کے سب آدمیوں کو جمع کر کے حالات بتائے اور کہا کہ جماعت کی ابتدائی حالت ہے اور گو ہم میں اور ان لوگوں میں اختلاف بڑا ہے۔ مگر فتنہ کو مٹانے کے لیے ہمیں ان میں سے کسی کی بیعت کر لینی چاہیے۔ بہتوں کی رائے تھی کہ جب عقائد کا اختلاف ہے تو ہم ان میں سے کسی کو خلیفہ کس طرح مان سکتے ہیں لیکن میں نے ان کو منوا لیاکہ اوّل تو اس بات کی کوشش کی جائے کہ ایک ایسا شخص خلیفہ ہو جس کے عقائد کا اظہار نہیں ہوا لیکن اگر اس میں کامیابی نہ ہو تو ان میں سے جو خلیفہ ہو اسے ہم مان لیں اور اس کی بیعت کر لیں تاکہ جماعت میں اختلاف نہ ہو اور فتنہ پیدا نہ ہو۔
اس کے بعد مولوی محمد علی صاحب سے میری گفتگو ہوئی۔ میں مطمئن تھا کہ ان کی بیعت کر لوں گا اور کوئی فتنہ نہ ہو گا۔ انہوں نے مجھے لکھا کہ میں آپ سے کچھ باتیں کرنا چاہتا ہوں میں نے کہا آیئے پھرباہر چلیں۔ وہ میرے ساتھ باہر چلے اور باتیں شروع ہوئیں۔ انہوں نے کہا ابھی خلیفہ کا انتخاب نہ کیا جائے اور لوگوں کا انتظار کیا جائے۔ جب سب لوگ باہر سے آ جائیں تو پھر یہ سوال اٹھایا جائے۔ میں نے کہا کہ ایک دو دن تک لوگوں کے آنے کا انتظار کیا ہی جائے گا۔ اس وقت اس کا فیصلہ ہو جائے۔ انہوں نے کہا اتنی جلدی کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ چند ماہ تک یونہی کام چلے۔ پھر دیکھا جائے گا۔ میں نے کہا اگر اس قدر عرصہ خلیفہ کے بغیر کام چل سکتا ہے اور اس طرح جماعت کا گزارہ ہو سکتا ہے تو پھر ساری عمر بھی ہو سکتا ہے۔ میری تو یہی رائے ہے کہ جلدی اس بات کا فیصلہ ہو جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا اگر جلدی کی گئی تو جماعت میں تفرقہ پڑ جائے گا۔ میں نے کہا تفرقہ کیوں پڑے گا ممکن ہے خلیفہ آپ کا ہم خیال ہو۔ انہوں نے کہا اگر خلیفہ ہمارا ہم خیال ہواتو آپ کے ہم خیال لوگ اسے نہ مانیں گے۔ میں نے کہا کیوں نہ مانیں گے۔ اصل مقصد تو اتحاد ہے۔ اور وہ ضرور مان لیں گے ۔ اس پر انہوں نے کہا یہ تو خیالی بات ہے کہ خلیفہ ہمارا ہم خیال ہو گا اگر آپ کا ہم خیال ہوا تو پھر کیا ہو گا۔ میں نے کہا جس طرح ہم آپ کے ہم خیال خلیفہ کو ماننے کے لیے تیار ہیں۔ اسی طرح آپ کو اور آپ کے ہم خیالوں کو اس بات کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ کہ اگر خلیفہ ہمارا ہم خیال ہو۔ تو وہ مان لیں انہوں نے کہا اگر آپ کا ہم خیال خلیفہ ہوا تو وہ کہے گا غیر احمدی کو کافر کہو۔ ہم اس بات کو کیونکر مانیں گے۔ میں نے کہا ہر مجلس میں کون کسی کو کافر کافر کہتا پھرتا ہے۔ یہ تو جب مسئلہ چھڑے تب کہا جائے گا۔ میں نے کہا اس وقت یہ بحث نہیں ہونی چاہیے کہ خلیفہ ہو یا نہ ہو۔ بلکہ یہ ہونی چاہیے کہ کون ہو۔ آپ ہی اس منصب کے لیے کوئی آدمی پیش کریں۔ میں اس کی بیعت کرنے کے لیے تیار ہوں تا کہ جماعت کا اتحاد قائم رہے۔ مگر اس گفتگو سے کوئی فیصلہ نہ ہوا اور تجویز ہوئی کہ مزید گفتگو دوستوں سے مشورہ لینے کے بعد پھر ہو۔ دوسرے دن وہ مع چند اَور دوستوں کے آئے اور انہوں نے اس بات پر بڑا زور دینا شروع کیا کہ خلافت جائز ہے یا نہیں۔ میں چونکہ فیصلہ کر چکا تھا کہ مولوی محمد علی صاحب کی بیعت کر لوں گا۔ میں نے کہا آپ لوگ اس پر اتنا زور کیوں دیتے ہیں یہ دیکھیں کہ خلیفہ کون ہوتا ہے۔ باہر چل کر لوگوں میں اس سوال کو پیش کریں پھر دیکھیں کیا فیصلہ ہوتا ہے ۔ ان کی طرف سے کہا گیا پہلے یہ فیصلہ ہو جانا چاہیے کہ کوئی خلیفہ نہ ہو میں نے کہا اگر آپ لوگ اسی پر زور دیتے ہیں تو جماعت میں پیش کر دیں۔ اس وقت مولوی محمد علی صاحب کے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔ میاں صاحب !آپ اس لیے خلافت پر زور دیتے ہیں کہ آپ جانتے ہیں کس نے خلیفہ ہوناہے ہم میں سے تو کوئی خلیفہ ہو نہیں سکتا۔

غرض آخر وقت تک میں نے یہی چاہا کہ وہ سوال اٹھائیں کہ خلیفہ کون ہو اور جب وہ کسی کو پیش کریں گےتو میں اس کی بیعت کر لوں گا۔ اور اس پر اگر سارے کے سارے نہیں تو ان لوگوں کا کثیر حصہ جو مجھ سے تعلق رکھتے تھے بیعت کر لیتے اور آج جو نقشہ تمہیں نظر آ رہا ہے یہ بدلا ہوا ہوتا۔ مگر خدا جو کام کرنا چاہے اسے کون روک ہو سکتا ہے اس لیے وہی ہوا جو خدا کو منظور تھا۔

فتنہ کو دیکھ کر میں نے حضرت خلیفہ اوّل کی بیماری کے آخری دنوں میں ارادہ کیا کہ یہاں سے چلا جاؤں۔ اور جب کوئی فیصلہ ہو جائے تو آ جاؤں۔ یہ ارادہ کر کے میں نواب صاحب کی کوٹھی سے جہاں حضرت مولوی صاحب تھے گھر آیا اور جس طرح وداع ہوتے ہیں اس طرح گھر سے وداع ہو کر پھر نواب صاحب کی کوٹھی پر آیا۔ مگر حضرت مولوی صاحب نے سارا دن مجھے اپنے پاس بٹھائے رکھا اور خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے دل میں ڈالا گیا کہ اس دن میں نہ جاؤں دوسرے دن جمعہ تھا میں جمعہ پڑھ کے کوٹھی کی طرف چلا جا رہا تھا کہ خبر آئی مولوی صاحب فوت ہو گئے ہیں۔

غرض جتنی ممکن صورتیں تھیں۔ ان کے ذریعہ میں نے یہی چاہا کہ ان میں سے کوئی خلیفہ ہو اور میں اس کی بیعت کر لوں تا کہ فتنہ نہ ہو۔ مگر انہوں نے خلافت کا ہی انکار کر دیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ انسانی تدبیروں سے خلیفہ بن گیا۔ میں کہتا ہوں اگر انسانی تدبیروں کے ذریعہ کسی نے خلیفہ بننا ہوتاتو مولوی محمد علی صاحب بنتے۔ کیونکہ جس کو خدا نے خلیفہ بنایا وہ بھی اپنا سارا زور لگا رہا تھا کہ وہ خلیفہ بنیں۔ اس بات کے بیسیوں شاہد موجود ہیں کہ میں نے اصرار کر کے ان سے منوایا کہ جھگڑے کو مٹانے کے لیے ہمیں مولوی محمد علی صاحب کی بیعت کر لینی چاہیے۔ لیکن ہم نے جو خیال کیا اور جس کے لیے کوشش کی وہ خلیفہ نہ ہوا۔ کیونکہ خدا کے نزدیک وہ ہونے کے قابل نہ تھا۔

اس وقت ان لوگوں کی ایسی حالت ہوئی کہ ماسٹر عبد الحق صاحب مرحوم تو اس وقت ان کے ساتھ تھے مگر بعد میں انہوں نے بیعت کر لی تھی۔ وہ کہتے کہ ان لوگوں نے کوشش کی کہ سید حامد علی شاہ صاحب کی چالیس آدمیوں سے بیعت کرا کے اسے خلیفہ بنا دیں۔ مگر اڑھائی ہزار کے قریب مجمع سے انہیں چالیس آدمی بھی نہ ملے۔ اور اس میں بھی انہیں ناکامی ہوئی۔

ان واقعات سے ظاہر ہے کہ خلیفہ خدا ہی بناتا ہے حتّٰی کہ اس کا بھی اس میں کچھ دخل نہیں ہوتا جسے خدا منتخب کرتا ہے۔ میں نے پورا زور لگایا کہ میں خلیفہ نہ بنوں۔ اور اس وقت کی حالت جن لوگوں نے دیکھی ہے وہ جانتے ہیں کہ میں اس وقت بیعت لینے سے انکار کر رہا تھا۔ مگر اس وقت اس طرح ہجوم کر کے لوگ مجھ پر گر رہے تھے کہ اگر میں اصرار کرتا تو یقینا ًان کے درمیان کچلا جاتا۔

یہ واقعات ہیں جن سے ظاہر ہے کہ خلفاء خدا ہی بناتا ہے۔

خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ تم سے خدا کا یہ وعدہ ہے اور وعدہ نہیں ٹلا کرتا۔ اللہ وعدہ کرتا ہے مومنوں اور عمل صالح کرنے والوں سے کہ جن کے اعمال مامور بننے کے قابل ہوں گے۔ ان کو مامور بنائے گا۔ اور جن کے اعمال غیر مامور خلیفہ بننے کے قابل ہوں گے ان کو ایسا ہی خلیفہ بنائے گا خدا قسم کھا کر فرماتا ہے کہ ان کو ایسا ہی خلیفہ بنائے گا۔ جیسے ان سے پہلے تھے۔ اور حضرت مسیح موعود نے لکھا ہے کہ یہ خدا تعالیٰ کی سنت ہے کہ ہر نبی کے بعد خلیفے بناتا ہے اور رسول کریم ﷺ بھی یہی فرماتے ہیں۔

پھر فرماتا ہے ان خلفاء کی خصوصیت یہ ہو گی کہ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وہ جس دین پر قائم ہوں گے خدا اسے دنیا میں قائم کرے گا۔

اس وقت یہ بات کس قدر زبردست طور سے پوری ہو رہی ہے۔ اس وقت کہا جاتا تھا کہ جماعت ٹوٹ کر تباہ ہو جائے گی۔ ہم کہتے ہیں ہمارے دشمنوں کا اقرار موجود ہے کہ جو عقائد تم منوانا چاہتے ہو یہ دنیا نہیں مان سکتی اور ان سے مخالفت بھڑک اٹھے گی۔ ہم کہتے ہیں یہی تو ثبوت ہے اس بات کا کہ خلافت خدا کی طرف سے ہے کیونکہ خدا تعالیٰ کہتا ہے لوگ تو ان باتوں کا انکار کریں گے۔ لیکن میں انہیں منواؤں گا اور اب دیکھ لو ہم دنیا سے وہی بھڑکانے والے عقائد کس طرح منوا رہے ہیں اور وہ لوگ نہ بھڑکانے والے عقائد منوانے میں کیسے ناکام ہو رہے ہیں یہ بات کیا ہے؟ کہ لوگ ماریں کھانا پسند کرتے لوگوں کو اپنا مخالف بنا لینا پسند کرتے ان کے طرح طرح کے دکھ اور تکالیف اٹھانا پسند کرتے ہیں اور ان عقائد کو مان رہے ہیں۔ کوئی طاقت ہے جو انہیں منوا رہی ہے اور یہ وہی طاقت ہے جس کے متعلق خدا تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ خلفاء کا جو دین ہو گا وہ میں لوگوں سے منواؤں گا۔ پس جس طرح پہلے خلفاء کو ماننے والے بڑھتے رہے۔ اسی طرح اب بڑھ رہے ہیں چنانچہ خلفاء کو ماننے والے اہلسنت سب فرقوں سے زیادہ تھے حالانکہ ان کے لیے دوسروں کی نسبت مشکلات بھی زیادہ تھیں۔ پھر اس زمانہ میں جو دقتیں اور تکلیفیں اور جس قدر قربانیاں ان لوگوں کو کرنی پڑتی ہیں جو ہمارے ساتھ شامل ہوتے ہیں ویسی خلافت کے منکروں کے ساتھ ملنے والوں کو نہیں کرنی پڑتیں۔ مگر باوجود اس کے ہمارے ساتھ ایک سال میں جتنے لوگ شامل ہوتے ہیں اتنے ان کے ساتھ پانچ چھے سال میں بھی نہیں ہوئے یہ بھی چھوڑ کر کسی تین ماہ کے عرصہ میں جتنے لوگ ہماری جماعت میں داخل ہوئے ہیں اتنے ان کے ساتھ سات سال میں بھی نہیں ہوئے۔ یہ بات کیا ہے یہی کہ خدا ان کے لیے اس دین کو پسند کرتا ہے جو اس کے بنائے ہوئے خلیفہ کا دین ہے اور لوگوں کو سمجھاتا ہے کہ اس کادین سچا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ خلفاء کو فقہی مسائل میں بھی غلطی نہیں لگتی۔ ایسے مسائل میں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو بھی غلطی لگ جاتی تھی۔ اس سے مراد یہ ہے کہ اصولی عقائد ان کے سچے ہوتے ہیں ان میں انہیں کوئی غلطی نہیں لگتی۔ فرمایا۔ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ قائم کر دے گا۔ ان کا وہ دین جو خدا نے ان کے لیے چنا۔

کیا ہی زور دار بات بیان فرمائی ہے اوّل قسم کھا کر کہا ہے کہ میں انہیں خلیفہ بناؤں گا پھر یہ فرماتا ہے کہ میں ان کی خاطر ان کے دین کو قائم کر دوں گا۔ دین تو خدا تعالیٰ کا اپنا ہے اور جو اسے مانتا ہے وہ خود فائدہ اٹھاتا ہے مگر یہاں خدا تعالیٰ فرماتا ہے ہم یہ کام ان کی خاطر کریں گے اس میں ان کی عظمت بیان فرمائی ہے کہ ان کے لیے ہم ایسا کریں گے۔ اس سے معلوم ہو سکتا ہے کہ وہ خدا ہی کے چنے ہوئے دین پر ہوتے ہیں۔

دوسری بات ان خلفاء کے لیے خدا تعالیٰ یہ کرتا ہے کہ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًاؕ خوف ان کے رستے میں آتے ہیں مگر جب آتے ہیں تو خدا کے فضل سے امن کے ساتھ بدل جاتے ہیں۔

ہمارے سامنے کیسے کیسے خوف آتے ہیں۔ مگر خدا تعالیٰ ان کو امن سے بدلنے کے ایسے ایسے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ جنہیں دیکھ کر حیرت آتی ہے اور میں نے تو دیکھا ہے وہی دن جو میرے لیے انتہائی مشکلات کا دن ہوتا ہے وہی انتہائی خوشی کا ہو جاتا ہے مجھے گھبراہٹ اسی بات پر آیا کرتی ہے کہ انتہائی مشکلات کا دن کیوں نہیں آتا۔ کیونکہ مجھے معلوم ہے کہ کوئی دن جس میں مجھے انتہائی دکھ اور تکلیف کا احساس ہوا ہو۔ وہ نہیں ختم ہوا کہ وہ تکلیف دور نہ ہو گئی ہو۔ اور اس کا مجھے ایسا تجربہ ہے کہ کوئی استثنائی صورت بھی نظر نہیں آتی۔ پہلے زمانہ کی نسبت اس زمانہ میں خداتعالیٰ بہت جلد ہی خوف کی حالت کو امن سے بدل دیتا ہے شاید ہماری کمزوریوں اور مشکلات کی کثرت کی وجہ سے ایسا کرتا ہے ۔

کہتے ہیں حضرت عثمانؓ کے وقت خوف امن سے نہیں بدلا تھا۔ مگر یاد رکھنا چاہیے یہاں خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا تمام ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں سے یہ وعدہ ہے۔ اور ان کے لیے خدا نے اس کو نعمت قرار دیا ہے۔ لیکن جب وہ لوگ جنہیں نعمت دی جائے خود اس کی بے قدری کریں۔ تو ان سے نعمت لے لی جاتی ہے یہاں خوف سے مراد باہر کے لوگوں کا پید اکردہ خوف ہے اور ان کے پیدا کردہ خوف کو دور کرنے کا خدا نے وعدہ کیا ہے لیکن اگر وہ لوگ جن پر یہ نعمت کی گئی خود خوف پید اکریں تو ان کا اس نعمت کو رد کرنا ہو گا اور جب وہ رد کریں گے تو ان سے چھین لی جائے گی۔

سیاق سباق آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ باہر کے لوگوں کا پیدا کردہ خوف ہے جس کو امن سے بدل دینے کا وعدہ کیا گیا ہے ۔ حضرت عثمانؓ کے وقت خوف پید اکرنے والے باہر کے لوگ نہیں تھے۔ بلکہ اندر ہی کے تھے اور ان کو حضرت عثمانؓ نے کہہ دیا تھاکہ اگر تم مجھے قتل کرو گے تو پھر قیامت تک تم میں امن قائم نہ ہو گا چنانچہ ایسا ہی ہوا جب تک خدا کا ایک نبی نہ آ گیا اور اس طرح قیامت نہ ہو گئی اس وقت تک امن قائم نہ ہوا اور بے امنی پیدا کرنے والوں کو کاٹ کاٹ کر نکال دیا گیا۔

پھر اس وقت حضرت عثمانؓ کو کسی قسم کا خوف نہیں تھا۔ چنانچہ جب ان کے گھر میں دشمن کود کر گئے اور محمد بن ابی بکر نے آگے بڑھ کے ان کی ڈاڑھی پکڑی تو اس وقت آپ قرآن کریم پڑھ رہے تھے اس کی طرف نظر اٹھا کے دیکھا اور صرف اتنا کہا اگر اس وقت تیرا باپ ہوتاتو تُواس طرح نہ کرتا اور پھر قرآن کریم پڑھتے رہے اور نظر اٹھا کے بھی نہ دیکھا اور کہا رات رسول کریم ﷺ تشریف لائے تھے اور مجھے فرمایا تھا آج کا روزہ ہمارے ساتھ ہی کھولنا۔ توحضرت عثمانؓ قرآن پڑھتے ہوئے حضرت رسول کریمﷺ کے ساتھ روزہ کھولنے کی خوشی میں شہید ہوئے اور انہیں اس وقت بھی کوئی خوف نہ تھا یہی حال ہم حضرت علیؓ کا دیکھتے ہیں۔

خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا جب دشمن دیکھیں گے کہ خلفاء کی باتیں دنیا میں قائم ہو رہی ہیں ان کا دین پھیل رہا ہے تو حملے پر حملہ کریں گے لیکن خدا ان کے حملوں کو رد کر دے گا اور اپنے مقرر کردہ خلفاء کے خوف کو امن سے بدل دے گا۔ کسی کی طاقت نہیں ہو گی کہ ان کے امن کو چھین سکے۔

پھر یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ بنائیں گے۔ آج جو لوگ کہتے ہیں کہ گدّی قائم ہو گئی ہے وہ غور کریں کہ خدا تعالیٰ کہتا ہے ایسا نہیں ہو سکتا۔

وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ خدا تعالیٰ فرماتا ہے۔ اتنی بڑی نعمت جو ہم نازل کریں گے کہ ایسے خلیفے بنائیں گے جو انتظام قائم رکھیں گے۔ ان کے خلاف جو لوگ کھڑے ہوں گے ہم انہیں اپنی رعایا میں سے کاٹ دیں گے۔ وہ خارج عن الاطاعت ہوں گے۔

غیر مبایعین کہا کرتے ہیں۔ فاسق کے معنے خارج عن الاطاعت کہاں ہیں۔ لیکن یہ اس کے یقینی اور بالکل صحیح معنی ہیں۔

وَ اَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ اور قائم کرو نمازوں کو اور دو زکوٰۃ اور اطاعت کرو رسول کی تا کہ تم پر رحم کیا جائے (یعنی یہ جو اتنی بڑی نعمت ہے یہ تمہیں حاصل ہو جائے)
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی لکھا ہے کہ تم سب مل کر قدرت ثانی کی آمد کے لیے دعائیں کرو۔

خدا تعالیٰ فرماتا ہے تم دعائیں کرو۔ نمازیں پڑھو۔ صدقے دو تا کہ خلافت کا سلسلہ قائم رہے۔

لَا تَحۡسَبَنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مُعۡجِزِیۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ۚ وَ مَاۡوٰٮہُمُ النَّارُ ؕ وَ لَبِئۡسَ الۡمَصِیۡرُ

یہ مت خیال کرو کہ کفار تم پر غلبہ پا لیں گے۔ (جب تک خلافت کا سلسلہ جاری رہے گا) وہ تمہیں مٹا نہیں سکیں گے۔ اور ان کا ٹھکانا آگ ہو گا۔

تم لوگ بھی اس بات کو خوب اچھی طرح یاد رکھو تا کہ تم کو بھی کوئی نہ مٹا سکے۔ اور جو مٹانے کے لیے اٹھے وہ خود مٹ جائے۔

(درس قرآن مجید سورۃ النور و سورۃ الفرقان صفحہ67تا 84)

(مرسلہ : حبیب الرحمٰن زیروی)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button