متفرق مضامین

خلفائے سلسلہ کی واقفینِ نَوسے توقعات

(فراست احمد راشد۔ ربوہ)

تحریک وقف نو

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے 3؍ اپریل 1987ء کے خطبہ جمعہ کے دوران ایک عظیم الشان تحریک کا اعلان فرمایا جس کا مقصد آنے والی صدی میں جماعت احمدیہ پر پڑنے والی ذمہ داریوں کے لیے ایک روحانی فوج تیار کرنا تھا۔ لہذا آپ ؒ نے اگلی صدی کو “وقف نو” کی عظیم الشان الٰہی تحریک کی شکل میں ایک تحفہ عطا فرمایا۔ جس میں آپ نے والدین کویہ تحریک فرمائی کہ وہ اپنے پیدا ہونے والے بچہ کو خدا تعالیٰ کی خوشنودی کی خاطر وقف کر دیں اور پھر پیدائش کے بعد اس کی تربیت اس رنگ میں کریں کہ وہ بلوغت کی عمر کو پہنچ کر خود بھی اس وقف کے تقاضے پورے کرنے والا وجود ثابت ہو۔

وقف نو کی بابرکت تحریک کا آغاز

وقف نو کی تحریک کا اعلان کرتے ہوئے بانی تحریک حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:۔

“میں نے یہ سوچاکہ ساری جماعت کومیں اس بات پرآمادہ کروں کہ اگلی صدی میں داخل ہونے سے پہلے جہاں روحانی اولادبنانے کی کوشش کررہے ہیں۔دعوت الی اللہ کے ذریعے وہاں اپنے آئندہ ہونے والے بچوں کوخداکی راہ میں ابھی سے وقف کردیں اوریہ دعامانگیں کہ اے خدا! ہمیں ایک بیٹا دے لیکن اگرتیرے نزدیک بیٹی ہی ہمارے لیے مقدرہے توہماری بیٹی ہی تیرے حضورپیش ہے۔ مَا فِی بَطْنِی جوکچھ بھی میرے بطن میں ہے یہ مائیں دعائیں کریں اوروالدین بھی ابراہیمی دعائیں کریں کہ اے خدا!انہیں اپنے لیے چن لے اور اپنے لیے خاص کرلے تیرے ہو کر رہ جائیں اورآئندہ صدی میں ایک عظیم الشان بچوں کی فوج ساری دنیاسے اس طرح داخل ہورہی ہوکہ وہ دنیاسے آزادہورہی ہواور محمد رسول اللہ ﷺاور محمد رسول اللہﷺ کے خداکے غلام بن کے اس صدی میں داخل ہو رہی ہو۔ چھوٹے چھوٹے بچے ہم خداکے حضورتحفے پیش کررہے ہیں اوراس کی شدید ضرورت ہے آئندہ سوسالوں میں جس کثرت سے اسلام نے ہرجگہ پھیلناہے وہاں لاکھوں تربیت یافتہ غلام چاہئیں جومحمد رسول اللہ ﷺ اور خداکے غلام ہوں۔

واقفین زندگی چاہئیں کثرت کے ساتھ اورہرطبقہ زندگی کے ساتھ واقفین زندگی چاہئیں۔ ہر ملک سے واقفین زندگی چاہئیں۔”(خطبات طاہر جلد 2 صفحہ 247،248۔ خطبہ جمعہ فرمودہ /3اپریل 1987ء )

ابتداء میں یہ تحریک دو سال کے لیے تھی ۔ لیکن پھر مزید دو سال کا اضافہ فرمایا گیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ نے پانچ ہزار واقفین نو کی تحریک فرمائی جو افرادِ جماعت نے پوری کردی۔ بعض احباب اس تحریک میں شامل ہونے سے رہ گئے اور حضور انور کی خدمت میں درخواست کی کہ ان کے بچوں کو بھی اس بابرکت تنظیم میں شامل فرمایا جائے۔ چنانچہ حضور انور نے ٹارگٹ بڑھا کر 25ہزار کر دیا۔ جلد ہی یہ ٹارگٹ بھی پورا ہو گیا اور مزید افراد اس خواہش کااظہار کرتے دکھائی دیے جس پر حضور انور نے اس عظیم الشان تحریک کو مستقل فرما دیا ۔

واقفین کی ذمہ داریاں اور ان سے توقعات

حقیقت ہے کہ جس قدر کسی سے توقعات وابستہ ہوتی ہیں اسی قدر اس کی ذمہ داریاں بڑھ جایا کرتی ہیں۔پس واقفین نو سے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ اور پھر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی توقعات کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک شخص جو بلوغت کی عمر میں خود اپنی زندگی وقف کرتا ہے، اس کو جو نصائح فرمائیں ، وہ سبھی نصائح اس بچے کے لیے بھی لازم قرار دیں جو اس تنظیم میں شامل ہوگا۔ بلکہ اس سے بڑھ کر ان واقفین نو کے والدین جواپنی اولاد کو پیش کرنے کی سعادت پاتے ہوئے اولین ذمہ دار بنتے ہیں،کو بھی ان بچوں کی تربیت کے حوالہ سے بارہا خصوصی نصائح فرمائیں ۔

پس ایک واقف زندگی جو بلوغت کی عمر میں پہنچ کر اپنی زندگی خدا تعالیٰ کی رضا کی خاطر پیش کرتا ہے ، اس سے بڑھ کر ایک واقف نو کی ذمہ داریاں ہیں ، جو ابھی اس دنیا میں آیا بھی نہیں ہوتا اور اس سعادت عظمیٰ کو پالیتا ہے کیونکہ اس کی تو تربیت ہی اس طرز پر کی جاتی ہے کہ اس نے واقفین کے رنگ میں رنگین ہونا اور خدمت ، خدمت اور بس خدمت کرنی ہے۔

ذیل میں ہم صرف ان ذمہ داریوں اور توقعات کا تذکرہ کریں گے جو براہِ راست واقفین نو کے والدین یا خود واقفین نو کو مخاطب کرتے ہوئے خلفائے احمدیت نے بیان فرمائیں۔

تنظیم وقف نو کی نگرانی اور نظم و ضبط کے تحریک جدید کے تحت ایک شعبہ “وکالت وقف نو” کے نام سے موجود ہے جو دنیا بھر کے واقفین نو کی تربیت اور دیگر امور کی نگرانی کرتا اور بوقت ضرورت معلومات مہیا کرتا ہے۔ مضمون کے آخر پر وکالت وقف نو کی طرف سے دی گئی ہدایات بھی شامل جائیں گی۔

وقف نو کی اہمیت اور ذمہ داریوں کا احساس
واقفین نو اور والدین کے سات بنیادی فرائض

ہمارے پیارے امام ہمام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز واقفین نو اور ان کے والدین کو سات باتوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:۔

“ماں باپ کو، اُن ماں باپ کو جو اپنے بچوں کو وقفِ نَو میں بھیجتے ہیں، یہ جائزے لینے ہوں گے کہ وہ اس تحفے کو جماعت کو دینے میں اپنا حق کس حد تک ادا کر رہے ہیں؟ کس حد تک اس تحفے کو سجانے کی کوشش کر رہے ہیں؟ کس حد تک خوبصورت بنا کر جماعت کو پیش کرنے کی طرف توجہ دے رہے ہیں؟ وہ اپنے فرائض کس حد تک پورے کر رہے ہیں؟ ……واقفینِ نَو بچوں کو بھی مَیں کہتا ہوں جو بارہ تیرہ سال کی عمر کو پہنچ چکے ہیں کہ وہ اپنے بارے میں سوچنا شروع کر دیں، اپنی اہمیت پر غور کریں۔ صرف اس بات پر خوش نہ ہو جائیں کہ آپ وقفِ نَو ہیں۔ اہمیت کا پتہ تب لگے گا جب اپنے مقصد کا پتہ لگے گاکہ کیا آپ نے حاصل کرنا ہے۔ اُس کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ اور پندرہ سال کی عمر والے لڑکوں اور لڑکیوں کو تو اپنی اہمیت اور اپنی ذمہ داریوں کا بہت زیادہ احساس ہو جانا چاہیے……

پہلی بات جو ہر وقفِ نَو بچے میں پیدا ہونی چاہیے…کہ اُس کی ماں نے اُس کی پیدائش سے پہلے ایک بہت بڑے مقصد کے لیے اُسے پیش کرنے کی خواہش دل میں پیدا کی۔ پھر اس خواہش کے پورا ہونے کی بڑی عاجزی سے دعا بھی کی۔ پس بچے کو اپنے ماں باپ کی، کیونکہ اس خواہش اور دعا میں بعد میں باپ بھی شامل ہو جاتا ہے، اُن کی خواہش اور دعا کا احترام کرتے ہوئے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی نذر ہونے کا حق دار بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اور یہ تبھی ہو سکتا ہے جب اپنے دل و دماغ کو اپنے قول و فعل کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق بنانے کی طرف توجہ ہو۔

دوسری بات یہ کہ ماں باپ کا آپ پر یہ بڑا احسان ہے اور یہ احسان کرنے کی وجہ سے اُن کے لیے یہ دعا ہو کہ اللہ تعالیٰ اُن پر رحم فرمائے۔ آپ کی تربیت کے لیے اُن کی طرف سے اُٹھنے والے ہر قدم کی آپ کے دل میں اہمیت ہو۔ اور یہ احساس ہو کہ میرے ماں باپ اپنے عہد کوپورا کرنے کے لیے جو کوشش کر رہے ہیں مَیں نے بھی اُس کا حصہ بننا ہے، اُن کی تربیت کو خوشدلی سے قبول کرنا ہے۔ اور اپنے ماں باپ کے عہد پر کبھی آنچ نہیں آنے دینی۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے عہد کا سب سے زیادہ حق ایک واقفِ نَو کا ہے۔ اور واقفِ نَوکو یہ احساس ہونا چاہیے کہ یہ عہد سب سے پہلے اور سب سے بڑھ کر مَیں نے پورا کرنا ہے۔

تیسرے یہ کہ خدا تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لیے ہر قربانی کے لیے صبر اور استقامت دکھانے کا عہد کرنا ہے۔ جیسے بھی کڑے حالات ہوں، سخت حالات ہوں، میں نے اپنے وقف کے عہد کو ہر صورت میں نبھانا ہے، کوئی دنیاوی لالچ کبھی میرے عہدِ وقف میں لغزش پیدا کرنے والا نہیں ہو سکتا…

چوتھی بات یہ کہ اپنے آپ کو اُن لوگوں میں شامل کرنے کے احساس کو ابھارنا اور اس کے لیے کوشش کرنا جو نیکیوں کے پھیلانے والے اور برائیوں سے روکنے والے ہیں۔ اپنے اخلاق کے اعلیٰ نمونے قائم کرنا…

پانچویں بات یہ کہ نیکیوں اور برائیوں کی پہچان کے لیے قرآن اور حدیث کا فہم و ادراک حاصل کرنا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب اور ارشادات کوپڑھنا۔ اپنے دینی علم کو بڑھانے کے لیے ہر وقت کوشش کرنا… یہ نہیں کہ جو واقفینِ نَودنیاوی تعلیم حاصل کر رہے ہوں اُن کو دینی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے۔ جتنا لٹریچر میسر ہے، اُن کو پڑھنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ قرآنِ کریم کا ترجمہ اور تفسیر پڑھنے کی طرف توجہ ہونی چاہیے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جو جو کتب اُن کی زبانوں میں ہیں اُن کو پڑھنے کی طرف توجہ ہونی چاہیے۔

چھٹی بات ……عملی طور پر تبلیغ کے میدان میں کودنا ہے……تبلیغ کا میدان ہر ایک کے لیے کھلا ہے اور اس میں ہر وقفِ نَو کو کودنے کی ضرورت ہے اور بڑھ چڑھ کر ہر وقفِ نَوکو حصہ لینا چاہیے اور یہ سوچ کر حصہ لینا چاہیے کہ میں نے اُس وقت تک چَین سے نہیں بیٹھنا جب تک دنیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے نہیں آ جاتی ……

ساتویں بات ہر واقفِ زندگی کو، واقفِ نَو کوخاص طور پر ذہن میں رکھنی چاہیے کہ وہ اُس گروہ میں شامل ہے جنہوں نے دنیا کو ہلاکت سے بچانا ہے۔ اگر آپ کے پاس علم ہے اور آپ کو موقع بھی مل رہا ہے لیکن اگر دنیا کو ہلاکت سے بچانے کا سچا جذبہ نہیں ہے، انسانیت کو تباہی سے بچانے کا درد دل میں نہیں ہے تو ایک تڑپ کے ساتھ جو کوشش ہو سکتی ہے، وہ نہیں ہو گی اور برکت بھی ہو سکتاہے اُس میں اُس طرح نہ پڑے……اس لیے ہر ایک کو یاد رکھنا چاہیے کہ ہماری دعاؤں کا دائرہ صرف اپنے تک محدود نہ ہو، بلکہ اس کے دھارے ہمیں ہر طرف بہتے ہوئے دکھائی دیں تا کہ کوئی انسان بھی اُس فیض سے محروم نہ رہے جو خدا تعالیٰ نے آج ہمیں عطا فرمایا ہے……

پس یہ باتیں اور یہ سوچ ہے جو ایک حقیقی واقفِ نَو اور وقفِ زندگی کی ہونی چاہیے۔ اس کے بغیر کامیابی کی امید خوش فہمی ہے۔ ان باتوں کے بغیر صرف واقفِ نَو اور واقفِ زندگی کا ٹائٹل ہے جو ایسے واقفینِ نَونے اپنے ساتھ لگایا ہوا ہے۔ اس سے زیادہ اس کی کچھ حیثیت نہیں۔ اور صرف ٹائٹل لینا تو ہمارا مقصد نہیں، نہ اُن ماں باپ کا مقصد تھا جنہوں نے اپنے بچوں کو اس قربانی کے لیے پیش کیا۔”(خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 18؍جنوری 2013ء بمقام مسجد بیت الفتوح ۔ لندن)

صرف وقف نو کا ٹائٹل مل جانا ہی کافی نہیں ہے

اسی طرح آپ ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز والدین کو وقف کے تقاضے اور ذمہ داریوں کے حوالہ سے نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

“ واقفینِ نو بچوں کے ذہن میں بچپن سے ہی یہ ڈالا جائے کہ تمہیں ہم نے خدا تعالیٰ کے راستے میں وقف کیا ہے۔ صرف وقفِ نو کا ٹائٹل مل جانا ہی کافی نہیں ہے بلکہ تمہاری تربیت، تمہاری تعلیم، تمہارا اٹھنا بیٹھنا، تمہارا بات چیت کرنا، تمہارا لوگوں سے ملنا جلنا، تمہیں دوسروں سے ممتاز کرے گا۔ یہ عادتیں پھر عمر کے ساتھ ساتھ پختہ ہوں اور کوئی انگلی کبھی تمہاری کردار کشی کرتے ہوئے نہ اٹھے۔”(خطبات مسرور جلد 8 صفحہ 543۔خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 22اکتوبر 2010ء بمقام بیت الفتوح ،لندن )

والدین کے لیے قابل فخر

اسی طرح واقفین نو کو ان کے والدین کی قربانی کا احساس دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

“واقفین نو بچے بھی اپنے ذہن میں رکھیں جو ہوش کی عمر کو پہنچ چکے ہیں جو اپنے والدین کے عہد کی تجدید خود ہوش کی عمر کو پہنچ کر کر رہے ہیں کہ وقف نو میں ہونا اس وقت ان کے لیے ان کے والدین کے لیے قابل فخر ہوگا جب وہ اس قربانی کے معیار کو سمجھیں گے جو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے قائم فرمایا تھا اور اس آزمائش پر پورے اتریں گے جو انہوں نے قائم فرمائی تھی۔’’(خطبہ عید الاضحیہ فرمودہ 11جنوری 2006ء بمقام قادیان)

واقفین نو بڑے سپیشل ہیں لیکن ان کو ثابت کرنا ہوگا

خلفائے احمدیت نے جہاں واقفین نو کو ان کے سپیشل ہونے کی خوش خبری دی وہیں یہ امر بھی واضح فرمادیا کہ سپیشل ہونا اپنی ذات میں ایک ذمہ داری ہے جس کو پورا کرنا ہی ان کے سپیشل ہونے کی دلیل ہے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔

“وقف نَو ……بڑے سپیشل ہیں لیکن سپیشل ہونے کے لیے ان کو ثابت کرنا ہو گا ۔کیا ثابت کرنا ہو گا؟ کہ وہ خدا تعالیٰ سے تعلق میں دوسروں سے بڑھے ہوئے ہیں تب وہ سپیشل کہلائیں گے۔ ان میں خوف خدا دوسروں سے زیادہ ہے تب وہ سپیشل کہلائیں گے۔ ان کی عبادتوں کے معیار دوسروں سے بہت بلند ہیں تب وہ سپیشل کہلائیں گے۔ وہ فرض نمازوں کے ساتھ نوافل بھی ادا کرنے والے ہیں تب وہ سپیشل کہلائیں گے ۔ان کے عمومی اخلاق کا معیار انتہائی اعلیٰ درجہ کا ہے۔ یہ ایک نشانی ہے سپیشل ہونے کی۔ ان کی بول چال، بات چیت میں دوسروں کے مقابلے میں بہت فرق ہے۔ واضح پتا لگتا ہے کہ خالص تربیت یافتہ اور دین کو دنیا پر ہر حالت میں مقدم کرنے والا شخص ہے تب سپیشل ہوں گے۔ لڑکیاں ہیں تو ان کا لباس اور پردہ صحیح اسلامی تعلیم کا نمونہ ہے جسے دوسرے لوگ بھی دیکھ کر رشک کرنے والے ہوں اور یہ کہنے والے ہوں کہ واقعی اس ماحول میں رہتے ہوئے بھی ان کے لباس اور پردہ ایک غیر معمولی نمونہ ہے تب سپیشل ہوں گی۔ لڑکے ہیں تو ان کی نظریں حیا کی وجہ سے نیچے جھکی ہوئی ہوں نہ کہ ادھر ادھر غلط کاموں کی طرف دیکھنے والی تب سپیشل ہوں گے۔ انٹرنیٹ اور دوسری چیزوں پر لغویات دیکھنے کی بجائے وہ وقت دین کا علم حاصل کرنے کے لیے صرف کرنے والے ہوں تو تب سپیشل ہوں گے۔ لڑکوں کے حلیے دوسروں سے انہیں ممتاز کرنے والے ہوں تو تب سپیشل ہوں گے۔

وقف نَو لڑکے اور لڑکیاں روزانہ قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے اور اس کے احکامات کی تلاش کر کے اس پر عمل کرنے والے ہوں تو پھر سپیشل کہلا سکتے ہیں۔ ذیلی تنظیموں اور جماعتی پروگراموں میں دوسروں سے بڑھ کر اور باقاعدہ حصہ لینے والے ہیں تو پھر سپیشل ہیں۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک اور ان کے لیے دعاؤں میں اپنے دوسرے بہن بھائیوں سے بڑھے ہوئے ہیں تو یہ ایک خصوصیت ہے۔ رشتوں کے وقت لڑکے بھی اور لڑکیاں بھی دنیا دیکھنے کی بجائے دین دیکھنے والے ہیں اور پھر وہ رشتے نبھانے والے بھی ہیں تو تب کہہ سکتے ہیں کہ ہم خالصۃً دینی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے اپنے رشتے نبھانے والے ہیں تو سپیشل کہلائیں گے۔ ان میں برداشت کا مادہ دوسروں سے زیادہ ہے، لڑائی جھگڑااور فتنہ و فساد کی صورت میں اس سے بچنے والے ہیں بلکہ صلح کروانے والے ہیں تو سپیشل ہیں۔ تبلیغ کے میدان میں سب سے آگے آ کر اس فریضہ کو سرانجام دینے والے ہیں تب سپیشل ہیں۔ خلافت کی اطاعت اور اس کے فیصلوں پر عمل میں صف اول میں ہیں تو سپیشل ہیں۔ دوسروں سے زیادہ سخت جان اور قربانیاں کرنے والے ہیں تو بالکل سپیشل ہیں۔ عاجزی اور بے نفسی میں سب سے بڑھے ہوئے ہیں ،تکبر سے نفرت اور اس کے خلاف جہاد کرنے والے ہیں تو بڑے سپیشل ہیں۔ ایم ٹی اے پر میرے خطبے سننے والے اور میرے ہر پروگرام کو دیکھنے والے ہیں تا کہ ان کو رہنمائی ملتی رہے تو بڑے سپیشل ہیں۔

اگر تو یہ باتیں اور تمام وہ باتیں جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہیں یہ سب کرنے والے ہیں اور وہ تمام باتیں جو اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہیں اور ان سے اس نے روکا ہے اس سے رکنے والے ہیں تو یقیناً سپیشل بلکہ بہت سپیشل ہیں ورنہ آپ میں اور دوسروں میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ یہ ماں باپ کو بھی یاد رکھنا چاہیے اور اپنے بچوں کی اس نہج سے تربیت کرنی چاہیے کیونکہ اگر یہ چیزیں ہیں تو اس وقت دنیا میں انقلاب لانے کا ذریعہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے بنایا ہے۔ اگر یہ نہیں اور اس وجہ سے دنیا آپ کے نمونے کو دیکھنے والی نہیں تو سپیشل کیا اپنے عہدوں کو پورا نہ کرنے اور اپنی وفا کے معیار پر پورا نہ اترنے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک بے وفاؤں اور بدعہدوں میں شمار ہوں گے۔

پس تربیت کے دور میں سے گزارتے وقت ماں باپ اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ اس لحاظ سے انہیں سپیشل بنائیں اور بڑے ہو کر یہ واقفین نَو خود اس سپیشل ہونے کے معیار کو حاصل کریں۔ ’’(خطبات مسرور جلد 14 صفحہ 569،570۔خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28؍اکتوبر 2016ء بمقام مسجد بیت الاسلام ، ٹورانٹو، کینیڈا)

روحانی اور اخلاقی تربیت
اپنے رب سے ایک ذاتی گہرا تعلق قائم کر لیں

بانی تحریک حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ ایک واقف نو بچہ کے بچپن سے ہی خدا تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے کے حوالہ سے فرماتے ہیں:۔

“بچپن ہی سے یہ اپنے رب سے ایک ذاتی گہرا تعلق قائم کر لیں اور اس تعلق کے پھل کھانے شروع کر دیں۔ جو بچہ دعا کے ذریعے اپنے رب کے احسانات کا مشاہدہ کرنے لگتا ہے وہ بچپن ہی سے ایک ایسی روحانی شخصیت حاصل کر لیتا ہے جس کا مربی ہمیشہ خدا بنا رہتا ہے اور دن بدن اس کے اندر وہ تقدس پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے جو خدا سے سچے تعلق کے بغیر پیدا نہیں ہو سکتا اور دنیا کی کوئی تعلیم اور کوئی تربیت وہ اندرونی تقدس انسان کو نہیں بخش سکتی جو خدا تعالیٰ کی معرفت اور اس کے پیار اور اس کی محبت کے نتیجے میں نصیب ہوتا ہے۔”

(خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 109۔خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍ فروری 1989ء بمقام بیت النور ہالینڈ)

روحانی حالت میں بہتری کی کوشش کریں

“جو واقفین نَو لڑکے خاص طور پر اپنی تعلیم مکمل کر چکے ہیں خود بھی اپنی ظاہری اور مالی حالت کی بہتری کی بجائے روحانی حالت میں بہتری کی کوشش کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام تو ہر احمدی سے اس بات کی توقع رکھتے ہیں کہ اس کا معیار انتہائی بلند ہو تو ایک شخص جس کے ماں باپ نے پیدائش سے پہلے اس کو دین کے لیے وقف کر دیا اور اس کے لیے دعائیں بھی کی ہوں اس کو کس قدر ان معیاروں کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے……واقفین نَو کو عام احمدی سے بلند ہو کر یہ مقام حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔”( خطبات مسرور جلد 14 صفحہ 565۔خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28؍اکتوبر 2016ء بمقام مسجد بیت الاسلام ، ٹورانٹو، کینیڈا)

“واقفین نَو کو جہاں قربانی کا معیار بڑھانا ہے وہاں اپنی عبادتوں کے معیار کو بھی بلند کرنا چاہیے، اپنی وفا کے معیار کو بھی بڑھانا چاہیے۔ اپنے اور اپنے والدین کے عہد کو پورا کرنے کے لیے اپنی تمام صلاحتیوں اور استعدادوں سے کام لینے کی کوشش کرنی چاہیے۔ دین کی خاطر، دین کی سربلندی کی خاطر کام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔”(خطبات مسرور جلد14صفحہ 566۔خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28؍اکتوبر 2016ء بمقام مسجد بیت الاسلام ، ٹورانٹو، کینیڈا)

حضرت خلیفۃ المسیح سے تعلق

ایک واقف نو بچہ جب حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت اقدس میں خط تحریر فرماتا ہے تو جس محبت اور چاہت سے وہ خط دیکھا اور پڑھا جاتا ہے اس کا تذکرہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒان الفاظ میں فرماتے ہیں:۔
“ اب یہ بچے کھیلنے لگ گئے ہیں۔ بعض دفعہ ان کی تصویریں آتی ہیں تو پتا چلتا ہے کہ جو چار سال پہلے بچہ پیدا ہوا تھا جو وقف زندگی تھا اب وہ باتیں کرتا دوڑتا پھرتا اور ان کے ماں باپ بڑی محبت کے ساتھ ان کی تصویریں بھجواتے اور بعض دفعہ وہ اپنے ہاتھ سے چھوٹے موٹے خط بھی مجھے لکھتے ہیں۔ بعض ایسے بھی خط لکھتے ہیں کہ شروع سے آخر تک صرف لکیریں ڈالی ہوتی ہیں اور بچہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ میں نے خط لکھا ہے۔ مگر اس خط کا بڑا مزہ آتا ہے کیونکہ ایک واقف زندگی کو شروع سے ہی خلیفہ وقت سے محبت پیدا کرنے کا یہ بھی ایک گُر ہے اس کے دل میں محبت ڈالنے کا کہ ذاتی تعلق پیدا ہو جائے۔”(خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 782۔خطبہ جمعہ فرمودہ یکم دسمبر 1989ء بمقام مسجد فضل لندن)

اطاعت اور احترام جماعت

خلافت سے گہرا تعلق ہونے کے ساتھ ساتھ نظام جماعت کی اطاعت اور اس کا احترام کرنابھی بہت ضروری ہے۔ اس حوالہ سے فرمایا:۔

“سخت جانی کی عادت ڈالنا، نظام جماعت کی اطاعت کی بچپن سے عادت ڈالنا، اطفال الاحمدیہ سے وابستہ کرنا، ناصرات سے وابستہ کرنا، خدام الاحمدیہ سے وابستہ کرنا ……اس پہلو سے بہت ضروری ہے کہ نظام کا احترام سکھایا جائے۔پھر اپنے گھروں میں کبھی ایسی بات نہیں کرنی چاہیے جس سے نظام جماعت کی تخفیف ہوتی ہو یا کسی عہدیدار کے خلاف شکوہ ہو۔……یہ ایسا زخم ہوا کرتا ہے جس کو لگتا ہے اُس کو کم لگتا ہے، جو دیکھنے والا ہے قریب کا ،اُس کو زیادہ لگتا ہے……واقفین بچوں کو نا صرف اس لحاظ سے بچانا چاہیے بلکہ یہ سمجھانا چاہیے کہ اگر تمہیں کسی سے کوئی شکایت ہے خواہ تمہاری توقعات اس کے متعلق کتنی عظیم بھی کیوں نہ ہوں اُس کے نتیجے میں تمہیں اپنے نفس کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔’’(خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 95-96۔ خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍ فروری 1989ء بمقام بیت الفضل لندن)

وفا

اطاعت اور احترام جماعت کے بعد وفا کا سبق سب سے اہم ہے۔ اس حوالہ سے فرمایا:

“ان کو وفا سکھائیں۔ وقف زندگی کا وفا سے بہت گہرا تعلق ہے……بہت احتیاط سے ان کی تربیت کریں اور ان کو وفا کے سبق دیں۔ بار بار سبق دیں۔’’

(خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 98۔خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍ فروری 1989ء بمقام بیت الفضل لندن)

“سب سے اہم بات وفا کا معا ملہ ہے جس کے بغیر کوئی قربانی، قربانی نہیں کہلا سکتی۔”

(خطبات مسرور جلد 1 صفحہ 143۔خطبہ جمعہ فرمودہ 27؍جون 2003ء بمقام مسجد فضل لندن )

واقفین نو میں اخلاق حسنہ بدرجہ اولیٰ نظر آئیں

“جہاں تک اخلاق حسنہ کا تعلق ہے اس سلسلے میں جو صفات جماعت میں نظر آنی چاہئیں وہی صفات واقفین میں بھی نظر آنی چاہئیں بلکہ بدرجہ اولیٰ نظر آنی چاہئیں۔”

(خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 87۔ خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍ فروری 1989ء بمقام بیت الفضل لندن)

“چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو کہنے میں چھوٹی ہیں لیکن اخلاق سنوارنے کے لحاظ سے انتہائی ضروری ہیں مثلاً کھانا کھانے کے آداب ہیں یہ ضرور سکھانا چاہیے۔”(خطبات مسرور جلد 1 صفحہ 145۔خطبہ جمعہ فرمودہ 27؍جون 2003ء بمقام مسجد فضل لندن )

سچائی اس کے دل میں ڈوبنی چاہیے

“ہر واقف زندگی بچہ جو وقف نو میں شامل ہے بچپن سے ہی اُس کو سچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت ہونی چاہیے’’

(خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 87۔ خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍ فروری 1989ء بمقام بیت الفضل لندن)

قناعت کے معیاروں کو بہت بڑھانا چاہیے

“قناعت ……کا واقفین سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ بچپن ہی سے ان بچوں کو قانع بنانا چاہیے اور حرص و ہوا سے بے رغبتی پیدا کرنی چاہیے۔”(خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 87،88۔خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍ فروری 1989ء بمقام بیت الفضل لندن)

“واقفین زندگی کی بیویوں کے لیے یا واقفین زندگی لڑکوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ یہ سلیقہ سیکھیں کہ کسی سے اس کی توفیق سے بڑھ کر نہ توقع رکھیں نہ مطالبہ کریں اور قناعت کے ساتھ کم پر راضی رہنا سیکھ لیں۔”(خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 108۔خطبہ جمعہ فرمودہ 17؍ فروری 1989ء بمقام بیت النور ہالینڈ)
“واقفین نَو کو تو اپنے قناعت کے معیاروں کو بہت بڑھانا چاہیے۔ اپنی قربانی کے معیاروں کو بہت بڑھانا چاہیے۔ یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ ہم مالی لحاظ سے کمزور ہوں گے تو ہمیں شاید ہمارے بہن بھائی کمتر سمجھیں یا والدین ہمیں اس طرح توجہ نہ دیں جس طرح باقیوں کو دے رہے ہیں۔ اول تو والدین کو ہی یہ خیال کبھی دل میں نہیں لانا چاہیے کہ واقفین زندگی کمتر ہیں۔ واقفین زندگی کا معیار اور مقام ان کی نظر میں بہت بلند ہونا چاہیے۔ لیکن واقفین زندگی کو خود اپنے آپ کو ہمیشہ دنیا کا عاجز ترین بندہ سمجھنا چاہیے۔ ’’
(خطبات مسرور جلد 14 صفحہ 566۔خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 28؍اکتوبر 2016ء بمقام مسجد بیت الاسلام ، ٹورانٹو، کینیڈا)

ترش روئی وقف کے ساتھ پہلو بہ پہلو نہیں چل سکتی

“بچپن سے اُن کے اندر مزاج میں شگفتگی پیدا کرنی چاہیے۔ ترش روئی وقف کے ساتھ پہلو بہ پہلو نہیں چل سکتی۔ ترش رو واقفین زندگی ہمیشہ جماعت میں مسائل پیدا کیا کرتے ہیں اور بعض دفعہ خطرناک فتنے بھی پیدا کر دیا کرتے ہیں۔ اس لیے خوش مزاجی اور اس کے ساتھ تحمل یعنی کسی کی بات کو برداشت کرنا یہ صفت بھی واقفین بچوں میں بہت ضروری ہے۔ یعنی یہ دونوں صفات واقفین بچوں میں بہت ضروری ہیں۔”

(خطبات طاہر جلد 8 صفحہ 88۔ خطبہ جمعہ فرمودہ 10؍ فروری 1989ء بمقام بیت الفضل لندن)

(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button