سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

سیرت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام (قسط اول)

(مرزا طلحہ بشیر احمد۔ ربوہ)

کسی بھی شخص کی سیرت و سوانح بیان کرنے سے پہلے یہ لازمی امر ہے کہ پہلے یہ فیصلہ کیا جائے کہ اچھی سیرت کے انسان میں کیا کیا خوبیاں ضروری ہیں۔ اگراس سوال کو مذہبی بالخصوص اسلامی نقطہ نگاہ سے پرکھا جائے توایک اچھا شخص وہ شخص ہے جو حقوق اللہ اور حقوق العباد کے اعلیٰ معیار پر قائم ہو۔ سب سے پہلے تو ایسے شخص کا خدا تعالیٰ سے ایک پختہ تعلق ہونا چاہیے۔ یعنی یہ کہ وہ خدا تعالیٰ کی تمام صفات پر یقینِ کامل رکھتا ہو، اس کی توحید پر ایمان رکھتا ہو، آخری دن اور اس دنیا کا عارضی ٹھکانہ ہوناتسلیم کرتا ہو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کے کلام، تمام انبیاء، فرشتوں اور ہر ایک چیز جس کا علم خدا تعالیٰ کے انبیاء اور کلام کے ذریعہ ہمیں دیا گیا ہے پر ایمان رکھتا ہو۔ جیسے جیسے اس کا یہ یقین ترقی کرتا چلا جائے گا اسی طرح اس کویہ بھی یقین ہو جائے گاکہ اس کا حقیقی سہارا اس دنیا میں بھی اور اگلے جہان میں بھی صرف خدا تعالیٰ کی ذات ہے۔ پھر آہستہ آہستہ اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی محبت ترقی کرتی چلی جائے گی اورساتھ یہ خواہش بھی پیداہوگی کہ وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کو پورا کرنے والا بنے یہاں تک کہ ایک وقت آئے گاکہ اس کا اٹھنا بیٹھنا جینا مرنا صرف اور صرف خدا تعالیٰ کے لیے ہو جائے گا۔ تب جا کر وہ صحیح معنوں میں حقوق اللہ ادا کرنے کے اعلیٰ معیار پرقائم ہو جائے گا۔

اسی طرح اچھی سیرت کے لیے حقوق العباد کا ادا کرنا بھی ایک ضروری امر ہے۔ یعنی ایک انسان کو اچھا انسان ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ تمام بنی نوع انسان کے ساتھ اس کے تمام معاملات انصاف پر مبنی ہوں۔ وہ ہمیشہ حق پر قائم ہو اور تمام لوگوں کے حقوق ادا کرنے والا ہو۔ وہ اپنے اہل و عیال کے لیے بھی اچھا ہو، اپنے دوستوں، اپنے رشتہ داروں،اپنے ہمسایوں، اپنی قوم کے امراء غرباء، تمام کے ساتھ شفقت کرنے والا ہو یہاں تک کہ اس کے دشمن بھی اس سے ہمیشہ انصاف کی توقع کریں۔ اس میں نرمی پائی جاتی ہو، فیاضی پائی جاتی ہو، وہ چشم پوشی سے کام لینے والا ہو اور دشمنوں سے عفو کا سلوک کرنے والا ہو ۔ جیسے جیسے ایک انسان اپنے اندر بہتری پیدا کرتا ہے وہ حقوق العباد ادا کرنے کے مدارج میں ترقی کرتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کی تمام زندگی بنی نوع انسان کی خدمت کے لیے وقف ہو جاتی ہے۔ تب جا کر وہ حقوق العباد ادا کرنے کے بھی اعلیٰ درجہ پر فائز ہو جاتا ہے۔

پس کوئی بھی انسان جس کے دل میں یہ خواہش ہو کہ وہ اپنا مقصدِ پیدائش پورا کر سکے، وہ تمام زندگی حقوق اللہ اور حقوق العباد کو صحیح رنگ میں ادا کرنے کی جدو جہد میں مصروف رہتا ہے۔لیکن بعض وجود دنیا میں ایسے گزرے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے چنے جاتے ہیں اور نیکیوں میں اس قدر بڑھ جاتے ہیں کہ ان کی شخصیت اور ان کے اعلیٰ اخلاق کو الفاظ میں سمیٹا نہیں جا سکتا۔ ایسے وجود جن کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک خاص قبولیت و عظمت حاصل ہوتی ہے اور وہ رہتی دنیا کے لیے ایک مثال بن جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک پاک وجود ہندوستان کی سرزمین پر ایک چھوٹے سے قصبہ میں پیدا ہوا جن کا نام مرزا غلام احمد (علیہ السلام ) رکھا گیا۔ آپ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسیح موعود اور مہدی موعود ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔آپؑ کا وجود اللہ تعالیٰ کی محبت میں اس قدر لبریز اور آنحضرت ﷺ کے نقشِ پا پرایسا قدم مارنے والا تھا کہ اللہ تعالیٰ کے وعدےکے موافق نبوت کا انعام پاگیا۔

آپ علیہ السلام ایک نہایت ہی نیک، متقی اور بہترین اخلاق کے انسان تھے۔ آپؑ کی ذات میں اس قدر کشش تھی کہ ہر شخص، جس کا بھی آپؑ سے واسطہ پڑا محسوس کرتا تھا کہ آپؑ ایک اعلیٰ ترین انسان ہیں۔ ہر شخص چاہے وہ آپؑ کے اہل و عیال میں شامل ہو یا غیروں میں شامل ہو، آپؑ کے دوستوں میں شامل ہو یا دشمنوں میں شامل ہو، آپؑ کی نیکی کا قائل ہو جایا کرتا تھا۔آپؑ ہرنیکی کے حریص اور ہر برائی سے دور تھے۔ آپؑ کی صحبت کا اثر ایسا گہرا تھا کہ آپؑ کو دیکھ کر ہر ایک کادل نیکی کی طرف مائل ہوجاتاتھا۔ آپؑ نے حقوق اللہ اور حقوق العباد کے اعلیٰ ترین معیار قائم کیے۔آپؑ نے خدا تعالیٰ کی طرف سے دیے گئے اپنے مشن کو انتہائی دیانت داری، محنت اور شجاعت سے پوراکیا۔ آپؑ کا ہرقول و فعل خدا کی رضا کے لیے تھا اورآپؑ کی تمام زندگی بنی نوع انسان کی بہتری کے لیے تھی۔ غرض یہ کہ آپؑ تمام دنیا والوں کے لیے خدا تعالیٰ کی طرف سے آنحضرتﷺ کی غلامی میں ایک رحمت کے نشان کے طور پر بھیجے گئے اورآپؑ کی زندگی کا ہر لمحہ اس بات کا ثبوت پیش کرتا ہے۔آپؑ کے بیٹے حضرت مرزا بشیر احمدصاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپؑ کی سیرت کا ذکر کرتے ہوئے یوں لکھتے ہیں: ‘‘حضرت مسیح موعودؑ کا وجود ایک مجسم رحمت تھا۔ وہ رحمت تھا اسلام کے لیے اور رحمت تھا اس پیغام کے لیے جسے لے کر وہ خود آیا تھا۔ وہ رحمت تھا اس بستی کے لیے جس میں وہ پیدا ہوا اور رحمت تھا دنیا کے لیے جس کی طرف وہ مبعوث کیا گیا۔ وہ رحمت تھا اپنے اہل وعیال کے لیے اور رحمت تھا اپنے خاندان کے لیے ۔ وہ رحمت تھا اپنے دوستوں کے لیے اور رحمت تھا اپنے دشمنوں کے لیے ۔ اس نے رحمت کے بیج کو چاروں طرف بکھیرا۔ اوپر بھی اور نیچے بھی ۔ آگے بھی اور پیچھے بھی۔ دائیں بھی اور بائیں بھی ۔مگر بدقسمت ہے وہ جس پر یہ بیج تو آکر گرا مگر اس نے ایک بنجر زمین کی طرح اسے قبول کرنے سے اور اگانے سے انکار کر دیا۔’’ (سلسلہ احمدیہ جلد اول صفحہ 212)

آپ علیہ السلام میں جہاں انتہا کی نیکی ا ور روحانیت پائی جاتی تھی ، وہاں اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو ظاہری خوبصورتی سے بھی بے حد نوازاتھا۔ آپ علیہ السلام کا چہرہ مبارک بھی آپؑ کی خوبصورت شخصیت کی طرح مردانہ حسن کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھا۔ آپؑ کا رنگ گندمی تھا اور آپؑ کے چہرے پر ایک عجیب قسم کا رعب تھا۔ آنکھیں ہمیشہ نیچی رہتی تھیں۔ چہرے کی جلد نرم تھی اور آپؑ کے چہرہ سے آپؑ کے دل کے جذبات واضح ہوجایا کرتے تھے۔ آپؑ کے بال بہت ملائم اور سیدھے تھے۔ جسم کچھ ہلکا تھا مگر آخری عمر میں کچھ بھاری ہوگیا تھا۔ قد آپؑ کا درمیانہ تھا۔ آپؑ کے چہرہ پر اس قدر نور برستا تھا کہ غیر بھی اس کی شہادت دینے سے رہ نہ سکے۔ چنانچہ مکرم ولیم ایم ڈگلس صاحب جو آپؑ علیہ السلام کے ایک مقدمہ کے جج بھی رہے ، حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اپنی پہلی ملاقات کا تبصرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ‘‘نگاہیں نیچی۔بے حد نورانی چہرہ ۔ اس کے چہرے میں ایک ایسی کشش تھی کہ میرا دل اور دماغ ہل کر رہ گئے۔ لگتا تھا کہ اسے دنیا سے کوئی رغبت ہی نہیں اور وہ آہستہ آہستہ چلا آرہا تھا۔ میرے لیے یہ ممکن ہی نہ رہا کہ اس کے اتنے نورانی چہرہ سے اپنی نگاہیں اٹھا سکوں’’(مطبوعہ الفضل 18 مئی 2009ء)۔ جہاں غیروں کی یہ شہادت تھی وہاں اپنوں کی کیا حالت ہوگی۔ چنانچہ آپ علیہ السلام کے ایک صحابی حضرت منشی اروڑاخاں صاحب رضی اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں فرمایا کہ آپ علیہ السلام سے زیادہ سچا اورزیادہ دیانت دار اور خدا پرزیادہ ایمان رکھنے والا شخص میں نے نہیں دیکھا ۔ انہیں دیکھ کر کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ یہ شخص جھوٹا ہے۔ باقی میں تو ان کے منہ کا بھوکا تھا۔ (اصحاب احمد جلد چہارم صفحہ 94)

لباس آپؑ سادہ پہنا کرتے تھے،سر پر پگڑی باندھتے تھے اور ہاتھ میں عصا رکھنے کی عادت تھی۔ جوتا دیسی پہنا کرتے تھے۔ کھانا بھی سادہ کھایا کر تے تھے۔ جو مل جاتا وہ کھالیتے مگر بعض مرتبہ اپنی پسند کی چیزیں بھی بنوا کر یا منگوا کر استعمال کی ہیں۔ لیکن عموماً ہر معاملے میں سادگی اختیار کی ہے جیسا کہ آپؑ کے بیٹے حضرت مرزا سلطان احمد کی گواہی ثابت کرتی ہے۔آپؑ فرماتے ہیں کہ والد صاحب نے اپنی عمر ایک مغل کے طور پر نہیں گزاری بلکہ فقیرکے طور پر گزاری (سیرت المہدی جلد اول صفحہ 200)۔ آپؑ خود بھی یہ ہی فرمایا کرتے تھے کہ مجھے وہ لوگ جو دنیا میں سادگی سے زندگی بسر کرتے ہیں بہت ہی پیارے لگتے ہیں(سیرت المہدی جلد اول صفحہ 240)۔

اللہ تعالیٰ سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو بے حد عشق تھا۔ سوتے ہوئے بھی آپ علیہ السلام کی یہ ہی کیفیت ہوتی تھی کہ تھوڑے تھوڑے عرصہ کے بعد آپؑ جاگ اٹھتے اور لبوں پر سبحان اللہ کے الفاظ ہوتے تھے(سیرت المہدی جلد اول صفحہ 287)۔ جب آپؑ کی وفات کا وقت قریب آپہنچا تو تب بھی آپؑ کی زبانِ مبارک سے جو کلمات نکلے وہ ‘‘اللہ میرے پیارے اللہ’’ ہی کے الفاظ تھے(سلسلہ احمدیہ جلد اول صفحہ 177)۔ اور آپؑ کی کیفیت اس قدر اطمینان کی تھی جیسے ایک لمبے سفر کے بعد ایک مسافر اپنی منزل کو دیکھ لے۔ لیکن اس سے بھی زیادہ اگر کسی بات سے آپؑ کی اللہ تعالیٰ سے محبت کا اندازہ لگایا جاسکتاہے تو وہ تنہائی میں لکھے نوٹ بک کے ایک صفحے پر آپ علیہ السلام کے وہ الفاظ ہیں جو آپؑ کی وفات کے بعد حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ملے۔ اس نوٹ کا ہر ایک لفظ اس محبت کو جو آپؑ کے دل میں اللہ تعالیٰ کے لیے تھی کھول کھول کر بیان کر رہا ہے۔ یہ تنہائی کے ان لمحات میں لکھے الفاظ ہیں کہ جب ایک بندہ اپنے رب کے ساتھ اکیلے میں باتیں کرتا ہے، جب اس کو معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت اس کے اور اس کے رب کے ساتھ اور تیسرا کوئی نہیں تو وہ اپنے الفاظ میں اس طاقت کو تلاش کرتا ہے کہ ان میں اس محبت کوبیان کیاجاسکے جو اس کے دل کی گہرائیوں میں بستی ہے۔ اس کو یہ بھی علم ہوتا ہے کہ میرے دل کی حالت کا میرے رب سے زیادہ کون جانتا ہے؟ مگر پھر بھی وہ یہ کوشش کرتا ہے کہ وہ کسی طرح اس محبت کو الفاظ کی شکل دے کر خود بھی اپنی اس کیفیت کو سمجھنے کی کوشش کرے۔ ایسے ہی کسی وقت میں لکھے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے یہ الفاظ پکار پکارکر بیان کر تے ہیں کہ آپؑ کو اللہ تعالیٰ سے کس قدر عشق تھا۔ چنانچہ آپؑ نے اپنے اس نوٹ میں لکھا ہے کہ ‘‘او میرے مولیٰ ! میرے پیارے مالک! میرے محبوب ! میرے معشوق خدا! دنیا کہتی ہے تو کافر ہے۔ مگر کیا تجھ سے پیارا مجھےکوئی اور مل سکتا ہے۔ اگر ہو تو اس کی خاطر تجھے چھوڑ دوں۔ لیکن میں تو دیکھتا ہوں کہ جب لوگ دنیا سے غافل ہو جاتے ہیں ۔ جب میرے دوستوں اور دشمنوں کو علم تک نہیں ہوتا کہ میں کس حال میں ہوں اس وقت تو مجھے جگاتا ہے اور محبت سے پیار سے فرماتا ہے کہ غم نہ کھا۔میں تیرے ساتھ ہوں۔ تو پھر اے میرے مولیٰ یہ کس طرح ممکن ہے کہ اس احسان کے ہوتے پھر میں تجھے چھوڑدوں۔ہر گز نہیں ہر گز نہیں’’۔ (انوار العلوم جلد ۱ صفحہ 375،376)
آپؑ کی یہ محبت آپؑ کی روزمرہ زندگی میں بھی بڑی واضح طور پر نظر آتی تھی اور آپؑ اکثر وقت عبادت الٰہی میں مصروف رہتے۔ آپؑ فرائض نماز کی باقاعدہ ادائیگی کے ساتھ ساتھ چاشت، اشراق اور تہجد میں بھی مداومت اختیار کرتے۔ روزے سوائے بیماری یا سفر کے آپ نے باقاعدگی سے رکھے ہیں۔ روزوں کا اتنا شوق رکھتے تھے کہ ایک مرتبہ آپؑ نے تسلسل کے ساتھ چھ ماہ روزے رکھے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے کلام یعنی قرآن شریف سے بھی آپ کو انتہا درجہ کا عشق تھا اور بچپن سے لے کر وفات تک سینکڑوں گواہیاں موجود ہیں کہ آپؑ کثرت سے قرآن شریف کی تلاوت کیا کرتے تھے۔حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ سے روایت ہے کہ ‘‘ایک صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام پالکی میں بیٹھ کے قادیان سے بٹالہ تشریف لے جارہے تھے (اور یہ سفر پالکی کے ذریعہ قریباً پانچ گھنٹے کا تھا) حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے قادیان سے نکلتے ہی اپنی حمائل شریف کھول لی اور سورۂ فاتحہ کو پڑھنا شروع کیا اور برابر پانچ گھنٹے تک اسی سورہ کو اس استغراق کے ساتھ پڑھتے رہے کہ گویا وہ ایک وسیع سمندر ہے جس کی گہرائیوں میں آپ اپنے ازلی محبوب کی محبت و رحمت کے موتیوں کی تلاش میں غوطے لگا رہے ہیں۔(سیرت طیبہ صفحہ نمبر 16)

اللہ تعالیٰ کے بعد آپ علیہ السلام نے سب سے زیادہ محبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے کی ہے اور ایسی محبت کی ہے کہ دنیا میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔ آپؑ ایک ایسے سچے عاشق تھے کہ اپنے آقا کی محبت میں محو ہوچکے تھے اور پھر اس عشق کے آگے آپؑ نے کسی انسان کی پروا نہیں کی ۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی اس محبت کے نتیجہ میں اپنے آپ کو اپنے محبوب کے رنگ میں اس قدر رنگ لیا تھا کہ پھر آپؑ کا ہر قول و فعل اپنے آقا کے نقشِ قدم پر تھا۔ آپؑ کی اس محبت کو ہر ایک نے محسوس کیا ۔ حضرت مرزا سلطان احمدصاحب فرماتے ہیں کہ ‘‘حضرت صاحب ( حضور صلی اللہ علیہ وسلم) سے توبس والد صاحبؑ کو عشق تھا۔ ایسا عشق میں نے کبھی کسی شخص میں نہیں دیکھا ’’۔ (سیرت المہدی جلد اول صفحہ 201) آپؑ کی یہ محبت آپ کی نظموں میں بھی نظر آئی اور آپؑ نے اس کے ذریعہ بار بار اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ آپؑ کے دل کا واحد مقصد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو پھیلانا ہے۔ آپؑ نے اپنی زندگی میں بہت کچھ برداشت کیا لیکن آپؑ کے سامنے اگرکوئی شخص آپؑ کے آقا ؐیعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کر بیٹھتا تو وہ آپؑ سے برداشت نہ ہوتا ۔ آپؑ کو اس قسم کی باتوں سے بہت تکلیف ہوتی اور غصہ آجاتا یہاں تک کہ آپؑ کا چہرہ مبارک سرخ ہوجایا کرتا اورایسی محفل سے فوراً اٹھ جایا کرتے ۔ دشمن نے جب بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی تو آپؑ نے اپنا فرض سمجھتے ہوئے اس کا مقابلہ کیا ۔ایسے وقت میں آپؑ کی حالت ایسے سپاہی کی طرح ہو جاتی تھی جو جنگ میں کھڑا اپنے سب سے بڑے دشمن کو سامنے پاتا ہے۔ تب آپؑ خدا تعالیٰ کے شیر کی طرح دشمن کی طرف لپکتے اور قاطع دلائل کے ذریعہ ہر ایک وارکا مقابلہ کرتے۔ یہ وہ عشق تھا جو حضور علیہ السلام کی رگ رگ میں پایا جاتا تھا۔
آپؑ کے اس عشق کا یہ عالم تھا کہ آنحضرتﷺ کےذرا سے ذکر سے بھی آپؑ کے چہرے پر وہ محبت نمایا ں ہو کر سامنے آجاتی تھی جو آپؑ کے دل کے کونے کونے میں بستی تھی۔ ایک مرتبہ آپ علیہ السلام کی طبیعت کچھ ناساز تھی اور آپؑ گھر میں چار پائی پر لیٹے ہوئے تھے کہ حضرت میر ناصر نواب صاحب رضی اللہ تعالیٰ نے حج کا ذکر کیا اور فرمانے لگے کہ اب تو حج کے لیے سفر اور رستے وغیرہ کی سہولت پیدا ہورہی ہے اس لیے حج کے لیے جانا چاہیے تو اس وقت آنحضرتﷺ کےمزار مبارک کی زیارت کے تصور میں حضور علیہ السلام کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور آپؑ اپنے مبارک ہاتھوں کی انگلیوں سے اپنے آنسو پونچھتے جاتے اور فرمانے لگے ‘‘یہ تو ٹھیک ہے اور ہماری بھی دلی خواہش ہے مگر میں سوچا کرتا ہوں کہ کیا میں آنحضرتﷺ کے مزار کو دیکھ بھی سکوں گا؟ (سیرت طیبہ صفحہ نمبر 35) حضرت مرزا بشیر احمدصاحب رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ بظاہر یہ چھوٹی سی بات معلوم ہوتی ہے مگر اگر غور کیا جائے تو اس میں اس اتھاہ سمندر کی طغیانی لہریں کھیلتی ہوئی نظر آتی ہیں جو عشق رسولﷺ کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے قلب صافی میں موجزن تھیں۔ حج کی کس سچے مسلمان کو خواہش نہیں مگر ذرا اْس شخص کی بے پایاں محبت کا اندازہ لگاؤ جس کی روح حج کے تصور میں پروانہ وار رسول پاکﷺ کے مزار پر پہنچ جاتی ہے اور وہاں اس کی آنکھیں اس نظارہ کی تاب نہ لا کر بند ہونی شروع ہو جاتی ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو جہاں خدا اور اس کے رسول سے بے حد عشق تھا، وہاں آپ ؑکو اس بات پر بھی مکمل یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو مسیح اور مہدی بنایا ہے۔ آپ علیہ السلام کو اپنے آپ سے کیے خدا تعالیٰ کے تمام وعدوں پر بھی پورا یقین تھا اور آپؑ یہ ایمان رکھتے تھے کہ چاہے جو کچھ بھی ہو جائے خدا تعالیٰ کی بات نہیں ٹل سکتی۔ اس بات کا جہاں اپنے اعتراف کرتے تھے وہاں غیر بھی انکار نہ کر پاتے۔ چنانچہ ہندوستان کے ایک انگریزی اخبار ‘‘پائنیر’’ نے آپؑ کی وفات کے وقت آپؑ کے بارہ میں لکھا کہ ‘‘مرزا صاحب کو اپنے دعویٰ کے متعلق کبھی کوئی شک نہیں ہوا۔ اور وہ کامل صداقت اور خلوص سے اس بات کا یقین رکھتے تھے کہ ان پر کلام الٰہی نازل ہو تا ہے اور یہ کہ ان کو ایک خارق عادت طاقت بخشی گئی ہے’’ (سیرت المہدی جلد اول صفحہ 255)۔ یہی وجہ تھی کہ آپ علیہ السلام نے اپنے اس مشن کو پورا کرنے کے لیے جس کے لیے خدا تعالیٰ نے آپ کو مبعوث کیا تھا اپنے دن رات وقف رکھے۔ آپؑ نے انتھک محنت کرتے ہوئے اپنا سارا کا سارا وقت خدمت دین کے کاموں میں صرف کیا ہے ۔ کام میں اتنے مصروف رہتے تھے کہ بعض دفعہ کھانا پینا بھی بھول جایا کرتے یہاں تک کہ کوئی شخص آکر یاد کراتا تو پھر آپؑ کھانا تناول فرماتے ۔ آپؑ نے مختصر سے وقت میں 80سے زائدکتابیں لکھی ہیں، سینکڑوں اشتہار چھاپے ہیں اور لاکھوں خطوط لکھے ہیں اوراپنا کوئی وقت بھی ضائع نہیں ہونے دیا۔ آپؑ نے بہت سے مباحثے بھی کیے، بہت سی تقاریر بھی کیں۔ ہزاروں لوگ آپؑ سے ملنے آیا کرتے اور آپؑ کے مہمان بنتے ، جہاں آپؑ نے ان کے ساتھ بہترین سلوک کرتے ہوئے مہمان نوازی کے اعلیٰ معیار قائم کیے وہاں ہمیشہ اپنے مشن کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی تعلیم و تربیت کا بھی مکمل خیال رکھا۔ آپ نے ہر ایک کو دلائل کے ذریعہ سے قائل کرنے کی کوشش کی ہے یہاں تک کہ اپنے گھر والوں کو بھی۔ آپ علیہ السلام خود اپنے مشن اور الہامات پر یقین کی انتہا کے بارہ میں فرمایا کرتے تھے کہ مجھےان کے متعلق ایسا ہی یقین ہے جیسا کہ دنیا کی کسی چیز کے متعلق زیادہ سے زیادہ یقین ہوسکتا ہے۔(سلسلہ احمدیہ جلداول صفحہ188)

حضور علیہ السلام نے جہاں حقوق اللہ کا خیال رکھا ہے وہاں حقوق العباد کو بھی مکمل طور پر ادا کیا ہے۔ آپؑ نے زندگی میں ہر ایک کے ساتھ پیار کا سلوک کیا ہے اور اگر کسی چیز سے نفرت کی ہے تو وہ صرف گناہ ہے ، کبھی کسی گناہگار سے نہیں کی جیسا کہ آپ علیہ السلام نے خود ایک مرتبہ فرمایا: ‘‘دنیا میں کوئی میرا دشمن نہیں ہے۔ میں بنی نوع سے ایسی محبت کرتا ہوں کہ جیسے والدہ مہربان اپنے بچوں سے بلکہ اس سے بڑھ کر ۔ میں صرف ان باطل عقائد کا دشمن ہوں جن سے سچائی کا خون ہوتا ہے۔ انسان کی ہمدردی میرا فرض ہے اور جھوٹ اور شرک اور ظلم اور ہر ایک بد عملی اور نا انصافی اور بد اخلاقی سے بیزاری میرا اصول ’’
(روحانی خزائن جلد 17 صفحہ344)

…………(باقی آئندہ )

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button