حضرت مصلح موعود ؓسیرت النبی ﷺ

سیرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم (قسط نمبر 2)

(حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)

باب دوم

عادات:

آپ ﷺ کا حُلیہ،لباس اور کھانے پینے کا طریقہ لکھنے کے بعد مناسب سمجھتا ہوں کہ اب کچھ آپؐ کی بعض عا دات پر بھی لکھا جاوے۔ہر انسان کچھ نہ کچھ عادات کے ماتحت کام کر تا ہے۔ہاں بعض تو نیک عاد ات کے عادی ہو تے ہیں اور بعض بد کے۔ شریر اپنی شرارت کی عادتوں میں مبتلا ہو تا ہے تو شریف نیک عا دات کا عادی۔

ہمارے آنحضرت ﷺ کی ایک دو عادات جو میں اس جگہ بیان کر تا ہوں ان سے معلوم ہو گا کہ آپؐ کس قدر یُمن ونیکی کی طرف متوجہ تھے اور کس طرح ہر معاملہ میں میانہ روی اختیار فر ما تے تھے۔

ہنسی کا طریق:

آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے انسان کامل بنایا تھا۔تمام نیک جذبات آپؐ میں پائے جا تے تھے اور ہر خوبی کو اپنے موقع اور محل پر استعمال فرماتے اور ایسا طریق اختیار کر تے جس سے اللہ تعالیٰ کا کو ئی خلق ضائع نہ ہو جا ئے۔بعض بناوٹی صوفیاء کا قاعدہ ہو تا ہے کہ وہ کچھ ایسے تکلفات اور مشقوں میں اپنے آپ کو ڈال لیتے ہیں کہ جس کی وجہ سے انہیں کئی پاک جذبات اور کئی طیبات کو تر ک کر نا پڑتا ہے۔بعض کھانے میں خاک ملا لیتے ہیں۔بعض گندی ہوجا نے اور سڑ جا نے کے بعد غذا استعمال کر تے ہیں۔بعض سارا دن سر ڈالے بیٹھے رہتے ہیں اور ایسی شکل بناتے ہیں کہ گو یا کسی ماتم کی خبر سن کر بیٹھے ہیںاور ہنسنا تو در کنار بشاشت کا اظہار بھی حرام سمجھتے ہیں۔لیکن ہمارا سردار ﷺ جسے خدا نے انسانوں کا رہنما بنایا تھا وہ ایسا کا مل تھا کہ کسی پا ک جذبہ کوضا ئع ہو نے نہ دیتا ۔ہنسی کے موقع پر ہنستا۔ رونے کے موقع پر روتا،خاموشی کے موقع پر خاموش رہتا اور بو لنے کے موقع پر بو لتا،غرض کو ئی صفت اللہ تعالیٰ نے پیدا نہیں کی کہ جسے اس نے ضائع ہو نے دیا ہو اور اپنے عمل سے اس نےثا بت کر دیا کہ وہ خدا کی خدا ئی کو مٹا نے نہیں بلکہ قا ئم کرنے آیا ہےاور یہی اس کی ادا ہےجو ہر طبیعت اور مذاق کے آدمی کو موہ لیتی ہے اور کچھ ایسی کشش رکھتی ہے کہ بے اختیار دل اس پر قربان ہو تا ہے حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپؐ ہنستے تھے لیکن اعتدال سےاور ہنسی کے وقت آپؐ کی طبیعت پر سے قابو نہ اٹھتا بلکہ ہنسی طبعی حالت پر رہتی چنانچہ فرماتی ہیں کہ مَارَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ضَاحِکًا حَتّٰی اَرٰی مِنْہُ لَھَوَ اتِہٖ اِنَّمَا کَانَ یَتَبَسَّمُ(کتاب الادب باب التبسم والنّحک)یعنی میں نے رسول ﷺ کو اس طرح گلا پھاڑ کر ہنستے نہیں دیکھا کہ آپ کے حلق کا کوا نظر آنے لگ جائے بلکہ آپؐ صرف تبسم فر ما تے تھے یعنی آپؐ کی ہنسی ہمیشہ ایسی ہوتی تھی کہ منہ نہ کھلتا تھا اور آپؐ افراط وتفریط دونوں سے محفوظ تھے۔نہ تو ہنسی سے بکلی اجتناب تھااور نہ قہقہہ مار کر ہنستے کہ جس میں کئی قسم کے نقص ہیں۔آجکل تو میں دیکھتا ہوں کہ مسلمان امراء میں یہ رواج ہو گیا ہے کہ وہ اس زور سے قہقہہ مارتے ہیں کہ دوسرا سمجھے کہ شا ید چھت اڑ جا ئے گی اور اس طرح وہ آجکل کے پیر زادوں کی ضد ہیں۔

دا ئیں جا نب کا لحاظ:

آنحضرت ﷺ(فداہ نفسی)کی یہ بھی عادت تھی کہ آپؐ ہمیشہ دا ئیں طرف کا لحاظ رکھتے۔کھانا کھاتے تو دائیں ہاتھ سے۔ لباس پہنتے تو پہلے دا یاں ہا تھ یا دا یاں پاؤں ڈالتے۔جو تی پہنتے تو پہلے دایاں پاؤں پہنتے۔غسل میں پا نی ڈالتے تو پہلے دا ئیں جانب ۔ غرض کہ ہر ایک کام میںدائیں جا نب کو پسند فرماتے۔حتٰی کہ جب آپؐ کو ئی چیز مجلس میں بانٹنی چاہتے تو پہلے دا ئیں جا نب سے شروع فرماتے۔ اور اگر اس قدر ہو تی کہ صرف ایک آدمی کی کفایت کرتی تو اسے دیتے جو دا ئیں جانب بیٹھا ہو تا۔اور اس بات کا اتنا لحاظ تھا کہ حضرت انسؓ فر ما تے ہیں کہ حَلَبْتُ لِرَسُولِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ شَاۃَ داجِنٍ فِیْ دَارِیْ وَ شِیْبَ لَبَنُھَا بِمَاءٍ مِنَ الْبِٔرِ الَّتِیْ فِی دَارِیْ فَاُ عْطِیَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلْقَدَحَ فَشَرِبَ مِنْہُ حَتّٰی اِذَا نَزَعَ الْقَدَحَ مِنْ فِیْہِ وَعَلیٰ یَسَارِہٖ اَبُوْ بَکْرٍ وَعَنْ یَمِیْنِہٖ اَعْرَابِیٌّ فَقَالَ عُمَرُ وَخَافَ اَنْ یُّعْطِیَہُ اَلْاَعْرَابِیَّ اَعْطِ اَبَا بَکْرٍیَارَسُوْلَ اللہِ عِنْدَکَ فَاَعْطَاہُ الْاَعْرَابِیَّ الَّذِیْ عَلیٰ یَمِیْنِہٖ ثُمَّ قَالَ اَلْاَیْمَنُ فَالْاَیْمَنُ(تجرید بخاری باب فی الشرب) یعنی میں نے رسول اللہﷺ کے لیے ایک بکری کا جو گھر میں رہتی تھی دودھ دوہا اور اس کے بعد دودھ میں اس کنو یں سے پا نی ملا یا جو میرے گھر میں تھا۔پھر رسول اللہ ﷺ کو وہ پیالہ دیا گیا۔اس وقت آپؐ کے بائیں جا نب حضرت ابوبکرؓ اور دائیں جانب ایک اعرا بی تھا آپؐ نے اس میں سے کچھ پیا۔پھر جب پیالہ منہ سے ہٹایا تو حضرت عمرؓ نے اس خوف سے کہ کہیں اس اعرابی کو جو آپؐ کے دائیں جانب بیٹھا تھا نہ دے دیں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ ابوبکرؓ آپ کے پاس بیٹھے ہیں انہیں دے دیجیے گا۔لیکن آپ ؐ نے اس اعرا بی کو جو آپؐ کےدا ئیں جا نب بیٹھا تھا وہ پیالہ دیا اور فر مایا کہ دایاں دایاں ہی ہے۔اس حدیث سے معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ دائیں جا نب کا کتنا لحاظ رکھتے تھے جو آپؐ کی پا ک فطرت پر دلالت کر تا ہے کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ فطرت انسانی میں دائیں کو با ئیں پر ترجیح دینا رکھا ہے اور اکثر ممالک کے با شندے باوجود آپس میں کو ئی تعلق نہ رکھنے کےاس معاملہ میں متحد ہیں اور د ائیں کو با ئیں پر ترجیح دیتے ہیں۔اور چونکہ آنحضرت ﷺ کی فطرت نہایت پا ک تھی اس لیے آپؐ نے اس بات کی بہت احتیاط رکھی ۔ایک اَور حدیث بھی آپؐ کی اس عادت پر روشنی ڈالتی ہے۔سہل ابن سعدؓ فرماتے ہیں کہ اُ تِیَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ بِقَدَحٍ فَشَرِبَ مِنْہُ وَعَنْ یَمِیْنِہٖ غُلَامٌ اَصْغَرُ الْقَوْمِ وَالْاَ شْیَاخُ عَنْ یَسَارِہٖ فَقَالَ یَا غُلَا مُ اَتَأذُنُ لِیْ اَنْ اُعْطِیَہُ اَلْاَشْیَاخَ قَالَ مَاکُنْتُ لِاُوْثِرَ بِفَضْلِیْ مِنْکَ اَحَداً یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ(صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْکَ وَسلَّمَ)فَاَ عْطَاہُ اِیَّاہُ۔ (بخاری کتاب المساقاۃ باب فی الشرب) آنحضرت ﷺ کے پاس ایک پیالہ لا یا گیا جس میں سے آپؐ نے کچھ پیا۔اس وقت آپؐ کے دائیں جا نب ایک نوجوان بیٹھا تھا جو سب حاضرین مجلس میں سے صغیرالسن تھا اور آپؐ کے با ئیں طرف بو ڑھے سردار بیٹھے تھے۔پس آپؐ نے اس نوجوان ے پو چھا کہ اے نوجوان کیا تو مجھے اجازت دیتا ہے کہ میں یہ پیا لہ بوڑھوں کو دوں۔اس نوجوان نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ !میں آپؐ کے تبرک کے معاملہ میں کسی اور کے لیے اپنا حق نہیں چھوڑ سکتا۔اس پر آپ ؐ نے وہ پیالہ اسی کو دے دیا۔اس حدیث سے معلوم ہو تا ہے کہ آپؐ دائیں طرف کا ایسا لحاظ رکھتے کہ با ئیں طرف کے بوڑھوں کو پیالہ دینے کے لیے آپؐ نے اول اس نوجوان سے اجازت طلب فرما ئی اور اس کے انکارپر اس کے حق کو تسلیم کیا۔

ہر معاملہ میں خدا کا ذکر لا تے:

آپؐ کو خدا تعالیٰ سے کچھ ایسی محبت اور پیار تھا کہ کو ئی معاملہ ہو اس میں خدا تعالیٰ کا ذکر ضرور کر تے۔اٹھتے بیٹھتے،سو تے جاگتے،کھاتے پیتے،غرض کہ ہر موقع پر خدا کا نام ضرورلیتےجس کا ذکر انشاء اللہ تعالیٰ آگے چل کر کیا جا ئے گا۔یہاں صرف اس قدر لکھنا ہے کہ یہ بات بھی آپؐ کی عادات میں داخل تھی کہ سونے سے پہلے دونوں ہا تھوں کو ملا کر دعا فرما تے پھر سب بدن پر ہا تھ پھیر لیتے چنانچہ حضرت عائشہ ؓ فر ما تی ہیں کہ کَانَ اِذَااٰوٰی اِلیٰ فِرَاشِہٖ کُلَّ لَیلَۃٍ جَمَعَ کَفَّیْہِ ثُمَّ نَفَثَ فِیْھِمَا فَقَرَ أَ فِیْھِمَا قُلْ ھُوَااللہُ اَحَدٌ وَقُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ وَقُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ ثُمَّ یَمْسَحُ بِھِمَا مَااسْتَطَاعَ مِنْ جسدہ یبدَأُ بِھما عَلٰی رَأْسِہٖ وَوَجْھَہٖ وَمَا اَقْبَل مِنْ جسدِہ یفعلُ ذٰلک ثلاثَ مَرَّاتٍ(بخاری کتاب التفسیر باب فضل المعوّذات) یعنی آپؐ ہر شب جب اپنے بستر پر جا تے دونوں ہاتھوں کی ہتھیلیاں ملاتے پھر ان میں پھونکتے اورقُلْ ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ۔ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ۔ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ پڑھتے۔پھر جہاں تک ہوسکتا اپنے بدن پر ہا تھ ملتے اور ابتدا سر اور منہ اور جسم کے اگلے حصہ سے فرماتے اور تین دفعہ ایسا ہی کر تے ۔ذرا ان تین سورتوں کو با ترجمہ پڑھو اور پھر سوچو کہ رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی عظمت اور غنیٰ پر کتنا ایمان تھا۔کس طرح وہ اللہ تعالیٰ کی پناہ کے بغیر اپنی زندگی خطرہ میں سمجھتے تھے۔

………………………………(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button