الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

…………………………………………………

ماسٹر محمد یاسین(درویش قادیان)

ماہنامہ ‘‘النور’’ امریکہ نومبر و دسمبر 2012ء میں شاملِ اشاعت ایک مضمون میں مکرمہ خولہ ہمایوںصاحبہ اپنے والد مکرم کیپٹن مرزا محمد سلیم صاحب کے بیان کردہ ایسے ایمان افروز واقعات تحریر کرتی ہیں جن کا تعلق آپ کے دادا محترم ماسٹر محمد یاسین صاحب (درویش قادیان)کی سیرت و سوانح سے ہے۔ قبل ازیں محترم ماسٹر صاحب کا ذکرخیر اور چند اعجازی واقعات ‘‘الفضل ڈائجسٹ’’ (الفضل انٹرنیشنل31؍اگست 2007ء ) کی زینت بن چکے ہیں۔

محترم ماسٹر محمد یاسین صاحب سکول ٹیچر تھے۔ جب سبّی (بلوچستان) میں آپ کا تبادلہ ہوا تو وہاں کے ایک احمدی نے مستقل رہائش کا انتظام ہونے تک اپنے گھر میں ایک کمرہ رہائش کے لیے آپ کو دے دیا۔ ایک دن اُس دوست نے آپ سے کہا کہ فلاں پلاٹ میرا ہے اور مَیں نے وہاں مکان بنانے کے لیے ایک ٹھیکیدار کو بلایا ہے۔ آپ وہاں چلے جائیں اور نگرانی کریں کہ نشانات ٹھیک جگہ پر لگاکر کھدائی کی جائے۔ چنانچہ ماسٹر صاحب وہاں چلے گئے۔ جب چُونے سے نشانات لگائے جا رہے تھے تو ہمسایہ بھی آگیا اور پوچھنے لگا کہ یہ کس کا پلاٹ ہے؟ آپ نے بتایا تو کہنے لگا وہ تو قادیانی کافر ہے اس لیے اُس کی دیوار ہمارے گھر کو touchنہ کرے ورنہ ہمارا گھرپلید ہو جائے گا۔ اس پر مجبوراً کام روکنا پڑا۔شام کو آپ نے ساری کہانی اُس احمدی دوست کو سنا دی۔ اُس رات ان دونوں احمدیوں نے باجماعت تہجد پڑھی اور دعا کی۔ فجر کی اذان ہوئی تو دروازہ پر دستک ہوئی۔ دیکھا تو وہی ہمسایہ پریشانی کے عالم میں کھڑا تھا۔ کہنے لگا کہ میرے گھر کی وہ دیوار جو آپ کے پلاٹ کی طرف ہے، یکلخت پھٹ گئی ہے اور بنیاد سے شروع ہوکر دوسری منزل تک دیوار میں تقریباً 6 انچ کا فاصلہ بڑھ گیا ہے۔ کسی وقت بھی میرا مکان گر سکتا ہے آپ فوری طور پر اُس کے ساتھ اپنی دیوار بنالیں تاکہ میرا گھر بھی گرنے سے بچ جائے ۔

محترم ماسٹر صاحب کو ایک بار ایک خطرناک پھوڑا نکل آیا۔ فسچولا (Fistula) نامی یہ انتہائی خطرناک پھوڑا اکثر جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ تکلیف بھی بہت تھی۔ اس حالت میں ایک فرشتہ آیا اور اُس نے بتایاکہ میں آپ کی جان نکالنے آیا ہوں۔ آپ نے اُسے بتایا کہ میرے بچے چھوٹے چھوٹے ہیں اور اگر ممکن ہو تو مجھے کچھ مہلت دی جائے۔ اُس نے پوچھا کہ کیا آپ نے جماعت کی کوئی خدمت کی ہے۔ آپ نے کہا کہ میں 36 سال سے سیکرٹری تحریک جدید ہوں۔ فرشتہ بولا کہ تمہیں 36 سال مزید مہلت دی جاتی ہے۔ اُس کے بعد آپ 36 سال زندہ رہے اور91سال کی عمر میں اس طرح وفات پائی کہ صرف کھانسی آئی اور چند سیکنڈ میں اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ آپ وفات سے قبل بڑا لمبا عرصہ دونوں آنکھوںسے معذور رہے لیکن کبھی اللہ تعالیٰ سے شکوہ نہیںکیا۔ آپ دو چیزوں کی بڑی غیرت رکھتے تھے اور ان کے خلاف ایک لفظ سننا پسند نہیں کرتے تھے۔ایک اللہ تعالیٰ کی ذات اور دوسری خلافت۔

محترم ماسٹر صاحب بچے ہی تھے کہ یتیم ہوگئے۔ آپ کی والدہ جو بیوی جی کے نام سے مشہور تھیں، بچوں کو قرآن کریم پڑھایا کرتی تھیں۔ انہوں نے پیدل دو حج کیے ہوئے تھے۔ محترم ماسٹر صاحب اٹھارہ سال کی عمر میں احمدی ہوئے تو آپ کی والدہ کے علاوہ کوئی اور رشتہ دار زندہ نہ تھا لیکن وہ احمدیت کی سخت مخالف تھیں۔ گھر میں ایک بکری تھی جو دن کے وقت جنگل میں خودبخود چلی جاتی تھی اور شام کو واپس آجاتی تھی۔ ایک دن و ہ بکری واپس نہ آئی۔ چھوٹے سے گاؤں میں یہ بات مشہور ہوگئی۔ آپ کی والدہ کی ایک منہ بولی بہن محترم ماسٹر صاحب سے کہنے لگی کہ مرزا نبی بنا پھرتا ہے اس کو کہو کہ تمہاری بکری واپس لادے۔ کیا وہ اتنا بھی نہیں کرسکتا؟ آپ اُس کو جواب دیے بغیر اپنے گھر چلے آئے۔ اگلے ہی روز معلوم ہوا کہ اُس خاتون کی گائے صبح جنگل میں چرنے گئی تھی لیکن واپس نہیں آئی۔ تاہم اُس عورت نے ایک روز پھر آپ کو گلی میں گزرتے ہوئے دیکھا تو اپنے دروازہ کے سامنے روکا اور آپ کی گمشدہ بکری کا حوالہ دے کر کہا کہ وہ نبی بنا پھرتا ہے پھر کیوں کوئی معجزہ نہیں دکھاتا؟ اُس کا خاوند گھر کے اندر یہ بات سن رہا تھا، وہ اپنی بیوی سے بولا کہ او کم بخت تُو نے پہلے معجزے نہیں دیکھے کہ ابھی اَور معجزہ مانگتی ہو۔
جب گاؤں میں صرف دو احمدی تھے تو تبلیغ کے دوران گاؤں والوں نے کہا کہ اگر گاؤں کے ‘مولانا محمد عالم’ احمدیت قبول کرلیں تو ہم بھی احمدی ہوجائیں گے۔ چنانچہ دونوں احمدی مولانا صاحب کے پاس گئے اور کہا کہ گاؤں والوں نے ساری ذمہ داری آپ پر ڈال دی ہے لہٰذا روز حشر ان گاؤں والے لوگوںکا بوجھ بھی آپ کے کندھوں پر پڑے گا۔ پھر بات چیت ہوئی تو چند گھنٹوں میں وہ وفات مسیح اور خاتم النبییّن کے مسائل سمجھ گئے اور احمدی ہونے کا اقرار کرلیا۔ معمرآدمی تھے۔گاؤں والوں نے کہا کہ مولوی تو سترابہترا ہوگیا ہے اس لیے یہ قبول نہیں ہے۔ چند دن بعد مولوی محمد صاحب بیمارپڑگئے اور حالت کافی نازک ہوگئی تو گاؤں والے اُن کے پاس گئے اور کہاکہ آپ ساری عمر مسلمان رہے ہیں۔ اگر آپ اب کفر کی حالت میں مر گئے تو آپ کا نمازِجنازہ کوئی نہیں پڑھائے گا۔ مولوی صاحب نے جواب دیا کہ آپ لوگوں پر کوئی بار نہیں ہے، میری میّت کو اٹھا کر گلی میں پھینک دینا، کُتے بلیاں کھائیں یا کوّے کھائیں۔ نمازِجنازہ کی فکر نہ کریں۔ اس کے بعد کلمہ طیّبہ پڑھا اور آنکھیں بند کرلیں۔ایک پُر سکون موت اُن کو نصیب ہوئی۔ اتفاق تھا کہ اُس دن گاؤں کے دونوں احمدی کہیں گئے ہوئے تھے۔ رشتہ داروں نے نہلا کر کفن باندھ دیا اور میّت اٹھا کر قبرستان لے گئے لیکن نماز جنازہ پڑھانے کے لیے احمدیوں کا انتظار کرتے کرتے مغرب کے بعد کا وقت ہوگیا۔ اسی اثناء میں دو گھوڑسوار اُدھر سے گزرے اور معاملہ پوچھا۔ انہیں بتایا گیا کہ یہ قادیانی شخص فوت ہوگیا ہے اور اس کی نمازِجنازہ پڑھانے والا کوئی نہیں۔ اُن گھوڑسواروں نے کہا کہ الحمدللہ ہم احمدی ہیں۔ پھر انہوں نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور لوگ تدفین میں مصروف ہوئے تو وہ گھوڑسوار غائب ہوگئے۔ اور یہ واقعہ گاؤں میں مشہور ہو گیا کہ مولوی محمد کی نماز جنازہ فرشتوں نے پڑھائی ہے۔ تاہم اس مشاہدہ کے بعد بھی کوئی شخص وہاں احمدی نہ ہوا۔

محترم ماسٹر صاحب جس کو تبلیغ کرتے تھے اس کے لیے دعا بھی بہت کرتے تھے اسی لیے اکثر لوگ کوئی نشان یا خواب بھی دیکھ لیتے۔ جب آپ کراچی میں اپنے بیٹے کے پاس مقیم تھے تو محلّہ میں ایک زیرتبلیغ بزرگ دوست نے خواب میں خود کو مسجدنبویؐ میں دیکھا جہاں ایک چارپائی پر رسول کریم ﷺ لیٹے ہیں اور اوپر انتہائی سفید چادر تانی ہوئی ہے جس پر کوئی داغ دھبہ نہیں ہے۔ وہ بڑی کوشش کرتے ہیں کہ رسول کریمﷺکے جسم کا کوئی حصہ دیکھ لیں لیکن ایک ناخن تک نہیں دیکھ سکتے۔ پھر وہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ اکیلے ہی مسجد نبویؐ میں رہ گئے ہیں تو باہر کی طرف جانے لگتے ہیں اور جب آپؐ کے حجرہ کے پاس سے گزرتے ہیں تو آپﷺ فرماتے ہیں کہ ‘نہ آپ نے میرے پیغامبر کو پہچانا اور نہ ہی پیغام کو سمجھا ہے’۔

وہ دوست اپنی خواب کی تعبیر پوچھنے آئے تو محترم ماسٹر صاحب گھر پر نہیں تھے۔ آپ کے بیٹے نے خواب سن کر اُنہیں بتایا کہ طبعاً آپ شریف انسان ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے خاص فضل آپ پر کیا ہے اور ایسی خواب دکھلائی ہے۔ سفید چادر سے مراد یہ ہے کہ رسول کریم ﷺ کی تعلیم پر کوئی داغ نہیں لیکن انتہائی خواہش کے باوجود جو آپ رسول کریم ﷺ کا ایک ناخن تک نہیں دیکھ سکے اس سے مراد یہ ہے کہ آنحضورﷺ کے پیغام کو آپ نے ایک ناخن کے برابر بھی نہیں پہچانا ۔ اور وہ جو آپ نے دیکھا سب چلے گئے ہیں اور میں اکیلا رہ گیا ہوں اور جلدی باہر جانے کے لیے کوشاں ہوں، وہ بتاتا ہے کہ آپ کی زندگی کا سفر تقریباً ختم ہونے کوہے۔ اور جو رسول پاک ﷺ نے آپ کو خود فرمایا کہ نہ آپ نے پیغامبر پہچانا اور نہ ہی پیغام کو سمجھا ہے۔ تو مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کا یہی دعویٰ ہے کہ میں حضرت محمدﷺ کا پیغام لے کر آیا ہوں۔انہیں آپ نے نہیں پہچانا اور جو وہ پیغام لے کر آئے ہیں وہ آپ نے نہیں سمجھا۔ یہ تعبیر سنتے ہی ان صاحب کا رنگ زرد پڑگیا۔ چند سیکنڈ بعد ان کے منہ سے نکلاکہ آپ درست کہہ رہے ہیں۔ لیکن پھر کچھ دیر بعد کہا کہ شاید آپ غلط ہوں۔ پھر وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔دو تین ہفتہ بعد اچانک خبر آئی کہ وہ اس دنیا سے کُوچ کرگئے ہیں۔

……٭……٭……٭……

محترمہ مجیدہ بیگم چودھری صاحبہ

ماہنامہ ‘‘احمدیہ گزٹ’’ کینیڈا جنوری 2012ء میں مکرم حمید احمد چودھری صاحب کے قلم سے اُن کی اہلیہ مکرمہ مجیدہ بیگم چودھری صاحبہ کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے۔

مکرمہ مجیدہ بیگم صاحبہ 24مارچ 2011ء کو وفات پاکر میپل قبرستان کینیڈا میں سپردخاک ہوئیں۔ حضورانور ایدہ اللہ نے لندن میں نماز جنازہ غائب پڑھائی۔

مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ مرحومہ میری خالہ کی بیٹی تھیں۔ مرحومہ چھوٹی ہی تھیں کہ آپ کے والد کسی مالی صدمہ کی وجہ سے ہوش و حواس کھو بیٹھے۔ وہ احمدی نہیں تھے لیکن آپ کی والدہ احمدی تھیں اور اسی لیے آپ کو بچپن میں آپ کے ماموں (محترم چودھری عبدالحق صاحب سابق امیر جماعت احمدیہ اسلام آباد) کے ہاں بھیج دیا گیا۔ آپ وہاں کچھ عرصہ مقیم رہیں اور اسی دوران احمدیت بھی قبول کرنے کی توفیق پائی۔ چونکہ آپ کے تمام بہن بھائی چھوٹے تھے اس لیے بعد میں سب کو کئی کئی سال اپنے ہاں رکھا، تعلیم بھی دلوائی اور احمدی گھرانوں میں اُن کی شادیاں کروائیں۔

ہماری شادی 1971ء میں ہوئی تھی۔ مَیں نے دیکھا کہ آپ غریبوں کی بے حد ہمدرد تھیں۔ کبھی کوئی سائل گھر سے خالی نہیں گیا۔ گاؤں سے سال بھر کے لیے گندم اور چاول وغیرہ آجاتے تھے جس میں سے زیادہ تر غریبوں میں تقسیم کردیتیں۔ بہت سوں کو ماہانہ خرچ بھی دیتیں۔ خاندان بھر کے بزرگوں کا خاص خیال رکھتیں اور اسی لیے وہ آپ کے گھر رہنا پسند کرتے۔ میری پانچ بہنیں تھیں۔ سب کی شادی مرحومہ نے کی اور دو تین بار اپنا زیور بھی اُنہیں دے دیا۔ خاندان کے کئی بچے بچیاں کئی کئی سال ہمارے ہاں رہ کر تعلیم حاصل کرتے رہے۔ کئی بار گاؤں میں کسی بیمار کو دیکھا تو اپنے ساتھ شہر لے آئیں، علاج کروایا اور صحت یابی کے بعد واپس بھیجا۔

احمدیت کی شَیدائی اور خلافت کی سچی فدائی تھیں۔ جمعہ کے دن کی تیاری دو دن پہلے سے شروع کردیتیں۔ اکثر رمضان میں اعتکاف بیٹھتیں۔ قرآن کریم سے عشق تھا۔ روزانہ فجر کے بعد تلاوت کرنا معمول تھا لیکن ہر رمضان میں کئی کئی بار دَور مکمل کرتیں۔کثرت سے خداتعالیٰ آپ کی دعائیں قبول کرتا اور اکثر سچے خواب دیکھتیں۔

……٭……٭……٭……

ماہنامہ ‘‘النور’’ امریکہ نومبرودسمبر 2012ء میںمکرمہ ارشاد عرشی ملک صاحبہ کی ایک طویل نظم شامل اشاعت ہے۔ اس ناصحانہ نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

خاصۂ عشق رازداری ہے اور تری ہاؤہو زیادہ ہے
تیری آہ و بُکا کے پردے میں خودنمائی کی بُو زیادہ ہے
اپنی حالت کی فکر کر عرشیؔ آپ اپنا محاسبہ کرلے
خامشی عاشقوں کا شیوہ ہے اور تری گفتگو زیادہ ہے
جو جھمیلوں میں گِھر کے دنیا کے ، یاد کرتے ہیں تجھ کو اے مالک
تیرے نزدیک ایسے لوگوں کی لازماً آبرو زیادہ ہے
جذب و مستی کا آج عالَم ہے دو رکعت عشق ہی ادا کرلوں
آنسوؤں سے نہائی ہیں آنکھیں دل بھی کچھ باوضو زیادہ ہے
توڑ دوں مَیں رواج کے پھندے پاٹ ڈالوں یہ دُوریاں ساری
عشق کا میرے سر میں سودا ہے یا رگوں میں لہو زیادہ ہے
اپنی ہستی مٹا کے مَیں عرشیؔ کاش تیرا سراغ پا جاؤں
چین پڑتا نہیں کہیں دل کو ، دن بدن جستجو زیادہ ہے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button