خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ فرمودہ 05؍اپریل 2019ء

(امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بںصرہ العزیز)

خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ مورخہ05؍اپریل 2019ء بمطابق 05؍شہادت 1398 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾

آج جن بدری صحابہ کا میں ذکر کروں گا ان میں پہلا نام ہے حضرت خِرَاشْ بن صِمَّۃ انصاریؓ کا۔ حضرت خِرَاشؓ کا تعلق خزرج کی شاخ بنو جُشَمْ سے تھا۔ آپؓ کی والدہ کا نام اُمِّ حَبِیب تھا۔ حضرت خراشؓ کی اولاد میںسَلَمہ اور عبدالرحمٰن اور عائشہ شامل ہیں ۔ حضرت خِرَاشؓ نے غزوۂ بدر اور احد میں شرکت کی۔ احد کے دن آپؓ کو دس زخم آئے۔ آپؓ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ماہر تیر اندازوں میں سے تھے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد 3 صفحہ 425 خراش بن الصمہ، دارالکتب العلمیہ بیروت 1990ء)

غزوۂ بدر میں حضرت خِرَاشؓ نے اَبُو الْعَاص کو جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے داماد تھے اسیر بنایا تھا، قید کیا تھا ۔

(سیرت ابن ہشام صفحہ 312 اسر ابی العاص ابن الربیع زوج زینب بنت رسول ﷺ۔ دار ابن حزم بیروت 2009ء)

دوسرا ذکر جن صحابی کا ہے ان کا نام حضرت عُبَیْد بن تَیِّھانؓ ہے۔ حضرت عُبَیْد بن تَیِّھانکا نام عَتِیْک بن تَیِّھانبھی بیان کیا جاتا ہے۔ ان کی والدہ کا نام لیلیٰ بنت عَتِیکتھا۔ آپؓ حضرت اَبُوالْھَیْثَم بن تَیِّھانکے بھائی تھے اور آپؓ بنو عبدالْاَشْھَل کے حلیفوں میں سے تھے۔ حضرت عُبَیْدؓ ستّر انصار کے ساتھ بیعتِ عَقَبہ میں شامل ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓ کے اور حضرت مَسْعُود بن رَبِیْع کے مابین مؤاخات قائم فرمائی۔ آپؓ اپنے بھائی حضرت اَبُوالْہَیْثَم کے ساتھ غزوۂ بدر میں شامل ہوئے اور آپؓ نے غزوۂ احد میں شہادت پائی۔ آپ کو عِکْرِمَہ بن ابوجہل نے شہید کیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپؓ جنگ صِفِّین میں حضرت علیؓ کی طرف سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے۔ اس پہ ذرا اختلاف ہے لیکن بہرحال دونوں روایتوں میں ایک مشترک بات ہے کہ آپؓ شہید ہوئے۔ آپؓ کی اولاد میں دو بیٹوں حضرت عُبَیْد اللہؓ اور حضرت عَبَّادؓ کا ذکر ملتا ہے۔ طبری کے قول کے مطابق حضرت عَبَّادؓ نے بھی غزوۂ بدر میں شرکت کی سعادت پائی جبکہ حضرت عُبَیْد اللہؓ کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ جنگ یَمَامہ میں شہید ہوئے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد3 صفحہ342-343 ابو الھیثم بن التیھان ، عبید بن التیھان۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت1990ء)(اسد الغابۃ جلد3 صفحہ153 عباد بن عبید، صفحہ521 عبید اللہ بن عبید بن التیھان، صفحہ529 عبید بن التیھان۔ دار الکتب العمیۃ بیروت2003ء)

پھر جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام ہے حضرت اَبُوحَنَّہْ مالِک بن عَمْروؓ۔ اَبُوحَنَّہْ ان کی کنیت تھی۔ مَالِک بن عَمْرو ان کا نام تھا۔ محمد بن عمر وَاقِدی نے آپؓ کو شرکائے بدر میں شمار کیا ہے۔ آپؓ کے نام کے بارے میں اختلاف ہے۔ بعض روایات کے مطابق آپؓ کا نام عامر اور ثابِت بن نُعْمَان بھی بیان ہوا ہے۔ آپؓ کی کنیت اَبُوحَبَّہْ اور ابو حَیَّہ بھی بیان کی جاتی ہے لیکن محمد بن عمر واقِدی کہتے ہیں کہ اَبُوحَبَّہْکنیت کے دو اشخاص کا ذکر ملتا ہے۔ ایک اَبُوحَبَّہْ بن غَزِیَّہ بن عمرو اور دوسرے اَبُوحَبَّہْ بن عَبدِ عمرٍو اَلْمَازِنِی ۔ یہ دونوں غزوۂ بدر میں شریک نہیں ہوئے تھے۔ شاملینِ بدر میں کسی کی کنیت اَبُوحَبَّہْ نہ تھی بلکہ غزوۂ بدر میں جو شامل ہوئے ہیں ان کی کنیت اَبُوحَنَّہتھی۔ اس لحاظ سے وہ اپنی بات پر زور دیتے ہیں کہ اَبُوحَنَّہہی ان کی کنیت تھی۔

(الطبقات الکبریٰ جلد3 صفحہ365 ابو حنہ۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت1990ء)
(اسد الغابۃ جلد6 صفحہ63 ابو حبہ الانصاری۔ دار الکتب العمیۃ بیروت2003ء)

پھر جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام ہےحضرت عبدُاللّٰہ بن زَیْد بن ثَعْلَبَہؓ۔ آپؓ کو عبداللّٰہ بن زید انصاری کہا جاتا ہے۔ آپؓ کی کنیت ابومحمد تھی۔ والد کا نام حضرت زَیْد بن ثَعْلَبَہؓ تھا اور یہ بھی صحابی تھے۔ ان کا تعلق قبیلہ انصار کے قبیلہ خزرج کی شاخ بَنُو جُشَم سے تھا۔ آپؓ بیعت عقبہ میں ستر انصار کے ساتھ شامل ہوئے اور غزوۂ بدر اور احد اور خندق اور دیگر غزوات میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شرکت کی۔ فتح مکہ کے وقت بَنُو حَارِث بن خَزْرَج کا جھنڈا آپؓ کے پاس تھا۔ حضرت عبداللّٰہ بن زیدؓ اسلام لانے سے قبل عربی لکھنا جانتے تھے جبکہ اس زمانے میں عرب میں کتابت بہت کم تھی۔ بہت کم لوگ ہوتے تھے جو لکھنا جانتے ہوں ۔ حضرت عبداللّٰہ بن زیدؓ کی اولاد مدینہ میں قیام پذیر رہی۔ آپؓ کے ایک بیٹے کا نام محمد تھا جو آپؓ کی بیوی سَعْدَۃ بنتِ کُلَیْبسے پیدا ہوئے اور ایک بیٹی ام حُمَیْد تھیں جن کی والدہ اہل یمن سے تھیں ۔

آپؓ کے بھائی حُرَیْث بن زیدتھے جو بدری صحابی تھے۔(اسد الغابۃ جلد3 صفحہ248 عبد اللہ بن زید الانصاری۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت2003ء)(الطبقات الکبریٰ جلد3صفحہ405-406 عبد اللہ بن زید، حریث بن زید۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء) اور آپؓ کی ایک بہن کا نام قُرَیْبَہ بنت زَیدؓ تھا، وہ بھی صحابیہ تھیں۔

(الطبقات الکبریٰ جلد8 صفحہ271-272قریبۃ بنت زید۔دار الکتب العلمیۃ بیروت1990ء)

حضرت عبداللّٰہ بن زیدؓ وہ صحابی ہیں جن کو خواب میں اذان کے الفاظ بتائے گئے اور آپؓ نے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے متعلق آگاہ کیا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلالؓ کو حکم دیا کہ وہ ان الفاظ میں اذان دیں جو حضرت عبداللہ نے خواب میں دیکھے تھے۔ یہ واقعہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مسجد ِنبویؐ کی تعمیر کے بعد سنہ ایک ہجری کا ہے۔

(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جلد3 صفحہ913 عبد اللہ بن زید۔ دار الجیل بیروت 1992ء)

اس کی کچھ تفصیل اس طرح ہے کہ حضرت ابوعُمَیْر بن انس انصاریؓ (انصار میں سے تھے) اپنے چچوں سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سوچا کہ نماز کے لیے لوگوں کو کیسے جمع کیا جائے؟ آپؐ کو عرض کیا گیا کہ نماز کے وقت ایک جھنڈا نصب کر دیا جائے۔ جب لوگ اسے دیکھیں گے تو ایک دوسرے کو اطلاع کر دیں گے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تجویز پسند نہیں آئی۔ راوی کہتے ہیں کہ آپؐ سے نرسنگا کا ذکر کیا گیایعنی یہود کے بلانے کے طریق سےجوبلند آواز سے blowکیا جاتا ہے۔ آپؐ نے اس کو بھی پسند نہیں فرمایا کہ یہ یہود کا طریق ہے۔ راوی کہتے ہیں پھر آپؐ سے ناقوس کا ذکر کیا گیا۔ آپؐ نے فرمایا کہ وہ نصاریٰ کا طریق ہے۔ حضرت عبداللّٰہ بن زید واپس گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فکر کی وجہ سے فکرمند تھے۔ دعا کی تو کہتے ہیں ان کو خواب میں اذان دکھائی گئی۔ حضرت عبداللّٰہ بن زیدؓ ہی بیان کرتے ہیں کہ میں نے خواب میں ایک شخص کو دیکھا جس کے ہاتھ میں ناقوس تھا۔ میں نے اس سے پوچھا اے بندۂ خدا! تُو اس ناقوس کو بیچے گا۔ اس نے کہا تُو اس سے کیا کرے گا؟ میں نے کہا کہ ہم اس کے ذریعہ سے نماز کے لیے بلائیں گے۔ اس نے کہا تو کیا میں تمہیں وہ بات بتا دوں جو اس سے بہتر ہے؟ میں نے کہا کیوں نہیں؟ حضرت عبداللہ کہتے ہیں کہ اس نے کہا پھر کہو اور اذان کے الفاظ دہرائے کہ

اَللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ۔ اَللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ۔ أَشْھَدُ أَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ۔ أَشْھَدُ أَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ۔ أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔ أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔ حَيَّ عَلَی الصَّلَاۃِ۔ حَيَّ عَلَی الصَّلَاۃِ۔ حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ۔ حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ۔ اَللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ ۔ لَآ إِلٰہَ أِلَّااللّٰہُ۔

اس کا ترجمہ بھی بچوں کے لیے اور نو مسلموں کے لیےپڑھ دیتا ہوں، فائدہ مند ہوتا ہے ۔ اذان ہم روز سنتے ہیں لیکن پھر بھی بعضوں کو مَیں نے دیکھا ہے ترجمہ نہیں آتا۔ اللہ سب سے بڑا ہے اللہ سب سے بڑا ہے۔ یہ چار دفعہ کہنا ہے۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔ یہ دو دفعہ کہنا ہے۔ پھر میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں ۔ یہ بھی دو دفعہ ہے۔ پھر نماز کی طرف آؤ، حَيَّ عَلَی الصَّلَاۃِ ۔ نماز کی طرف آؤ۔ حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ ۔کامیابی کی طرف آؤ،کامیابی کی طرف آؤ۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ یہ پھر دو دفعہ کہنا ہے۔ لَآ إِلٰہَ أِلَّااللّٰہُ۔ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ۔

پھر کہتے ہیں کہ یہ الفاظ دہرانے کے بعد وہ شخص مجھ سے تھوڑا سا پیچھے ہٹا اور پھر کہا کہ جب تم نماز کھڑی کرو تو یہ کہا کرو۔پھر تکبیر کے الفاظ دہرائے کہ اَللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ۔ أَشْھَدُ أَن لَّا إِلٰہَ إِلَّااللّٰہُ ۔ أَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ۔ حَيَّ عَلَی الصَّلَاۃِ۔ حَيَّ عَلَی الْفَلَاحِ ۔ قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ ۔قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ ۔ اَللّٰہُ أَکْبَرُ اللّٰہُ أَکْبَرُ۔ لَآ إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ۔
اس میں دو ہی الفاظ اذان سے زائد ہیں۔ قَدْ قَامَتِ الصَّلَاۃُ ہے کہ نماز کھڑی ہو گئی ہے۔ نماز کھڑی ہو گئی ہے اور پھر وہی اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔

پھر کہتے ہیں جب صبح ہوئی تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور جو میں نے دیکھا تھا بیان کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یقینًا اللہ چاہے تو یہ سچی خواب ہے۔ تم بلال کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور جو تم نے دیکھا تھا وہ بتاتے جاؤ۔ وہ ان الفاظ کے ساتھ اذان دے دے چونکہ اس کی آواز تم سے زیادہ بلند ہے۔ پس میں بلال کے ساتھ کھڑا ہو گیا میں ان کو بتاتا جاتا تھا اور وہ اُس کے مطابق اذان دیتے جاتے تھے۔ راوی کا یہ بیان ہے کہ جب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے یہ اذان سنی تو وہ اپنے گھر میں تھے۔ وہ اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے نکلے اور کہہ رہے تھے کہ اس کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ یا رسول اللہ بھیجا ہے! میں نے وہی دیکھا جو اس نے دیکھا ہے۔ یہ سن کر آپؐ نے فرمایا کہ سب تعریف اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔

(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب بدء الاذان حدیث498، باب کیف الاذان حدیث499)

ایک دوسری روایت میں اس جگہ یہ الفاظ ملتے ہیں کہ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ ہی کے لیے سب تعریف ہے پس یہی بات پختہ ہے۔

(جامع الترمذی کتاب الصلاۃ باب ماجاء فی بدء الاذان حدیث189)

اس کی تفصیل میں سیرت خاتم النبیین میں، حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ نے مختلف تاریخوں سے لے کے بعض باتیں زائد بیان فرمائی ہیں۔وہ بیان کرتے ہیں کہ

‘‘ابھی تک نماز کے لیے اعلان یااذان وغیرہ کا انتظام نہیں تھا تو صحابہ عمومًا وقت کااندازہ کرکے خود نماز کے لیے جمع ہوجاتے تھے لیکن یہ صورت کوئی قابلِ اطمینان نہیں تھی۔ مسجد نبویؐ کے تیار ہوجانے پر یہ سوال زیادہ محسوس طورپرپیدا ہوا کہ کس طرح مسلمانوں کووقت پر جمع کیا جائے۔ کسی صحابی نے نصاریٰ کی طرح ناقوس کی رائے دی۔ کسی نے یہود کی مثال میں بوق کی تجویز پیش کی ۔کسی نے کچھ کہا ۔مگر حضرت عمرؓنے مشورہ دیا کہ کسی آدمی کومقرر کردیاجائے کہ وہ نماز کے وقت یہ اعلان کردیا کرے کہ نماز کاوقت ہوگیا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رائے کوپسند فرمایا (اذان سے پہلے حضرت عمرؓکی ایک یہ رائے تھی) حضرت بلالؓ کوحکم دیا کہ وہ اس فرض کو اداکیا کریں ۔ چنانچہ اس کے بعد جب نماز کا وقت آتا تھا بلالؓ بلندآواز سے اَلصَّلَاۃُ جَامِعَۃٌکہہ کر پکارا کرتے تھے اورلوگ جمع ہوجاتے تھے۔ بلکہ اگر نماز کے علاوہ بھی کسی غرض کے لیے مسلمانوں کو مسجد میں جمع کرنا ہوتاتویہی آواز دی جاتی، یہی اعلان کیا جاتا ۔ اس کے کچھ عرصے کے بعد،(پھر آگے ان کا وہی قصہ ہے کہ ) ایک صحابی حضرت عبداللہ بن زید انصاریؓکوخواب میں موجودہ اذان کے الفاظ سکھائے گئے اور انہوں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکراپنی اس خواب کاذکر کیا اور عرض کیا کہ میں نے خواب میں ایک شخص کواذان کے طور پریہ یہ الفاظ پکارتے سنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایایہ خواب خدا کی طرف سے ہے اور عبداللہ کو حکم دیا کہ بلالؓ کو یہ الفاظ سکھا دیں ۔ لکھتے ہیں کہ عجیب اتفاق یہ ہوا کہ جب بلالؓ نے اِن الفاظ میں پہلی دفعہ اذان دی تو حضرت عمرؓ اِسے سن کر جلدی جلدی آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یارسولؐ اللہ! آج جن الفاظ میں بلالؓ نے اذان دی ہے بعینہٖ یہی الفاظ میں نے بھی خواب میں دیکھے ہیں ۔ اورایک روایت میں یہ ہے کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اذان کے الفاظ سنے توفرمایا کہ اسی کے مطابق وحی بھی ہوچکی ہے۔

(ماخوذ از سیرت خاتم النبیین مصنفہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحب ایم اے صفحہ271-272)

بشیر بن محمد اپنے والد سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زیدؓ جنہیں اذان رؤیا میں دکھائی گئی تھی انہوں نے اپنا وہ مال صدقہ کیا جس کے علاوہ آپؓ کے پاس کچھ اَور نہیں تھا۔سارا مال صدقہ کر دیا۔ آپؓ اور آپؓ کا بیٹا اس کے ذریعہ زندگی بسر کر رہے تھے۔ وہی ان کا ذریعۂ معاش تھا۔ پس جو بھی جائیداد تھی آپؓ نے اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کر دیا۔ جب انہوں نے یہ مال سپرد کردیا تو اس پر ان کے والد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کی کہ یا رسولؐ اللہ! عبداللہ بن زیدؓ نے اپنا مال صدقہ کیا ہے اور وہ اس کے ذریعہ زندگی بسر کر رہے تھے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن زیدؓکو بلا کر فرمایا کہ یقیناً اللہ نے تجھ سے تیرا صدقہ قبول کر لیا جو تو نے دیا۔ جو اللہ کےلیے چھوڑ دیاوہ اللہ نے قبول کر لیا۔ البتہ اس کو میراث کے طور پر اپنے والدین کو لوٹا دے۔ اب یہ میراث کے طور پر والدین کو واپس کر دے۔ تو بشیر کہتے ہیں کہ پھر ہم نے اس کو وراثت میں پایایعنی آگے پھر ان کے بچوں نے اس طرح اس میں سے حصہ لیا۔

(معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم الاصبھانی جلد3 صفحہ149 عبد اللہ بن زید… حدیث4172 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)

ایک موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ بن زیدؓ کو اپنے ناخن بطور تبرک عطا فرمائے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت عبداللہ بن زیدؓ کے بیٹے محمد نے بیان کیا کہ ان کے والد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حجۃ الوداع کے موقع پر منٰی کے میدان میں مَنْحَریعنی قربان گاہ میں قربانی کے وقت حاضر تھے اور آپؓ کے ہمراہ انصار میں سے ایک اَور شخص بھی تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانیاں تقسیم کیں تو حضرت عبداللہ بن زیدؓ اور ان کے انصاری ساتھی کو کچھ نہ ملا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کپڑے میں اپنے بال اتروائے اور انہیں لوگوں میں تقسیم کر دیا۔ پھر آپؐ نے اپنے ناخن کٹوائے اور وہ حضرت عبداللہ بن زیدؓ اور ان کے انصاری ساتھی کو عطا کر دیے۔

(الطبقات الکبریٰ جلد3 صفحہ406 عبد اللہ بن زید۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)

حضرت عائشہؓ سے مروی ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! خدا کی قَسم! یقینًا آپؐ مجھے میری ذات سے زیادہ محبوب ہیں اور یقینًا آپؐ مجھے میرے اہل سے زیادہ محبوب ہیں اور یقینًا آپؐ مجھے میری اولاد سے زیادہ محبوب ہیں۔ میں گھر میں تھا اور آپؐ کو یاد کر رہا تھا کہ مجھ سے صبر نہ ہوا یہاں تک کہ میں آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اب میں آپؐ کو دیکھ رہا ہوں ۔ جب مجھے اپنی اور آپؐ کی موت یاد آئی تو میں نے جان لیا کہ جب آپؐ جنت میں داخل ہوں گے تو دیگر انبیاء کے ساتھ آپؐ کا رفع ہو گا اور میں ڈرا کہ جب میں جنت میں داخل ہوں گا تو آپؐ کو وہاں نہ پاؤں گا۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو کوئی جواب نہ دیایہاں تک کہ جبریل اس آیت کے ساتھ نازل ہوئے وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوۡلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمَ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیۡقِیۡنَ وَ الشُّہَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیۡنَ ۚ (النساء:70)

کہ اور جو بھی اللہ کی اور اس کے رسول کی اطاعت کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے انعام کیا ہے یعنی نبیوں میں سے، صدیقوں میں سے، شہیدوں میں سے اور صالحین میں سے۔

(تفسیر ابن کثیرجلد2 صفحہ311 النساء:69 دار الکتب العلمیۃ بیروت 1998ء)

اس آیت کو ہم اس دلیل کے طور پر بھی پیش کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے غیر تشریعی نبوت کا مقام حاصل ہو سکتا ہے اور آپؐ کی پیروی میں ایک شخص صالحیت کے مقام سے ترقی کر کے نبوت کے مقام تک پہنچ سکتا ہے۔ بہرحال نبوت کا مقام چاہے وہ غیر تشریعی نبوت ہی ہو اور وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں بھی ہے تو ایک بہت اعلیٰ مقام ہے اور اللہ تعالیٰ جسے چاہے دیتا ہے اور آنے والے مسیح موعود کے بارے میں خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ‘‘نبی اللہ’’ کے الفاظ استعمال کیے ہیں ۔

(صحیح مسلم کتاب الفتن واشراط الساعۃ باب ذکر الدجال وصفتہ ومامعہ حدیث (2937)

اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں غیر تشریعی نبی مانتے ہیں اور اس سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقامِ ختمِ نبوت پر کوئی حرف نہیں آتا بلکہ آپؐ کا مقام بڑھتا ہے کہ اب نبوت بھی صرف آپؐ کی غلامی میں ہی مل سکتی ہے اور یہ معنی صرف ہم ہی نہیں کرتے بلکہ پرانے بزرگوں نے بھی کیے ہیں۔ چنانچہ امام راغب نے بھی اس کے یہی معنےکیے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد غیر شرعی نبی آپؐ کی پیروی میں آ سکتے ہیں ۔

(تفسیر البحر المحیط جزء3 صفحہ299 النساء:69 دار الکتب العلمیۃ بیروت 2010)

بہرحال اس آیت کے ضمن میں یہ ذکر میں نے کر دیا تا کہ وضاحت بھی ہو جائے۔
علامہ زرقانی لکھتے ہیں کہ مختلف کتب تفسیر میں یہ واقعہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام حضرت ثوبانؓ کے متعلق ملتا ہے جبکہ تفسیر یَنْبُوْعُ الْحَیَاۃ میں مقاتل بن سلیمان کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ حضرت عبداللہ بن زید انصاریؓ تھے جنہوں نے رؤیا میں اذان دیکھی تھی۔ علامہ زرقانی لکھتے ہیں کہ اگر یہ بات درست ہے تو ممکن ہے کہ دونوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی بات کا ذکر کیا ہو اور اس پر یہ آیت نازل ہوئی ہو اور یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ ایسی بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی ساتھیوں نے کی تھی۔

(شرح زرقانی علی المواھب اللدنیۃجزء12 صفحہ417-418 خاتمۃ۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)

پہلے بیان کردہ واقعہ کے علاوہ تفاسیر میں حضرت ثوبان کا واقعہ اَور الفاظ میں بھی بیان ہوا ہے جس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت ثوبانؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید محبت تھی اور آپؐ سے دوری میں زیادہ صبر نہیں کر سکتے تھے۔ ایک روز جب وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کا رنگ بدلا ہوا تھا اور ان کے چہرے سے حزن کے آثار ظاہر ہو رہے تھے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کس چیز کے باعث تمہارا رنگ بدلا ہوا ہے؟ حضرت ثوبانؓ نے عرض کی کہ یا رسولؐ اللہ! نہ تو مجھے کوئی مرض ہے اور نہ ہی کوئی بیماری ہے ماسوائے اس کے کہ میں آپؐ کو دیکھ نہ سکا۔ یعنی کچھ عرصے سے دیکھا نہیں تھا۔ اس لیے مجھ پر شدید وحشت طاری ہو گئی جب تک کہ آپؐ سے ملاقات نہ ہو گئی۔ اسی طرح جب مجھے آخرت کی یاد آئی تو مجھ پر پھر خوف طاری ہوا کہ میں آپؐ کو نہ دیکھ سکوں گا کیونکہ آپؐ کا تو انبیاء کے ساتھ رفع کیا جائے گا اور اگر میں جنت میں چلا بھی گیا تو میرا مقام وہاں آپؐ کے مقام سے بہت ہی ادنیٰ ہو گا اور اگر میں جنت میں نہ داخل ہو سکا تو پھر میں کبھی بھی آپؐ کو نہ دیکھ سکوں گا۔

(تفسیر البغوی جزء1 صفحہ450 النساء:69 ادارہ تالیفات اشرفیہ ملتان پاکستان 1425ھ)

علامہ زرقانی لکھتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن زیدؓ اپنے باغ میں کام کر رہے تھے۔ عبداللہ بن زیدؓ کا پھر دوبارہ ذکر شروع ہوتا ہے۔پھر یہ ہے کہ آپؓ کا بیٹا آپ کے پاس آیا اور آپؓ کو خبر دی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گئے ہیں۔ اس پر آپؓ نے کہا کہ اَللّٰھُمَّ اَذْھِبْ بَصَرِیْ حَتّٰی لَا اَرٰی بَعْدَ حَبِیْبِیْ مُحَمَّدً اَحَدًا۔ کہ اے اللہ! تو میری نظر کو لے جا یہاں تک کہ میں اپنے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی کو نہ دیکھ پاؤں ۔ اس کے بعد، شرح زرقانی میں یہ لکھا ہے کہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد آپؓ کی نظر جاتی رہی اور آپؓ نابینا ہو گئے۔

(شرح زرقانی علی المواھب اللدنیۃجزء9 صفحہ84-85 فی وجوب محبتہ واتباع سنتہ۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)

ان کی وفات کے بارے میں لکھا ہے کہ عبداللہ بن زیدؓکی وفات کے متعلق اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض نے غزوۂ احد کے بعد وفات کا ذکر کیا ہے لیکن اکثر یہ بیان ہوا ہے کہ حضرت عبداللہ بن زیدؓ تمام غزوات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے تھے اور آپؓ کی وفات حضرت عثمانؓ کی خلافت کے آخری دور میں 32ہجری میں مدینہ میں ہوئی تھی اور وہ جو نظر والا واقعہ ہے اس سے بھی اگر اس کو صحیح مانا جائے تو یہی لگتا ہے کہ حضرت عثمانؓ کے دور میں ہوئی تھی جبکہ اس وقت ان کی عمر 64 سال تھی۔ آپؓ کی نماز جنازہ حضرت عثمانؓ نے پڑھائی۔

(المستدرک علی الصحیحین للحاکم جلد 5 صفحہ 266، کتاب الفرائض ،حدیث8187، دارالفکر 2001ء)
(الطبقات الکبریٰ جلد3 صفحہ406 عبد اللہ بن زید۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)

پھر جن صحابی کا ذکر ہے ان کا نام ہے حضرت مُعَاذ بن عَمرو بن جَمُوحؓ۔ حضرت مُعَاذْ بن عَمْروؓ کا تعلق بنو خزرج کی شاخ بنو سلمہ سے تھا۔ آپؓ بیعت عقبہ ثانیہ اور غزوۂ بدر اور احد میں شامل ہوئے تھے۔ آپؓ کے والد حضرت عَمْرو بن جَمُوحؓ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو غزوۂ احد میں شہید ہوئے تھے۔ آپؓ کی والدہ کا نام ہِنْد بنت عَمْرو تھا۔ موسیٰ بن عُقْبَہ، ابو مَعْشَر اور محمد بن عمر واقِدی کے نزدیک آپؓ کے بھائی مُعَوِّذْ بن عَمْروؓ بھی غزوۂ بدر میں شامل ہوئے تھے اور آپؓ کی بیوی کا نام ثُبَیْتَہ بِنت عَمْرو تھا جو بنو خَزْرَج کی شاخ بنو سَاعِدَہ سے تھیں۔ ان سے آپؓ کا ایک بیٹا عبداللہ اور ایک بیٹی اُمَامَہپیدا ہوئیں ۔

(الطبقات الکبریٰ جلد3 صفحہ426-427 معاذ بن عمرو۔ دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)
(السیرۃ النبویۃ لابن کثیر صفحہ 197 فصل فی رجوع الانصار لیلۃ العقبۃ الثانیۃ الی المدینۃ۔ دارالکتب العلمیۃ بیروت 2005)

حضرت مُعَاذؓ بیعتِ عَقَبہ ثانیہ میں شامل ہوئے تھے لیکن ان کے والد عَمْرو بن جَمُوح اپنے مشرکانہ عقائد پر بہت سختی سے قائم تھے۔ سیرت ابن ہشام میں حضرت معاذؓ کے والد کے اسلام قبول کرنے کا واقعہ درج ہے۔ کوئی سال ہوا ہے میں نے ان کے واقعہ میں بھی تھوڑا سا بیان کیا تھا کہ جب یہ لوگ، بیعت عقبہ ثانیہ میں شامل ہونے والے جو لوگ تھے مدینہ واپس آئے تو انہوں نے اسلام کی خوب اشاعت کی اور ان کی قوم میں کچھ بزرگ ابھی تک اپنے شرکیہ دین پر قائم تھے ان میں سے ایک عَمْرو بن جَمُوحؓ بھی تھے۔ آپؓ کے بیٹے مُعَاذ بن عَمرِو ؓ بیعتِ عَقَبہ ثانیہ میں شامل ہوئے تھے اور اس موقع پر انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کر لی تھی۔ عَمرِو بن جَمُوحؓ بنو سلمہ کے سرداروں میں سے تھے اور ان کے بزرگوں میں سے ایک بزرگ تھے۔ انہوں نے اپنے گھر میں لکڑی کا ایک بت بنا کر رکھا ہوا تھا جیسا کہ اس وقت کے بڑے لوگ بنا کر رکھتے تھے ۔اسے ‘مَنَاۃ ’کہا جاتا تھا۔ اس کو معبود بنا کر اس کی تزئین و تطہیر کرتے تھے۔ جب بنو سلمہ کے کچھ نوجوان اسلام لے آئے جن میں حضرت مُعَاذ بن جَبَلؓ اور عَمْرو بن جَمُوح کے بیٹے حضرت مُعَاذ بن عَمرو بن جَمُوحؓ تھے۔ یہ ان نوجوانوں میں سے تھے جو اسلام لائے اور عقبہ ثانیہ میں شامل ہوئے تو یہ لوگ رات کو عَمْرو بن جَمُوح کے بت کدہ میں داخل ہو کر اس بت کو اٹھا کر لے آتے اور اسے بنو سلمہ کے کوڑا کرکٹ میں پھینکنے کے لیے بنائے جانے والے گڑھے میں اوندھا لٹا دیتے، پھینک دیتے۔ جب صبح عمرو اٹھتے تو کہتے تمہارا برا ہو ۔کس نے رات کو ہمارے معبودوں سے دشمنی کی۔ پھر اس کو ڈھونڈنے نکل پڑتے یہاں تک کہ جب اسے پا لیتے تو اسے دھوتے اور صاف کرتے۔ پھر کہتے کہ خدا کی قسم! اگر میں یہ جان لوں کہ کس نے تیرے ساتھ ایسا کیا تو ضرور میں اسے رسوا کروں گا۔ پھر جب رات ہوتی اور عَمرو سو جاتے تو دوبارہ ان کے بیٹے وہی حرکت کرتے۔ پھر عَمْرو بن جَمُوح نے صبح کی اور دوبارہ وہی تکلیف اٹھا کر پھر اسے دھویا۔ پھر صاف کیا۔ جب کئی رات یہ واقعہ ہوا تو عَمْرو بن جَمُوح نے بت کو وہاں سے باہر نکالا جہاں اسے پھینکا گیا تھا پھر اسے دھویا اور صاف کیا۔ پھر وہ اپنی تلوار لائے اور اس کے گلے میں لٹکا دی اور کہا کہ اللہ کی قسم! یقیناً مجھے یہ تو نہیں معلوم کہ تیرے ساتھ ایسا کون کرتا ہے پس اگر تجھ میں کوئی طاقت ہے تو اس کو روک لے اور یہ تلوار تیرے پاس پڑی ہے۔بت کے پاس تلوار رکھ دی۔ جب شام ہوئی اور عمرو سو گئے تو ان نوجوانوں نے جن میں ان کا بیٹا شامل تھا اس بت سے دوبارہ وہی سلوک کیا۔اس کے گلے سے وہ تلوار لی اور ایک مردہ کتے کو لے کر اس بت کو رسی کے ساتھ اس سے باندھ دیا اور بنوسلمہ کے ایک پرانے کنویں میں پھینک دیا جس میں کوڑا کرکٹ وغیرہ پھینکا جاتا تھا۔ صبح جب عَمْرو بن جَمُوح اٹھے تو انہوں نے اس بت کو اس جگہ پر نہ پایا جہاں اسے رکھا جاتا تھا۔ پس وہ اسے ڈھونڈتے رہے یہاں تک کہ اس کنویں میں اوندھے منہ مردہ کتے کے ساتھ بندھا ہوا پایا۔ جب انہوں نے یہ نظارہ دیکھا تو ان پر حقیقت کھل گئی اور ان کی قوم کے مسلمان لوگوں نے بھی انہیں اسلام کی تعلیم دی تو آپؓ خدا کی رحمت سے اسلام لے آئے۔

(السیرۃ النبویۃ لابن ہشام صفحہ 207-208 قصۃ صنم عمرو بن الجَمُوْح، دار ابن حزم بیروت2009ء)

ابن ہشام کی سیرت میں یہ واقعہ اس طرح لکھا ہے کہ بت تو تلوار کے ساتھ بھی کچھ نہیں کر سکا تو ایسے خدا کو پوجنے کا کیا فائدہ!

حضرت مُعَاذ بن عَمرِو بن جَمُوحؓ ابو جہل کو قتل کرنے والوں میں بھی شامل تھے۔ چنانچہ بخاری کی روایت میں درج ہے کہ صالح بن ابراہیم اپنے دادا حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بتایا کہ میں بدر کی لڑائی میں صف میں کھڑا تھا کہ میں نے اپنے دائیں بائیں نظر ڈالی تو کیا دیکھتا ہوں کہ دو انصاری لڑکے ہیں۔ ان کی عمریں چھوٹی ہیں۔ میں نے آرزو کی کہ کاش میں ایسے لوگوں کے درمیان ہوتا جو اُن سے زیادہ جوان،تنو مند ہوتے۔ اتنے میں ان میں سے ایک نے مجھے ہاتھ سے دبا کر پوچھا کہ چچا کیا آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں؟ میں نے کہا ہاں بھتیجے۔ تمہیں اس سے کیا کام ہے؟ اس نے کہا مجھے بتلایا گیا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے اور اس ذات کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر مَیں اس کو دیکھ پاؤں تو میری آنکھ اس کی آنکھ سے جدا نہ ہو گی جب تک ہم دونوں میں سے وہ نہ مر جائے جس کی مدت پہلے مقدر ہے۔ میں اس پر بڑا حیران ہوا۔ پھر دوسرے نے مجھے ہاتھ سے دبایا اور اس نے بھی مجھے اسی طرح پوچھا۔ ابھی تھوڑا عرصہ گزرا ہو گا کہ میں نے ابوجہل کو لوگوں میں چکر لگاتے دیکھا۔ میں نے کہا دیکھو وہ ہے تمہارا ساتھی جس کے متعلق تم نے مجھ سے دریافت کیا تھا۔ یہ سنتے ہی وہ دونوں جلدی سے اپنی تلواریں لیے اس کی طرف لپکے اور اس پر حملہ کر کے دونوں نے اسے قتل کر ڈالا۔ پھر وہ دونوں لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپؐ کو خبر دی۔ آپؐ نے پوچھا تم میں سے کس نے اس کو مارا ہے۔ دونوں نے کہا میں نے اس کو مارا ہے۔ آپؐ نے پوچھا کیا تم نے اپنی تلواریں پونچھ کر صاف کر لی ہیں؟ انہوں نے کہا نہیں۔ آپؐ نے تلواروں کو دیکھ کر فرمایا کہ تم دونوں نے ہی اس کو مارا ہے۔ اس کا سامانِ غنیمت مُعَاذ بن عَمرِو بن جَمُوحؓ کو ملے گا اور ان دونوں کا نام معاذ تھا۔ مُعَاذ بن عَفْرَاءؓ اور مُعَاذ بن عَمرو بن جَمُوحؓ۔

(صحیح البخاری کتاب فرض الخمس باب من لم یخمس الاسلاب حدیث3141)

پہلے بھی شروع میں ایک دفعہ معاذ اور مُعَوَّذ کے واقعات کو بیان کر چکا ہوں اور یہاں پھر ابہام پیدا ہو سکتا ہے۔ اس لیے اس کے قتل کا جو واقعہ متفرق کتب حدیث میں اور سیرت میں بھی بیان ہوا ہے اور یہ جو بخاری سے بھی روایت بیان ہوئی ہے اس میں یہ ذکر ہے کہ حضرت مُعَاذ بن عَمرو بن جَمُوحؓ اور حضرت مُعَاذ بن عَفْرَاءؓنے ابوجہل پر حملہ کر کے اسے قتل کیا تھا اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے ابوجہل کا سر قلم کیا تھا۔ دوسری جگہ معاذ اور مُعَوَّذ کا ذکر ملتا ہے۔ بہرحال اس کے علاوہ بخاری میں ہی ایسی روایات بھی ہیں جن میں یہ ذکر ہے کہ ابوجہل کو عفراءکے دو بیٹوں معاذ اور مُعَوَّذ نے قتل کیا تھا اور بعد میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے جا کر اس کا کام تمام کیا۔ چنانچہ بخاری کی ایک روایت میں اس کی تفصیل یوں بیان ہوئی ہے:

حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگِ بدر کے دن فرمایا کون دیکھے گا کہ ابوجہل کا کیا حال ہوا ہے؟ حضرت ابن مسعودؓ گئے اور جا کر دیکھا کہ اس کو عفراء کے دونوں بیٹوں معاذ اور مُعَوَّذ نے تلواروں سے مارا ہے کہ وہ مرنے کے قریب ہو گیا ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ نے پوچھا کیا تم ابوجہل ہو؟ حضرت ابن مسعودؓ کہتے ہیں انہوں نے ابوجہل کی داڑھی پکڑی۔ ابوجہل کہنے لگا کیا اس سے بھی بڑھ کر کوئی شخص ہے جس کو تم نے مارا یایہ کہا کہ اس شخص سے بڑھ کر کوئی ہے جس کو اس کی قوم نے مارا ہو؟

(صحیح البخاری کتاب المغازی باب قتل ابی جہل حدیث 3962)

یہ دونوں روایتیں بخاری میں ہی ملتی ہیں ۔ دو نام معاذ کے آتے ہیں اور ایک جگہ معاذ اور مُعَوَّذ کے نام آتے ہیں ۔ ایک جگہ دونوں کی ولدیت مختلف ہے۔ ایک جگہ ایک ہی باپ کے دونوں بیٹے کہلاتے ہیں ۔
حضرت سید زین العابدین ولی اللہ شاہ صاحبؓ ابوجہل کے قاتلین کی کہ کس طرح اس کی تطبیق کی جائے،کس طرح اس کی وضاحت ہو ؟ اس کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ‘‘بعض روایات میں ہے کہ عفراءکے دو بیٹوں (مُعَوَّذؓ اور معاذؓ) نے ابوجہل کو موت کے قریب پہنچا دیا تھا۔ بعد ازاں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اس کا سر تن سے جدا کیا تھا۔ امام ابن حجر نے اس احتمال کا اظہار کیا ہے کہ معاذ بن عمروؓ اور مُعَاذ بن عَفْرَاءؓ کے بعد مُعَوَّذ بن عفراءؓنے بھی اس پر وار کیا ہو گا۔’’(صحیح بخاری جلد 5 صفحہ 491حاشیہ، اردو ترجمہ شائع کردہ نظارت اشاعت ربوہ)

اس لیے پہلی دو روایتوں میں ان دونوں بھائیوں کا بھی ذکر ملتا ہے۔ دوسری روایت میں دو مختلف لوگوں کا ذکر ملتا ہے اور جو شرح فتح الباری ہے اس میں لکھا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ تینوں ہی ہوں ۔ علامہ بدرالدین عینی ابوجہل کے قاتلین کی تطبیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ابوجہل کو مُعَاذ بن عَمرو بن جَمُوحؓ اور مُعَاذ بن عَفْرَاءؓ اور حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے قتل کیا تھا۔ حضرت عبداللہ نے اس کا سر قلم کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے۔

(عمدۃ القاری جلد 17 صفحہ 120، داراحیاء التراث العربی بیروت2003ء)

علامہ بدرالدین عینی مزید لکھتے ہیں کہ صحیح مسلم میں ہے کہ جن دونوں نے ابوجہل کو قتل کیا تھا وہ مُعَاذ بنِ عَمرو بن جَمُوحؓ اور مُعَاذ بن عَفْرَاءؓ ہیں ۔ مُعَاذ بن عَفْرَاء ؓ کے والد کا نام حارث بن رِفَاعَہ تھا اور عَفْرَاء ان کی ماں تھیں جو عُبَید بن ثَعْلَبَہ نجاریہ کی بیٹی تھیں ۔ اسی طرح بخاری کتاب الجہاد میں باب مَنْ لَّمْ یُخَمِّسِ الْاَسْلَابَ میں ذکر آ چکا ہے کہ حضرت مُعاذ بن عمَروؓتھے جنہوں نے ابوجہل کی ٹانگ کاٹی اور گرا دیا تھا ۔پھر مُعَوَّذ بن عَفْرَاء نے اس کو مارا یہاں تک کہ اس نے اس کو زمین پر گرا دیا۔پھر اس کو چھوڑ دیا جبکہ اس میں ابھی کچھ رمق باقی تھی، جان تھی۔ پھر حضرت عبداللہ بن مسعودؓنے اس پر کاری ضرب لگائی اور اس کا سر جدا کر دیا۔ پھر یہ لکھتے ہیں کہ اگر تُو کہے کہ ان تمام باتوں کو یوں اکٹھا بیان کرنے کی کیا ضرورت ہے تو میں یہ کہتا ہوں کہ شاید ابوجہل کا قتل ان سب کا کام تھا اس لیے اکٹھا کیا ہے۔

(عمدۃ القاری جلد 17 صفحہ 121-122 حدیث 3962 داراحیاء التراث العربی بیروت 2003ء)

زرقانی کی ایک روایت کے مطابق حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے جب ابوجہل کو دیکھا تو اس کو اس حال میں پایا کہ آخری سانس لے رہا تھا۔ اس پر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے اپنی ٹانگ ابوجہل کی گردن پر رکھ کر کہا کہ اے اللہ کے دشمن! اللہ نے تجھے رسوا کر دیا ہے۔ اس پر ابوجہل نے متکبرانہ انداز میں کہا میں تو کوئی رسوا نہیں ہوا۔ اور کیا تم نے مجھ سے بھی معزّز کسی اَور شخص کو قتل کیا ہے؟ یعنی مجھے تو اس میں کوئی عار محسوس نہیں ہو رہا۔ پھر ابوجہل نے پوچھا کہ مجھے بتاؤ کہ میدان کس کے ہاتھ میں رہا۔ فتح اور کامیابی کس کے ہاتھ میں رہی ؟ تو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے جواب دیا کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی فتح ہوئی۔

ایک دوسری روایت میں یہ بھی ہے کہ ابوجہل نے کہا کہ اُس یعنی حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات بھی کہنا کہ میں ساری زندگی اس کا دشمن رہا اور آج اس وقت بھی میں اس کی دشمنی اور عداوت میں انتہا تک ہوں ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ نے ابوجہل کا سر قلم کیا اور اس کا سر لے کر جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح میں اللہ کے نزدیک تمام نبیوں سے زیادہ معزّز اور مکرّم ہوں اور میری امت اللہ کے نزدیک باقی تمام امتوں سے زیادہ معزّز اور مکرّم ہے اسی طرح اس امت کا فرعون باقی تمام امتوں کے فراعین سے زیادہ سخت اور متشدّد ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَدۡرَکَہُ الۡغَرَقُ ۙ قَالَ اٰمَنۡتُ اَنَّہٗ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا الَّذِیۡۤ اٰمَنَتۡ بِہٖ بَنُوۡۤا اِسۡرَآءِیۡلَ (یونس:91)قرآن شریف میں سورۂ یونس میں آیا ہےکہ جب اسے غرقابی نے آ لیا تو اس نے کہا مَیں ایمان لاتا ہوں کہ کوئی معبود نہیں مگر وہ جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے۔ جبکہ اس امت کا فرعون دشمنی اور کفر میں بہت بڑھ کر ہے۔ جس طرح کہ مرتے ہوئے ابوجہل کی باتوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ روایات میں یہ بھی ذکر ملتا ہے کہ ابوجہل کی ہلاکت کی خبر ملنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہل کا سر دیکھنے پر فرمایا کہ اَللّٰہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۔ کہ اللہ وہ ذات ہے جس کے سوا اَور کوئی معبود نہیں ۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ یہ فرمایا اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ أَعَزَّ الْاِسْلَامَ وَأَھْلَہٗکہ ہر قسم کی تعریف کا مستحق اللہ ہے جس نے اسلام اور اس کے ماننے والوں کو عزت دی۔ اسی طرح یہ ذکر بھی ملتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یقیناً ہر امت کا ایک فرعون ہوتا ہے اور اس امت کا فرعون ابوجہل تھا جسے اللہ تعالیٰ نے بہت ہی برے انداز میں قتل کروایا۔

(شرح الزرقانی علی المواھب اللدنیۃ جلد 2 صفحہ 297-298دارالکتب العلمیۃ بیروت 1996ء)

حضرت مُعَاذ بن عَمرو بن جَمُوحؓکی وفات حضرت عثمانؓ کے دور میں ہوئی۔

(الاصابہ فی تمییز الصحابہ جلد 6 صفحہ 114، معاذ بن عمرو بن جَمُوْح، دارالکتب العلمیۃ بیروت1995ء)

خلیفہ بن خَیَّاطْ بیان کرتے ہیں کہ مُعَاذ بن عَمرو بن جَمُوحؓ کو بدر کے دن ایک زخم لگا تھا۔ آپؓ اس کے بعد حضرت عثمانؓ کے زمانہ تک علیل رہے ۔پھر مدینہ میں وفات پائی۔ حضرت عثمانؓ نے آپؓ کا جنازہ پڑھا اور آپؓ جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔حضرت ابوہریرۃؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مُعَاذ بن عَمرو بن جَمُوحؓ کیا ہی اچھا شخص ہے۔

(المستدرک علی الصحیحین للحاکم جلد4 صفحہ140-141 ،ذکر مناقب معاذ بن عمرو بن الجَمُوْح حدیث5895-5897 دارالفکر بیروت 2002ء)

اللہ تعالیٰ ہزاروں ہزار رحمتیں نازل فرمائے ان لوگوں پر جو اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیبؐکیمحبت میں ڈوب کر ان کی رضا کو حاصل کرنے والے بنے۔

نماز کے بعد میں ایک جنازہ غائب بھی پڑھاؤں گا جو مکرم ملک سلطان ہارون خان صاحب کا ہے جن کی 27؍ مارچ کو اسلام آباد میں وفات ہوئی تھی۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ ان کے بڑے بیٹے حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے داماد بھی ہیں۔چھوٹی بیٹی سے بیاہے ہوئے ہیں ۔ ملک سلطان ہارون صاحب پیدائشی احمدی تھے۔ ان کے والد کا نام کرنل ملک سلطان محمد خان صاحب تھا جنہوں نے 23؍ سال کی عمر میں 1923ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی اور اپنے خاندان میں اکیلے احمدی تھے۔ پھر ان کی شادی حضرت مصلح موعودؓ نے ہی محترمہ عائشہ صدیقہ صاحبہ بنت چوہدری فتح محمد صاحب سیال کے ساتھ کروائی۔ اور یہ خاندان پنجاب کے معزّز خاندانوں میں سے اور بڑے نواب خاندانوں میں سے تھا۔ ملک امیر محمد خان جو مغربی پاکستان کے گورنر رہے ہیں، نواب کالا باغ کے نام سے مشہور تھے وہ ان کے والد کرنل ملک سلطان محمد صاحب کے، چچا زاد بھائی تھے۔ ان کے دادا کا نام ملک سلطان سرخرو خان تھا ۔ اور ان دنوں میں برطانوی بادشاہت تھی جب انڈیا اور پاکستان کالونی تھے ۔ ان کو نوابی کی وجہ سے بادشاہ کے ہاں ایک مقام بھی حاصل تھا۔ ان کواپنے بیٹے ملک سلطان محمد خان صاحب کے چار سال بعد احمدیت قبول کرنے کی توفیق نصیب ہوئی۔ باوجود اس کے کہ دنیادار لوگ تھے لیکن سعادت تھی، فطرت تھی کہ دین کی طرف رجحان ہوا اور اللہ تعالیٰ نے اس سعادت کی وجہ سے ان کو احمدیت قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔

سلطان ہارون خان صاحب کی شادی صبیحہ حمید صاحبہ بنت چوہدری عبدالحمید صاحب ، جو واپڈا میں جی۔ایم ہوتے تھے، ان کی بیٹی کے ساتھ ہوئی۔ خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ان کا نکاح پڑھایا تھا اور خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے یہ بھی فرمایا کہ چوہدری فتح محمد صاحب سیالؓ جو انگلستان مشن کے بانی تھے، پہلے مبلغ تھے ان کے بارے میں نکاح کے وقت یہ بھی فرمایا کہ چوہدری فتح محمد صاحب سیالؓ میرے محترم بزرگ تھے اور ان کا مجھ پر بہت احسان تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے فرمایا کہ مجھے میری چھوٹی عمر میں اور ناتجربہ کاری کی عمر میں اپنے ساتھ لے جا کر میرے تجربے میں بڑی وسعت کے مواقع پیدا کیے اور دیہات میں رہنے والوں کے لیے میرے دل میں جو لگاؤ پوشیدہ تھا اس لگاؤ کو ظاہر ہونے کا موقع بھی مجھے چوہدری فتح محمد سیال کے ساتھ رہنے کی وجہ سے ملا۔ یہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ فرما رہے ہیں ۔ فرماتے ہیں کہ اب بھی میں ایک سادہ دیہاتی سے ، جب میری اس سے ملاقات ہو ، بے تکلف بات کرنے میں خوشی محسوس کرتاہوں اور وہ خوشی میں ایک شہری سے ملاقات کے وقت محسوس نہیں کرتا کیونکہ شہریوں کو تکلف کی عادت ہوتی ہے اور ان کی اس عادت کی وجہ سے ان سے ملاقات کے وقت بغیر جانے بوجھے ہم بھی تکلّف کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ فرماتے ہیں کہ بہرحال آج میرے اس محسن بزرگ کے نواسے ملک سلطان ہارون خان ابن کرنل سلطان محمد خان کی شادی ہے اور نکاح ہے میں اس کا اعلان کروں گا۔ اور پھر فرمایا کہ دوست دعا کریں کہ جس طرح ہمارے بڑوں نے بے لَوث اور بے نفس خدمت خدا کے دین کی کی ہے وہی جذبہ خدمت کا اور وہی جذبہ ایثار و قربانی کا ان کی نسلوں میں بھی قائم رہے اور بڑا نمایاں رہے۔(ماخوذ ازخطبات ناصر جلد10 صفحہ437،440)

اللہ تعالیٰ کرے کہ آج جو اُن کی وفات سے یہ ذکر ہو گیا ہے تو ملک ہارون صاحب مرحوم کی اولاد بھی احمدیت اور خلافت کے ساتھ اسی تعلق کو نہ صرف قائم رکھنے والی بلکہ مضبوط کرنیو الی ہو۔ ان کے تین بیٹےاور تین بیٹیاں ہیں اور جیسا کہ کہا کہ بڑے بیٹے سلطان محمد خان جو ہیں وہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کے داماد ہیں ۔

علاقے کے غریب عوام کی خاص طور پر مستحق عورتوں کی بڑی خدمت کرتے تھے۔ ان سے بڑا حسن سلوک تھا۔ عورتوں نے بیان کیا ہے کہ ملک صاحب کی زندگی میں ہم علاقے میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتی تھیں اور اب ان کی وفات کے بعد ہمیں ڈر محسوس ہونے لگا ہے۔ اٹک کے علاقے میں ہے، دشمنی بھی وہاں بہت ہے اور سخت دلی بھی وہاں بہت ہے اور غریبوں کو تو کوئی حق دیا ہی نہیں جاتا لیکن باوجود اس کے کہ بڑے زمیندار تھے اور علاقے کے معزز تھے غریبوں کی بڑی خدمت کیا کرتے تھے۔

ان کی بہن راشدہ سیال صاحبہ ، جو کینیڈا میں ہیں ، کہتی ہیں کہ سلطان ہارون خان میرا بھائی بہت خوبیوں کا مالک تھا۔ احمدیت کے لیے انتہائی غیرت رکھنے والا، خلافت کے لیے جان قربان کرنے والا ، دوستوں کا سچا دوست اور دشمنوں پر بھاری، غرباء اور مساکین کا سہارا تھا۔ کہتی ہیں ایک دفعہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے مجھے ایک خط میں تحریر فرمایا کہ تمہارے ابا (کرنل سلطان محمد خان صاحب) احمدیت کے لیے ایک ننگی تلوار تھے۔ اور تمہارے بھائیوں میں بھی یہی رنگ پایا جاتا ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے ایک دفعہ ان کو فرمایا تھا، اس علاقے میں ان کی بڑی دشمنی تھی۔ اس علاقے کی دشمنی کا عموماً رواج بھی ایسا ہے ۔بعض جائیدادوں کی وجہ سے بھی دشمنی ہوتی ہے۔ پھر احمدیت کی وجہ سے بھی دشمنی ہوتی تھی تو خلیفہ ثالثؒ نے انہیں کہا کہ گولیاں آئیں گی لیکن اوپر سے گزر جائیں گی ۔ تمہیں انشاء اللہ کچھ نہیں ہو گا۔ یہ لکھتی ہیں خلیفہ ثالثؒ کے اس قول کو پورا ہوتے ہوئے ہم نے دیکھا ہے۔ 1977ء میں فتح جنگ پولیس سٹیشن پر آپ پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ ملک سلطان ہارون پر گولیاں چلیں اور سر کے بالوں کو جھلساتے ہوئے گزر گئیں لیکن آپ کو کوئی خراش تک نہیں آئی اور اللہ تعالیٰ نے اعجازی رنگ میں محفوظ رکھا۔ غرباء اور مساکین کے لیے بہت سخی تھے۔یہ لکھتی ہیں کمزوروں اور بے سہارا لوگوں کے لیے سہارا تھے۔

آپ کے بڑے بھائی ملک سلطان رشید خان صاحب کہتے ہیں کہ ہمارے ابا جان مرحوم کے بعد ہمارےگھرانے کے اصل سردار وہی تھے۔ میری ہر کوشش کے باوجود جب بھی سلسلے کا کوئی کام ہوتا وہ ہمیشہ خاکسار سے آگے بڑھ جاتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام خلفائے کرام اور سلسلےکے سچے عاشق تھے۔ ایک دفعہ 1974ء کے واقعات کے بعد میرے سامنے ایک بڑے آفیسر نے ان سے کہا کہ آپ اپنے حضرت صاحب پر ایمان کی کیا حالت پاتے ہیں تو پنجابی میں انہیں کہنے لگے کہ ‘لوہے ورگا’ یعنی خلافت پر میرا ایمان لوہے کی طرح مضبوط ہے ۔حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی ہجرت کے سفر میں کراچی تک ہم رکاب تھے، ان کو ساتھ شامل ہونے کا موقع ملا اور رشید صاحب لکھتے ہیں کہ میرے پاس جو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کے خطوط محفوظ ہیں ان میں سے ایک خط میں حضور نے، حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے انہیں ‘احمدیت کا جرنیل’ اور دوسری جگہ ‘احمدیت کے لیے عشق اور غیرت کی ننگی تلوار’ قرار دیا۔ جہاں تک رات کے نوافل اور قرآن کریم کا تعلق ہے رشید صاحب لکھتے ہیں کہ بہت کم لوگوں کو اس کا علم ہو گا کیونکہ اس کا ذکر بالکل نہیں کرتے تھے لیکن دونوں چیزوں میں بے حد باقاعدہ تھے۔ ان کے بڑے بھائی لکھتے ہیں کہ شاید مجھے بھی پتا نہ لگتا اگر 2016ء میں میری شدید بیماری میں ہم دونوں ایک ہی کمرے میں چار ماہ تک اکٹھے نہ رہے ہوتے۔ ان دنوں میرے لیے اٹھنا بیٹھنا مشکل تھا۔ایک کمرے میں میری تیمارداری کرنے کے لیےمیرے ساتھ رہتے تھے تو پھر میں نے ان کی تلاوت اور نوافل کی باقاعدگی دیکھی جو قابلِ قدر تھی۔ کہتے ہیںمیں نے ان کو کہا کہ میرے لیے ایک آدھ ملازم رکھ لیتے ۔ آپ جو تکلیف کرتے ہیں تو ملازم رکھ لیتے ہیں۔ وہ میری خدمت کر دیا کرے گا تو انہوں نے کہا کہ جب میں آپ کے پاس موجود ہوں تو ملازم کی کیا ضرورت ہے۔

پھر رشید صاحب لکھتے ہیں کہ بڑے نافع الناس وجود تھے۔ نو دس سکول بنوائے۔ پھر اگر کبھی ایسا موقع آیا کہ آمد زیادہ نہیں ہوئی اور سکول کے لیے دے نہیں سکے تو ایک موقع پر انہوں نے خود مزدوروں کے ساتھ مزدوری بھی کی اور مزدوروں کو کہا کہ تمہارے سے زیادہ میں کام کرتا ہوں ۔ یہ کوئی احساس نہیں تھا کہ میں کسی نواب کا بیٹا ہوں یا علاقے کا بڑا زمیندار ہوں۔

ان کی بیٹی محمودہ سلطانہ کاشف لکھتی ہیں کہ میرے ابو جی کا خلافت کے ساتھ عشق اور وفاداری تو کوئی پوشیدہ چیز نہیں۔ ہوش سنبھالتے ہی اپنے والد سے جو سبق اٹھتے بیٹھتے ملا وہ یہ تھا کہ خدا تعالیٰ پر ہمیشہ توکل رکھنا ہے اور زندگی کے ہر معاملے میں ہمیشہ دعا سے کام لینا ہے۔ دعا نہیں تو کچھ نہیں ۔ خدا تعالیٰ پر بے انتہا بھروسا رکھتے تھے۔ انتہائی دلیر اور بہادر انسان تھے ۔ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے تھے۔ خدمت ِخلق میں سرشار رہتے تھے ۔

اسی طرح ان کے بیٹے سلطان محمدخان کہتے ہیں کہ میرے باپ نے بہت سارا سوشل ورک کیا ہے۔ آٹھ سکولوں کی تعمیر کروائی اور دو قبرستانوں کے لیے زمین دی۔آٹھ سکولوں کے لیے زمین بھی دی۔ بےشمار لوگوں کو، غریبوں کو نوکریاں دلوائیں اور ان کے کام آتے رہے۔ اللہ تعالیٰ ان سے رحمت اور مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان کی اولاد کو بھی نیکیوں پر قائم فرمائے اور جماعت اور خلافت سے وابستہ رکھے۔ جنازہ جیسا کہ میں نے کہا نماز کے بعد پڑھاؤں گا۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button