خطاب حضور انور

جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا اختتامی خطاب

(امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بںصرہ العزیز)

قادیان دار الامان میں جماعت احمدیہ مسلمہ عالمگیر کے جلسہ سالانہ کے موقع پر 30دسمبر2018ء بروز اتوار امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا طاہر ہال بیت الفتوح لندن سے ایم ٹی اے کے مواصلاتی رابطوں کے ذریعہ براہ راست اختتامی خطاب

(اس خطاب کا متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ﴿۱﴾
اَلۡحَمۡدُ لِلّٰہِ رَبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ ۙ﴿۲﴾ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ ۙ﴿۳﴾ مٰلِکِ یَوۡمِ الدِّیۡنِ ؕ﴿۴﴾ اِیَّاکَ نَعۡبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسۡتَعِیۡنُ ؕ﴿۵﴾
اِہۡدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ۙ﴿۶﴾ صِرَاطَ الَّذِیۡنَ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡہِمۡ ۬ۙ غَیۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَیۡہِمۡ وَ لَا الضَّآلِّیۡنَ ٪﴿۷﴾

آج اس سال کے جلسہ سالانہ قادیان کا یہ آخری دن ہے اور آخری سیشن ہے۔ اور اس وقت دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے تقریباً اٹھارہ انیس ہزار احمدی اس بستی میں جمع ہیں جو زمانے کے امام اور مسیح موعود اور مہدی معہود کی بستی ہے۔ وہ مسیح موعود اور مہدی معہود جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی اور اللہ تعالیٰ کے وعدے کے مطابق اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے لائے دین کی تجدید کے لیے مبعوث ہوئے۔ آپ نے جہاں اسلام کی خوبصورت تعلیم کے مطابق بندے کو خدا تعالیٰ کے قریب کرنے کے راستے دکھائے اور قرآن کریم کی خوبصورت تعلیم کو دنیا پر واضح فرمایا وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اور عظیم الشان مقام کے بارے میں دنیا کو بتا کر نہ صرف سعید فطرت اور غیروں کے اسلام پر حملوں سے پریشان مسلمانوں کے ایمانوں کو مضبوط کیا بلکہ ہر مخالف اسلام اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات پر اعتراض کرنےوالے کا منہ بند کروایا اور مخالفین اسلام کو آپ کے دلائل سے پُر حملوں سے فرار کا راستہ اختیار کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔ آپ علیہ السلام کا عشق رسولؐ کا وہ مقام تھا جہاں تک کوئی نہیں پہنچا اور نہ پہنچ سکتا ہے۔ اسی عشق کی کیفیت اور اللہ تعالیٰ کے اس وجہ سے آپ سے سلوک اور انعامات کی بارش کا ذکر کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:

‘‘ایک رات اس عاجز نے اس کثرت سے درود شریف پڑھا کہ دل و جان اس سے معطر ہوگیا۔ اسی رات خواب میں دیکھا کہ آب زلال کی شکل پر نور کی مشکیں اس عاجز کے مکان میں لیے آتے ہیں۔’’ صاف اور مصفّٰی پانی کی مشکیں لے کر آئے ہیں ‘‘اور ایک نے ان میں سے کہا کہ یہ وہی برکات ہیں جو تو نے محمد کی طرف بھیجی تھیں صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم۔’’ پھر فرماتے ہیں کہ ‘‘… ایک مرتبہ الہام ہوا جس کے معنے یہ تھے کہ ملاء اعلیٰ کے لوگ خصومت میں ہیں یعنی ارادۂ الٰہی احیائے دین کے لیے جوش میں ہے لیکن ہنوز ملا ء اعلیٰ پر شخص محیی کی تعین ظاہر نہیں ہوئی اس لیے وہ اختلاف میں ہے۔’’ فرمایا کہ ‘‘اسی اثنا میں خواب میں دیکھا کہ لوگ ایک محیی کو تلاش کرتے پھرتے ہیں اور ایک شخص اس عاجز کے سامنے آیا اور اشارہ سے اُس نے کہا ھٰذَا رَجُلٌ یُحِبُّ رَسُوْلَ اللّٰہ۔ یعنی یہ وہ آدمی ہے جو رسول اللہ سے محبت رکھتا ہے اور اس قول سے یہ مطلب تھا کہ شرط اعظم اس عہدہ کی محبت رسول ہے۔ سو وہ اِس شخص میں متحقق ہے’’،پائی جاتی ہے۔ (براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد 1صفحہ 598 حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)

آپؑ فرماتے ہیں پس اللہ تعالیٰ نے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے مجھے یہ مقام عطا فرمایا۔ اور آپ کی یہ باتیں سن کر ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسے عاشق صادق اور اسلام کے احیائے نو کے لیے بھیجے گئے اس فرستادے کا مسلمان عمومی طور پر اور علماء ساتھ دیتے لیکن علماء نے یا یہ کہنا چاہیے کہ نام نہاد علماء نے اپنی دلی سختی اور جہالت اور بغض کی وجہ سے آپ پر یہ الزام لگانا شروع کر دیا اور اب تک لگاتے چلے جا رہے ہیں کہ نعوذ باللہ آپؑ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو کم کرنے والے ہیں لہٰذا کافر ہیں اور آپؑ کے ماننے والے بھی کافر ہیں۔ لیکن اس کے برعکس جب ہم آپؑ کے عشق رسولؐ کے بارے میں بے شمار تحریرات دیکھتے ہیں، عربی فارسی اور اردو میں آپؑ کی کتب، ارشادات اور منظوم کلام کو دیکھتے ہیں تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ آپ علیہ السلام کے آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے عشق و محبت کے مقام تک کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ آپ کا ہر ہر لفظ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے عشق میں فنا ہونے کا ثبوت ہے اور یہی بات جب نیک فطرت علماء (علماء میں سے بھی نیک فطرت ہیں، مختلف ممالک میں بھی ہیں) اور عام مسلمانوں پر ظاہر ہوتی ہے تو آپ علیہ السلام کی بیعت میں آ جاتے ہیں آپؑ کی غلامی میں آتے ہیں اور اس طرح حقیقی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں آتے ہیں۔ آپ علیہ السلام اپنے ایک فارسی کلام میں فرماتے ہیں، ایک شعر ہے کہ

‘‘بعد از خدا بعشق محمدؐ مخمرم گر کفر ایں بود بخدا سخت کافرم’’

(ازالہ اوہام حصہ اوّل،روحانی خزائن جلد 3صفحہ 185)

کہ میں تو خدا تعالیٰ کے عشق کے بعد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے عشق میں ڈوبا ہوا ہوں۔ اگر خدا تعالیٰ اور اس کے رسولؐ سے یہ عشق کفر ہے تو خدا کی قسم میں سب سے بڑا کافر ہوں۔ اسی طرح آپؑ کا عربی کلام قصائد کی شکل میں بھی ایسا ہے جسے پڑھ کر عرب بھی سر دھنتے ہیں کہ ایسا عشق و محبت سے سرشار کلام آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کی مدح میں ہم نے نہ کبھی پڑھا ہے نہ سنا۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ دنیا کے مسلمان اس عاشق رسولؐ کو پہچانیں اور مسلمان مصلحت کی وجہ سے یا علماء (علمائے سوء کہنا چاہیے) کے خوف کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے اس عاشق رسولؐ کے انکار سے اللہ تعالیٰ کی ناراضگی مول لینے والے نہ بنیں۔

علمائے سوء پہ ایک مجھے لطیفہ بھی یاد آ گیا۔ گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک مولانا احمدیوں کے خلاف بھی بول رہے تھے اور کفر کے فتوے بھی لگا رہے تھے اور اپنی جہالت کی وجہ سے یا اپنے بولنے کی رَو میں یہ بھی فرما دیا انہوں نے اور کئی دفعہ کہا کہ فلاں مولانا جو ہمارے بڑے مولوی ہیں اور علمائے سوء میں ان کا شمار ہوتا ہے انہوں نے بھی یہ فتویٰ دیا ہوا ہے کہ یہ (احمدی) کافر ہیں۔ بہرحال ان کا شکریہ۔ ہم تو پہلے ہی کہتے ہیں کہ یہ فتوے علمائے سوء کے ہی ہیں، کوئی حقیقی عالم ایسے فتوے نہیں دے سکتا۔ بہرحال چاہے یہ کہیں یا نہ کہیں اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کے خلاف فتوے دے کر ان کا شمار علمائے سوء میں ہی ہوتا ہے۔

اس وقت میں اس عاشق رسولؐ کی آپ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم کے عشق اور محبت میں بیان کی ہوئی باتیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام و مرتبہ اور شان دکھانے والی بعض تحریرات پیش کروں گا جس کا ہر ہر لفظ احمدیوں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو کافر کہنے والوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔

اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ سب نبیوں سے افضل نبی اور دنیا کے مربی اعظم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی ہیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

‘‘اصل حقیقت یہ ہے کہ سب نبیوں سے افضل وہ نبی ہے کہ جو دنیا کا مربی اعظم ہے یعنی وہ شخص کہ جس کے ہاتھ سے فسادِ اعظم دنیا کا اصلاح پذیر ہوا جس نے توحیدِ گم گشتہ اور ناپدید شدہ کو پھر زمین پر قائم کیا۔’’ وہ توحید جو دنیا سے گم ہو گئی تھی، جس کا نام و نشان نہیں تھا اس کو قائم کیا ‘‘جس نے تمام مذاہب باطلہ کو حجت اور دلیل سے مغلوب کر کے ہر یک گمراہ کے شبہات مٹائے۔ جس نے ہر یک ملحد کے وسواس دور کیے اور سچا سامان نجات کا … اصولِ حقّہ کی تعلیم سے از سرِ نو عطا فرمایا۔’’ فرماتے ہیں ‘‘پس اس دلیل سے کہ اس کافائدہ اور افاضہ سب سے زیادہ ہے اس کا درجہ اور رتبہ بھی سب سے زیادہ ہے۔ اب تواریخ بتلاتی ہے۔ کتاب آسمانی شاہد ہے اور جن کی آنکھیں ہیں وہ آپ بھی دیکھتے ہیں کہ وہ نبی جو بموجب اس قاعدہ کے سب نبیوں سے افضل ٹھہرتا ہے وہ حضرت محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔’’

(براہین احمدیہ حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 1صفحہ 97 حاشیہ نمبر 6)

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صدق اور آپؐ کی افضلیت کی ایک دلیل دیتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس زمانہ میں مبعوث ہوئے تھے کہ جب تمام دنیا میں شرک اور گمراہی اور مخلوق پرستی پھیل چکی تھی اور تمام لوگوں نے اصول حقہ کو چھوڑ دیا تھا اور صراط مستقیم کو بھول بھلا کر ہر یک فرقہ نے الگ الگ بدعتوں کا راستہ لے لیا تھا۔ عرب میں بت پرستی کا نہایت زور تھا۔ فارس میں آتش پرستی کا بازار گرم تھا۔ ہند میں علاوہ بت پرستی کے اور صدہا طرح کی مخلوق پرستی پھیل گئی تھی۔ اور انہیں دنوں میں کئی پوران اور پستک کہ جن کے رو سے بیسیوں خدا کے بندے خدا بنائے گئے اور اَوتار پرستی کی بنیاد ڈالی گئی تصنیف ہو چکی تھی اور بقول پادری بورٹ صاحب…’’یہاں سہو کتابت لگتی ہے۔ اصل نام ہے جان ڈیون پورٹ (John Davenport)، فرماتے ہیں ‘‘اور کئی فاضل انگریزوں کے ان دنوں میں عیسائی مذہب سے زیادہ اور کوئی مذہب خراب نہ تھا۔ اور پادری لوگوں کی بدچلنی اور بداعتقادی سے مذہب عیسوی پر ایک سخت دھبہ لگ چکا تھا اور مسیحی عقائد میں نہ ایک نہ دو بلکہ کئی چیزوں نے خدا کا منصب لے لیا تھا۔ پس آنحضرتؐ کا ایسی عام گمراہی کے وقت میں مبعوث ہونا کہ جب خود حالت موجودہ زمانہ کی ایک بزرگ معالج اور مصلح کو چاہتی تھی اور ہدایت ربّانی کی کمال ضرورت تھی اور پھر ظہور فرما کر ایک عالم کو توحید اور اعمال صالحہ سے منور کرنا اور شرک اور مخلوق پرستی کا جو اُمّ الشّرور ہے قلع قمع فرمانا اس بات پر صاف دلیل ہے کہ آنحضرتؐ خدا کے سچے رسول اور سب رسولوں سے افضل تھے۔’’

(براہین احمدیہ حصہ دوم ،روحانی خزائن جلد 1صفحہ 112-113 حاشیہ نمبر 10)

ایک طرف تو توحید اور اعمال صالحہ کو قائم کیا اور دوسری طرف جو مخلوق پرستی اور شرک تھا اس کو مٹایا۔ فرمایا کہ یہ چیزیں جو ہیں یہ ہر قسم کے شروں کی ماں ہیں۔ خود پادری جو ہیں انہوں نے اس کو تسلیم کیا کہ اس زمانے میں یہ شرک اس طرح پھیلا ہوا تھا جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے۔
پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے انوار کو حاصل کرنے والے تھے اور تمام انبیاء سے اس بارے میں کامل تھے، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

‘‘چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پاک باطنی و انشراح صدری وعصمت و حیا و صدق و صفا و توکل و وفا اور عشق الٰہی کے تمام لوازم میں سب انبیاءسے بڑھ کر اور سب سے افضل و اعلیٰ و اکمل و ارفع و اجلیٰ و اصفا تھے اس لیے خدائے جلّشانہٗ نے ان کو عطر کمالاتِ خاصّہ سے سب سے زیادہ معطّر کیا۔’’ وہ تمام کمال جو ایک انسان میں ہو سکتے تھے ان میں سب سے زیادہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو معطر کیا، وہ خوشبو آپؐ میں پیدا کی ‘‘اور وہ سینہ اور دل جو تمام اولین وآخرین کے سینہ ودل سے فراخ تر و پاک تر و معصوم تر و روشن تر و عاشق تر تھا وہ اسی لائق ٹھہرا کہ اُسپر ایسی وحی نازل ہو کہ جو تمام اولین و آخرین کی وحیوں سے اقویٰ و اکمل و ارفع و اتمّ ہو کر صفاتِ الٰہیہ کے دکھلانے کے لیے ایک نہایت صاف اور کشادہ اور وسیع آئینہ ہو۔’’ ایسی وحی نازل ہوئی جو کمال تک پہنچی ہوئی ہے، جو بلند ترین مقام تک پہنچی ہوئی ہے اور جو کامل اور مکمل ہے تا کہ صفات الٰہیہ، اللہ تعالیٰ کی صفات دکھائی جائیں اور آپؑ فرماتے ہیں کہ دکھانے کا ایک آئینہ تھا۔ آپؐ پر وہ وحی اتری اور پھر وہاں سے ریفلیکٹ(reflect) ہو کر دنیا میں پہنچی۔ فرمایا ‘‘سو یہی وجہ ہے کہ قرآن شریف ایسے کمالات عالیہ رکھتا ہے جو اس کی تیز شعاؤںا ور شوخ کرنوں کے آگے تمام صحف سابقہ کی چمک کالعدم ہو رہی ہے۔ کوئی ذہن ایسی صداقت نکال نہیں سکتا جو پہلے ہی سے اس میں درج نہ ہو۔ کوئی فکر ایسے برہانِ عقلی پیش نہیں کر سکتا جو پہلے ہی سے اُس نے پیش نہ کی ہو۔’’ یعنی ہر چیز قرآن کریم میں موجود ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوا۔ ‘‘کوئی تقریر ایسا قوی اثر کسی دل پر ڈال نہیں سکتی جیسے قوی اور پُربرکت اثر لاکھوں دلوں پر وہ ڈالتا آیا ہے۔’’ جو قرآن کریم کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ‘‘وہ بلا شبہ صفات کمالیّہ حق تعالیٰ کا ایک نہایت مصفّٰی آئینہ ہے جس میں سے وہ سب کچھ ملتا ہے جو ایک سالک کو مدارج عالیہ معرفت تک پہنچنے کے لیے درکار ہے۔ ’’

(سرمہ چشم آریہ،روحانی خزائن جلد 2صفحہ 71-72حاشیہ)

حضرت امام جماعت احمدیہ خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز جلسہ سالانہ قادیان 2018ء کے اختتامی اجلاس سے خطاب فرما رہے ہیں

پس یہ ہے آپؑ کا نکتہ نظر۔ اس تعلیم سے باہر کوئی چیز ہے ہی نہیں۔ تو پھر کس طرح یہ الزام لگایا جا سکتا ہے کہ نعوذ باللہ آپؑ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے درجہ کو کم کرنے والے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جڑنے سے ہی مل سکتی ہے، آپؐ پر اتری ہوئی شریعت کو سمجھنے سے ہی مل سکتی ہے۔

پھر یہ بیان فرماتے ہوئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی جو قوی الاثر قوت قدسیہ تھی وہی چیز تھی جس نے صحابہ کرامؓ کی روحانی ترقی کو بلند مقام تک پہنچایا۔ آپؑ فرماتے ہیں:

‘‘یہ بات کسی سمجھدار پر مخفی نہیں ہو گی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا زاد بوم’’ یعنی وطن، پیدائش کی جگہ ‘‘ایک محدود جزیرہ نما ملک ہے جس کو عرب کہتے ہیں جو دوسرے ملکوں سے ہمیشہ بے تعلق رہ کر گویا ایک گوشۂ تنہائی میں پڑا رہا ہے۔ اس ملک کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے بالکل وحشیانہ اور درندوں کی طرح زندگی بسر کرنا اور دین اور ایمان اور حق اللہ اور حق العباد سے بے خبر محض ہونا اور سینکڑوں برسوں سے بت پرستی و دیگر ناپاک خیالات میں ڈوبے چلے آنا اور عیّاشی اور بدمستی اور شراب خواری اور قمار بازی وغیرہ فسق کے طریقوں میں انتہائی درجہ تک پہنچ جانا اور چوری اور قزّاقی اور خون ریزی اور دختر کُشی’’ یعنی بچوں کو، لڑکیوں کو قتل کر دینا ‘‘اور یتیموں کا مال کھا جانے اور بیگانہ حقوق دبا لینے کو کچھ گناہ نہ سمجھنا۔ غرض ہر یک طرح کی بری حالت اور ہر یک نوع کا اندھیرا اور ہر قسم کی ظلمت و غفلت عام طور پر تمام عربوں کے دلوں پر چھائی ہوئی ہونا ایک ایسا واقعہ مشہور ہے کہ کوئی متعصّب مخالف بھی بشرطیکہ کچھ واقفیت رکھتا ہو اس سے انکار نہیں کر سکتا۔’’ فرماتے ہیں ‘‘اور پھر یہ امر بھی ہریک منصف پر ظاہر ہے۔’’ جو انصاف سے کام لینے والا ہے اس پر یہ ظاہر ہے ‘‘کہ وہی جاہل اور وحشی اور یاوہ اور ناپارسا طبع لوگ اسلام میں داخل ہونے اور قرآن کو قبول کرنے کے بعد’’ وحشی اور ناپارسا لوگ اسلام میں داخل ہونے اور قرآن کو قبول کرنے کے بعد ‘‘کیسے ہو گئے اور کیونکر تاثیرات کلام الٰہی اور صحبت نبی معصومؐ نے بہت ہی تھوڑے عرصہ میں ان کے دلوں کو یک لخت ایسا مبدّل کر دیا’’ ایسا تبدیل کیا ‘‘کہ وہ جہالت کے بعد معارف دینی سے مالا مال ہو گئے اور محبّتِ دنیا کے بعد الٰہی محبّت میںایسے کھوئے گئے۔’’ پہلے تو دنیا کی محبت تھی لیکن اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی محبت میں ایسے کھو گئے ‘‘کہ اپنے وطنوں اپنے مالوں اپنے عزیزوں اپنی عزتوں اپنی جان کے آراموں کو اللہ جل شانہٗ کے راضی کرنے کے لیے چھوڑ دیا۔ چنانچہ یہ دونوں سلسلے ان کی پہلی حالت اور اس نئی زندگی کے جو بعد اسلام انہیں نصیب ہوئے قرآن شریف میں ایسی صفائی سے درج ہیں کہ ایک صالح اور نیک دل آدمی پڑھنے کے وقت بے اختیار چشم پُرآب ہو جاتا ہے۔ پس وہ کیا چیز تھی جو ان کو اتنی جلدی ایک عالم سے دوسرے عالم کی طرف کھینچ کر لے گئی۔ وہ دو ہی باتیں تھیں۔ ایک یہ کہ وہ نبی معصومؐ اپنی قوت قدسیہ میں نہایت ہی قوی الاثر تھا ایسا کہ نہ کبھی ہوا اور نہ ہو گا۔ دوسری خدائے قادرومطلق حيّ وقیّوم کے پاک کلام کی زبردست اور عجیب تاثیریں تھیں کہ جو ایک گروہ کثیر کو ہزاروں ظلمتوں سے نکال کر نور کی طرف لے آئیں۔ بلا شبہ یہ قرآنی تاثیریں خارق عادت ہیں۔’’ غیر معمولی ہیں ‘‘کیونکہ کوئی دنیا میں بطور نظیر نہیں بتلا سکتا کہ کبھی کسی کتاب نے ایسی تاثیر کی۔ کون اس بات کا ثبوت دے سکتا ہے کہ کسی کتاب نے ایسی عجیب تبدیل و اصلاح کی جیسی قرآن شریف نے کی۔’’ (سرمہ چشم آریہ ،روحانی خزائن جلد 2صفحہ 76 تا 78 حاشیہ)

پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ جو نور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا وہ اور کسی کو نہیں ملا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

‘‘وہ اعلیٰ درجہ کا نور جو انسان کو دیا گیا یعنی انسان کامل کو وہ ملایک میں نہیں تھا۔ نجوم میں نہیں تھا۔ قمر میں نہیں تھا۔ آفتاب میں بھی نہیں تھا۔ وہ زمین کے سمندروں اور دریاؤں میں بھی نہیں تھا۔ وہ لعل اور یاقوت اور زمرّد اور الماس اور موتی میں بھی نہیں تھا۔ غرض وہ کسی چیز ارضی اور سماوی میں نہیں تھا صرف انسان میں تھا یعنی انسان کامل میں جس کا اتمّ اور اکمل اور اعلیٰ ا ور ارفع فرد ہمارے سیّد و مولیٰ سیّد الانبیاء سیّد الاحیاء محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ سو وہ نور اس انسان کو دیا گیا اور حسب مراتب اسکے تمام ہمرنگوں کو بھی یعنی ان لوگوں کو بھی جو کسی قدر وہی رنگ رکھتے ہیں۔’’ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنے والے ہیں، جو حقیقت میں آپؐ کے اسوہ پر چلنے والے ہیں۔ اور فرمایا کہ ‘‘… یہ شان اعلیٰ اور اکمل اور اتمّ طور پر ہمارے سیّد ہمارے مولیٰ ہمارے ہادی نبی امّی صادق مصدوق محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم میں پائی جاتی تھی جیسا کہ خود خدا تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ۔ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ۔ (الانعام:163-164) وَ اَنَّ ہٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ(الانعام:154) قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ۔وَ اللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(آل عمران:32)۔فَقُلْ اَسْلَمْتُ وَجْہِیَ لِلہِ (آل عمران:21)وَ اُمِرْتُ اَنْ اُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ(المومن:67)’’ فرمایا ‘‘یعنی ان کو کہدے کہ میری نماز اور میری پرستش میں جدوجہد’’یعنی عبادت کرنے میں جدوجہد اور کوشش ‘‘اور میری قربانیاں اور میرا زندہ رہنا اور میرا مرنا سب خدا کے لیے اور اس کی راہ میں ہے۔ وہی خدا جو تمام عالموں کا ربّ ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اس بات کا حکم دیا گیا ہے اور میں اوّل المسلمین ہوں۔’’ یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہ اعلان کر دو کہ میں اول المسلمین ہوں ‘‘یعنی دنیا کی ابتدا سے اُسکے اخیر تک میرے جیسا اور کوئی کامل انسان نہیں جو ایسا اعلیٰ درجہ کا فنا فی اللہ ہو۔جو خدا تعالیٰ کی ساری امانتیں اس کو واپس دینے والا ہو۔’’

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں ‘‘اس آیت میں ان نادان موحّدوں کا ردّ ہے جو یہ اعتقاد رکھتے ہیں جو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسرے انبیا پر فضیلت کُلّی ثابت نہیں۔’’ یعنی یہ کہ آپؐ دوسرے انبیاء پر مکمل طور پر فضیلت رکھتے ہیں یہ ثابت نہیں ہوتی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ان نادان موحّدوں کا ردّ اس میں پایا گیا ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسرے انبیاء پر فضیلت کلّی ثابت نہیں ‘‘اور ضعیف حدیثوں کو پیش کر کے کہتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ مجھ کو یونس بن متّٰی سے بھی زیادہ فضیلت دی جائے۔ یہ نادان نہیں سمجھتے کہ اگر وہ حدیث صحیح بھی ہو تب بھی وہ بطور انکسار اور تذلّل ہے جو ہمیشہ ہمارے سید صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی۔ ہر ایک بات کا ایک موقع اور محل ہوتا ہے۔’’ فرماتے ہیں ہر ایک بات کا ایک موقع اور محل ہوتا ہے۔ ‘‘اگر کوئی صالح اپنے خط میں احقر عباد اللہ لکھے تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا کہ یہ شخص درحقیقت تمام دنیا یہاں تک کہ بت پرستوں اور تمام فاسقوں سے بدتر ہے اور خود اقرار کرتا ہے کہ وہ احقر عباداللہ ہے۔’’ یعنی سب لوگوں سے، اللہ تعالیٰ کے سب بندوں سے حقیر ترین ہے ‘‘کس قدر نادانی اور شرارت نفس ہے۔’’یہ تو عاجزی کا اظہار ہے جو کوئی شخص اپنے خط میں کرتا ہے۔

فرمایا کہ ‘‘غور سے دیکھنا چاہیے کہ جس حالت میں اللہ جلّشانہٗ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا نا م اوّل المسلمین رکھتا ہے اور تمام مطیعوں اور فرمانبرداروں کا سردار ٹھہراتا ہے اور سب سے پہلے امانت کو واپس دینے والا آنحضرت صلعم کو قرار دیتا ہے تو پھر کیا بعد اس کے کسی قرآن کریم کے ماننے والے کو گنجائش ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اعلیٰ میں کسی طرح کا جرح کرسکے۔ خدا تعالیٰ نے آیت موصوفہ بالا میں اسلام کے لیے کئی مراتب رکھ کر سب مدارج سے اعلیٰ درجہ وہی ٹھہرایا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فطرت کو عنایت فرمایا۔’’ مختلف درجے ہیں اسلام میں اور سب سے اعلیٰ درجہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے کیونکہ وہ درجہ آپؐ کی فطرت کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا۔ ‘‘سُبحانَ اللّٰہ مَا اَعْظَمُ شَانَکَ یَا رسولَ اللّٰہ’’

پھر فارسی شعر ہے ؎

‘‘موسیٰ و عیسیٰ ہمہ خیلِ تواند
جملہ دریں راہ طفیلِ تواند’’

کہ موسیٰ اور عیسیٰ سب تیرے ہی لشکر ہیں، سب اس راہ میں تیرے طفیل سے ہی ہیں۔ جو بھی موسیٰ اور عیسیٰ ہیں وہ تیری پیروی کرنے والے ہی ہیں۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ‘‘بقیہ ترجمہ یہ ہے’’ باقی آیتوں کا ‘‘کہ اللہ جلّشانہٗ اپنے ر سول کو فرماتا ہے کہ ان کو کہدے کہ میری راہ جو ہے وہی راہ سیدھی ہے سو تم اسی کی پیروی کرو اور اَور راہوں پر مت چلو کہ وہ تمہیں خدا تعالیٰ سے دور ڈال دیں گی۔ ان کو کہدے کہ اگر تم خدا تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو آؤمیرے پیچھے پیچھے چلنا اختیار کرو یعنی میرے طریق پر جو اسلام کی اعلیٰ حقیقت ہے، قدم مارو تب خدا تعالیٰ تم سے بھی پیار کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا۔ ان کو کہدے کہ میری راہ یہ ہے کہ مجھے حکم ہوا ہے کہ اپنا تمام وجود خدا تعالیٰ کو سونپ دوں اور اپنے تئیں رب العالمین کے لیے خالص کر لوں۔’’یہی مجھے حکم ہے، اور میری پیروی کرو گے تو مقام پاؤ گے، صحیح مسلمان بنو گے ‘‘اپنے تئیں رب العالمین کے لیے خالص کر لوں یعنی اس میں فنا ہو کر جیساکہ وہ رب العالمین ہے میں خادِم العالمین بنوں اور ہمہ تن اُسی کا اور اُسی کی راہ کا ہو جاؤں۔ سو مَیں نے اپنا تمام وجود اور جو کچھ میرا تھا خدا تعالیٰ کا کردیا ہے اب کچھ بھی میرا نہیں جو کچھ میرا ہے وہ سب اس کا ہے۔’’

(آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد 5صفحہ 160 تا 165)

یہ ہے وہ اعلیٰ شان جو اس اقتباس میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیان فرمائی۔

جلسہ سالانہ قادیان 2018ء کا اختتامی اجلاس (طاہر ہال، مسجد بیت الفتوح مورڈن)

پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے کامل مظہر ہیں، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘کئی مقام قرآن شریف میں اشارات و تصریحات سے بیان ہوا ہے۔’’کئی مقام قرآن شریف میں اشارات و تصریحات سے بیان ہوا ہے ‘‘کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مظہر اتمّ الوہیت ہیں۔’’ یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات کے کامل مظہر ہیں۔ ‘‘اور ان کا کلام خدا کاکلام ا ور ان کا ظہور خدا کا ظہور اور ان کاآنا خدا کا آنا ہے چنانچہ قرآن شریف میں اس بارے میں ایک یہ آیت بھی ہے وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَہَقَ الْبَاطِلُ ۔ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَہُوْقًا (بنی اسرائیل:82)۔ کہہ حق آیا اور باطل بھاگ گیا اور باطل نے بھاگنا ہی تھا۔ ’’ فرماتے ہیں ‘‘حق سے مراد اس جگہ اللہ جلّشانہٗ اور قرآن شریف اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور باطل سے مراد شیطان اور شیطان کا گروہ اور شیطانی تعلیمیں ہیں۔ سو دیکھو اپنے نام میں خدائے تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کیونکر شامل کرلیا اور آنحضرتؐ کا ظہور فرمانا خدا ئےتعالیٰ کا ظہور فرمانا ہوا۔ ایسا جلالی ظہور جس سے شیطان مع اپنے تمام لشکروں کے بھاگ گیا اور اس کی تعلیمیں ذلیل اور حقیر ہوگئیں اور اس کے گروہ کو بڑی بھاری شکست آئی۔ اسی جامعیت تامہ کی وجہ سے سورۃ اٰل عمران جزو تیسری میں مفصّل یہ بیان ہے کہ تمام نبیوں سے عہد و اقرار لیا گیا کہ تم پر واجب و لازم ہے کہ عظمت و جلالیّت شان ختم الرسل پر جو محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ایمان لاؤ اور ان کی اس عظمت اور جلالیّت کی اشاعت کرنے میں بدل و جان مدد کرو۔ اسی وجہ سے حضرت آدم صفی اللہ سے لے کرتا حضرت مسیح کلمۃ اللہ جس قدر نبی و رسول گزرے ہیں وہ سب کے سب عظمت و جلالیت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اقرار کرتے آئے ہیں۔’’

(سرمہ چشم آریہ،روحانی خزائن جلد 2 صفحہ 277 تا 280 حاشیہ)

پھر آپ کے بلند مرتبہ کی شان بیان کرتے ہوئے کہ جس طرح ہمارا خدا یکتا و معبود ہے ہمارا رسول بھی یکتا و مطاع ہے، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی کتاب میں فرماتے ہیں، اس کی عربی عبارت یہ ہے کہ:

‘‘اَمَّا بَعْدُ فَیَقُوْلُ عَبْدُ اللّٰہِ الْاَحَدِ اَحْمَدُ عَافَاہُ اللّٰہُ وَاَیَّدَ … وَمَا فَھَّمَنِیْ اِلَّا رَبِّیَ الَّذِیْ ھُوَ خَیْرُ الْمُفَھِّمِیْنَ … وَعَلَّمَنِیْ فَاَحْسَنَ تَعْلِیْمِیْ … وَاَوْحٰی اِلَیَّ اَنَّ الدِّیْنَ ھُوَ الْاِسْلَامُ وَاَنَّ الرَّسُوْلَ ھُوَ الْمُصْطَفٰی، اَلسَّیِّدُ الْاِمَامُ، رَسُوْلٌ اُمِّیٌّ اَمِیْنٌ۔ فَکَمَا اَنَّ رَبَّنَا اَحَدٌ یَسْتَحِقُّ الْعِبَادَۃَ وَحْدَہٗ، فَکَذٰلِکَ رَسُوْلُنَا الْمُطَاعُ وَاحِدٌ لَا نَبِیَّ بَعْدَہٗ، وَلَا شَرِیْکَ مَعَہٗ، وَاَنَّہٗ خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ۔’’

ترجمہ یہ ہے کہ ‘‘اس کے بعد خدائے واحد کا بندہ احمد کہتا ہے (خدا اُسے عافیت میں رکھے اور تائید میں رہے) … کہ بجز خدا کے مجھ کو کسی نے نہیں سمجھایا اور وہ سب سمجھانے والوں سے بہتر ہے … اور اس نے مجھ کو سکھلایا اور اچھا سکھلایا … اور مجھے الہام کیا کہ دین اللہ اسلام ہی ہے اور سچا رسول مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم سردار امام ہے جو رسول اُمّی امین ہے۔ پس جیسا کہ عبادت صرف خدا کے لیے مسلّم ہے اور وہ وحدہٗ لاشریک ہے اسی طرح ہمارا رسول اس بات میں واحد ہے کہ اُس کی پیروی کی جاوے اور اس بات میں واحد ہے کہ وہ خاتم الانبیاء ہے۔’’

(منن الرحمٰن،روحانی خزائن جلد 9صفحہ 156-157، 161، 164)

یہ الزام لگاتے ہیں کہ جی دعوے سے پہلے کچھ کہا اور بعد میں کچھ کہا تو یہ ساری عبارت تو دعوے کے بعد 1895ء کی ہے۔

پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ انسانی کمالات کا اپنی زندگی کے ذریعہ سے نمونہ دکھانے والے صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

‘‘مجھے بتلایا گیا ہے کہ تمام دینوں میں سے دین اسلام ہی سچا ہے۔ مجھے فرمایا گیا ہے کہ تمام ہدایتوں میں سے صرف قرآنی ہدایت ہی صحت کے کامل درجہ پر اور انسانی ملاوٹوں سے پاک ہے۔ مجھے سمجھا یا گیا ہے کہ تمام رسولوں میں سے کامل تعلیم دینے والا اور اعلیٰ درجہ کی پاک اور پُرحکمت تعلیم دینے والا اور انسانی کمالات کا اپنی زندگی کے ذریعہ سے اعلیٰ نمونہ دکھلانے والا صرف حضرت سیّدنا و مولانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔’’

(اربعین نمبر 1،روحانی خزائن جلد 17صفحہ 345)

آپؑ فرماتے ہیں :‘‘اب کہاں ہیں وہ پادری صاحبان جو کہتے تھے کہ نعوذ باللہ حضرت سیدنا و سید الوریٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی پیشگوئی یا اَور کوئی امر خارق عادت ظہور میں نہیں آیا۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ زمین پر وہ ایک ہی انسان کامل گزرا ہے جس کی پیشگوئیاں اور دعائیں قبول ہونا اور دوسرے خوارق ظہور میں آنا ایک ایسا امر ہے جو اب تک امت کے سچے پیروؤں کے ذریعہ سے دریا کی طرح موجیں مار رہا ہے۔’’ آپ نے تو سارے مذاہب کو یہ چیلنج دیا۔ آپ ؑفرماتے ہیں ‘‘بجز اسلام وہ مذہب کہاں اور کدھر ہے جو یہ خصلت اور طاقت اپنے اندر رکھتا ہے اور وہ لوگ کہاں اور کس ملک میں رہتے ہیں جو اسلامی برکات اور نشانوں کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔’’

(اربعین نمبر 1،روحانی خزائن جلد 17صفحہ 346)

آج بھی نشان دیکھنے ہیں تو صرف اور صرف اسلام میں ہی وہ نشان نظر آ سکتے ہیں، ان لوگوں میں نظر آ سکتے ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی اور حقیقی پیروی کرنے والے ہیں۔ پھر آپؑ فرماتے ہیں:

‘‘نوع انسان کے لیے روئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔ اور تمام آدم زادوں کیلیے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم۔ سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اِس جاہ و جلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ۔ اور یاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے۔ نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے۔ اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے۔ اور کسی کے لیے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لیے زندہ ہے … موسیٰ نے وہ متاع پائے جس کو قرونِ اولیٰ کھوچکے تھے اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ متاع پائے جس کو موسیٰ کا سلسلہ کھو چکا تھا۔ اب محمدیؐ سلسلہ موسوی سلسلہ کے قائم مقام ہے مگر شان میں ہزارہا درجہ بڑھ کر ۔’’

(کشتی نوح،روحانی خزائن جلد 19صفحہ 13-14)

آپؑ فرماتے ہیں ہم نے خدا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے پایا۔ فرمایا کہ

‘‘اس قادر اور سچے اور کامل خدا کو ہماری روح اور ہمارا ذرہ ذرہ وجود کا سجدہ کرتا ہے جس کے ہاتھ سے ہر ایک روح اور ہر ایک ذرہ مخلوقات کا مع اپنی تمام قویٰ کے ظہورپذیر ہوا۔ اور جس کے وجود سے ہر ایک وجود قائم ہے۔‘‘ آپ فرماتے ہیں ’’اس قادر اور سچے اور کامل خدا کو ہماری روح اور ہمارا ذرہ ذرہ وجود کا سجدہ کرتا ہے جس کے ہاتھ سے ہر ایک روح اور ہر ایک ذرہ مخلوقات کا مع اپنی تمام قویٰ کے ظہورپذیر ہوا اور جس کے وجود سے ہر ایک وجود قائم ہے۔ اور کوئی چیز نہ اس کے علم سے باہر ہے اور نہ اُس کے تصرف سے۔ نہ اس کے خَلْق سے۔ اور ہزاروں درود اور سلام اور رحمتیں اور برکتیں اس پاک نبی محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوں جس کے ذریعہ سے ہم نے وہ زندہ خدا پایا۔ جو آپ کلام کر کے اپنی ہستی کا آپ ہمیں نشان دیتا ہے اور آپ فوق العادت نشان دکھلا کر اپنی قدیم اور کامل طاقتوں اور قوتوں کا ہم کو چمکنے والا چہرہ دکھاتا ہے۔ سو ہم نے ایسے رسول کو پایا جس نے خدا کو ہمیں دکھلایا۔ اور ایسے خدا کوپایا جس نے اپنی کامل طاقت سے ہر ایک چیز کو بنایا۔ اس کی قدرت کیا ہی عظمت اپنے اندر رکھتی ہے جس کے بغیر کسی چیز نے نقش وجود نہیں پکڑا۔ اور جس کے سہارے کے بغیر کوئی چیز قائم نہیں رہ سکتی۔ وہ ہمارا سچا خدا بیشمار برکتوں والا ہے۔ اور بیشمار قدرتوں والا اور بیشمار حسن والا اور بیشمار احسان والا۔ اس کے سوا کوئی اور خدا نہیں۔’’(نسیم دعوت، روحانی خزائن جلد 19صفحہ 363)

اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ مجھے جو کچھ ملا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل ملا آپؑ فرماتے ہیں:

‘‘میں اسی کی‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی ’’قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جیسا کہ اس نے ابراہیمؑ سے مکالمہ ومخاطبہ کیا۔ اور پھر اسحاقؑ سے اور اسماعیلؑ سے اور یعقوبؑ سے اور یوسفؑ سے اور موسیٰؑ سے اور مسیحؑ ابن مریم سے اور سب کے بعد ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہم کلام ہوا کہ آپ پر سب سے زیادہ روشن اور پاک وحی نازل کی ایسا ہی اس نے مجھے بھی اپنے مکالمہ مخاطبہ کا شرف بخشا۔ مگر یہ شرف مجھے محض آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے حاصل ہوا۔ اگر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت نہ ہوتا اور آپ کی پیروی نہ کرتا تو اگر دنیا کے تمام پہاڑوں کے برابر میرے اعمال ہوتے تو پھر بھی میں کبھی یہ شرف مکالمہ ومخاطبہ ہرگز نہ پاتا۔ کیونکہ اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں۔ شریعت والا نبی کوئی نہیںآ سکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہو سکتا ہے مگر وہی جو پہلے امتی ہو۔’’

(تجلیاتِ الہٰیہ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 411-412)

پھر آپؑ فرماتے ہیں:‘‘میں اپنے سچے اور کامل علم سے جانتا ہوں کہ کوئی انسان بجز پیروی اُس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خدا تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ معرفت کاملہ کا حصہ پا سکتا ہے۔ اور میں اِس جگہ یہ بھی بتلاتا ہوں کہ وہ کیا چیز ہے کہ سچی اور کامل پیروی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب باتوں سے پہلے دل میں پیدا ہوتی ہے۔ سو یاد رہے کہ وہ قلبِ سلیم ہے یعنی دل سے دنیا کی محبت نکل جاتی ہے اور دل ایک ابدی اور لازوال لذت کا طالب ہو جاتا ہے۔ پھر بعد اس کے ایک مصفّٰی اور کامل محبت الٰہی بباعث اس قلبِ سلیم کے حاصل ہوتی ہے اور یہ سب نعمتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی سے بطور وراثت ملتی ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ(آل عمران:32)۔ یعنی ان کو کہہ دے کہ اگر تم خدا سے محبت کرتے ہو تو آؤ میری پیروی کرو تا خدا بھی تم سے محبت کرے۔’’

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 64-65)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور پیروی انسان کو خدا کا پیارا بنا دیتی ہے، اس بارے میں مزید فرماتے ہیں کہ

‘‘اللہ تعالیٰ نے اپنا کسی کے ساتھ پیار کرنا اس بات سے مشروط کیا ہے کہ ایسا شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرے۔’’

ایک صاحب کے اعتراض کے جواب میں آپؑ نے یہ فرمایا کہ ‘‘اگر کوئی کہے کہ غرض تو اعمال صالحہ بجا لانا ہے تو پھر ناجی اورمقبول بننے کیلیے پیروی کی کیا ضرورت ہے؟ اِس کا جواب یہ ہے کہ اعمالِ صالحہ کا صادر ہونا خدا تعالیٰ کی توفیق پر موقوف ہے۔ پس جبکہ خدا تعالیٰ نے ایک کو اپنی عظیم الشان مصلحت سے امام اور رسول مقرر فرمایا اور اس کی اطاعت کے لیے حکم دیا تو جو شخص اس حکم کو پاکر پیروی نہیں کرتا اس کو اعمال صالحہ کی توفیق نہیں دی جاتی۔’’ اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے کی پیروی کرنا بہرحال ضروری ہے۔ صرف اپنے اعمال کام نہیں آتے اور سب سے بڑھ کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی ضروری ہے۔

فرماتے ہیں ‘‘چنانچہ میرا یہ ذاتی تجربہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سچے دل سے پیروی کرنا اور آپ سے محبت رکھنا انجام کار انسان کو خدا کا پیارا بنا دیتا ہے۔ اِس طرح پر کہ خود اس کے دل میں محبتِ الٰہی کی ایک سوزش پیدا کر دیتا ہے۔ تب ایسا شخص ہر ایک چیز سے دل برداشتہ ہو کر خدا کی طرف جھک جاتا ہے اور اس کا انس و شوق صرف خدا تعالیٰ سے باقی رہ جاتا ہے۔ تب محبت الٰہی کی ایک خاص تجلی اس پر پڑتی ہے اور اس کو ایک پورا رنگ عشق اور محبت کا دے کر قوی جذبہ کے ساتھ اپنی طرف کھینچ لیتی ہے۔ تب جذباتِ نفسانیہ پر وہ غالب آجاتا ہے اور اس کی تائید اور نصرت میں ہر ایک پہلو سے خدا تعالیٰ کے خارق عادت افعال نشانوں کے رنگ میں ظاہر ہوتے ہیں۔’’

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 67-68 مع حاشیہ)

فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی توجہ تو ایسی ہے کہ وہ نبی بناتی ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ:
‘‘اللہ جل شانہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو صاحب خاتَم بنایا۔ یعنی آپؐ کو افاضہ ٔکمال کے لیے مہر دی جو کسی اور نبی کو ہرگز نہیں دی گئی۔ اسی وجہ سے آپ کا نام خاتم النبیین ٹھہرا۔ یعنی آپ کی پیروی کمالات نبوت بخشتی ہے اور آپ کی توجہ روحانی نبی تراش ہے اور یہ قوت قدسیہ کسی اور نبی کو نہیں ملی۔ یہی معنی اس حدیث کے ہیں کہ عُلَمَآئُ اُمَّتِیْ کَاَنْبِیَائِ بَنِیْ اِسْرَائِیْل یعنی میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں کی طرح ہونگے اور بنی اسرائیل میں اگرچہ بہت نبی آئے مگر انکی نبوت موسیٰ کی پیروی کا نتیجہ نہ تھا بلکہ وہ نبوتیں براہ راست خدا کی ایک موہبت تھیں۔ حضرت موسیٰ کی پیروی کا اس میں ایک ذرّہ کچھ دخل نہ تھا۔’’

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22صفحہ 100 حاشیہ)

پس میں اب علماء کو کہتا ہوں کہ اے نام نہاد علماؤ سوچو اور غور کرو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات کو نبی تراش کا مقام دینے سے آپؐ کی شان بڑھتی ہے یا گھٹتی ہے؟ لیکن تم اس بات پر غور نہیں کرو گے کیونکہ دنیاوی مفادات اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ لیکن ہم یقین کامل سے کہہ سکتے ہیں کہ ہمیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اعلیٰ شان اور اعلیٰ مقام کا ادراک حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام نے ہی عطا فرمایا ہے ۔ پس ہراحمدی خاص طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و سلام بھیجنے کو فرض کرے تا کہ ان برکات سے ہم فیضیاب ہو سکیں جو آپؐ کی ذات بابرکات سے سچا تعلق رکھنے سے وابستہ ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آپؐ کی ذات پر درود بھیجنے کی اہمیت پر توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

‘‘ہمارے سیدو مولیٰ حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی صدق و وفا دیکھئے۔ آپؐ نے ہر ایک قسم کی بد تحریک کا مقابلہ کیا۔ طرح طرح کے مصائب وتکالیف اٹھائے لیکن پروا نہ کی۔ یہی صدق و وفا تھا جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے فضل کیا۔ اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا…(الاحزاب:57) ترجمہ۔اللہ تعالیٰ اور اس کے تمام فرشتے رسولؐ پردرود بھیجتے ہیں اے ایمان والو! تم درود و سلام بھیجو نبیؐ پر۔’’

فرمایا کہ ‘‘اس آیت سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اکرمؐ کے اعمال ایسے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریف یا اوصاف کی تحدید کرنے کے لیے کوئی لفظ خاص نہ فرمایا۔’’ محدود نہیں کیا۔ ‘‘لفظ تو مل سکتے تھے لیکن’’ اللہ تعالیٰ نے ‘‘خود استعمال نہ کیے۔ یعنی آپؐ کے اعمال صالحہ کی تعریف تحدید سے بیرون تھی۔’’ اللہ تعالیٰ اس کی حد مقرر نہیں کرناچاہتا تھا۔ ‘‘اس قسم کی آیت کسی اور نبی کی شان میں استعمال نہ کی۔’’ فرمایا کہ ‘‘آپؐ کی روح میں وہ صدق و وفا تھا اور آپؐ کے اعمال خدا کی نگاہ میں اس قدر پسندیدہ تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لیے یہ حکم دیا۔ کہ آیندہ لوگ شکر گزاری کے طور پر درود بھیجیں۔’’

(ملفوظات جلد 1صفحہ 37-38۔ ایڈیشن1985 مطبوعہ انگلستان)

پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے، مزید کھولتے ہوئے کہ درود کس غرض سے پڑھنا چاہیے، آپؑ فرماتے ہیں کہ

‘‘درود شریف … اس غرض سے پڑھنا چاہیے کہ تا خداوند کریم اپنی کامل برکات اپنے نبی کریمؐ پر نازل کرے اور اس کو تمام عالم کے لیے سرچشمہ برکتوں کا بنا وے اور اس کی بزرگی اور اس کی شان و شوکت اِس عالَم اور اُس عالَم میںظاہر کرے۔ یہ دعا حضور تام سے ہونی چاہیے۔’’ یعنی دلی جوش سے ہونی چاہیے۔ ‘‘جیسے کوئی اپنی مصیبت کے وقت حضور تام سے دعا کرتا ہے۔’’ خاص توجہ سے دعا کرتا ‘‘بلکہ اس سے بھی زیادہ تضرع اور التجا کی جائے اور کچھ اپنا حصہ نہیں رکھنا چاہیے کہ اس سے مجھ کو یہ ثواب ہو گا یا یہ درجہ ملے گا بلکہ خالص یہی مقصود چاہیے کہ برکات کاملہ الٰہیہ حضرت رسول مقبول پر نازل ہوں اور اس کا جلال دنیا اور آخرت میں چمکے اور اسی مطلب پر انعقاد ہمت چاہیے اور دن رات دوام توجہ چاہیے یہاں تک کہ کوئی مراد اپنے دل میں اس سے زیادہ نہ ہو۔’’

(مکتوبات احمد جلد 1صفحہ 523 مکتوب بنام میر عباس علی صاحب مکتوب نمبر 10)

پھر ہمیں درود شریف پڑھنے کی نصیحت کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں کہ:

‘‘درود شریف … بکثرت پڑھو۔ مگر نہ رسم اور عادت کے طور پر بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اور احسان کو مدّنظر رکھ کر اور آپ کے مدارج اور مراتب کی ترقی کے لیے، اور آپ کی کامیابیوں کے واسطے۔’’

(ملفوظات جلد 9 صفحہ 23۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

آپ کی کامیابیاں کیا ہیں؟ کہ حقیقی اسلام کا دنیا میں پھیلنا اور قائم ہونا، اسلام کے نام پر آجکل جو شر اور فساد پھیلے ہوئے ہیں ان کا خاتمہ کرنا۔ پس آج ہر احمدی کا فرض ہے کہ ایسی حالت اپنے پر طاری کرے اور اس طرح دعائیں کرے اور درود بھیجے اور یہی ہمارے لیے ذریعہ ہے کہ دعاؤں کے ذریعہ سے دنیا کے شرور کا خاتمہ ہم کریں۔

پھر ایک موقع پر اپنے ایک مرید کو درود پڑھنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے آپؑ نے فرمایا:

‘‘آپ درود شریف کے پڑھنے میں بہت ہی متوجہ رہیں اور جیسا کوئی اپنے پیارے کے لیے فی الحقیقت برکت چاہتا ہے ایسے ہی ذوق اور اخلاص سے حضرت نبی کریم کے لیے برکت چاہیں اور بہت ہی تضرع سے چاہیں اور اس تضرع اور دعا میں کچھ بناوٹ نہ ہو بلکہ چاہیے کہ حضرت نبی کریمؐ سے سچی دوستی اور محبت ہو اور فی الحقیقت روح کی سچائی سے وہ برکتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مانگی جائیں کہ جو درود شریف میں مذکور ہیں … اور ذاتی محبت کی یہ نشانی ہے کہ انسان کبھی نہ تھکے اور نہ کبھی ملول ہو اور نہ اغراض نفسانی کا دخل ہو اور محض اسی غرض کے لیے پڑھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر خداوند کریم کے برکات ظاہر ہوں۔’’

(مکتوبات احمد جلد 1صفحہ534-535 مکتوب بنام میر عباس علی صاحب مکتوب نمبر 18)

درود شریف پڑھنے کی حکمت کے بارے میں ایک جگہ آپؑ نے بیان فرمایا کہ:

‘‘اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی دوسرے کی دعا کی حاجت نہیں لیکن اس میں ایک نہایت عمیق بھید ہے۔’’ بڑا گہرا راز ہے ‘‘جو شخص ذاتی محبت سے کسی کے لیے رحمت اور برکت چاہتا ہے وہ بباعث علاقہ ذاتی محبت کے اس شخص کے وجود کی ایک جز ہو جاتا ہے اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فیضان حضرت احدیت کے بے انتہا ہیں اس لیے درود بھیجنے والوں کو کہ جو ذاتی محبت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے برکت چاہتے ہیں بے انتہا برکتوں سے بقدر اپنے جوش کے حصہ ملتا ہے مگر بغیر روحانی جوش اور ذاتی محبت کے یہ فیضان بہت ہی کم ظاہر ہوتا ہے۔’’

(مکتوبات احمد جلد 1صفحہ 535 مکتوب بنام میر عباس علی صاحب مکتوب نمبر 18)

پس انتہائی ذاتی جوش اور محبت کے جذبہ کے ساتھ درود بھی بھیجنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ درود شریف پڑھنے کے بارے میں یہ جوش ہم میں پیدا فرمائے اور ہم حقیقی رنگ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے والے ہوں اور ان کامیابیوں اور فتوحات کو دیکھنے اور اس کا حصہ پانے والے ہوں جن کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہوا ہے اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق کے ذریعہ اس زمانے میں مقدر کی گئی ہیں۔ ہمیں کسی حکومت اور کسی عالم دین، نام نہاد عالم دین کی سند کی ضرورت نہیں کہ ہم مسلمان ہیں یا نہیں یا کسی فارم پہ لکھنے سے ہم مسلمان یا غیر مسلم نہیں بن جاتے۔ صرف اور صرف ایک سند ہمیں چاہیے اور وہ اللہ تعالیٰ کی رضا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے راضی ہو اور وہ اسی وقت ہمیں وہ سند عطا فرمائے گا جب ہم حقیقت میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا حق ادا کرنے والے بنیں گے، آپؐ کی پیروی کرنے والے بنیں گے۔ ہمارے درود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ کر پھر ہمیں بھی ان برکات کا حصہ دار بنائیں گے جن کا اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ فرمایا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔

اب اس طرح یہ سال بھی اختتام کو پہنچ رہا ہے۔ بعض ملکوں میں چوبیس گھنٹے اور بعض میں دو دن اور دو راتیں باقی ہیں۔ پس اِن آخری دنوں کو بھی درود سے بھر دیں اور نئے سال کا استقبال بھی درود اور سلام سے کریں تا کہ ہم جلد از جلد ان برکات کو حاصل کرنے والے ہوں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے وابستہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے، ہر مخالف سے ہمیں بچائے اور ان کے شر ان پر الٹائے۔

اب ہم دعا کریں گے۔ دعا میں شامل ہو جائیں میرے ساتھ۔ (دعا)

(دعا کے بعد حضورِ انور نے فرمایا) اس وقت جلسہ سالانہ قادیان میں حاضری جو ہے مَیں نے اٹھارہ انیس ہزار بتائی تھی،exact جو فِگر(figure )سامنے آئے ہیں اس کے مطابق اس وقت وہاں اٹھارہ ہزار آٹھ سو چونسٹھ کی حاضری ہے اور اڑتالیس ممالک کی نمائندگی ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کو اس جلسہ کی برکات سے فیض اٹھانے کی توفیق دے اور وہاں جو مہمان آئے ہوئے ہیں، مختلف ملکوں سے آئے ہوئے ہیں، پاکستان سے آئے ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب کو خیریت سے اپنے اپنے ملکوں میں لے کر جائے اور اپنی حفاظت میںرکھے۔ یہاں یوکے کی جو حاضری ہے اس وقت وہ پانچ ہزار تین سو پینسٹھ ہے اور عورتوں کی تقریباً دو ہزار چار سو اور مردوں کی دوہزار چھ سو۔ اب یہ قادیان والے جو انہوں نے اپنا اگلا پروگرام پیش کرنا ہے وہ کرنا شروع کر دیں۔

٭٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button