خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 29؍مارچ 2019ء

اخلاص و وفا کے پیکر بعض بدری اصحابِ رسولﷺ کی سیرتِ مبارکہ کا حسین تذکرہ۔ دو مرحومین کا ذکرِ خیر اور نمازِ جنازہ غائب

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 29؍مارچ2019ءبمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن، یوکے

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 92؍ مارچ 9102ء کو مسجد بیت الفتوح مورڈن میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا جو مسلم ٹیلی وژن احمدیہ کے توسّط سے پوری دنیا میں نشر کیا گیا۔

خطبہ جمعہ میں حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےچند بدری اصحابؓ رسول ﷺ کی سیرتِ مبارکہ کا تذکرہ فرمایا۔جمعہ کی اذان دینے کی سعادت مکرم فیروز عالم صاحب کے حصہ میں آئی۔

تشہد ،تعوذ،تسمیہ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےبعض بدری صحابہ کا ایمان افروز تذکرہ فرمایا۔

پہلا ذکر حضرت طُلَیْب بن عُمَیْر ؓ کا تھا۔ان کی والدہ ارویٰ رسول اللہ ﷺ کی پھوپھی تھیں ۔ آپؓ نے اس وقت اسلام قبول کیا جب رسول اللہﷺ دارِارقم میں تھے۔ طلیبؓ کی تحریک پرآپؓ کی والدہ نے بھی اسلام قبول کیا۔ آپ کی والدہ زبان سے آنحضورﷺکا دفاع کیا کرتیں اور اپنے بیٹے کو بھی آپﷺ کی مدد اور اطاعت کا کہا کرتیں۔ طلیبؓ پہلے شخص ہیں جنہوں نے آنحضورﷺ کی گستاخی کی وجہ سے کسی مشرک کو زخمی کیا ۔ حضرت طلیبؓ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے مسلمانوں میں شامل تھے۔ ہجرتِ مدینہ پر آنحضورﷺ نے حضرت طلیبؓ اور حضرت منذر بن عمرؓ کے درمیان مؤاخات قائم فرمایا۔آپ ؓجنگِ اجنادین میں جمادی الاول13ہجری میں شہیدہوئے۔ اجنادین شام میں واقع ایک علاقہ ہے۔

اگلےصحابی حضرت سالم مولیٰ ابنِ ابی حذیفہؓہیں۔ ان کی کنیت ابوعبداللہ تھی، جبکہ والد کا نام معقل تھا۔ آپؓ ایران کےعلاقے اصطخر کےرہنے والےتھے۔ ہجرتِ مدینہ کے بعد سالمؓ کا معاذبن ماعضؓکے ساتھ رشتہ مؤاخات قائم ہوا۔حضرت سالم ،ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کی بیوی حضرت ثُبَیْتَہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام تھے۔ بعد میں حضرت ابو حذیفہؓ نے آپ کو اپنا متبنیٰ بنالیا تھا۔ حضرت ابو حذیفہؓ نے ہی آپ کی شادی اپنی بھتیجی فاطمہ بنت ولیدسے کروادی تھی۔ حضرت عمرؓ سے مروی ہے کہ اولین مہاجرین جب مدینہ آئے تو قبا کے قریب قیام کیا،سالمؓ ان میں سب سے زیادہ قرآن کریم جانتے تھےاورامامت کروایا کرتے تھے۔ سالمؓ ان چار صحابہؓ میں شامل تھے جن کے متعلق آنحضورﷺ نے فرمایاکہ ان سے قرآن کریم کی تعلیم حاصل کیا کرو ۔ احد کے موقع پر سالمؓ کو آنحضورﷺ کے زخم دھونے کی توفیق ملی۔حضرت سالمؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایاکہ قیامت کے دن ایک قوم کو لایا جائے گا جن کی نیکیاں تِہامہ کے پہاڑوں جتنی ہوں گی لیکن انہیں پھر بھی جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ دریافت کرنے پر رسول خداﷺنے فرمایا یہ ایسے لوگ ہوں گے جو روزے رکھتے،نمازیں، نوافل پڑھتے ہوں گےلیکن جب ان کے سامنے حرام پیش کیا جائے گا توو ہ اس پر ٹوٹ پڑیں گے۔ حضورِانور نے فرمایا یعنی بعض دفعہ اس کے باوجود دنیاوی لالچوں میں پڑجائیں گے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓنے اپنے بیٹوں کے نام سالم،واقد، اور عبداللہ رکھے تھے۔ ان میں سالم کا نام حضرت سالم مولیٰ ابوحذیفہؓ،واقد کا نام حضرت واقد بن عبداللہ یربوعیؓ جبکہ عبداللہ کا نام عبداللہ بن رواحہؓ کے نام پر رکھا گیا تھا۔ حضور انور نے فرمایا کہ صحابہؓ،کبار صحابہ ؓکی بڑی قدر کیا کرتے تھے۔ جنگ یمامہ کے روز جھنڈا آپؓ کے سپرد تھا۔ دورانِ لڑائی جب دایاں ہاتھ کٹ گیا تو آپؓ نے بائیں ہاتھ میں عَلم تھامے رکھا۔ جب بایاں ہاتھ بھی کٹ گیا تو آپؓ نے جھنڈے کو گردن میں دبا لیا اور وما محمد الارسول وکاین من نبی قاتل معہ ربیون کثیر کے الفاظ دہرانے لگے۔ جب سالمؓ شدید زخمی حالت میں گِر گئے تو دریافت فرمایا کہ ابوحذیفہ ؓکا کیا حال ہے؟ بتایا گیا کہ وہ شہید ہوگئے ہیں تو آپؓ نے ایک اَورشخص کی نسبت دریافت فرمایا۔ ان کی شہادت کی خبر سن کرفرمایامجھے ان دونوں کے درمیان لٹادو۔ حضرت سالمؓ کی شہادت پر لوگ کہا کرتے تھے کہ قرآن کا گویا ایک چوتھائی حصہ چلا گیا۔ یعنی وہ چار علما ءجن کا آنحضورﷺ نے نام لیا تھا کہ ان سے قرآن سیکھوان میں سے ایک چلا گیا۔

اگلے صحابی جن کا ذکر حضورِانورایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ان کا نام حضرت عِتبان بن مالک ؓ تھا۔ آپؓ خزرج کی شاخ بنوسالم بن عوف سے تعلق رکھتے تھے۔ حضرت عمر ؓکے ساتھ آپ کی مؤاخات قائم ہوئی تھی۔غزوہ بدر،احد اور خندق میں شامل ہوئے۔ رسول اللہﷺ کے دور میں آپؓ کی بینائی جاتی رہی۔عتبانؓ کی وفات حضرت امیر معاویہ کے دورِحکومت میں ہوئی۔ ایک روایت میں ہے کہ عتبانؓ کی بینائی چلی گئی تو آپؓ نے آنحضورﷺ سے گھر پر نماز ادا کرنے کی اجازت چاہی، رسول اللہﷺ نے دریافت فرمایا کیا تم اذان کی آوازسنتے ہو؟ آپؓ کے اثبات میں جواب دینے پر آنحضرتﷺ نے اجازت نہیں دی۔حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ مشہور حدیث اکثر پیش کی جاتی ہے،لیکن صحیح بخاری کی روایت سے پتا چلتا ہے کہ بعد میں رسول اللہﷺ نےعتبان کو اجازت دے دی تھی۔ حضرت سید ولی اللہ شاہ صاحب صحیح بخاری کی شرح میں تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت عتبان نابینا تھے، راستے میں نالہ بہتا تھا۔ انہوں نے گھرمیں نماز پڑھنے کی اجازت مانگی تو آنحضرتﷺنے فرمایا باجماعت نماز پڑھوگےتواجازت ہے۔ امام بخاری معذوری کے وہ حالات پیش کررہے ہیں جن میں باجماعت نماز پڑھنے سے استثنیٰ کیا جانا چاہیے تھا۔مگرآنحضرتﷺ نے گھر میں تنہا نماز پڑھنے کی اجازت نہیں دی۔حضور ِانور نے فرمایا پس اس بات کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیےکہ یہاں بھی اگر فاصلے زیادہ ہیں، سواری نہیں ہے،وقت نہیں ہوتا تو احمدیوں کو بھی چاہیے کہ اپنے گھروں میں نماز سینٹر بنائیںاور ہمسائے اکٹھے ہوکر باجماعت نماز پڑھا کریں۔

آخر میں حضورِانور نے دو مرحومین کا ذکرِ خیر،اورنمازِجنازہ پڑھانےکا اعلان فرمایا۔

پہلا جنازہ غائب مکرم غلام مصطفیٰ اعوان صاحب کا تھا جو 16؍مارچ کوبعمر78سال ربوہ میں وفات پاگئے۔انا للّٰہ واناالیہ راجعون۔ آپ پیدائشی احمدی تھے۔ آپ کے خاندان میں احمدیت ان کے دادا دیوان بخش صاحب کے ذریعے آئی۔ آپ ملازمت کے سلسلے میں سعودی عرب میں رہے۔ اس دوران 9 مرتبہ حجِ بیت اللہ کی توفیق ملی۔ اللہ کے فضل سے موصی تھے۔ ایک دن آپ کی طبیعت خراب ہوئی تو پہلی فکر یہی ہوئی کہ حصہ جائیداد ادا کرنا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے صحت دی تو فوری طور پر اپنی کچھ جائیداد بیچ کر حصہ جائید اد اداکیا۔ پسماندگان میں اہلیہ، ایک بیٹےاحمد مرتضیٰ جرمنی میں ہیں۔چار بیٹیوں میں سے دو مبلغین کے ساتھ بیاہی ہوئی ہیں۔ ایک داماد محمد جاویدصاحب، مبلغ سلسلہ زیمبیا جبکہ دوسرے جمیل احمد صاحب تبسم رشیا میں خدمت کی توفیق پارہے ہیں۔

دوسرا جنازہ مکرمہ امۃ الحئ صاحبہ اہلیہ محمد نواز صاحب کاٹھگڑھی کا تھا۔ آپ پیدائشی احمدی تھیں۔قیام پاکستان کے بعد جڑانوالہ آکر رہائش اختیار کی اور 1981ء میں بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے ربوہ منتقل ہوگئیں۔ اللہ کے فضل سے موصیہ تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے چھ بیٹوں اور پانچ بیٹیوں سے نوازا۔ اولادمیں سے بچوں کو وقف کرنے کا سلسلہ شروع کیا جو اولاد در اولاد جاری ہے۔آپ کےبڑے بیٹےرانافاروق احمد نظارت دعوت الی اللہ میں مربی سلسلہ ہیں۔ چھوٹے بیٹے حافظ محموداحمدطاہر جامعہ احمدیہ تنزانیہ میں بطور استاد خدمت کی توفیق پارہے ہیں۔ بہت ساری پوتیوں اور نواسیوں کی شادیاں مربیان اور واقفینِ زندگی سے کیں۔ 53ء اور 74ء کے حالات میں بڑی جرأت اور دلیری سے وقت گزارا۔ آنحضرتﷺ سے آپ کو بڑا عشق تھا۔ آخری وقت میں بھی آنحضرتﷺ اور حضرت مسیح موعودؑکی باتیں کرتی تھیں کہ وہ آرہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلندفرمائےاور ان کی اولاد کو بھی ان کی نیکیوں کو جاری رکھنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button