تعارف کتاب

‘‘ضرورۃ الامام’’

(ابو سدید)

نام کتاب: ‘‘ضرورۃ الامام’’
تصنیف لطیف : امام الزمان حضرت مسیح موعودؑ
ناشر: اسلام انٹر نیشنل پبلیکیشنز، یوکے
باہتمام: ایڈیشنل وکالت تصنیف، لندن
سن اشاعت: اپریل 2018ء UK
ضخامت : 51صفحات
قیمت: 1پاؤنڈسٹرلنگ

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ و السلام کو اللہ تعالیٰ نے جہاد بالقلم کے اس دَور میں سلطان القلم کا خطاب عطا فرمایا۔ چنانچہ اپنی بابرکت زندگی میں اس جری پہلوان اور قلم کے بادشاہ نے دنیا کی مختلف اقوام کے لوگوں سے مقابلہ کیا اور اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت پر مبنی دلائل پر مشتمل مضامین اور کتب لکھ کر ان کے منہ بند کردیے اور ان پر غلبہ حاصل کیا۔ آپ نے ہر طرف ایسے دینی خزائن لٹائے جو اس سے پہلے کہیں نہ ملتے تھے، قرآن مجید اور احادیث کی بہترین تشریح اور دونوں علوم کی سب سے خوبصورت خدمت حضرت مسیح موعودؑ نے اپنی کتب کے ذریعے انجام دی ۔ گویا یہ کہنا بجا ہوگا کہ اس زمانہ میں اسلام کی سچی اور پاکیزہ تصویر آپؑ کی پُر معارف کتب کے مطالعہ سے حاصل ہوتی ہے۔حضرت مسیح موعودؑ اپنی کتاب ازالہ اوہام میں فرماتے ہیں:

‘‘میرے اندر ایک آسمانی روح بول رہی ہے جو میرے لفظ لفظ اور حرف حرف کو زندگی بخشتی ہے۔’’

(ازالہ اوہام ۔ روحانی خزائن جلد 3 صفحہ 403)

حضرت مسیح موعودؑ کی زندگی بخش اور الہٰی انوار سے فیض یافتہ کتب میں سے ایک کتاب ‘‘ضرورۃ الامام’’ ہے جو ضخامت میں دیگر کتب کی نسبت کم ہونے کے باوجود بہت اہم اور زمانے کی ضرورت کے مطابق علوم اور مسائل کے حل پر مشتمل ہے۔ یہ رسالہ نما کتاب حضرت اقدسؑ نے ستمبر 1897ء میں تالیف فرمائی۔ حضورؑ کے تحریر فرمانے سے لے کر مطبع ضیاء الاسلام قادیان سے طبع ہونے تک صرف ڈیڑھ دن صرف ہوا۔حضرت مسیح موعودؑ کے یہ کتاب لکھنے کی فوری وجہ ایک دوست کی اجتہادی غلطی تھی۔ اس دوست نے اپنی ایسی خوابیں سنائیں جن سے یہ ظاہر ہوا کہ وہ آپ ؑ کو مسیح موعود نہیں مانتے اور وہ امامت حقہ سے بے خبر ہیں لہٰذا آپ ؑ کی ہمدردی نے یہ تقاضا کیا کہ امامت حقہ سے متعلق یہ کتاب لکھیں اور بیعت کی حقیقت سے آگاہ فرمائیں۔ اس رسالہ میں آپؑ نے یہ بتایا کہ امام الزمان کس قسم کی شخصیت ہوتی ہے۔ یہ بات بھی آپ نے کھول کر بیان فرمائی کہ امام الزمان کی روحانی تربیت کا متولی خدا تعالیٰ ہوتا ہے۔اور وہ روحانی طور پر محمدی فوجوں کا سپہ سالار ہوتا ہے۔ اس کے جھنڈے کے نیچے آنے والوں کو بھی اعلیٰ درجہ کے قویٰ بخشے جاتے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس کتاب کا تازہ ایڈیشن ایڈیشنل وکالت تصنیف لندن نے کمپوز کروا کے سیٹ کیا اور اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنز لمیٹڈ یوکے نے اسے خوبصورت انداز میں زیور طبع سے آراستہ کیاہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کتاب کی اس زمانہ میں دوبارہ اشاعت کی بہت اہمیت ہے کیونکہ ہماری نوجوان نسل خاص طور پر نومبائعین کو امام الزمان کے رتبہ کی حقیقت سے آگاہی کی بہت ضرورت ہے ۔ اوریہ بھی کہ اس کتاب کے مطالعہ سے اس دَور کے مامور اور مرسل کو پہچان کر احمدی احباب کی اپنی اور آئندہ نسلوں کی حفاظت بھی یقینی ہو جائے گی۔

جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ حضرت مسیح موعود ؑ نے یہ کتاب تالیف فرما کر امام کی ضرورت اور حقیقت سب پر آشکار فرمائی اور ایسی شانداراور پر از معارف کتاب قلمبند فرمائی جس کا فیض آج بھی جاری ہے ۔ اور اس زمانہ میں اس کتاب کی الگ سے طباعت کی اشد ضرورت محسوس کی جارہی تھی۔خدا تعالیٰ کے فضل سے اب یہ کتاب کمپوزنگ کی نئی سیٹنگ میں مرتب و آراستہ ہو کر قارئین کے ہاتھوں میں آئی ہے ،اس لیے اس کتاب کے شائع ہونے کی یہ ضرورت پوری ہوگئی۔ ہمارا فرض ہے کہ اس کا مطالعہ کر کے اس میں موجود ہیرے جواہرات پر مشتمل خزانوں سے نہ صرف خود فائدہ اٹھائیںبلکہ ان کو دوسروں تک بھی پہنچائیں۔ خاکسار قارئین کی خدمت میں اس کتاب سے چند اقتباسات بطور مشتے ازخروارے درج کرتا ہے تاکہ مکمل کتاب پڑھنے کا شوق پیدا ہوجائے۔

اس کتاب کے آغاز میں حضرت اقدسؑ بعض لوگوں کی غلط فہمی کا ازالہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
افسوس کہ اس زمانہ میں اکثر لوگ امامتِ حقہ کی ضرورت کو نہیں سمجھتے اور ایک سچی خواب آنے سے یا چند الہامی فقروں سے خیال کرلیتے ہیں کہ ہمیں امام الزمان کی حاجت نہیں۔ کیا ہم کچھ کم ہیں؟ اور یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ ایسا خیال سراسر معصیت ہے۔ کیونکہ جبکہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے امام الزمان کی ضرورت ہر ایک صدی کے لیے قائم کی ہے اور صاف فرما دیا ہے کہ جو شخص اس حالت میں خداتعالیٰ کی طرف آئے گا کہ اس نے اپنے زمانہ کے امام کو شناخت نہ کیا وہ اندھا آئے گا اور جاہلیت کی موت پر مرے گا۔’’ (صفحہ 5)

امام الزمان کے تشریف لانے سے جو روحانیت کی دنیا میں انقلاب برپا ہوتا ہے اس کا ذکر تے ہوئے حضرت اقدسؑ فرماتے ہیں:‘‘حقیقت یہ ہے کہ جب دنیا میں کوئی امام الزمان آتا ہے تو ہزار ہا انوار اس کے ساتھ آتے ہیںاور آسمان میں ایک صورتِ انبساطی پیدا ہو جاتی ہے اور انتشار روحانیت اور نورانیت ہو کر نیک استعدادیں جاگ اٹھتی ہیں۔ پس جو شخص الہام کی استعداد رکھتا ہے اس کو سلسلہ الہام شروع ہو جاتا ہے اور جو شخص فکر اور غور کے ذریعہ سے دینی تفقّہ کی استعداد رکھتا ہے ۔ اس کے تدبر اور سوچنے کی قوت کو زیادہ کیا جاتا ہے ۔ اور جس کو عبادات کی طرف رغبت ہو اس کو تعبد اور پرستش میں لذت عطا کی جاتی ہے ۔’’(صفحہ 5۔6)

حضرت مسیح موعود ؑ اپنی اس تصنیف لطیف میں امام الزمان کی علامات اور اس کو دوسروں پر کیوں ترجیح دی جاتی ہے ، اس حوالہ سے فرماتے ہیں:‘‘امام الزمان اس شخص کا نام ہے کہ جس شخص کی روحانی تربیت کا خدا تعالیٰ متولی ہو کر اس کی فطرت میں ایک ایسی امامت کی روشنی رکھ دیتا ہے کہ وہ سارے جہان کی معقولیوں اور فلسفیوں سے ہر ایک رنگ میں مباحثہ کرکے ان کو مغلوب کر لیتا ہے ۔ وہ ہر ایک قسم کے دقیق در دقیق اعتراضات کا خدا سے قوت پاکر ایسی عمدگی سے جواب دیتا ہے کہ آخر ماننا پڑتا ہے کہ اس کی فطرت دنیا کی اصلاح کا پورا سامان لے کر اس مسافر خانہ میں آئی ہے۔ اس لیے اس کو کسی دشمن کے سامنے شرمندہ ہونا نہیں پڑتا ۔ وہ روحانی طور پر محمدی فوجوں کا سپہ سالار ہوتا ہے اور خدا تعالیٰ کا ارادہ ہوتا ہے کہ اس کے ہاتھ پر دین کی دوبارہ فتح کرے۔ اور وہ تمام لوگ جو اس کے جھنڈے کے نیچے آتے ہیں ان کو بھی اعلیٰ درجہ کے قویٰ بخشے جاتے ہیں۔ اور وہ تمام شرائط جو اصلاح کے لیے ضروری ہوتے ہیں ۔ اور وہ تمام علوم جو اعتراضات کے اٹھانے اور اسلامی خوبیوں کے بیان کرنے کے لیے ضروری ہیں اس کو عطا کیے جاتے ہیں۔’’(صفحہ 8)

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں : ‘‘یہ بات بیان کردینے کے لائق ہے کہ جن کو خدا تعالیٰ کا ہاتھ امام بناتا ہے ۔ ان کی فطرت میں ہی امامت کی قوت رکھی جاتی ہے۔’’حضرت اقدسؑ اسی تسلسل میں فرماتے ہیں: میں دیکھتا ہوں کہ اماموں میں بنی نوع کے فائدے اور فیض رسانی کے لیے مندرجہ ذیل قوتوں کا ہونا ضروری ہے۔حضور نے اس کے بعد چھ قوتوں کا ذکر فرمایا ہے اورحضرت مسیح موعودؑ نے سچا الہام جو خالص خداتعالیٰ کی طرف سے ہوتا ہے اس کی دس علامتیں بیان فرمائی ہیں۔ (صفحہ 9تا 21)

اللہ تعالیٰ کا جماعت احمدیہ پر بہت فضل اور احسان ہے کہ جس نے ہمیں اس دور کے امام الزمان حضرت مرزا غلام احمد قادیانی مسیح موعود و مہدی معہود ؑ کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی اور آپؑ کے تتبع میں خلافت احمدیہ کو ہمارے سروں پر سایہ فگن کردیا جس کی وجہ سے ہم افراد جماعت احمدیہ ایک لڑی میں پروئے گئے ہیں۔ خلیفہ وقت کے ایک اشارے پر اٹھتے اور بیٹھتے ہیں اور ان کا ہر حکم اپنے سر آنکھوں پر لیتے ہیں۔جس طرح نظام شمسی میں ستارے سورج کے گرد گھومتے ہیںاسی طرح ہم بھی اپنے خلیفہ کے گرد اکٹھے ہیںاور گردش کر رہے ہیں۔یہ بھی ہماری خوش قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں متفرق نہیں رہنے دیا ۔ اور یہ سب اس دور کے امام الزمان کی بدولت ہے۔ اسی مضمون کو حضرت اقدسؑ نے بہت پیارے انداز میں اس کتاب میں بیان کیا ہے،فرماتے ہیں:

‘‘امام الزمان اپنی جبلت میں قوت امامت رکھتا ہے اور دستِ قدرت نے اس کے اندر پیشروی کا خاصہ پھونکا ہوا ہوتا ہے۔ یہ سنت اللہ ہے کہ وہ انسانوں کو متفرق طور پر چھوڑنا نہیں چاہتا، بلکہ جیسا کہ اس نے نظام شمسی میں بہت سے ستاروںکو داخل کرکے سورج کو اس نظام کی بادشاہی بخشی ہے۔ایسا ہی وہ عام مومنوںکو ستاروں کی طرح حسب مراتب روشنی بخش کر امام الزمان کو ان کا سورج قرار دیتا ہے۔ اور یہ سنت الہٰی یہاں تک اس کی آفرینش میں پائی جاتی ہے کہ شہد کی مکھیوں میں یہ نظام موجود ہے کہ ان میں بھی ایک امام ہوتا ہے جو یعسوب کہلاتا ہے۔ اور جسمانی سلطنت میں بھی یہی خدا تعالیٰ نے ارادہ فرمایا ہے کہ ایک قوم میں ایک امیر اور بادشاہ ہو۔ اور خدا کی لعنت ان لوگوں پر ہے جو تفرقہ پسند کرتے ہیں۔ اور ایک امیر کے تحت حکم نہیں چلتے ۔ حالانکہ اللہ جل شانہ فرماتا ہے: اَطِیْعُواللّٰہ وَ اَطِیْعُواالرَّسُوْلَ وَاُولِی الْامْرِ مِنْکُمْ (النساء:60) اولی الامر سے مراد جسمانی طور پر بادشاہ اور روحانی طور پر امام الزمان ہے ۔ ’’(صفحہ 24)

الغرض حضرت اقدسؑ نے آسان اور دلچسپ پیرائے میں بہت گہرے اور دقیق مسائل کا حل ہمارے لیے اس کتاب میں بیان فرما دیا ہے۔کتاب کے پڑھنے کے ساتھ ساتھ دلچسپی بڑھتی چلی جاتی ہے۔دنیا کو گمراہی کے گڑھے سے نکالنے اور عافیت کے حصار میں لانے کے لیے اس کتاب کے آخر میں اس سوال کا جواب مرحمت فرمایا ہے کہ اس زمانہ میں امام الزمان کون ہے؟ آپ فرماتے ہیں: ‘‘اب بالآخر یہ سوال باقی رہا کہ اس زمانہ میں امام الزمان کون ہے جس کی پیروی تمام عام مسلمانوں اور زاہدوں اور خواب بینوں اور ملہموں کو کرنی خدا تعالیٰ کی طرف سے فرض قرار دیا گیا ہے۔ سو میں اس وقت بے دھڑک کہتا ہوںکہ خدا تعالیٰ کے فضل اور عنایت سے وہ امام الزمان میں ہوںاور مجھ میں خدا تعالیٰ نے وہ تمام علامتیں اور تمام شرطیں جمع کی ہیں اور اس صدی کے سر پر مجھے مبعوث فرمایا ہے۔ جس میں سے پندرہ برس گذر بھی گئے ۔ اور ایسے وقت میں مَیں ظاہر ہوا ہوںکہ جب کہ اسلامی عقیدے اختلافات سے بھرگئے تھے اور کوئی عقیدہ اختلاف سے خالی نہ تھا۔ … پس یہ تمام مختلف رائیں اور مختلف قول ایک فیصلہ کرنے والے حَکَم کو چاہتے تھے۔ سو وہ حَکَم میں ہوں۔ میں روحانی طور پر کسرِصلیب کے لیے اور نیز اختلافات کے دُور کرنے کے لیے بھیجا گیا ہوں ۔ ’’(صفحہ 26)

اللہ تعالیٰ ہمیں امام الزمان حضرت مسیح موعود ؑ کے مقام کو پہچاننے اور اس کے مطابق آپ کی تعلیمات و ارشادات کو سمجھنے والا اور ان پر عمل کرنے والا بنائے۔ آمین

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button