رپورٹ دورہ حضور انور

امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ امریکہ 2018ء (3 نومبر)

(عبد الماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر)

… … … … … … … … …
03؍نومبر2018ءبروزہفتہ
(حصہ دوم)
… … … … … … … … …

(گزشتہ سے پیوستہ)اس کے بعد پروگرام کے مطابق حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد کے بیرونی احاطہ میں نصب مارکی میں تشریف لے گئے جہاں مسجد مسرور کے افتتاح کے حوالہ سے ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا تھا۔

اس تقریب میں مختلف جماعتوں سے آنے والے جماعتی عہدیداران کے علاوہ دو صد کے لگ بھگ مہمان حضرات شامل ہوئے۔ان مہمانوں میں درج ذیل احباب شامل تھے۔

٭ یوایس کانگریس مین Hon.Gerry Connolly
٭ پریذیڈنٹ Tom Lantos فائونڈیشن آف ہیومن رائٹس اینڈ جسٹس
٭ ایمبیسڈر آف گیمبیا Hon.Dawda Fadera
٭ سینیٹرز سٹیٹ آف ورجینیا
٭ ممبرزورجینیا ہائوس آف Delegates
٭ چیئرمین DC سٹی کونسل
٭ میئر آف Manassas پارک
٭ میئر آف Fair Fay
٭ چیئرمین پرنس ولیم کائونٹی بورڈ آف سپروائزز
٭ پرنس ولیم اور Fair Fay کائونٹی بورڈ کے پانچ ممبران
٭پروفیسرعبدالعزیز Sachedina، جارج میسنGeorge Mason یونیورسٹی
٭ جارج واشنگٹن یورنیورسٹی کے دو پروفیسر صاحبان
٭ وائس پریذیڈنٹ Jewish Organization

علاوہ ازیں ڈاکٹرز، ٹیچرز، وکلاء، جرنلسٹس، میڈیا کے نمائندے، سیکیورٹی کے اداروں کے نمائندے اور زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے مہمان شامل تھے۔

پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم فاران ربانی صاحب مبلغ سلسلہ سائوتھ ورجینیا (یوایس اے) نے کی اور بعدازاں انگریزی زبان میں اس کا ترجمہ پیش کیا۔

اس کے بعد مکرم امجد محمود خان صاحب نیشنل سیکرٹری امورِخارجہ یوایس نے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے اس تقریب کے حوالہ سے اپنا تعارفی ایڈریس پیش کیا۔

بعدازاں تین مہمان حضرات نے اپنے ایڈریسز پیش کیے۔

٭ سب سے پہلے کانگریس مینGerry Connollyصاحب نے اپنا ایڈریس پیش کرتے ہوئے کہا:
میں حضورکو Prince William County میں خوش آمدید کہتاہوں۔ مسجد مسرور کے افتتاح کا موقع اپنے اندر نہایت ہی عظمت رکھتاہے۔ حضورامریکہ میں اس وقت تشریف لائے ہیں جبکہ ہم مشکل وقت سے گزررہے ہیں جہاں ہر دن کوئی نہ کوئی سانحہ ہوتا رہتا ہے۔ابھی حال ہی میں Pittsburgh پنسلووینیا میں synagogue میں بھی سانحہ ہواہے۔ ہمارے ملک کو ‘محبت سب کے لیے ، نفرت کسی سے نہیں’ جیسے الفاظ پر توجہ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ حضورانور کے سامنے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے مہمان تشریف فرماہیں جو کثیرالثقافتی معاشرہ کو خوش آمدیدکہتے ہیں ۔ ہمارے ملک کا ماٹو(motto)اور علامت E Pluribus Unum ہے۔ یہ ایک لاطینی محاورہ ہےجس کا مطلب ہے ‘بہت سی چیزوں سے مل کر ایک ’۔ ہم سب ایک معاشرہ ہیں ، ہم سب ایک ملک ہیں۔ اس لیے ہم آج آپ کی اِس خوبصورت مسجد کے افتتاح کی خوشی میں شریک ہیں اورآپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ آپ جو پیغام لیکر آئے ہیں اُس میں ہمارے لیے بھی بہتری ہے۔

مجھے یونائیٹڈ سٹیٹس کانگریس میں Ahmadiyya Muslim Caucus میں شامل ہونے پر بھی فخرہے۔ اسی طرح مجھے اس بات پر بھی بہت فخر ہے کہ حضورانورکے استقبال کے لیے جو resolutionپیش ہواتھا اس کی ڈرافٹنگ میں میرا بھی حصہ تھا۔

میں خاص طور پرحضورانور کی ساری دنیا میں امن کے قیام کے لیے مساعی اور جس طرح آپ انتہا پسندی اور مظالم کی مذمت کررہے ہیں ،اس کو سراہتاہوں ۔ آپ کا مذہبی آزادی ، انسانی حقوق اور جمہوریت کے قیام کا عزم قابلِ تعریف ہے۔ آج حضورکی یہاں تشریف آوری ہمارے لیے قابلِ فخر ہے۔ شکریہ۔

اپنے ایڈریس کے آخر پر کانگریس مین نے حضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں ریزولیوشن کی کاپی بھی پیش کی جس پر حضورانور نے موصوف کا شکریہ اداکیا۔

٭ اس کے بعد ڈاکٹر Katrina Lantos Swett جو کہ انسانی حقوق و انصاف کی تنظیم Tom Lantos Foundation کی سربراہ ہیں انہوں نے اپناایڈریس پیش کیا۔ موصوفہ نے کہا:

آپ سب کابہت شکریہ۔یقیناً اس موقع پر حاضر ہونامیرے لیے بہت خوشی اور فخر کی بات ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں مجھے حضورانور کے ساتھ چار پانچ مرتبہ ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہواہےاور جب بھی مجھے حضورکی خدمت میںحاضرہونے کا موقع ملتاہے تو میں امن، پیارمحبت اور ہم آہنگی کے جذبات ہی محسوس کرتی ہوں۔

موصوفہ نے کہا:کانگریس مین Gerry Connolly کی بات کو ہی میں دہراؤں گی کہ ہمیں اس وقت حضورانور کے پیغام کی پہلے سے بڑھ کر اشد ضرورت ہے۔ جب میں یونائیٹڈ سٹیٹس کے ریلیجس فریڈم کمیشن کی صدر تھی تو اُس وقت مجھے جماعت احمدیہ کے بارہ میں پتہ چلاتھا۔ آپ سارے لوگ جانتے ہیں کہ جماعت احمدیہ بہت ہی زبردست کمیونٹی ہے جنہوں نے دنیا کے ہر کونے میں انسانیت کی خدمت اور ایمان کو پہنچایا ہے۔ اور یہ سارے کام جماعت احمدیہ اپنے اوپر ہونے والے شدید مظالم کے باجود سرانجام دیتی چلی جارہی ہے۔ پاکستان میں احمدی شہریوں کوووٹ دینے کے حقوق حاصل نہیں ہیں، ان کے تحفظ اور ان کی پاکستان میں بقاکے بنیادی حقوق کو خطرہ لاحق ہے جبکہ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان کے حقوق کی حفاظت کرے۔ حالانکہ پاکستان کی تاریخ میں جو مشہور ترین شخصیات گزری ہیں ان میں سے سب سے اعلیٰ مقام حاصل کرنے والے لوگ احمدی تھے۔ پاکستان میں واحد نوبیل انعام یافتہ سائنسدان احمدی تھے۔ جس آدمی نے پاکستان کا دستور لکھاوہ ایک احمدی قانون دان تھا۔ لیکن اس کے باوجود احمدی اس ملک میں شدید مظالم کا شکار ہیں۔ احمدی مجھے ہمیشہ اس سنہری اُصول کو یاد کرواتے ہیں کہ برائی کے بدلہ میں برائی نہ کریں۔ ظلم کا مقابلہ ظلم اور غصہ سے نہیں کرنا بلکہ برائی کا مقابلہ اچھائی کے ساتھ کرناہے۔ جماعت احمدیہ کا وجود ہی ہمیں ہماری اس ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتاہے کہ ہم نے آزادی ضمیر و مذہب کی حفاظت کرنی ہے۔

٭ اس کے بعد ورجینیا ہاؤس آف ڈیلیگیٹس (Virginia House of Delegates) کی ممبر Hala Ayala نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔ انہوں نے ایڈریس کے آغاز میں سینیٹر Jeremy McPike کو بھی سٹیج پر آنے کی دعوت دی ۔

موصوفہ نے کہا: حضورانور کو خوش آمدید کہنا میرے لیے باعثِ افتخار ہے اور مسجد مسرور کی افتتاحی تقریب میں شمولیت میرے لیے قابلِ مسرت ہے۔ میں اپنے گورنر Ralph Northam کا پیغام لےکرآئی ہوں ۔

گورنر نے اس پروگرام میں نہ شامل ہونے پر افسوس کا اظہارکیاہے اور حضورانور کے لیے مبارکباد کاپیغام بھجوایاہے۔ گورنرNortham نے اپنے پیغام میں حضورانور کی دنیا بھر میں امن کے قیام ، خدمتِ انسانیت اور عالمی حقوق کے تحفظ کے لیے کی جانے والی مساعی کو سراہا۔ گورنرنے کہا کہ ورجینیا سٹیٹ ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے انسان کو خوش آمدید کہتی ہے اور ہر مذہب کا یکساں احترام کرتی ہے۔ گورنرنے اپنے پیغام میں جماعت احمدیہ کے ممبران کا بھی شکریہ اداکیاجو کہ Food Drives، Clothing Drives کا انعقاد کرنے اور خون کے عطیات دینے میں پیش پیش ہیں۔

اس کے بعد موصوفہ اور ان کے ساتھ سینیٹر McPike نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰبنصرہ العزیز کی خدمت میں گورنر کی طرف سے دیا جانے والا certificate of recognition پیش کیا۔

اس سرٹیفیکیٹ پر تحریرتھاکہ‘ 3 نومبر کو جماعت احمدیہ امریکہ ورجینیا میں اپنی مسجد کے افتتاح کی تقریب منا رہی ہے۔جماعت احمدیہ ورجینیا اس مسجد کے ذریعہ سے بہت سے رفاہی کاموں میں حصہ لے رہی ہے۔ حضورمسلمان دنیا کے ایک اہم رہنماہیں جو اپنے خطبات، خطابات، اپنی کتب اور دیگر میٹنگز کے ذریعہ امن کا پیغام پھیلارہے ہیں۔ ہم حضورکو Prince William کاؤنٹی میں خوش آمدید کہتے ہیں۔ ’

٭ اس کے بعد چھ بجکر 12 منٹ پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مہمانوں سے انگریزی زبان میں خطاب فرمایا۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطاب کا اردو ترجمہ پیش کیاجارہاہے۔

حضورانور نے اپنے خطاب کا آغاز تشہد و تعوذ سے فرمایا۔ اس کے بعد حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

تمام معززمہمانان! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ سب پر اللہ تعالیٰ کی سلامتی اور برکتیں ہوں۔ اس موقع پر سب سے پہلے تو میں اپنے تمام مہمانوں کا ہماری دعوت قبول کرنے اور اس مسجد کے افتتاح میں شامل ہونے پر شکریہ اداکرنا چاہتاہوں۔ آپ لوگوں کا شکریہ اداکرنا دراصل میرا مذہبی فریضہ ہے کیونکہ بانیٔ اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نے یہ تعلیم دی ہے کہ جو انسان دوسرے انسان کا شکرگزارنہیں وہ خدا تعالیٰ کا بھی شکرگزار نہیں ہوسکتا۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا:

اس شہر میں رہنے والی اکثریت غیرمسلموں کی ہے اور اس علاقہ میں احمدیوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے لیکن اس کے باوجود یہاں کے لوگ اور کاؤنٹی آفیشلز نے ہمیں یہاں مسجد تعمیر کرنے کی اجازت دی ہے۔ اس سے آپ لوگوں کی وسعتِ قلبی اور رواداری کے اعلیٰ معیارظاہرہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ آپ میں سے اکثر مسلمان نہیں ہیں لیکن اس کے باوجود ایک مذہبی اور اسلامی تقریب میں شامل ہورہے ہیں،یہ چیزبھی آپ کے کشادہ ذہن ہونے کی عکاسی کرتی ہےاور یہ آپ کی باہمی رواداری اور نیک فطرت کی وجہ سے ہے کہ آپ لوگ بڑی کامیابی سے اپنے اندر نئی کمیونیٹیز اور سوسائٹیز کو جذب کرلیتے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا: ہم سب جانتے ہیں کہ اس دور میں اسلام کو میڈیا میں بڑے پیمانہ پر منفی رنگ میں دکھایاجارہاہے۔اس منفی کوریج کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بعض نام نہاد مسلمانوں کی ایک قلیل تعداد کو انتہا پسند بنایاگیاہے جنہوں نے اپنے نفرت سے بھرپور کاموں کو درست ثابت کرنے کے لیے اسلام کا نام استعمال کرکے شدید قابلِ مذمت طریق اختیار کیے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں اکثر غیرمسلموں کے دلوں میں اسلام کے متعلق تحفظات اور خدشات جنم لے چکے ہیں۔ بلکہ لوگ دن بدن اسلام کو معاشرے کے لیے ایک خطرہ سمجھنے لگ گئے ہیں۔ان باتوں کی روشنی میں مقامی لوگوں کا مسجد کی تعمیرکی اجازت دے دینا اورپھر اس مسجد کے افتتاح کی خوشی میں شامل ہونا انتہائی قابلِ تعریف عمل ہے اور مجھے پابند کرتاہے کہ میں ایک مرتبہ پھر آپ سب لوگوں کا دل کی گہرائیوں سے شکریہ اداکروں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا: میں آپ لوگوں کو اس بات کا بھی یقین دلاناچاہتاہوں کہ میڈیا میں جو اسلام کو منفی رنگ میں دکھایاجارہاہے اس کا مذہب کی حقیقت سے دور دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ بعض انفرادی لوگ یا چندگروہ جو اپنی گھناؤنی حرکتوں کو درست ثابت کرنے کے لیے اسلام کا نام استعمال کرتے ہیں ان کا اسلام کے ساتھ کوئی بھی تعلق نہیں۔ اسلام تو پیار، محبت، امن ، صلح اور بھائی چارے کی تعلیم دیتاہے۔ دراصل ‘اسلام’ جو کہ عربی لفظ ہے اس کے معانی ہی ‘امن ’کے ہیں۔ پس ایک مذہب جس کانام اور اس کی بنیاد ہی امن پر قائم ہے اس کے لیے یہ ناممکن ہے کہ وہ ایسی باتوں کی اجازت دے یا ایسی چیزوں کو فروغ دے جن سے معاشرے کاامن خطرے میں پڑجائے بلکہ ایسے مذہب کے لیے ضروری ہے کہ وہ امن کو فروغ دے اور انسانیت میں پیارو محبت کو پھیلائے۔ یقیناً قرآن کریم جوکہ ہماری مقدس کتاب اور اسلامی تعلیمات اور اسلامی قانون کا سب سے زیادہ معتبر اور مستند ذریعہ ہے اس سے ہم نے یہی چیزیں سیکھی ہیں۔ شروع سے لیکرآخر تک قرآن کریم صرف امن کی کتاب ہے جو کہ عالمی انسانی حقوق و اقدار کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔اس کی تعلیمات بنی نوع انسان کو انسانیت کے جھنڈے تلے یکجاکرتی ہیں اور ہرفردِ واحد کے حق کی ضمانت دیتی ہیں کہ وہ مکمل آزادی، انصاف اور عدل کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا: قرآن کریم میں فرمایاگیاہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام قوموں میں رسول بھیجے تاکہ وہ ان قوموں کے اندر بنیادی حقوق اور عدل و انصاف کی اقدار کو قائم کریں۔ یہ رسول اس لیے مبعوث ہوئے کہ ان قوموں کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اور اس کی مخلوق کے ساتھ تعلق قائم ہو اور وہ بنی نوع انسان کو ایک دوسرے کے حقوق اداکرنے کی طرف توجہ دلائیں۔ ہم بحیثیت مسلمان یہ ایمان رکھتے ہیں کہ ان مقاصد کو پوراکرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے تمام اقوام میں رسول مبعوث فرمائے اور بڑے بڑے مذاہب کی تاریخ ثابت کرتی ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام اخلاقیات اور نیکی کی اعلیٰ اقدار پرعمل کرنے والے اور ان کی تبلیغ کرنے والے تھے۔اس لیے اسلام کی تعلیمات تو انسانیت کو متحدکرتی ہیں اورمذہب، رنگ و نسل کے تضادات سے بالاہوکر آپس میں باہمی محبت اوراحترام کے جذبہ کو فروغ دیتی ہیں۔ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جو کہ حائل رکاوٹوں کو گراتاہے اور پُرامن اور روادارانہ گفتگو کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اس لیے ایک سچے مسلمان کے متعلق یہ سوچا بھی نہیں جاسکتاکہ وہ دوسرے مذاہب کی مخالفت کرے اور ان کے ماننے والوں پر مظالم ڈھائے۔ اسلام نے کبھی اور کہیں بھی شدت پسندی کی تعلیم نہیں دی اور نہ ہی ظلم کی کسی بھی صورت کی حوصلہ افزائی کی۔ جب کبھی یا جہاں کہیں بھی اگر کسی مسلمان نے دہشت گردی کا حملہ کیا یا کسی قسم کی انتہا پسندی یا جنونیت کا مظاہرہ کیاتویہ صرف اسلامی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے کیا۔ اس طرح کے لوگ یا اس قسم کی حرکات صرف اور صرف اسلام کے مقدس نام کو خراب کرتی ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا: قرآن کریم کی سب سے پہلی سورۃ ‘الفاتحہ ’ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ وہ ‘‘رب العالمین ’’ہے جو تمام انسانوں کو پالتاہے۔اس کامطلب ہے کہ وہ لوگوں کے مذہب اور عقیدہ سے بالاہوکر تمام بنی نوع انسان کو پالتاہے۔ ایسے لوگ جو اللہ تعالیٰ کے وجود کے انکار ی ہوتے ہیں یا لامذہب ہوتے ہیں وہ لوگ بھی اللہ تعالیٰ کی رحمانیت اور رحیمیت سے فیضیاب ہوتے ہیں۔چنانچہ جہاں قرآن کریم اللہ تعالیٰ کو ‘رب العالمین ’قراردیتاہے ، وہاں یہ بھی بتاتاہے کہ اللہ تعالیٰ رحمان اور رحیم ہے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا: اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بانیٔ اسلام حضرت محمد ﷺ کے متعلق فرمایاکہ آپ ﷺ رحمۃ للعالمین ہیں۔ بلا شک و شبہ پیغمبرِ اسلامؐ نے اپنی ساری زندگی انسانیت سے بے پناہ محبت اور شفقت کا مظاہرہ کیا۔ آپؐ کا دل محبت اور پیار سے معمورتھا اور آپ ﷺ ہر وقت انسانیت کی بہتری میں لگے رہتے اور ہمیشہ دوسروں کی تکالیف دورکرنے کی کوشش کرتے ۔ آپ ﷺ نے اپنے پیروکاروں کو تمام انسانیت کی عزت وتکریم کرنے کی تعلیم دی۔ مثال کے طور پر ایک مو قع پر آپ ﷺ تشریف فرماتھے اور قریب سے ایک جنازہ گزرا تو آپ ﷺ فورًا کھڑے ہوگئے۔ اس پر آپ ﷺ کے ایک صحابی نے عرض کیاکہ یہ تو یہودی کا جنازہ تھا نہ کہ مسلمان کا۔ اس پر پیغمبرِ اسلام ﷺ نے فرمایا کہ کیا وہ انسان نہیں تھا؟ اس سے پتا چلتاہے کہ آپ ﷺ کے دل میں انسانیت کے لیے کس قدر محبت تھی۔ اس سے یہ بھی پتا چلتاہے کہ آپ ﷺ نے کس طرح اپنے پیروکاروں کو دیگر عقائد اور مذاہب کے لوگوں کے ساتھ حسنِ سلوک کرنے کی تعلیم دی کہ انہیں دوسروں کےاحساسات کا خیال رکھنا چاہیے اور ان کے جذبات کا احترام کرناچاہیے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا: بہت سے لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا اسلام مذہبی آزادی کو فروغ دیتاہے؟ اس سوال کے جواب میں میں آنحضرت ﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں سے ایک اَور مثال دیتاہوں۔ایک مرتبہ نجران کے عیسائیوں کا وفد آپ ﷺ سے ملنے کے لیے مدینہ آیا ۔ کچھ دیر کے بعد یہ عیسائی مضطرب ہونے لگ گئے۔ رسولِ کریم ﷺ نے دریافت فرمایاکہ ‘سب خیریت ہے؟’ عیسائیوںنے جواب دیاکہ یہ وقت اُن کی عبادت کا ہے لیکن یہاں پر عبادت کرنے کے لیے کوئی مناسب جگہ نہیں ہے۔ اس پر رسولِ کریم ﷺ نے عیسائیوں کوان کے طریق کے مطابق مدینہ میں موجود اپنی مسجد میں عبادت کے لیے دعوت دی۔ رسولِ کریم ﷺ نے اس عظیم الشان نمونہ کے ذریعہ ساری انسانیت کے لیے مذہبی رواداری اورمذہبی آزادی کی ابدی مثال قائم فرمادی۔ لیکن پھر بھی بعض لوگ سوال کرتے ہیں کہ دورِ اولیٰ کے مسلمانوں نے جنگیں کیوں لڑیں؟

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا: میں اس کی بھی وضاحت کردوں کہ جہاں کہیں بھی اسلام نے طاقت استعمال کرنے کی اجازت دی وہ ملکوں پر قبضہ کرنے کے لیے یا لوگوں کو زبردستی اسلام قبول کروانے کے لیے نہیں دی بلکہ قرآن کریم نے جہاں دورِ اولیٰ کے مسلمانوں کو کسی حدتک طاقت کا استعمال کرنے کی اجازت دی، وہاں بڑی وضاحت کے ساتھ فرمایا کہ یہ اجازت امن و تحفظ کو قائم کرنے کے لیے دی گئی ہے اوراس بات کی یقین دہانی کروانے کے لیے دی گئی کہ حقیقی مذہبی آزادی کا بول بالاہو۔ اس سے واضح ہوتاہے کہ طاقت کے استعمال کی اجازت اسلام کو بچانے کے لیے نہیں بلکہ لوگوں کے حقوق اور تمام مذاہب کی حفاظت کے لیے دی گئی تھی اور تمام لوگوں کے اِس حق کی ضمانت کے لیے دی گئی تھی کہ وہ جو چاہیں عقیدہ اختیارکریں۔ چنانچہ قرآن کریم کی سورت الحج کی آیت41 میں جہاں پہلی مرتبہ مسلمانوں کو دفاعی جنگ کرنے کی اجازت دی گئی وہاں اس بات کی بھی وضاحت کی گئی کہ مخالفینِ اسلام کسی سیاسی یا قومی یا ذاتی وجوہات کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف جنگ نہیں کررہے تھے بلکہ اس جنگ کا محرک ان کی مذہب سے نفرت تھی۔ اس آیت میں آتاہے کہ اگر مسلمانوں نے اس وقت اس ظلم اور ناانصافی کے خلاف قدم نہ اُٹھائے تو تمام مذاہب کا خاتمہ ہوجائے گا اور مذہبی آزادی بالکل ناپید ہوجائے گی۔یہ آیت خاص طور پر ذکرکرتی ہے کہ اگر ان کے حملوں کا جواب نہ دیا گیا تو یہودکے معبدخانے، عیسائیوں کے گرجے،مساجد اور دیگر عبادت گاہیں محفوظ نہیں رہیں گی۔ اس لیے سچ تو یہ ہے کہ دوسروں پر پابندیاں لگانے یا دوسروں کی مذہبی آزادی کو ختم کرنے کی بجائے قرآن کریم اپنی ذات میں مذہبی آزادی کا سب سے پہلا منشور ہے۔ مزید یہ کہ قرآن کریم مذہبی آزادی کو بنیادی انسانی حق قرار دیتاہے اس لیے اس کامطلب یہی بنتاہے کہ حقیقی مساجد مذہبی آزادی کی علامت ہیں اور باہمی عزت و احترام اور پیار ومحبت کی روشن مشعلیں ہیں۔

مسجد مسرور ورجینیا (Virginia)کے افتتاح کے موقع پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خطاب فرماتے ہوئے

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا: پس میں امید کرتاہوں آپ کے ماضی میں جو احمدیوں کے ساتھ تعلقات تھے اُن سے آپ نے پیار، محبت اور اخوت کا جذبہ ہی دیکھاہوگا۔اس لیے اس مسجد کی تعمیر کے بعد یہ جذبہ مزید بڑھے گا اور ہماری انسانیت کی خدمت اور پیار و محبت کاپیغام پہلے سے بڑھ کرہرسُو گونجے گا۔ مقامی احمدی مسلمان اس مسجد کے ہمسایوں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے اپنی کوششوں میں مزید اضافہ کریں گے۔ در حقیقت قرآن کریم باربار مسلمانوں کو توجہ دلاتاہے کہ وہ اپنے ہمسایوں کے حقوق اداکریں اور ان کے ساتھ کمال محبت اور شفقت کے ساتھ پیش آئیں۔ میں اس بات کی بھی وضاحت کردوں کہ ہمارے ہمسائے صرف وہی نہیں جو مسجد یا احمدی گھروں کے قرب و جوار میں رہتے ہیں بلکہ قرآن کریم کے مطابق ہمسائیگی کا دائرہ تو اس سے کہیں وسیع ہے اور اس ہمسائیگی میں آپ کے ساتھ کام کرنے والے، آپ کے ماتحت کام کرنے والے، آپ کے ساتھ سفر کرنے والے اور اس کے علاوہ اور بھی بہت سے افراد شامل ہیں۔ خلاصتہً اس شہر کے سارے لوگ ہی ہمارے ہمسائے بنتے ہیں اور یہ ہمارامذہبی فریضہ ہے کہ ہم اپنے ہمسایوں کے ساتھ نیک اور پیاراور کشادہ دلی کا سلوک کریں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا: میری دعاہے کہ یہاں کےمقامی احمدی میری باتوں کے مطابق اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں اور ہردن اپنے قول اور فعل سے اسلام کی محبت اور پیا ر کے بنیادی پیغام کی حقیقی عکاسی کرنے والے ہوں۔ اللہ کرے کہ احمدی نہ صرف اس علاقہ میں بلکہ سارے ملک میں اسلام کا امن اور خیرخواہی کا پیغام پھیلانے والے ہوں۔اللہ کرے کہ احمدی اپنے ہمسایوں اور معاشرے کے دیگر افراد کے ساتھ پیار اور ہمدردی کا سلوک کرنے والے ہوں تاکہ بعض غیر مسلموں کے ذہنوں میں اسلام کےمتعلق جو بھی خدشات اور تحفظات ہیں وہ جلد از جلد ختم ہوجائیں۔ میری دعاہے کہ احمدی ہماری مقدس کتاب قرآن کریم کی اعلیٰ تعلیمات پر عمل کرنے والے ہوں تاکہ یہاں کے مقامی لوگ اسلام کی حقیقت جان سکیں۔ اللہ کرے کہ حضرت محمد ﷺ جو کہ قرآنی تعلیمات کے کامل مظہر تھے ان کا اعلیٰ اور نیک نمونہ یہاں امریکہ میں اور اس سے باہر بھی لوگوں پر ظاہر ہو۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا: میری دلی دعا ہے کہ مقامی ، علاقائی، ملکی اور بین الاقوامی سطح پر تمام مذاہب کے لوگ دنیا میں امن کا پیغام پھیلانے کی قدرِ مشترک پر متحد ہوجائیں۔ میرے دل کی گہرائی سے یہ دعانکلتی ہے جب ہم لوگ اس دنیا سے کوچ کریں تو ہمارے بچے اور ہماری آنے والی نسلیں ہمیں پیار اور محبت کے ساتھ یادکریں۔ وہ یہ کہنے والے ہوں کہ ہمارے بزرگوں نے بنی نوع انسان میں پیار، امن اور بھائی چارہ کو پھیلانے اور اپنے پیچھے ایک پُرامن اور روشن دنیا چھوڑنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ اس کے برعکس آپ یقیناً یہ گوارا نہیں کر سکتے کہ ہمارے بچے ہمیں نفرت کے ساتھ یاد کریں کہ ہم جنگ اور خون ریزی کو پھیلانے والے تھے اور ان کے مستقبل کو تباہ کرنے والے تھے اور ہم نے ان کے لیے صرف جنگ اور تباہی کے اثرات ہی چھوڑے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا: پس آنے والی نسلوں کی حفاظت کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے تضادات کو نظرانداز کرکے ایک دوسرے کے حقوق اداکرنے اور انسانیت کی خدمت کرنے کی طرف توجہ دلادیں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے بلکہ ہمارا فریضہ ہے کہ ہم اپنے پیچھے بعد میں آنے والوں کے لیے خوشحال اور پُرامن دنیا چھوڑیں۔اس کو حاصل کرنے کے لیے لازم ہے کہ ہم اپنی تمام ترطاقتیں امن کے قیام کے لیے بروئے کارلائیں۔ اسلام کا بنیادی اصول یہ ہے کہ تمام مذاہب اور ان کے رہنماؤں کو عزت کی نگاہ سے دیکھا جائے۔ جیساکہ میں نے آغاز میں بھی کہاتھاکہ ہم تمام انبیاء پر ایمان لاتے ہیں اس لیے ایک حقیقی مسلمان کے لیے ممکن نہیں ہے کہ وہ ان انبیاء یا ان کی تعلیمات کے خلاف باتیں کرے۔ پس یہ بات انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ لوگوں کے رنگ ونسل اور مقام و مرتبہ سے بالاہوکر ہم ایک دوسرے کے مذہب اور عقائد کا احترام کریں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا: ان الفاظ کے ساتھ میں امید کرتاہوں اور دعاکرتاہوں کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اُن تنازعات کو ختم کرنے کی توفیق عطافرمائے جنہوں نے دنیا کو گھیر رکھاہے اور ہرقسم کی ناانصافی اور عدم برداشت کو ختم کرنے میں اپنی ذمہ داریاں اداکرنے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےفرمایا: میری دعاہے کہ ہم اپنے پیچھے نفرت اور ظلم سے بھری ہوئی دنیا کی بجائے ایک ایسی دنیا چھوڑ کرجائیں جو پیار اور محبت سے بھری ہو۔ اپنے ذاتی مفادات کے پیچھے پڑے رہنے کی بجائے لوگ خدمت ِ انسانیت کی اقدار کو پہچاننے والے ہوں اور آخر میں دعاکرتاہوں کہ اللہ کرے یہ مسجد اس معاشرے کے لیے مشعلِ راہ اور اتحاد اور نئی اُمید پیداکرنے کا ذریعہ بنے۔ آپ سب کا ایک مرتبہ پھر شکریہ۔ اللہ تعالیٰ آپ سب پر فضل فرمائے۔ آمین

اس کے بعدحضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دعاکروائی جس میں مہمان اپنے اپنے طریق پر شامل ہوئے۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطاب کے اختتام پر مہمانوں نے دیرتک تالیاں بجا کر حضورِانور کے خطاب کو سراہنے کا اظہار کیا۔

بعدازاں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے بعض مہمانوں کو تحائف عطافرمائے۔ اس کے بعد ڈنر کا پروگرام ہوا۔

کھانے کے بعد مہمان باری باری حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کے لیے آتے رہے۔

ضورِانور مہمانوں سے گفتگو فرماتے۔ مہمان حضورِانور کے ساتھ تصاویر بنواتے۔

بعدازاں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کچھ دیر کے لیے اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔

پونے آٹھ بجے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد مسرور میں تشریف لا کر نمازِمغرب وعشاء جمع کرکے پڑھائیں۔

نمازوں کی ادائیگی کے بعد پروگرام کے مطابق یہاں سے واپس مسجد بیت الرحمٰن واشنگٹن کے لیے روانگی تھی۔

احباب جماعت مردوخواتین بہت بڑی تعداد میں حضورِانور کو الوداع کہنے کے لیے مسجد کے بیرونی احاطہ میں موجود تھے۔ حضورِانور مسجد سے باہر تشریف لے آئے اور کچھ دیر کے لیے احباب میں رونق افروز رہے۔ سبھی لوگ چھوٹے بڑے، مردوخواتین اپنے آقا کی زیارت سے فیضیاب ہورہے تھے۔ قدم قدم پر بچے بچیاں، خواتین حضورِانور کی تصاویر بنارہی تھیں۔

بعدازاں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنا ہاتھ بلند کرکے سب کو السلام علیکم کہا اوردعا کروائی اور آٹھ بجکر 25 منٹ پریہاں سے روانگی ہوئی۔ قریباً ایک گھنٹہ پانچ منٹ کے سفر کے بعد ساڑھے نوبجے حضوانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مسجد بیت الرحمٰن تشریف آوری ہوئی اور حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائش گاہ تشریف لے گئے۔ (باقی آئندہ )

… … … … … … … … … …

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button