خطاب حضور انور

خطاب حضور فرمودہ 04 اگست 2018ء بر موقعہ جلسہ سالانہ یوکے 2018ء (قسط نمبر 3۔آخری)

(امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بںصرہ العزیز)

جماعت احمدیہ برطانیہ کے جلسہ سالانہ کے موقع پر 04؍اگست2018ء بروز ہفتہ( بعد دوپہر کے اجلاس میں)
امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا حدیقۃالمہدی( آلٹن) میں خطاب

(اس خطاب کا متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

ہیومینٹی فرسٹ

ہیومینٹی فرسٹ کے ذریعہ سے بھی اللہ کے فضل سے اچھا کام ہو رہا ہے اور جہاں بھی کہیں بھی طوفان یا ہنگامی حالات ہوتے ہیں یہ لوگ پہنچتے ہیں ۔اس کے علاوہ روٹین کی مدد بھی یہ لوگ کر رہے ہیں۔ اس سال بیس ممالک میں قدرتی آفات اور خانہ جنگی میں ایک لاکھ اکہتّر ہزار دو سو پچاس متاثرین کی مدد کی گئی ۔ان کو ضروری اشیاء طبی معاونت وغیرہ دیے گئے۔ واٹر فار لائف کی سکیم کے تحت صاف پانی کی بانوے نئی انسٹالیشن کی گئیں۔ مجموعی طور پر دو ہزار چھ سو بتیس پمپ لگائے گئے جس سے تین اعشاریہ نو ملین افراد استفادہ کر رہے ہیں۔ نالج فار لائف کے تحت نو(9) سکول تعمیر کیے گئے اور افریقہ میں ان کے اکتیس سکول کام کر رہے ہیں۔ میڈیکل کیمپس وغیرہ بھی یہ لگاتے ہیں۔ اسی طرح یتامیٰ کی کفالت بھی کر رہے ہیں۔

چیرٹی واک

چیرٹی واکس کے ذریعہ سے بھی جو مختلف یورپین ممالک میں مغربی ممالک میں یا ترقی یافتہ ممالک میںہوتی ہے کافی رقم جو چندہ مختلف جگہوں سے آتا ہے لوگ ڈونیشن کرتے ہیں وہ ان جگہوں پہ خرچ ہو رہا ہے۔

قیدیوں سے رابطہ اور ان کی خبر گیری

قیدیوں سے رابطہ اور ان کی خبر گیری کا کام بھی کافی کیا جا رہا ہے خاص طور پہ غریب ممالک میں۔

نومبائعین سے روابط کی بحالی

نومبائعین سے رابطہ اور بحالی کی جو رپورٹ ہے وہ یہ ہے کہ نائیجیریا نے اس سال ستائیس ہزار ایک سو ستائیس نومبائعین سے رابطہ بحال کیا جن سے بڑے عرصے سے رابطہ ٹوٹ گیا تھا۔ مالی نے بائیس ہزار ایک سو انیس۔ سیرالیون نے دس ہزار، سینیگال، کیمرون، آئیوری کوسٹ انہوں نے ہر ایک نے کچھ کچھ ہزار لوگوں سے رابطہ کیا اور یہ اللہ کے فضل سے اس لحاظ سے بھی ان کی نئی نو مبائعین سے رابطے کے بعد بھی جماعتیں قائم ہو رہی ہیں۔

نومبائعین کے لیےتربیتی کلاسز/ریفریشر کورسز کا انعقاد

نومبائعین کے لیےتربیتی کورسز کا افتتاح کیا جا رہا ہے۔ تین ہزار سات سو تیس جماعتوں میں ستاسی ہزار آٹھ سو اٹھاون تربیتی کلاسز اور ریفریشر کورسز کا انعقاد کیا گیا۔ ان میں شامل ہونے والے نومبائعین کی تعداد ایک لاکھ چوالیس ہزار چارسو سولہ ہے۔ اس کے علاوہ دوہزار دو سو چودہ اماموں کو ٹریننگ دی گئی۔

بیعتیں

اس سال ہونے والی بیعتیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال چھ لاکھ سینتالیس ہزار سے زیادہ بیعتیں اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی ہیں۔ 129 ممالک سے تقریباً تین سو اقوام احمدیت میں داخل ہوئی ہیں۔ نائیجیر کی اس سال کی بیعتوں کی مجموعی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ تقریباً ایک لاکھ پچیس ہزار ۔اس کے بعد مالی ہے ۔نائیجریا ہے۔ افریقن ممالک ہیں ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑا کام ہو رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان آنے والوں کو ثبات قدم بھی عطا فرمائے اور ایمان و ایقان میں اضافہ بھی کروائے۔

کانگومیںPygmeseقبائل میں تبلیغ اور بیعتیں

کانگو میں پگمیز(Pygmese) کی ایک قوم ہے جو وہاں کے اصل اور قدیم باشندے کہلائے جاتے ہیں۔ یہ لوگ دوردراز جنگلوں میں رہتے ہیں ۔کھیتی باڑی کرتے ہیں۔ شکار کر کے گزر بسر کرتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی تعداد کانگو میں ڈیڑھ لاکھ ہے۔ عام طور پہ ان کو وہاں کے لوگ اپنے سے کم تر ہی سمجھتے ہیں۔ میں نے ان کو کہا تھا کہ ان علاقوں میں جا کر تبلیغ کریں۔ چنانچہ اس سال ان علاقوں سے رابطہ کیا گیا اور وہاں کے دو گاؤں میں جب یہ تبلیغی وفود بھجوائے گئے اور تبلیغ کی گئی تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے 149 بیعتیں وہاں حاصل ہوئیں۔ اور اب انشاء اللہ باقاعدہ وہاں چھوٹی مسجد بھی بنانے کا خیال ہے۔

بیعتوں کے تعلق میں ایمان افروز واقعات

بیعتوں کے تعلق میں ایمان افروز واقعات ۔ انڈیا سے ظہور الحق صاحب لکھتے ہیں تبلیغ کی غرض سے ایک جگہ راجدھانی امپال گئے جہاں ایک دوست تاجر علی صاحب سے ملاقات ہوئی ۔انہوں نے مل کر بہت خوشی کا اظہار کیا اور کہنے لگے میں آپ لوگوں کا بڑی دیر سے انتظار کر رہا تھا۔ انہوں نے دوران گفتگو اپنے بیگ سے دو تین کاغذ نکالے جن پر شرائط بیعت اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں قرآن اور حدیث کی پیشگوئی تحریر تھی۔ انہوں نے یہ کاغذ خود تیار کر کے اپنے دوستوں میں تقسیم کرنے کے لیے رکھے ہوئے تھے۔ کہنے لگے کہ مجھے جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے متعلق پتہ چلا تو میں نے 2016ء میں ہی جماعت میں شامل ہونے کا اعلان کر دیا تھا جس پر لوگوںنے مخالفت کرنا شروع کر دی بلکہ ایک دن مخالفین اکٹھے ہو کر مجھے مارنے اور توبہ کرانے کے لیے نکلے لیکن خدا تعالیٰ کا کرنا ایسا ہوا کہ اس دن شدید زلزلہ آیا ۔جو لوگ مجھے مارنے اور توبہ کرانے کے لیے آنے والے تھے ان لوگوں کا بہت زیادہ نقصان ہوا جس کی وجہ سے یہ مجھ تک پہنچ ہی نہ سکے۔ کہتے ہیں کہ میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ زلزلہ ایک نشان کے طور پر آیا جو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی صداقت کا نشان ہے تب سے میں آپ لوگوں کے انتظار میں تھا ۔اس کے بعد موصوف نے اپنے ہاتھ سے بیعت فارم پُر کیا اور جماعت میں شامل ہوئے۔

لائبیریا کے مبلغ لکھتے ہیں کہ کیپ ماؤنٹ کاؤنٹی میںایک گاؤں ہے ۔دراصل قادیان کے نام پرGhadiyane( گادیان) نام اس گاؤں کا بھی رکھا گیا۔ اس گاؤں میں تبلیغ کے لیے گئے تو گاؤں کے بزرگ Mukhtaro Sonieصاحب نے بتایا کہ ان کے دادا 1970ء کی دہائی میں سیرالیون تعلیم حاصل کرنے کے لیے گئے تھے۔ وہاں انہوں نے احمدی مبلغ سے قرآن کریم پڑھا تھا اور ان کے ذریعہ سے انہیں جماعت احمدیہ کے بارے میں معلومات ملی تھیں۔ عین ممکن ہے کہ وہ احمدی ہو گئے ہوں۔ لہٰذا جب وہ واپس آئے تو انہوں نے اپنے خاندان اور دیگر لوگوں کے ساتھ جس جگہ رہائش رکھی اسے Ghadiyaneکے نام سے نام دیا اور یہ گاؤں اسی نام سے ہر جگہ مشہور ہے۔ اس گاؤں میں پہلے بھی تبلیغ کی گئی تھی لیکن کامیابی نہیں ہوئی تھی ۔چنانچہ اس گاؤں میں احمدیت کے نفوذ کے لیے خاص مساعی کی گئی اور سرکردہ لوگوں سے ملاقات کے لیے وقت بھی طے کیا گیا۔ ملاقات کے وقت تمام سرکردہ لوگ ایک تقریب کی وجہ سے اکٹھے تھے۔ ان سب کو جماعت احمدیہ کا تعارف، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی بعثت کی حقیقت اور آمد کا مقصد بتایا گیا اور بعد میں ان کے سوالات کے جوابات دئیے گئے۔ اس پر ان سب نے متفقہ فیصلہ کیا کہ وہ مطمئن ہیں اور جلد ہی وہ گاؤں کے باقی لوگوں کو مطلع کر کے ہمیں پیغام بھجوائیں گے کہ ہم کب وہاں تبلیغی پروگرام منعقد کریں۔کہتے ہیں 27؍مئی 2018ء کے دن ہمیں بلایا گیا وہاں جا کر تمام لوگوں کو تبلیغ کی گئی اور بڑی تفصیل کے ساتھ جماعت احمدیہ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارے میں بتایا گیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے 273 افراد نے احمدیت قبول کرنے کی توفیق پائی۔ تبلیغی پروگرام کے دوران پاس کے تین گاؤں کے امام اور دیگر افراد بھی موجود تھے ۔انہوں نے بھی اپنے اپنے گاؤں آنے کی دعوت دی۔ بعد میں پروگرام بنا کر وہاں جا کر پیغام حق پہنچایا اور ان تین گاؤں کے تمام افراد بھی جماعت میں شامل ہوئے ۔ خدا تعالیٰ نے 27 مئی کے بابرکت دن چار گاؤں حقیقی اسلام کی روشنی سے منور کر دئیے۔

بوسنیا کے مبلغ لکھتے ہیں کہ رافت صاحب کا تعلق سربیا کے شہر نَوِوی پَزَار(Novi Pazar) سے ہے۔ موصوف اپنے والد صاحب سے بعض امور میں ناراضگی کی وجہ سے گھر چھوڑ کر جرمنی جانا چاہتے تھے۔ اس خبر کی اطلاع ملنے پر ان کی خالہ جو کہ ایک مخلص احمدی خاتون ہیں انہوں نے مشورہ دیا کہ تم جرمنی جانے کے بعد سرائیوو چلے جاؤ اور وہاں جماعت احمدیہ کے سینٹر میں کچھ عرصہ قیام کرو اور پھر حالات بہتر ہونے پر گھر واپس آ جانا۔ رافت صاحب کی خالہ کہتی ہیں کہ اس مشورہ کے پیچھے میرا مقصد یہ تھا کہ اس نوجوان کو جماعت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کا موقع مل جائے گا۔ بہرحال موصوف کچھ عرصہ کے لیے خاکسار کے پاس بوسنیا آئے۔ مربی صاحب کہتے ہیں جہاں ان کے ذاتی مسائل کے ساتھ ساتھ جماعتی امور کے متعلق بھی گفتگو ہوتی رہی۔ بعض اوقات رات بھر مختلف دینی معاملات پر گفتگو ہوتی۔ دوران گفتگو خلفائے احمدیت کی قبولیت دعا کے واقعات بھی انہیں سنائے گئے۔ ان روح پرور واقعات کا ان پر بہت اثر ہوا۔ چنانچہ چند روز قیام کے دوران بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئے اور اپنے گھر واپس چلے گئے ہیں اور اپنے علاقے میں بڑی دلچسپی سے تبلیغ کا کام کر رہے ہیں اور چندے کے نظام میں بھی شامل ہو گئے ہیں۔ اسی طرح اور بہت ساری جگہوں کے واقعات ہیں۔

مثلاً قزاخستان میں آرمینیا سے تعلق رکھنے والے ایک دوست بَدَایَانْ اِڈوَرْدْ(Badayan Edward) رشیا میں مقیم ہیں۔ انہوں نے 2008ء میں اسلام قبول کر لیا تھا اور اسلام کے بارے میں کافی مطالعہ بھی کیا۔ نماز روزے کی پابندی بھی کرتے تھے۔ اس وجہ سے مقامی طور پر بعض مشکلات کا بھی شکار رہے ۔کچھ عرصہ قبل پہلی دفعہ لندن آئے۔ نماز کا وقت ہوا تو مسجد کی تلاش کے لیے نکل گئے ۔کہتے ہیں کہ میں تقریباً ایک گھنٹہ سڑکوں پر پیدل چلتا رہا لیکن کوئی مسجد نہیں ملی۔ بالآخر انہیں سبز گنبد نظر آیا اور یہ مسجد فضل تھی۔ سیکیورٹی پر موجود خدام نے ایک رشین احمدی نُورم صاحب کے ساتھ ان کا رابطہ کروایا۔ انہوں نے مسجد فضل میں نماز ادا کی۔ پھر انہیں جماعت کا تعارف کروایا۔ جماعت کے عقائد اور حالات کا علم ہونے کے بعد انہیں یقین ہو گیا کہ لندن میں اس طرح نماز کے لیے اتنی دیر تک گھومتے رہنا اور آخر کار جماعت احمدیہ ہی کی مسجد کا ملنا اور جماعت سے اس طرح تعارف ہونا کوئی اتفاق نہیں بلکہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل ہے۔ اس کے بعد جماعت کے ساتھ رابطہ میں رہے اور چند ماہ کے بعد گزشتہ سال اکتوبر میں بیعت کرنے کی توفیق پائی۔

اس طرح اور بہت سارے واقعات رشیاکے بھی اور دوسری جگہوں کے بھی ہیں۔

کانگو برازاویل کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک ایف اے کا طالبعلم ہمارے ٹی وی پروگرام باقاعدگی سے دیکھتا تھا۔ اس نے بتایا کہ ایک دن میں اپنے قریبی مسجد کے امام سے ملنے گیا کہ میں مسلمان ہونا چاہتا ہوں۔ امام نے مجھے قرآن کریم پڑھانا شروع کر دیا اور دو ماہ کے بعد کہنے لگا کہ تم نئے مسلمان ہوئے ہو جتنا میں نے تمہیں پڑھا دیا ہے اتنا ہی کافی ہے۔مجھے پڑھنے کا بڑا شوق تھا۔ لیکن امام نے مزید پڑھانے سے انکار کر دیا۔ ایک دن وہ جمعہ کے وقت جماعت احمدیہ کے مشن کے سامنے سے گزر رہا تھا تو اس نے سوچا کہ آج جمعہ یہیں پڑھ لیتا ہوں۔ چنانچہ جمعہ کے بعد اس نے خواہش کا اظہار کیا کہ میں قرآن کریم پڑھنا چاہتا ہوں۔ اس پر اسے قاعدہ یسرنا القرآن پڑھایا گیا اور باقاعدگی کے ساتھ قرآن کریم پڑھ رہا ہے۔ اس پر وہ خوش ہوا اور بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گیا۔

اس طرح کے چھوٹے چھوٹے بہت سارے واقعات ہیں۔

خوابوں کے ذریعہ سے قبول احمدیت

خوابوں کے ذریعہ سے بھی اللہ تعالیٰ رہنمائی کرتا ہے لوگ بیعتیں کر رہے ہیں ۔

بینن سے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ کوتونو شہر کے قریبی علاقہ ہوِیْدُ وپَوْسِیْجَا(Houedo Kpossidja) سے ایک عیسائی دوست جن کا تعلق عیسائیت کے فرقہ سیلیست (Celeste) سے ہے وہ ہماری مسجد میں آئے اور اسلام کے متعلق بعض سوالات کیے۔ انہیں اسلامی تعلیم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعویٰ کے حوالے سے سمجھایا گیا تو کہنے لگے کہ مَیں جماعت احمدیہ میں داخل ہونا چاہتا ہوں۔ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ دراصل اللہ تعالیٰ نے خود میری رہنمائی کی ہے ۔انہوں نے بتایا کہ چند دن قبل میں نے خواب میں دو بزرگوں کو دیکھا تھا ان میں سے ایک بزرگ نے مجھے اشارہ کر کے کہا کہ جس مذہب پر تم قائم ہو وہ ہدایت کا راستہ نہیں ہے اور دوسرے بزرگ خواب میں مستقل اللہ اکبر اللہ اکبر کا ورد کر رہے تھے ۔اس لیے خواب کے بعد مجھے یہ اشارہ مل گیا کہ اسلام ہی سچا مذہب ہے ۔اس کےبعد انہیں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور میری تصاویر دکھائیں تو بڑی حیرت کے ساتھ کہنے لگے کہ یہی دونوں تھے جنہوں نے خواب میں میری رہنمائی کی تھی۔ چنانچہ یہ اپنے سارے خاندان سمیت عیسائی مذہب چھوڑ کر اسلام میں داخل ہو گئے اور اپنے گھر کے ساتھ تعمیر کردہ چھوٹے سے چرچ کو مسجد میں تبدیل کر دیا جہاں اب باقاعدگی سے نمازیں ادا کی جاتی ہیں۔

انڈیا سے ایک مربی صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دوست شیخ محمد جانب صاحب سے جوہسٹری کے ایم۔اے آنرز ہیں تبلیغی رابطہ ہوا۔ دوران گفتگو ان کی نظر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصویر پر پڑی تو کہنے لگے یہ کون شخص ہے۔ انہیں بتایا گیا کہ یہی وہ امام مہدی اور مسیح موعود ہیں جن کا یہ اُمّت مسلمہ انتظار کر رہی تھی۔اس پر کہنے لگے کہ میں نے ان کو خواب میں دیکھا تھا اور خدا تعالیٰ نے مجھے بتایا ہے کہ اب راہ نجات اسی وجود سے وابستہ ہے۔ چنانچہ اس کے بعد فورًا وہ بیعت کر کے جماعت میں شامل ہو گئے۔

کیرالہ کے سیکرٹری دعوۃ الی اللہ لکھتے ہیں کہ ایک دوست بنشاد صاحب نے جماعت کے متعلق ایک ڈاکومنٹری دیکھی اس کے بعد جمعہ ادا کرنے کے لیے احمدیہ مسجد میں گئے جہاں انہوں نے میرا خطبہ بھی سنا۔ کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے خواب میں دیکھا کہ وہ چند دوستوں کے ساتھ صراط مستقیم کی تلاش میں نکلے ہیں اور ایک جگہ بڑا ہجوم نظر آر ہا ہے۔ دوستوں کو چھوڑ کر ہجوم کی طرف چلے گئے جہاں ایک شخص صفیں درست کر رہا ہے ۔اس کے بعد مجھے دیکھا کہ امامت مَیں نے کروائی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ پھر آپ مجھے آسمان کی طرف لے گئے جس سے مجھے بے انتہا لذت محسوس ہوئی۔ چنانچہ اس خواب کے بعد انہوں نے بیعت کرنے کی سعادت حاصل کر لی۔ اس طرح اور بھی بہت سارے واقعات ہیں مختلف ملکوں کے۔

احمدیوں کا نمونہ دیکھ کر بیعتیںاور غیروں کے رویّہ میں تبدیلی

احمدیوں کا نمونہ دیکھ کر بھی بیعتیں ہوتی ہیں۔ جو خطبوں میں اکثر میں کہا کرتا ہوں کہ اپنے نمونے قائم کریں۔

ہنڈورس کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک تبلیغی سفر کے دوران ایک دوست میکس(Mr Max) کے ساتھ رابطہ ہوا جو ایک ٹانگ سے معذور تھے۔ انہوں نے سوال پوچھا کہ اگر خدا ایک ہے تو بہت سارے مذہب اور ان میں اختلاف کیوں ہے؟ اس پر جب انہیں جواب دیا گیا تو موصوف رات کو اپنے دوست کو لے کر ہماری رہائشگاہ پر ملنے کے لیے آئے۔ ان کے دوست نے اس ملاقات میں نہایت بدتمیزی کی اور اٹھ کر چلا گیا ۔مگر موصوف خود بیٹھے رہے اور اسلام کے متعلق گفتگو سنتے رہے۔ اگلے دن انہوں نے بیعت کر لی۔ ان سے بیعت کرنے کی وجہ پوچھی تو کہنے لگے کہ جب میرے دوست نے بدتمیزی کی تھی تو آپ لوگوں نے بالکل بھی سخت جواب نہیںدیا تھا اور اس کی بات سنتے رہے۔ میں اس وجہ سے بہت متاثر ہوا ہوں اور دوسرا مجھے مذہب کے آپس میں اختلاف کی وجہ کا اب پتہ چل گیا ہے۔ اس لیے میں نے بیعت کر لی ہے۔

اسی طرح امیر صاحب نائیجیریا لکھتے ہیں کہ جماعت کے ایک ممبربشیر اَکِیْلَاپَاصاحب(Bashir Akilapa) کا بیٹا بیمار تھا اور احمدیہ ہسپتال میں داخل تھا ۔ایک اور مریض سراجو(Suraju) صاحب جو پہلے مسلمان تھے لیکن اب عیسائی ہو چکے ہیں وہ بھی اسی وارڈ میں داخل تھے۔ ان کی دیکھ بھال ان کے ایک غیر احمدی مسلمان دوست حکیم صاحب کر رہے تھے۔ غیر احمدی دوست حکیم صاحب نے دیکھا کہ بشیر اکیلاپا صاحب ہر روز رات کو تین بجے کہیں چلے جاتے ہیں اور پھر صبح چھ بجے آتے ہیں ۔پوچھنے پر بشیر صاحب نے بتایا کہ وہ روزانہ تہجد ادا کرتے ہیں۔ اس پر غیر احمدی دوست بہت متاثر ہوا۔ انہوں نے بھی بشیر صاحب کے ساتھ تہجد ادا کرنی شروع کر دی۔ چند دن بعد ان کا عیسائی دوست ٹھیک ہو گیا۔ اس کے بعد حکیم صاحب اور ان کے عیسائی دوست نے بیعت کر کے جماعت احمدیہ میں شمولیت اختیار کر لی۔ کہنے لگے کہ ہم احمدیوں کے رویّےسے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ یہ حقیقی اسلام پر عمل کرنے والے ہیں۔

کاٹھمنڈو سے تعلق رکھنے والے ایک دوست کو مشن ہاؤس میں مدعو کیا گیا۔ انہیں پہلے اسلام کے بارے میں معلومات بالکل نہیں تھیں۔ ان کو اسلامی اصول کی فلاسفی اور جو میرے مختلف لیکچر ورلڈ کرائسس (World Crisis)پہ ہیں وہ دئیے۔ انہوں نے بتایا کہ میں ایک مرتبہ اسلام کے بارے میں جاننے کے لیے چند غیر احمدی مسلمانوں کے پاس گیا تھا مگر ان کے کردار کی وجہ سے میرے دل میں مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت پیدا ہو گئی تھی۔ لیکن آج احمدیوں سے ملاقات اور گفتگو کے بعد مجھے جتنی زیادہ نفرت تھی اس سے کئی گنا زیادہ اسلام سے محبت ہو گئی ہے۔ جماعت احمدیہ حقیقی اسلام کا چہرہ پیش کر رہی ہے ۔اس کے بعد یہ مسلسل جماعت سے رابطہ میں ہیں اور اسلام اور احمدیت کے متعلق بہت زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں اور کئی کتب کا مطالعہ بھی کر چکے ہیں۔

مخالفین کے پراپیگنڈہ کے نتیجہ میں بیعتیں

مخالفین کے پراپیگنڈہ کے نتیجہ میں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیعتیں ہوتی ہیں۔ خود ہماری تبلیغ کا کردار ادا کر رہے ہیں، مددگار بن رہے ہیں۔

بینن میں’ لوکوسا‘ ریجن کے معلم لکھتے ہیں کہ خاکسار کے زیر تبلیغ ایک گاؤں تھا۔انہیں تبلیغ کر رہے تھے لیکن وہاں سے کوئی پھل نہیں مل رہا تھا۔ چنانچہ کچھ عرصہ قبل جب میں اس گاؤں میں گیا تو گاؤں کا چیف کہنے لگا کہ میں اور میرے کچھ ساتھی جماعت احمدیہ میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔ پوچھنے پر گاؤںکے چیف نے بتایا کہ آج غیر احمدی مسجد کا امام یہاں آیا تھا اور اس نے ہم سے کہا تھا کہ ہم احمدیوں کی بات نہ سنیں کیونکہ احمدی لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں اور ان پر جادو کر دیتے ہیں۔ اس پر میں نے مولوی صاحب کو یہ جواب دیا کہ جماعت احمدیہ کا معلم ہمارے پاس دو ماہ سے آ رہا ہے اور آج تک اس نے کسی مذہب یا کسی مسلمان فرقے کے متعلق کوئی نفرت والی بات نہیں کی اور نہ ہی ہمیں کبھی یہ کہا ہے کہ فلاں کی بات نہ سننا یا فلاں کافر ہے بلکہ وہ ہمیشہ امن کی تعلیم دیتا ہے۔ تمہاری باتوں سے ہمیں پتہ چل گیا ہے کہ جو سچا ہوتا ہے اس کو کسی کا خوف نہیں ہوتا اس لیے وہ کسی کے بارے میں جھوٹی باتیں نہیںکرتا ۔چنانچہ چیف نے اور اس کے ساتھ گاؤں کے دیگر 35 افراد نے بیعت کر کے جماعت میں شمولیت اختیار کر لی۔

امیر صاحب گھانا لکھتے ہیں کہ ٹیما (Tema)کے علاقے میں ایک غیر احمدی سُنّی امام احمدیت کی بہت مخالفت کرتے ہیں اور ان کا سارے علاقہ میں اثر و رسوخ ہے۔ گاؤں گاؤں جا کر لوگوں کو احمدیت میں شامل ہونے سے روکتے ہیں۔ انہوں نے اعلان کر رکھا ہے کہ میرے مرنے کے بعد ہی احمدیت میرے علاقے میں آ سکے گی۔ جب تک می ں زندہ ہوں یہ ممکن نہیں ہونے دوں گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا کرنا ہوا کہ ان کا اپنا بیٹا جس نے سینئر ہائی سکول کی تعلیم مکمل کر لی ہے اس نے احمدیت قبول کر لی ہے۔ جو کہتا تھا کہ میری زندگی میں یہاں احمدیت نہیں آئے گی اللہ تعالیٰ نے اس کی زندگی میں اس کے گھر میں احمدیت کا پودا لگا لیا۔

نشان دیکھ کر بیعتیں

بعض بیعتیں نشان دیکھ کر بھی ہوئیں۔

ویسٹ بنک فلسطین کے عبدالقادر صاحب کہتے ہیں کہ زیر تبلیغ دوست کے گھر میں بعض ایسے تکلیف دہ مسائل تھے جن کا حل ناممکنات میں سے تھا ۔انہوں نے دعا کے لیے خط بھی مجھےلکھے اور تفصیل کے ساتھ لکھا اور مسائل بیان کیے۔ کچھ عرصہ کے بعد انہوں نے بڑے جذباتی انداز میں کہا کہ یہ دعا کی برکت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حیران کن طور پر میرے تمام مسائل حل فرما دئیے ہیںاور مجھے ایسا شرح صدر اور اطمینان قلب عطا فرمایا ہے کہ اب میں بڑے شوق اور دلچسپی کے ساتھ احمدیت کا مطالعہ کرتا ہوں اور باقاعدگی سے ایم ٹی اے دیکھتا ہوں ۔چنانچہ اس کے بعد جماعت میں شامل ہو گئے اور بیعت کرنے کے بعد کہنے لگے کہ میری عمر اس وقت چھیاسٹھ سال ہے اور اس عمر میں عقیدہ تبدیل کرنا اتنا آسان نہیں ہے مگر احمدیت نے مجھے مجبور کر دیا ہے کہ میں اپنے سابقہ عقائد کلیۃً ترک کر دوں۔

قبولِ احمدیت کے بعد نومبائعین میں غیر معمولی تبدیلی

احمدیت قبول کرنے کے بعد نومبائعین میں غیر معمولی تبدیلی بھی پیدا ہوتی ہے۔ بینن کے ایک نومبائع عتیق احمد صاحب بتاتے ہیں کہ جماعت احمدیہ میں شامل ہونے کے بعد وہ اپنے اندر بہت زیادہ تبدیلی محسوس کرتے ہیں۔ پہلے تو وہ صرف نام کے مسلمان تھے۔ شراب پیتے تھے۔ نمازیں ادا نہیں کرتے تھے ۔اور بھی کئی برائیاں ان میں موجود تھیں۔ لیکن جب سے وہ اسلام احمدیت میں شامل ہوئے ہیں خدا تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے تمام فضولیات اُن سے دور کر دی ہیں اور اب وہ باقاعدہ نمازی بن گئے ہیں۔

برکینا فاسو کے ایک معلم لکھتے ہیں کہ ایک گاؤں یاڈے(Yade) کی جماعت کے نومبائع ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں ساٹھ سال کا ہوں آپ لوگوں سے قرآن کریم سیکھ رہا ہوں۔ مُلّاں ہمارے گاؤں میں آتے ہیں تبلیغ کرتے ہیں اور زکوۃ اور چندہ وغیرہ لے کر چلے جاتے تھے پھر پورا سال ان کا منہ نہیں دیکھتے تھے۔ مولویوں کی یہ حالت دیکھ کر میں ایک دن اپنے باپ کی قبر پر جا کر بہت رویا اور اپنے باپ سے کہا کہ آپ مسلمان تھے لیکن حقیقی اسلام سے محروم رہے اور ہمیں بھی محروم رکھا۔ آج آپ کے بچے حقیقی مسلمان ہیں ۔میں ساٹھ سال کی عمر میں قرآن سیکھ رہا ہوں۔ میں نے نماز سیکھ لی ہے۔ وضو کا طریقہ بھی آتا ہے۔ اللہ مجھے اور میری اولاد کو احمدی ہونے کی حالت میں ہی موت دے۔

بوسنیا سے مبلغ صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دوست فرید صاحب کمیونزم سے بہت متاثر تھے۔ طرح طرح کی معاشرتی برائیاں ان میں سرایت کر گئی تھیں۔ ان میں ایک برائی شراب نوشی کی بھی تھی۔ ان کا جماعت کے ساتھ رابطہ ایک مقامی احمدی نوجوان ایلویڈین(Elvedin) صاحب کے ذریعہ سے ہوا۔ موصوف کا جماعت کے ساتھ رابطہ تو مستقل رہا لیکن جماعت کی تعلیم کے بارے میں یا عقائد کے بارے میں کسی قسم کی گفتگو کرنے سے اعراض کرتے تھے اور کئی سالوں تک اسی طرح رابطے میں رہے۔ دوران سال ایک دن مشن ہاؤس آئے اور کہنے لگے کہ میں بیعت کر کے جماعت میں شامل ہونا چاہتا ہوں اور ساتھ ہی چندہ کے نظام میں بھی شامل ہو گئے۔ فرید صاحب بیعت کرنے کے بعد نہ صرف جماعتی پروگراموں میں باقاعدگی کے ساتھ شامل ہوتے ہیں بلکہ تبلیغ کے میدان میں بھی بہت محنت سے کام کر رہے ہیں۔ بیعت کرنے کے بعد موصوف کے اندر بہت بڑی تبدیلی آئی ہے۔ شراب نوشی جیسی عادت جس میں لمبے عرصہ سے مبتلا تھے وہ بھی ترک کر دی۔

نومبائعین کو احمدیت چھوڑنے کی دھمکیاں اور نومبائعین کی ثابت قدمی

مخالفین احمدیت کی طرف سے جماعت چھوڑنے کی دھمکیاں بھی ملتی ہیں۔ بنگلہ دیش سے ایک صاحب لکھتے ہیں کہ یہاں مخالفین چار احمدیوں کو پکڑ کر لے گئے ۔ایک احمدی دوست کے گھر ان کو پکڑنے گئے تو اس گھر میں ان کی والدہ اور بہنیں تھیں۔والدہ نے کہا کہ میرا بیٹا کس جماعت میں جاتا ہے اس کا فیصلہ کرنے والے تم لوگ کون ہو؟ ہم احمدیت نہیں چھوڑیں گے۔ تم لوگ یہاں سے چلے جاؤ۔ جاتے وقت مولوی نے کہا کہ ہم دیکھ لیں گے کہ تم اپنی بیٹیوں کو کہاں بیاہتی ہو۔ اس پر بیٹیوں نے اندر سے جواب دیا کہ ہماری شادیاں نہ ہوئیں تو ہم ساری زندگی ایسے ہی گزار دیں گی لیکن احمدیت نہیں چھوڑیں گی۔ مضبوطی ایمان کے واقعات ہیں۔ اسی طرح کے بہت سارے واقعات ہیں جو انشاء اللہ آئندہ کسی وقت بیان کرتا رہوں گا۔

نشان دیکھ کر نومبائعین کے ایمان میں مضبوطی

نشان دیکھ کر نومبائعین کے ایمان میں مضبوطی بھی پیدا ہوتی ہے۔ آئیوری کوسٹ سے تعلق رکھنے والے ایک دوست کارا موگو(Karamogo) صاحب لکھتے ہیں کہ میں نے اسی سال اپریل 2018ء میں احمدیت قبول کی۔ احمدیت قبول کرنے کے باوجود مخالفین کی باتوں کا کچھ اثر تھا اور دل میں شکوک و شبہات پیدا ہوتے تھے۔ چنانچہ میں نے دعا کی تو خواب میں آسمان پر بہت سارے ستاروں کو چمکتے ہوئے دیکھا اور ان ستاروں نے عربی حروف’ ع ش ش ‘ کی شکل اختیار کر لی۔ یہ منظر دیکھ کر خواب میں ہی میں نے اللہ اکبر کہا۔ مجھے ان عربی حروف کی سمجھ تو نہیں آئی لیکن جب آنکھ کھلی تو میرا دل مطمئن تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے احمدیت کی سچائی کا ایک نشان ہے۔

کانگو سے صوبہ باندوندوکی جماعت کے ایک نوجوان ہیں ان کو احمدیت میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ کہتے ہیں میں پہلے عیسائی تھا اور کئی مرتبہ بورڈ کے امتحان میں فیل ہو چکا تھا۔ جب میں جماعت میں داخل ہوا تو بار بار دعا کرنے کی تلقین سنی ۔اس پر میں نے دعا کی کہ اے اللہ اگر یہ جماعت سچی ہے تو اس دفعہ مجھے امتحان میں کامیابی مل جائے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ اس علاقے سے اس مرتبہ 55 طلباء نے بورڈ کا امتحان دیا جن میں سے 54 فیل ہو گئے اور صرف میں واحد تھا جو پاس ہوا اور احمدی تو پہلے ہی تھا لیکن اس کے بعد میرا ایمان اور مضبوط ہوگیا۔

مخالفین کا بد انجام

مخالفین کا بد انجام۔ اس کے بھی نظارے ہم دیکھتے ہیں۔ دیناج پور بنگال سے مبلغ انچارج کہتے ہیں کہ جماعت احمدیہ ‘بانی ہری’ میں عبدالرحیم نامی ایک شخص نے جس نے عارضی معلم کے طور پر بھی کام کیا تھا جماعت سے علیحدگی اختیار کر لی۔ اس سے ملاقات ہوئی تو اسے مشن ہاؤس میں آنے کی دعوت دی ۔اس پر وہ جماعت کے خلاف نہایت غلیظ زبان استعمال کرتے ہوئے گندی گالیاں دینے لگ گیا اور کہنے لگا کہ یہاں سے چلے جاؤ ورنہ جان سے مار دے گا۔ کچھ ہی عرصہ بعد پتہ چلا کہ اس کو فالج کا حملہ ہوا ہے اور بول بھی نہیں سکتا اور اپاہج بن کر بستر پر پڑا ہوا ہے۔

اس طرح کے بہت سارے لوگوں کے واقعات ہیں جنہوں نے مخالفت کی، حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دیں اور اس دریدہ دہنی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی پکڑ بھی کی۔اور ضروری نہیں کہ ہر ایک پکڑا جائے۔ بعضوں کو چھوٹ بھی ملتی ہے اور اس لیے تا کہ وہ جو جماعت کی ترقی ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان کی بلندی ہے اس کے نظارے بھی کرتے رہیں۔

قبولیت دعا۔نصرت الٰہی۔ حفاظت الٰہی کے واقعات

نصرت الٰہی ،حفاظت الٰہی کے واقعات۔ بینن سے معلم صاحب لکھتے ہیں کہ ہم ایک گاؤں میں تبلیغ کے لیے گئے ۔ یہ مقامی مبلغ ہیں۔ جب تبلیغ شروع کی تو اچانک تیز موسلا دھار بارش شروع ہو گئی۔ اس پر لوگ اٹھ کر جانے لگے تو ہم نے کہا کہ آپ لوگ بیٹھ جائیں ہم مسیح محمدی کا پیغام لے کر آئے ہیں اس لیے بارش ہمارے پیغام کے درمیان روک نہیں بن سکتی۔ اس پر لوگ بیٹھ گئے اور ہم نے دعا کی۔ دعا کے تقریباً دو منٹ بعد ہی بارش رک گئی اور قریباً دو گھنٹے تک تبلیغ اور سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہا۔ چنانچہ اس دن بہتّر افراد نے احمدیت قبول کی۔ اس کے بعد جب ہم واپسی کے لیے روانہ ہوئے تو تیز موسلا دھار بارش شروع ہو گئی جو تقریباً تین گھنٹے تک مسلسل ہوتی رہی۔

اسی طرح انڈیا سے اور جگہوں سے بہت سارے واقعات ہیں۔

ہونڈورَس کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ہونڈورَس میں رہنے والے ایک مقامی احمدی’ پرسی موریو‘ مختلف مسائل کا شکار تھے۔ ان کے حالات کو دیکھتے ہوئے انہیں کہا کہ اپنی پریشانی کے حوالے سےمجھے بھی دعا کے لیے لکھیں۔ چنانچہ انہوں نے مجھے دعا کے لیے لکھا۔ اور اپنے مسائل کا ذکر کیا اور اس کے بعد کہتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے مسائل خود بخود حل ہونا شروع ہو گئے۔ کہتے ہیں کہ پہلے مجھے ایسے لگتا تھا کہ مجھ میں کچھ کرنے کی اور آگے چلنے کی ہمت ہی نہیں رہی ۔کہتے ہیں لیکن خط لکھنے کے بعد اور دعا کے بعد ایک غیبی طریق سے کہتے ہیں آگے چلنے کی ہمت مجھے ملی اور دل کو اطمینان ہوا اور ایک نیا سہارا ملا۔

اسی طرح اور بہت سارے واقعات ہیں۔

جلسہ سالانہ کی برکات

جلسہ سالانہ کی برکات بھی کیا ہوتی ہیں۔ زکریا صاحب لائبیریا سے لکھتے ہیں کہ لائبیریا میں ایک لمبا عرصہ خانہ جنگی کی وجہ سے بہت سارے خاندان ایک دوسرے سے بچھڑ گئے تھے اور کئی سال گزرنے کے باوجود ابھی تک ایسے خاندان ہیں جن کا آپس میں رابطہ نہیں ہو سکا۔ عثمان شریف صاحب نے 2016ء میں احمدیت قبول کی۔ ان کا آبائی گاؤں سیرالیون کے بارڈر پر واقع کیپ ماؤنٹ کاؤنٹی میں ہے لیکن جنگ میں نقل مکانی کی وجہ سے یہ چھ سو کلو میٹر دور نِمْبَا کاؤنٹی میں سیٹل (Settle)ہو گئے۔ وہاں رہنے لگ گئے۔ خانہ جنگی کے دوران وہ اپنی والدہ بیوی اور چار بچوں سے بچھڑ گئے۔ اس عرصہ کے دوران ان کے بیوی بچوں کو اطلاع ملی کہ عثمان شریف صاحب فوت ہوچکے ہیں جس پر انہوں نے رو دھو کر صبر کر لیا۔ اس سال عثمان صاحب کو جلسہ سالانہ لائبیریا میں شامل ہونے کی توفیق ملی۔ جلسہ میں ان کی بیوی بھی شامل تھیں۔ چنانچہ جلسہ کے موقع پر عثمان صاحب کی بیوی کی نظر اچانک عثمان صاحب پر پڑی۔ ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی گویا ایک مردہ انسان اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ رہی ہیں۔ پہلے تو ان کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ عثمان شریف ہیں۔ بہرحال جب انہیں یقین ہوا کہ وہ واقعی عثمان صاحب ہیں تو وہاں جذباتی منظر تھا۔ سب خدا کی حمد و شکر کر رہے تھےکہ احمدیت نے ان کو دوبارہ ملا دیا۔ عثمان صاحب کو بتایا گیا کہ آپ کی جدائی کا آپ کی والدہ کو بہت صدمہ تھا اور وہ اس وقت بیمار ہیں۔ چنانچہ جلسہ کے بعد عثمان صاحب نے اپنی والدہ سے فون پر بات کی تو والدہ نے پہلی بات یہی پوچھی کہ کیا تم نے احمدیت قبول کر لی۔ جب انہوں نے بتایا کہ الحمد للہ میں احمدی ہوں تو بڑی خوشی کا اظہار کیا اور کہنے لگیں کہ اب میں الحمد للہ ٹھیک ہوں اور مجھے کوئی بیماری نہیں ہے۔

اسی طرح کے اور کافی واقعات ہیں ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کا قدم آگے ہی آگے بڑھ رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ نشانات پہ نشانات دکھا رہا ہے اور جو عقل کے اندھے ہیں ان کو یہ نشانات نظر نہیں آ رہےاور نہ جماعت کی ترقی۔

اللہ تعالیٰ ہمیں بھی صحیح معنوں میں اپنے ایمان میں بڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ یقین پیدا کرے اور اپنا تعلق اللہ تعالیٰ سے ہم زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے والے ہوں۔ آمین

السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button