سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام

رشتہ ناطہ کے متعلق حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کاحسین اسوہ

(اواب سعد حیات)

اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کو اصلاح خلق کے لیے مبعوث فرمایا اور آپ نے اپنے فرض منصبی کا حق ادا کیا۔انسانی زندگی کے مختلف مراحل کے متعلق آپ علیہ السلام نے حقیقی اسلامی تعلیم بتائی اوراپنے ماننے والوں کے لیے تحریر و تقریرمیں وافر روشنی مہیافرمائی۔ مزید برآں آپ علیہ السلام کے اسوہ اور طرز عمل کا مطالعہ بھی ہمارے لیے رہنمائی اور روشنی سے بھرپور ہے۔ شادی بیاہ اور رشتہ ناطہ ایسے امور ہیں جن سے ہر انسان کو واسطہ پڑتا ہے۔ اس حوالہ سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی اپنی اور آپ کے بچوں کی شادیوں کی تفصیل جو تاریخ احمدیت کے مختلف ماخذسے سامنے آتی ہے درج کی جاتی ہے۔

حضور علیہ السلام کی پہلی شادی پندرہ سولہ بر س کی عمر میں اہل خاندان نے طے کی جس سے آپ کو اللہ تعالیٰ نے 2بیٹے عطافرمائے۔ اس شادی کے متعلق ملتا ہے کہ عجیب خدائی تصرف ہوا کہ آپ کے بڑے بھائی مرزا غلام قادر صاحب کی شادی بڑے دھوم دھڑکے کے ساتھ ہوئی ، کئی دن جشن رہا اور مختلف طائفے اور ارباب نشاط جمع ہوئے۔ اس کے برعکس آپؑ کی شادی نہایت سادگی اور اسلامی ماحول کے مطابق ہوئی اور کسی قسم کی بھی خلاف شریعت رسوم اور بدعات نہ ہوئیں۔

آپ علیہ السلام کی دوسری شادی بھی سادگی کا مرقع تھی۔ اس موقع کی تفاصیل درجنوں صفحات پر مشتمل ہیں، صرف ایک اشارہ کافی ہے کہ حضورؑ کی بارات میں کوئی خاتون ساتھ نہ تھیں،صرف دو خدام کے ہمراہ حضور علیہ السلام قادیان سے دہلی نکاح کے لیے پہنچے تھے۔ یاد رہے کہ یہ وہ شادی تھی جس کا تمام انتظام خدا نے خود فرمایا تھا۔ آنے والی دلہن ‘امّ المومنین ’کہلائیں اور ان سے مبشَر اولاد نے جنم لیا۔ لیکن سادگی کی انتہاملاحظہ ہو کہ حضور علیہ السلام کے پاس کچھ رقم نقد تھی جو غالبا دودوستوں سے قرض لے کر چلے تھے۔ اب ملکی دستور کے مطابق حضور کو دلہن کے لیے قیمتی کپڑے اور زیورات لے کرجانا چاہیے تھا مگرآپ نے رسم و رواج کی پابندیوں سے آزادی اور عجیب شان بے نیازی اپنائی کہ اڑھائی صد روپیہ اپنے سسرال والوں کو دیا کہ اپنی بیٹی کے لیے جو چاہیں بنوالیں۔

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے بچوں کے حوالہ سے دیکھیں تو سب سے پہلے حضرت مرزا بشیر احمد صاحب کے رشتہ کا ذکر ملتا ہے۔ حضور علیہ السلام نے اپنے منجھلے بیٹے حضرت صاحبزادہ مرزابشیر احمد صاحب کے نکاح کی تحریک کے لیے اپنے نہایت مخلص مرید مولوی غلام حسن صاحب سب رجسٹرار پشاور کے نام 24؍ اپریل 1902ء کو ایک مکتوب میں تحریر فرمایا کہ

‘‘میرے دل میں تھا کہ بشیر احمد اپنے درمیانی لڑکے کے لیے تحریک کروں جس کی عمردس برس کی ہے اورصحت اورمتانت مزاج اورہرایک بات میں اس کے آثار اچھے معلوم ہوتے اورآپ کی تحریر کے موافق عمریں بھی باہم ملتی ہیں۔ ا س لیے یہ خط آپ کو لکھتا ہوں اور میں قریب ایام میں اس بارے میں استخارہ بھی کروں گا اوربصورت رضامندی یہ ضروری ہوگا کہ ہمارے خاندان کے طریق کے موافق آپ لڑکی کو ضروریات علم دین سے مطلع فرماویں اوراس قدر علم ہوکہ قرآن شریف باترجمہ پڑھ لے ۔نماز اورروزہ اورزکوٰة اورحج کے مسائل سے باخبر ہو اور نیز بآسانی خط لکھ سکے اورپڑھ سکے اورلڑکی کے نام سے مطلع فرماویں اوراس خط کے جواب سے اطلاع بخشیں ۔زیادہ خیریت ہے۔’’

پتہ چلتا ہے کہ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اپنی مقدس اولاد کےبارے میں مدت سے یہ الہٰی بشارت مل چکی تھی کہ آپ کی نسل بہت ہوگی اورکثرت سے ملکوں میں پھیل جائے گی۔ نیز الہاماً آپ کو بتایا جا چکا تھاکہ ‘‘تَرٰی نَسْلًا بَعِیْدًا’’ ( آپ دورکی نسل بھی دیکھیں گے )۔لہٰذا حضور چاہتے تھے کہ یہ خدائی وعدہ جلد سے جلد ظہو رمیں آجائے اورآپ اپنی آنکھوں سے اسے پوراہوتا دیکھ لیں۔

تاریخ احمدیت میں لکھا ہے کہ مولوی غلام حسن خان صاحب پشاوری ؓنے کمال خلوص سے اس تعلق پر رضامندی کا اظہار کیا۔ چنانچہ12؍ستمبر 1902ء کو حضرت صاحبزادہ مرزابشیر احمد صاحبؓ کے نکاح کی تقریب عمل میں آ ئی۔ احباب نماز عصر کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے کمرہ کے سامنے والے صحن میں جو مسجد مبارک سے ملحق تھا جمع ہوئے۔ حضرت مولوی نورالدین صاحب نے آپ کا نکاح مولوی غلام حسن خان صاحب کی دختر نیک اختر سرورسلطان صاحبہ سے ایک ہزارروپیہ مہر پر پڑھایا۔ ایجاب وقبول کے بعد کھجوریں تقسیم کی گئیں اورحاضرین کی تواضع چائے سے کی گئی۔اسی روز شام کو اخبار ‘الحکم ’ کا ایک غیر معمولی پر چہ اس مبارک تقریب کی خوشی میں شائع کیا گیا ۔

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب کی شادی چند سال بعد مئی 1906ء کے دوسرے ہفتے میں ہوئی۔ حضرت صاحبزادہ صاحب اپنے واجب الاحترام نانا جان حضرت میر ناصر نواب اوربرادربزرگ حضرت صاحبزادہ مرزابشیر الدین محمود احمد صاحب اوردیگر احباب کے ساتھ قادیان سے10؍مئی کی صبح پشاور روانہ ہوئے اور16؍مئی 1906ء کو بعد دوپہر واپس قادیان پہنچے۔ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کو اللہ تعالیٰ نے صاحبزادی سرور سلطان صاحبہ کے بطن سے گیارہ بچوں سے نوازاجن میں سے سیدہ امۃ السلام بیگم صاحبہ کی ولادت 7؍اگست 1907ء کوحضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی حین حیات میں ہوئی۔
حضرت صاحبزادہ مرزابشیر احمد صاحب کے نکاح کے اگلے ماہ اکتوبر 1902ء میں حضرت صاحبزادہ مرزابشیر الدین محمود احمد صاحب کی تقریب نکاح عمل میں آئی۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک مخلص اور عقیدت مند صحابی حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب کی بڑی صاحبزادی کے متعلق ڈاکٹر صاحب کورشتہ کی تحریک فرمائی ۔

پھر کچھ مدت بعد لکھا کہ ‘‘اس رشتہ پر محمود بھی راضی معلوم ہوتاہے اورگوابھی الہامی طورپر اس بارے میں کچھ معلوم نہیں جس کے معلوم ہونے کے بارے میں مجھے خواہش ہے تاکوئی کام ہمارا مرضی الہٰی کے خلاف نہ ہو مگر محمود کی رضامندی ایک دلیل اس بات پر ہے کہ یہ امر غالباً و اللہ اعلم جناب الہٰی کی رضامندی کے موافق انشاء اللہ ہوگا۔ لہٰذا آ پ کو اطلاع دیتا ہوں کہ اگر خد ا تعالیٰ کی یہ مرضی ہو اور اس میں کوئی مخالفت نہ ہوجائے جس کے مقابل پر سب ارادے کا لعدم ہوجاتے ہیں تو اس صورت میں اوراس شرط سے آپ تیار اورمستعدرہیں کہ جب آپ کو مسنون طورپر نکاح کے لیے لکھا جائے ۔چندہفتہ تک استخارہ کریں کہ ہر ایک کام جو استخارہ اورخداتعالیٰ کی مرضی سے کیا جاتا ہے وہ بحالیکہ مبارک ہوتا ہے۔ دوسرے میرا ارادہ ہے کہ اس نکاح میں انبیاء کی سنت کی طرح سب کام ہو۔ بدعت اوربیہودہ مصارف اورلغورسوم اس نکاح میں نہ ہوں بلکہ ایسے سیدھے سادھے طریق پر ہوجو خدا کے پاک نبیوں نے پسند فرمایا ہے نکاح ہوجاوے تاموجب برکات ہو۔’’

حضرت ڈاکٹر صاحب کے غیر احمدی خاندان میں اس پر مخالفت ہوئی مگر حضرت ڈاکٹر صاحب نے بلاتامل اپنے آقا کے ارشاد پر سرتسلیم خم کردیا جس پرا کتوبر 1902ء کا پہلا ہفتہ نکاح کے لیے مقرر ہوااور قرار پایا کہ نکاح رڑکی میں ہو۔ چنانچہ حضرت صاحبزادہ مرزابشیر الدین محمود احمد صاحب 2؍ اکتوبر 1902ء کو قادیان سے علی الصبح حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ۔ حضرت میر ناصر نواب صاحبؓ ۔مولوی سید محمد احسن صاحب امروہویؓ۔ حضرت میر محمدا سمٰعیل صاحبؓ ۔پیر سراج الحق نعمانی صاحبؓ۔ مفتی محمد صادق صاحبؓ اورڈاکٹر نورمحمد صاحبؓ کے ہمراہ رڑکی کے لیے روانہ ہوئے اوراسی روز عشاء کے وقت رڑکی پہنچے ۔ اسٹیشن پر حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحبؓ اپنے دوستوں کے ساتھ استقبال کے لیے موجود تھے ۔حضرت مولوی نور الدین صاحب نے حضرت ڈاکٹر صاحب کی صاحبزادی سیدہ محمودہ بیگم صاحبہ کا ایک ہزار روپیہ مہر پر نکاح پڑھایا۔ ڈاکٹر صاحب کے بھائی اس رشتہ میں ان کے مخالف تھے اور اسی لیے وہ شامل بھی نہ ہوئے تھے مگر حضرت ڈاکٹر صاحب نے اس کی چنداں پروانہ کی اوریہی کہا کہ بہر حال مسیح موعود علیہ السلام کے حکم کی تعمیل ہونی چاہیے۔

5؍ اکتوبر 1902 ء کو بعد نماز عصریہ قافلہ رڑکی سے بخیریت قادیان پہنچا ۔ اسی روز نماز مغرب کے بعد حضرت مسیح موعود حسب معمول شہ نشین پررونق افروز ہوئے تو حضرت مولوی نورالدین صاحب نے مبارکباد دی اورحضرت ڈاکٹر صاحب کے اخلاص کی بہت تعریف کی جس پر حضور نے اظہار خوشنودی کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت اخلاص دیا ہے۔ان میں اہلیت اورزیر کی بہت ہے ۔اور میں نے دیکھا ہے ان میں نور فراست بھی ہے۔

حضرت صاحبزادہ مرزابشیر الدین محموداحمد صاحبؓ کا نکاح تواسی سال ہوامگر رخصتانہ کی تقریب اگلے سال اکتوبر 1903ء کے دوسرے ہفتہ میں آگرہ میں ہوئی جہاں ڈاکٹر خلیفہ رشید الدین صاحب میڈیکل کالج میں پروفیسر تھے ۔ حضرت صاحبزادہ صاحب 11؍ اکتوبر 1903 ء کی شام کو اپنے اہل بیت کے ساتھ قادیان پہنچے۔بارات میں آپ کے ساتھ ناناجان حضرت میر ناصر نواب صاحب بھی تھے۔ اگلے دن حضورؑ کے گھر سے دلہن کی خوشی میں بتاشے تقسیم کیے گئے۔

اس بابت مزید صرف ایک او ربات لکھتا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو قریباً 1865ء سے الہام ہوچکا تھا کہ آپؑ دور کی نسل بھی دیکھیں گے۔ اسی تسلسل میں آپ کو مزید پیش خبری دی گئی کہ ہم تجھے ایک لڑکے کی بشارت دیتے ہیں جو ‘‘نافلہ’’ہوگا۔ حضورعلیہ السلام نے اس کی تعبیر میں فرمایا ‘‘ممکن ہے کہ اس کی یہ تعبیر ہو کہ محمود کے ہاں لڑکا ہو کیوں کہ نافلہ پوتے کو بھی کہتے ہیں ۔’’ان الٰہی بشارتوں اور پیشگوئیوں کے مطابق 26؍مئی 1906ء کو بوقت7بجے شام صاحبزادہ مرزا محمود احمدرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں صاحبزادہ نصیر احمد پیدا ہوئے۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب ‘‘حقیقة الوحی’’ میں اس نشان کا بھی تذکرہ فرمایا۔

گو صاحبزادہ مرزا نصیر احمد صاحب نے چندماہ بعد وفات پائی، لیکن کہا جاسکتا ہے کہ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام نے اپنی مبشر اولاد کی اولاد میں سے ایک پوتی او رایک پوتے کو دیکھا اور پیار کیا۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے تیسرے بیٹے حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کی شادی کے متعلق ملتا ہے کہ حضرت نواب محمدعلی خان صاحب کی دوسری بیوی محترمہ امةالحمید بیگم کا 27؍ اکتوبر 1906ءء کو انتقال ہوگیا تو ان کی وفات کے بعد حضرت نواب صاحب اپنی اکلوتی بیٹی بوزینب بیگم صاحبہ کی شادی کے متعلق بہت فکر مند تھے۔ خود حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو بھی اس معاملہ میں بہت خیال تھا اوراکثر فکر کے ساتھ اس کا گھر میں ذکر فرمایا کرتے تھے ۔ایک روز حضرت اقدس علیہ السلام کو اس طرف خاص توجہ پیدا ہوگئی۔ حضورعلیہ السلام نے صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے متعلق حضرت نواب صاحب کو پیغام دیا جسے انہوں نے بسر وچشم قبول کرلیا۔ حضرت نواب صاحب کے غیر احمدی بھائی اور دوسرے عزیز بہت ناراض ہوئے مگر حضرت نواب صاحب نے اس کی قطعاً پروانہ کی اور یہ مبارک تقریب عمل میں آئی۔ چنانچہ آج دنیا گواہ ہے کہ اس مبارک رشتہ کے نتیجہ میں کس قدر مبارک وجود اس دنیا میں تشریف لائے۔

مورخہ 15؍ نومبر 1906ء بعد نماز عصر نئے مہمان خانے کے صحن میں حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحبؓ کے نکاح کی مبارک تقریب عمل میں آئی۔ اس تقریب پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اورحضورعلیہ السلام کے قادیان میں موجود خدام موجود تھے۔ حضرت حکیم الامت مولوی نورالدین صاحب نے ایک ہزار روپیہ مہر پر نکاح پڑھا یااور ایک لطیف اور پراز معارف خطبہ ارشاد فرمایا۔
حضرت مرزا شریف احمد صاحب  کی شادی 9؍مئی 1909ءکو ہوئی اورولیمہ اگلے روز ہوا۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کا بیان ہے کہ ‘‘بوزینب بیگم صاحبہ کا رخصتانہ نہایت سادگی سے ہمارے دارالمسیح سے ملحق مکان سے عمل میں آیا۔ حضرت اماں جان نے سامان کپڑا زیوروغیرہ ہمارے ہاں بھجوادیا تھا اور چونکہ نواب صاحب کا منشا تھا کہ حضرت فاطمہ کی طرح رخصتانہ ہو۔ سودلہن تیار ہوگئی تو نواب صاحب نے پاس بٹھا کر نصائح کیں اورپھر مجھے کہا کہ حضرت ام المومنین کی طرف چھوڑ آؤں۔ سیدہ ام ناصر صاحبہ والے صحن میں جو سیدہ ام وسیم صاحبہ کی طرف سے سیڑھیاں اترتی ہیں وہاں حضرت اماں جان نے استقبال کیا اور دلہن کو دارالبرکات میں لے گئیں ۔حضرت صاحبزادہ مرزا شریف احمد صاحب کے ہاں صاحبزادی بوزینب بیگم صاحبہ کے بطن سے 6 بچے پیدا ہوئے۔ آپ کے سب سے بڑے بیٹے صاحبزادہ مرزا منصور احمد صاحب کی ولادت 17؍ مارچ 1911ء کوہوئی جو حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے والد ماجد تھے۔

‘‘یہی ہیں پنج تن جن پر بِنا ہے’’

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے بیٹے حضرت صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب صغر سنی میں وفات پاگئے۔ ان کی بیماری کے دوران کسی نے خواب دیکھا کہ آپ کی شادی ہورہی ہے ۔حضرت اقدس مسیح موعود نے فرمایا کہ معبرین نے لکھا ہے کہ اس کی تعبیر تو موت ہے مگراسے ظاہری رنگ میں پورا کردینے کی صورت میں موت ٹل جاتی ہے چنانچہ حضورؑ کے ارشاد پر حضرت مولوی نورالدین صاحب نے (30؍اگست 1907ء کو نماز عصر کے بعد) صاحبزادہ صاحب کا نکاح سیّدہ مریم بیگم صاحبہ بنت ڈاکٹرسید عبدالستار شاہ صاحب سے پڑھا مگر خدا کا کلام پورا ہوا اور آپ داغ مفارقت دے گئے ۔(حضرت سیّدہ مریم بیگم صاحبہ بعد میں حضرت مصلح موعودؓ کے عقد میں آئیں اور آپ کے بطن سے حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی پیدائش ہوئی۔)

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی بڑی بیٹی حضرت سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہؓ کی شادی کے متعلق معلومات ملتی ہیں کہ 17؍فروری 1908ء کو حضرت سیدہ مبارکہ بیگم صاحبہ کا نکاح حضرت نواب محمد علی خاں صاحب رئیس مالیر کوٹلہ سے چھپن ہزار روپیہ مہر پر مسجد اقصیٰ میں ہوا۔ خطبہ نکاح حضرت حکیم الامت مولوی نورالدین صاحب نے پڑھا۔ نواب صاحب موصوف کے خاندان میں حق مہر کے متعلق یہ دستور تھا کہ کئی کئی لاکھ روپیہ مقرر کیا جاتاتھا اورانہوں نے اپنی خاندانی رسم کی وجہ سے اب بھی یہی کہا تھا کہ مہر زیادہ رکھا جائے مگر حضرت اقدس علیہ السلام نے اسے پسند نہ فرمایا۔البتہ مہر کے متعلق تحریر کو باقاعدہ رجسٹری کروا کے اس پر شہادتیں ثبت کروادیں جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ حضرت نواب صاحب موصوف کی جائیداد سرکار انگریزی کے علاقے میں واقع نہ تھی بلکہ ایک ریاست میں تھی اور اس کے متعلق تنازعات اورپیچیدگیاں پیدا ہونے کااحتمال ہوسکتا تھا اس لیے مہرنامہ کو باقاعدہ رجسٹری کروانا ضروری خیال کیا گیا۔ دوسرے ریاست مالیر کوٹلہ میں بیوی قانوناً محروم الارث ہوتی ہے لہٰذا نواب صاحب موصوف کی جائیداد میں شرعی لحاظ سے جتنا حصہ حضرت سیدہ موصوفہ کا متعین ہوتا تھا اسی کے مطابق مہر تجویز کردیا گیا۔نکاح کی مبارک تقریب میں شمولیت کے لیے لاہور سے احباب بھی قادیان پہنچ گئے۔
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ کے رخصتانہ کی تقریب حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد 14؍مارچ 1909ء بروز اتوار منعقد ہوئی۔ حضرت نواب محمد علی خاں صاحب کا بیان ہے کہ ‘‘رخصتانہ نہایت سیدھی سادھی طرز سے ہوا۔ مبارکہ بیگم صاحبہ کے آنے سے پہلے مجھ کو حضرت ام المومنین علیہا السلام نے فہرست جہیز بھیج دی اور دو بجے ام المومنین علیہا السلام مبارکہ بیگم صاحبہ کو اپنے ساتھ لے کر میرے مکان پران سیڑھیوں کے راستہ سے جو میرے مکان اور حضرت اقدسؑ کے مکان کو ملحق کرتی تھیں، تشریف لائیں۔ میں چونکہ مسجد میں تھا اس لیے ان کو بہت انتظار کرنا پڑا۔ اور جب بعد نماز میں آیا تو مجھ کو بلا کر مبارکہ بیگم صاحبہ کو بایں الفاظ نہایت بھری آوازسے کہا کہ ‘‘میں اپنی یتیم بیٹی کو تمہارے سپرد کرتی ہوں’’ اس کے بعد ان کا دل بھرآیا اورفورًا السلام علیک کرکے تشریف لے گئیں ۔
حضرت نواب محمدعلی خاں صاحب نے اگلے دن 15؍مارچ 1906ء کو قادیان کے تمام احمدیوں اور قصبہ کے بعض عمائدین کو دعوت ولیمہ دی۔

حضرت نواب امتہ الحفیظ بیگم صاحبہؓ کا نکاح اورشادی حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کی وفات کے بعد ہوئی۔

حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کے بچوں کی شادیوں کے سرسری ذکر کے بعد صرف ایک اور شادی کا ذکر کرتا ہوں۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے 4؍ فروری 1906ء کو روٴیا دیکھا کہ حضرت میر ناصر نواب صاحب کے بیٹے سید محمد اسحٰق صاحب اور صالحہ خاتون صاحبہ بنت صاحبزادہ پیر منظور محمد صاحب کے نکاح کی تیاری ہو رہی ہے ۔ اسی قسم کی روٴیا حضرت ام المومنین  کو بھی ہوئی حالانکہ قبل ازیں اس تعلق میں کوئی بات چیت نہیں ہوئی تھی ۔ حضرت اقدس علیہ السلام نے اس روٴیا کی بنا پر صاحبزادہ پیر منظور محمد صاحب کو تحریک فرمائی اور دوسرے ہی دن 5؍فروری کو نکاح کی تقریب عمل میں آگئی۔ حضرت مولوی نورالدین صاحب نے نماز ظہر وعصر کے جمع کرنے کے بعدمسجد اقصیٰ میں ایک خاص جوش کے ساتھ خطبہ نکاح پڑھا ۔ حضرت اقدسؑ بھی اس وقت رونق افروز تھے۔ یہ موقع جما عت کے لیے دوہری خوشی کا تھا کیونکہ اس دن عیدالا ضحی بھی تھی اور کپورتھلہ، لاہور ، امرتسر ، سیالکوٹ ، رعیہ ضلع ہوشیار پور اور دوسرے مقامات سے کئی احباب قادیان میں حا ضر تھے۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب نے اپنے ماموں کی شادی پر فی البدیہہ ایک دعائیہ نظم بھی کہی ۔

مندرجہ بالا معلومات کی روشنی میں بآسانی کہا جاسکتا ہے کہ

٭…حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بچوں کی شادیاں طے کرنے میں تاخیر نہ فرمائی۔

٭…حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے بچوں کے رشتے طے کرنے میں دور دراز مقامات اور معاشرت، زبان اور رہن سہن کے فرق کو وقعت نہ دی۔

٭…آپ علیہ السلام نے ہررشتہ طے کرنے میں دعا ، استخارہ اور نیک نیتی کو مقد م رکھا۔
اور دیگر تمام امو رکے ساتھ ساتھ ان تمام شادیوں میں سادگی اور عدم بناوٹ اور عدم تکلف کا صاف اظہار ہورہا ہے۔

اللہ تعالیٰ ساری دنیا میں پھیلے احمدیوں کو حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ السلام کا حقیقی پیرو کار اور سچا اطاعت گزار بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button