حضرت مصلح موعود ؓ

کیا دنیا کے امن کی بنیاد عیسائیت پر رکھی جاسکتی ہے؟ (قسط نمبر 4)

(حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)

(9)پھر انجیل کہتی ہے جو شخص اپنی بیوی کو زنا کے بغیر طلاق دیتا ہے وہ اس سے زنا کراتا ہے ( متی 5/32،متی19/9) یہ تعلیم بھی ایک حد تک اچھی ہے، بلاجرم عورت کو چھوڑنا بہت بڑا جرم ہے کیونکہ مرد عورت کا معاہدہ ساری عمر کا ہوتا ہے اس کو بلاوجہ توڑنا بہت بڑی غداری ہے مگر اس کے لیے انجیل نے جو حد بندی کی ہے اس سے بہت بڑے فساد پیدا ہوسکتے ہیں چنانچہ ہوتے ہیں اور خود یورپ نے اس کے متعلق تسلیم کیاہے کہ یہ حد بندی ٹھیک نہیں ہے اور امریکہ میں تو قانون پاس ہو گیا ہے کہ زنا کے بغیر بھی مرد و عورت ایک دوسرے سے علیحدہ ہوسکتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیںجب مرد و عورت اپنی مرضی سے مل سکتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ اپنی مرضی سے علیحدہ نہ ہوسکیں۔ مگر اس طرح طلاق دینا اس قدر آسان ہوگیا ہے کہ میں نے ٹائمز میںپڑھا تھا کہ ایک عورت جب مری تو اس کے بارہ خاوند اس کے جنازہ میں شریک تھے ۔پھر طلاق لینے کی وجوہات نہایت لغو اور بے ہودہ قرار دی جاتی ہیں۔ مثلاً میں نے ایک عورت کے متعلق پڑھا تھا کہ اس نے عدالت میںجاکر کہا میرا خاوند جب گھر آتا ہے تو مجھے بوسہ نہیں دیتا اس لیے مجھے طلاق دلائی جائے ۔اس پر اسے طلاق دلادی گئی۔ اسی طرح ایک عورت نے کہا میں ناول لکھنا چاہتی ہوں لیکن میرا خاوند مجھے لکھنے نہیں دیتا اس لیے طلاق دلائی جائے۔ مجسٹریٹ نے کہا بہت معقول وجہ ہے ضرور طلاق ملنی چاہیے اور دلادی۔

اب دیکھو اس طرح طلاق ایک معمولی بات ہوجانے کی وجہ سے کس قدر نقصان ہوسکتا ہے اور کس قدر ابتری پھیل سکتی ہے۔ اس کے مقابلہ میں اسلام نے طلاق کی اجازت دی ہے مگر اس کے لیے نہ اس نے وہ شرط لگائی ہے جو انجیل لگاتی ہے اور نہ اس قدر وسعت دی ہے کہ اگر خاوند ناول نہیں لکھنے دیتا تو طلاق دے دے ۔ اسلام نے بعض حالات اور مشکلات کے ماتحت عورت کو چھوڑنے کی اجازت دی ہے اور اس طرح عورت کے لیے بھی بعض حالات کے ماتحت یہ رکھا ہے کہ وہ مجسٹریٹ کے ذریعہ علیحدہ ہوسکتی ہے۔ اس بات کو بہت لوگ نہیں جانتے کیونکہ یہ موجودہ قانون کی وجہ سے دبی ہوئی ہے اب میں نے اس کے لیے کوشش شروع کی ہوئی ہے٭ [٭ اس موقع پر کسی صاحب نے لکھ کرسوال دیا ہے کہ عورت کن صورتوں میں خلع کراسکتی ہے؟ اس کے جواب میں حضور نے فرمایا (1)اگر مرد نامرد ہو(2)جذام یا کسی اور خطرناک متعدی بیماری میں مبتلا ہو(3)یا ایسے گندے اخلاق رکھتا ہوکہ تمدنی طور پر بیوی رکھنے کے قابل نہ ہو(4)یانکاح کرتے وقت عورت کو دھوکا دیا گیاہو۔]تو اسلام میں مرد کو اختیار ہے کہ عورت کوطلاق دے مگر اس کے ساتھ جو شرطیں ہیں ان کو پورا کرنا ضروری ہے ۔ مثلاً اول یہ کہ اگر مرد کو عورت سے کوئی شکایت ہو تو اس کو دو ایسے شخصوںکے سامنے پیش کیا جائے جن میں سے ایک عورت کے خاندان سے ہو اور ایک مرد کے خاندان سے۔ وہ دونوں مرد و عورت کی شکایات کوسن کر ان کی آپس میں مناسب طریق سے صلح کرادیں۔ لیکن اگر کچھ مدت کے بعد پھر ان میں اختلاف ہوجائے اور صلح قائم نہ رہے تو مرد کو اجازت ہے کہ طلاق دے دے مگر اس کے لیے یہ شرط ہے کہ عورت کو ماہواری ایام میں طلاق نہ دے کیونکہ اس حالت میں عورت میلی کچیلی ہوتی ہے اور مرد کا اس سے خاص تعلق نہیں ہوتا بلکہ طہر کی حالت میں طلاق دے۔ پھر یہ شرط ہے کہ اس طہر میں طلاق دے جس میں مرد و عورت آپس میں جمع نہ ہوئے ہوں کیونکہ اس طرح مرد اپنی خواہش پوری کرلیتا ہے اور سمجھتا ہے کہ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے لیکن اگر کوئی اس کے خلاف کرکے طلاق دے تو اسی وقت طلاق لوٹائی جائے گی اور اگر اس کے ماتحت طلاق دے تو پھر بھی اس کو حق حاصل ہے کہ تین ماہ کے اندر اندر رجوع کرلے ۔پھر اگر طلاق دے تو بھی اسے یہی حق حاصل ہے اور اگر تیسری بار دے تو پھر یہ حق نہیں رہتا۔ مگر طلاق دینے کے متعلق یہ شرطیں ہی نہیںاس کے ساتھ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ جتنی حلال چیزیں ہیں ان سب میں سے زیادہ غصہ دلانے والی اور خداتعالیٰ کی غیرت کو بھڑکانے والی چیز طلاق ہے۔ اس صورت میں تو کوئی انسان جو اسلام کو مانتا ہے کبھی طلاق دینے کی جرأت ہی نہیں کرے گا اور کرے گا تو اسی صورت میںجبکہ مجبور ہوجائے گا اور اصلاح کی کوئی صورت نہ دیکھے گا ۔کیونکہ اس وقت اگر وہ عورت کو رکھے گا تو سوائے فساد اور فتنہ کے اور کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا۔ کئی دفعہ ایسا ہوجاتا ہے کہ عورت گھر میں فتنہ اور فساد ڈلواتی ہے،یا دین کی بے حرمتی کرتی ہے یا اور کئی وجوہات ایسی پیدا ہوجاتی ہیں کہ اگر عورت کو جدا نہ کیا جائے تو امن حاصل نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ یورپ میں ایسا ہوتا ہے کہ اس قسم کی وجوہات پیدا ہوجاتی ہیں لیکن طلاق نہ دے سکنے کی وجہ سے مرد و عورت دونوں کی زندگی دکھ اور تکلیف میں گزرتی ہے مگر اسلام کی تعلیم ایسی ہے کہ ان مشکلات کو حل کردیتی ہے۔ عیسائیت میں چونکہ اس شرط کے سوا جو انجیل نے بیان کی ہے طلاق نہیں دی جاسکتی اس لیے کئی واقعات ایسے ہوتے رہتے ہیں کہ عورت کوجبراً شراب پلا کر زنا کرایا جاتا ہے اور پھر طلاق دینے کی اجازت حاصل کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ مشکل جو آپڑی تھی تو اس کو کسی طرح حل کرنا تھا اس سے معلوم ہوسکتا ہے کہ طلاق کے متعلق اسلام کی تعلیم کیسی اعلیٰ ہے۔

(10)پھر انجیل کہتی ہے شراب پی کر متوالے نہ بنو (اِفسیوں 5/18)اور یوں تو ساری بائبل بدمستی سے منع کرتی ہے لیکن شراب پینے سے بالکل نہیں روکتی حتٰی کہ انجیل میں یہاں تک لکھاہے کہ حضرت مسیح ؑنے خود شراب بنائی اور دوسروں کو پلائی لیکن اسلام کہتا ہے کہ شراب کو قطعًا منہ نہ لگاؤکیونکہ یہ حرام ہے،پلید ہے اور شیطان کے کاموں میں سے ایک کام ہے چنانچہ فرماتا ہے یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡخَمۡرُ وَ الۡمَیۡسِرُ وَ الۡاَنۡصَابُ وَ الۡاَزۡلَامُ رِجۡسٌ مِّنۡ عَمَلِ الشَّیۡطٰنِ فَاجۡتَنِبُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ(المائدۃ :91)اس حکم پر عمل کرنے سے بہت بڑا امن قائم ہوسکتا ہے۔ اکثر لوگوں نے دیکھا ہوگا کہ شراب پی کر لوگ بڑے بڑے فساد کرتے رہتے ہیں اور گو وہ پکڑے جاتے ہیں لیکن پھر بھی باز نہیں آتے ۔اس کے متعلق قرآن کریم کا حکم ایسا اعلیٰ درجہ کا ہے کہ جو بہت سے فتنوں کا قلع قمع کردیتا ہے اور اس میں ایسی حکمت مضمر ہے جو آج تک عام مسلمانوںسے بھی پوشیدہ رہی ہے ۔بعض مسلمان طبیب باوجود مسلمان ہونے کے شراب کے متعلق یہی کہتے آئے ہیں کہ بڑی مفید چیز ہے اور اس کا نام انہوں نے آب حیات رکھا ہے۔ لیکن اسلام کی تعلیم چونکہ ہر زمانہ کے لیے ہے اس لیے اس کی صداقت ظاہر کرنے کے لیے اب تقریبًا پندرہ سال ہوئے ثابت ہوگیا ہے کہ یہ زہر ہے۔ چنانچہ آسڑیلیا کے ایک پروفیسر نے ثابت کیا ہے کہ جسم کے اعلیٰ اعصاب شراب کے ذریعہ مارے جاتے ہیں اور اس کے بعد اوروں سے اس کی تصدیق کی ہے اور کتوں پر اس کا تجربہ کیا گیاہے کہ وہ کتے جن کو شراب پلائی گئی وہ دوسروں کی نسبت آدھا کام بھی نہ کرسکے۔ تو وہ بات جس کو خود مسلمان بھی نہ سمجھ سکے اس کو خدا نے بیان کردیا۔ اور اب جبکہ اور الہامی کتابوں کی بیان کردہ باتوں کی تردید ہورہی ہے قرآن کی بیان کردہ باتوں کی تصدیق ہورہی ہے۔ تو شراب کے بارے میں اسلام نے جو تعلیم دی ہے اس کو دنیا نے تسلیم کرلیا ہے کہ بہت اعلیٰ ہے۔ چنانچہ جنگ کے دنوں میں فرانس ، انگلستان ، امریکہ اور روس میں اس کا پینا روک دیا گیا تھا۔ اور امریکہ تو اب بھی چاہتا ہے کہ اس کو بند کردے کیونکہ جنگ کے ایام میں اس کے بند رہنے کے فوائد اس نے دیکھ لیے ہیں ۔ اب ہم پوچھتے ہیں جنگ کے دنوں میں کیوں شراب بند کی گئی۔ اسی لیے کہ یہ انسانی ترقی میں روک اور فتنہ و فساد کو بڑھانے والی ہے ورنہ اگر امن و امان قائم کرنے میںممد ہوتی تو اور زیادہ استعمال کی جاتی مگرنہیں ایسانہیںکیا گیا بلکہ تسلیم کرلیا گیا کہ شراب کا بند کرنا ہی مفید ہے اور اس طرح یہ فیصلہ خود عیسائیوں نے اسلام کے حق میں اور عیسائیت کے خلاف کیا ہے اور ظاہر کیا ہے کہ اگر امن قائم ہوسکتا ہے تو اسلام ہی کی تعلیم پر عمل کرنے سے ہوسکتا ہے۔

(11)اب سب سے آخر میں انجیل کی ایک بہت بڑی تعلیم کے متعلق کچھ کہنا چاہتا ہوں بڑی اس لیے کہ سیاسی کاروبار کا دارومدار اسی پر سمجھا جاتا ہے اور وہ یہ کہ عیسائیت نے سود لینا جائز رکھا ہے لیکن اسلام نے اسے ناجائز قرار دیا ہے۔

دنیا میں جس قدر لڑائی اور فساد سود کی وجہ سے ہوتے ہیں اتنے کسی اور وجہ سے نہیں ہوتے لیکن اسلام ہی ہے جس نے اس کے لینے سے منع کیا ہے اور اس کے مقابلہ میں انجیل(بائبل)میں لینے کا حکم دیا گیا ہے ہاں یہ کہا گیا ہے کہ اپنے بھائی سے نہ لے اوروں سے لے(استثنائ23/19) گو عیسائی صاحبان سب سے ہی لیتے ہیں مگر اسلام نے یہ حکم دیا ہے کہ کسی سے بھی سود نہیں لینا چاہیے۔ اگر ا س پر عمل کیا جاتا تو یہ اتنی بڑی جنگ جو حال میں ہوئی ہے ہرگز نہ ہوتی۔ دیکھو اس ہماری حکومت کا ہی سات کروڑ روپیہ روزانہ خرچ ہوتا تھا ۔ اس کو اگر چار گنا کرلیا جائے تو گویا سب لڑنے والوں کا روزانہ 28کروڑ روپیہ صَرف ہوتا تھا ۔لیکن یہ کہاں سے آتا تھا؟سود کے ذریعہ ہی فراہم کیا جاتا تھا۔ لیکن اگر بجائے اس کے کہ حکومتیں سود کے ذریعہ روپیہ فراہم کرتیں لوگوں کو کہتے کہ یوں ہی مدد دو تو ہر ایک سلطنت کے لوگ پہلے ہی ماہ کے بعد بول اٹھتے کہ ہم لڑائی جاری رکھنا نہیں چاہتے لیکن یہ سود ہی کا خمار تھا جس نے اتنے عرصہ تک ان کی آنکھیں نہ کھلنے دیں۔ اور یہ سود ہی تھا جس نے دنیا میں اس قدر گرانی اور تباہی پیدا کی اور یہ سود ہی ہے جس نے ہر طرف بد امنی اور بے اطمینانی پیدا کردی ہے کیونکہ پہلے ایسے لوگوں کے پاس روپیہ تھا جو اس کو کام میں لانا جانتے تھے مگر اب ان لوگوں کے پاس پیسہ چلا گیا جو کوئی کام نہیں کرسکتے۔ پہلے کارخانے کارخانہ داروں کے پاس روپے نہ ہونے کی وجہ سے ٹوٹ گئے اور اب جن کے پاس روپیہ آگیا ہے وہ ان کو چلا نہیں سکتے تو یہ سود ہی ہے جس نے ہر طرف فساد برپا کررکھا ہے۔

اس کی مثال ایسی ہے جیسا کہ کہتے ایک چیتا تھا اس نے اپنی زبان درانتی پر پھیری اور اس کی زبان سے خون نکل آیا جس کا اسے مزا آیا اور وہ زبان کو چاٹتا رہا حتٰی کہ اس کی ساری زبان گل گئی۔ لڑائی کے ایام میں ہر ایک گورنمنٹ لوگوں کو سود دے کر روپیہ لیتی رہی اور لوگ اپنا فائدہ سمجھ کر روپیہ دیتے رہے مگر یہ نہ سمجھے کہ حکومت ہم سے ہی لے کر ہمارا روپیہ ادا کرے گی تو سود نے حکومتوں کو دبا دیا اور سب کاروبار کو بگاڑ دیا ۔لیکن اگر سود نہ ہوتا تو کبھی ایسی لڑائی نہ ہوتی۔ کیونکہ اگر ان میں سود حرام ہوتا تو یقینًا ان کو اتنا روپیہ نہ مل سکتا کہ اس قدر لمبا عرصہ لڑائی جاری رکھ سکتے تو سود نے امن عامہ میں سخت فساد ڈال رکھا ہے جس کو دیکھ کر اسلام کے اس حکم کی صداقت ثابت ہورہی ہے جس میں سودکو حرام قرار دیا گیا ہے ۔ آج مسٹر لائڈ جارج اور ان کے ساتھ کہہ رہے ہیں کہ حکومت کی مالی حالت بہت توجہ کے قابل ہوگئی ہے کیونکہ حکومت بہت بوجھ کے نیچے دب گئی ہے۔ لیکن ہم کہتے ہیں کیا اسی عیسائیت کی طرف ہمیں بلایا جاتا ہے جس کے ایک حکم کے ماتحت عیسائی سلطنتوں کی یہ حالت ہوگئی ہے ؟اگر تم لوگ مسلمان ہوتے اور اسلام کے حکم کے مطابق سود کوحرام سمجھتے تو کبھی ایسی حالت نہ ہوتی۔ مگر اب اسلام کا دروازہ کھلا ہے آؤ اس میں داخل ہوجاؤ تا امن پاؤ ۔جرمنی جس نے ازراہ ظلم و ستم جنگ کی اگر مسلمان ہوتا تو کبھی ایسا نہ کرتا اسی طرح اگر دوسری حکومتیں اسلام کے حکم کے ماتحت سود سے بچتیں تو کبھی لڑائی اتنا طول نہ کھینچتی ۔یہ اسلام کی تعلیم سے دوری کا ہی نتیجہ ہے کہ ایسی خطرناک اور تباہ کن جنگ ہوئی اور اتنا فتنہ و فساد پھیلا اور پھیل رہا ہے۔ پس اسلام ہی ایک ایسا مذہب ہے جو امن کی تعلیم دیتا ہے۔ دیکھو اسلام نے سود کو ناجائز قرار دے کر کہا کہ تجارتوں میں اپنا روپیہ لگاؤ۔ لوگ کہتے ہیں اگر ایک ایسا شخص جو کاروبار کرنے کی تو اہلیت رکھتا ہو لیکن اس کے پاس سرمایانہ ہو وہ اگر سودی روپیہ لے کر کام نہ چلائے تو کیا کرے۔ لیکن اسلام نے اس سوال کو اس طرح حل کیا ہے کہ مال داروں سے ان کے جمع شدہ مال کاچالیسواں حصہ سالانہ لے کر غریبوں اور بے کار لوگوں میں تقسیم کیا جائے تاکہ وہ کاروبار کرسکیں۔ اگر اس طرح کیاجائے تو ایسی امن و امان کی زندگی بسر ہوسکتی ہے کہ کسی قسم کا فتنہ نہیں پیدا ہوسکتا۔ پس ایسے لوگ جو کاروبار تو کرسکتے ہیں لیکن سرمایہ نہیں رکھتے بجائے اس کے کہ سود پر روپیہ لیں ان کے لیے یہ رکھا گیا ہے کہ مالدار انہیں دیں ۔کوئی کہے ان کو مفت میں کیوں دیا جائے ؟لیکن دراصل ان کا دینا مفت نہیں ہے کیونکہ جب وہ بھی مالدار ہوجائیں گے تو دوسروں کو دیں گے ۔یہ ہے اسلام کی تعلیم جس سے نہایت اعلیٰ درجہ کا امن قائم ہوسکتا ہے۔

………………………(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button