سیرت خلفائے کرام

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ملّی خدمات

(پروفیسر نصیر حبیب۔ لندن)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ جب مسند خلافت پر رونق افروز ہوئے، مسلمانان ہندوستان ایک نازک دور سے گزر رہے تھے۔ دنیاتیزی سے تبدیل ہورہی تھی۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے نہ صرف مسلمانان ہندوستان کی بلکہ مسلمانان عالم کی بھی بے لوث راہنمائی کی۔ آپ نے جماعت کے سامنے تبلیغ اسلام کے لئے ایک عالمگیر نظام قائم کرنے کا اعلان کیا۔ کیونکہ آپ کی پیدائش کا مقصد ہی دین اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر کرنا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ آپؓ نے امت مسلمہ کی رستگاری کا بھی بیڑا اُٹھایا جو کہ ہندوستان میں اور ہندوستان سے باہر نہایت دگر گوں حالت میں تھی۔ جنگ عظیم اوّل کے آغاز کے ساتھ ہی ملک کی تمام سیاسی، مذہبی تنظیموں نے حکومت برطانیہ سے تعاون اور یکجہتی کا اظہار کیا لیکن صورت حال اُس وقت پیچیدہ ہوگئی جب اکتوبر 1914ء میں ترکی نے جرمنی کے حلیف کی حیثیت سے روس، برطانیہ اور فرانس کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ مسلمانان ہندوستان میں تشویش کی لہر دوڑ گئی لیکن حکومت برطانیہ نے یقین دہانی کروائی کہ مقامات مقدسہ کی حرمت محفوظ رہے گی اور حکومت برطانیہ کی درخواست پر حکومت فرانس اور روس نے بھی اس قسم کی یقین دہانی کروائی۔ کانگرس کے بڑے بڑے لیڈروں کے علاوہ مسلم ریاستوں کے نواب، مسلم علماء اور سجادہ نشین اور دانشور حکومت برطانیہ کے وفادار رہے۔

اقبال نے خصوصی طور پر ایک مسدّس، دہلی کی جنگی کانفرنس کے لئے لکھی:

ہنگامہ و غامیں میرا سر قبول ہو
اہل وفا کی نذرِ محقر قبول ہو

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے 9؍نومبر 1914ء کو اپنے مضمون میں ترکی کے شامل جنگ ہونے کو بے سبب اور بے وجہ قرار دیا۔ لیکن حکومت ترکی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی پیشگوئی کے مطابق اپنے انجام کی طرف بڑھ رہی تھی۔

اِدھر حکومت برطانیہ نے اپنی جنگ کو اخلاقی جواز دینے کے لئے ایک اہم اعلان کیا جب 20؍اگست 1917ء کو وزیر ہند مانٹیگو (Montiguo) نے پالیسی بیان دیتے ہوئے اعلان کیا:

’’حکومت کا منشاء ہندوستان کو صرف انتظام حکومت میں شریک کرنا نہیں بلکہ منتہائے مقصود یہ ہے کہ وہ حکومت خود اختیاری کے قابل ہو جائیں اور رفتہ رفتہ ملک کا پورا انتظام بالآخر ہندوستان کو سونپ دیا جائے گا۔‘‘

حکومت برطانیہ کے اس پالیسی بیان کے بعد مسلمان اقلیت کو بھی اپنے مستقبل کے متعلق خدشات لاحق ہوگئے۔ مسلمان ہندوستان میں اقلیت میں تھے اور وہ سیاست میں ہندوستان سے بہت پیچھے رہ گئے اور وہ منظّم بھی نہیں تھے جبکہ ہندوستان کی دیگر جماعتیں ہندوستان کے مفادات کے تحفظ کے لئے متفق اور متحد تھیں۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ جماعت کو سیاست سے کنارہ کش ہو کر تبلیغ اسلام واحمدیت کی تلقین کرتے تھے لیکن حکومت برطانیہ کی طرف سے نئی پالیسی کا اعلان ہونے کے بعد محض اسلامی ہمدردی کی بنا پر مسلمانوں کی ترجمانی اور اُن کے مفادات کے تحفظ کے لئے میدانِ عمل میں آگئے اور آپ نے مصمم ارادہ کرلیا کہ ملکی امن کو برقرار رکھنے کے لئے حکومت سے تعاون بھی جاری رکھیں گے اور مسلم حقوق کو بھی پامال نہیں ہونے دیں گے۔

(تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 202)

چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی ہدایت کے مطابق 15؍نومبر 1917ء کو احمدیہ وفد مسٹر مانٹیگو سے ملا اور مسلم مفادات کے تحفظ کے لئے مشورہ دیا کہ ’’انتخاب کا کوئی ایسا طریق نہ رکھا جائے کہ جس میں قلیل التعداد جماعتیں نقصان میں رہیں۔ جیسا کہ مسلمانوں کی اکثریت بنگال اور پنجاب میں بہت ہی قلیل ہے۔ لہٰذا یہاں اقلیت کو weightage دینے کا مطلب مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے مترادف ہوگا۔ ‘‘

(تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 203)

یہاں یہ ذکر بے جا نہ ہوگا کہ مسلم لیگ نے معاہدہ لکھنؤ کے تحت پنجاب اور بنگال میں ہندوئوں کو weightage دے کر اپنی اکثریت کو اقلیت میں بدل لیا تھا۔ جسے بعد میں چوہدری خلیق الزماں نے مسلمانوں کی ناتجربہ کاری قرار دیا تھا۔

(Ch.Khaliq-uz-Zaman, Pathway to Pakistan, Lahore, Longman, 1961, P-37)

چوہدری خلیق الزمان بھی مذاکرات کرنے والی جماعت کا حصہ تھے لیکن اس وقت اس کے مضمرات کا کوئی اندازہ نہیں کر سکا۔ لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی نگاہِ بینانے اسی وقت اس کے مضمرات کا اِدراک کرلیا تھا۔ اس کے علاوہ احمدیہ وفد نے مسٹر مانٹیگو سے ملاقات میں یہ مطالبہ بھی کیا:۔

’’کہ ہم بلحاظ سیاست انہی فرقوں کے ساتھ شامل ہیں جو ہماری طرح دعویٰ اسلام رکھتے ہیں۔ اس لئے ہمارا حق ہے کہ ہم اس حیثیت سے رائے دیں۔ ‘‘

(تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 203)

اس سلسلہ میں یہ امر بھی واضح رہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ کا میدان سیاست میں قدم رکھنا ایک تو مسلم حقوق کی حفاظت کی خاطر تھا۔ اس کے علاوہ حضور سیاسی معاملات کو بھی دین کا جزو سمجھتے تھے۔

(تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 203)

11؍نومبر1918ء کو جنگ عظیم اوّل کا خاتمہ ہوگیا۔جنگ کے خاتمے پر تمام ملک میں خوشی منائی گئی۔

(شیخ عبدالقادر بی اے ایڈیٹر مخزن، اخبار حق لاہور 23؍نومبر1918ء)

حضور خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جنگ عظیم اوّل میں کام آنے والے مسلمانوں کے بچوں کی تعلیم کے فنڈ کے لئے پانچ ہزار روپے عطا فرمائے۔

(الفضل 26؍دسمبر1939ء)

جنگ عظیم اوّل کے خاتمے پر ہندوستان میں تمام مذہبی، سیاسی اور عوامی حلقے حکومت سے بہت سی اُمیدیں وابستہ کئے ہوئے تھے۔ لیکن حکومت بعض عناصر کی خفیہ انقلابی سرگرمیوں کی وجہ سے تشویش میں مبتلاتھی۔ لہٰذا اس کی روک تھام کے لئے حکومت نے رولٹ ایکٹ نافذ کردیا جس کے تحت پولیس کو لامحدود اختیارات حاصل ہوگئے۔ اس پر سیاسی حلقوں میں ناراضگی اور مایوسی کی لہر دوڑ گئی۔ گاندھی جی نے اپریل میں سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کردیا۔ جس کے نتیجہ میں واقعات کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جو کہ 13؍اپریل 1919ء کو جلیانوالہ باغ کے قتل عام پر منتج ہوا جس کے نتیجہ میں سینکڑوں کی تعداد میں ہلاکتیں اور ہزاروں کی تعداد میں لوگ زخمی ہوئے۔

جہاں تک جماعت احمدیہ کے سیاسی مسلک کا تعلق تھا وہ ابتداء سے یہی رہا کہ کوئی ایسی بات نہیں ہونی چاہئے جو ملکی امن کو برباد کرنے والی ہو لیکن جہاں تک جلیانوالہ باغ میں تشدد آمیز کارروائی کا تعلق تھا جو جنرل ڈائر نے کی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اسے وحشیانہ اور ظالمانہ قرار دیا۔

(ترک موالات اور احکام اسلام صفحہ 2-3 ، حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)

تحریک خلافت کا آغاز اور حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی بروقت راہنمائی

جب سے مسلم اقتدار ہندوستان میں ختم ہوا ترکوں کی سلطنت مسلمانان ہندوستان کے لئے ایک بہت بڑا نفسیاتی سہارا تھی اور وہ اس خیال سے مطمئن تھے کہ سلطنت ترکی اسلام کی عظمت رفتہ کی علامت کے طور پر برقرار ہے۔ پہلی جنگِ عظیم کے خاتمہ پر ترکی کے مستقبل کا فیصلہ ہونے جا رہا تھا۔ مسلمانان ہندوستان تشویش میں مبتلا تھے۔

چنانچہ 31؍ستمبر کو لکھنؤ میں ایک آل انڈیا کانفرس کا انعقاد ہوا جس میں حکومت کے خلاف منظم طریقے سے صدائے احتجاج بلند کرنے کی تجویز زیر غور آئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کو بھی اس کانفرنس میں خصوصی طور پر مدعو کیا گیا۔ حضور رضی اللہ عنہ نے اپنا ایک مضمون ’’ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض‘‘ کانفرنس میں بھجوایا۔ آپ نے پورا یقین دلایا کہ جماعت احمدیہ ترکوں کی سلطنت سے ہر طرح ہمدردی رکھتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے اس امر کی طرف بھی توجہ دلائی کہ ترکوں کے مستقبل کے بارے میں جن طاقتوں کو فیصلہ کرنا ہے ان میں صرف برطانیہ ہی ایک ایسی طاقت ہے جو اگرچہ مسلمان نہیں لیکن وہ اپنی مسلمان رعایا کے جذبات و احساسات کی وجہ سے کس حد تک مسلمانوں کی مدد کرنا چاہتی ہے۔ پس ہمیں برطانیہ پر اور زیادہ زور دینا چاہئے کہ ترکی کو دوسری حکومتوں کے سپرد نہ کیا جائے۔

(تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 222)

معاہدہ ترکیہ اور مسلمانان ہند کی بے چینی

فاتح اتحادی ممالک نے ترکی پر ذلت آمیز شرائط عائد کردیں جس کے تحت ترکی کے حصے بخرے کردیے گئے۔ ترکی کا وجود آزاد و خود مختار ملک کے طور پر بالکل محدود بلکہ عملی طور پر ختم ہو کر رہ گیا۔مسلمانان ہندوستان اس سلوک پر تلملا اُٹھے۔ 2؍جون 1920ء کو الٰہ آباد میں خلافت کمیٹی کے تحت کانفرنس منعقد کی گئی۔ مولانا عبدالباری فرنگی محلی صدر انجمن خدام کعبہ کی دعوت پر حضور رضی اللہ عنہ نے اپنا ایک مضمون کانفرنس میں بھجوایا جس کا عنوان ’’معاہدہ ترکیہ اور مسلمانوں کا آئندہ رویہ‘‘ تھا۔ آپ نے اپنے مضمون میں حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ ترکی کے حقوق کا اتلاف ہوا ہے بعدازاں آپ نے مختلف قسم کی تجاویز مثلاً ہجرت، جہاد اور ترک موالات کا تجزیہ کرتے ہوئے فرمایا ہجرت کا شرعاً کوئی جواز نہیں۔ نہ ہی سات کروڑ مسلمان ہندوستان چھوڑ کر کہیں جا سکتے ہیں۔

جہاد کے متعلق حضوررضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حکومت کو باقاعدہ تسلیم کرکے اور رہنے کے بعد عَلَمِ جہاد بلند نہیں کیا جاسکتا۔تحریک عدم تعاون اور ترک موالات کے متعلق فرمایا کہ اس فیصلہ سے لاکھوں مسلمان اپنی روزی اور تعلیم سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے اور ان حالات میں کہ مسلمانوں کے حقوق پہلے ہی تلف ہورہے ہیں۔ اس فیصلہ سے آپ اپنے آپ کو اور زیادہ خطرہ میں ڈال دیں گے۔

(تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 258)

لیکن جذباتی تشنج کی اس فضا میں ہوش وخرد کی باتیں طاق نسیاں ہوگئیں اور مسلمان لیڈرز اور علماء نے جوش جنون میں یکم اگست 1920ء کو گاندھی جی کی قیادت میں تحریک عدم تعاون کا اعلان کردیا۔ گاندھی جی نے اس پروگرام کو ستیہ گرہ کا نام دیا۔

اس صورتحال میں حضور رضی اللہ عنہ نے اپنی تصنیف ’’ترک موالات و ہجرت‘‘ میں تحریک عدم موالات اور ہجرت کی تحریک کا تجزیہ کرتے ہوئے ان کی بے بنیادی ظاہر کر دی اور ساتھ اسلامی تاریخ کے تناظر میں ایک نیا راستہ دکھایا۔ آپ نے ’’تاریخ بغداد‘‘ کی مثال دے کر ثابت کیا کہ اس وقت ترک موالات کی نہیں بلکہ موالات کی ضرورت ہے۔

یہ وہی مجرب موالات کا نسخہ ہے جس نے بغداد کی اسلامی حکومت کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے والے ہلاکو خاں کے پوتے کو اسلام کی غلامی میں داخل کردیا تھا۔

(تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 261ء)

حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ، 61؍ میلروز روڈ لندن کے سامنےرونق افروز ہیں

لیکن افسوس اس نازک دور میں جب سرسیّد جیسے عظیم لیڈرز کا دَور ختم ہوگیا تھا اور قائد اعظم جیسے مدبر راہنما پس منظر میں چلے گئے تھے۔ مسلمانان ہند کی قیادت جذباتی لیڈروں اور کوتاہ فہم علماء کے ہاتھ میں آگئی۔ تحریک خلافت کی حمایت کر کے گاندھی جی مسلمان علماء اور تحریک خلافت کے قائدین کی آنکھوں کا تارا بن گے اور تحریک خلافت کے قائدین وفور جذبات میں تمام حدیں پار کرگئے۔

مولانا ابوالاعلیٰ مودودی نے اپنی پہلی کتاب سیرت گاندھی لکھی (نقوش آپ بیتی نمبر) مولانا شوکت علی نے کہا’’میں کہتا ہوں امام مہدی گاندھی جی ہیں‘‘۔ مولانا محمد علی جوہر نے جیل سے پیغام بھیجا’’میں آنحضرت ﷺ کے بعد بے سوچے سمجھے مہاتما گاندھی کی پیروی کرتا ہوں۔‘‘

امیر شریعت عطاء اللہ شاہ بخاری نے مسجد خیرالدین امرت سر میں کہا کہ میں مسٹر گاندھی کو نبی بِالْقُوَّہ مانتا ہوں۔

(اخبار اتفاق و ذوالفقار بحوالہ رہنمائے تبلیغ صفحہ 140-139 از سید طفیل محمد شاہ صاحب، بحوالہ تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 262)

لیکن افسوس جیسا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے قبل از وقت انتباہ فرمایا تھا کہ اس تحریک عدم تعاون اور ہجرت نے مسلمانان ہندوستان کی حرماں نصیبی اور داغ ہائے سینہ کی سوزش میں اور اضافہ کے سوا کچھ نہ کیا جب تحریک ہجرت کے نتیجے میں 18ہزار مسلمان اپنا گھر بار اور اسباب اونے پونے بیچ کر افغانستان ہجرت کرگئے۔ وہاں جگہ نہ ملی، واپس آئے تباہ حال، خستہ درماندہ تہی دست۔ (حیات محمد علی جناح دوسرا ایڈیشن۔ صفحہ 108)اپنے معصوم بچوں اور ضعیفوں کی قبریں پیچھے چھوڑ کر جو سفر کی صعوبتیں برداشت نہ کرسکے۔ اور یہی نہیں کہ تحریک عدم تعاون ہی مسلمانوں کے لئے بے نتیجہ ثابت ہوئی۔ بلکہ وہ پہلے سے بھی زیادہ وقف حرمان یاس ہوگئے۔ مسلمانوں کی قربانیوں اور چندوں سے گاندھی جی ایسے لیڈر بن گئے کہ اور کوئی انہیں چیلنج کرنے والا نہ رہا۔ ’’مسلمانوں کی حیثیت اس ایجی ٹیشن میں ایک آلا کار کی تھی۔ اس وقت تک ان سے کام لیا جب تک انہیں ضرورت تھی اور اس وقت ایجی ٹیشن بند کر دیا جب ان کی ضرورت ختم ہوگئی۔

(مسلمان ہند کی حیات سیاسی صفحہ 109)

پرنس آف ویلز ہندوستان کا دورہ کر رہا تھا۔ وائسرائے نے گاندھی جی کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے صوبوں میں مکمل خود مختاری اور مرکز میں دو عملی نظام کے تحت شراکت کی پیشکش کی لیکن گاندھی جی نے پیشکش ٹھکرا دی لیکن بعد میں چوری چورا کے واقعے کے بعد یہ کہہ کر تحریک عدم تعاون اور سول نافرمانی کو ختم کر دیا کہ یہ تحریک پر امن نہیں رہ سکی۔ مسلمان راہنما جو بلا سوچے سمجھے گاندھی جی کی پیروی کررہے تھے، انگشت بدنداں رہ گئے، ان کے پائوں تلے سے زمین نکل گئی۔ اس پر مستزاد یہ کہ 1924ء میں خود ترکی کی قومی اسمبلی نے خلیفۃ المسلمین کو معزول کرکے ترکی کی خلافت کا خاتمہ کردیا۔ مسلمانانِ ہندوستان بحیثیت قوم ایک بند گلی میں آگئے۔ مولانا محمد علی جوہر ان صدمات کی تاب نہ لاسکے اور وقت سے پہلے بوڑھے ہوگئے۔

بقول مولانا مودودی صاحب جنہوں نے تحریک خلافت کے دوران سیرت گاندھی لکھی تھی:

’’مسلمانوں میں ایسا انتشار پیدا ہوگیا تھا کہ ان کا کوئی حقیقی رہنما یا لیڈر ایسا نہ تھا جس پر وہ پوری طرح اعتماد کرسکیں۔ دوسری طرف ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہندوؤں کے عزائم کھل کر سامنے آگئے۔ ان کے مفادات کی نمائندگی گاندھی جی کررہے تھے۔‘‘

(بحوالہ تحریک اسلامی مرتبہ خورشید احمد شائع کردہ ادارہ چراغ راہ صفحہ 86)

افسوس مسلمان لیڈرز بعد میں اسی نتیجہ پر پہنچے جس کے بارے میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ پہلے سے ہی باخبر کر چکے تھے۔

’’ہائے اُس زود پشیماں کا پشیماں ہونا‘‘

یہی دورنگی مسلمان لیڈروں کی خلافت کے بارے میں بھی ظاہر ہوئی۔ چنانچہ مولانا ابوالکلام آزاد صاحب جو مسلمانوں میں خلافت ترکی کے سب سے سرگرم مبلغ تھے۔ اس کی معزولی کے بعد لکھا کہ ’’خلیفہ قطعاً بے کار تھا… یہ خلافت محض نام اور تنخواہ کی خلافت تھی۔ جس کو دس ہزار پائونڈ ملیں اور جمعہ کے دن سلاملق کے ساتھ نکلے وہی خلیفہ ہے۔

(بحوالہ تحریک اسلامی مرتبہ خورشید احمد شائع کردہ ادارہ چراغ راہ کراچی صفحہ 247)

اب مسلمانان ہندوستان کی کشتی طوفانوں کے رحم و کرم پر تھی۔ ہندوئوں کی انتہاء پسند جماعتیں ہندو مہاسبھا اور آریا سماج زور پکڑ رہی تھیں اور ان کی سرگرمیوں میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ان کو یہ خدشہ لاحق ہوگیا تھا کہ اگر تحریک عدم تعاون اور تحریک خلافت کے تعاون سے کامیابی حاصل ہوگئی تو مسلمان اقتدار میں برابر کے شریک ہو جائیں گے اور چونکہ ہندوستان کی مغربی سرحد پر اسلامی ممالک کی ایک طویل کڑی ہے جو ترکی تک چلی جاتی ہے۔ لہٰذا مسلمانان ہندوستان ان کی مدد سے ہندوستان کو مغلوب کرلیں گے۔ ہندوستان میں موپلا بغاوت اور پان اسلامزم کے جوش و خروش نے انہیں اندیشہ ہائے دور دراز میں مبتلا کردیا۔ لہٰذا اس کی روک تھام کے لئے انہوں نے شدھی، سنگھٹن جیسی تحریکیں شروع کیں۔ ان کے خیال میں اس مسئلہ کا حل یہی تھا کہ مسلمانوں کو ہندو بنا لیا جائے چنانچہ شدھی تحریک کا آغاز ہوا۔ شردھا نند اس کا لیڈر تھا۔ اس تحریک کے لئے سرمایہ مہاراجہ کشمیر نے فراہم کیا۔ مسلمان جو پہلے ہی پے درپے صدمات کے باعث نڈھال تھے، انہیں شدھی کی اس تحریک نے زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا کردیا۔ مسلمانان ہندوستان کی تاریخ کے اس نازک موڑ پر اخبار وکیل امرتسر کے ایڈیٹر مولوی عبداللہ منہاس صاحب نے 8؍مارچ 1923ء کی اشاعت میں ایک مضمون لکھا ، جس کا عنوان تھا۔’’علمائے اسلام کہاں ہیں‘‘ اور اس مضمون میں حضرت امام جماعت احمدیہ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ’’وہ اس نازک موقع پر کیوں خاموش ہیں۔‘‘

(بحوالہ الفضل 12؍مارچ 1923ء صفحہ 7)

جب اولوالعزم امام نے تحریک شدھی کے فتنہ پردازوں پر ضرب کاری لگائی ۔ اپنے جانثاروں کے ذریعے تبلیغی سرگرمیوں کا ایک سلسلہ شروع کردیا جس کی وجہ سے شدھی تحریک کے روح رواں کو لینے کے دینے پڑ گئے اور اس نے خرابی صحت کا بہانہ بنا کر تحریک سے ہی دستبرداری کا اعلان کردیا۔
(بحوالہ الفضل 25؍ستمبر 1923ء)

تحریک خلافت کی ناکامی پر مسلمانان ہندوستان کو یہ احساس ہو ا کہ انہیں پہلے ہندوستان میں اپنے معاملات درست کرنے چاہئیں۔

لیکن ہندوئوں کی انتہاء پسند جماعتیں جن کی قیادت ہندو سماج اور آریا سماج کے لیڈرز کررہے تھے۔ مسلمانوں کووہ سیاسی حقوق بھی دینے کے لئے تیار نہیں تھے جو کانگرس نے لکھنؤ ایکٹ کے تحت مسلمانوں کو دیے تھے۔ آریا سماج کا نعرہ تھا ہندوستان ہندوؤں کے لئے ہے۔ لہٰذا دوسرے مذاہب کی گنجائش نہیں۔

(Farquhar, Modern Religious Movements. page 205)

جب کانگرس نے تحریک خلافت کی حمایت کی اور ہندومسلم اتحاد ہوا تو اس کا سخت ردعمل ہندئوں کی دائیں بازو کی جماعتوں میں دیکھنے میں آیا۔

(Islam and muslim history in south asia, Francis Robinson, oxford university press, . page 222)

ان انتہاء پسند ہندو جماعتوں نے مسلمانوں کے جداگانہ انتخاب کے حق کو خاص طور پر نشانہ بنانا شروع کردیا کہ یہ قومی یکجہتی کے خلاف ہے۔ واضح رہے کہ جداگانہ انتخاب کا حق مسلمانان ہندوستان کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ تھا۔ جب ہندوستان میں برطانوی حکومت نے انتخابی اصلاحات کا نظام متعارف کرانے کا اعلان کیا تو مسلمانان ہندوستان کے ایک نمائندہ وفد نے سر آغا خاں کی قیادت میں 1906ء کو لارڈ منٹو مارلے (وائسرائے ہندوستان) سے ملاقات کی اور دوسرے مطالبات کے ساتھ سب سے اہم اپنے لئے جداگانہ انتخاب کا مطالبہ کیا۔ جس کے مطابق ہندو اپنے نمائندے منتخب کریں اور مسلمان اپنے۔

1909ء میں مسلمانوں کا مطالبہ منٹو مارلے اصلاحات میں تسلیم کرلیا گیا۔

مسلم لیگ جو 1906ء میں قائم ہوئی تھی۔ اس کو بڑی کامیابی اُس وقت ملی جب 1916ء میں لکھنؤ پیکٹ کے تحت کانگرس نے اس پر اپنی مہر تصدیق ثبت کردی اور اب مسلمانان ہندوستان کو نہ صرف حکومت کی طرف سے بلکہ کانگرس کی طرف سے بھی اپنے جداگانہ تشخص کی ضمانت مل گئی۔ لیکن اب مسلمانوں کے اس حق کے خلاف ہندو مہاسبھا کے لیڈروں نے ایک منظم مہم شروع کردی۔ کانگرس نے مسلم لیگ پر زور دینا شروع کردیا کہ اگر مسلم لیگ اس مطالبہ سے دستبردار ہوجائے اور مشترکہ انتخاب پر راضی ہو جائے تو اس کے تمام مطالبات تسلیم کرلئے جائیں گے۔

قائداعظم بھی ہندو مسلم اتحاد کی خاطر اس پر متفق ہوگئے اور تجاویز دہلی پیش کرتے ہوئے مسلمانوں کے مطالبات سامنے رکھے اور اعلان کیا کہ اگر یہ تمام مطالبات بحیثیت مجموعی کانگرس تسلیم کرلے تو مسلم لیگ جداگانہ انتخاب کے مطالبہ کو ترک کردے گی اور مشترکہ انتخاب پر راضی ہوجائے گی۔ کانگرس نے مئی 1926ء میں تجاویز دہلی کی توثیق کردی۔

لیکن حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے جن کی زندگی کا لمحہ لمحہ احیاء اسلام اور تبلیغ اسلام کے لئے وقف تھا، اپنی غیرمعمولی بصیرت سے ان نقصانات کا اندازہ کرلیا جو جداگانہ انتخاب کے حق سے دستبرداری کے نتیجہ میں مسلمانان ہندوستان کو پہنچنے والے تھے۔ چنانچہ ستمبر 1927ء کو جب حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ شملہ میں تھے تو قائد اعظم کے ساتھ آپ کی کنگزلے میں دوسرے لیڈروں کے ساتھ ملاقات ہوئی اور آپ سے تبادلہ خیال کرتے ہوئے جناح صاحب نے فرمایا:۔

’’مرزا صاحب میں نہیں مان سکتا کہ نصب العین ہمارا یہ ہو کہ ہندوستانی قوم بلند مقام تک جا پہنچے اور اس کا ذریعہ یہ جداگانہ انتخاب ہو؟ قومیت صرف مشترکہ انتخاب کے ذریعہ سے ہی بن سکتی ہے؟ـ‘‘
حضورؓ نے فرمایا کہ جہاں تک آئیڈیل کا تعلق ہے، مشترکہ انتخاب قومیت کے لئے ضروری ہے۔ مگر اس وقت مسلمان حد درجہ کمزور ہیں۔ وہ مشترکہ انتخاب میں ہندو سرمایہ اور ہندو چالوں کا مقابلہ ہرگز نہیں کرسکیں گے۔ مگر مسٹرمحمد علی جناح نہ مانے اور اپنی رائے پر قائم رہے۔

(تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 620)

قائداعظم اُس وقت تو قائل نہ ہوئے لیکن بعد میں گول میز کانفرنس کے موقع پر جب ہندو مہاسبھا کے لیڈروں نے کہا کہ پنجاب اور بنگال میں مسلمانوں کی نشستیں مخصوص (reservations) کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ وہاں مسلمان اکثریت میں ہیں تو قائداعظم نے حضرت امام جماعت احمدیہ کے مؤقف کو اپنے الفاظ میں یوں بیان کیا کہ پنجاب میں مسلمان ہندو بنیے کی سماجی طاقت اور بنگال میں ہندو زمیندار کے اثرورسوخ کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ (Sumit Sarkar Morden India. 1857-1947. America, 1989. page 309)

جب قائداعظم کی ملاقات کنگزلے میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو اس موقع پر قائداعظم جماعت احمدیہ کی ملی خدمات سے بہت متاثر ہوئے۔ ایک موقع پر مسز سروجنی نائیڈو سے جماعت احمدیہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا’’احمدی جماعت میں کام کرنے کی عجیب روح ہے۔ اسمبلی کے ممبروں کو اتنی فکر نہیں جتنی ان لوگوں کو ہے۔ ان کے آدمی نہ رات دیکھتے ہیں نہ دن، ہر وقت ہمارے پاس پہنچ جاتے اور اپنا مشورہ پیش کرتے ہیں۔

(تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 620)

اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی ان بے لوث خدمات پر مولانا محمد علی جوہر بہت متاثر ہوئے اور آپ کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے فرمایا ’’وہ وقت دور نہیں جبکہ اسلام کے اس منظم فرقہ کا طرزعمل سوادِاعظم اسلام کے لئے …… مشعل راہ ثابت ہوگا۔

(ہمدرد دہلی 26؍ستمبر1927ء)

لیکن جہاں تک قائداعظم کی جداگانہ انتخاب کے حق سے دستبرداری کی فراخدلانہ پیشکش کا سوال تھا۔ دائیں بازو کی ہندو لیڈرشپ اس سے بھی مطمئن نہ ہوئی چنانچہ ہندوئوں اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لئے ایک طرف تو انہوں نے شدھی اور سنگھٹن جیسی تحریکیں شروع کیں اور دوسری طرف ایک نہایت دلآزار کتاب ’’رنگیلا رسول‘‘ اور رسالہ ’’ورتمان‘‘ شائع کیا جس میں آنحضرت ﷺ کی شان مبارک میں گستاخیوں کو انتہا تک پہنچا دیا گیا۔ ان دلآزار کتابوں کا مقصد ہندوئوں اور مسلمانوں میں اختلاف کی خلیج کو وسیع کرنا تھا۔

حضور رضی اللہ عنہ نے اس مرحلہ پر آنحضرتﷺ کی ناموس و حرمت کی حفاظت کے لئے اہل اسلام سے اپیل کرتے ہوئے ایک پوسٹر شائع فرمایا جس کا عنوان تھا ’’رسول کریم ﷺ کی محبت کا دعویٰ کرنے والے کیا اب بھی بیدار نہ ہوں گے۔‘‘

جس میں آپؓ نے فرمایا’’ہماری جنگل کے درندوں اور بَن کے سانپوں سے صلح ہو سکتی ہے لیکن ان لیڈروں سے ہرگز صلح نہیں ہو سکتی جو رسول کریم ﷺ کو گالیاں دینے والے ہیں۔ـ‘‘ ساتھ ہی آپ نے مسلمانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ’’ اے بھائیو! ……آپ تبلیغ اسلام سے پوری دلچسپی لیں گے اور اس کام کے لئے اپنی جان اور اپنے مال کی قربانی سے دریغ نہیں کریںگے۔‘‘

چنانچہ ناموس رسالت کے لئے احمدی پیش پیش تھے جب ہائی کورٹ کے جج کنور دلیپ سنگھ نے راجپال کو بری کردیا تو اخبار مسلم آئوٹ لُک (Muslim Outlook) کے احمدی ایڈیٹر سید دلاور شاہ صاحب بخاری نے 14؍جون 1927ء کو اس فیصلہ کے خلاف لکھتے ہوئے ’’مستعفی ہو جائو‘‘ کے عنوان سے ایک اداریہ لکھا جس پر انہیں توہین عدالت کانوٹس پہنچ گیا۔ چوہدری ظفراللہ خاں صاحب نے جب عدالت میں یہ کیس لڑا اور اس خوبی سے لڑا کہ مولانا ظفر علی خاں فرطِ جوش میں آبدیدہ ہوگئے اور آپ کا ہاتھ چوم کر کہا ’’اس تقریر نے واضح طور پر غلط ثابت کردیا ہے کہ مسلمانوں میں مقرر نہیں۔‘‘

(تاریخ احمدیت جلد 4 صفحہ 601)

حضوررضی اللہ عنہ نے اس مرحلہ پر آنحضرت ﷺ کی ناموس و حرمت کی حفاظت کے لئے ملکی سطح پر کامیاب تحریک چلائی چنانچہ 17؍جون 1927ء کو ہندوستان کے طول وعرض میں یوم سیرت النبی ؐ منایا گیا اور فضا درود وسلام سے گونج اُٹھی۔

دوسرا مقصد ہندو مہاسبھا کا یہ تھا کہ کانگرس نے تجاویز دہلی کو منظور کرکے جو تحفظات مسلم لیگ کو دیے تھے اُن سے بھی مسلمانوں کو محروم کردیا جائے۔ قائداعظم نے مشترکہ انتخاب کو قبول کرکے بڑی فراخدلی کا مظاہرہ کیا تھا۔ اس کے نتیجے میں مسلم لیگ دو حصوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔ لیکن ہندوئوں نے اس کی قدر نہ کی۔

1926ء کے الیکشن میں ہندومہاسبھا نے کانگرس کو شکست فاش دی۔ اگر پنڈت مدن موہن مالویہ ، موتی لال نہرو پر مہربانی نہ کرتا تو موتی لال نہرو اپنی نشست سے محروم ہو جاتے۔ اس الیکشن رزلٹ کے بعد کانگرس ہندومہاسبھا کے زیراثر آگئی ۔ جس کا بڑا ثبوت وہ نہرو رپورٹ تھی جو تیار تو لارڈ برکن میڈ کے چیلنج کا جواب دینے کے لئے کی گئی تھی کہ ہندوستانی خود کوئی متفقہ آئین تیار نہیں کرسکتے لیکن اس میں مسلمانوں سے وہ سلوک کیا گیا کہ بقول مولانا شوکت علی ’’میں نے کسی شکاری جانور کو اپنے شکار سے وہ سلوک کرتے نہیں دیکھا جو اس رپورٹ میں مسلمانوں کے ساتھ کیا گیا ہے۔ــ‘‘

لیکن حیرت یہ تھی کہ خود مسلمانوں میں بھی ایک خاصہ بارسوخ طبقہ اس کی بے سوچے سمجھے تائید میں اُٹھ کھڑا ہوا اور مولانا ابوالکلام آزاد اس طبقہ کے لیڈر تھے۔ جن کے نزدیک ان اندیشوںکا ایک ہی علاج تھا کہ دریا میں بے خطرکود جانا چاہئے۔

(خطبات ابوالکلام آزاد طبع اوّل صفحہ 314)

مولانا محمد علی جوہر اور قائداعظم ملک سے باہر تھے۔ اس نازک صورت حال سے مسلمانوں کو آگاہ کرنے کے لئے اولوالعزم امام نے جبکہ وہ درس القرآن سے فارغ ہوئے ، نہرو رپورٹ کی کاپی حاصل کی۔ اس کے بالاستیعاب مطالعہ کے بعد اپنا تبصرہ مضامین کی شکل میں ’’نہرو رپورٹ اور مسلمانوں کے مصالح‘‘ کے عنوان سے الفضل میں لکھنا شروع کیا جو 2؍نومبر 1928ء کو مکمل ہوا۔ آپ کے مطالبات کے بنیادی نکات یہ تھے کہ حکومت کا طرزِعمل فیڈرل ہو اور کم از کم پنجاب اور بنگال میں جداگانہ طریق جاری رہے۔ ان نکات کی اہمیت اس امر سے ظاہر ہوتی ہے کہ قائداعظم نے آل پارٹیز کانفرنس کلکتہ میں جو ترامیم نہرورپورٹ میں پیش کیں اُن ترامیم میں بھی یہ نکات شامل تھے۔ آپ نے نہرو رپورٹ کا جائزہ لیتے ہوئے یہ ثابت کیا کہ نہرو رپورٹ میں مسلم مطالبات کو پورا کرنا تو ایک طرف ان کے موجودہ حاصل شدہ حقوق بھی غصب کرنے کی کوشش کی ہے۔ چنانچہ آ پؓ نے مسلمانوں کے شعور آگہی کے لئے یہ تجویز پیش کی کہ ہر شہر اور ہر قصبے میں جلسے کئے جائیں کہ ہم نہرو رپورٹ سے متفق نہیں ہیں اور ان جلسوں کی رپورٹیں گورنمنٹ کے پاس بھی بھیجی جائیں اور مسلمانوں کو بھی نہرو رپورٹ کی خرابیوں سے آگاہ کیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ انگلستان کی رائے عامہ کو بھی باخبر کیا جائے کہ نہرو رپورٹ لکھنے والے فرقہ وارانہ تعصب سے بالانہیں۔

حضوررضی اللہ عنہ نے یہ وعدہ بھی فرمایا کہ ’’میں اور احمدیہ جماعت اس معاملہ میں باقی تمام مسلمان فرقوں کے ساتھ مل کر ہر قسم کی جدوجہد کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ‘‘

(مسلمانوں کے حقوق اور نہرو رپورٹ صفحہ 116)

حضور کی ان کوششوں سے جو مسلمانوں کو بروقت راہنمائی ملی اس سے مسلمانوں کے اونچے طبقے بہت ممنون ہوئے اور مسلمانوں کے سیاسی حلقوں میں اسے نہایت پسند کیا گیا۔ حضور نے اس کے لئے جماعت کو عملی طور پر جدوجہد کرنے کی تلقین بھی کی۔ آپ نے 5؍اکتوبر 1928ء کو ارشاد فرمایا کہ تمام احمدی ہرشہر اور قصبہ ، ہر گائوں میں دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر کمیٹیاں بنائیں جو نہرورپورٹ کے خلاف جلسے کرکے لوگوں کو اس کے بداثرات سے آگاہ کریں اور ریزولیوشن پاس کرکے ان کی نقول لاہور، کلکتہ کی مسلم لیگوں، مقامی حکومتوں، حکومت ہند سائمن کمیشن اور تمام سیاسی انجمنوں اور پریس کو بھجوائیں۔ چنانچہ جماعتوں نے حضور کے اس ارشاد کی تعمیل کے لئے ملک کے چپہ چپہ میں احتجاجی جلسے کئے اور مسلمانوں کو بیدار کردیا اور ہندوستان کے مسلمان ایک بار پھر اسی جوش و خروش سے ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوگئے جس طرح حضرت امام جماعت احمدیہ کی سرفروشانہ جدوجہد نے انہیں 1927ء میں تحریک ناموس رسولؐ میں متحد و منسلک کردیا تھا۔

(تاریخ احمدیت جلد 15 صفحہ 72)

اللہ تعالیٰ نے آپ کو پیش گوئی مصلح موعود میں رحمت کا نشان اور فتح و ظفر کی کلید قرار دیا تھا۔ ان دونوں دعووں کی صداقت مسلمانان ہندوستان کی تاریخ کے آئینہ میں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ کے حصے میں جدید یونیورسٹیوں کے ایوان نہیں بلکہ مسجد کا گوشہ آیا تھا۔ آکسفورڈ اور ھارورڈ کے کلاس روم نہیں بلکہ مکتب کی چٹائی آئی تھی۔ لیکن آپ نے جس بے مثال ذہانت و فطانت سے مسلمانانِ ہندوستان کی نازک لمحوں میں کامیاب رہنمائی فرمائی جہاں لمحوں کی خطا صدیوں کی سزا۔۔ بن جاتی ہے۔ آپ کی رہنمائی کا یہ سلسلہ قیامِ پاکستان کے بعد بھی جاری رہا۔ کاش کشمیر کے معاملہ میں پاکستان کی قیادت آپ کا مشورہ مان لیتی اور کشمیر کو حیدر آباد دکن کے بدلہ میں قبول کر لیتی تو آج کشمیر نہ صرف پاکستان کا حصہ ہوتا بلکہ 70؍ ہزار مظلوم کشمیریوں کے خون سے ہولی نہ کھیلی جاتی۔ اور ہزاروں  عورتوں کی آبروریزی نہ ہوتی۔

حضرت مصلح موعودؓ نے کیا خوب فرمایا تھا

اِک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ
ملّت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے

٭…٭…٭

ایک تبصرہ

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button