سیرت خلفائے کرام

تعلیم نسواں کے متعلق حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا نظریہ

(حضرت سیّدہ مریم صدیقہ صاحبہ ؓ)

(حضرت سیّدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ حرم محترم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود ؓ)

حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہؒ (حضرت چھوٹی آپا) حرم محترم حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی حضرت مصلح موعودؓکے بارہ میں لکھی جانے والی مختلف تحریرات کامجموعہ ’’گل ہائے محبت، حضرت مصلح موعودؓ کی حسین یادیں‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا ہے۔ اس کا ایک ایک مضمون حضرت مصلح موعودؓ کی پاکیزہ سیرت کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے۔ اس کتاب میں سے احمدی خواتین کی تعلیم کے بارہ میں ایک مضمون ہدیۂ قارئین ہے۔یہ مضمون الفضل ربوہ 19 و 20 نومبر 1966ء کی اشاعت میں شائع ہوا تھا۔(مدیر)

علم انسان کی روح کی غذا ہے۔ علم سے ہی انسان کی انسانیت کے جوہر کھلتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو پیدا کر کے اس کی روحانی تشنگی بجھانے کے لیے اسےعلم عطا فرمایا۔ جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَعَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ کُلَّھَا (البقرہ32:) اس سے ظاہر ہے کہ تمام علوم کی ابتداء الہام کے ذریعہ ہوتی ہے۔ اس آیت کی تفسیر فرماتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتےہیں:

’’پہلی چیز جس کی بنیاد انسان کی پیدائش کے بعد رکھی گئی وہ علم ہے۔ اور جس طرح خدا تعالیٰ نے ساری چیزیں ابتداء میں خود بنائی ہیں اور پھر ان کی ترقی انسان کے سپرد کی ہے اس طرح علم کی بنیاد خدا تعالیٰ نے خود رکھی اور اس کی ترقی انسان کے سپرد کر دی۔ جیسے پہلا آدم خدا تعالیٰ نے خود بنایا آگے ترقی انسانوں کے سپرد کر دی۔ پہلے آگ اللہ تعالیٰ نے پیدا کی پھر اس کا قائم رکھنا انسان کے سپرد کر دیا۔ اسی طرح تمام اشیاء کی ابتداء خدا تعالیٰ نے خود قائم کی اور انہیں آگے ترقی انسان نے دی۔ یہی حال علم کا ہے۔ پہلے علم خدا تعالیٰ نے دیا آگے اس میں ترقی انسان کرتے گئے۔ اسے بڑھاتے گئے اور ہم برابر ابتدا سے اب تک دیکھتے چلے آتے ہیں کہ انسان علم میں ترقی کرتا جا رہا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ اس قسم کے بھی موجود ہوتے ہیں جو علوم کی قدر نہیں کرتے اور ایسے وجود بھی ابتداء سے ہی چلے آئے ہیں۔ ایسے وجودوں کا نام ابلیس رکھا گیا ہے یعنی نااُمیدی میں مبتلا رہنے والا۔ درحقیقت اُمید ہی تمام علوم کو بڑھانے اور ترقی دینے والی ہوتی ہے اور جتنی زیادہ اُمید ہوتی ہے اتنی ہی زیادہ علوم میں ترقی کی جاسکتی ہے۔

پس جب ابتدا سے انسان کی عظمت اور ترقی آدم سے مشابہ ہونے یعنی علم حاصل کرنے پر ہے اور علم سے مایوس ہونا ابلیس بننا ہے تو سمجھ لو انسان کے لیے کس قدر ضروری ہے کہ علم حاصل کرے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ اسلام کے معنی علم اور کفر کے معنی جہالت ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے کئی جگہ جہالت کا لفظ کفر کے معنوں میں استعمال فرمایا۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں مَنْ لَّمْ یَعْرِفْ اِمَامَ زَمَانِہٖ فَقَدْ مَاتَ مِیْتَۃً جَاھِلیَّۃًکہ جو اپنے زمانہ کے امام کو نہیں پہچانتا وہ کفر کی موت مرتا ہے۔ پس ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ خود علم سیکھے اور علم پھیلانے کی کوشش کرے اور جس طرح مسلمان کے لفظ سے مرد مخاطب ہیں اسی طرح عورتیں بھی ہیں۔‘‘

(الفضل 21 مارچ 1925ء صفحہ 2)

آنحضرت ﷺ کے اس فرمان کے مطابق کہ طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِیْضَۃٌ عَلیٰ کُلِّ مُسْلِمٍ وَ مُسْلِمَۃٍ ہر مسلمان مرد اور عورت کے لیے علم حاصل کرنا فرض ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے جماعت احمدیہ کی خواتین کی تعلیم کے لئے از حد کوشش کی۔ جب اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کے مطابق حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓمسند خلافت پر متمکن ہوئے تو قادیان میں بچیوں کے لیے صرف ایک پرائمری سکول جاری تھا۔ جس میں تیس چالیس تک طالبات کی تعداد تھی۔ آپؓنے خلیفہ ہوتے ہی عورتوں کی تعلیم کی طرف خصوصی توجہ فرمائی۔ پرائمری سکول سے مڈل سکول ہوا۔ مڈل سکول سے ہائی سکول بنا۔ ہجرت کے وقت قادیان میں دو زنانہ سکول تھے۔ ایک ہائی اور ایک مڈل۔ ہائی سکول کے ساتھ بچیوں کی اعلیٰ دینی تعلیم کے لیے بھی ایک دینیات کالج جاری فرمایا اور عورتوں کی تعلیم کے لیے 17 مارچ 1925ء کو آپ نے ایک مدرسۃ الخواتین جاری فرمایا جس میں آپ خود بھی پڑھایا کرتے تھے۔ یہ مدرسہ اس غرض سے جاری کیا گیا تھا تا جماعت کی مستورات دینی و دنیوی علوم کے زیور سے آراستہ ہو کر جماعت کی بچیوں کی تعلیم و تربیت میں حصہ لے سکیں۔ چنانچہ آپ خود فرماتے ہیں:

’’عورتوں کی تعلیم سے مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی خاص دلچسپی ہے۔ میں نے محض اس کی وجہ سے لوگوں کے اعتراضات بھی سنے ہیں اور اختلافی آراء بھی سنی ہیں لیکن پھر بھی مَیں پورے یقین کے ساتھ اس رائے پر قائم ہوں کہ عورتوں کی تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کرسکتی۔ جب جماعت احمدیہ کا انتظام میرے ہاتھ میں آیا اس وقت قادیان میں عورتوں کا صرف پرائمری سکول تھا لیکن مَیں نے اپنی بیویوں اور بیٹیوں کو قرآن کریم اور عربی کی تعلیم دی اور انہیں تحریک کی کہ مقامی عورتوں کو قرآن کریم کا ترجمہ اور حدیث وغیرہ پڑھائیں۔ میں نے اپنی ایک بیوی کو خصوصیت کے ساتھ اس کے لیے تیار کیا اور میرا خیال تھا کہ وہ اپنی تعلیمی ترقی کے ساتھ دوسری عورتوں کو فائدہ پہنچائیں گی لیکن خدا تعالیٰ کی مشیت تھی کہ میرے سفر ولایت سے واپسی پر وہ فوت ہوگئیں۔‘‘

(الفضل قادیان جلد19 مورخہ 19 ستمبر 1931ء صفحہ 5)

اس اقتباس سے ظاہر ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ کے نزدیک عورتوں کا تعلیم حاصل کرنا قومی ترقی کے لیے بہت ہی ضروری تھا۔ آپؓکی ذاتی دلچسپی کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ ہجرت کے بعد بھی جبکہ سارا ملک ایک بحران میں سے گزر رہا تھا، جماعت پر بھی بہت بڑا مالی بوجھ تھا، لیکن ربوہ کے آباد ہوتے ہی یہاں لڑکیوں کا سکول جاری کر دیا گیا۔ اور کچھ عرصہ گزرنے کے بعد 1951ء میں لڑکیوں کا کالج بھی جاری کر دیا گیا جو آج خدا تعالیٰ کے فضل سے پاکستان کے تمام زنانہ کالجوں کے مقابلہ میں ایک منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ جہاں حضرت مصلح موعودؓنے عورتوں کے لیے سکول اور کالج جاری فرمائے تا ان کی ذہنی نشو و نما ہو، ان کی صلاحیتیں اُجاگر ہوں، وہ قومی نظام کا ایک کارآمد پرزہ بن سکیں، اردو لکھنا پڑھنا اس لئے سیکھیں تا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ کرسکیں، وہ انگریزی بولنا اور پڑھنا اس لئے سیکھیں تا اسلام کو ان خواتین کے سامنے پیش کرسکیں جو انگریزی بولتی اور سمجھتی ہیں۔ وہاں کبھی بھی آپ کا مقصد یہ نہیں تھا کہ لڑکیوں کی تعلیم محض ڈگریاں لینے کے لئے ہو یا نوکریاں کرنے کے لئے بلکہ بار بار آپ نے اپنی تقریروں اور تحریروں میں اس کو واضح فرمایا ہے کہ علم سے مراد دینی علم ہے۔ قرآن مجید کا علم ہے۔ آپ فرماتے ہیں:

’’اس کے بعد میں تمہیں توجہ دلاتا ہوں کہ سب سے ضروری تعلیم دینی تعلیم ہے کس طرح سمجھاؤں کہ تمہیں اس طرف توجہ پیدا ہو۔ اس زمانے میں خدا تعالیٰ کا ما ٔمور آیا اور اس نے چالیس سال تک متواتر خدا کی باتیں سنا کر ایسی خشیت الٰہی پیدا کی کہ مردوں میں سے کئی نے غوث، قطب، ولی، صدیق اور صلحاء کا درجہ حاصل کیا۔ ان میں سے کئی ہیں جو اپنے رتبہ کے لحاظ سے کوئی تو ابوبکرؓ اور کوئی عثمانؓ، کوئی علیؓ کوئی زبیرؓ، کوئی طلحہؓ ہے، تم میں سے بھی اکثر کو اس نے مخاطب کیا اور انہیں خدا کی باتیں سنائیں اور ان کی بھی اسی طرح تربیت کی مگر تب بھی وہ اس رتبہ کو حاصل نہ کرسکیں۔ اس کی وفات کے بعد اللہ تعالیٰ نے تم میں ایک صدیقی وجود کھڑا کیا مگر اس سے بھی وہ رنگ پیدا نہ ہوا۔ پھر خدا نے مجھ کو اس مقام پر کھڑا کیا اور پندرہ سال سے متواتر درس اور اکثر وعظ، و نصائح اور لیکچر میں دین کی طرف توجہ دلاتا رہا ہوں اور ہمیشہ یہی میری کوشش رہی ہے کہ عورتیں ترقی پائیں مگر پھر بھی اُن میں وہ روح پیدا نہ ہوسکی جس کی مجھے خواہش تھی۔ …. پچھلے دنوں میں نے یہاں کی عورتوں سے ایک سوال کیا تھا کہ تم کسی ایک عورت کا بھی نام بتاؤ جس نے قرآن کریم پر غور کر کے اس کے کسی نکتہ کو معلوم کیا ہو اس کی صرف یہ وجہ ہے کہ تم قرآن کو قرآن کر کے نہیں پڑھتیں اور نہیں خیال کرتیں کہ اس کے اندر علم ہے، فوائد ہیں، حکمت ہے بلکہ صرف خدائی کتاب سمجھ کر پڑھتی ہو کہ اس کا پڑھنا فرض ہے۔ اسی لیے اس کی معرفت کا دروازہ تم پر بند ہے۔ دیکھو قرآن خدا کی کتاب ہے اور اپنے اندر علوم رکھتا ہے۔

قرآن اس لیے نہیں کہ پڑھنے سے جنت ملے گی اور نہ پڑھنے سے دوزخ بلکہ فرمایا کہ فِیْہِ ذِکْرُکُمْ اس میں تمہاری روحانی ترقی اور علوم کے سامان ہیں۔ قرآن ٹو نہ نہیں۔ یہ اپنے اندر حکمت اور علوم رکھتا ہے۔ جب تک اس کی معرفت حاصل نہ کرو گی قرآن کریم تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتا۔ تم میں سے سینکڑوں ہوں گی جنہوں نے کسی نہ کسی سچائی کا اظہار کیا ہوگا۔ لیکن اگر پوچھا جائے کہ تمہارے اس علم کا ماخذ کیا ہے تو وہ ہر گزہرگز قرآن کو پیش نہ کریں گے بلکہ ان کی معلومات کا ذریعہ کتابیں، رسائل، ناول یا کسی مصنف کی تصنیف ہوں گی اور غالباً ہماری جماعت کی عورتوں میں حضرت مسیح موعود کی کوئی کتاب ہوگی۔ تم میں سے کوئی ایک بھی یہ نہ کہے گی کہ میں نے فلاں بات قرآن پر غور کرنے کے نتیجہ میں معلوم کی ہے۔ کتنا بڑا اندھیر ہے کہ قرآن جو دنیا میں اپنے اندر خزانے رکھتا ہے اور سب بنی نوع انسان کے لیے یکساں ہے اس سے تم اس قدر لاعلم ہو۔ اگر قرآن کا دروازہ تم پر بند ہے تو تم سے کس بات کی توقع ہوسکتی ہے؟‘‘

(مستورات سے خطاب 28 دسمبر 1929ء انوارالعلوم جلد 11 صفحہ 58)

حضرت مصلح موعودؓ کی تقریر کا یہ اقتباس ظاہر کرتا ہے کہ آپؓکے دل میں ایک آگ لگی ہوئی تھی کہ احمدیہ خواتین اور بچیوں میں قرآن مجید کا فہم ہو۔ وہ قرآن مجید ترجمہ سے پڑھیں، سمجھیں اور اس کے نور کی شمع سے دوسری خواتین کو منور کریں۔ ایک دفعہ نہیں دو دفعہ نہیں بارہا اپنی تقریروں میں آپؓنے اس امر کا اظہار فرمایا کہ اصل علم دین کا علم ہے۔ لڑکیوں کو تعلیم دلوانے کی یہ غرض نہیں کہ بچیاں صرف حساب، انگریزی اور دوسرے علوم سیکھ کر ڈگریاں لے لیں یا نوکریاں کریں بلکہ اعلےٰ تعلیم سے مراد یہ ہے کہ جہاں دنیوی تعلیم حاصل کریں وہاں ساتھ ساتھ قرآن مجید کا علم، حدیث کا علم سیکھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پر عبور حاصل ہو۔ ہر مسئلہ کے متعلق صحیح علم ہو۔ تا جہاں اپنی جماعت کی بچیوں کی صحیح رنگ میں تعلیم و تربیت کرسکیں وہاں دوسری خواتین کے لیے ہدایت و اصلاح کا موجب بنیں۔ جہاں آپؓنے سر توڑ کوشش اس لیے کی کہ جماعت کی ایک بچی بھی جاہل نہ رہ جائے۔ لوگوں نے آپ کی مخالفت کی مگر آپ برابر جماعت میں بچیوں کے والدین کو ان کی تعلیم کی طرف توجہ دلاتے رہے۔ اور ان کی تعلیم کا انتظام کرتے رہے وہاں آپ نے اس امر سے تنفّر کا اظہار فرمایا کہ جب تعلیم عام ہوئی تو بچیوں کے والدین بجائے اس کے کہ دینی علم کی طرف توجہ دیتے ان کو ڈگریاں دلوانے میں فخر محسوس کرنے لگ پڑے۔ آپ نے جلسہ سالانہ 1933ء میں خواتین سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:

’’میں نہیں سمجھتا کہ سکندر یا تیمور کو ملک فتح کرنے کا اتنا شوق ہوگا جتنا کہ آج کل کے ماں باپ لڑکیوں کو اعلےٰ ڈگریاں دلانے کے شائق ہیں۔ یہ ایک فیشن ہوگیا ہے جو انگریزوں کی ریس اور تقلید میں ہے۔ اور اس فیشن کی رو جنون کی حد تک پہنچ چکی ہے۔ … پہلے جنون تھا جہالت کا اور اب جنون ہے موجودہ طریق تعلیم کا۔ حالانکہ یہ بھی ایک جہالت ہے۔ …. آج کل عورتوں میں ڈگریاں پانے کا جنون پیدا ہو رہا ہے۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ہم مہذب نہیں کہلاسکتیں جب تک کہ کوئی علمی ڈگری ہمارے پاس نہ ہو مگر یہ ان کی جہالت کا ثبوت ہے۔ میں نے ارادہ کر لیا ہے کہ اپنی جماعت کی عورتوں کو جہاں تعلیم حاصل کرنے کی ترغیب دوں وہاں یہ بھی بتاؤں کہ کتنی تعلیم اور کیسی تعلیم حاصل کرنی چاہئے۔‘‘

(مستورات سے خطاب جلسہ سالانہ 1933ء انوارالعلوم جلد 13 صفحات 307 تا 308)

پھر آپ نے فرمایا:

’’ایک عورت ہے جو اپنی عمر کو ریاضی کے مسئلے سیکھنے میں گزار دے اور بچوں کی تربیت اور خانہ داری کے فرائض کو چھوڑ دے تو اسے عقلمند یا علم سیکھنے والی کون کہے گا۔ مرد تو ایسا علم سیکھنے کے لیے مجبور ہے کیونکہ اس نے روزی پیدا کرنی ہے۔ مگر عورت کو ریاضی کے سوال حل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ علم نہیں یہ جہالت ہے۔‘‘

(مستورات سے خطاب جلسہ سالانہ 1933ء انوار العلوم جلد 13 صفحات 308 تا 309)

تعلیم عام ہونے کے ساتھ جب لڑکیوں میں ڈگریاں لینے کا شوق پیدا ہوگیا اور دینی تعلیم سے بے توجہگی ہوئی تو آپ نے عورتوں کو بار بار اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ تمہارا مقصد دینی تعلیم حاصل کرنا ہونا چاہیے تاکہ دین کی اشاعت میں تمہارا حصہ ہو۔ جب شادی ہو تو اولاد کی صحیح رنگ میں تربیت ہو۔ آپ نے ان کو قرآن مجید پڑھنے، احادیث پڑھنے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پڑھنے کی طرف توجہ دلائی اور ساتھ ہی ان کے فرائض کی طرف بھی کہ اگر لڑکی ڈگری حاصل کر لے اور امور خانہ داری سے ناواقف ہو تو ایسی تعلیم کا کیا فائدہ۔ آپؓ نے فرمایا:

’’عورتوں کا کام ہے گھر کا انتظام اور بچوں کی پرورش۔ مگر لوگوں کو عادت ہوتی ہے کہ دوسرے کی چیز کو اچھی جانتے ہیں اور اپنی شَے پسند نہیں کرتے۔ اس لیے یورپ کی عورتوں کی رِیس کر کے ہماری مسلمان قوم اپنی لڑکیوں کو ڈگریاں دلانا چاہتی ہے۔ حالانکہ عورت گھر کی سلطنت کی ایک مالکہ ہے اور ایک فوجی محکمہ کی گویا آفیسر ہے۔ کیونکہ اس نے پرورش اولاد کرنی ہے۔‘‘

(مستورات سے خطاب جلسہ سالانہ 1933ء انوارالعلوم جلد 13 صفحہ 309)

آپ نے عورتوں پر اپنی مختلف تقاریر میں واضح کیا کہ قوم اور ملت کو فائدہ پہنچانے کے لیے ضروری ہے کہ دین کا علم حاصل کیا جائے اور ڈگریوں کے پیچھے نہ پڑا جائے۔ بہت کم عورتیں خدمت دین اور تبلیغ اسلام کرتی ہیں۔ آپؓ فرماتے ہیں:

’’پس خدا اور رسول کی باتیں سنو۔ حضرت صاحب کی کتابیں پڑھو۔ ناولوں اور رسالوں کے پڑھنے کی فرصت مل جاتی ہے لیکن دینی کتابوں کے لیے وقت نہیں ملتا۔ کتنی شرم کی بات ہے کہ اب انگریز تو مسلمان ہو کر اردو سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ حضرت صاحب کی کتابیں پڑھیں مگر ہماری عورتیں اردو نہیں سیکھتیں۔ اور اگر کچھ شُد بُد پڑھ لیتی ہیں تو ناول پڑھنے شروع کر دیتی ہیں۔ علم دین سیکھو، قرآن پڑھو، حدیث پڑھو، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتابوں میں علم و حکمت کی باتیں لکھی ہیں ان سے مفید علم سیکھو۔ بی اے، ایم اے کی ڈگریاں لینی دین کے لیے مفید نہیں ہیں۔

میں کہتا ہوں بی اے، ایم اے ہو کر کیا کرو گی؟ میں اپنی جماعت کی عورتوں کو کہتا ہوں کہ دین سیکھو۔ اور روحانی علم حاصل کرو۔ حضرت رابعہ بصریؒیا حضرت عائشہؓ کے پاس ڈگریاں نہیں تھیں۔ دیکھو حضرت عائشہؓ نے علم دین سیکھا اور وہ نصف دین کی مالک ہیں۔ مسئلہ نبوت میں جب ہمیں ایک حدیث کی ضرورت ہوئی تو ہم کہتے ہیں کہ جاؤ عائشہؓ سے سیکھو۔‘‘

(مستورات سے خطاب جلسہ سالانہ 1933ء انوارالعلوم جلد 13 صفحہ 310 تا 311)

حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ دہلی میں جلسہ یومِ مصلح موعود سے خطاب فرما رہے ہیں(1944ء)

ہمیں اپنے کالج، سکول چلانے کے لیے استانیوں یا ہسپتالوں میں کام کرنے کے لیے لیڈی ڈاکٹروں کی یقیناً ضرورت تھی تا جماعت کے جاری کردہ ادارے کامیابی سے چل سکیں۔ اور احمدی بچیوں کو احمدی معلمات میسر آسکیں۔ لیکن ایک خاص حد تک معلمات اور لیڈی ڈاکٹروں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ہر لڑکی ڈگری لے کر نہ معلمہ بن سکتی ہے نہ لیڈی ڈاکٹر۔ اس لیے آپ نے جماعت کی عورتوں اور بچیوں کی توجہ اس طرف مبذول کروائی کہ جس حد تک ہمیں ضرورت ہے اتنی لڑکیاں یا خواتین بے شک ڈگریاں حاصل کریں۔ ایم۔ اے کر لیں لیکن ہر لڑکی کو ڈگریاں لینے کی بجائے اُن علوم کو سیکھنے کی ضرورت ہے جس سے وہ ہمارے معاشرہ کے لیے ایک کامیاب عورت ثابت ہوسکے۔ چنانچہ آپؓ نے فرمایا:

’’پس ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ہمیں کن علوم کی ضرورت ہے؟ ہمیں علم دین کی ضرورت ہے۔ کوئی لڑکی اگر ایم۔ اے پاس کر لے اور اسے تربیت اولاد یا خانہ داری نہ آئے تو وہ عالم نہیں جاہل ہے۔ ماں کا پہلا فرض بچوں کی تربیت ہے اور پھر خانہ داری ہے۔ جو حدیث پڑھے، قرآن کریم پڑھے، وہ ایک دیندار اور مسلمان خاتون ہے۔ اگر کوئی عورت عام کتابوں کے پڑھنے میں ترقی حاصل کرے تاکہ وہ مدرس بن سکے یا ڈاکٹری کی تعلیم سیکھے تو یہ مفید ہے کیونکہ اس کی ہمیں ضرورت ہے۔ لیکن باقی سب علم لغو ہیں۔‘‘

(مستورات سے خطاب 1933ء انوارالعلوم جلد 13 صفحہ 311)

علم دین سیکھنے کی طرف توجہ دلانے کے ساتھ ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے عورتوں اور لڑکیوں کو بار بار اس امر کی طرف توجہ دلائی کہ مرد اور عورت کے قرآن مجید کی تعلیم کے مطابق دائرۂ عمل الگ الگ ہیں۔ عورتوں یا لڑکیوں کا کام نوکریاں کرنا نہیں۔ بےشک اپنے ادارہ جات چلانے کی خاطر بعض خواتین اور بچیوں کو نوکریاں بھی کرنا ہوں گی مگر ان کی غرض خدمت دین، خدمت خلق اور خدمت قوم ہوگی نہ کہ پیسہ کمانا۔ عورت کا دائرۂ عمل اس کا گھر ہے اور لڑکی کو اعلےٰ تعلیم دینے کی غرض یہ ہے کہ وہ اپنے نیک و بد کو سمجھے۔ ایک اچھی بیٹی بنے، ایک اچھی بہن بنے، ایک اچھی بیوی بنے۔ جس گھر میں شادی ہو کر جائے ان کے لیے اچھی بیوی ثابت ہو اور جب اللہ تعالیٰ اسے اولاد سے نوازے تو بہترین ماں ثابت ہو۔ لیکن آج کل حال کیا ہے؟ لڑکیاں تعلیم اس لیے حاصل کر رہی ہیں کہ بڑی سے بڑی ڈگری حاصل ہو جائے خواہ دین بالکل نہ آئے۔ چودہ یا سولہ سال کا لگاتار عرصۂ تعلیم بسا اوقات ان کی صحتیں خراب کر دیتا ہے اور مناسب وقت ان کی شادی کا گزر جاتا ہے جس کی وجہ سے رشتے ملنے مشکل ہو جاتے ہیں۔ چونکہ لڑکیاں زیادہ پڑھ جاتی ہیں۔ اتنے پڑھے ہوئے احمدی لڑکے نہیں ملتے تو ماں باپ اس بنا پر انکار کر دیتے ہیں کہ لڑکی کی تعلیم زیادہ ہے اور لڑکے کی کم۔ انہی امور کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مصلح موعود نے 27 دسمبر 1938ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے فرمایا تھا:

’’آج کل کی تعلیم یافتہ عورتیں یہ سمجھنے لگ گئی ہیں کہ ہم بھی وہ سب کام کرسکتی ہیں جو مرد کرسکتے ہیں۔ اگر مرد کُشتی کرتے ہیں تو عورتوں نے بھی کُشتی لڑنی شروع کر دی ہے۔ حالانکہ کجا عورتوں کی شرم و حیا اور کجا کُشتی۔ اسی طرح عورتیں کہتی ہیں کہ ہم نوکریاں کریں گی۔ حالانکہ اگر وہ نوکریاں کریں گی تو ان کی اولادیں تباہ ہو جائیں گی وہ بچوں کی تربیت کیونکر کرسکیں گی۔ یہ غلط قسم کی تعلیم ہی ہے جس نے عورتوں میں اس قسم کے خیالات پیدا کر دئے ہیں۔ … گھر میں سب سے قیمتی امانت بچہ ہے اور بچہ کی تعلیم و تربیت ماں کا اولین فرض ہے۔ اگر عورتیںنوکری کریں گی تو بچوں کی تربیت نا ممکن ہے… اگر آج کل کی مائیں اپنی اولادوں کی تربیت اسی طرح کرتیں جس طرح صحابیاتؓ نے کی تو کیا یہ ممکن نہیں تھا کہ ان کے بچے بھی ویسے ہی قوم کے جانثار سپاہی ہوتے جیسے کہ صحابیاتؓکی اولادیں تھیں۔ اگر آج بھی خدانخواستہ جماعت احمدیہ میں کوئی خرابی واقع ہوئی تو اس کی عورتیں ہی ذمہ وار ہوں گی۔‘‘

(تربیت اولاد کے متعلق اپنی ذمہ داریوں کو سمجھو انوار العلوم جلد 15 صفحہ 217 تا 218)

اسی طرح آپ نے اپنی تقریروں میں عورتوں کی تعلیم کی طرف توجہ فرماتے ہوئے جہاں دینی تعلیم حاصل کرنے پر زور دیا ہے۔ انگریزی تعلیم کو بُرا نہیں کہا بلکہ اس کے جو بدنتائج نکل رہے ہیں ان کو ناپسند فرمایا ہے۔ اور جس نیت سے تعلیم حاصل کی جا رہی ہے اسے ناپسند فرمایا ہے۔ آپ نے فرمایا ہے:

’’پھر تعلیم جو تم پاتی ہو اس سے تمہارا مقصد نوکری کرنا ہوتا ہے۔ اگر نوکری کرو گی تو بچوں کو کون سنبھالے گا؟ خود تعلیم انگریزی بُری نہیں لیکن نیت بد ہوتی ہے اور اگر نیت بد ہے تو نتیجہ بھی بد ہوگا۔ اگر غلط راستے پر چلو گی تو غلط نتیجے ہی پیدا ہوں گے۔ جب لڑکیاں زیادہ پڑھ جاتی ہیں تو پھر ان کے لیے رشتے ملنے مشکل ہو جاتے ہیں۔ ہاں اگر لڑکیاں نوکریاں نہ کریں اور پڑھائی کو صرف پڑھائی کے لیے حاصل کریں۔ اگر ایک لڑکی میٹرک پاس ہے اور پرائمری پاس لڑکے سے شادی کر لیتی ہے تو ہم قائل ہو جائیں گے کہ اس نے دیانتداری سے تعلیم حاصل کی ہے۔‘‘

(الازھار لذوات الخمار صفحہ 374)

ان مندرجہ بالا اقتباسات کی روشنی میں جو مَیں نے حضرت مصلح موعودؓ کی مختلف تقاریر سے جمع کیے ہیں آپ کاعورتوں کی تعلیم کے متعلق نقطہ نگاہ واضح ہوجاتا ہے۔ یہ تلخ حقیقت ہے کہ موجودہ طرز تعلیم لڑکیوں کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اور ان کو مذہب اور قوم سے عشق رکھنے والیاں بنانے کی بجائے مذہب سے بیگانہ، آزاد، خودسر، گھر سے بے خبر، نوکری کرنے کی شائق، بےپردہ بنا رہا ہے۔ حالانکہ ہمارے معاشرہ کو ضرورت ہے ایک اچھی شریف دیندار لڑکی کی۔ ایک اچھی بہو کی اور ایک اچھی ماں کی۔

پس مَیں اپنی نہایت عزیز بچیوں کو نصیحت کرتی ہوں کہ وہ مذہب سے بیگانگی اختیار نہ کریں۔ قرآن سیکھیں کہ یہی تمام علوم کا سرچشمہ ہے۔ جہاں وہ کئی گھنٹے اپنے کالج کی تعلیم پر خرچ کرتی ہیں وہاں کم از کم ایک گھنٹہ روزانہ قرآن مجید کا ترجمہ یاد کرنے، مطلب سمجھنے اور مذہبی لٹریچر کے مطالعہ کے لیے لگائیں۔ ساتھ ہی مَیں ان محترمات کی خدمت میں بھی التماس کرتی ہوں جن کے ہاتھ میں قوم کی بچیوں کی تربیت کی باگ ڈور دی گئی ہے کہ اگر ہماری قوم کی بچیاں خدا تعالیٰ اور مذہب سے دور جا پڑیں تو وہ خدا تعالیٰ کے آگے جوابدہ ہوں گی۔ ان کا کام ہے کہ وہ نگرانی رکھیں کہ ہماری بچیاں علوم مروجہ کے ساتھ ساتھ دین بھی سیکھ رہی ہیں یا نہیں۔ اور ان کی تربیت صحیح رنگ میں ہو رہی ہے یا نہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری بچیوں کو اپنا عبد بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ ہمارا نمونہ بھی صحابیاتؓ کے نمونہ کے مطابق ہو۔ (آمین۔ اللھم آمین)

(الفضل 19 و 20 نومبر 1966ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button