سیرت خلفائے کرام

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کاایک عظیم الشان کارنامہ صدر انجمن احمدیہ کی تنظیم نَو (نظارتوں کا قیام)

(مرزا طلحہ بشیر احمد۔ ربوہ)

جماعت احمدیہ میں 20فروری کا دن ہر سال اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے کیے گئے وعدے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ وہ وعدہ جو سن 1886ء کے آغاز میں حضور علیہ السلام کے ہوشیار پور کےسفر کے دوران چالیس روز اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری کرنے کے نتیجہ میں عطا ہوا۔ ان چالیس ایام میں خلوت میں کی گئیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی دعائیں جب بارگاہ ایزدی میں پہنچیں تو بے انتہاء فضلوں کو سمیٹتے ہوئے الہامات الٰہی کے ذریعہ اپنی قبولیت کے نظارے دکھانے لگیں۔ پس ان التجاؤں کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ آپ سے مخاطب ہوا اور آپ کو ایک خوشخبری عطا کی اور فرمایا کہ :

’’میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں ۔ اسی کے موافق جو تو نے مجھ سے مانگا۔ سو میں نے تیری تضرعات کو سنا اور تیری دعاؤں کو اپنی رحمت سے بہ پا یۂ قبولیت جگہ دی اور تیرے سفر کو (جو ہوشیار پور اور لدھیانہ کا سفر ہے) تیرے لئے مبارک کردیا…‘‘ ۔
(مجموعہ اشتہارا ت جلد اوّل صفحہ95-96)

20 فروری 1886ء کو حضور علیہ السلام نے ایک اشتہار کے ذریعہ اس پیشگوئی کو شائع فرمایا اور اعلان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک وجیہ اور پاک لڑکا دئے جانے کا وعدہ فرمایا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت سے فضلوں کا وارث ہو گا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔

پس ہر سال دنیا بھر میں جماعت احمدیہ یہ دن بڑےاخلاص و محبت سےاللہ تعالیٰ کی حمد اور شکرانے کےطور پرمنا تی ہے کہ خدا تعالیٰ، جو ہر ایک چیز پر قادر ہے، کی بات ایک بار پھر پوری ہوئی۔ دنیا نے ایک بار پھر دیکھا کہ قادیان کی بستی سے اٹھنے والی آواز صداقت کی آوازتھی۔ اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ تھا پیشگوئی حرف بہ حرف حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ذات میں پوری ہوئی۔ الحمد للہ۔ پس جہاں بھی یوم مصلح موعودؓمنایا جاتا ہے وہاں اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ ساتھ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یادوں کو بھی تازہ کیا جاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسی قائدانہ صلاحیتوں سے نوازا کہ آپ کے دور میں جماعت احمدیہ نے ترقیات کی نئی منازل طَے کیں اور باوجود اندرونی اور بیرونی مشکلات کے اور باوجود دشمنوں کے ایڑی چوٹی کے زور کے کہ کسی طرح اس جماعت کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے، جماعت احمدیہ نے آپ کی قیادت تلے نہ صرف ہر طوفان کا مقابلہ کیا بلکہ آپ کی اولو العزمی کےنتیجہ میں ہمیشہ جماعت اپنے وقار کو قائم رکھتے ہوئے مزید ترقیات کی طرف گامزن رہی۔ آپ کا 52 سالہ دورِخلافت جماعت کے لئے بے بہا ترقیات کا ذریعہ بنا اورآپ کی دوربین نگاہ نے ہمیشہ جماعت کو ایسی راہ دکھائی جس نے نہ صرف موجودہ مسائل کا حل پیش کیا بلکہ مستقبل میں آنے والی مشکلات کا سامنا کرنے کے لئے بھی نظام جماعت کو مزید مستحکم کیا۔

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے مقصد کو مد نظر رکھتے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیشہ سلسلہ کے کاموں میں مزید بہتری کے طریق تلاش کرتے رہے ۔ آپ کے دَور میں جہاں بیرون ہند تبلیغ کے کام میں ایک نئی وسعت عطا ہوئی وہاں آپ کو اس بات کی بھی فکر تھی کہ احباب جماعت اور مرکز کےدرمیان ایک مضبوط تعلق قائم کیا جائے ۔ یہی وجہ تھی کہ آپ بار بار قادیان سے باہر رہنے والے احباب جماعت کو تلقین فرماتے کہ وہ قادیان آئیں۔

اللہ تعالیٰ نے آپ کو انتظامی صلاحیتوں سے بھی مالا مال کر رکھا تھالہٰذا آپ کی اس طرف بھی توجہ رہی کہ نظام جماعت کو ایسی شکل دی جائے، جس سے خلافت کے زیر سایہ ایک ایسا نظام بن جائے جو خلیفہ وقت کی ہدایات کے تابع حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو پورا کرنے کے لئے اپنی ذمہ داریاں سر انجام دینے کے ساتھ ساتھ احباب جماعت کا مرکز سے مضبوط تعلق قائم کرنے کی خاطربھی خلیفہ وقت کا معاون و مددگار ہو۔

آپ نے اپنے دَور خلافت میں ان کاموں کے لئے نہ صرف وقت کی ضرورت کے پیش نظر تحریک جدید اور وقف جدید جیسی نئی تحریکات جاری فرمائیں بلکہ صدر انجمن احمدیہ کے انتظامی ڈھانچے میں بھی ایسی ترامیم فرمائیں جس سے یہ ادارہ اپنی ذمہ داریوں کو بہتر رنگ میں ادا کرنے میں کامیاب ہوا ۔ پس آج صدر انجمن احمدیہ کی جو شکل ہم دیکھ رہے ہیں وہ ایک لمبے تجربہ اور بہت سی ترامیم کے بعد ابھر کر سامنے آئی ہے اور اس میں مرکزی کردار حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی توجہ اور رہنمائی کا ہے۔

صدر انجمن احمدیہ جماعت احمدیہ کا وہ ادارہ ہے جس کا آغاز حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دور میں ہوا۔ حضور علیہ السلام نے اپنی کتاب فتح اسلام میں اس الٰہی کارخانے کی جو پانچ شاخیں بیان فرما ئیں وہ صدر انجمن احمدیہ کے قیام سے پہلے بھی کسی نہ کسی رنگ میں کام کر رہی تھیں مگر یہ شاخیں کسی ایک انجمن کے تحت نہ تھیں۔ 1905ء میں اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے جماعت کو اپنے قرب وفات کی اطلاع دی تو ساتھ ہی جماعت کو تسلی دیتے ہوئے نظام خلافت اور نظام وصیت کی بھی خوشخبری عطا کی۔ اس وقت نظام وصیت کے انتظام و انصرام کے لئے آپ نے ایک کمیٹی قائم فرمائی جس کا نام آپ علیہ السلام نے ’’مجلس کارپرداز مصالح قبرستان‘‘پسند فرمایا۔

اس پر خواجہ کمال الدین صاحب نے یہ تجویز پیش کی کہ جماعت میں اس سے پہلے مختلف شعبہ جات کام کررہے ہیں اور اب یہ ایک نئی کمیٹی قائم فرمائی گئی ہے کیوں نہ ان سب شعبہ جات کو اکٹھا کر کے ایک مرکزی انجمن بنا دی جائے۔ اور اس مرکزی انجمن کا نام مجلس معتمدین صدر انجمن احمدیہ ہو۔ نیز تمام اموال کو بھی اس انجمن کی نگرانی میں دے دیا جائےاور یہ انجمن امام وقت حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی رہنمائی و نگرانی اور کامل اطاعت میں سلسلہ کے مختلف مالی اور تنظیمی امور چلانے کی ذمہ دار ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس تجویز کو اس شکل میں منظور فرمایا کہ اس مجلس کے جملہ ممبران خود حضور علیہ السلام نے نامزد فرمائے اور حضرت مولانا حکیم نورالدین صاحب(خلیفۃ المسیح الاول) رضی اللہ تعالیٰ عنہ کواس مجلس کا صدر مقرر فرمایا ۔نیز یہ ارشادبھی فرمایا کہ ان (یعنی صدر) کی رائےچالیس آدمیوں کی رائے کے برابر شمار ہوگی۔ پس اس طرح صدر انجمن احمدیہ کا قیام عمل میں آیا اور اس مجلس کے قواعد کی منظوری بھی خود حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے عطا فرمائی۔ان قواعد میں ایک قاعدہ یہ بھی شامل تھا کہ :

’’ ہر ایک معاملہ میں مجلس معتمدین اور اس کی ماتحت مجلس یا مجالس اگر کوئی ہوں، اور صدر انجمن احمدیہ اور اس کی کل شاخ ہائے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا حکم قطعی اور ناطق ہوگا۔‘‘
پس آغاز سے ہی یہ بات واضح تھی کہ صدر انجمن احمدیہ محض معاون و مددگار کے طورپر قائم کی گئی ہے جو امام وقت کی رہنمائی اور نگرانی میں اپنی ذمہ داریاں سر انجام دے گی۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے دَور میں یہی طریق جاری رہا اور کسی کی طرف سے یہ اشارہ بھی نہ کیا گیا کہ صدر انجمن احمدیہ کی حیثیت اس کے ماسوا کچھ اور ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد باقی جماعت کی طرح تمام مجلس معتمدین نے بھی حضرت حکیم مولانا نورالدین صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر کے آپ کوحضور علیہ السلام کا جانشین اور خلیفہ تسلیم کیا۔اور قدرت ثانیہ کے ظہور کے بعد بھی صدر انجمن احمدیہ کی وہی حیثیت بر قرار رہی اور یہ ادارہ پہلے کی طرح اپنی ذمہ داریاں نبھاتا رہا۔ تا ہم کچھ عرصہ بعد یہ بات سامنے آنا شروع ہوئی کہ مجلس معتمدین کے بعض ممبران کی خواہش ہے کہ خلافت کے بجائے مجلس معتمدین کو ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا جانشین تصور کیا جائے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے اس غلط خیال کی بھر پور تردید فرمائی اور جماعت کی رہنمائی فرمائی جس سے احباب جماعت میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ خلافت ہی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی حقیقی جانشین ہے۔ اور صدر انجمن احمدیہ محض ایک ادارہ ہے جس کے لئے خلیفۃ المسیح کی رہنمائی، احکامات اور منشا کے مطابق کام کرنا ضروری ہے۔ تاہم مجلس معتمدین کے بعض ممبران اندر ہی اندراپنے غلط خیالات پر قائم رہے کہ اصل جانشین صدر انجمن احمدیہ ہی ہے۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب خلافت کے منصب پر فائز ہو ئے تو آپ کی نظر ان کمزوریوں پر بھی تھی جو صدر انجمن احمدیہ کی اصل غرض و غایت کو نہ سمجھنے کے نتیجہ میں پیدا ہو ئیں ۔ پس ان تمام وجوہات کے پیش نظر حضور رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعائیں کیں، احباب جماعت سے مشورے لئے اور دنیا میں رائج مختلف نظاموں کا گہرائی میں جاکر مطالعہ کیا ۔ اسی طرح مختلف قوموں کی ترقی اور تنزلی کے اسباب پربھی نظر ڈالی جس کے بعد آپ نےمختلف اوقات میں صدر انجمن احمدیہ کے انتظامی ڈھانچے میں کئی ایک مفید ترامیم فرمائیں اور جماعت کو ایک مضبوط نظام دیا۔ یہ تمام تبدیلیاں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت کے مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے کی گئیں۔

دیگر جماعتی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ آپ کی اس کام کی طرف خاص توجہ کا یہ عالم تھا کہ حضرت ڈاکٹر حشمت اللہ صاحب رضی اللہ عنہ جو حضور کے ذاتی معالج کے طور پر خدمت پاتے رہے ہیں، فرماتے ہیں:

’’ایک مرتبہ حضور نے مجھے یاد فرمایا اور بتایا کہ آپ نظام جماعت میں اصلاحی تبدیلیاں کرنے پر غور فرما رہے ہیں۔ لہٰذا چاہتے ہیں کہ انسانی جسم کے نظام کا مطالعہ کریں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسانی جسم کو ایک کامل نظام کی شکل میں پیدا کیا ہے اور اس کے مطالعہ سے بہت سی مفید رہنمائی حاصل ہو سکے گی۔ چنانچہ آپ نے Anatomyاور Physiology وغیرہ کی مختلف کتب حاصل کرکے ان کا مطالعہ فرمایا اور بہت سے مفید نتائج اخذ کئے ۔ غالباً اسی تحقیق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے آپ نے ایک مرتبہ فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے نظام جسم میں ہنگامی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے بکثرت متبادل راستے تجویز کر رکھے ہیں مثلاً اگر ایک شریان بند ہو جائے تو اس کی جگہ دوسری شریان نیا راستہ مہیا کردیتی ہے۔ لہٰذا انسان کو کسی نظام کی تشکیل کے وقت اس راہنما اصول کو مد نظر رکھنا چاہئے‘‘۔

(سوانح فضل عمر ، جلد دوم ، صفحہ127مطبع ضیا الاسلام پریس ربوہ)

خلافت ثانیہ کے ابتدائی دور تک یہ دستور تھا کہ تمام انتظامی معاملات مجلس معتمدین میں ہی پیش کئے جاتے تھے جبکہ صدر انجمن احمدیہ کے صیغہ جات کے افسران جو انتظامی امور کو چلانے کے ذمہ دار تھے وہ از خود اس انجمن کے ممبر نہ تھے۔اس سے ایک مسئلہ یہ درپیش تھا کہ انتظامی امور پر فیصلہ کرنے والے ان امور میں عملی تجربہ نہ رکھتے تھے جبکہ عملی تجربہ رکھنے والے کارکنان کو فیصلہ جات میں شامل ہونے کا اختیار نہ تھا۔ پس اس صورتحال میں بہتری پیدا کرنے کے لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو پہلا انتظامی قدم اٹھایا وہ ایک الگ مجلس انتظامیہ کا قیام تھا جو صیغہ جات کےسربراہوں پرمشتمل تھی اور براہِ راست خلیفۂ وقت کی رہنمائی میں کام کرتی تھی۔ اس کے بعد انتظامی امور کے متعلق مشورے اسی مجلس انتظامیہ میں پیش ہونا شروع ہوئے جس کے بعد آخری منظوری و فیصلہ کے لئے خلیفۃالمسیح کی خدمت میں پیش کئے جاتے۔ اس مجلس کے صیغہ جات کا نام حضور نے ’نظارت‘ رکھا۔ آغاز میں مجلس معتمدین اسی طرح قائم رہی اور یہ دونوں مجالس اپنے اپنے دائرہ کار میں اپنی ذمہ داریاں سرانجام دیتی رہیں۔ اس نئی مجلس کا اعلان کر تے ہوئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

’’احباب جماعت کی اطلاع کے لئے شائع کیا جاتا ہے کہ ضروریات سلسلہ کو پورا کرنے کے لئے قادیان اور بیرونی جماعت کے احباب سے مشورہ کرنے کے بعد میں نے یہ انتظام کیا ہے کہ سلسلہ کے مختلف کاموں کے سر انجام دینے کے لئے چند ایسے افسران مقرر کئے جائیں جن کا فرض ہو کہ وہ حسب موقع اپنے متعلقہ کاموں کو پورا کرتے رہیں اور جماعت کی تمام ضروریات کو پورا کرنے میں کوشاں رہیں۔ فی الحال میں نے اس غرض کے لئے ایک ناظر اعلیٰ ۔ ایک ناظر تالیف و اشاعت ۔ ایک ناظر تعلیم و تربیت اور ایک ناظر امور عامہ اور ایک ناظر بیت المال مقرر کیا ہے…آ ئندہ جو تغیرات ہوں گے ان سے احباب کو اطلاع دی جاتی رہے گی۔ میں امید کرتا ہوں کہ احباب ان لوگوں کے کام میں پوری اعانت کریں گے اور سلسلہ کی کسی خدمت سے دریغ نہ کریں گے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول اور اس کے قائم کردہ سلسلہ کے استحکام کے لئے مجھے یقین ہے کہ اب احباب اس تکلیف کو خوشی سے برداشت کریں گے اور ہر طرح ان کارکنوں کا ہاتھ بٹاکر ثواب کے مستحق ہوں گے۔ اور ان کی تحریرات کو میری تحریرات سمجھیں گے‘‘۔
(الفضل 4 جنوری 1919ء صفحہ1-2)

حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ کے ہمراہ ممبران وفد برائے سفر یورپ 1924ء(اٹلی میں)

نظارتوں کے قیام کے ساتھ ہی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی عنہ نے تمام شعبہ جات کو ان کی ذمہ داریوں اور فرائض کی طرف توجہ دلانا شروع کی۔ اسی طرح سلسلہ کے مفاد کی خاطر مختلف نظارتوں کو اپنے کام کو مزید مستحکم کرنے کے لئے آپ ہدایات فرمایا کرتے۔ چنانچہ نظارت بیت المال کی ذمہ داری بیان کرتے ہوئے فرمایا:

’’ان کاموں کے علاوہ جن کا تعلق صدر انجمن سے ہے باقی تمام کاموں کے لئے جس قدر روپیہ کی ضرورت پیش آئے اسے (یہ صیغہ ) مہیا کرے۔ اس سے پہلے ہمارے افسروں کا یہ کام ہوتا تھا کہ ان عام کاموں کے لئے جو کچھ کوئی دے جائے یا بھیج دے ، وہ لے لیں۔ لیکن جن لوگوں نے کوئی خاص کام کرنا ہو ان کے خزانے دوسروں کی رائے پر نہیں چھوڑے جاسکتے ۔ ان کے کارکنوں کا فرض ہے کہ ضرورت کے مطابق روپیہ بہم پہنچائیں۔ البتہ ایسی حکمت و ترکیب سے وصول کریں کہ افراد تباہ و برباد نہ ہوں۔ کیونکہ جماعتیں افراد سے ہی بنتی ہیں اور وہ حکومتیں جو افراد کو برباد کردیتی ہیں کبھی ترقی نہیں کرسکتیں‘‘۔

(عرفان الٰہی تقریر جلسہ سالانہ1919ء، صفحہ77-80)

اسی طرح نظارت تعلیم کے شعبہ کے عظیم الشان مقاصد سمجھاتے ہوئے فرمایا:

’’اس صیغہ کے ذمہ یہ کام ہوگا کہ جماعت کے لڑکوں کی فہرستیں تیار کرائے اور معلوم کرےکہ مثلاً زید کے تین لڑکے ہیں ان کی تعلیم کا کوئی انتظام ہے یا نہیں اور وہ دینی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں یا نہیں۔ اگر معلوم ہوکہ نہیں تو اسے لکھا اور سمجھایا جائے کہ اپنے بچوں کی تعلیم کا انتظام کرے۔ ایسے لوگ خواہ کہیں رہتے ہوں ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت کی نگرانی یہ صیغہ کرے گا اور ممکن سہولتیں مہیا کرنا اس کا فرض ہوگا۔ اس طرح تمام جماعت کے بچوں پر اس صیغہ کی نظر ہوگی۔ پھر جو شخص فوت ہو جائے گا اس کی اولاد کے متعلق یہ دیکھا جائے گا کہ اس کی تعلیم و تربیت کا کیا انتظام ہے۔ اس کے رشتہ داروں نے کچھ کیا ہے یا نہیں ۔ اگر کیا ہے تو وہ تسلی بخش ہے یا نہیں اور کس قدر امداد دینے کی ضرورت ہے‘‘۔

(عرفان الٰہی تقریر جلسہ سالانہ 1919ء، صفحہ نمبر77-80)

کچھ عرصہ مجلس معتمدین اورنئی نظارتوں کی انتظامیہ دونوں ہی ساتھ ساتھ کام کرتی رہیں لیکن پھر اس طریق میں کچھ ایسی دقتیں پیش آئیں جس پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ نے 1925ء میں مجلس معتمدین کو نظارتوں کے نظام میں مدغم کر دیا۔ اب نظارتوں کے سربراہ یعنی ناظران ہی صدر انجمن احمدیہ کے ممبر بن گئے ۔ اس نئے انتظام میں خلیفۂ وقت کے ماتحت صدر انجمن احمدیہ بحیثیت مجلس عاملہ تمام اہم اصولی فیصلوں کی ذمہ دار بن گئی۔ نیز تمام امور جو اس مجلس کے سامنے پیش ہوتے، اس پر مجلس کی سفارشات آخری منظوری کے لئے خلیفۃ المسیح کی خدمت اقدس میں پیش کی جاتیں۔ ناظران صدر انجمن احمدیہ کے ایسے فیصلوں کی روشنی میں کام کرتےجن کو خلیفۃ المسیح کی منظوری حاصل ہوتی۔ انتظامی امور میں وہ براہ راست خلیفۃ المسیح کے ماتحت بھی تھے اور جواب دہ بھی۔ناظر ان کی نامزدگی کا اختیار بھی کلیتہً خلیفۃ المسیح کے پاس تھا۔ادغام کے بعد صدر انجمن احمدیہ چھ ناظران اور دو بیرونی ممبران پر مشتمل ہوگئی۔

یہاں سے صدر انجمن احمدیہ کی تاریخ کا نیا دور شروع ہوا جس میں تمام شعبہ جات براہ راست خلیفۃالمسیح سے ہدایت پاکر کام کرنے لگے ۔ اس کے بعد وقتاً فوقتاً موجودہ نظارتوں کے علاوہ کام کی وسعت اور بہتری کو مد نظر رکھتے ہوئے مزید نظارتوں کا اضافہ ہوتا رہا ۔ مثلاً نظارت صنعت و تجارت، نظارت زراعت، نظارت خدمت درویشاں، نظارت دیوان وغیرہ۔ اسی طر ح بعض موجودہ نظارتوں اور ان کے دائرہ کار میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ وقت کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے کچھ ترامیم فرماتے رہے۔ مثلاً نظارت تعلیم کو کچھ عرصہ کےلئے نظارت تعلیم و تربیت بنا دیا گیا اور اس کے ذمہ تربیت کا کام بھی دے دیا گیا۔ کچھ عرصہ بعد نظارت دعوت و تبلیغ کے دائرہ کار کو وسیع کرکے اس کا نام نظارت اصلاح و ارشاد رکھا گیا جس کے ذمہ تبلیغ اور تربیت دونوں کا کام دے دیا گیا۔ اس تبدیلی کے بعد نظارت تعلیم و تربیت واپس اپنی پرانی شکل پر لوٹ گئی اور نظارت تعلیم کہلانے لگی۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے نصف صدی پر محیط دورِ خلافت میں انتہائی عمدگی اور کامیابی کے ساتھ اس نظام کی نگرانی اور رہنمائی فرمائی۔ نیز پیش آ مدہ نقائص کو دور کرتے ہوئےضروری اصلاحی ترامیم فرماتے رہے تا جماعت احمدیہ کا یہ نظام ایک جگہ ٹھہر جانے والے جوہڑ کی طرح نہ بن جائے جس میں آلودگی پیدا ہونے کا خدشہ رہتا ہے بلکہ اس تیز دریا کی مانندہو جواپنی شفافیت کو ہمیشہ برقرار رکھتے ہوئے اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہتا ہے اور بڑی بڑی چٹانیں بھی اس کے راستے میں رکاوٹ نہیں بن سکتیں۔

چنانچہ آپ بار بار تمام شعبوں کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلاتے رہے تا وہ اپنے مقصد اور مقام کو کبھی بھول نہ پائیں۔ ایک موقع پرآپ ؓنے فرمایا:

’’سلسلہ کا اصل ذمہ دار خلیفہ ہے اور سلسلہ کے انتظام کی آخری کڑی بھی خلیفہ ہے۔ خلیفہ مجلس معتمدین مقرر کرتا ہے اور وہی مجلس شوریٰ مقرر کرتا ہے۔ دونوں مجلسیں اپنی اپنی جگہ خلیفہ کی نمائندہ ہیں‘‘

(رپورٹ مجلس مشاورت 1930ء، صفحہ 45)

ایک موقع پر ایک تحقیقاتی کمیشن نے رپورٹ میں نظارت علیا کو غیر ضروری قرار دیا جس پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ ارشاد فرمایا:

’’دنیا کی کوئی کانسٹی ٹیوشن ایسی نہیں جس میں کسی ممبر کو سینئر ممبر قرار نہ دیا جائے۔ کہیں اس کا نام وزیر اعظم رکھ لیا جاتا ہے اور کہیں کچھ اَور۔ میں نے خصوصیت سے کئی ممالک کی کانسٹی ٹیوشنز کا مطالعہ کیا ہے… پس یہ حصہ اصول کے خلاف ہے۔ میرے پاس ہر روز ایسے کاغذات آتے ہیں جن پر غور کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ میں کسی ناظر کے پاس نہیں بھیج سکتا ۔ آخر مجھے یہی لکھنا پڑتا ہے کہ ناظر اعلیٰ کے پاس جائیں…ناظر اعلیٰ کا یہ بھی کام ہوتا ہے کہ اگر کوئی ناظر غلطی کرتا ہے تو ناظر اعلیٰ کو اس کے متعلق رپورٹ کرنے کے لئے مقرر کیا جاتا ہے۔ یہ کام بہر حال کسی سینئر ممبر ہی کے سپرد کرنا پڑے گا۔ ‘‘

(رپورٹ مجلس مشاورت 1930ء صفحہ20-19)

تمام شعبہ جات کی انتہائی گہرائی میں جا کرآپ رہنمائی فرمایا کرتے ۔ آپ کے تمام ارشادات جو جماعت کی درخشندہ تاریخ اور ایک لازوال اثاثہ ہیں ہمیشہ کے لئے کارکنان کے لئے رہنما اصولوں کےخزانہ کے طور پر محفوظ ہیں۔ ایک موقع پر نظارت تالیف و تصنیف کے متعلق فرمایا:

’’تصانیف ہمیشہ کسی اصول کے ماتحت ہونی چاہئیں۔ ہر سال ایک میٹنگ بلائی جائے جس میں اس امر پر غور ہو کہ زمانہ کا دماغ کدھر جارہا ہے۔ اور لوگوں کے خیالات کی رو کس طرف ہے ۔ پھر اس کے مطابق کام ہونا چاہئے۔ ‘‘

(رپورٹ مجلس مشاورت 1952ء صفحہ نمبر 32)

اسی طرح ایک موقع پر نظارت امور عامہ کے کاموں کے متعلق فرمایا:

’’امور عامہ ۔ قضاء اور احتساب کا صیغہ ضروری ہے جو ہر جگہ ہونا چاہئے کیونکہ یہاں کے صیغہ والے کس طرح معلوم کرسکتے ہیں کہ لاہور میں سارے احمدی نماز باقاعدہ پڑھتے ہیں یا نہیں…اس لئے ضروری ہے کہ ان دفاتر کی شاخیں ہر جگہ ہوں اور ان کے ذریعہ کام کیا جاوے …مثلاً امور عامہ کا کام ہے کہ سرکاری افسروں کو جماعت کے معاملات سے واقف کریں۔ اگر ہر جگہ ایسے آدمی ہوں جن کو مقرر کیا جاوے تو جماعت کی بہت سی مشکلات دور ہوسکتی ہیں… اسی طرح شادی بیاہ کے لئے لوگ کہتے ہیں کہ کوئی رشتہ نہیں ملتا۔ اگر وہاں بھی ایسا انتظام ہو جیسا کہ یہاں ہے تو جو لوگ اپنی قوم کے خیال سے رشتہ نہیں کرتے یا بڑے چھوٹے کو دیکھتے ہیں انہیں سمجھا سمجھا کر آپس میں رشتہ کرادیں تو یہاں اتنا کام نہ بڑھے ۔ اسی طرح لڑائی جھگڑے ہیں ان کا خیال رکھنا ہے۔ لین دین ہے۔ ‘‘

(رپورٹ مجلس مشاورت 1922ء صفحہ 27)

نظارت زراعت کے متعلق فرمایا:

’’ میں نے احمدی زمینداروں کو توجہ دلائی تھی کہ وہ بیدار ہوں اور زیادہ سے زیادہ پیداوار بڑھانے کی کوشش کریں۔ اس سلسلہ میں صدر انجمن احمدیہ کو چاہئے کہ وہ ایک نظارت زراعت قائم کرے جس کے افسر تمام زرعی علاقوں کا دورہ کر کے زمینداروں کی مناسب رہنمائی کریں کہ کس کس علاقے میں کس کس چیز کی فصل ہونی چاہئے۔‘‘ (رپورٹ مجلس مشاورت 1956ء صفحہ 68)

نظارت ضیافت کی اہمیت کے بارہ میں فرمایا:

’’یہ وہ کام ہے جسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خود کرتے رہے اور آپؑ نے اسے سلسلہ کا بہت اہم کام قرار دیا…ہرطبقہ کے اور ہر قسم کے لوگ یہاں آتے ہیں۔ ان سے ملاقات اور ان کے لئے ضروری انتظام کوئی معمولی شخص نہیں کرسکتا۔ اور جو شخص یہاں جماعت کے مہمان کی حیثیت سے آتا ہے اسے ریسیو کرنے والا ناظرہی ہونا چاہئے… میری غیرت برداشت نہیں کرسکتی کہ اس صیغہ کو نظارت کے درجہ پر نہ رکھوں۔ ‘‘

(رپورٹ مجلس مشاورت 1930ء صفحہ 17-18)

غرض کوئی بھی شعبہ ایسا نہیں تھا جس کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جماعت احمدیہ کے عظیم مقاصد کو مدنظر رکھے بغیر جاری فرمایا ہو اور نہ ہی کوئی شعبہ ایسا تھا جس کے متعلق آپ نے انتہائی پر حکمت نصائح نہ فرمائی ہوں اور نہ ہی کوئی شعبہ ایساتھا جس کووقتاً فوقتاً آپ اس کے کاموں کی طرف توجہ نہ دلاتے رہے ہوں ۔ ہر لحاظ سے تمام شعبہ جات کو بہتری کی طرف قدم بڑھانے کا ارشاد فرمایا کرتے تھے۔پس صد ر انجمن احمدیہ کی جو شکل آج ہے اور جس طرح یہ انجمن خلافت کے زیر سایہ اور زیر اطاعت جماعت احمدیہ کی ذمہ داریوں میں ہاتھ بٹا رہی ہے، اس میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدا داد انتظامی صلاحیتوں اور بے پناہ دعاؤں کا بہت بڑا کردار ہے ۔

صدر انجمن احمدیہ کے تمام فیصلہ جات دیگر جماعتی تنظیموں کی طرح محض سفارش کا رنگ رکھتےہیں اور ہر ایک معاملہ حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں آخری منظوری کے لئے پیش کیا جاتا ہے ۔حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ کا عام دستور یہی تھا کہ صدر انجمن احمدیہ کی اکثر سفارشات حضور منظور فرما لیا کرتےلیکن ہر سفارش کا بڑی باریک نظر سے مطالعہ فرماتے اور جس سفارش کو نا مناسب سمجھتے اسے رد کرتے ہوئے انجمن کی رہنمائی فرمایا کرتے کہ ان کی سفارش کیوں غلط تھی۔حضور کے یہ تمام ارشادات صدر انجمن احمدیہ کا ریکارڈ بن جاتے تا مستقبل میں بھی اسی رہنمائی کی روشنی میں کام کیا جاسکے۔ اسی طرح مختلف مواقع پر حسب ضرورت قواعد میں بھی ترامیم فرمایا کرتے۔ کارکنان کے حقوق کی بھی حضور کو بہت فکر ہوا کرتی تھی۔ نظارتوں کے نظام کے بعد حضور کا طریق یہ تھا کہ روز مرہ کے انتظامی امور میں ناظران کو بلوا کر براہ راست ہدایات فرماتےاور ان کے کام کی خود نگرانی فرمایا کرتے۔ لیکن بعض دفعہ جماعتی تربیت کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے خطابات میں بھی نظارتوں کی رہنمائی فرماتے۔ اس سے ایک فائدہ تو یہ ہوتا کہ احباب جماعت بھی سلسلہ کے انتظامی طریق کار سے واقف ہوجاتے اور دوسرا فائدہ یہ ہوتا کہ آئندہ کے لئے سلسلہ کو تربیت یافتہ کارکنان مہیا ہونے میں مدد مل جاتی۔ ناظران کی رہنمائی کے ساتھ ساتھ حضور یہ بھی ضروری سمجھتے تھے کہ احباب جماعت میں ناظران کا احترام قائم کیا جائے۔ چنانچہ ایک موقع پر آپ نے فرمایا:

’’ جو قوم اپنا وقار قائم رکھنا چاہتی ہے اس کے لئے ضروری ہے کہ اپنےمعززین کا احترام کرے ۔ میں یہ اجازت نہیں دوں گا کہ ایک ناظر محصل کی طرح جائے بلکہ اس کا واجب احترام کرنا ضروری ہوگا کیونکہ وہ خلیفہ کا نائب ہوتا ہے۔ ضروری ہوگا کہ جس صیغہ کا ناظر کہیں جائے وہاں کی جماعت میں اس صیغہ کا جو انچارج ہو وہ اسے ریسیو کرے۔ پہلے سے جلسہ کا انتظام کردیا گیا ہو اور جماعت کو ایک جگہ جمع کرنے کا انتظام ہو چکا ہو۔‘‘

(رپورٹ مجلس مشاورت 1930ء صفحہ 15)

احباب جماعت میں سلسلہ کے کارکنان کی اطاعت کی روح پیدا کرنے کے لئے آپؓ فرماتے ہیں:
’’کامل اطاعت اور فرمانبرداری نہایت ضروری ہے اور یہ صرف خلیفہ سے ہی مخصوص نہیں ۔ بعض لوگ اس وہم میں مبتلا ہوتے ہیں کہ بس خلیفہ کی بات ماننا ہی ضروری ہے اور کسی کی ضروری نہیں ۔ خلیفہ کی طرف سے مقرر کردہ لوگوں کا حکم بھی اسی طرح ماننا ضروری ہوتا ہے جس طرح خلیفہ کا ۔ کیونکہ خلیفہ تو براہ راست ہر ایک شخص تک اپنی آواز نہیں پہنچا سکتا۔‘‘

(الفضل 22 دسمبر 1937ءصفحہ 6)

لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ کو اس بات کا بھی بہت احساس تھا اور جس کو آپ ناظران میں پیدا کرنا چاہتے تھے کہ جو مہمان آئیں ان سے عزت سے پیش آیا جائے۔ پس ایک موقع پر آپؓ فرماتے ہیں:

’’ناظروں کا فرض ہے کہ جو لوگ ان سے ملنے آئیں ان سے عزت اور احترام سے پیش آئیں۔ میں خود بھی کوئی کونے میں بیٹھنے والا شخص نہیں ہوں ۔ ہر روز دس پانچ بلکہ بیس تیس اشخاص مجھ سے ملنے آتے ہیں جن میں غریب سے غریب بلکہ سائل بھی ہوتے ہیں لیکن جیسا اعزاز بڑے سے بڑے آدمی کا کرتا ہوں ویسا ہی چھوٹے کا بھی کرتا ہوں۔ ‘‘

(الفضل 27 اپریل 1938ء صفحہ 3)

حضور کی یہ عادت تھی کہ جو دوست بھی آتا اس کو ہمیشہ کھڑے ہوکر ملتے اور جب تک کہ وہ بیٹھ نہ جاتا آپ خود تشریف نہ رکھتے ۔ آپؓ اس عادت کے بارہ میں فرماتے ہیں:

’’یہ میرا اصول ہے اور میں سمجھتا ہوں ناظروں کو بھی ایسا کرنا چاہئے اور اگر اس کے خلاف کبھی شکایت آئے تو میں چاہتا ہوں کہ جس کے خلاف شکایت ہو اسے تنبیہ کی جائے ۔ جب تک یہ بات نہ ہو اسلام کی روح قائم نہیں ہوسکتی ۔ ‘‘

(الفضل 27 اپریل 1938ءصفحہ 3)

دراصل حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ شدید خواہش تھی کہ صدر انجمن احمدیہ ایک ایسا ادارہ بن جائے جو خلافت کےزیر سایہ وہ تمام کام سر انجام دینے میں معاون و مددگار ثابت ہو جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مشن کو کامیاب کرنے کے لئے خلیفۃ المسیح ضروری سمجھتےہیں۔ اسی طرح آپ کی یہ بھی خواہش تھی کہ احباب جماعت اور صدر انجمن احمدیہ کے تعلق کو محبت، عزت اور احترام کے جذبہ میں پرودیا جائے اور ایسا توازن قائم کیا جائےکہ جس میں صدر انجمن احمدیہ کے کارکنان، جو سلسلہ کے لئے وقف ہیں، کے وقار کو بھی قائم رکھا جا سکے اور احباب جماعت کے احساسات کا بھی مکمل خیال رکھا جائے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے آپ نے صدر انجمن احمدیہ کے نظام کو ایک نئی شکل دے کر اورہر موقع پر اس نظام اور احباب جماعت کی رہنمائی فرما کر اس توازن کو قائم فرمایا۔ آپؓ اس بارہ میں فرماتے ہیں:

’’میں نے ہمیشہ اس کا خیال رکھا ہے اور کوشش کی ہے کہ اگرایک طرف ناظروں کا احترام اور اعزاز جماعت کے دلوں میں پیدا کیا جائے تو دوسری طرف جماعت کی عظمت کو بھی قائم رکھا جائے۔ میں جانتا ہوں کہ اگر ایک حصہ کو چھوڑ دیا جائے تو باوجود نیک نیتی اور نیک ارادہ کے ایک حصہ دوسرے کو کھا جائے گا۔ اگر کارکنوں کے اعزاز اور احترام کا خیال نہ رکھا جائے تو نظام کا چلنا مشکل ہو جائے گا۔ اور اگر جماعت کے حقوق کی حفاظت نہ کی جائے اور اس کی عظمت کو تباہ ہونے دیا جائے تو ایک ایسا آئین بن جائے گا جس میں خودرائی اور خود ستاری غالب ہوگی۔ اس لئے مَیں ہمیشہ اس بات کو مد نظر رکھتا ہوں کہ جس کی غلطی ہو اُسے صفائی کے ساتھ کہہ دیا جائے۔ ‘‘

(الفضل 22 اپریل 1938 صفحہ 3-2)

قارئین کے لئے یہ بات دلچسپی کا باعث ہو گی کہ ہر ملک کی نیشنل عاملہ ’لوکل انجمن احمدیہ‘ کہلاتی ہے۔ یہ صورت تب معرض وجود میں آئی جب اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے عین موافق جماعت احمدیہ ہندوستان اور پھر پاکستان سے باہر مختلف ممالک میں پھیلنے لگی اور بین الاقوامی جماعتوں کے معاملات صدر انجمن احمدیہ کے طرز پر قائم کی جانے والی تحریکِ جدید انجمن احمدیہ کے سپرد کر دیے گئے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں ہمیشہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ارشادات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور صدر انجمن احمدیہ کو ہمیشہ حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خواہشات اور منشائے مبارک کے مطابق خدمت کرنے کی توفیق دیتا چلا جائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button