الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(مرتبہ : محمود احمد ملک)

جماعت احمدیہ کے لئے خدائی غیرت

ماہنامہ ’’النور‘‘ امریکہ اگست و ستمبر 2012ء میںمکرم منیر احمد کاہلوں صاحب کے قلم سے جماعت احمدیہ کیلئے خدائی غیرت کے اظہار کے حوالہ سے ایک واقعہ شائع ہوا ہے۔

1994ء میں مالوکے تتلے (ضلع نارووال) میں کوئی احمدیہ مسجد نہیں تھی۔ ایک کچے مکان کے کمرہ میں دو تین گاؤں سے احمدی آکر نماز جمعہ ادا کرلیتے کیونکہ گاؤں کی مشترکہ مسجد سے ایک پیر صاحب کے بھڑکانے پر ہمیں بے دخل کردیا گیا تھا۔ تب احمدیوں کو اپنی مسجد کی تعمیر کا خیال آیا تو ایک مخلص احمدی زمیندار نے دو کنال اراضی بلامعاوضہ پیش کردی۔ چنانچہ دوستوں نے باہمی تعاون سے اس جگہ مسجد تعمیر کرلی اور ایک جمعہ کی نماز پر اس کا افتتاح بھی کرلیا۔ مسجد کے اندر جھنڈیاں اور بینر وغیرہ لگائے گئے۔ ابھی تقریب کے بعد احمدی مسجد سے باہر بھی نہ نکلے تھے کہ دیوبندی مسجد کے امام کی رپورٹ پر پولیس کی دو گاڑیاں وہاں آئیں اور انسپکٹر نے احمدیوں سے پوچھا کہ کیا آپ نے جلسہ کیا ہے؟ امیر جماعت احمدیہ مکرم چودھری خورشید انور صاحب ایڈووکیٹ نے جواب دیا کہ ہم نے جمعہ کی نماز کے ساتھ مسجد کا افتتاح کیا ہے اور ساری تقریب مسجد کے اندر ہی کی ہے۔ تاہم انسپکٹر بضد ہوا کہ وہ احمدیوں کے خلاف پرچہ دے گا۔ چنانچہ اُس نے تیرہ احمدیوں کے خلاف پرچہ فوجداری دے دیا جن میں مضمون نگار بھی شامل تھے۔

مضمون نگار لکھتے ہیں کہ اگلے روز مَیں نے سیشن جج سے ضمانت کروائی اور تھانہ جاکر انسپکٹر کو ضمانت نامہ دکھاکر کہا کہ مجھے شاملِ تفتیش کرلے۔ وہ حقارت آمیز لہجہ میں بولا کہ جرم کا ارتکاب کرکے اب ضمانت نامہ لے آئے ہو! مَیں نے کہا کہ بحث کی بجائے آپ مجھے شاملِ تفتیش کرلیں۔ وہ بولاکہ ضمانت کراکر باتیں کرتے ہو، اگر ضمانت نہ کروائی ہوتی تو پھر تمہیں دیکھتا۔ وغیرہ

اس واقعہ میں احمدیت کی مخالفت جن دو افراد (دیوبندی امام مسجد اور انسپکٹر)نے کی تھی، خدا تعالیٰ نے بہت جلد اُن کو بدانجام تک پہنچادیا۔ مولوی صاحب کے بیٹے نے شیعہ فرقہ کے خلاف نہایت اشتعال انگیز تقریر کی تو ایک خفیہ ایجنسی والے اُسے پکڑ کر لے گئے اور سات آٹھ ماہ تک اُس کی کوئی خبر نہ ملی۔ مولوی صاحب اس غم سے جانبر نہ ہوسکے اور چند ماہ بعد موت کے منہ میں چلے گئے۔ اسی طرح تھانہ کی حدود میں چند اشتہاری ملزم ایک عمارت کی بالائی منزل میں روپوش ہوئے۔ مذکورہ انسپکٹر اطلاع ملنے پر پولیس کی بھاری جمعیت لے کر وہاں پہنچا۔ دونوں طرف فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا۔ دو دن گزرنے کے بعد اشتہاری ملزموں نے کہا کہ ہم ایک شرط پر گرفتاری دیں گے اگر انسپکٹر خود آکر ہمیں گرفتار کرے۔ انسپکٹر بہت خوش تھا کہ اُسے تین چار ملزموں کو گرفتار کرنے کا موقع مل رہا تھا۔ جب انسپکٹر عمارت کے قریب پہنچا تو ملزموں نے فائرنگ کرکے اُسے ایک کانسٹیبل سمیت ہلاک کردیا۔ باقی تمام اہلکار محفوظ رہے۔

محترم سیّد شریف احمد شاہ صاحب

انگریزی ماہنامہ ’’احمدیہ گزٹ‘‘ امریکہ جولائی 2012ء میں مکرمہ سیّدہ عزیزہ خان صاحبہ کے قلم سے اُن کے والد محترم سیّد شریف احمد شاہ صاحب کا ذکرخیر شائع ہوا ہے۔

محترم سیّد شریف احمد شاہ صاحب 5؍ستمبر 1928ء کو ضلع جہلم کے گاؤں پنڈوری میں مکرم سیّد رسول شاہ صاحب کے ہاں پیدا ہوئے جو ایک سکول ٹیچر تھے۔ آپ کو ابتدائی تعلیم کے بعد قادیان بھجوادیا گیا جہاں آپ چند سال تک مولوی فاضل کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے زیر تعلیم رہے۔ تاہم ڈگری حاصل کرنے سے کچھ دیر پہلے اپنی دلچسپی کی بنیاد پر رسول انجینئرنگ کالج میں داخل ہوگئے اور شاندار کامیابی حاصل کی۔ بعدازاں کچھ عرصہ ناظم آباد کالونی کراچی کی آبادکاری میں ملازم رہے۔ اسی دوران نظام جماعت کے تحت ربوہ کے شہر کو بسانے میں اعزازی خدمت کی توفیق پائی۔ نیز پاکستان کے دوسرے بڑے ڈیم منگلا کو بنانے والی انجینئرنگ ٹیم کا بھی حصہ رہے۔

1955ء میں امریکہ کی یونیورسٹی آف میری لینڈ میں سول انجینئرنگ میں اعلیٰ تعلیم کے لئے آپ کو داخلہ مل گیا۔ ڈگری حاصل کرلینے کے بعد آپ نے ورجینیا کے پولی ٹیکنیک انسٹیٹیوٹ سے سول انجینئرنگ میں ماسٹرز بھی کیا اور پھر امریکہ میں ہی رہائش اختیار کرلی۔ پھر آپ نے اپنے بڑے بھائی کو بھی امریکہ بلالیا اور انہوں نے بھی انجینئرنگ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔

محترم شاہ صاحب دیانتدارانہ رہنمائی اور مدد کا ایسا ذریعہ تھے کہ بے شمار لوگ اپنی متفرق مشکلات کے دوران آپ سے مشورہ اور دعا لینے آیا کرتے۔ چنانچہ کبھی ٹوٹتے ہوئے گھرانے بخوشی بسنے لگتے اور کبھی کوئی صدق دل سے اقرار کرتا کہ آپ کی دعا اور مشورہ سے اُس کی جمود میں مبتلا زندگی کے سفر میں نئی راہیں جنم لے رہی ہیں۔ تاہم آپ کی گفتگو کا اختتام ہمیشہ اسلام احمدیت کی دعوت پر ختم ہوتا۔ حتیٰ کہ جب آپ دل کے حملہ اور گردوں کے فیل ہونے کے امراض میں مبتلا ہونے پر ہسپتال میں داخل تھے اور بہت کمزوری محسوس کررہے تھے تو بھی ہسپتال کے عملہ کے ایک فرد کو کافی دیر تبلیغ کرتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ کی وفات کے بعد اُس نے مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے خود آپ کی فیملی سے رابطہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ خود اسلام احمدیت کی تعلیم پر صدق دل سے عمل کرنے والے اور ایک چلتے پھرتے مبلغ تھے۔ دینی علم آپ کو قادیان میں زیرتعلیم رہنے سے حاصل ہوا تھا اور عملی طور پر آپ کا نمونہ بطور مسلمان بہت عمدہ تھا۔

خدمت خلق کے میدان میں بھی آپ کو کئی غیرمعمولی خدمات کی توفیق ملی۔ قیامِ پاکستان کے بعد ہونے والی نقل مکانی کے دوران آپ کو گاؤں کا ایک خوفزدہ سکھ بچہ ملا جس کے والدین بھارت جاچکے تھے اور وہ اُن سے بچھڑ گیا تھا۔ آپ اُسے اپنے گھر لائے۔ تسلّی دی۔ پھر حفاظت کے خیال سے اُس کی پگڑی اُتار کر اُسے اپنی بہن کے کپڑے پہنادئے اور لڑکی کے حلیہ میں اُسے اپنی سائیکل پر بٹھاکر لمبا سفر طے کرکے بارڈر تک چھوڑ کر آئے۔ اسی طرح امریکہ میں ایک رات ڈرائیونگ کے دوران اچانک آپ کی نظر ایک اُلٹ جانے والی کار پر پڑی جس میں سے دھواں اُٹھ رہا تھا۔ آپ نے اپنی پروا کئے بغیر کار میں پھنسی ہوئی خاتون کو کھینچ کر باہر نکالاہی تھا کہ اُس کار میں آگ بھڑک اُٹھی۔

محترم شاہ صاحب کے سسرال پاکستان میں گاؤں منڈیر سے تعلق رکھتے تھے لیکن یہ اپنے علاقہ میں اکیلا احمدی گھرانہ تھا اور دُور دُور تک کوئی احمدی نہ تھا جن سے رابطہ ہوسکتا۔ آپ نے اُن کی مدد کرتے ہوئے اُنہیں امریکہ میں بلالیا اور آپ کی وجہ سے ہی وہ جہاں معاشی طور پر مستحکم ہوئے وہاں احمدیت اور خلافت کے ساتھ بھی اُن کا ایک مضبوط تعلق قائم ہوگیا۔ اسی طرح اپنے بھائی کے مشورہ سے آپ نے اپنی خاندانی زرعی زمین اپنے غریب رشتہ داروں میں تقسیم کردی۔ بعد میں اس زمین کو سیراب کرنے کے لئے وہاں ایک ٹیوب ویل بھی نصب کروادیا۔

حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کی دعوت پر محترم شاہ صاحب مسجد بشارت سپین کی افتتاحی تقریب میں شامل ہوئے۔ آپ نے اپنے بچوں کی دینی و دنیاوی تعلیم کا بہت خیال رکھا اور اسلام کو ہمیشہ عملی طور پر ایک آسان مذہب کے طور پر متعارف کروایا۔ گھر میں فجر، مغرب و عشاء کی نمازوں کا باجماعت اہتمام کرتے۔ چونکہ دُور دُور تک کوئی باقاعدہ جماعت قائم نہیں تھی اس لئے دین سکھانے سے لے کر اردو سکھانے تک ساری تعلیم و تربیت گھر پر ہوتی۔

جب حضرت خلیفۃالمسیح الثالثؒ نے امریکہ کا دورہ فرمایا تو ملاقات کے دوران محترم شاہ صاحب کو شمالی کیلیفورنیا جانے اور جماعت تشکیل دینے کا ارشاد فرمایا۔ چنانچہ آپ نے وہاں فوری طور پر ملازمت تلاش کی اور جلد ہی فیملی سمیت منتقل ہوگئے۔ آپ نے دُوردُور بسے ہوئے احمدیوں کی تلاش میں بہت محنت کی اور ہزاروں میل کا سفر اپنی کار کے ذریعہ طے کرکے دو سال میں قریباً ستّر احمدیوں کو نظام سے منسلک کیا۔ اسی تلاش کے دوران معلوم ہوا کہ بہت سے احمدی کہلانے والے لاہوری گروپ سے تعلق رکھتے ہیں۔ رابطہ بڑھا تو اُن میں سے بعض مستقل طور پر خلافت کے ساتھ وابستہ ہوگئے اور اس طرح ایک مضبوط جماعت وجود میں آگئی۔ جمعہ کی ادائیگی آپ کے گھر پر ہونے لگی اور آپ کی اہلیہ محترمہ وہاں کی پہلی صدر لجنہ مقرر ہوئیں۔ ماہوار اجلاسات اور دیگر مواقع پر آپ اپنی جیب سے کھانا تیار کرواتے جو آپ کی اہلیہ بخوشی تیار کرتیں۔ یہ سلسلہ کئی سال جاری رہا تاآنکہ محترم شاہ صاحب اپنے بچوں کے پاس دیگر مقامات پر منتقل ہوگئے۔

محترم سیّد شریف احمد شاہ صاحب نے 31؍جنوری 2012ء کو امریکہ میں وفات پائی۔

٭…٭…٭

مکرم خوا جہ ظہور احمد صاحب شہید

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ8؍اکتوبر 2012ء میں مکرم خواجہ ظہور احمد صاحب آف سیٹلائٹ ٹاؤن سرگودھا کی شہادت کی خبر شائع ہوئی ہے جن پر نامعلوم موٹرسائیکل سواروں نے 4؍اکتوبر 2012ء کو اُس وقت فائرنگ کردی جب آپ کسی کام سے سائیکل پر گھر سے نکلے ہی تھے۔ فائر آپ کے دائیں کان کے نیچے گردن پر لگا اور حملہ آور فرار ہوگئے۔ کسی راہ گیر نے دیکھا تو ریسکیو والوں کو فون کیا۔ آپ کو شدید زخمی حالت میں ہسپتال لے جایا جا رہا تھا کہ راستے میں ہی وفات ہو گئی۔ حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 5؍اکتوبر 2012ء کے خطبہ جمعہ میں شہید مرحوم کا ذکر فرمایا اور بعدازاں نماز جنازہ غائب پڑھائی۔
شہید مرحوم کا تعلق کوٹ مومن ضلع سرگودھا سے تھا۔ آپ کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ آپ کے پڑدادا مکرم حاجی امیر الدین صاحب کے ذریعہ ہوا۔ قیام پاکستان سے قبل آپ کا خاندان قادیان رہائش پذیر ہوگیا تھا تاہم قیام پاکستان کے بعد یہ خاندان دوبارہ کوٹ مومن واپس آگیا۔ پھر مرحوم کے والد مکرم خواجہ منظور احمد صاحب تقریباً 45 سال قبل سرگودھا شہر منتقل ہو گئے تھے اور یہ خاندان اُس وقت سے یہیں رہائش پذیر ہے۔ آپ کا خاندان تجارت سے منسلک رہا جس کو شہید مرحوم نے جاری رکھا۔ آپ کی کریانہ کی دکان تھی۔ مرحوم کومذہبی مخالفت کا سامنا تھا۔ اپریل 2012ء میں مخالف دکانداران نے ان کے مالک دکان سے مل کر ان کی دکان خالی کروانے کی کوشش کی لیکن مالک نے انکار کر دیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی دکا نداران کی طرف سے ان کو مختلف طریقوں سے بہت تنگ کیا جاتا تھا۔ ان کی دوکان کے تالے میں کبھی ایلفی ڈال دیتے تھے یا سیل کر دیتے، جلوس نکالتے اور توڑپھوڑ ہوتی تھی۔ بہرحال جو کوششیں تنگ کرنے کی ہوتی تھیں، کرتے رہے لیکن یہ بھی استقامت سے ڈٹے رہے اور اپنے کاروبار کو جاری رکھا۔ سادگی ان میں بے تحاشا تھی۔ مالی کشائش کے باوجود چھوٹے موٹے کام کرنے ہوں تو سائیکل کا استعمال کیا کرتے تھے۔ کسی بھی جماعتی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے اور بڑے نیک نفس انسان تھے۔ آپ نے پسماندگان میں اہلیہ کے علاوہ دو بیٹے اور تین بیٹیاں یادگار چھوڑی ہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button