خطاب حضور انور

لجنہ اماء اللہ یوکے کے سالانہ اجتماع کے موقع پر امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے اختتامی خطاب کا اردو ترجمہ

(امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بںصرہ العزیز)

فرمودہ30؍ستمبر 2018ء بروز اتوار بمقام کنگزلے، کنٹری مارکیٹ (Country Market، Kingsley) یوکے

(اس خطاب کا اردو ترجمہ ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

احمدی مسلمان خواتین کا جذبۂ ایمانی

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔

الحمدللہ ، اللہ تعالیٰ نے لجنہ اماء اللہ یوکے کو ایک مرتبہ پھر اپنا نیشنل اجتماع منعقد کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔

اجتماع کا بنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ آپ کومل بیٹھنے کا موقع میسر آئے تا کہ لجنہ اماء اللہ میں باہم اتفاق اور اتحاد کا جذبہ پروان چڑھے، یہاں ایسے مختلف پروگرامز کروائے جائیں جو آپ سب کی روحانی اور اخلاقی ترقی کے ساتھ ساتھ مقابلوں میں حصہ لینے والیوں کے دینی علم میں اضافہ کا بھی موجب ہوں۔

اس کے علاوہ اجتماع پر مختلف نوعیت کے پروگرامز مثلًا کھیلوں وغیرہ کا بھی انعقاد کیا جاتا ہے تاکہ ہر عمر کی لجنہ ممبرات اپنی دلچسپی کے مطابق اجتماع میں شامل ہوں اور کسی نہ کسی طرح اجتماع کے روحانی ماحول سے مستفید ہوں۔

اسی طرح ناصرات کے لئے بھی مختلف نمائشیں، مقابلے اور پروگرامز رکھے جاتے ہیں تا کہ ہماری کم عمر بچیاں بھی اجتماع کے دینی ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہوئے نیکی اور اخلاقیات کی اہمیت کو سمجھ سکیں اوراپنا دینی علم بڑھا سکیں۔ ایسے پروگرام چھوٹی عمر سے ہی جماعت سے محبت اور وابستگی کی روح پیدا کرنے کے لئے فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔

اس طرح لجنہ کا یہ اجتماع ہماری احمدی خواتین اور لڑکیوں کی تربیت کا ایک بہترین موقع فراہم کرتا ہے۔ مجھے امید ہے اور میری یہ دعا ہے کہ اللہ کرے کہ یہ اجتماع سب کے لئے مفید ثابت ہو۔

بہر حال آج میں آپ کو جس چیز کی اہمیت کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ ہے اپنے مذہب اور عقیدہ پر ثابت قدم رہنا اور اس کی راہ میں ہر قربانی دینے کے لئے تیار رہنا۔ یقیناً کسی بھی سچی مذہبی جماعت کے لئے ضروری ہے کہ اس کے ماننے والے ہمیشہ اپنے دین اور قوم و ملّت کو ہر چیز پر ترجیح دیں اور اس کی خاطر ہر طرح کی قربانی کے لئے ہمیشہ تیار رہیں۔ جب تک ہم مسلسل اپنے ایمان میں پختگی پیدا کرنے اور دینی تعلیمات پر عمل کرنے کی کوشش نہ کریں گے محض زبانی اقرار کی کوئی اہمیت نہیں۔

ہم احمدی مسلمانوں کے لئے تو اپنی زندگیاں دینی تعلیم کے مطابق ڈھالنا اَور بھی زیادہ ضروری ہے، ہمیں اپنے دینی تقاضوں کا ہمیشہ خیال رہنا چاہیے کیونکہ ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے اُس وجود کو مانا ہے، جنہیں اللہ تعالیٰ نے اس زمانے کا امام بنا کرمبعوث فرمایا ہے، جو حضرت محمد ﷺ کے غلامِ صادق ہیں اور جن کی بعثت کا مقصد اسلام کی اصل تعلیمات کی تجدید ہے۔

یقیناً ہم نے اس شخص کے ساتھ عہد بیعت باندھا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے دو عظیم الشان مقاصد کے لئے مبعوث فرمایا : پہلا یہ کہ بنی نوع انسان کو اس کے خالق یعنی اللہ تعالیٰ کے قریب لا کر ان کے درمیان ایک روحانی تعلق قائم کرنا اوردوسرا مقصد جس کے لئے آپ مبعوث ہوئے یہ تھا کہ تمام انسانوں کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے اور انسانی اقدار کو قائم رکھنے کی تلقین کی جائے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح ثابت ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دنیا کو اسلام کی سچی تعلیمات کے بے مثال نور سے منور فرمایا اور اللہ تعالیٰ کے اذن سے ایسے لوگوں کی جماعت تیار کی جن کا واحد مقصد اِن شاندار تعلیمات پر عمل کرنا ہے۔

ہم چونکہ آپؑ پر ایمان لائے ہیں اس لئے ہمیں اس بات کاہمیشہ خیال رکھنا چاہیے کہ اب یہ ہماری اولین ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی زندگیاں اسلامی طریق کے مطابق بسر کریں اور ہمیشہ اس بات کے لئے تیار رہیں کہ ہم دین کی خاطر ہر اس قربانی کے لئے تیار رہیں گےجس کا ہم سے تقاضا کیا جائے گا۔ یہ بات کہہ دینا بہت آسان ہے کہ ہم دین کے لئے ہر قربانی کے لئے تیار ہیں، لیکن حقیقت میں جب تک کوئی دین کو اپنے تمام دنیاوی کاموں پر ترجیح نہیں دیتا، دین کو دنیا پر مقدّم نہیں کرتا تب تک وہ حقیقی قربانی کے لئے تیار نہیں ہو سکتا۔

لجنہ کے عہد میں احمدی خواتین اس بات کا اقرار کرتی ہیں کہ وہ اپنے دین، ملک اور قوم کی خاطر ہر قسم کی قربانی کے لئے تیار رہیں گی اور ناصرات یہ عہد کرتی ہیں کہ وہ اپنے دین، ملک اور قوم کی خدمت کریں گی۔ پس آپ سب کو ان الفاظ پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور اپنی زندگیوں میں ہر سطح پر ان پر عمل کرتے ہوئے زندگی کے ہرمرحلہ اور ہر موڑ پر ان پر قائم رہنا چاہیے ۔

ان خواتین اور بچیوں کی طرح بنیں جو اپنے اخلاص اور اپنی قوم اور مذہب کے لئے ہمہ وقت اپنا سب کچھ قربان کرنے کے جذبہ سے دنیا کو منور کرتی ہیں۔ ایسی پاکیزہ اور بے مثال قربانی کےمعیار تب ہی حاصل ہو سکتے ہیں جب آپ اللہ تعالیٰ کے احکامات پرہر لحاظ سےعمل کرنے والی ہوں۔

اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ فرمایا:

’’ کوئی پاک نہیں بن سکتا جب تک خدا تعالیٰ نہ بناوے۔‘‘

فطری طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں کیسے پاک کر سکتا ہے؟ اسی سوال کا جواب دیتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ

’’جب خداتعالیٰ کے دروازہ پر تذلّل اور عجز سے اس کی رُوح گرے گی تو خدا تعالیٰ اس کی دعا قبول کرے گا اور وہ متقی بنے گا اور اس وقت وہ اس قابل ہو سکے گا کہ آنحضرت ﷺ کے دین کو سمجھ سکے۔ اس کے بغیر جو کچھ وہ دین دین کر کے پکارتا ہے اور عبادت وغیرہ کرتا ہے۔ وہ ایک رسمی بات اور خیالات ہیں کہ آبائی تقلید سے سُن سُنا کر بجا لاتا ہے۔ کوئی حقیقت اور رُوحانیت اس کے اندر نہیں ہوتی۔‘‘ (ملفوظات جلد 6 صفحہ 28 ایڈیشن 1985ء)

آپ میں قربانی کی روح تب پیدا ہو گی جب اللہ تعالیٰ سے ذاتی تعلق کے نتیجہ میں آپ میں روحانیت جنم لے گی اور اس کے لئے آپ کو انتہائی عاجزی اور انکساری کے ساتھ اسی کے سامنے جھکنا ہو گا۔

اپنے ایمان کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار رہنے کا جذبہ صرف اسی صورت میں پیدا ہو سکتا ہے اگر آپ اپنے اخلاق میں بہتر ی پیدا کرنے اور نیکیوں میں قدم آگے بڑھانے کی مسلسل کوشش کر رہی ہوں۔ ایک بندہ کا شمار تب ہی ایسے لوگوں میں ہو سکتا ہے جو حقیقتاً اپنے دین کو تمام دنیاوی امور پر مقدم رکھتے ہیں۔ اس بات کی روشنی میں ہر احمدی مسلمان کو اپنا محاسبہ کرنا چاہئے کہ کیا اس کا سفر خدا تعالیٰ کی طرف ہے اور وہ خدا تعالیٰ سے تعلق میں ترقی کر رہا ہے؟

بلا شبہ محض اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل اور رحم سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی جماعت کوبے شمار مخلص خواتین عطا فرمائی ہیں اورعطا فرماتا چلا جا رہا ہے جنہوں نے مشکلات اور مصائب کے باوجود اپنے ایمان کے تقاضوں کو سمجھا اور ان پر عمل کر کے دکھایا۔ ایسی خواتین نے نیکی،تقویٰ اور پرہیزگاری میں بہت ترقی کی ہے۔ اور انہیں اپنے ایمان کی خاطر بڑی بڑی قربانیاں دے کر اسلام کے آغاز میں ایمان لانے والی ان عظیم الشان خواتین کے سنہرے نقش قدم پرچلنے کی توفیق ملی ہے جنہوں نے اپنے ایمان کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا۔ چونکہ لوگوں کے لئے عام طور پر روزمرہ مثالوں سے سمجھنا زیادہ آسان ہوتا ہے اس لئے اب میں ان احمدی خواتین کے کچھ واقعات کا ذکر کروں گا جنہوں نے گزشتہ چند سالوں میں احمدیت کی خاطر بے مثال قربانیاں دیں۔ یہ واقعات اس بات کی واضح دلیل ہیں کہ ہماری جماعت میں سچی قربانی کی روح زندہ ہے۔

پہلی خاتون جن کا میں ذکر کروں گاوہ کینیڈا سے تعلق رکھنے والی انجم صاحبہ ہیں۔ جنہوں نے خوب تحقیق کے بعد احمدیت قبول کی۔ وہ اس نتیجہ پر پہنچیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام ہی اس دَور میں آنحضرتﷺ کے حقیقی نمائندہ ہیں۔ انہوں نے اس حقیقت کو جان لیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو کچھ بھی سکھایا وہی اسلام کی اصل تعلیم کا آئینہ دار ہے۔ نیز یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بابرکت جماعت میں شامل ہونا اور پھر اس راہ میں ہر قربانی کے لئے تیار رہنا ضروری ہے۔

اس کے بعد ان کو واقعۃً اپنے ایمان کے لئے بڑی قربانیاں دینی پڑیں۔ 1994ء میں جب انہوں نے بیعت کی توان کا شوہر مشتعل ہوگیا اور پورا زور لگایا کہ یہ احمدیت پر ایمان کو ترک کر دیں۔ اس نے انہیں زبردستی جمعہ کی نماز پڑھنے یاکسی بھی جماعتی پروگرام میں شرکت کرنے سے روک دیا۔ وہ کچھ غیر احمدی مولویوں کو گھر لے آیا جنہوں نے اس خاتون کو احمدیت چھوڑنے کے لئے مجبور کیا، لیکن ان کی تمام کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔ باوجود انتہائی دباؤ، ظلم و ستم اور ہراساں کیے جانے کے وہ اپنے ایمان پر مضبوطی سے قائم رہیں اور ثابت قدمی کا ایک مثالی نمونہ قائم کیا۔

نتیجۃً ان کے شوہر نے انہیں تین بچوں سمیت گھر سے نکال دیا اور وہ سڑک پر آگئیں۔ انجم صاحبہ کے پاس کوئی ٹھکانہ نہیں تھا اس لئے وہ اپنے بچوں کے ساتھ کچھ دن ایک ہوٹل میں قیام پذیر رہیں۔ اس پر ان کے خاندان والوں نے یہ افواہ پھیلائی کہ جماعت انہیں پیسے دیتی ہے، لیکن یہ بالکل غلط بات تھی۔ حقیقت یہ تھی کہ پہلے وہ آرام دہ زندگی گزار رہی تھیں لیکن اب انہیں گھروں میں صفائی وغیرہ کا کام کرنا پڑ رہا تھا جس سے بمشکل اتنی آمدنی ہوتی تھی کہ وہ اپنے بچوں کی خوراک اور رہائش کا انتظام کر پاتی تھیں۔ ان دردناک حالات کے باوجود ان کےپائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں آئی۔

یہ دباؤ اور مصائب ان کے ایمان کو ایک ذرہ برابر بھی کم نہ کر سکے۔ کچھ عرصہ کے بعد انہیں غیر احمدی افراد کی طرف سے رشتہ کے پیغامات موصول ہوئے لیکن انہوں نے ہرایک کو یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں اگر شادی کروں گی تو صرف کسی احمدی کے ساتھ۔ اس پران میں سے ایک آدمی ان سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نےاحمدیت کے بارہ میں معلومات حاصل کرنا شروع کر دیں اور جلد ہی وہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا قائل ہو گیا۔ بعدا زاں ان کی شادی ہو گئی اور تب سے یہ خاندان جماعت کے ساتھ اخلاص و وفا کا تعلق رکھتا ہے۔ اس بہادر خاتون نے نہ صرف اپنے اور اپنے بچوں کے ایمان کی حفاظت کی بلکہ وہ ایک غیر احمدی کو بھی احمدیت کی آغوش میں لے آئیں۔

بھارت کے شہر کلکتہ سے تعلق رکھنے والی ایک خاتون نور جہاں صاحبہ نے 1981ء میں بیعت کی۔ ان کی بیعت کی ایک بڑی وجہ جماعت احمدیہ کا دنیا بھر میں اسلام کی تبلیغ بنی۔ ان کو اس بات نے خاص طور پر بہت متأثر کیا کہ جماعت احمدیہ میں دنیا کے دور دراز علاقوں میں اسلام کی تبلیغ کرنے کے لئے مالی قربانی اور چندہ کا نظام قائم ہے ۔

انہوں نے اپنی احمدی سہیلیوں کو دیکھا جو باقاعدگی سے چندہ ادا کرتی تھیں۔ کچھ عرصہ بعد انہوں نے بھی اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ بھی اس قربانی میں شامل ہونے کے لئے چندہ دینا چاہتی ہیں۔ اس پر انہیں بتایا گیا کہ جماعت صرف احمدیوں سے ہی چندہ وصول کرتی ہے اس لئے ان سے چندہ وصول کرنا ممکن نہیں۔ اس پر اُنہوں نے بتایا کہ وہ پہلے ہی جماعت کی کچھ کتابیں پڑھ چکی ہیں اور اگرچہ ابھی تک باقاعدہ بیعت نہیں کی لیکن دل سے احمدی ہو چکی ہیں۔

چنانچہ چندہ دینے کی شدید خواہش کی وجہ سے انہوں نے بیعت کر لی اگرچہ اس پر ان کے والد اور دیگررشتہ دار شدید مخالف ہو گئے۔ انہوں نے ان کو برا بھلا کہا اور ہراساں کیا۔ انہیں سخت مالی تنگی کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ البتہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان کے صبر اور قربانی کی جزا دی اور انہیں ایک سکول میں نوکری مل گئی۔ رفتہ رفتہ وہ اس سکول کی ہیڈ مسٹرس بن گئیں۔ بجائے اس کے کہ وہ اپنے خاندان کی وجہ سے احمدیت سے دور چلی جاتیں اس کے بالکل برعکس ہوا اور ان کا خاندان بھی بالآخر احمدیت کی آغوش میں آگیا۔ الحمدللہ

ایک اور خاتون جن کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ رئیسہ صاحبہ ہیں۔ ان کا تعلق کانپور انڈیا سے ہے۔ جب انہوں نے اپنے بچوں کے ہمراہ احمدیت قبول کی تو انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بیعت کرنے سے قبل بھی ان کے معاشی حالات تنگ ہی تھے ۔مختلف دیہات میں چوڑیاں بیچ کرمعمولی آمدن پیدا کیا کرتی تھیں۔ بیعت کے بعد انہیں مزید مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ ان کے خاندان کے اکثر افراد ان کے مخالف ہوگئے۔

بہر حال اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ان کو صبر کا پھل عطا فرمایا اور ان کے مالی حالات بہتر ہونا شروع ہو گئے اور بجائے مختلف دیہات میں جا کر چوڑیاں بیچنے کے انہوں نے خوداپنی دوکان بنا لی۔ جب انہوں نے اپنے حالات کی بہتری دیکھی تو ان کا ایمان مزید ترقی کر گیا۔ جہاں پہلے وہ غربت کی زندگی بسر کر رہی تھیں وہاں اب اپنے دین کی خاطر مالی قربانی میں پیش پیش ہیں۔

میں انڈیا سے سنجیدہ صاحبہ کا ایمان افروز واقعہ بھی سنانا چاہتا ہوں۔ ان کے شوہر نے 2000ء میں بیعت کی اور اس کے بعد انہوں نے اپنی بیوی کو بھی تبلیغ کی، جنہوں نے جلد ہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰ ۃ والسلام کی صداقت کو قبول کر لیا۔ بیعت کے بعد اس خاتون کے گھر والوں نے سخت مخالفت کی اور بالکل قطع تعلق کر لیا۔ وہ انہیں مارتے اورسنگین نتائج کی دھمکیاں دیتےرہے۔ لیکن انہوں نے بے مثال ہمت دکھائی اور اپنے ایمان پر قائم رہیں۔ ان کا تعلق امیر خاندان سے تھا لیکن بیعت کے بعد ان کے والد نے انہیں جائیداد اورتمام حقوق سے محروم کرنے کی دھمکی دے کر مجبور کرنا چاہا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کا انکار کر دیں۔ اس پر سنجیدہ صاحبہ نے جواب دیا کہ آپ مجھے اپنے وراثتی حصہ کے بدلے اپنا عقیدہ بدلنے پر مجبور کر رہے ہیں لیکن میں آپ کو بتا دینا چاہتی ہوں کہ ان چند روپوں کے عوض اللہ تعالیٰ مجھے پہلے ہی اس دنیا کا سب سے انمول تحفہ احمدیت کی شکل میں عطا فرماچکا ہے۔ میں قسم کھا کر کہتی ہوں کہ میں اب کسی بھی مالی نقصان اور خاندانی وراثت سے محرومی کی ذرہ بھر بھی پروا نہیں کرتی۔

اسی طرح ایک اور انڈین خاتون الفا صاحبہ، جو کوریا ضلع سیتاپور سے تعلق رکھتی ہیں، انہوں نے بیعت کی۔ ان کے گاؤں میں تمام لوگ غیر احمدی تھے۔ اس کے نتیجہ میں انہیں ہولناک مظالم کا سامنا کرنا پڑا حتّٰی کہ ان کے والدین نے بھی انہیں دھمکیاں دیں اور استہزاء کا نشانہ بنایا۔ وہ ان سے طنزاً پوچھا کرتے تھے کہ اب تمہاری بیٹیوں سے شادی کون کرے گا؟ یہ تو بن بیاہی بیٹھی رہ جائیں گی۔

اس پر الفا صاحبہ بڑے تحمّل سے جواب دیتیں کہ انہوں نے احمدیت صرف اللہ تعالیٰ کی خاطر قبول کی ہے اور یقین رکھتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر حال میں ان کی ضروریات کا خیال رکھے گا۔ وہ کہتیں کہ ان کی بیٹیوں کی شادیاں احمدی مسلمانوں سےہی ہوں گی، انشاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کو حقیقی صبر اور ثبات قدم کا اجر ملا ۔ اس رپورٹ کے مرتب ہونے تک ان کی دو بیٹیوں کی شادیاں احمدی معلمین سے ہو چکی ہیں جبکہ تیسری بیٹی کی بات ایک نیک، شریف احمدی کے ساتھ چل رہی ہے۔

سپین میں ایک احمدی خاتون، وفا صاحبہ کو احمدیت قبول کرنے کے نتیجہ میں بہت سی مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مثلاً ان کے شوہر نے انہیں طلاق دے دی پر ان کے ایمان میں لغزش نہ آئی۔ انہوں نے اس آزمائش کو بہت صبر اور تحمل سے برداشت کیا۔ الحمدللہ بعد میں ان کی شادی ایک عرب احمدی سے ہو گئی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ نیکیوں اور جماعت کے لئے مالی قربانی میں مسلسل ترقی کر رہی ہیں۔

اسی طرح فلسطین میں ایک خاتون ہیں جنہیں احمدیت قبول کرنے کے بعد بہت شدید ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ انہیں اپنے مذہبی عقائدکی وجہ سے عدالت بھی لے جایا گیا۔ ان کے شوہر انہیں طلاق دے چکے ہیں لیکن احمدیت پران کے ایمان میں کبھی ذرہ برابر بھی فرق نہیں آیا اور وہ مثالی صبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے دین کی خاطر ہر قربانی دینے کے عہد کو نبھا رہی ہیں۔

اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ نے جماعت کو ایسی غیرت مند اور مخلص خواتین بھی عطا فرمائی ہیں جنہوں نے اپنے ایمان کی حفاظت کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے شہادت کا عظیم رتبہ پایا۔ مثلاً 2011ء میں پاکستان کے شہر لیہ سے تعلق رکھنے والی ایک احمدی خاتون جن کا نام مریم خاتون تھا غیر احمدیوں کے ایک حملہ کے نتیجہ میں شہید ہو گئیں۔ دشمنانِ احمدیت نے تین معصوم بچوں کی اس ماں کے گھر میں داخل ہو کر ان پر فائرنگ کر دی اور وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع پر ہی شہید ہو گئیں۔ شہادت کے وقت ان کی عمر 26 سال تھی۔

یہ صرف چند واقعات ہیں جو اس بات کا ثبوت ہیں کہ دنیا کے مختلف ممالک میں بسنے والی احمدی مسلم خواتین اپنے دین کی خاطر ہر طرح کی قربانیاں دے رہی ہیں۔

اس کے علاوہ بہت سی خواتین ایسی ہیں جنہوں نے خوابوں کے نتیجہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کو قبول کیا اور احمدیت میں شامل ہو گئیں۔ یہ خواتین بعد میں مثالی احمدی عورتیں ثابت ہوئیں جنہوں نے نیکی، تقویٰ اور دین کی خاطر ہر قربانی پیش کرنے کے جذبہ میں ترقی کی۔ مثال کے طور پر افریقہ کے ایک ملک گنی بساؤ کے ایک گاؤں میں ایک خاتون بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے ایک خواب میں دیکھا کہ مقامی احمدی معلم نے انہیں ایک کتاب دی اور کہا کہ ان کی نجات اس کتاب میں ہے۔

اس کتاب کو کھولنے پر انہیں ایک تصویر نظر آئی۔ انہوں نے معلم صاحب سے پوچھا کہ یہ کون ہیں؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ یہ تصویر حضرت خلیفۃ المسیح کی ہے۔ صبح بیدار ہونے کے بعد وہ اسی معلم کے پاس گئیں اور انہیں خواب سنائی۔ اس پر معلم صاحب نے انہیں کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو احمدیت کی صداقت کا واضح نشان دکھایا ہے۔ اس خاتون نے جواب دیا کہ انہیں اچھی طرح علم تھا کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ ایک واضح اشارہ ہے۔ اس لئے وہ بیعت کے لئے اور ہر اس قربانی کے لئے تیار ہیں جس کا جماعت ان سے مطالبہ کرے گی۔ احمدیت قبول کرنے کے بعد سے وہ مالی قربانی میں ترقی کر رہی ہیں اور بہت بہادری سے باہر تبلیغ کے لئے جاتی ہیں۔ وہ لوگوں کو اپنی مثال دے کر بتاتی ہیں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے احمدیت کی طرف ان کی رہنمائی کی۔

اسی طرح بنگلہ دیش سے ایک احمدی پالاش صاحب ہیں جن کی اہلیہ ایک سکول میں ٹیچر ہیں۔ وہ اپنی اہلیہ کے بارہ میں بیان کرتے ہیں کہ جب سکول کی انتظامیہ کو اُن کے احمدی ہونے کا علم ہوا تو وہ بہت سیخ پا ہوئے اور انہیں کہا کہ وہ احمدیت چھوڑ دیں یا پھر کم ازکم لوگوں کے سامنے یہ کہہ دیں کہ وہ عیسائی ہیں چاہے دل سے احمدی ہی رہیں۔ اس پر اس خاتون نے کہا کہ میں نے ایک خواب کی بنا پر احمدیت کی صداقت کو قبول کیا ہے، ہم دن میں پانچ مرتبہ نماز پڑھتے ہیں۔ میں کیسے کہہ دوں کہ میں عیسائی ہوں؟ میں یہ نوکری تو چھوڑ سکتی ہوں پر احمدیت کسی حال میں بھی نہیں چھوڑ سکتی۔

یہ صرف لجنہ کی ممبرات ہی نہیں ہیں جو دین کی خاطر قربانیاں پیش کر رہی ہیں بلکہ اس میدان میں کم عمر ناصرات بھی دوسروں کے لئے مثالی نمونے قائم کر رہی ہیں۔ مثلاً بنگلہ دیش میں ایک گاؤں ہے جہاں چند احمدی آباد ہیں اور انہیں بے انتہا مخالفت کا سامنا ہے۔ ان کا سوشل بائیکاٹ کیا گیا ہے اور وہ معاشرتی دباؤ میں زندگی گزار رہے ہیں۔ چوتھی کلاس میں پڑھنے والی اس گاؤں کی ایک دس سالہ احمدی بچی بھی ان کے مظالم سے نہ بچ سکی۔ سکول میں اس کے استادوں نے کہا کہ تمہارا با پ عیسائی ہو چکا ہے اور وہ دوزخ میں جائے گا۔

انہوں نے اس چھوٹی بچی کے سامنے اس کے والد کو گالیاں دیں اور برا بھلا کہا۔ انہوں نے اس بچی کو لالچ دیا کہ اگر وہ اپنے والد سے الگ ہو جائے تو اسے ایک خوبصورت گھر، بہترین تعلیم اور خوراک دیں گے۔ یہ چھوٹی بچی جو اپنے ایمان پر مضبوطی سے قائم رہی کہنے لگی کہ میرے ابا جان دوزخ میں نہیں جا سکتے کیونکہ وہ باقاعدہ نمازیں پڑھتے ہیں اور وہ عیسائی بھی نہیں ہو سکتے کیونکہ عیسائی نمازیں نہیں پڑھتے۔

اس نے کہا کہ نہ میں اپنی جماعت کو چھوڑوں گی نہ اپنے والد کو چاہے تم مجھے کتنا ہی لالچ دو۔ اپنے والد کی مثال دیکھنے کے بعد احمدیت پر میرا ایمان مزید پختہ ہو گیا ہے۔

یہ واقعہ لڑکی کے والد نے خود سنایا اور جب وہ یہ واقعہ سنا رہے تھے تو اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور اپنی بیٹی کے نیک نمونہ کو یاد کر کے آبدیدہ ہوگئے۔

مَیں نے آپ کے سامنے موجودہ دور میں پیش آنے والے چند واقعات بیان کئے ہیں تا کہ آپ کو بتا سکوں کہ کس طرح اللہ تعالیٰ ساری دنیا میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سچائی ظاہر کر رہا ہے اور کیسے دنیا بھر میں احمدی عورتوں اور بچیوں میں پُر خلوص قربانی کی روح پیدا کر رہا ہے۔

جیسا کہ میں نے بتایا ہے کہ بہت سی احمدی خواتین نے ہولناک مظالم اور مشکلات کو برداشت کیا اور کچھ نے تواپنے ایمان کے لئے اپنی جانوں کو بھی قربان کر دیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے یہ غیرت مند خواتین مشکل حالات سے خوفزدہ نہیں ہوئیں اور پیچھے نہیں ہٹیں، بلکہ ان مظالم اور ناانصافیوں کے نتیجہ میں ان کا احمدیت پر ایمان مزید پختہ ہوتا چلا گیا اور انہوں نے پہلے سے بڑھ کر اپنی زندگیاں اسلام کی حقیقی خدمتگار بن کر بسر کرنے کا تہیہ کیا۔

جب تک یہ غیر معمولی قربانی کی روح جماعت میں موجود ہے، یقین رکھیں کہ کوئی بھی کبھی بھی جماعت احمدیہ مسلمہ کو نقصان نہیں پہنچا سکتا، انشاء اللہ۔ ہمارے دشمن جماعت کو تباہ کرنے کےلئے چاہے جتنے مرضی منصوبے اور اسکیمیں بنالیں وہ کبھی اپنے ارادوں میں کامیاب نہیں ہو سکیں گے، انشاء اللہ۔ یقیناً دشمنانِ احمدیت ہمارے لئے خطرناک حالات پیدا کرتے رہیں گے لیکن انہیں اپنے شرمناک منصوبوں میں کبھی کامیابی حاصل نہیں ہو گی کیونکہ جو ایمان احمدی مردوں، عورتوں اور بچوں میں ہےوہ اس بات کا یقین دلاتا ہے کہ کچھ بھی ہو جائےحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت ہمیشہ ہر حال میں پھلتی پھولتی رہے گی۔

البتہ میں یہاں ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ جہاں احمدی مسلمان ساری دنیا میں جماعت کی خدمت اور اس کی خاطر قربانی کی توفیق پا رہے ہیں وہاں ہر ایک احمدی مسلمان کو چاہئے کہ وہ اپنا جائزہ لے کہ کہیں وہ پیچھے نہ رہ جائے، کسی بھی احمدی مسلمان کے معیار میں کمی نہ آئے، ہمیشہ اپنے ایمان کو بڑھانے کی کوشش کریں اور ان مبارک راستوں پر چلیں جن پر چلنے کا خود اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے۔ ہمیشہ ان مقاصد کو پورا کرنے کی کوشش کریں جن کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے۔

ان سنہری راہوں پر چلیں جو براہ راست اللہ کی طرف لے جاتی ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی باتوں اور نصائح پر عمل کرنے کی کوشش کریں جنہوں نے ہمیں سکھایا کہ ہم کس طرح اپنے خالق کا پیار پا سکتے ہیں۔ ایک موقع پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا’’مومن وہی ہوتا ہے جو خدا تعالیٰ کے ساتھ وفادار ہوتا ہے۔ جب ایمان لے آیا پھر کسی کی دھمکی کی کیا پرواہے۔ تم نے دین کو دنیا پر مقدم کیا ہے اور یہ اقرار کرچکے ہو۔ جب انسان خدا تعالیٰ کے لئے وطن، احباب اور ساری آسائشوں کو چھوڑتا ہے وہ اس کے لئے سب کچھ مہیا کرتا ہے۔‘‘

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مزید فرماتے ہیں کہ

’’اب چاہئے کہ صادقوں کی طرح ثابت قدم رہے کیونکہ خدا تعالیٰ صادق کا ساتھ دیتا ہے اور اس کو بڑے بڑے درجے عطا کرتا ہے۔ ‘‘

نیز فرمایا کہ’’خدا تعالیٰ اس وقت صادقوں کی جماعت تیار کر رہا ہے۔ جو صادق نہیں وہ آج نہیں کل چلا جائے گا اور اس سلسلہ سے الگ ہو کر رہے گا مگر صادق کو خدا تعالیٰ ضائع نہیں کرے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد 6 صفحہ 28 ایڈیشن 1985ء)

پس ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ ہم ہمیشہ صادقوں کی جماعت کا حصہ رہیں اور ایمان میں کبھی کمزوری نہ دکھائیں۔ اللہ کرے کہ ہم ہمیشہ ایمانی طور پر مضبوط رہیں۔ ہم نے اس ہستی کی بیعت کی ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد ﷺ کی پیشگوئیوں کے مطابق بھیجا ہے۔ ہم نے اس وجود کو مانا ہے جو مکمل طور پر آنحضرت ﷺ کی غلامی میں آیا اورجس کو اللہ تعالیٰ نے غیر تشریعی نبی، امام مہدی اور مسیح موعود کا مقام عطا فرمایا ہے۔ یہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی تھے جنہوں نے مسلمانوں کی تنزلی پردلی کرب محسوس کرتے ہوئے بے چین ہو کر صادقین کی ایک پاک جماعت کی بنیاد رکھی۔

ہمیشہ یاد رکھیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ہر فعل اور فرمان اللہ تعالیٰ کے احکامات اور حضرت محمد مصطفیٰﷺکی تعلیمات ہی کی کامل پیروی میں ہے۔ اس لئے میری یہ شدید خواہش اور دعا ہے کہ اللہ کرے کہ تمام احمدی مسلمانوں کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ وابستہ رہنے اورہر ایک معاملہ میں ان کی تعلیمات اور ہدایات کی پیروی کرنے کی توفیق عطا کرے۔

اللہ کرے کہ ہر احمدی مسلمان ہمیشہ خلافت احمدیہ کے ساتھ وابستہ رہے جو اللہ تعالیٰ کے وعدہ کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وصال کے بعد قائم ہوئی۔ ہمیشہ دعا کرتے رہیں کہ آپ کو اپنے ایمان پر ثباتِ قدم نصیب ہو۔

یقین رکھیں کہ اگر آپ احمدیت سے وابستہ رہیں گے تو اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑے گا بلکہ وہ آپ کو حقیقی مومن کا مقام عطا فرمائے گااور آپ کو صادقوں میں شمار کر لے گا۔ اللہ کرے کہ ہر احمدی کا ایمان ہمیشہ بڑھتا رہے اور ہر احمدی اپنے اس دعویٰ میں سچا ثابت ہو کہ وہ دین کو دنیا پر مقدم رکھے گا۔

نیز آپ کو کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے بچوں کی اخلاقی اور روحانی ماحول میں اچھی تربیت کریں تا کہ ان کا احمدیت کی سچائی پر ایمان پختہ ہو۔ ان میں اسلام کی حقیقی اقدار پیدا کریں تا کہ وہ ایسے مثالی شہری بن سکیں جو اپنے دین و ملّت کی خاطر ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے ہر وقت تیار رہیں۔ جب تک اللہ تعالیٰ ہماری جماعت کو اپنے عہدوں کو پورا کرنے والی ایسی غیرت مند خواتین اور مخلص مائیں عطا فرماتا رہے گا جو اپنے بچوں کی تربیت اس رنگ میں کریں گی کہ وہ نیکی کے علمبردار اور احمدیت کے خادم بنیں تب تک ہماری جماعت کو نقصان پہنچانے کا ہرمنصوبہ ناکام و نامراد رہے گا۔

ہمیشہ یاد رکھیں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ جماعت ہمیشہ ترقی کرے گی اور ہم سب اس کے گواہ ہیں کہ کیسے ہر روز اللہ تعالیٰ اپنا یہ وعدہ پورا فرما رہا ہے۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کافضل اور اس کی نصرت ہی ہے جس کے نتیجہ میں جماعت پھل پھول رہی ہے اور ترقی کر رہی ہے اور ہمیشہ کرتی رہے گی، انشاء اللہ۔ سوال صرف یہ ہے کہ وہ کون سے خوش قسمت لوگ ہیں جو آخر ی دم تک اس مبارک جماعت کا حصہ رہیں گے۔ یقیناً وہ تمام احمدی جو اپنے ایمانوں پر مضبوطی سے قائم رہیں گے وہ اللہ تعالیٰ کے عظیم وعدہ کو پورا ہوتا دیکھیں گے اور جو صدق نہیں دکھائیں گے وہ اللہ تعالیٰ کی مبارک جماعت سے علیحدہ کئے جائیں گے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام پہلے سے خبردار فرما چکے ہیں۔

میری یہ دلی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہرنئے آنے والے احمدی کو توفیق دے کہ وہ جماعت کا مخلص ممبر بنا رہےتا کہ سچے مومنوں میں اس کا شمار ہو۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ایمان میں کمزوری اور سستی سے بچائے اور اُسے اپنی رحمت کے سایہ میں رکھے۔ آخر میں مَیں دعا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ لجنہ اماء اللہ کوبھی ہر لحاظ سے اپنے فضلوں سے نوازتا چلا جائے۔ آمین۔

(ترجمہ: لئیق احمد بلال، اظہار احمد راجہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button