رپورٹ دورہ حضور انور

امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ امریکہ و گوئٹے مالا 2018ء (26 تا 27 اکتوبر)

(عبد الماجد طاہر۔ ایڈیشنل وکیل التبشیر)

… … … … … … … … …
26؍اکتوبر2018ءبروزجمعۃ المبارک
(حصہ دوم )
… … … … … … … … …

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ سوا چھ بجے مسجد کے مردانہ ہال میں تشریف لائے جہاں پروگرام کے مطابق واقفات نو کی کلاس کا انعقاد ہوا۔

پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو عزیزہ ماہین وڑائچ نے کی اور اس کا اردو ترجمہ عزیزہ طوبیٰ خورشید اور بعدازاں انگریزی ترجمہ عزیزہ شافیہ بشیر احمد نے پیش کیا۔

اس کے بعد عزیزہ فائرہ مبین نے آنحضرت ﷺ کی درج ذیل حدیث پیش کی۔

حضرت ابوھریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک دعا میں نے رسول کریم ﷺ سے ایسی سیکھی تھی جسے میں کبھی بھی پڑھنا بھولتا نہیں۔ جو یہ ہے:۔

’’اللھم اجعلنی اعظم شکرک وأکثر ذکرک واتبع نصحک وأحفظ وصیتک‘‘

(مسند احمد جلد نمبر 2 صفحہ 311)

اے اللہ مجھے ایسا بنا دے کہ تیرا بہت زیادہ شکر کرسکوں اور بہت زیادہ تجھے یادکروں اور تیری

یرخواہی کی باتوں کی پیروی کروں اور تیرے تاکیدی حکموں کی حفاظت (اپنے عمل سے) کرسکوں۔

اس کے بعد اس حدیث نبویؐ کا انگریزی زبان میں ترجمہ عزیزہ ماہدہ جاوید سیفی نے پیش کیا۔

بعد ازاں عزیزہ حمدہ عرفان نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا درج ذیل ارشاد ملفوظات سے پیش کیا:

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:

’’ وَ اِذَالنُّفُوْسُ زُوِّجَتبھی میرے ہی لئے ہے …پھر یہ بھی جمع ہے کہ خدا تعالیٰ نے تبلیغ کے سارے سامان جمع کر دئے ہیں۔ چنانچہ مطبع کے سامان، کاغذ کی کثرت، ڈاکخانوں، تار اور ریل اور دُخانی جہازوں کے ذریعہ کُل دنیا ایک شہر کا حکم رکھتی ہے اور پھر نِت نئی ایجادیں اس جمع کو اور بھی بڑھا رہے ہیں کیونکہ اسبابِ تبلیغ جمع ہو رہے ہیں۔ اب فونو گراف سے بھی تبلیغ کا کام لے سکتے ہیں اور اس سے بہت عجیب کام نکلتا ہے، اخباروں اور رسالوں کا اجراء۔ غرض اس قدر سامان تبلیغ کے جمع ہوئے ہیں کہ اس کی نظیر کسی پہلے زمانہ میں ہم کو نہیں ملتی۔‘‘

(الحکم جلد 6، نمبر 43 مؤرخہ 30نومبر 1902ء)

اس کے بعد عزیزہ دانیہ عفت احمد نے اس اقتباس کا انگریزی زبان میں ترجمہ پیش کیا۔

بعد ازاں عزیزہ ملیحہ جلال لقمان نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے منظوم کلام ؎

دیں کی نصرت کے لئے اک آسماں پر شور ہے
اب گیا وقت خزاں آئے ہیں پھل لانے کے دن

میں سے منتخب اشعار پیش کئے۔

اس کے بعد عزیزہ ہالہ طارق بھٹی نے حضورِانور کو خوش آمدید کہا۔ بعدازاں عزیزہ لبیبہ سعید، عزیزہ امامہ لاریب اور عزیزہ ہما منیر نے ’’ایم ٹی اے۔ ہمارا خلافت سے تعلق کا ذریعہ‘‘ کے عنوان پر ایک پریزنٹیشن دی۔

اس کے بعد عزیزہ ماہم احمد نے اردو زبان میں ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچائوں گا‘‘ کے عنوان پر تقریر کی۔

بعدازاں عزیزہ عالیہ بلال رانا، عزیزہ امبر محمود، عزیزہ اسماء یاسین اور عزیزہ فاطمہ ظفرتنولی نے ’’ٹیکساس (TEXAS) شہر کی سیر‘‘ کے عنوان سے ایک پریزنٹیشن دی۔

بعد میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سوالات کرنے کی اجازت عطافرمائی۔

٭ ایک واقفہ نو نےپوچھا کہ میرے والد چاہتے ہیں کہ میں میڈیکل پڑھوں اور اسی لئے بائیومیڈیکل پڑھ رہی ہوں جبکہ مجھے وکیل بننے کا شوق ہے تواس صورت میں کیا کروں؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: میڈیکل پڑھنے کا شوق پیدا کرو کیونکہ ہمیں ڈاکٹروں کی ضرورت ہے وکیلوں کی نہیں۔ آپ کے ابّا جو کہتے ہیں ٹھیک کہتے ہیں۔

٭ اسی واقفہ نو نے کہا کہ میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ بہترین اقتصادی نظام کونسا ہے جیسا کہ امریکہ میں کیپٹل ازم ہے یا سوشل ازم ؟

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

بہترین نظام اسلامی مالیاتی نظام ہے۔ اس کے لئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی کتاب اسلام کااقتصادی نظام پڑھیں جو آپ کو تفصیل مہیا کردے گی۔ اسے دو لفظوں میں یا چار منٹوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ اسلامی نظام نہ ہی سوشل ازم ہے اور نہ ہی کیپٹل ازم بلکہ اس کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ ہر ایک کی ضرورت پوری کرنی ہے۔ اس کے لئے زکوٰۃ ہے اور دوسرے ٹیکسز ہیں باقی تفصیل کتاب سے پڑھیں۔

٭ ایک واقفہ نو بچی نے بتایا کہ وہ ربو ہ سے پورٹ لینڈ جماعت میں آئی ہے اور حضور انور کی تحریک پر بیت الفتوح کے لئے کچھ جیولری دینا چاہتی ہے۔ بچی نے کہا کہ اس کی خواہش ہے کہ وہ حضور انور کی خدمت میں پیش کرے۔ حضور انور نے استفسار فرمایا کہ ’کیا نام اور پتہ لکھ دیا ہے؟ تاکہ اس کی رسید بھجوائی جا سکے۔‘ جس پر بچی نے کہا جی لکھ دیاہے تواس پر حضور انور نے فرمایا ’ٹھیک ہے۔‘

٭ ایک واقفہ نو بچی نے سوال کیا کہ حضور انور نے وقف نو بچوں کے لئے تحریک فرمائی ہے کہ وہ اردو سیکھیں لیکن یہاں سارے اجلاس اور اجتماعات انگلش میں ہوتے ہیں۔

اس پرحضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: انگلینڈ میں بھی ایسے ہی تھا، لیکن اب ہم نے شروع کیا ہے کہ ستر فیصد کارروائی انگلش اور تیس فیصد اردو میں ہو۔ پہلے یہ اس لئے تھا کہ اکثریت انگلش سمجھتی تھی اور اردو بہت کم کو سمجھ آتی تھی لیکن یہاں اب immigrants کی ایک بڑی تعداد آئی ہے اس لئے یہاں بھی ایساکیا جاسکتا ہے کہ جب تک وہ صحیح طرح سے انگلش نہیں سیکھ لیتے انہیں یہ سہولت ملنی چاہئے۔ بہرحال ایک واقفہ نو کو اردو آنی چاہئے۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

ماشاءاللہ جیسے تم سب واقفات نو میرے سامنے سکارف اوڑھ کر بیٹھی ہو، تمہیں دوسری لڑکیوں کے لئے قابل تقلید نمونہ ہونا چاہئے اور اسی طرح تمہارے اخلاق، نمازیں، گفتگو اورلباس بھی۔ آپ کے لباس میں حیا ہونی چاہئے اور سکارف اوڑھے ہونا چاہئے۔صرف باتیں کرنے، نعرے لگانے یا ترانے پڑھنے سے کچھ نہیں ہوتا بلکہ واقفات نو کو عملی نمونہ دکھانا پڑے گا۔

٭ ایک واقفہ نو بچی نے سوال کیا کہ اگر کوئی شخص برے کام کرتا ہو جیسے کہ بنک ڈکیتی لیکن پھر اس میں نیک تبدیلی ہو تو کیا وہ جنت میں جاسکتا ہے؟

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

آخری فیصلہ تو اللہ تعالیٰ کا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کو پتہ ہے کہ کس نے کہاں جاناہے ؟ لیکن اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ اگرکوئی اپنے آپ کو تبدیل کرلےاور گناہوں کی توبہ کرے اور اللہ تعالیٰ کی باتیں مانے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں لے جائے گا۔

٭ ایک واقفہ نو بچی نے سوال کیا کہ عام طور پر مردوں اور عورتوں کے درمیان پردہ ہوتا ہے لیکن جب حج پر جاتے ہیں تو وہاں عورتوں اور مردوں کے درمیان پردہ نہ ہونے کی کیا حکمت ہے؟

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:حج ایک ایسی عباد ت ہے جو کہ پورے انہماک اور توجہ سے ہوتی ہے۔کم از کم اللہ تعالیٰ تو یہی چاہتا ہے۔ مرد عورت کی طرف نہ دیکھے اور عورت مرد کی طرف نہ دیکھے۔ اس لئے یہ ایک وجہ ہوسکتی ہے لیکن آ ج کل جو حج کے لئے جاتے ہیں ان کا تو کوئی ایمان ہی نہیں ہے ان کے تو پتہ نہیں حج بھی قبول ہوتے ہیں کہ نہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ جب 13-1912ء میں حج کے لئے گئے تو فرماتے ہیں کہ انڈیا سے ایک چوبیس پچیس سال کا لڑکا بھی حج پہ گیا ہوا تھا جو کہ حج کے دوران بجائے دعائیں کرنے کے فلمی گانے گا رہا تھا تو ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں۔حج تو مکمل انہماک اور توجہ چاہتا ہے۔یہی ایک وجہ بیا ن ہوسکتی ہے۔ باقی جوہمیں بتایا گیا ہم نے تو اس طرح ہی کرنا ہے۔ آنحضورﷺ کے زمانے میں بغیر کسی چادر کے بغیر کسی پردہ کے اور بغیر کسی دیوار کے مرد آگے نمازیں پڑھا کرتے تھے اور عورتیں پیچھے نمازیں پڑھتی تھیں، وہ بھی زمانہ تھا۔ یہ پردہ تو تمہاری سہولت کے لئے ہے۔ حج میں عورتوں کے لئے مردوں کی طرح احرام نہیں ہوتا وہ اپنا لباس پہن کر بھی حج کر سکتی ہیں۔

٭ ایک واقفہ نو بچی نے سوال کیا کہ اگر آپ کا خاوند آپ کو بے پردگی کے لئے کہے تو پھر کیا کرنا چاہئے؟

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

تم یہ فیصلہ کرو کہ اللہ کی بات ماننی ہے یا خاوند کی۔ جیسے میں نے ابھی کہا ہے کہ آپ کا لباس حیا دار ہونا چاہیئے۔ حیا ایمان کا حصہ ہے۔حیا ہی اصل چیز ہے اور پردے کا حکم اللہ تعالیٰ کا ہے ۔وہ تو ہم نے بات ماننی ہے۔ پاکستان میں قانون کہتا ہےکہ تم نے اپنے آپ کو مسلمان نہیں کہنا اور سلام نہیں کہنا تو کیا احمدی یہ بات مانتے ہیں ؟ باقی قانون کی سب باتیں مان لیتے ہیں لیکن قانون کی یہ بات نہیں مانتے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے منافی ہے۔ تو آپ کا یہ اصول ہونا چاہئے کہ جو بھی بات اللہ تعالیٰ کے حکم سے ٹکرائے چاہے وہ والدین کہیں، خاوند کہے یا کوئی بھی کہے وہ نہیں ماننی۔

واقفات نو کی یہ کلاس سات بج کر دس منٹ تک جاری رہی۔ آخر پر حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس کلاس میں شامل ہونے والی واقفات نو بچیوں کو جائے نماز عطافرمائے۔

………………………

بعدازاں پروگرام کے مطابق سوا سات بجے واقفین نو بچوں کی کلاس شروع ہوئی۔

پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو عزیزم جلیس احمد نے کی۔ اس کا اردو ترجمہ عزیزم بلال احمد صدیقی اور انگریزی ترجمہ عزیزم طاہر احمد بھٹی نے پیش کیا۔

اس کے بعد عزیزم سید نواس احمد نے آنحضرت ﷺ کی درج ذیل حدیث پیش کی۔

’’ان المؤمن فی زمان القائم وھو بالمشرق یسری أخاہ الذی فی المغرب وکذا الذی فی المغرب یری أخاہ الذی فی المشرق‘‘ (بحارالأنوار الجامعۃ لدرر أخبارالأئمۃ الاظہار للشیخ محمد باقر المجلسی جلدنمبر 52، باب فی سیرہ وأخلاقہ واصحابہ صفحہ 391دار احیاء التراث العربی بیروت لبنان)

’’امام مہدی کے زمانے میں مشرق والا مؤمن اپنے بھائی کو جو مغرب میں ہوگا دیکھ لیا کرے گا اور اسی طرح جو مغرب میں ہوگا وہ اپنے بھائی کو جو مشرق میں ہوگا دیکھ لیا کرے گا۔‘‘

عزیزم اسامہ سیفی نے اس حدیث نبوی کا انگریزی زبان میں ترجمہ پیش کیا۔

بعد ازاں عزیزم راشد احمد وڑائچ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا درج ذیل اقتباس پڑھ کر سنایا:

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام تجلیاتِ الٰہیہ میں تحریر فرماتے ہیں:

’’خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار خبر دی ہے کہ وہ مجھے بہت عظمت دے گا اور میری محبت دلوں میں بٹھائے گا اور میرے سلسلہ کو تمام زمین میں پھیلائے گا اور سب فرقوں پر میرے فرقہ کو غالب کرے گا اور میرے فرقہ کے لوگ اِس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشانوں کے رُو سے سب کا منہ بند کر دیں گے۔ اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی اور یہ سلسلہ زور سے بڑھے گا اور پھُولے گا یہاں تک کہ زمین پر محیط ہو جاوے گا۔ بہت سی روکیں پیدا ہوں گی اور ابتلا آئیں گے مگر خدا سب کو درمیان سے اُٹھا دے گا اور اپنے وعدہ کو پورا کرے گا۔ اور خدا نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا کہ میں تجھے برکت پر برکت دوں گا یہاں تک کہ بادشاہ تیرے کپڑوں سے برکت ڈھونڈیں گے۔

سو اے سننے والو! ان باتوں کو یاد رکھو۔ اور ان پیش خبریوں کو اپنے صندوقوں میں محفوظ رکھ لو کہ یہ خدا کا کلام ہے جو ایک دن پورا ہو گا۔‘‘

(تجلیاتِ الٰہیہ۔ روحانی خزائن کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن جلد 20 صفحہ409،410)

واقفین نَو کی کلاس کے دوران

اس کے بعد عزیزم ثوبان اقبال نے اس اقتباس کا انگریزی زبان میں ترجمہ پیش کیا۔

بعدازاں عزیزم سید اویس احمد، عزیزم یاسر خان اور عزیزم عاشر احمد بھٹی نے ’’MTA‘‘ کے عنوان سے ایک ترانہ پیش کیا جس کا انگریزی ترجمہ اسماعیل مبارک احمد نے پیش کیا۔

اس کے بعد عزیزم زریاب فاروق نے انگریزی زبان میں ’’ایم ٹی اے، ہمارا خلافت سے تعلق کا ذریعہ‘‘ کے عنوان پر تقریر کی۔

بعدازاں عزیزم لبید احمد نے ’’ایم ٹی اے کی اہمیت وبرکات‘‘ کے عنوان پر اردو زبان میں تقریر کی۔

اس کے بعد عزیزم ارسلان ولید احمد، عزیزم طلال منصور احمد نے ’’ایم ٹی اے ہمارا خلافت سے تعلق کا ذریعہ‘‘ کے عنوان پر ایک پریزنٹیشن دی۔

بعدازاں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سوالات کرنے کی اجازت عطافرمائی۔

٭ حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے دریافت فرمایا کہ ’آپ میں سے کتنے ہیں جو اردو سمجھ لیتے ہیں ؟ جن کوتھوڑی بہت اردو آتی ہے یا سمجھ لیتے ہیں وہ باری باری ہاتھ کھڑا کریں۔نیز حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا : واقفین نو کو اردو سیکھنے کے لئے کوشش کرنی چاہئے۔‘

٭ اس کے بعد ایک واقفِ نوبچے نے سوال کیا کہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی کتاب ’برکاتِ خلافت‘ پڑھ رہا تھا جس میں خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے کہ ہرقوم میں ایک وقت آتا ہے جب وہ سیاست میں جاتے ہیں۔لیکن اس وقت ہمیں سیاستدانوں کی ضرورت نہیں ہے لیکن شاید مستقبل میں ہو تو اُس وقت خلیفہ وقت بتائیں گے۔ کیا اب وہ وقت آگیا ہے کہ احمدی سیاستدان بنیں؟

اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا :’ ہاں بن سکتے ہیں لیکن واقفین نو نہیں بن سکتے۔ واقفین نو کے لئے میں نے ایک پروگرام دیا ہےکہ جماعت کی کیا ضروریات ہیں۔ہمیں اس وقت ڈاکٹروں اور اساتذہ کی ضرورت ہے اور کچھ انجینئرزاور اکاؤنٹنٹس کی بھی ضرورت ہے لیکن زیادہ تر ڈاکٹروں اور اساتذہ کی ضرورت ہے۔ اگر کسی میں سیاستدان بننے کیلئے یا اسی طرح کسی اور پیشے کیلئے کوئی خداداد صلاحیت ہے تو وہ انفرادی طور پر رابطہ کر سکتا ہے۔ ویسے تو احمدی سیاستدان موجود ہیں۔ گھانا میں احمدی سیاستدان ممبرآف پارلیمنٹ ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں احمدیہ مخالف قانون کی منظوری سے قبل 1974ء میں بھٹو کی پارلیمینٹ میں تین چار احمدی رکن تھے ،ایک سینیٹ کے ممبر تھے اور دو احمدی پنجاب اسمبلی کے ممبر تھے۔ یہاں امریکہ میں جو احمدی سیاست میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ سیاست میں جا سکتے ہیں لیکن پارٹی کے انتخاب میں احتیاط سے کام لینا ہوگا۔

٭ ایک واقف نو بچے نے سوال کیا کہ حضور انور کیلیفورنیا کب تشریف لائیں گے؟

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ’جب اللہ لائے گا۔ دیکھیں کب آئیں گے۔ ایک دفعہ تو ہو چکا ہوں۔‘

٭ ایک واقفِ نو نے سوال کیا کہ ’آپ کو ہیوسٹن آکر کیسے لگا؟‘

اس پر حضور انور نے فرمایا کہ بڑا اچھا ہے۔ خوبصورت نظارہ ہے۔ ہیوسٹن کے اردگرد سارا زرعی علاقہ ہے، باغ ہیں، باڑے ہیں۔ اچھی جگہ ہے۔

٭ ایک وقف نو بچے نے سوال کیا کہ جماعت احمدیہ امریکہ کس طرح مجموعی طور پر اپنے آپ کو بہتر کر سکتی ہے؟

اس پر حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے فرمایا کہ میں اپنے دورے کے اختتام پر آپ کو بتا دوں گا۔

٭ ایک بچہ نے سوال کیا کہ حضور انور کی امریکہ کے واقفین نو کے لئے سب سے ضروری نصیحت کیا ہے؟

اس پر حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: آپ لوگ میرے خطبے سنتے ہیں؟ میں نے دو سال پہلے کینیڈا میں خطبہ دیا تھا وہی واقفینِ نو کا چارٹر ہے ۔اس میں اکتیس نکات تھے، ان پر عمل کرو۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:

باقی ایک تو تم لوگ پانچ نمازیں باقاعدہ پڑھا کرو اور جہاں جہاں نماز سینٹر اور مساجد ہیں نماز باجماعت پڑھا کرو، قرآن کریم کی تلاوت باقاعدہ کرو ، اپنی دوستیاں اچھے لڑکوں سے رکھواور پڑھائی کی طرف توجہ دو ۔یہ چار باتیں یاد رکھ لو اور باقی نکات اس خطبہ سے لے لینا۔

٭ ایک واقفِ نونے سوال کیا کہ بحیثیت وقف نو ہمیں اعلیٰ تعلیم کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے اور امریکہ میں طلباء کی طرف سے لئے جانے والا تعلیمی قرضہ اب 1.5 ٹریلین ڈالر ہو گیا ہے۔ ایک طالب علم پر تعلیم کے لئے حاصل کیا گیا قرضہ گاڑی کے قرضے سے اور دوسرے قرضوں سے بڑھ جاتا ہے ایسے میں حضور انور احمدی بچوں کو کیا نصیحت فرماتے ہیں کہ وہ دوران تعلیم اپنے مالی امور کا کس طرح بہتر طور پر انتظام کریں۔

حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا : اعلیٰ تعلیم صرف واقفین نو کے لئے نہیں بلکہ ہر احمدی کے لئے ضروری ہے۔ واقفین نو کو تعلیم میں سب سے آگے ہونا چاہئے۔ حضور انور نے فرمایا کہ وہ جو گورنمنٹ یا بنک سے تعلیم کے لئے قرضہ لیتے ہیں ان کو میں یہی نصیحت کرتا ہوں کہ انہوں نے جس شعبہ میں تعلیم حاصل کی ہے اس شعبہ میں ہی نوکری تلاش کرکے کا م کریں اورتقریباً تین سال کے لئے تجربہ حاصل کریں اور اپنے قرضے کو ادا کریں ۔ جب آپ اپنا پورا قرضہ ادا کرچکیں تب آپ اپنے آپ کو وقف کے لئے پیش کریں لیکن اس دوران مرکز کو اپنی پراگریس سے مطلع رکھیں اور اس کے علاوہ جیسے میں نے بیان کیا ہے روزانہ پانچ نمازوں کے باجماعت قیام اور تلاوت قرآن کا اہتمام کریں۔ اچھےاخلاق کا مظاہرہ کریں یہ چیزیں ساتھ ساتھ ہونی چاہئیں ۔یہ نہیں کہ اگر آپ کسی ہاسپٹل میں،یاکمپنی میں یا بحیثیت وکیل کام کررہے ہیں تو آپ اپنے بنیادی فرائض بھول جائیں۔ اس کا خاص خیال رکھیں۔یہ چیزیں کریں اور اپنا قرضہ اداکریں اس کے بعد آگے کے بارے میں ہدایت لے سکتے ہیں۔

حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: تیسری دنیا کے یا غریب ممالک کے طلباء کو ان کی اعلیٰ تعلیم کے لئے ہم خود بھی قرضہ دیتے ہیں۔

٭ ایک وقف نو بچے نے سوال کیا کہ کیا آپ پر براہ راست اللہ تعالیٰ سے وحی ہوتی ہے؟

اس پر حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تو مختلف طریقوں سے بتا دیتا ہے کہ کیا کرنا ہے۔ دل میں ڈال دیتا ہے، کوئی براہ راست وحی نہیں ہوتی۔ وحی صرف نبیوں کو ہوتی ہے۔

واقفین نو کی یہ کلاس آٹھ بج کر پندرہ منٹ پر ختم ہوئی۔ آخر پر حضورِانور نے اس کلاس میں شامل ہونے والے تمام بچوں کو جائے نماز عطافرمائے۔ بعدازاں تمام بچوں نے حضورِانور کے ساتھ ایک گروپ تصویر بنوانے کی سعادت پائی۔

بعدازاں ایک واقف نو نوجوان عزیزم سیدنواس احمد نے اذان دی۔ حضورِانور اس دوران محراب میں کھڑے رہے۔ اذان کے بعد حضورِانور نے اس خادم کو اپنے پاس بلالیا اور دریافت فرمایا کہ کیا کررہے ہیں؟ اس پر نوجوان نے عرض کیا کہ ڈاکٹر ہوں اور ریزیڈینسی کررہا ہوں۔ حضورِانور نے LOAN کے بارہ میں دریافت فرمایا کہ کتنا قرض (LOAN) ہے اور کب تک ادا ہوجائے گا۔ اس پر موصوف نے عرض کیا کہ بعض ایسے طریق بھی ہیں کہ خدمت کے کام کریں، رفاہ عامہ کا کام کریں تو قرض ایڈجسٹ ہوجاتاہے اور بعض صورتوں میں کم بھی ہوجاتا ہے۔ اس پر حضورِانور نے فرمایا تو پھر غانا چلے جائو۔

بعدازاں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے نمازِمغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورِانور اپنی رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔

… … … … … … … … …
27؍اکتوبر2018ءبروزہفتہ
… … … … … … … … …

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح ساڑھے چھ بجے مسجد بیت السمیع میں تشریف لا کر نمازِفجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے رہائشی حصے میں تشریف لے گئے۔

پروگرام کے مطابق ساڑھے دس بجے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد کے مردانہ ہال میں تشریف لائے اور وہاں جماعت ہیوسٹن کی درج ذیل مجالس عاملہ کے ممبران نے حضورِانور کے ساتھ گروپ فوٹو بنوانے کی سعادت پائی۔

٭لوکل مجلس عاملہ جماعت احمدیہ ہیوسٹن سائوتھ
٭ مجلس عاملہ جماعت ہیوسٹن نارتھ
٭ مجلس عاملہ جماعت ہیوسٹن سائپرس
٭ ہیوسٹن جماعت کے اُن رضاکار کارکنان کا گروپ جو مختلف شعبوں میں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔

تصاویر کے پروگرام کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے دفتر تشریف لے آئے جہاں پروگرام کے مطابق فیملی ملاقاتیں شروع ہوئیں۔

آج صبح کے اِس سیشن میں 74 فیملیز کے 396 افراد نے حضورِانور کے ساتھ ملاقات کی سعادت پائی۔ ان سبھی افراد نے اپنے پیارے آقا کے ساتھ تصاویر بنوانے کا شرف بھی پایا۔ حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے تعلیم حاصل کرنے والے طلباء اور طالبات کو قلم عطافرمائے اور چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کو چاکلیٹ عطافرمائیں۔

آج ملاقات کرنے والی یہ فیملیز امریکہ کی مختلف 28 جماعتوں سے آئی تھیں۔ درج ذیل جماعتوں ST.PAUL، جارجیا، CAROLINA PHOINIX ،AZ، KANSAS CITY،LAS VAGAS ، MIAMI،ORLANDO، PORTLAND، SEATLE ، ZION سے آنے والی فیملیز اور احباب بڑے طویل اور لمبے سفر طے کرکے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کے لئے پہنچے تھے۔

بعض احباب اور فیملیز 1182 میل کا طویل سفر ساڑھے سترہ گھنٹے میں طے کرکے ملاقات کے لئے پہنچے تھے۔

ملک گیمبیا سے تعلق رکھنے والے ایک دوست ایبوجفوصاحب جو آجکل امریکہ میں MINNESOTA میں مقیم ہیں۔ اپنی ملاقات کا حال بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ یہ میری زندگی کی پہلی ملاقات تھی۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ میں اس کو بیان کرسکوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میری آواز بند نہیں ہوئی اور میں اپنے پیارے امام سے بات کرسکا۔میں نے حضورِانور کے گرد ایک خاص روشنی دیکھی ہے۔ میں نے حضورِانور سے درخواست کی کہ میرا انشورنس کا بزنس ہے۔ اس کے لئے کوئی نام تجویز فرمادیں۔ حضور نے ازراہِ شفقت میرے بزنس کا نام میرے ہی نام پر تجویز فرمایا۔

ایک دوست مصور رانا صاحب جو جماعت سان آنٹونیو سے آئے تھے، بیان کرتے ہیں کہ خلیفہ وقت سے پہلی بار ملاقات ایک ایسا امر ہے جس کو کوئی شخص الفاظ میں ڈھال نہیں سکتا۔ ایک عجیب سا سکون محسوس کررہا ہوں۔

شعیب احسن صاحب جو آسٹن (AUSTIN) جماعت سے ملاقات کے لئے آئے تھے۔ کہتے ہیں کہ حضور کا دفتر الٰہی نور سے بھرا ہوا تھا جسے ہر آنکھ مشاہدہ کر سکتی ہے۔ میری اہلیہ بہت گھبرائی ہوئی تھیں۔ حضورِانور نے ان کو تسلی دی اور فرمایا گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ پھر میں نے عرض کیا کہ ہمارا بیٹا وقف نو ہے اور ہماری یہ خواہش ہے کہ وہ بڑا ہو کر ایک کامیاب مبلغ اور واقف زندگی بنے۔ اس پر حضورِانور نے ازراہِ شفقت ہمارے بیٹے سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ جب تم گیارھویں جماعت میں پہنچو اور تمہارا اپنا دل کرے مربی بننے کا تو ضرور بنو۔ اپنے والدین کے دبائو میں نہیںآنا بلکہ خود فیصلہ کرنا ہے کہ تم نے کیا بننا ہے۔ اگر ڈاکٹر بننا چاہو تو وہ بن جائو۔ یہ تمہاری اپنی چوائس ہے۔

صباء رؤف صاحبہ اپنی فیملی کی حضورِانور سے ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ حضورِانور کے دفتر میں داخل ہوتے ہی جب میری نظر حضورِانور کے چہرہ مبارک پر پڑی تب سے لے کر اب تک میرے وجود پر ایک رقت طاری ہے۔ میں حضورِانور سے کچھ نہ کہہ سکی۔ حضورِانور نے پہلے اپنا دست شفقت میرے بچوں کے سر پر رکھا۔ پھر مجھے بلا کر ایک نہایت ہی شفیق باپ کی طرح میرے سر پر بھی اپنا دست مبارک رکھا۔ میں اُس منظر کو بیان نہیں کرپارہی۔ آنکھوں کے سامنے وہ منظر آجاتا ہے تو رو پڑتی ہوں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے حضورِانور سے مل کر وقت رُک سا گیا ہے اور جیسے آج ایک نئی روح خدا تعالیٰ نے ہمارے اندر پھونک دی ہے۔ اپنے آقا کے دیدار کی برسوں سے جو تشنگی تھی وہ آج دور ہوئی۔

موصوفہ کی پندرہ سالہ بیٹی نور العرفان ربانی کہتی ہیں کہ میں جیسے ہی حضورِانور کے دفتر میں داخل ہوئی اور حضورِانور کے نورانی چہرہ پر نظر پڑی۔ اُس وقت سے لے کر باہر آنے تک مسلسل میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ حضورِانور نے ازراہِ شفقت اور پیار سے میرے بھائی اور بہن کے سر پر بھی ہاتھ پھیرا اور ہم تینوں کو قلم اور چاکلیٹ بھی عطافرمائے۔

ڈانیل بروک صاحب جن کا تعلق جماعت آسٹن (AUSTIN) سے ہے۔ کہنے لگے آج زندگی میں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ میری پہلی ملاقات تھی۔ خاکسار نے گیارہ سال قبل احمدیت قبول کی تھی۔ آج کا دن میری زندگی کا اہم دن تھا۔ میری خوشی کی انتہاء نہ تھی۔ میں چونکہ اب ریٹائرڈ ہوچکا ہوں لہٰذا حضور نے مجھے ارشاد فرمایا کہ اردو اور عربی زبان سیکھنے کے ساتھ ساتھ اپنی روحانیت کی طرف خاص توجہ کروں۔

ایک دوست اوصاف ملک صاحب بیان کرتے ہیں کہ ہم ملاقات سے قبل بہت زیادہ گھبرائے ہوئے تھے لیکن جیسے ہی ملاقات کے لئے حضورِانور کی خدمت میں حاضر ہوئے سب گھبراہٹ خودبخود دور ہوگئی۔ میری بیٹی کے ہاتھ اب بھی کانپ رہے ہیں لیکن یہ اس لئے نہیں کانپ رہے کہ کوئی خوف ہے یا ڈر ہے بلکہ خوشی کی انتہاء کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے۔

ایک صاحب محمود اسلم قمر صاحب BAY POINT (کیلیفورنیا)سے ملاقات کے لئے آئے تھے۔ وہ کہنے لگے، میں چار سال قبل اپنی فیملی کے ساتھ امریکہ ہجرت کرکے آیا ہوں اور آج ہم کتنے خوش قسمت ہیں کہ ہماری حضورِانور سے ملاقات ہوئی۔ ہم نے جب حضورِانور کو قریب سے دیکھا تو ایک ایسا دلکش منظر تھا کہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ جیسے خدا کے فرشتوں نے خلیفہ وقت کو گھیرا ہوا تھا۔

حسن طاہر صاحب بیان کرتے ہیں کہ خلیفہ وقت سے ملاقات کے یہ چند لمحات لاریب میری زندگی کا خلاصہ اور سب سے بہترین لمحات ہیں۔

خرم شہزاد صاحب جو UTAH سٹیٹ سے آئے تھے۔ ملاقات کے بعد کہنے لگے۔ ہم نے حضورِانور کو TV پر ہی دیکھا ہے۔ آج جب اپنی آنکھوں سے اپنے سامنے دیکھا تو ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے شاید کوئی خواب ہے جو ہم دیکھ رہے ہیں۔ اب بھی یقین نہیں آرہا ہے کہ حضورِانور سے مل کر آئے ہیں۔ میں نے حضورِانور کی خدمت میں عرض کیا کہ ہم ربوہ سے آئے ہیں۔ اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ اللہ کا شکر ہے کہ آپ خیریت سے یہاں پہنچ گئے ہیں۔ لیکن اب ہر ممکن کوشش کرنی ہے کہ ACTIVE ہو کر جماعت کے ساتھ رابطہ میں رہنا ہے۔

ملاقات کرنے والے ایک دوست مرزا محمد عارف صاحب بیان کرتے ہیں کہ ہماری حضورِانور سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ گو کہ ملاقات مختصر تھی لیکن یوں لگتا ہے جیسے ہم ایک خزانہ سمیٹ کر ساتھ لائے ہیں۔ میرا بیٹا ابھی بولتا نہیں ہے۔ اس کی بابت میں نے حضورِانور کی خدمت میں دعا کے لئے عرض کیا تو حضورِانور نے فرمایا کہ محبت اور شفقت سے اس بیٹے کے ساتھ بات کرتے رہیں۔ اللہ تعالیٰ فضل فرمادے گا۔ انشاء اللہ۔

سائوتھ پیسفک کے جزیرہ ملک مارشل آئی لینڈز (MARSHAL ISLANDS) سے بہت سے احمدی احباب نقل مکانی کرکے امریکہ کے صوبہ ARKANSAS میں آکر آباد ہوئے ہیں۔ آج یہاں سے اٹھارہ افراد پر مشتمل وفد 918 کلومیٹر کا طویل سفر بذریعہ سڑک بارہ گھنٹے میں طے کرکے ہیوسٹن پہنچا تھا۔ ان خوش نصیب لوگوں نے اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ خلیفۃالمسیح کا دیدار کیا۔ انہوں نے حضورِانور کی اقتداء میں نمازیں ادا کیں اور نمازِجمعہ بھی ادا کرنے کی توفیق پائی۔ یہ لوگ بدھ کی رات ہیوسٹن پہنچے تھے۔ آج ان کی حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات بھی ہوئی۔ ان کے علاقہ کے مبلغ بتاتے ہیں جب حضورِانور سے ملاقات کا وقت قریب آرہا تھا۔ ان کے چہرے خوشی سے چمک اُٹھے تھے۔ مارشلیز قوم کے یہ لوگ بھی آج اپنی زندگیوں میں پہلی مرتبہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے چشمہ سے سیراب ہورہے تھے۔

حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان سب کا حال دریافت فرمایا، ان سے گفتگو فرمائی اور ان سے نقل مکانی کے بارہ میں دریافت فرمایا۔ ان سبھی لوگوں نے اپنے آقا کے ساتھ تصاویر بنوانے کی سعادت بھی پائی۔

ملاقات کے بعد ایک خاتون LIN AMLEK صاحبہ کہنے لگیں کہ ملاقات کے دوران میرے لئے اپنے جذبات پر قابو پانا مشکل تھا۔ ایک دوسری خاتون ARLYNN MISSION صاحبہ نے عرض کیا کہ ملاقات کے دوران میرے آنسو جاری تھے۔

ایک دوست RENNY LUTHER صاحب کہنے لگے کہ آج خلیفۃ المسیح سے ملاقات میری زندگی کے نہایت خوبصورت لمحات تھے۔ ایک صاحب ANTON MARQUEZ صاحب نے بتایا کہ میں تو اپنی جگہ پر ساکت ہوگیا اور حضورِانور کے چہرے کو دیکھتا رہا اور کچھ بھی کہہ نہ پایا۔

آج کی اس ملاقات نے ان لوگوں کے خلافت کے ساتھ تعلق کو بہت مضبوط کیا ہے۔ یہ لمحات ان کو ہمیشہ یاد رہیں گے۔ ان لوگوں میں جو ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا ہوا ہے اب اس ذریعہ سے انشاء اللہ مارشلی کمیونٹی میں تبلیغ کے مزید راستے کھلیں گے۔

ان لوگوں نے تین سے چار دن یہاں قیام کیا۔ یہ لوگ بھی دوسرے احمدیوں کی طرح اُن راہوں پر کھڑے ہو جاتے جہاں سے حضورِانور نے مسجد یا اپنے دفتر آتے اور جاتے ہوئے گزرنا ہوتا۔

ایک نواحمدی خاتون ARLYNN نے اپنے مبلغ کو بتایا کہ میں بھی راستہ میں حضورِانور کے دیدار کے لئے کھڑی تھی۔ جب حضور کو اپنے سامنے سے گزرتے ہوئے دیکھا تو میرے جسم پر سکتا طاری ہوگیا اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ میرے قدم رُک گئے ہیں اور میں چلنا بھول گئی ہوں۔ میرے اندر کی عجیب کیفیت تھی۔ ایک خاص احساس تھا جو میں اپنے اندر محسوس کررہی تھی۔

ملاقاتوں کا یہ پروگرام تین بجے تک جاری رہا۔

………………(جاری ہے)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button