خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 04؍ جنوری 2019ء

(امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بںصرہ العزیز)

بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔

آج 2019ء کا پہلا جمعہ ہے۔ اس حوالے سے میں تمام دنیا کے احمدیوں کو پہلے تو نئے سال کی مبارکباد دینا چاہتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ یہ سال ہمارے لئے مبارک کرے اور بے شمار کامیابیاں لے کر آئے۔ لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ صرف رسمی مبارکباد کہہ دینے کا تو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ نہ ہی رسمی مبارکباد اللہ تعالیٰ کی رضا کو حاصل کرنے والا بناتی ہے۔ سال کی حقیقی مبارکباد یہ ہے کہ ہم یہ عہد کریں کہ اللہ تعالیٰ نے جو ہمیں ایک اور سال کا سورج دکھایا ہے، اس میں داخل کیا ہے تو اس میں ہم اپنے اندر کی کمزوریوں اور اندھیروں کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ گزشتہ سال میں جو کمیاں اور کوتاہیاں ہو گئی ہیں ہم یہ عہد کریں کہ ہم انہیں دور کریں گے۔ اپنے اندر پہلے سے بڑھ کر وہ پاک تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش کریں گے جس کے حصول کے لئے ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عہد بیعت باندھا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک موقع پر یہ بیان فرماتے ہوئے کہ ایک احمدی کو کیسا ہونا چاہئے فرمایا کہ

’’آدمی کو بیعت کر کے صرف یہی نہ ماننا چاہئے کہ یہ سلسلہ حق ہے اور اتنا ماننے سے اسے برکت ہوتی ہے۔‘‘ فرمایا کہ ’’… کوشش کرو کہ جب اس سلسلہ میں داخل ہوئے ہو تو نیک بنو۔ متقی بنو۔ ہر ایک بدی سے بچو۔ … رات اور دن تضرع میں لگے رہو … زبانوں کو نرم رکھو۔ استغفار کو اپنا معمول بناؤ۔ نمازوں میں دعائیں کرو۔‘‘ نمازوں میں دعائیں تبھی ہوں گی جب نمازوں کا حق ادا کرنے والے ہوں گے۔ انہیں سنوار کر پڑھنے والے ہوں گے۔ فرمایا کہ ’’… نرا ماننا انسان کے کام نہیں آتا … خدا تعالیٰ صرف قول سے راضی نہیں ہوتا قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے ایمان کے ساتھ عمل صالح بھی رکھا ہے۔‘‘ فرمایا ’’عمل صالح اسے کہتے ہیں جس میں ایک ذرّہ بھر فساد نہ ہو۔‘‘(ملفوظات جلد 4 صفحہ 274-275۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)پس یہ معیار ہے، یہ لائحہ عمل ہے جس پر اگر ہم اس سال میں عمل کرنے والے ہوں گے، ان باتوں کے حصول کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتیں استعمال کرنے کی کوشش کریں گے تو یقیناً یہ سال ہمارے لئے مبارک اور بہت سی برکتیں لانے والا سال ہو گا۔ اور اگر یہ نہیں تو جیسا کہ مَیں نے کہا ہمارے نئے سال کی مبارکباد رسمی مبارکباد ہے۔ نئے سال کے آغاز کی پہلی رات میں تہجد اور باجماعت فجر کی نماز پڑھ لینا تمام سال کی نیکیوں پر حاوی نہیں ہو جاتا بلکہ اس کوشش کو حتی المقدور تمام سال پر جاری رکھنا اصل نیکی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے اور حقیقت میں ہماری ذاتی زندگیوں میں بھی یہ سال بے شمار برکات لانے والا بنے اور جماعت کی غیر معمولی ترقیات بھی ہم دیکھنے والے ہوں۔

اس کے بعد اب میں آج کے دوسرے مضمون کی طرف آتا ہوں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ جنوری سے وقف جدید کا سال شروع ہوتا ہے اور جنوری کے پہلے یا دوسرے خطبہ میں عموماً وقف جدید کے سال کا اعلان ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے مالی قربانی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کا ایک خاص امتیاز ہے۔ اور کیوں نہ ہو کہ اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات اور ارشادات کی روشنی میں اس مالی قربانی کا خاص ادراک ہمیں عطا فرمایا ہے۔ قرآن کریم میں متعدد جگہ اللہ تعالیٰ نے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے، اس لئے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کو ہمارے مال کی ضرورت ہے بلکہ اس لئے کہ اس سے ہمیں فائدہ پہنچتا ہے۔ اور مجموعی لحاظ سے جماعتی ترقیات کو بھی ہم دیکھتے ہیں۔ جماعت کو بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ فَاتَّقُوا للّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَ اسْمَعُوْا وَ اَطِیْعُوْا وَ اَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِکُمْ۔ وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (التغابن17:) یعنی پس اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جس حد تک تمہیں توفیق ہے اور سنو اور اطاعت کرو اور خرچ کرو یہ تمہارے لئے بہتر ہو گا۔ اور جو نفس کی کنجوسی سے بچائے جائیں تو یہی ہیں وہ لوگ جو کامیاب ہونے والے ہیں۔ پھر اگلی آیت میں فرمایا کہ اِنْ تُقْرِضُوا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعِفْہُ لَکُمْ وَ یَغْفِر لَکُمْ وَ اللّٰہُ شَکُوْرٌ حَلِیْمٌ (التغابن18:)اگر تم اللہ کو قرضۂ حسنہ دو گے تو وہ اسے تمہارے لئے بڑھا دے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بہت قدر شناس اور بردبار ہے۔

پس اللہ تعالیٰ بڑھا چڑھا کر دیتا ہے جو اس کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔ اس مالی قربانی سے انفرادی فائدہ بھی ہے اور جماعت کی ترقی بھی ہے جو پھر افراد کی ترقی کا ذریعہ بھی بنتی ہے۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بخل سے بچو۔ یہ بخل ہی ہے جس نے پہلی قوموں کو ہلاک کیا۔(سنن ابو داؤد کتاب الزکاۃ باب فی الشح حدیث 1698) اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا کہ آگ سے بچو خواہ آدھی کھجور خرچ کرنے کی استطاعت ہو۔(صحیح البخاری کتاب الزکاۃ باب اتقواالنار ولو بشق تمرۃ … الخ حدیث 1417)

یہ معمولی خرچ بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے دینا آگ سے بچاتا ہے۔ پس یہ مالی قربانیاں ہمیں فائدہ پہنچانے کے لئے ہیں۔ اس مالی قربانی کی اہمیت کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ

’’تمہارے لئے ممکن نہیں کہ مال سے بھی محبت کرو اور خدا سے بھی۔ صرف ایک سے محبت کر سکتے ہو۔‘‘ فرمایا ’’پس خوش قسمت وہ شخص ہے کہ خدا سے محبت کرے۔ اور اگر کوئی تم میںسے خدا سے محبت کر کے اس کی راہ میں مال خرچ کرے گا تو مَیں یقین رکھتا ہوں کہ اس کے مال میں بھی دوسروں کی نسبت زیادہ برکت دی جائے گی۔ کیونکہ مال خود بخود نہیں آتا بلکہ خدا کے ارادہ سے آتا ہے۔ پس جو شخص خدا کے لئے بعض حصہ مال کا چھوڑتا ہے وہ ضرور اسے پائے گا۔ لیکن جو شخص مال سے محبت کر کے خدا کی راہ میں وہ خدمت بجا نہیں لاتا جو بجالانی چاہئے تو وہ ضرور اس مال کو کھوئے گا۔‘‘ ضائع ہو جائے گا۔ فرمایا کہ ’’یہ مت خیال کرو کہ مال تمہاری کوشش سے آتا ہے بلکہ خدا تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے۔ اور یہ مت خیال کرو کہ تم کوئی حصہ مال کا دے کر یا کسی اَور رنگ سے کوئی خدمت بجا لا کر خدا تعالیٰ اور اس کے فرستادہ پر کچھ احسان کرتے ہو، بلکہ یہ اس کا احسان ہے کہ تمہیں اس خدمت کے لئے بلاتا ہے۔‘‘ فرمایا ’’… تم یقیناً سمجھو یہ کام آسمان سے ہے اور تمہاری خدمت صرف تمہاری بھلائی کے لئے ہے۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد 3 صفحہ 497-498)

اللہ تعالیٰ کے فضل سے قربانیوں اور خدمت کی اس روح کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے والوں نے سمجھا اور خوب سمجھا اور بڑھ چڑھ کر قربانی کی طرف توجہ دیتے ہیں۔ نہ صرف یہ کہ جو ایک عرصے سے احمدیت کو قبول کئے ہوئے ہیں بلکہ نومبائعین بھی بیعت کے بعد اس مالی قربانی کی روح اور حقیقت کو سمجھتے ہیں۔ ایسے بھی ہیں جو انتہائی غربت کی زندگی گزار رہے ہیں لیکن مالی قربانیوں میں کسی سے پیچھے نہیں رہنا چاہتے اور اسی طرح قربانیاں کرتے ہیں جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت میں آپؑ کے صحابہ نے کیں۔ بعض ایسے نمونے بھی ہیں اور جن کے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس وقت فرمایا تھا کہ میں اپنی جماعت کے محبت اور اخلاص پر تعجب کرتا ہوں کہ ان میں سے نہایت ہی کم معاش والے ہیں۔ پھر آپؑ نے مثال دی، فرمایا جیسے میاں جمال الدین اور خیر الدین ہیں اور امام الدین کشمیری ہیں۔ فرمایا کہ یہ میرے گاؤں کے قریب رہنے والے ہیں وہ تینوں بھائی جو شاید تین چار آنہ روزانہ مزدوری کرتے ہیں سرگرمی سے ماہواری چندے دیتے ہیں چندے میں شریک ہیں۔ (ماخوذ از ضمیمہ رسالہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد 11 صفحہ 313 حاشیہ)

ان بزرگوں کی اس وقت اشاعت دین کے لئے یہ قربانیاں ہیں جو آج ان کی اولادیں اور ان کی نسلیں کشائش سے زندگی بسر کر رہی ہیں۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ یہی روح ہمیں آج بھی نظر آتی ہے بعض جگہ پہ بلکہ بہت سی جگہوں پہ اور دور دراز کے رہنے والے غریب لوگوں میں نظر آتی ہے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے زمانے سے سو سال بعد پیدا ہوئے یا احمدی ہوئے اور کبھی خلیفہ وقت سے براہ راست ملے بھی نہیں۔ لیکن دین کی محبت، خلافت کی اطاعت، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عہد وفا اور عہد بیعت، دین کی خاطر قربانی کا جذبہ اس قدر بڑھا ہوا ہے کہ حیرت ہوتی ہے۔ اگر صرف اسی بات کو ہی دیکھا جائے تو یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کی ایک دلیل ہے۔ اور یہ جذبہ سوائے خدا تعالیٰ کی ذات کے کوئی دلوں میں پیدا نہیں کر سکتا۔ بعض لوگوں کی قربانیوں اور اللہ تعالیٰ کے ان سے سلوک کے واقعات ہیں ان میں سے چند ایک پیش کرتا ہوں۔

گھانا کے ایک دوست فَرِمْ پونگ (Frimpong)صاحب کہتے ہیں کہ چند سال پہلے میں نے اپنی تعلیم کے حوالے سے پانچ ہزار پاؤنڈ فیس ادا کرنی تھی۔ اُس وقت میں کام بھی کر رہا تھا لیکن میری تنخواہ اتنی نہیں تھی۔ اگر میں بارہ مہینوں کی تنخواہ بھی جمع کر لیتا تو اتنی رقم نہیں بنتی تھی۔ بہرحال مجھے بنک سے تین ہزار پاؤنڈ کا قرض مل گیا اور میری تنخواہ کا چالیس فیصد ہر ماہ قرض کی ادائیگی میں چلا جاتا لیکن پھر بھی میں چندہ بھی پوری تنخواہ پر ادا کرتا تھا۔ یہ پرواہ نہیں کی کہ چالیس فیصد چلا جاتا ہے۔ کہتے ہیں ایک دن میں کُماسی مشن ہاؤس گیا۔ کماسی گھانا کا ایک شہر ہے، تو سرکٹ مشنری نے میرے وقف جدید کے وعدے کے حوالے سے یاددہانی کروائی۔ اس وقت میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا تو میرے وعدے کے مطابق رقم موجود تھی لیکن میں نے سوچا کہ اگر یہ رقم چندے میں ادا کر دی تو میرے پاس جاب پر جانے کے لئے باقی دنوں میں کرائے کے پیسے بھی نہیں بچیں گے۔ کہتے ہیں بہرحال میں نے وہ رقم اُسی وقت چندے میں ادا کر دی۔ میں مشن ہاؤس سے گھر واپس جا رہا تھا تو فون پر میسج آیا کہ میرے بنک اکاؤنٹ میں کچھ رقم منتقل ہوئی ہے جو اس سے پانچ گنا زیادہ تھی جو میں نے چندے میں ادا کی تھی۔ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ بڑھا کر لوٹاتا ہے۔ کہتے ہیں مَیں نے سوچا کہ شاید بنک کی طرف سے غلطی سے یہ رقم آ گئی ہو جو وہ بعد میں واپس لے لیں گے کیونکہ تنخواہ تو پہلے ہی میرے اکاؤنٹ میں آ چکی تھی لیکن اگلے رو ز جب میں کام پر گیا تو پتہ چلا کہ گورنمنٹ کی طرف سے یہ رقم ملی تھی جو گزشتہ مہینوں کے بقایا جات تھے۔ اس پر میں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے خوف کے باوجود چندے کی رقم ادا کرنے کی ہمت عطا فرمائی۔ اس دن کے بعد پھر ہمیشہ میں اپنے وعدہ جات اور چندہ کی ادائیگی کی طرف بڑی توجہ دیتا ہوں۔ یہ افریقہ کے ہیں۔ دور دراز ملک میں رہنے والے ہیں۔

بورکینا فاسو افریقہ کا ایک اور ملک ہے جو فرنچ بولنے والوں کا ملک ہے۔ وہاں کے بوبوجلاسو (Bobo-Dioulasso) کے مبلغ لکھتے ہیں۔ یہ وہاں کے شہر کا نام ہے کہ ایک نَو مبائع خادم زودی (zodi)صاحب کچھ عرصہ سے ذہنی بیماری کی وجہ سے پریشان تھے اور نیند کی گولیاں استعمال کرتے تھے۔ ڈیپریشن ہوا اور وہ بہت زیادہ بڑھ گیا تھا۔ ایک دن ہمارے ہاں مشن ہاؤس آئے اور کہنے لگے کہ ان کا چندہ وقف جدید اور تحریک جدید کتنا ہے وہ ادا کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارے مشنری نے بتایا کہ یہ چندہ آپ حسب توفیق جتنا بھی ادا کرنا چاہیں ادا کر دیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ معیاری چندہ کتنا ہے؟ مشنری نے ان کو بتایا۔ انہوں نے خوشی خوشی چندہ ادا کیا اور چلے گئے۔ کچھ دن کے بعد پھر مشن ہاؤس آئے اور کہنے لگے کہ میں بیمار تھا اور چندے کی برکت سے اب میری حالت بہت بہتر ہے۔ میں نے نیند کی گولیاں کھانی بھی چھوڑ دی ہیں اور دلی سکون محسوس کررہا ہوں۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف رغبت پیدا ہوئی۔ چندہ دیا، عبادت کی طرف توجہ پیدا ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے پھر فضل فرمایا جبکہ اس سے پہلے ان کی یہ حالت تھی کہ خود کشی کرنے کی طرف مائل ہو گئے تھے۔

یوکے کے ہی ایک دوست ہیں، وہ کہتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے مجھے فون پر چندہ تحریک جدید ادا کرنے کی یاددہانی کرائی گئی اور بتایا گیا کہ گزشتہ سال مَیں نے اتنی رقم ادا کی تھی۔ اس پر میں نے گزشتہ سال سے کچھ بڑھا کر دینے کا وعدہ کیا۔ اس وقت میرے پاس پیسے بالکل نہیں تھے۔ مَیں نے دعا کرنی شروع کی کہ اللہ تعالیٰ کہیں سے خود ہی انتظام فرما دے۔ چنانچہ کہتے ہیں دو ہفتے کے بعد ٹیکس ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے مجھے خط موصول ہوا۔ میں نے دوران سال ٹیکس زیادہ دیا ہوا تھا اور وہ یہ رقم واپس کر رہے تھے۔ میں خود اکاؤنٹنٹ ہوں اور مجھے اپنے ٹیکس وغیرہ کے حساب کا اچھی طرح علم ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر رقم کا یہ انتظام کر دیا کیونکہ میرے حساب سے تو پورا ٹیکس دیا گیا تھا۔ کہتے ہیں اس کے چند مہینے بعد صدر صاحب نے دوبارہ فون کیا، چندہ وقف جدید کے حوالے سے یاددہانی کروائی اور بتایا کہ گزشتہ سال میں نے اتنا چندہ ادا کیا تھا۔ اس پر میں نے گزشتہ سال کی نسبت کچھ بڑھا کر وعدہ لکھوا دیا۔ اتفاق سے اس وقت بھی میرے پاس پیسے نہیں تھے۔ پھر میں سوچنے لگا کہ پہلے تو اللہ تعالیٰ نے ٹیکس ریٹرن (tax return)کی رقم بھجوا دی تھی اب بظاہر کوئی صورت نظر نہیں آ رہی ۔ پھر کہتے ہیں میں دعا میں لگ گیا۔ ایک ہفتہ بعد ہی میں اپنے کاغذات دیکھ رہا تھا تو مجھے ایک بِل نظر آیا جس کے ساتھ کچھ آفر (offer)بھی تھی۔ میں نے کمپنی والوں کو فون کیا تو اس آفر کے مطابق مجھے پری پیڈ (pre-paid)کارڈ بنوا کر بھجوا دیا گیا اور اُس میں اُس سے زیادہ رقم موجود تھی جو میں نے چندے میں ادا کرنی تھی۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے وقف جدید کے چندے کا انتظام کر دیا۔ یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ صرف افریقہ میں نظارے دکھاتا ہے، بلکہ ہر جگہ جو نیک نیتی سے چندہ ادا کرنا چاہیں وہ ان کو ایسے نظارے دکھاتا ہے۔

بورکینا فاسو سے بشارت علی صاحب مبلغ ہیں، کہتے ہیں کہ بورو مو (Boromo) ریجن کے ایک نومبائع احمدی کونے آدم (Kone Adama) صاحب کو گزشتہ سال وقف جدید کی تحریک کی گئی۔ اس پر انہوں نے جو ہر سال گاؤں کے مولوی کو دیتے تھے وہ چندے میں دے دیا۔ مسلمان تھے۔ بیعت کر لی تو انہوں نے کہا میں مولویوں کو دیتا تھا وہ چندے میں دے دیا۔ اُن کے والد کو اس کا علم ہوا تو بڑے ناراض ہوئے اور زمین کا ایک حصہ ان کو دے کر ان کو الگ کر دیا۔ کہتے ہیں اس سال انہوں نے ا پنی فصل لگائی۔ اللہ کے فضل سے بہت اچھی فصل ہوئی اور بعض جگہ زیادہ بارشیں ہونے کی وجہ سے فصلیں خراب ہوئی تھیں لیکن ان کی جو پانی والی جگہ کی فصل تھی وہ بھی خراب نہیں ہوئی جبکہ ان کے والد اور باقی رشتہ داروں کی فصلیں زیادہ بارش کی وجہ سے خراب ہو گئیں۔ انہوں نے اپنے والد کی فصل دوبارہ لگانے میں ان کی مدد بھی کی اور اپنی اچھی فصل سے بھی اُن کو حصہ دیا۔ یہ مسلمان تھے اور مسلمانوں سے احمدی ہوئے تھے تو اس پر ان کے والد نے کہا کہ یقیناً تمہاری جماعت کو چندہ دینے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے تم پر اپنا فضل کیا ہے۔ والد نے اس بات کو تسلیم کیا اور یہ بھی کہا کہ تمہاری جماعت سچی ہے تم اس پر قائم رہنا۔ میری مجبوری ہے کہ میں مولوی کو چھوڑ نہیں سکتا۔ بعض پرانی رسمیں روایتیں ہیں جنہوں نے ان لوگوں کو باندھا ہوا ہے۔ اور اِس سال بھی انہوں نے اپنا چندہ دوگنا ادا کیا ہے۔

گیمبیا (Gambia) کیانگ (Kiang)ڈسٹرکٹ کے ایک گاؤں میں جماعت کے مخالفین نے ممبران کو احمدیت سے ہٹانے کی کوشش کی اور دعویٰ کیا کہ وہ سب احمدیوں کو احمدیت سے ہٹا دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ اس پر ہمارے ایک احمدی ممبر جالو نے معلم صاحب کو بتایا کہ مخالفین کی یہ کوشش ایک کھاد کا کام کر رہی تھی کیونکہ اس مخالفت سے پہلے مَیں فعال احمدی نہیں تھا لیکن اب نہ صرف چندہ وقف جدید اور تحریکات کا ادا کر رہا ہوں بلکہ وصیت کی بابرکت سکیم میں بھی مَیں شامل ہو گیا ہوں۔ تو مخالفین تو جماعت کو مٹانا چاہتے تھے لیکن اس مخالفت نے کچھ احمدیوں کو ایمان میں پہلے سے کئی گنا بڑھا دیا۔

گنی کناکری ایک ملک ہے وہاں کے ایک دوست اکوبی (Akobi) صاحب کہتے ہیں کہ مشنری انچارج نے جب وقف جدید کے حوالے سے گزشتہ سال کا میرا خطبہ جمعہ، جس میں چند مالی قربانیوں کے واقعات بیان کئے تھے وہ سنایا۔ تو کہتے ہیں میرے دل پر اس کا بڑا اثر ہوا۔ اگلے دن اپنے کاروبار کے سلسلہ میں مَیں سیرالیون جا رہا تھا۔ میرے پاس سفر کے لئے صرف تین سو ڈالر تھے اور مجھے پیسوں کی کافی ضرورت تھی لیکن اس کے باوجود میں نے تین سو ڈالر میں سے ایک سو ڈالر علیحدہ کر کے لفافے میں ڈال دیا کہ یہ مَیں وقف جدید میں ادا کر دوں گا۔ اس کے بعد میں دوسرے کاموں میں لگ گیا اور لفافہ بھجوانا بھول گیا۔ کہتے ہیں ابھی اس بات کو دو گھنٹے ہی گزرے تھے کہ ایک شخص میرے دفتر میں داخل ہوا اور مجھے ایک لفافہ دیتے ہوئے کہنے لگا کہ یہ آپ کے فلاں دوست نے بھجوایا ہے۔ جب میں نے لفافہ کھول کر دیکھا تو اس میں تین سو ڈالرز تھے اور لکھا ہوا تھا کہ تم سفر پر جا رہے ہو یہ تمہارے سفر خرچ کے لئے بھجوا رہا ہوں۔ اس پر مجھے فورًا یاد آیا کہ میں نے تو ابھی وہ رقم بھجوائی بھی نہیں تھی کہ اللہ تعالیٰ نے کئی گنا بڑھا کر مجھے لوٹا دی اور پھر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی حمد سے میرا دل بھر گیا کہ اس نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیاری جماعت میں شامل ہونے کی توفیق عطا فرمائی ہے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ لوگوں کے ایمان بڑھاتا چلا جا رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جو فرمایا ناں کہ مال اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے، اِس بات کی ان کو سمجھ آ رہی ہے۔

بینن کی ریجن بوھیکوں (Bohicon) کے مبلغ لکھتے ہیں کہ بوھیکوں (Bohicon) ریجن کی ایک جماعت ابومے(Abomey) کے صدر اہونگان جیسک (Ahouangan Jacques)صاحب کہتے ہیں کہ ان کے ذمہ ایک بڑی رقم قرض کی تھی جو ادا نہیں ہو رہی تھی۔ اسی دوران ان کے حلقے کے معلم نے چندہ وقف جدید کی طرف توجہ دلاتے ہوئے بتایا کہ سال ختم ہو رہا ہے اور جس جس نے ابھی تک اپنی ادائیگی مکمل نہیں کی وہ جلد جلد مکمل کریں۔ صدر صاحب کہتے ہیں کہ میرے پاس اس وقت زیادہ پیسے نہ تھے لیکن قرض کے علاوہ یہ فکر بھی لگ گئی کہ وقف جدید کا چندہ بھی دینا ہے۔ چنانچہ اسی وقت میری جیب میں جو پانچ سو فرانک تھے وہ اس چندے میں دے دئے اور گھر چلا گیا۔ دعا کرتا رہا کہ قرض ہے وہ کیسے ادا ہو گا۔ کہتے ہیں کہ اگلے ہی دن مجھے ایک کام ملا جو کہ چند دن کا تھا اور اس کی اجرت جو مقرر کی گئی وہ میرے قرض کی رقم سے کچھ زیادہ تھی اس لئے میں نے کام کی حامی بھر لی اور چند دن میں وہ کام ختم ہو گیا۔ سارا قرض بھی ادا ہو گیا اور گھر کے راشن کا بھی بندوبست ہوگیا۔ کہنے لگے کہ اب میں سمجھتا ہوں کہ یہ چندے کی برکت ہے۔ یہ لوگ ان باتوں کو اتفاق نہیں سمجھتے بلکہ یہی سمجھتے ہیں کہ یقیناً اللہ تعالیٰ ان کے انتظام کر رہا ہے۔

مالی کے ریجن سکاسو(Sikasso) کے مبلغ کہتے ہیں کہ ایک نومبائع ابوبکر نے بتایا کہ احمدیت قبول کرنے کے بعد چندہ جات کی عجیب برکتوںکو میں نے محسوس کیا ہے۔ میرا ایک بیٹا ہر سال بارشوں کے موسم میں شدید بیمار ہو جاتا تھا جس کے علاج پر بھاری رقم خرچ ہوتی تھی اور پریشانی اور کام سے چھٹیاں علیحدہ لینی پڑتی تھیں۔ لیکن جب سے میں نے چندے کی ادائیگی شروع کی ہے اللہ تعالیٰ کا فضل ہے وہ لڑکا بیمار نہیں ہوا اور اس بات میں مجھے ذرا بھی شک نہیں کہ یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی وجہ سے ہوا ہے۔

آئیوری کوسٹ کے ریجن سان پیدرو (San-Pédro)کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک گاؤں کاں اِیلیفاں (Kamp Elephant) میں چند افراد کو قبول احمدیت کی توفیق ملی تھی۔ دوران سال نومبر 2018ء میں اس جماعت کا دورہ کیا۔ وہاں رات قیام کیا۔ رات دیر تک تبلیغ جاری رہی اور غیر احمدی احباب کی بھی ایک بڑی تعداد نے اس پروگرام میں شرکت کی۔ اس کے بعد ایک احمدی دوست کے گھر میں ہی نماز فجر ادا کی گئی جس میں احمدی احباب نے شرکت کی اور ان چند احمدی احباب کو درس کے بعد بتایا گیا کہ اگلا مہینہ وقف جدید کے چندے کے حوالے سے آخری مہینہ ہے اور اس میں تمام احمدی افراد کوشش کر کے شامل ہوں۔ چنانچہ درس کے بعد لوگ گھروں میں چلے گئے۔ کہتے ہیں میں سوچ رہا تھا کہ غریب سی جگہ ہے۔ گاؤں ہے۔ زیادہ نہ سہی تو پانچ ہزار فرانک سیفا چندہ ان کی طرف سے آ جائے گا اور ان لوگوں کے حساب سے یہ کافی ہو گا لیکن کہتے ہیں جب واپس آنے لگا تو میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب ایک دوست میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ہم معذرت چاہتے ہیں کہ فی الحال ابھی فصل تیار نہیں ہے اور حالات ابھی تنگ ہیں اس لئے صرف سترہ ہزار فرانک سیفہ کی رقم پیش کر رہے ہیں۔ اور ساتھ ہی کہنے لگے کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ ہمارے کاروبار، میں فصلوں میں برکت دے تا کہ ہم زیادہ چندہ ادا کر سکیں۔

انڈیا سے ایک انسپکٹر اقبال صاحب لکھتے ہیں کہ کاموریڈی جماعت میں وقف جدید کے حوالے سے تحریک کی گئی۔ ایک نوجوان نے اسی وقت اپنے مکمل چندے کی ادائیگی کر دی۔ بعدازاں اسی دن انہیں ایک کافی موٹی رقم ملنے کی اطلاع ملی جس کا وہ آٹھ سال سے زائد عرصے سے انتظار کر رہے تھے۔ بلکہ اتنا وقت گزر گیا تھا کہ انہوں نے اس رقم کے ملنے کی امید ہی چھوڑ دی تھی۔ نہ صرف انہیں یہ رقم ملی بلکہ ان کی عارضی ملازمت بھی مستقل ہو گئی۔ اس پر وہ بہت خوش ہوئے اور کہنے لگے کہ یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی وجہ سے معجزہ ہوا ہے اور اب وہ کہتے ہیں میں ہر سال اپنی پندرہ روزہ آمدنی وقف جدید کے چندے میں دیا کروں گا۔

رومانیہ جو مشرقی یورپ میں ہے وہاں کے مبلغ فہیم صاحب لکھتے ہیں: یہاں ایک مقامی احمدی رومانین ہیں۔ وہاں ٹیلرنگ کا کام کرتے ہیں۔ چندے کی ادائیگی میں بڑے باقاعدہ ہیں اور بہت بشاشت اور اخلاص سے چندہ دیتے ہیں۔ انہیں چندے کی یاددہانی کی کبھی ضرورت پیش نہیں آئی۔ ہمیشہ خود وقت پر ادا کر دیتے ہیں۔ پھر چندے کی ادائیگی میں بہت سلیقہ برتتے ہیں۔ ہمیشہ سادہ لفافے میں یا کسی سفید کاغذ میں رکھ کے چندہ پیش کرتے ہیں اور لفافے پر مالی قربانی کے الفاظ لکھے ہوتے ہیں۔ انہوں نے مجھے ایک خط لکھا تھا ،اسی خط کا حوالہ وہ مربی صاحب دیتے ہیں کہ اپنے مشاہدے کا ذکر کیا انہوں نے اس خط میں کہ اللہ کے فضل سے میں چندہ دیتا ہوں۔ جب سے میں نے چندہ دینا شروع کیا ہے یہ بات میرے مشاہدے میں ہے کہ خدا کی رضا کے لئے چندہ دینے کے ساتھ میرے گاہکوں کی تعداد بڑھتی ہے۔ آمدنی میں خدا تعالیٰ کا خاص فضل ہوتا ہے۔ ایک طرف میں اپنی جیب سے خدا کے رستے میں نکالتا ہوں اور دوسری طرف خدا تعالیٰ میرے جیب میں وہی رقم بڑھا کر واپس لے آتا ہے کیونکہ چندے کے بعد میرے پاس کام کروانے کے لئے زیادہ گاہک آ جاتے ہیں۔ پس یہ ہیں لوگ کہ ان کو اللہ تعالیٰ ان ملکوں میں، یورپین ملکوں میں رہتے ہوئے بھی، دنیاداری میں زندگی گزارنے کے باوجود جب احمدیت کی طرف لے کر آیا تو ان کو اپنے فضلوں سے نواز کر ان کے ایمان میں پختگی عطا فرما رہا ہے۔

انڈیا سے انسپکٹر سلیم صاحب لکھتے ہیں کہ جماعت جَے پور میں ایک احمدی دوست جو کہ ایک پرائیویٹ سکول میں ٹیچر تھے گزشتہ سال انہیں چندہ وقف جدید کی تحریک کی گئی۔ ان سے درخواست کی گئی کہ آپ کا وعدہ تو آپ کی آمد سے پانچ ہزار ہونا چاہئے۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ میں تو ایک عام سے پرائیویٹ سکول کا ٹیچر ہوں اتنی رقم کہاں سے ادا کروں گا؟ بہرحال انہیں کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ توفیق بھی دے گا۔ اس سال جب دوبارہ ان سے ملنے کے لئے گئے تو وہ اسی سکول میں پرنسپل کی کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے۔ کہنے لگے کہ چندے کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اس قدر برکت عطا کی ہے کہ میں نے یہ سکول خرید لیا ہے اور اس پر پھر ان کو تحریک کی گئی کہ اس سال پھر آپ کو اپنا وعدہ بڑھانا چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو مزید سکول خریدنے کی توفیق عطا فرمائے۔ کہنے لگے کہ ایک اَور سکول بھی خریدنے کی بات ہو رہی ہے اور مالک کا ابھی فون آیا کہ آپ آ کر چابی لے جائیں اور انسپکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ اب ان کے پاس چار سکول ہیں۔ پہلے ان کے مکان کی چھت ٹین کی ہوتی تھی۔ چھوٹا سا شیلٹر (shelter)سا مکان تھا۔ اب اللہ کے فضل سے ان کا تین منزلہ مکان بن گیا ہے جس میں سے ایک منزل انہوں نے نماز جمعہ کے لئے رکھی ہوئی ہے۔ یہ فضل جو ہے یہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے کی وجہ سے ہے۔ اس کی وجہ سے ان کے ایمان میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

امیر صاحب لائبیریا کہتے ہیں کہ دسمبر میں ہماری تبلیغی ٹیم ایک گاؤں سوکر ٹاؤن (Sookar Town)پہنچی۔ یہ گاؤں منرووِیا (Monrovia) شہر سے فاصلے کے لحاظ سے زیادہ دور نہیں ہے لیکن موجودہ دَور کی سہولیات سے بالکل محروم ہے۔ راستہ بھی دشوار گزار ہے اور وہاں پہنچنے کے لئے تین منکی برجز (monkey bridges)یعنی رسیوں اور لکڑی سے بنائے گئے عارضی پل ہیں ان میں سے گزرنا پڑتا ہے۔ نمازوں کے بعد تبلیغ کا سلسلہ شروع ہوا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا پیغام پہنچایا۔ جماعت احمدیہ کی غرض و غایت بتائی۔ اس پر اس گاؤں کے ایک معمر بزرگ عثمان کمارا اٹھے اور اپنے ایک خواب کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ میں نے چند دن پہلے دیکھا تھا کہ آسمان گر گیا ہے اور ہر طرف کہرام مچا ہوا ہے۔ اسی اثنا میں سڑک پر ایک گاڑی رکتی ہے جس میں سفید لوگ بیٹھے ہیں جو ہمیں آواز دیتے ہیں کہ ہمارے پاس آ جاؤ ہم تمہیں سلامتی دیں گے۔ اس پر یہ خواب ختم ہو گیا۔ اس کے بعد میں سوچ میں پڑ گیا کہ یہ کیسا خواب ہے؟ اس کا مطلب کیا ہو سکتا ہے؟ آپ لوگوں کے آنے سے مجھے سمجھ آ گئی کہ خواب کا مطلب کیا ہے۔ کہنے لگے کہ میں کافی عمر کا ہو گیا ہوں۔ میں نے زندگی میں پہلی دفعہ غیر افریقنوں کو، سفید لوگوں کو اسلام کی تبلیغ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ چنانچہ وہاں پر موجود سب لوگوں نے جماعت میں شمولیت کا فیصلہ کیا، بیعت کر لی اور وقف جدید کے سال کا بھی آخرہی تھا۔ اُن کو بتایا گیا کہ چندوں کی طرف توجہ کریں۔ اس بیعت کے بعد جب انہیں چندے کی تحریک کی گئی تو انہوں نے چندہ بھی دیا اور ان میں ایمان اور اخلاص میں اضافہ ہو رہا ہے۔

صدر لجنہ کینیڈا کہتی ہیں کہ ایک مجلس کے دورے کے دوران ایک خاتون نے بتایا کہ ان کی بارہ سال کی بچی کو سکول کی طرف سے اسّی ڈالر کا انعام ملا۔ اس سے وہ اپنی مرضی کا کچھ خریدنا چاہتی تھی لیکن سیکرٹری وقف جدید کی تحریک پر اس نے انعام کی یہ ساری رقم چندے میں ادا کر دی۔ وہ کہتی ہیں اللہ تعالیٰ نے بھی اس کو اس طرح نوازا کہ اگلے دن عبدالسلام سائنس فیئر میں اس کی پہلی پوزیشن آئی اور اسے تین سو ڈالر کا انعام مل گیا۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اس بچی کے ایمان اور اعتقاد کو پختگی عطا فرمائی۔
آجکل ایک نئی گیم فورٹ نائٹ (Fortnite ) شروع ہوئی ہوئی ہےبعض بچے اس میں اپنی رقمیں ضائع کرتے ہیں۔ والدین کو بھی چاہئے اس سے ان کو روکیں اور تنظیموں کو، خاص طور پہ خدام الاحمدیہ، اطفال الاحمدیہ کو بھی چاہئے کیونکہ ایک کے بعد اگلے سٹیپ (step)پہ جانے کے لئے پھر کارڈ لیتے ہیں، پھر پیسے خرچ کرتے ہیں۔ بلکہ پچھلے دنوں میں ایک آرٹیکل تھا، ایک تحقیق تھی کہ بعض ایسے گروہ، گروپ بن گئے ہیں جو بچوں کے ساتھ رابطہ کرتے ہیں، ورغلاتے ہیں اور کارڈ لے کر دینے کے بہانے پھر ان کے والدین کے بنک اکاؤنٹ نمبر بھی لے رہے ہیں اور کچھ عرصہ کے بعد والدین کو پتہ لگتا ہے کہ ان کے بنک اکاؤنٹ میں رقمیں نہیں ہیں۔ اس گیم کی وجہ سے بچوں میں جو نشہ کی طرح کی عادت پڑھ رہی ہے اس سے نہ صرف ان کا وقت ضائع ہو رہا ہے اور غلط قسم کی سوچیں پیدا ہو رہی ہیں بلکہ بعض والدین کو نقصان بھی ہوا ہے۔ اس چیز سے بچنا چاہئے اور اللہ تعالیٰ نے جس طرف توجہ دلائی ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرو، یہ احساس بچوں میں خاص طور پر وقف جدید کے لئے تو پیدا کرنا چاہئے۔

انڈیا کے کرناٹک صوبہ کے ایک انسپکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ایک ریفریشر کورس منعقد ہوا جس میں کہتے ہیں کہ خاکسار نائب ناظم مال اور وقف جدید کے ساتھ شامل ہوا۔ وہاں پر نائب ناظم مال نے وہاں کے لوکل معلم کے گھر میں اس بات کا ذکر کیا کہ دوران سال کیرالہ میں شدید بارشیں ہوئی ہیں اور کافی نقصان ہو اہے اس لئے وقف جدید کی وصولی میں دقّت کا سامنا ہے اور اس کے بعد نائب ناظم مال نے معلم صاحب کے گھر سے جاتے ہوئے ان کے بچوں کو تحفۃً سو سو روپے دے دئے۔ کچھ عرصہ کے بعد کہتے ہیں مَیں دوبارہ اس جماعت میں دورے پر گیا تو معلم صاحب کے بچوں نے وہی سَو سَو روپے جو ان کو بطور تحفہ ملا تھا چندہ وقف جدید میں ادا کر دئے اور کہنے لگے کہ کیرالہ کے حالات چونکہ اس وقت سیلاب کی وجہ سے خراب ہیں اس لئے ہماری طرف سے یہ چندے کے طور پر قبول کر لیں۔ باوجود چھوٹی عمر کے ان کے دل میں چندے کی اہمیت زیادہ تھی۔

یو۔کے کی جماعت سے ہی ایک خاتون لجنہ بیان کرتی ہیں کہ مجھے 2010ءمیں احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی۔ بیعت کی وجہ سے گھر سے بھی نکال دیا گیا۔ اس وقت میرے پاس کوئی جاب (job)بھی نہیں تھا۔ مجھے بڑی شرمندگی ہوتی تھی کہ میں چندہ نہیں ادا کر سکتی۔ حالانکہ پہلے سال نومبائعین کے لئے چندہ جات دینا لازمی بھی نہیں ہے لیکن کہتی ہیں مجھے بہرحال فکر تھی۔ کہتی ہیں مَیں نے وعدہ کیا کہ جب مجھے جاب ملے گا تو میں نے جس دن سے بیعت کی ہے اسی وقت کے حساب سے چندہ ادا کروں گی۔چند مہینے کے بعد مجھے جاب مل گیا۔ میں نے چندہ جات ادا کرنے شروع کر دئے۔ چندے کی برکات سے اللہ کے فضل سے ایک سال میں تین مرتبہ میری تنخواہ میں اضافہ ہوا۔ پھر کچھ عرصہ بعد پہلے والدین جنہوں نے مجھ سے رابطہ منقطع کیا تھا اُن سے رابطہ بھی بحال ہو گیا۔ تعلق قائم ہو گیا اور والدین کے ساتھ اچھے تعلقات بھی ہو گئے ہیں، شادی بھی ہو گئی ہے اور کہتی ہیں کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر چیز بھی میسر ہے۔

لائبیریا سے کیپ ماؤنٹ (Cape Mount)کاؤنٹی کے لوکل معلم کہتے ہیں کہ نگبینا (Ngbina)جماعت میں چندہ وقف جدید کے حوالے سے تحریک کی گئی۔ چند روز بعد ایک مخلص احمدی خاتون موسو کمارا (Musu Kamara) صاحبہ نے بتایا کہ جب آپ نے مالی قربانی کی برکات بیان کرتے ہوئے وقف جدید کے چندے کا ذکر کیا تو باقی لوگ اپنے چندے دے رہے تھے لیکن میرے پاس کچھ نہیں تھا اس لئے تحریک میں شامل نہ ہوسکی۔ کہتی ہیں کل رات میں نے خواب میں دیکھا کہ آپ لوگ پھر آئے ہیں اور میں نے ایک سو لائبیرین ڈالر چندہ دیا لیکن صبح اٹھ کر حیران تھی کہ پیسے تو میرے پاس ہے نہیں۔ چندہ کیسے ادا ہو گیا لیکن خدا کا فضل ایسا ہوا کہ ابھی کچھ دیر پہلے ایک شخص آیا اور مجھے پانچ سو لائبیرین ڈالر دئے اور بتایا کہ یہ میرے بیٹے نے مجھے بھیجے ہیں۔ یعنی اس خاتون کے بیٹے نے۔ لہٰذااپنی خواب کو پورا کرتے ہوئے سو لائبیرین ڈالر چندہ ادا کرنے آئی ہوں۔

بہت سے اور ایسے واقعات ہیں کہ عورتیں بعض دفعہ چندہ دینے میں بلکہ اکثر مردوں کی اصلاح کرتی ہیں ان کو چندوں کی طرف توجہ دلاتی ہیں اور اس اہمیت کو مردوں سے زیادہ سمجھتی ہیں۔

گنی کناکری کے ابوبکر صاحب لکھتے ہیں جو ایک جماعت کے صدر ہیں، زراعت کے شعبہ سے منسلک ہیں کہ احمدیت قبول کرنے کے بعد مجھے اکثر جماعت کے مبلغین اور معلمین چندے کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتے تھے لیکن میں تھوڑی بہت رقم ادا کر دیا کرتا جبکہ میری اہلیہ اس معاملے میں بڑی پابند تھی اور ہمیشہ اہتمام سے چندہ ادا کرتی تھی اور مجھے بھی چندے کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتی تھی۔ اس پر میں اسے یہ کہہ کر ٹال دیتا کہ جب بہت زیادہ پیسے ہوں گے تو پھر چندہ دے دیا کروں گا۔ اِس پر وہ کہتی کہ زیادہ پیسے تب ہی ہوں گے جب اللہ تعالیٰ کا حق پورا کریں گے۔ اس طرح میری اہلیہ نے زبردستی مجھ سے چندہ ادا کروانا شروع کر دیا۔ جب میں نے پوری شرح کے ساتھ چندہ ادا کرنا شروع کیا تو میں نے اللہ تعالیٰ کے فضلوںکو بارش کی طرح نازل ہوتے دیکھا۔ کہتے ہیں کہ مجھ سے زیادہ پڑھے لکھے اور زراعت کے شعبہ میں ڈگریاں لینے والوں کی فصلوں کو وہ پھل نہیں لگا جو اللہ تعالیٰ نے مجھ ناچیز اور ناسمجھ کو عطا کرنا شروع کیا۔ اب میں زمینوں سے فصل تب ہی گھر لاتا ہوں جب ان کا پورا حساب کر کے لوکل مشنری کو چندہ دے کر اس سے رسید کٹوا لیتا ہوں۔

آئیوری کوسٹ کے ریجن کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک دوست زابلو صاحب کو خواب کے ذریعہ احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی تھی۔ بیعت کے بعد باقاعدہ خطبات سنتے ہیں اور ایک پرجوش داعی الی اللہ ہیں۔ ذاتی رقم خرچ کر کے جماعتی لٹریچر خرید کر غیر احمدی احباب کو دیتے ہیں۔ زابلو صاحب ایک ہوٹل میں کام کرتے تھے اور اچھی پوسٹ پر تھے لیکن اب ان کے پاس نوکری نہیں ہے اور ان کی اہلیہ ہی گھر کے خرچ برداشت کرنے میں ان کی مدد کرتی ہیں۔ کہتے ہیں کچھ دن پہلے انہوں نے فون پر کہا کہ میں تیس ہزار فرانک سیفا(CFA Frank) بطور چندہ وقف جدید بھیج رہا ہوں۔ اس پر میں نے انہیں کہا کیونکہ میں ان کے حالات سے واقف تھا، کہ آپ کے حالات اچھے نہیں تو بیشک کم ادا کریں۔ یہ رقم زیادہ ہے آپ کے لئے اور جلسہ سالانہ بھی آ رہا ہے۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ میں نے اپنی اہلیہ سے کہا تھا کہ بیس ہزار فرانک چندہ دیتے ہیں لیکن میری اہلیہ کا اصرار ہے کہ ہم نے تیس ہزار فرانک سیفا ہی دینا ہے اور اللہ کے فضل سے پھر وہ جلسہ میں بھی شامل ہوئے۔ تو اس طرح بہت سی جگہ عورتیں ہیں جو مردوں سے بھی قربانیاں کرواتی ہیں۔

آسٹریلیا کی ایک جماعت کے صدر بیان کرتے ہیں کہ ایک مخلص دوست اپنا چندہ وقف جدید ادا کرچکے تھے۔ 20؍ دسمبر کو عاملہ ممبران کو ایک دفعہ پھر خصوصی تحریک کے ذریعہ بقایا ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی گئی۔ ان سے رابطہ کیا گیا تو پھر انہوں نے ایک بہت خطیر رقم ادا کر دی۔ اگلے روز شام کو کہتے ہیں ان کا فون آیا اور بڑے جذباتی انداز سے کہنے لگے کہ خاکسار نے چندہ وقف جدید کی جو ادائیگی کی تھی وہ ایک ہی دن میں اللہ تعالیٰ نے پوری کر دی۔ کہنے لگے کہ مَیں تین سال سے ایک فوڈ ٹیک اوے چلا رہا ہوں اور پچھلے تین سالوں میں ایک بھی دن ایسا نہیں آیا کہ اس قدر کسٹمر آئے ہوں، گاہک آئے ہوں جتنے اس دفعہ چندہ ادا کرنے کے بعد آئے۔

اسی طرح انڈونیشیا کا ایک واقعہ ہے۔ ایمان پر قائم رہنے کے یہ ایسے واقعات ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔ انڈونیشیا میں ایک نومبائع جنہوں نے 2016ء میں بیعت کی تھی۔ بیعت کے بعد ان کی فیملی اور پڑوسیوں کی طرف سے سخت مخالفت شروع ہو گئی۔ یہاں تک کہ ایک روز ان کی فیملی کے کئی افراد نے ان کو کافی مارا اور انہوں نے جماعت چھوڑنے پر مجبور کیا۔ ان کو مبلغ سے ملنے پر پابندی لگا دی۔ اس کے بعد وہ چھپ کر مبلغ سے ملتے تھے۔ ہمارے مبلغ نے انہیں بتایا کہ قربانی تو جماعت میں آنے کے بعد کرنی پڑتی ہے۔ اب آپ خود دیکھ لیں۔ لیکن انہوں نے کہا کہ میں بہرحال قربانی کروں گا۔ مخالفت چاہے بڑھتی جائے۔ اور چندہ اور مالی قربانی کی اہمیت بھی ان کو بتائی گئی۔ موصوف نے بیعت کے ایک ماہ کے بعد ہی چندہ ادا کرنا شروع کر دیا۔ مستقل نوکری ہی نہیں تھی۔ اس کے باوجود چھوٹے چھوٹے کاموں سے جو بھی اجرت ملتی اس سے فوراً کچھ رقم چندے کے لئے علیحدہ کر لیتے۔ لوگوں سے چھپ کر رات کے وقت مشن ہاؤس آتے۔ مشن ہاؤس جانے سے پہلے گاؤں کے مختلف چکر لگاتے تا کہ لوگ انہیں مشن ہاؤس جاتا نہ دیکھ لیں اور اس حالت میں بھی موصوف نے باقاعدگی سے مشن ہاؤس سے رابطہ رکھا اور چندہ ادا کرنے کے لئے آتے رہے۔

ایک اور واقعہ ہے۔ جو احمدی نہیں ان کو بھی بعض دفعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کس طرح تحریک ہوتی ہے۔ مالی کی جماعت کے مبلغ لکھتے ہیں کہ وقف جدید کے حوالے سے ریڈیو ’’احمدیہ کِیْتَا‘‘ پر میرا خطبہ چل رہا تھا۔ گزشتہ سال کے خطبہ کی ریکارڈنگ چل رہی تھی۔ اسی دوران وہاں شہر سے 45 کلومیٹر دور ایک گاؤں کے چیف نے فون کر کے ہمیں اپنے گاؤں میں تبلیغ کرنے کی دعوت دی۔ جب ہم تبلیغ کے لئے وہاں گئے تو چیف نے بڑے جذباتی انداز میں کہا کہ جب خلیفۂ وقت وقفِ جدید کے حوالے سے مختلف ممالک کے ایمان افروز واقعات بتا رہے تھے تو انہیں سن کر، ہم گاؤں والوں پر ان کا عجیب حیرت انگیز اثر ہوا اور ہمیں افسوس ہوا کہ کیوں اب تک ہم اس پاکیزہ تحریک میں حصہ نہیں لے سکے تو اس لئے مَیں نے آپ کو فون کر کے بلایا ہے۔ وہاں احمدیوںکے ٹی وی لگے ہوئے ہیں جس پر وہ خطبہ دیکھ رہے تھے اور سن رہے تھے نہ کہ ریڈیو پہ۔ تب تبلیغ کا پروگرام بھی کیا گیا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے اسی دن پچاسی افراد نے احمدیت قبول کی۔ گاؤں والوں نے اُسی وقت ایک بوری مکئی اور ہزار فرانک وقف جدید کی بابرکت تحریک میں پیش کئے۔ اللہ تعالیٰ بھی عجیب عجیب طریقے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کو نہ صرف لوگوں تک پہنچا رہا ہے بلکہ مددگار بھی پیدا فرما رہا ہے۔

بینن کے لوکوسا (Lokossa) ریجن کے مبلغ لکھتے ہیں کہ لوکوسا کی ایک جماعت میں چندہ وقف جدید کی تحریک کی گئی۔ کچھ روز بعد ہمارا ریجنل جلسہ بھی تھا اس میں شامل ہونے کے لئے بھی تحریک کی گئی۔ کہتے ہیں اس وقت صدر جماعت غفار صاحب میرے پاس آئے اور کہاکہ انہوں نے کچھ رقم جلسہ میں شامل ہونے کی غرض سے جمع کر رکھی ہے لیکن چندہ بھی ادا کرنا ضروری ہے۔ اس لئے کیا کرنا چاہئے؟ کہتے ہیں میں نے اس پہ کہا کہ جلسہ میں شامل ہوں۔ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا۔ چندہ بعد میں ادا کر دیں۔ کہتے ہیں چند روز کے بعد جب وہ جلسہ میں مجھے ملے تو کچھ رقم مجھے دے دی اور کہنے لگے یہ میرا چندہ لے لیں تو کہتے ہیں میں نے سیکرٹری مال کو کہا کہ ان کو رسید کاٹ کر دے دیں۔ اس پر سیکرٹری مال نے بتایا کہ غفار صاحب نے وہی رقم جو چندے میں ادا کی ہے جو انہوں نے جلسہ میں آنے کے لئے جمع کی تھی اور یہ خود بمع اپنے اہل و عیال کے پندرہ کلو میٹر کا پیدل سفر کر کے جلسہ میں شامل ہوئے ہیں۔

تو یہ وہ لوگ ہیں جو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو عطا فرمائے ہیں جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی باتوں کو سنتے ہیں اور پھر تزکیہ نفس کے سامان بھی کرتے ہیں، ہر قربانی کے لئے تیار بھی رہتے ہیں۔ اصل میں یہی وہ لوگ ہیں جو حقیقت میں بیعت کا حق ادا کرنے والے ہیں۔ اگر ان اندھوں کو اللہ تعالیٰ عقل دے جو عقل کے اندھے ہیں تو ان کو نظر آ جانا چاہئے کہ ان کا جو اخلاص اور وفا ہے اور قربانیاں ہیں کیا یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی تائیدات کا واضح ثبوت نہیں؟ عقل پر ان کے پردے نہ پڑے ہوں تو یہی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے جانے کا ثبوت ہے جو کافی ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم کو آگے بڑھانے کے لئے آئے، دنیا میں پھیلانے کے لئے آئے اگر ان مسلمانوںکو یہ عقل آ جائے اور کاش کہ عقل آ جائے اور یہ حقیقت کو سمجھیں تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے انشاءاللہ تعالیٰ اسلام جلد ہی دنیا پر غالب آ سکتا ہے۔ اور مسلمانوں کی وہ جگ ہنسائی جو اسلام کو بدنام کرنے کے لئے ہو رہی اور جس طرح اسلام کو بدنام کیا جا رہا ہے وہ اس سے بالکل الٹ ہم دیکھیں گے انشاء اللہ تعالیٰ۔ لیکن بہرحال ہمارا یہ کام ہے کہ اپنی اصلاح کریں، اللہ تعالیٰ کے آگے جھکیں اور زیادہ سے زیادہ تبلیغ کی طرف بھی توجہ دیں۔ قربانیوں کی طرف بھی توجہ دیں اور اسلام کی حقیقت دنیا پر واضح کریں۔

اب میں کچھ کوائف بھی پیش کر دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے وقف جدید کا اکسٹھواں سال جو 31 دسمبر 2018ء کو ختم ہو اتھا اس میں افرادِ جماعت احمدیہ کو اکانوے لاکھ چونتیس ہزار پاؤنڈز کی قربانی پیش کرنے کی توفیق ملی۔ یہ وصولی گزشتہ سال سے دو لاکھ اکہتر ہزار پاؤنڈز زیادہ ہے۔ پاکستان اپنی پوزیشن جو ہے اُسے برقرار رکھے ہوئے ہے۔ اس کے علاوہ جو پوزیشن والے پہلے دس ممالک ہیں ان میں برطانیہ نمبر ایک پہ ہے۔ تحریک جدید میں جرمنی تھا تو امیر صاحب نے کہا تھا کہ انشاء اللہ تعالیٰ وقف جدید میں ہم اوپر آئیں گے اور یہ کافی فرق سے اوپر آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ افراد جماعت کے اموال و نفوس میں برکت عطا فرمائے اور آئندہ بھی ان کو بڑھنے کی توفیق دے۔ پھر نمبر دو پہ جرمنی ہے۔ پھر امریکہ ہے۔ پھر کینیڈا ہے۔ میں امریکہ کو بھی بتا دیتا ہوں کہ ان کا اور کینیڈا کا بڑا معمولی سا فرق رہ گیا ہے۔ اگر انہوں نے زیادہ کوشش نہ کی تو یہ پہلے نمبر سے تیسرے نمبر پر آئے تھے تو اب شاید اَور پیچھے چلے جائیں۔ پھر کینیڈا چوتھے نمبر پر ہے۔ پھر ہندوستان ہے۔ پھر آسڑیلیا ہے۔ پھر انڈونیشیا ہے۔ پھر مڈل ایسٹ کی ایک جماعت ہے۔ پھر گھانا ہے۔ پھر وہاں مڈل ایسٹ کی ایک اور جماعت ہے۔

اور فی کس ادائیگی کے لحاظ سے امریکہ پہلے نمبر پر ہی ہے۔ پھر سوئٹزرلینڈ ہے۔ پھر آسٹریلیا ہے۔
افریقہ میں مجموعی وصولی کے لحاظ سے گھانا پہلے نمبر پر ہے۔ ماریشس۔ پھر نائیجیریا ہے۔ پھر تنزانیہ۔ پھر برکینا فاسو اور پھر بینن۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس سال وقف جدید میں سترہ لاکھ بتیس ہزار افراد چندے میں شامل ہوئے اور اس سال شاملین کی تعداد میں جو اضافہ ہے وہ ایک لاکھ تئیس ہزار کا ہے۔ اور تعداد میں اضافے میں جو نمایاں کام کیا ہے اس میں نائیجر، سیرالیون، نائیجیریا، کیمرون، بینن، گیمبیا، کونگو کنساشا، تنزانیہ، لائبیریا اور سینیگال شامل ہیں۔

وقف جدید میں چندہ بالغان اور اطفال علیحدہ علیحدہ ہوتا ہے یہ خاص طور پر پاکستان میں اور کینیڈا میں بھی شروع ہے۔ اس میں بالغان میں پاکستان کی پہلی تین جماعتیں یہ ہیں۔ پہلے نمبر پر لاہور ہے دوسرے پر ربوہ پھر کراچی اور جو اضلاع ہیں وہ پہلے نمبر پر سیالکوٹ پھر اسلام آباد پھر فیصل آباد پھر راولپنڈی پھر سرگودھا پھر گوجرانوالہ، ملتان، حیدرآباد، میرپورخاص اور ڈیرہ غازی خان۔

دفتر اطفال میں پاکستان کی جو تین بڑی جماعتیں ہیں ان میں اوّل لاہور ہے، دوم کراچی ہے اور سوم ربوہ ہے۔ اور اضلاع کی پوزیشن کے لحاظ سے اسلام آباد۔ پھر سیالکوٹ۔ پھر راولپنڈی۔ پھر سرگودھا۔ پھر گوجرانوالہ۔ پھر حیدرآباد۔ پھر ڈیرہ غازی خان۔ پھر شیخوپورہ۔ پھر عمر کوٹ اور پھر ننکانہ صاحب۔

مجموعی وصولی کے لحاظ سے برطانیہ کی دس بڑی جماعتیں ووسٹر پارک (Worcester Park)نمبر ایک پہ ہے۔ نمبر دو مسجد فضل(Fazal Mosque)، پھر برمنگھم ساؤتھ (Birmingham South)، پھر جلنگھم (Gilingham)، پھر برمنگھم ویسٹ (Birmingham West)، پھر اسلام آباد (Islamabad)، پھر ہیز (Hayes)پھر بریڈ فورڈ نارتھ (Bradford North)، اور نیو مولڈن (New Malden)، اور پھر گلاسگو (Glasgow)۔

ریجن کے لحاظ سے لنڈن بی (London B)ریجن پہلے نمبر پر ہے۔ پھر لنڈن اے (London A)ریجن ہے۔ پھر مڈ لینڈز (Midlands)ریجن ہے۔ پھر چوتھے نمبر پر نارتھ ایسٹ (North East)ریجن ہے اور پانچویں پر مڈل سیکس (Middlesex)ریجن ہے۔

دفتر اطفال کی یہاں برطانیہ کی بھی رپورٹ ہے۔ اس کے لحاظ سے بریڈ فورڈ ساؤتھ (Bradford South)نمبر ایک پر ہے۔ سر بٹن (Surbiton)نمبر دو ۔ پھر گلاسگو (Glasgow)۔ پھر روہیمپٹن ویل(Roehampton Vale)۔ پھر اسلام آباد (Islamabad)۔ پھر روہیمپٹن (Roehampton)۔ پھر مچّم پارک (Mitcham Park)۔ پھر بیٹرسی (Battersea)۔ مولڈن مینَر(Malden Manor) اور Mosqueویسٹ۔

جرمنی کی پانچ لوکل عمارتوں میں نمبر ایک پر ہیمبرگ (Hamburg)ہے۔ نمبر دو پر فرینکفرٹ (Frankfurt)ہے۔ پھر ویزبادن (Wiesbaden)ہے۔ پھر مورفلڈن والڈورف (Mörfelden-Walldorf) ہے۔ پھر ڈٹسن باخ (Dietzenbach)ہے۔

وصولی کے لحاظ سے امریکہ کی پہلی دس جماعتیں۔ سلیکون ویلی (Silicon Valley)،پھر سیاٹل (Seattle)،پھر ڈیٹرائٹ(Detroit)، سلور سپرنگ (Silver Sprint)، سینٹرل ورجینیا (Central Virginia)، بوسٹن (Boston)، ڈیلس(Dallas) لورل (Laurel) ، جارجیا کیرولائنا (Georgia, Carolina)، یارک(York)۔

اور پھر وصولی کے لحاظ سے کینیڈا کی امارتیں۔ وان (Vaughan)۔ نمبر دو پہ کیلگری (Calgary)۔ پھر پیس ولیج (Peace Village)۔ پھر بریمیٹن (Brampton)۔ پھر وینکوور (Vancouver)۔

اور جو دس بڑی جماعتیں ہیں۔ ڈرہم(Durham)، ونڈسر(Windsor)، بریڈفورڈ (Bradford)، ایڈمنٹن ویسٹ (Edmonton West)، سسکاٹون نارتھ (Saskatoon North)، سسکاٹون ساؤتھ(Saskatoon South)، مونٹریال ویسٹ (Montreal West)، ملٹن ویسٹ (Milton West)، ہملٹن ویسٹ(Hamilton West)، ایبٹس فورڈ(Abbotsford)۔

دفتر اطفال کی پانچ نمایاں پوزیشنیں ہیں۔ ڈرہم (Durham)نمبر ایک پہ۔ پھر ملٹن ویسٹ (Milton West)۔ پھر بریڈ فورڈ (Bradford)۔ پھر ہملٹن ساؤتھ (Hamilton South)اور سسکاٹون(Saskatoon)۔

وصولی کے لحاظ سے بھارت کے جو صوبہ جات ہیں وہ کیرالہ، جموں وکشمیر، کرناٹکا، تیلنگانا، تامل ناڈو، اڑیشہ، ویسٹ بنگال، پنجاب، دہلی، اُترپردیش۔

اور وصولی کے لحاظ سے جو جماعتیں ہیں: حیدرآباد نمبر ایک پہ۔ قادیان نمبر دو۔ پاٹھا پریام(Pathapiriyam) ۔ کالیکٹ۔ کولکتہ۔ کالیکٹ نمبر چار پہ ہے اور کولکتہ، بنگلور، چینائی، کارولائی، رِشی نگر اور دہلی۔

آسٹریلیا کی وصولی کے لحاظ سے دس جماعتیں ہیں کاسل ہل(Castle Hill)، ملبرن لانگوارن (Melbourne Long Varren)، پینرِتھ(Penrith)، ملبرن بیروِک(Melbourne Berwick)، مارزڈن پارک(Marsden Park)، برزبن(Brisbane)، ایڈیلیڈ ساؤتھ(Adelaide South)، برزبن لوگان(Brisbane Logan)، کینبرا(Canberra) اور پلمپٹن(Plumpton)۔

اطفال میں آسٹریلیا کی جماعتیں ہیں پینرِتھ(Penrith)، ایڈیلیڈ ساؤتھ(Adelaide South)، برزبن لوگان(Brisbane Logan)، ملبرن لانگ وارن(Melbourne Long Varren)، ملبرن بیروِک(Melbourne Berwick)، برزبن ساؤتھ(Brisbane South)، مازڈن پارک(Marsden Park) ماؤنٹ ڈروئیٹ(Mount Druitt)، کاسل ہل (Castle Hill)، ملبرن ایسٹ(Melbourne East)۔

کیونکہ یہ نام اردو میںلکھے ہوئے ہیں ہو سکتا ہے بولنے میں غلطی لگ گئی ہو لیکن بہرحال مقامی جماعتوں کو یہ اطلاعیں تو مل چکی ہوں گی۔اللہ تعالیٰ تمام ممالک کے شاملین کے اموال و نفوس میں برکت عطا فرمائے اور آئندہ بھی اعلیٰ قربانیاں پیش کرنے کی توفیق دے ۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button