حضرت مصلح موعود ؓ

ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض: قسط نمبر 4 (آخری)

(حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ)

(ترکی کی حالت زار پر تبصرہ اور مشورہ )

خدا تعالیٰ نے تو مسلمانوں کا فرض مقرر کیا ہے کہ وہ اسلام کو چاروں کونوں میں پھیلائیں اور اس کے نور سے اندھوں کو بینائی بخشیں۔ مگر مسلمانوں نے سستی اختیار کی۔ پس جب مسلمانوں نے اسلام کی قدر نہ کی اور اسے ترک کر دیا تو خدا نے بھی ان کو ترک کر دیا۔ خدا تعالیٰ ظالم نہیں اس نے مسلمانوں کو صرف اسی لئے چنا تھا۔ کہ کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ۔ (آل عمران111:) جب تک مسلمانوں نے اس حکم کو قبول اور اس پر عمل کیا اس نے ان کو ترقی پر ترقی دی اور اس وقت ان کو عذاب میں مبتلا کیا جب انہوں نے اپنے نفسوں کو بدل دیا۔ جیسا کہ وہ فرماتا ہے۔ اِنَّ اللہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِھِمْ۔ (الرعد12:) اللہ تعالیٰ کسی قوم پر جو نعمتیں کرتا ہے ان کو اس وقت تک واپس نہیں لیتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے اندر تغیر پیدا کر کے نیکی کے راستہ کو چھوڑ نہ دے۔ مگر کسی وقت اگر کوئی غلطی ہوگئی ہے تو اب مسلمان اپنی غلطی سے تائب ہوکر خدا تعالیٰ کی طرف رجوع کریں اور خود اسلام کو سمجھیں اور اس کی حقیقت سے آگاہ ہوں اور دوسروں کو آگاہ کریں۔ تاکہ وہ نکبت و ادبار جو اس وقت مسلمانوں پر آرہا ہے وہ دور ہو اور وہ پھر اپنے دولہا کے محبوب بنیں۔ اگر مذہب کی خاطر انہوں نے تبلیغ نہیں کی۔ اگر خدا کے حکم کے ما تحت انہوں نے اس بے نظیر تعلیم کو دنیا کے سامنے پیش نہیں کیا۔ تو اب اپنی حیات کے قیام کے لئے ہی کچھ کوشش کریں۔ کیونکہ ان کی زندگی اور اسلام کی تبلیغ اب لازم و ملزوم ہوگئے ہیں۔

اس مضمون پر مجھے خود کچھ زیادہ زور دینے کی ضرورت نہیں۔ میں ایک مشہور ہندوستانی کی جو آریہ مذہب سے تعلق رکھتے ہیں ایک تازہ تحریر سے جو انہوں نے ’’لیڈر‘‘ الہٰ آباد میں شائع کرائی ہے ذیل میں اقتباس درج کر کے اس امر کی صداقت یا بطالت کا فیصلہ آپ لوگوں پر ہی چھوڑ دیتا ہوں۔ یہ آریہ صاحب لالہ لاجپت رائے ہیں۔ وہ اپنی ایک طویل چٹھی میں جو ’’ لیڈر‘‘ الہٰ آباد میں شائع ہوئی ہے لکھتے ہیں۔

’’مجھے اپنے سفروں میں اس سے زیادہ کسی امر نے تکلیف نہیں دی جس قدر کہ اس گہری ناواقفیت اور سخت تعصب نے جو اسلام اور اسلامی ممالک کے متعلق امریکہ میں پھیل رہا ہے۔ ممالک متحدہ میں آپ کو چین، جاپان اور ہندوستان کے ہمدرد تو ملیں گے لیکن میں نے اپنے پانچ سالہ سفروں میں ایک شخص بھی ایسا نہیں دیکھا جو اسلام اور اسلامی ممالک کے متعلق کوئی کلمہ خیر مونہہ سے نکالتا ہو۔ ایک مسلمان دوست سمیت مجھے ایک مجلس میں جانے کا اتفاق ہوا جس میں ترکی حکومت کے مستقبل کے متعلق گفتگو تھی۔ ترکوں کی طرف سے ایک ترک ہی وکیل تھا لیکن جو لوگ اس کو جواب دینے کے لئے کھڑے ہوتے تھے انہوں نے ایسی ناواقفیت اور کھلی کھلی دشمنی اور تعصب کا ثبوت دیا کہ میرے لئے صبر کے ساتھ سننا مشکل ہوگیا۔ ترکی وکیل نے بہت بری طرح وکالت کی اور اپنے خلاف تعصب کا طو فان کھڑا کر لیا۔ ترکوں کو ایک ڈراؤنی شہرت حاصل ہے اور مسلمان اقوام کے معاملہ کو ایسی طرح پیش کرنے کے لئے کہ لوگوں کے دل میں ان سے ہمدردی پیدا ہو بڑی لیاقت، دانائی اور ہوشیاری کی ضرورت ہے۔ آخر میرے دوست نے میرے کہنے پر اس تعصب کے کم کرنے کی کوشش کی مگر اس کی آواز اکیلی آواز تھی۔‘‘

’’مسلمانان ہند پر ان کے مذہب ان کے ہم مذہبوں اور خود اپنے نفسوں کی طرف سے یہ ذمہ داری عائد ہے کہ وہ چند لائق آدمی تمام ذونفوذ ممالک میں بطور اپنے وکلاء کے مقرر کریں یہ ایک ایسی ضرورت ہے جو فوری توجہ چاہتی ہے یہ تمام ہندوستان کا بلا تفریق مذہب فرض ہے کہ وہ اسلام کی عزت کو بدنامی کے صدمہ سے بچائیں۔ اور جب کبھی انہیں کسی مفید نتیجہ کی امید ہو مسلمانوں کے لئے بھی اس انصاف اور حق کا مطالبہ کریں جس کا مطالبہ دوسری اقوام کے لئے کیا جاتا ہے۔ لیکن اس میں کوئی کلام نہیں کہ خود مسلمانوں پر ایک ایسی ذمہ داری ہے کہ جسے انہیں بغیر تاخیر اور بغیر پہلو تہی کے بجا لانا چاہئے۔ اگر وہ اس ذمہ داری کے بجا لانے سے غفلت کریں گے تو اس کا نقصان خود اٹھائیں گے۔‘‘

یہ ایک ہندو کی آواز ہے بلکہ ایک آریہ کی آواز ہے جو مسلمانوں کو خواب غفلت سے جگاتی ہے۔ اسلام کی حالت ایسی گر گئی ہے کہ اس سے مذہبی مخالفت رکھنے والے لوگ اب اسے ہوشیار کرتے ہیں اور اس کی حالت ان کے رحم کو جذب کرتی ہے۔ بہت سا وقت ضائع ہو چکا ہے اور تھوڑا باقی ہے۔ اگر اب بھی سستی کی گئی تو کسی بہتری کی امید رکھنی فضول ہے۔ جب تک اسلام بہیمیت اور دنیا کے لئے مہلک بیماری کے رنگ میں دیکھا گیا اس وقت تک مغربی بِلاد سے کسی انصاف کی امید رکھنا ایک فضول امر ہے اور جب تک دوسرے بلاد خصوصاً امریکہ کی رائے انگلستان کے ساتھ نہ ہو، اس وقت تک بر طانیہ کی آواز کے سنے جانے کا خیال بھی کرنا ایک وہم ہے۔ برطانیہ اکیلا کچھ نہیں کر سکتا بر طانیہ کو کسی مددگار کی ضرورت ہے اور چونکہ یہ کام مسلمانوں کا ہے یہ مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ برطانیہ کو ایسا مددگار تلاش کر کے دیں بلکہ خود برطانیہ کو بھی اسلام سے زیادہ واقف کریں میں کہہ چکا ہوں کہ اسلام کی تبلیغ ایک مذہبی فرض تھا ایک سخت ذمہ داری تھی ایک نازک معاہدہ تھا جو خدا اور اس کے رسول کے ساتھ مسلمانوں نے کیا تھا۔ مگر اس کو پورا کرنے کی طرف مسلمانوں نے توجہ نہیں کی۔ اگر پہلے مذہب کے حکم کے ماتحت انہوں نے اس کام سے غفلت برتی ہے۔ تو اب اپنی جان بچانے کے لئے عزت کی زندگی کے بسر کرنے کے لئے ان کو اس کام کی طرف توجہ کرنی چاہئے۔ اور سب ذرائع عارضی ہیں مگر یہ ذریعہ کامیابی مستقل ہے۔ جب کوئی شخص بیماریوں کا گھر بن جاتا ہے۔ تو طبیب سمجھ لیتا ہے کہ یہ سب کسی خاص سبب سے پیدا ہوئی ہیں اور وہ بجائے الگ الگ بیماریوں کا علاج کرنے کے اس جڑ کا علاج کرتا ہے۔ اس وقت مسلمانوں کے دنیاوی مصائب کااصل سبب ان ممالک کا اسلام کے متعلق غلط واقفیت رکھنا ہے جن کو اس وقت غلبہ اور اقتدار حاصل ہے۔ پس فردًا فردًا ان مصائب کاعلاج فضول ہے۔ جڑ کا علاج کرو اور مرض خود دور ہو جاوے گا۔ بے شک یہ بات درست ہے کہ ان ملکوں کو مسلمان کرنے کے لئے صدیاں چاہئیں۔ لیکن اس تعصب کو دور کرنے کے لئے جو ان ممالک میں پیدا ہے صدیوں کی ضرورت نہیں۔ ایک معقول تعداد اسلام سے واقف کار آدمیوں کی اگر امریکہ اور فرانس کی طرف فورًا نکل جاوے۔ تو چند ماہ میں بہت کچھ جہالت اور تعصب دور کرسکتی ہے۔ ہم نے انگلستان میں اس کا تجربہ کر لیا ہے اور وہ تجربہ کامیاب ہوا ہے۔ دو سو کے قریب تو اس وقت وہاں کے باشندے مسلمان ہو چکے ہیں۔ مگر ہزاروں لاکھوں آدمی اسلام سے واقف ہو کر اس سے تعصب چھوڑ بیٹھے ہیں۔ پس جلدی کرو اور اس تجربہ سے فائدہ اٹھاؤ۔ میرا ارادہ جلد ہی امریکہ میں بھی ایک مشن قائم کرنے کا تھا۔ مگر امریکہ سے اس غیر مذہب والے کی آواز نے مجھے اور بھی جلد اس کام کے کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ مگر جس کام کو آپ لوگ چاہتے ہیں اس کے لئے اور بھی زیادہ جلدی اور زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہے۔ اگر کسی کامیابی کی امید کی جاسکتی ہے تو اس طرح کہ چند آدمی اسلام کے واقف فرانس میں رکھے جاویں جو علاوہ اخباروں اور رسالوں کے ذریعے اسلام کی خوبیوں سے لوگوں کو واقف کرنے کے مختلف بلاد کے لیڈروں سے بھی ملیں اور ان کو بھی بتائیں کہ اسلام تہذیب و شائستگی کا قائم کرنے والا ایک ہی مذہب ہے نہ کہ اس کا مٹانے والا۔ اس طرح کچھ لوگ امریکہ جاویں اور وہاں اخباروں اور رسالوں کے ذریعہ اسلام سے وہاں کے لوگوں کو واقف کرنے کے علاوہ ملک کے وسیع دورے کریں اور ایک سرے سےدوسرے سرے تک وہاں کے باشندوں کو اسلام کی تعلیم سے آگاہ کریں۔ گو وہ فورًا اس کو قبول نہیں کرسکتے لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ جلد اسلام کی دشمنی سے دست بردار ہو جاویں گے۔

اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ ایسے آدمی کہاں سے آویں۔ سو اس کا جواب میرے سوا اور کوئی نہیں دے سکتا۔ حق چھپایا نہیں جا سکتا۔ اس وقت دنیا کی تباہی کو دیکھ کر اور اسلام کی موت کو مشاہدہ کر کے خدا تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کے وعدہ کے مطابق اپنا ایک مرسل بھیجا ہے۔ جس نے باوجود ناواقفوں کی مخالفت اور دشمنی کے ایک ایسی جماعت پیدا کر دی ہے جو اسلام کے لئے فدا ہے اور اس کے انگریزی خوان اور عربی خوان افراد دونوں اسلام کے اصول سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ اس پر عملی طور پر کار بند بھی ہیں اور اسلام کی خدمت میں اپنی جانیں دینے سے بھی نہیں ڈرتے۔ وہ تعداد میں ابھی بہت تھوڑے ہیں اور غریب ہیں۔ مگر اب بھی مختلف بلاد میں ان کی طرف سے اسلام کی تبلیغ کے لئے آدمی مقرر ہیں اور ان کے سامنے مسیحی مشنری ایک لحظہ کے لئے بھی نہیں ٹھہرتے اور خود ان کے دشمن اس بات کو قبول کرتے ہیں کہ مسیحی مشنریوں کے بھگانے کے لئے وہ ایک حربہ ہیں۔ اور کیوں نہ ہو انہوں نے اسلام کو اس کی اصل شکل میں دیکھا اور سمجھا ہے۔ انگلستان میں اس وقت اس جماعت کی طرف سے چار آدمی موجود ہیں اور میرا ارادہ ہے کہ بہت جلد وہاں پچاس تک آدمی بھیج دئے جاویں۔ جب راستہ کی رکاوٹیں دور ہوں یہ لوگ روانہ ہونے شرو ع ہو جاویں گے۔ غرض اس جماعت میں ایسے لوگ موجود ہیں جو کام کر سکتے ہیں اور جو اسلام سے لوگوں کو آگاہ کرنے کے لئے ہر ایک جگہ جانے کے لئے تیار ہیں اور میں ایسے آدمیوں کی ایک معقول تعداد اس کام کے لئے مہیا کر سکتا ہوں۔ اگر آپ لوگ سنجیدگی سے اس کام پر آمادہ ہوں تو لندن کے چار مشنریوں میں سے کم سے کم تین فورًا میں امریکہ کے لئے فارغ کر سکتا ہوں۔ یہ لوگ فورًا امریکہ روانہ ہوجائیں اور اسلام سے وہاں کے لوگوں کو واقف کریں اور ساتھ اس امر کی طرف بھی توجہ دلائیں کہ ترکوں سے جو سلوک ہورہا ہے وہ درست نہیں اور اس طرح میں اَور آدمی بھی دے سکتا ہوں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام اپنی اصلی شان میں نظر نہیں آسکتا جب تک وہ اس طرح لوگوں کے سامنے پیش نہ کیا جائے جس طرح اس زمانہ کے مصلح نے اسے پیش کیا ہے اور اس وقت تک اس کی ہیبت لوگوں کے دلوں میں نہیں بیٹھ سکتی جب تک اس کے زندہ ہونے کا ثبوت زندہ نشانوں سے نہ دیا جائے۔ پس یہ لوگ اپنے عقائد کو نہیں چھپا سکتے مگر آپ لوگ اسلام کی عزت اور مسلمانوں کی بقاء کے لئے اگر اس بات کو برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں تو مجھے اس کام کے اہل لوگ مہیا کر دینے میں کوئی عذر نہیں۔ ان لوگوں میں سے کچھ امریکہ میں کام کریں اور کچھ فرانس میں۔ اور اس وقت تک یہ سلسلہ جاری رہے جب تک ترکوں سے معاہدہ طے ہو۔

میرے نزدیک ان تمام مشکلات کا حل صرف یہی ہے اور اگر اس دروازہ سے داخل ہوکر کامیابی حاصل نہ کرنی چاہی تو کامیابی کی امید رکھنی فضول ہے اور سب جلسے اور ریزولیوشن اور ڈیپوٹیشن صرف کھلونے ہیں جن سے بچے تو خوش ہوسکتے ہیں مگر صاحب تجربہ اور صاحب عقل کچھ امید نہیں رکھ سکتے۔ اگر آپ لوگوں کی سمجھ میں یہ نصائح آئیں تو آپ لوگ میرے قائم مقاموں سے اس کے متعلق گفتگو کر سکتے ہیں ورنہ خدا تعالیٰ کی طرف سے اور اس کے ارشاد کے ماتحت ہماری طرف سے تو دیر سے حجت پوری ہوچکی ہے۔ اب لالہ لاجپت صاحب کی قلم کے ذریعہ غیر مذہب والوں کی طرف سے بھی آپ پر حجت قائم ہوگئی ہے۔وَاٰخِرُ دَعْوَانَا اَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔

خاکسار مرزا محمود احمد

ازقادیان18۔ستمبر 1919ء

(الفضل 27 ستمبر 1919ء)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button