خطاب حضور انور

جلسہ سالانہ یوکے 2018ء کے موقعہ پر حضور انور ایدہ اللہ کا اختتامی خطاب

جماعت احمدیہ برطانیہ کے جلسہ سالانہ کے موقع پر05؍اگست2018ء بروز اتوار امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا حدیقۃالمہدی( آلٹن) میں اختتامی خطاب

(اس خطاب کا متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔ اِنَّ اللہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَاِیْتَآءِ ذِی الْقُرْبٰی وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشآئِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ (النحل91:)۔

یقیناً اللہ تعالیٰ عدل کا اور احسان کا اور اقربا پر کی جانے والی عطا کی طرح عطا کا حکم دیتا ہے۔ بے حیائی اور ناپسندیدہ باتوں اور بغاوت سے منع کرتا ہے ۔وہ تمہیں نصیحت کرتا ہے تا کہ تم عبرت حاصل کرو۔

یہ آیت جو تلاوت کی گئی ہے اس کے پہلے حصہ میں جن اوامر کا ذکر ہے جن باتوں کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یعنی عدل، احسان اور ایتاء ذی القربی۔ ان کو میں اپنی گزشتہ سالوں کی تقریروں میں مختلف زاویوں سے بیان کر چکا ہوں گو کہ ابھی بھی بڑا وسیع مضمون ہے۔

دنیا کے امن کو قائم رکھنے کے لئے، انسان کو بااخلاق انسان بنانے کے لئے، انسان کو ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے والا بنانے کے لئے، انسان کو اپنے پیدا کرنے والے خدا کا حقیقی عبد بنانے کے لئے، عدل، احسان اور ایتاء ذی القربیٰ پر عمل انتہائی ضروری ہے۔ لیکن اس کے معیار اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتے جب تک کہ اخلاقی اور روحانی قدروں کے معیار بھی بلند نہ کئے جائیں۔ جب تک عدل، احسان اور ایتاء ذی القربی کسی ضابطے اور اصول کے اندر رہتے ہوئے نہ کئے جائیں۔ اس لئے خدا تعالیٰ نے جو انسانی نفسیات کو سب سے زیادہ جانتا ہے کرنے والے احکام کے ساتھ، نہ کرنے والے احکامات کا بھی ذکر کر دیا اور فرمایا کہ وَیَنْھٰی عَنِ الْفَحْشآئِ وَالْمُنْکَرِ وَالْبَغْیِ۔ اور بےحیائی اور ناپسندیدہ باتوں اور بغاوت سے اللہ تعالیٰ منع کرتا ہے۔

ان کرنے والی باتوں اور احکامات اور نہ کرنے والی باتوں اور احکامات کے ایک دوسرے سے تعلق کیا ہیں؟ اور اس کی حکمت اور فلسفہ کیا ہے؟ بظاہر نظر دیکھنے سے تو یہی لگتا ہے کہ جب عدل قائم ہو گیا، احسان کا سلوک آپس کے تعلقات میں ہو، ایتاء ذی القربیٰ کے سلوک جیسا سلوک ہو تو پھر برائی کس طرح رہے گی۔ اور جب یہ نہیں تو پھر نہ کرنے والی باتوں کے بیان کی ضرورت ہی کیا ہے۔ کرنے والے احکامات اور نہ کرنے والے احکامات کے آپس کے تعلق اور حکمت کو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس طرح بیان فرمایا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:

’’اگر یہ نیکیاں اپنے اپنے محل پر مستعمل نہیں ہوں گی تو پھر یہ بدیاں ہو جائیں گی۔ بجائے عدل فحشاء بن جائے گا۔ یعنی حد سے اتنا تجاوز کرنا کہ ناپاک صورت ہو جائے۔ اور ایسا ہی بجائے احسان کے منکر کی صورت نکل آئے گی یعنی وہ صورت جس سے عقل اور کانشنس انکار کرتا ہے۔ اور بجائے ایتاء ذی القربی کے بَغْیٌ بن جائے گا۔ یعنی وہ بے محل ہمدردی کا جوش ایک بری صورت پیدا کرے گا‘‘ فرمایا کہ’’ اصل میں بغی اس بارش کو کہتے ہیں جو حد سے زیادہ برس جائے اور کھیتوں کو تباہ کر دے اور یاحق واجب …‘‘ میں کمی رکھنے کو بھی بغی کہتے ہیں۔ ’’اور یا حق واجب سے افزونی کرنا بھی ‘‘زیادہ ہونا بھی ’’بغی ہے۔‘‘ بغي میں شمار ہوتا ہے۔ ’’غرض ان تینوں میں سے جو محل پر صادر نہیں ہوگا وہی خراب سیرت ہو جائے گی۔ اسی لئے ان تینوں کے ساتھ موقع اور محل کی شرط لگا دی ہے۔‘‘ فرمایا ’’اس جگہ یاد رہے کہ مجرد عدل یا احسان یا ہمدردئ ذی القربیٰ کو خُلق نہیں کہہ سکتے۔ بلکہ انسان میں یہ سب طبعی حالتیں اورطبعی قوتیں ہیں کہ جو بچوں میں بھی وجود عقل سے پہلے پائی جاتی ہیں۔ مگر خُلق کے لئے عقل شرط ہے۔ اور نیز یہ شرط ہے کہ ہر ایک طبعی قوت محل اور موقع پر استعمال ہو۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی، روحانی خزائن جلد 10 صفحہ 354)

پس اسلام نے اپنے تمام احکامات کا ایک ضابطہ اور دائرہ رکھا ہے اس سے باہر نکلنا فساد کی وجہ بن جاتا ہے۔

اب میں ان نواہی کے بارے میں قرآن اور حدیث اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشادات کے حوالے سے باتیں بیان کروں گا۔ یہ ہماری اخلاقی اور روحانی بہتری کے لئے کس قدر اہم ہیں۔ ان کے مضمون کیا ہیں۔ ان کے معنی کیا ہیں۔ کچھ حد تک باتیں سامنے آجائیں گی۔ فُحش کیا ہے؟ اردو میں ہم اس کا ترجمہ بےحیائی کردیتے ہیں لیکن اس سے اس کی وسعت کا پتہ نہیں چلتا جو اس کے معنوں میں ہے۔
اہل لغت کے نزدیک ہر وہ چیز جو اپنی حد سے تجاوز کرے وہ فُحش ہے۔ اور جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا قول ہے کہ شیطان تمہیں غریبی سے ڈراتا ہے اور فحشاء کا حکم دیتا ہے۔ مفسّرین کے نزدیک اس کا مطلب ہے کہ شیطان تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم صدقہ نہ کرو۔

(تفسیر طبری جزء 3 صفحہ 105 مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 2001ء)

اور بعض کے نزدیک یہاں پر فحشاء سے مراد بخل ہے اور عرب بخیل کو فاحش کہتے تھے۔ لسان العرب میں ہے کہ فاحش سے مراد وہ شخص ہے جو اخلاق میں برا، متشدد ہو اور سخت بخیل ہو۔ (لسان العرب زیر مادہ فحش)

فحشاء اور فاحشہ سے مراد سخت برائی والا گناہ ہے۔ زکوٰۃ کی ادائیگی میں بخل کرنا ہے۔

(تفسیر مظہری جلد اوّل صفحہ373 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2007ء)

اور بعض کے نزدیک ہر وہ کام ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہو۔ فُحش اور فحشاء اور فاحشہ سے ہر ایسا قول یا فعل مراد ہے جو بہت ہی برا ہو۔ ایک پرانے مفسر علّامہ اسماعیل الحقی ہیں وہ کہتے ہیں کہ یَنْھٰی عَنِ الْفَحْشآئِ ایسے گناہ جو قولی اور فعلی طور پر قباحت میں بڑھے ہوئے ہوں۔ جیسا کہ جھوٹ، بہتان، شریعت کو حقیر سمجھنا، زنا اور لواطت وغیرہ ہے۔ اور ہر وہ چیز جو تجھے اللہ تعالیٰ سے روکے۔ اور اس سے تیرے تعلق کو خواہ کچھ عرصہ کے لئے ہی ختم کرے چاہے وہ مال ہو یا اولاد ہو یا ان جیسی کوئی چیز ہو وہ فحشاء میں سے ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ سے انقطاع سے زیادہ کوئی بھی چیز قبیح نہیں ہے اور اس کے اسباب بھی اسی میں شامل ہیں۔

(تفسیر روح البیان جلد 5 صفحہ 73 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)

پس جو چیز بھی قُبح کی طرف لے جاتی ہے وہ بھی قبیح ہے۔

پس ان معنوں سے یہ ظاہر ہوا کہ فحش اور فحشاء سے ہر ایسا قول اور فعل مراد ہے جو برا ہے، برائی کی طرف لے جانے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے حکموں سے روکنے والا ہے۔ ایک بدمذہب یا لامذہب بھی کچھ حد تک دنیاوی معاملات میں عدل کرنے کا دعویٰ کر سکتا ہے یا بعض معاملات میں انصاف کر سکتا ہے، انصاف کے تقاضے مکمل طور پر پورے نہ کر سکتا ہو تب بھی اپنی سوچ کے مطابق کچھ نہ کچھ انصاف کر سکتا ہے۔ لیکن اگر اس میں اخلاقی برائیاں ہیں تو اللہ تعالیٰ کو تو وہ پہلے ہی نہیں مانتا تو ایسے شخص کو ہم نہیں کہہ سکتے کہ اس کے عدل کے معیار وہ ہیں جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایک مومن سے چاہتا ہے کہ اس کی ظاہری نیکیاں حقیقی نیکیاں بنیں اور حقیقی نیکیاں اس وقت تک نہیں بن سکتیں جب تک اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات پر عمل نہ ہو اور تقویٰ کا وہ معیار نہ ہو جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔ پس فحشاء سے بچتے ہوئے ایک مومن کا عدل کا معیار بھی اس سے بہت بلند ہے جو ایک دنیا دار کا ہے۔ ایک دنیادار دنیاوی معاملات میں تو جیساکہ میں نے کہا کچھ حد تک انصاف کر سکتا ہے لیکن کیونکہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے والا نہیں ہے اس لئے اس کا عدل، احسان اور اگر ایتاء ذی القربی کا سلوک بھی ہے تو وہ روحانی لحاظ سے خالی ہوگا۔ اور جب روحانیت سے خالی ہوگا تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس میں وہ نکھار نہیں پیدا ہو سکتا جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے۔

ایک حدیث میں آتا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہودی آئے اور انہوں نے کہا السَّامُ عَلَیْکُم یعنی تم پر ہلاکت ہو۔ تو اس پر حضرت عائشہؓ نے فرمایا بلکہ اللہ تعالیٰ تم پر لعنت کرے اور اللہ تم پر غضب کرے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے عائشہ! ٹھہرو نرمی اختیار کرو اور سختی اور بدزبانی سے پرہیز کرو۔ حضرت عائشہؓ نے کہا کہ کیا آپ نے نہیں سنا کہ انہوں نے کیا کہا ہے؟ آپؐ نے فرمایا کیا تم نے وہ نہیں سنا جو مَیں نے جواب دیا ہے۔ آپ نے فرمایا کہ میں نے ان پر ان کی بات واپس کر دی اور میری ان کے متعلق بات سنی جائے گی اور ان کی میرے متعلق نہیں سنی جائے گی۔

(صحیح البخاری کتاب الادب باب لم یکن النبیؐ فاحشا ولامتفاحشا حدیث 6030)

یہ ہے فحشاء سے بچنے کا معیار کہ دشمن کے غلط الفاظ استہزاء یا گالی پر بھی اپنے اخلاق کو ہاتھ سے نہیں جانے دینا۔ حضرت عائشہؓ نے جو جواب فرمایا تھا وہ بھی انصاف کے دائرے سے باہر نہیں تھا۔ لیکن اس میں دلی رنجش بھی شامل ہو گئی تھی اور جب یہ شامل ہو جائے تو پھر عدل کا اعلیٰ معیار نہیں رہتا۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فُحش سے، بدزبانی سے پرہیز کرو۔ اس کے لئے آپ نے فُحش کا لفظ استعمال فرمایا۔ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق عدل تب حقیقی طور پر قائم ہو گا جب فحشاء سے پرہیز ہو گا اور اعلیٰ اخلاق کا مظاہرہ ہو گا۔ عَلَیْکُمْ کہہ کر اس کے الفاظ کو اس پر الٹا دیا تو یہی کافی ہے۔ پس یہ ہے وہ اُسوہ جو اس معیار کو سمجھنے کے لئے ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا کہ فاحش سے مراد وہ شخص بھی ہے جو اخلاق میں برا ہے۔ لیکن ایسے شخص سے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا رویّہ کیا ہے ۔

اس بارے میں حضرت عائشہ ؓبیان کرتی ہیں کہ ایک شخص نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت مانگی تو آپ نے فرمایا اچھا اس برے آدمی کو اندر آنے کی اجازت دے دو۔ جب وہ اندر آیا تو آپ نے بڑی نرمی سے اور اخلاق سے اس سے باتیں کیں۔ تو میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ نے تو فرمایا تھا کہ یہ شخص برا آدمی ہے۔ پھر آپ نے اس سے نرم کلامی کیوں کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں عائشہ یہ بات ہے کہ بیشک وہ شخص بہت برا ہے جسے لوگ اس کی سخت کلامی کے ڈر سے چھوڑ دیں وہ بھی فاحش کے زمرہ میں آئے گا۔ جس کی بدکلامی زیادہ ہو، اخلاق اچھے نہ ہوں اور لوگ اس سے بچتے ہوں اور چھوڑ دیں۔ آپ نے فرمایا کہ بیشک وہ شخص برا ہے کیونکہ اس کی بداخلاقی سے لوگ ڈرتے ہیں۔ اور جیسا کہ میں نے کہا جو الفاظ آپ نے استعمال فرمائے وہ ہیں اِنَّ شَرَّالنَّاسِ مَنْ تَرَکَہُ النَّاسُ اِتِّقَاءَ فُحْشِہٖ۔ (صحیح البخاری کتاب الادب باب ما یجوز من اغتیاب اھل الفساد والریب حدیث 6054)۔ کہ لوگ ڈرتے ہیں اس سے اور بچتے ہیں اس کی بداخلاقی سے اور فُحش باتوں سے۔ فُحش باتیں وہی ہیں جو وہ بداخلاقی کرتا ہے اور اس کے قریب نہیں جاتے۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور روایت میں فرمایا کہ میرے اپنے اخلاق ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ مجھے تم نے کبھی کسی سے بداخلاقی کرتے ہوئے دیکھا ہے (صحیح البخاری کتاب الادب باب لم یکن النبیؐ فاحشا ولا متفاحشا حدیث 6032) جو اس برے آدمی سے بداخلاقی کروں جو میرے گھر آیا۔ پس یہ باریکی ہے اعلیٰ اخلاق کی اور جب یہ ہو تو پھر ہی حقیقی انصاف بھی قائم ہو سکتا ہے ورنہ تو دوسرے کے رویّے سے جو انصاف ہے اس پر اثر پڑ سکتا ہے۔
پھر ایک روایت میں آتا ہے ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مَاکَانَ الفُحْشُ فِیْ شَیْئٍ اِلَّاشَانَہٗ وَمَا کَانَ الْحَیَائُ فِیْ شَیْئٍ اِلَّا زَانَہٗ۔ حضرت انس سے یہ روایت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس چیز میں بےحیائی ہوتی ہے وہ اسے عیب دار کردیتی ہے اور جس چیز میں حیا ہوتی ہے وہ اسے زینت بخشتی ہے۔

(سنن الترمذی کتاب البر والصلۃ باب ما جاء فی الفحشحدیث 1974)

یہاں فاحش کے مقابلے پر حیا کو رکھا ہے۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ اگر انسان حیا سے پرے ہوتا جائے تو پھر یہ دوری فاحش کی طرف لے کر جاتی ہے۔ جو مرد عورت حیا کے پردے نہیں رکھتے وہ پھر فحشاء کی طرف چلے جاتے ہیں اور فحشاء کی طرف جانے والے پر جو ذاتی خواہشات ہیں وہ حاوی ہو جاتی ہیں اور ذاتی خواہشات حاوی ہونے والا پھر نہ عدل کر سکتا ہے نہ احسان کر سکتا ہے نہ ایتاء ذی القربیٰ کا سلوک کر سکتا ہے۔ پس اس ارشاد میں ایک انتہائی گہرائی ہے۔

پھر ایک روایت میں آتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اِنَّ الْفُحْشَ وَالتَّفَاحُشَ لَیْسَ مِنَ الْاِسْلَامِ وَاِنَّ اَحْسَنَ النَّاسِ اِسْلَامًا اَحْسَنُہُمْ خُلُقًا۔ اس مکمل حدیث کا ترجمہ یہ ہے جو حضرت جابر بن سمرۃؓ سے مروی ہے کہ مَیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک مجلس میں شریک تھا۔ میرے والد حضرت سمرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے سامنے بیٹھے ہوئے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بے حیائی اور بیہودہ گوئی کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے اور اسلام کے اعتبار سے لوگوں میں عمدہ شخص وہ ہے جس کے اخلاق سب سے عمدہ ہوں۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 7 صفحہ 18 حدیث 21120 مطبوعہ عالم الکتب العلمیہ بیروت 1998ء)

پھر حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یقیناً قیامت کے دن لوگوں میں سے بدترین وہ ہے جس کی فُحش گوئی سے بچا جاتا ہو۔ (صحیح البخاری کتاب الادب باب لم یکن النبیؐ فاحشا ولا متفاحشا حدیث 6032) ۔ اس میں جیسا کہ لغوی معنی سے ظاہر ہے بیہودہ گوئی اور غلیظ زبان کے علاوہ بداخلاقی کا معنی بھی شامل ہے۔

پھر فاحش اور بے حیائی سے بچنے کی تلقین فرماتے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔ عبداللہ بن عمرو بن عاص بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ قیامت کے دن ظلم اندھیروں کی صورت میں ہوگا۔ بے حیائی سے اپنے آپ کو بچاؤ کیونکہ اللہ تعالیٰ کو سخت گوئی اور بدزبانی پسند نہیں۔ بخل سے بھی اپنے آپ کو بچاؤ کیونکہ بخل نے تم سے پہلے لوگوں کو بھی ہلاک کر دیا تھا۔ اسی بخل نے انہیں قطع رحمی کا راستہ دکھایا سو انہوں نے رشتے ناطے توڑ دئے۔ اسی بخل نے انہیں اپنی دولت اور چیزیں اپنے پاس سمیٹ کر رکھنے کا حکم دیا سو انہوں نے ایسا ہی کیا۔ اسی بخل نے انہیں گناہوں کا راستہ دکھایا سو وہ گناہ کرنے لگے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 2 صفحہ 590 حدیث 6487 مطبوعہ عالم الکتب العلمیہ بیروت 1998ء)

پس یہ سب باتیں جو ہیں فُحش کی قسمیں ہیں اور سب گناہوں کی طرف لے جانے والی ہیں یا خود گناہ ہیں اور اس دنیا میں ان سے بچنے والا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کے مطابق پھر قیامت کے اندھیروں سے بچنے والا ہوگا۔

اس بات کو کہ بخل شیطان کا فعل ہے اور جب انسان بخیل ہو جائے تو اللہ تعالیٰ کے فضلوں اور بخشش سے محروم ہو جاتا ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس طرح بیان فرمایا ہے۔ فرمایا کہ اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُکُمْ الْفَقْرَ وَیَاْمُرُکُمْ بِالْفَحْشَآئِ۔ وَاللہُ یَعِدُکُمْ مَّغْفِرَۃً مِّنْہُ وَفَضْلًا۔ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ (البقرۃ269:)کہ شیطان تمہیں غربت سے ڈراتا ہے اور تمہیں فحشاء کا حکم دیتا ہے جبکہ اللہ تمہارے ساتھ اپنی جناب سے بخشش اور فضل کا وعدہ کرتا ہے اور اللہ بڑی وسعتیں عطا کرنے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے۔

جیسا کہ لغوی وضاحت میں یہ واضح ہو گیا ہے کہ فُحش ہر اس بدی کو کہتے ہیں جس کی برائی ظاہر ہو۔ اسی طرح فُحش بخل کو بھی کہتے ہیںا ور شیطان فقر سے ڈرا کر بخل کا حکم دیتا ہے۔ بخل ایک ناپسندیدہ امر ہے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ پسند نہیں۔ پس شیطان بخل سے ڈرا کر ہمیشہ بدی کا حکم دے گا۔ جب بخل سے ڈرائے گا تو اس لئے ڈرائے گا کہ تم نیکیاں نہ کرو اور بدیاں کرو۔ مثلاً اس سوچ میں ڈال دیتا ہے کہ غریب کی مدد کرو گے، چندوں کی طرف توجہ دو گے تو تمہارے اخراجات کس طرح پورے ہوں گے؟ ہاں اگر لغویات پر خرچ کرنا ہے تو کہتا ہے ضرور کرو۔ بہت سی فضول خرچیاں لوگ کر جاتے ہیں اس میں کوئی کنجوسی نہیں کرتے۔ یہی حال ہم دنیا داروں کا دیکھتے ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے تم اللہ کے فضلوں کے وارث بنو گے۔ اس کا تجربہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کے بیشمار افراد کو ہے کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے ان کی فقر کی حالت نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ ان کو کشائش عطا فرماتا ہے۔

پھر قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّمَا یَاْمُرُکُمْ بِالسُّوْٓئِ وَالْفَحْشَآئِ وَاَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ۔ (البقرۃ170:) کہ یقیناً وہ تمہیں محض برائی اور بے حیائی کی باتوں کا حکم دیتا ہے اور یہ کہ تم اللہ کے خلاف ایسی باتیں کہو جن کا تمہیں کوئی علم نہیں۔

ظاہر ہے جب برائی اور فحشاء کے پیچھے انسان چلے گا تو وہ بات کرے گا، وہ کہے گا جو اللہ تعالیٰ کے حکموں کے خلاف ہے اور مختلف برائیوں میں مبتلا ہوتا چلا جائے گا اور بڑھتا چلا جائے گا۔ یَاْمُرُکمْ بِالسُّوْٓئِ۔ سُوْء وہ برائیاں ہیں جو انسان کی اپنی ذات کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ جیسے بدظنی ہے، غفلت ہے، بزدلی ہے، بے غیرتی ہے یا تکبر ہے۔ اور اس طرح کی تمام برائیاں ہیں۔ ان کا نقصان انسان کی اپنی ذات کو زیادہ ہوتا ہے۔ بدظن جو ہے وہ بدظنی کر کے اپنے ہی دل میں کڑھتا اور سڑتا رہتا ہے۔ پریشان ہوتا رہتا ہے اور اس کا نقصان اس کی ذات کو ہی زیادہ ہوتا ہے۔ بہت سے دنیاوی لوگ میں نے اسی طرح دیکھے ہیں۔ غفلت ہے۔ کسی بھی کام سے جب غفلت انسان کو ہوتی ہے تو اس کا نقصان بھی انسان کی اپنی ذات کو ہوتا ہے۔ اسی طرح دوسرے گناہ ہیں۔ اور یہ سب برائیاں جب بڑھتی جائیں اور انسان ان کی اصلاح کی کوشش نہ کرے تو وہ بڑھ کر پھر ایسی بدیوں میں داخل ہو جاتی ہیں جو دوسروں کو بھی نقصان پہنچانے والی ہوتی ہیں اور یہ فحشاء میں شامل ہیں۔ مثلاً خیانت ہے۔ چاہے کام میں خیانت ہو یا مال میں خیانت ہو اس کا اثر دوسروں پر پڑتا ہے۔ مثلاً بعض لوگ جب غلط طریق پر اپنے حالات ظاہر کرکے یہاں حکومت کے اداروں سے مالی منفعت حاصل کر لیتے ہیں تو وہ فحشاءکے مرتکب ہوتے ہیں۔ کسی پر تہمت لگا کر اسے بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ بھی فُحش ہے۔ کسی کو دھوکہ دیتے ہیں یا مار پیٹ کرتے ہیں۔ غیر ضروری طرفداری کرنا ہے۔ رشوت دے کر اپنے کام دوسرے کو نقصان پہنچا کر کروانا ہے۔ جس طرح پاکستان میں اور تیسری دنیا کے بہت سے شہروں میں ہوتا ہے۔ تو پھر یہ عمل بے حیائی اور فُحش میں بڑھاتے چلے جانے والے عمل ہیں اور خدا کے مقابل کھڑا کر دیتے ہیں۔ بظاہر خدا تعالیٰ کا نام بھی لے رہے ہوتے ہیں۔ اور جب برائیاں پھیل رہی ہوں، جب ایسی صورت ہو تو پھر برائیاں پھیلتی چلی جاتی ہیں۔ اور جب برائیاں پھیل رہی ہوں، یہ احساس مٹ جائے کہ اپنی ذاتی برائیوں کی بھی اصلاح کرنی ہے کیونکہ یہ قومی برائیاں بن سکتی ہیں اور دوسروں کو نقصان پہنچانے والی برائیاں بن سکتی ہیں۔ تو اگر یہ احساس مٹ جائے تو پھر اس سوسائٹی میں انصاف اور عدل بھی قائم نہیں رہ سکتا۔ اور آج یہی صورت حال جو ہے ہمیں ان ملکوں میں نظر آتی ہے جہاں یہ سب کچھ مٹ رہا ہے، اخلاقی قدریں ختم ہو رہی ہیں۔

پھر فحشاء کے بعد جس بات سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے وہ مُنْکَر ہے۔ مختلف لغات میں مُنْکَر کے جو معنی کئے گئے ہیں وہ پیش کرتا ہوں۔ امام راغب نے لکھا ہے کہ عرفان کی ضد کو انکار کہتے ہیں۔ ہر ایسے فعل کو مُنْکَر کہتے ہیں جس کو عقول صحیحہ برا جانیں۔

(مفردات امام راغب زیر مادہ نکر)

پھر لسان العرب میں لکھا ہے الْمُنْکَر معروف کا متضاد ہے۔ اس سے مراد ہر وہ عمل ہے جس کا برا اثر ہونا شریعت نے بیان کیا ہے اور اس کو حرام قرار دیا ہے اور اس سے کراہت ظاہر کی ہے۔ پس وہ مُنْکَر ہے۔

(لسان العرب زیر مادہ نکر)

اقرب نے لکھا ہے کہ ہر وہ بات یا فعل جس میں اللہ تعالیٰ کی پسندیدگی نہ ہو مُنْکَر کہلاتی ہے۔

(اقرب الموارد زیر مادہ نکر)

علّامہ آلوسی لکھتے ہیں کہ قوت غضبیہ کا وہ اظہار جس میں افراد کو اور ایسے فعل کو ناپسند کیا جائے اسے مُنْکَر کہتے ہیں۔

(تفسیر روح المعانی جزء 14 صفحہ 610-611 مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 1999ء)

علّامہ جلال الدین سیوطی حضرت ابن عباس کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ مُنْکَر سے مراد جھٹلانا ہے اور یہ سب سے زیادہ ناپسندیدہ امر ہے۔

(تفسیر در منثور جلد 2 صفحہ 279 مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 2001ء)

اللہ تعالیٰ نے فحشاءکے بعد مُنْکَر سے منع فرمایا ہے اور اس تفسیر سے جو میں نے ابھی پڑھی ہےاس بات پر بھی روشنی پڑتی ہے کہ بے حیائی پیدا ہو تو عدل قائم نہیں ہوتا۔ اور جب اس بے حیائی کو اس حد تک لے جایا جائے کہ وہ مُنْکَر بن جائے تو ایسی غلط باتوں پر ضد کی جائے اور سچائی کو جھٹلایا جائے تو پھر ایسے شخص یا ایسے گروہ سے احسان کی امید نہیں کی جا سکتی۔ پس مُنْکَر وہ ہے جو نیکیوں سے دُور ہٹنے والے ہیں۔ نفس ان پر غالب ہے۔ خود غرضی میں بڑھے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے پیغام کو جھٹلانے والے ہیں اور ظلم کے ساتھ جھٹلانے کی کوشش کرنے والے ہیں جو آجکل احمدیوں کے ساتھ بھی بعض لوگوں کی طرف سے، بعض گروہوں کی طرف سے، بعض حکومتوں کی طرف سے ہو رہا ہے۔

ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اِنَّ اللہَ لَیَسْئَلُ الْعَبْدَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حَتّٰی یَقُوْلَ مَا مَنَعَکَ اِذْ رَأَیْتَ الْمُنْکَرَ اَنْ تُنْکِرَہٗ فَاذَا لَقَّنَ اللہُ عَبْدًا حُجَّتَہٗ قَالَ یَا رَبِّ رَجَوْتُکَ وَفَرِقْتَ مِنَ النَّاسِ۔ حضرت ابوسعید بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ یقینًا اللہ تعالیٰ قیامت کے روز اپنے بندے سے ضرور پوچھے گا یہاں تک کہ فرمائے گا کہ تجھے کس چیز نے اس بات سے منع کیا کہ جب تم کوئی ناپسندیدہ بات دیکھو تو تم اس کو ناپسند کرو۔ فرمایا کہ جب اللہ بندے پر اپنی حجت پوری کر دے گا تو بندہ کہے گا کہ اے میرے رب مجھے تجھ سے امید تھی مگر لوگوں کا ڈر تھا۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الفتن باب قولہ تعالیٰ یایھا الذین اٰمنوا علیکم انفسکم حدیث 4017)

یہ مسلمان اُمّت کے لئے ایک المیہ ہے کہ باوجود اس کے کہ آپ نے اس کی وارننگ بھی دی ہوئی ہے۔ باوجود اس کے کہ یہ آیت ہر جمعہ کو پڑھی جاتی ہے اور بار بار اس کی یاددہانی ہوتی ہے پھر بھی لوگوں سے زیادہ ڈر ہے اور خدا تعالیٰ کا خوف دل میں نہیں ہے جس کی وجہ سے برائیوں میں پھر بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔

پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے کس طرح معلوم ہو کہ مَیں اچھا یا برا کام کر رہا ہوں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے ہوئے سنو کہ تم اچھا کام کر رہے ہو تو سمجھ لو کہ تمہارا طرز عمل اچھا ہے۔ اور جب تم پڑوسیوں کو یہ کہتے سنو کہ تم برا کام کر رہے ہو تو سمجھ لو کہ تمہارا طرز عمل برا ہے۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب الثناء الحسن حدیث4223)

پس پڑوسی کے حق کا خیال کرنا، اس کا حق دینا، نہ صرف اس کی تکالیف دُور کرنا بلکہ اسے آرام پہنچانے کی کوشش کرنا اور ہر ممکن کوشش کرنا، جب یہ ہو گا تب اللہ تعالیٰ کے حکم کی فرمانبرداری ہو گی اور ہمسایہ بھی جب خوش ہو گاتو اللہ تعالیٰ بھی اس سے خوش ہو گا ورنہ ناخوش ہو کر ایسے لوگوں کو منکرین میں شمار کرے گا۔ مومن کی خصوصیت اور شان کیا ہونی چاہئے اور اللہ تعالیٰ ایک مومن سے کیا چاہتا ہے؟ اس بات کو بیان فرماتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
’’یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ۔ مومنوں کی شان ہے۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے پہلے ضروری ہوتا ہے کہ انسان اپنی عملی حالت ثابت کر دکھائے کہ وہ اس قوت کو اپنے اندر رکھتا ہے کیونکہ اس سے پیشتر کہ وہ دوسروں پر اپنا اثر ڈالے اس کو اپنی حالت اثر انداز بھی تو بنانی ضروری ہے۔ پس یاد رکھو کہ زبان کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے کبھی مت روکو۔ ہاں محل اور موقع کی شناخت بھی ضروری ہے اور انداز بیان ایسا ہونا چاہئے جو نرم ہو اور سلاست اپنے اندر رکھتا ہو اور ایسا ہی تقویٰ کے خلاف بھی زبان کا کھولنا سخت گناہ ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 424 ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس مومن کی بیشک یہ شان ہے کہ وہ بری اور غیرضروری باتوں سے روکتا ہے۔ لیکن دوسروں کو روکنے سے پہلے یہ ضروری ہے کہ اپنی حالت اس بات کا اثر پیدا کرنے والی بنائی جائے۔ اپنی عملی حالت کو بہتر بناؤ یہ عملی حالت کی بہتری ہی وہ طاقت رکھتی ہے جو پھر دوسرے پر اثر انداز ہوتی ہے اور یہ بھی بات یاد رکھنی چاہئے کہ موقع محل دیکھ کر نصیحت کی جائے۔

پس برائیوں سے روکنا بھی بڑی اچھی بات ہے اور اگر انسان دوسروں کو برائیوں سے روکتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے دوسروں کو بچاتا ہے جب ان کو برائیوں سے روکتا ہے۔ لیکن موقع محل دیکھ کر۔ یہ نہیں کہ کسی کی برائی دیکھی تو پبلک میں کھڑے ہو کر اس کی برائیاں بیان کرنا شروع کر دیں یا اس کو روکنا ٹوکنا شروع کر دیا یا کوئی عہدیدار ہے تو سٹیج سے ہی اس کے خلاف باتیں کرنی شروع کر دیں۔ بہرحال یہ بہت اچھی بات ہے کہ اس کو برائیوں سے بچاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچاتے ہیں اور گناہوں سے دور کرتے ہیں اگر صحیح محل پر سمجھایا جائے تو پھر یہ دوسرے پر احسان بن جاتا ہے۔ لیکن اس کے لئے یہ شرط بہرحال ضروری ہے کہ اپنا عملی نمونہ اور موقع اور محل کے لحاظ سے بات ہو اور نرم زبان میں بات ہو اور تقویٰ کو سامنے رکھتے ہوئے یہ باتیں ہوں۔

پس یہ وہ خوبصورت طریقہ کار ہے جو عاجزی کے ساتھ دنیا میں نیکیاں پھیلانے کا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو فحشاء اور منکر سے بچنے کے لئے ایک نسخہ بھی عطا فرمایا ہے۔ اگر اس نسخہ کو صحیح استعمال کیا جائے تو انسان نہ صرف فحشاء اور منکر سے بچتا ہے بلکہ اپنی نسلوں کو بھی بچاتا ہے بلکہ دنیا کے لئے بھی ایک نمونہ بن کر اسے بھی تباہی کے گڑھے میں گرنے سے بچاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اُتْلُ مَآاُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَاَقِمِ الصَّلٰوۃَ۔ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ۔ وَلَذِکْرُا اللہِ اَکْبَرُ۔ وَاللہُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ (العنکبوت46:)کہ تُو کتاب میں سے جو تیری طرف وحی کیا جاتا ہے پڑھ کر سنا اور نماز کو قائم کر۔ یقینًا نماز بے حیائی اور ناپسندیدہ بات سے روکتی ہے۔ اور اللہ کا ذکر یقینًا سب ذکروں سے بڑا ہے۔ اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔

دوسری آیات میں اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو جو باجماعت نماز کا حکم دیا ہے اور اَقِمِ الصَّلوٰۃَ کا مطلب بھی باجماعت نماز ہی ہے۔ یہ جہاں آپس میں محبت اور مودّت پیدا کرتا ہے وہاں بے حیائیوں اور بدکاریوں سے انسان کو بچاتا ہے۔ نماز باجماعت کی صورت میں بہت سا وقت عبادت میں گزرے گا اور انسان برائیوں کے خیالات سے بھی بچے گا۔ پس اس کا حق ادا کرتے ہوئے عبادت کی جائے تو یہ یقیناً فحشاء اور منکر سے بچاتی ہے۔ برائی اور ناپسندیدہ باتوں سے روکتی ہے۔ اور مسجد میں آ کر بھی جو نماز اس سے نہ روکے جیسے بعض واقعات ہو جاتے ہیں ایک دوسرے کے خلاف کینہ اور بغض پیدا ہو رہا ہو اور باتیں کی جا رہی ہوں، مسجد سے باہر نکلیں تو سڑک پر لڑائیاں ہو رہی ہوں، لوگوں کے سامنے تماشا بنا ہو ایسی نمازیں تو پھر خود نماز پڑھنے والے کو بھی گناہگار کر رہی ہوں گی اور دنیاداروں کو بھی دین سے متنفر کر رہی ہوں گی جن کے سامنے آپ نے دین پیش کرنا ہے۔ ایک حدیث میں آتاہے حضرت ابن عباس بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کی نماز اسے فحشاء اور منکر سے نہ روکے وہ اللہ تعالیٰ سے دُوری کے علاوہ کسی چیز میں نہیں بڑھتا۔

(تفسیر طبری جزء 20 صفحہ 180 مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 2001ء)

پس نماز جو حقیقی نماز ہے جو خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے لئے پڑھی جاتی ہے فحشاء اور منکر سے روکتی ہے۔ لیکن اگر اس میں دنیا کی ملونی شامل ہو جائے جیسے ہم بعض مسلمان ملکوں میں دیکھتے ہیں، غیروں کی مساجد میں بعض لوگوں میں دیکھتے ہیں کہ نمازوں کے بعد ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگائے جاتے ہیں اور مغلظات بکی جاتی ہیں۔ ایسے نماز پڑھنے والوں کی نمازیں پھر انہیں فحشاء اور منکر سے نہیں روکتیں بلکہ انہیں مزید گناہگار بنا رہی ہوتی ہیں۔ ایسی نماز جو فحشاء اور منکر سے روکے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بنانے والی ہو اس کی حالت بیان فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’نماز میں لذت اور سرور بھی عبودیت اور ربوبیت کے ایک تعلق سے پیدا ہوتا ہے۔ جب تک اپنے آپ کو عدم محض یا مشابہ بالعدم قرار دے کر جو ربوبیت کا ذاتی تقاضا ہے نہ ڈال دے اس کا فیضان اور پرتَو اس پر نہیں پڑتا۔‘‘ عاجزی اور اپنے آپ کو کچھ نہ سمجھنا اور انکساری کی انتہا کرنا اس کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کے لئے ایک کوشش کی ضرورت ہے تاکہ خداتعالیٰ اس حقیقی نماز کا مزہ چکھائے جس سے اس کا فیضان حاصل ہوتا ہے اور فیضان اور اللہ تعالیٰ کا پرتَو اس پر پڑتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:’’ … اگر ایسا ہو تو پھر اعلیٰ درجہ کی لذت حاصل ہوتی ہے جس سے بڑھ کر کوئی حظ نہیں ہے۔ اس مقام پر انسان کی روح جب ہمہ نیستی ہو جاتی ہے، (بالکل ختم ہو جاتی ہے) تو وہ خدا کی طرف ایک چشمہ کی طرح بہتی ہے اور ماسوی اللہ سے اسے انقطاع تام ہو جاتا ہے۔‘‘ بالکل کٹ جاتی ہے اللہ تعالیٰ کے علاوہ اس کے سامنے کوئی چیز ہی نہیں ہوتی۔’’ اس وقت خدا تعالیٰ کی محبت اس پر گرتی ہے۔ اس اتصال کے وقت ان دو جوشوں سے جو اوپر کی طرف سے ربوبیت کا جوش اور نیچے کی طرف سے عبودیت کا جوش ہوتا ہے ایک خاص کیفیت پیدا ہوتی ہے۔ اس کا نام صلوٰۃ ہے۔ پس یہی وہ صلوٰۃ ہے جو سیّئات کو بھسم کر جاتی ہے اور اپنی جگہ ایک نور اور چمک چھوڑ دیتی ہے جو سالک کو راستے کے خطرات اور مشکلات کے وقت ایک منور شمع کا کام دیتی ہے اور ہر قسم کے خس و خاشاک اور ٹھوکر کے پتھروں اور خار و خس سے جو اس کی راہ میں ہوتی ہے آگاہ کر کے بچاتی ہے۔ اور یہی وہ حالت ہے جبکہ اِنَّ الصَّلوٰۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَر کا اطلاق اس پر ہوتا ہے کیونکہ اس کے ہاتھ میں نہیں اس کے دل میں ایک روشن چراغ رکھا ہوا ہوتا ہے اور یہ درجہ کامل تذلّل، کامل نیستی اور فروتنی اور پوری اطاعت سے حاصل ہوتا ہے۔ پھر گناہ کا خیال اسے کیونکر آسکتا ہے اور انکار اس میں پیدا ہی نہیں ہو سکتا۔ فحشاء کی طرف اس کی نظر اٹھ ہی نہیں سکتی۔ غرض ایک ایسی لذّت ایسا سرور حاصل ہوتا ہے (کہ) میں نہیں سمجھ سکتاکہ اُسے کیونکر بیان کروں۔‘‘(ملفوظات جلد اوّل صفحہ165-166)۔ اس کو بیان ہی نہیں کیا جاسکتا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :

’’نماز بھی گناہوں سے بچنے کا ایک آلہ ہے۔ نماز کی یہ صفت ہے کہ انسان کو گناہ اور بدکاری سے ہٹا دیتی ہے۔ سو تم ویسی نماز کی تلاش کرو اور اپنی نماز کو ایسی بنانے کی کوشش کرو۔ نماز نعمتوں کی جان ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فیض اسی نماز کے ذریعہ سے آتے ہیں سو اس کو سنوار کر ادا کرو تاکہ تم اللہ تعالیٰ کی نعمت کے وارث بنو۔‘‘

(الحکم مورخہ 10 مارچ 1903 ء جلد 7 شمارہ 9 صفحہ 8 کالم 2)

پھر فرمایا:’’اِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّئَات۔ یعنی نیکیاں یا نماز بدیوں کو دور کرتی ہے۔ یا دوسرے مقام پر فرمایا ہے نماز فواحش اور برائیوں سے بچاتی ہے۔ اور ہم دیکھتے ہیںکہ بعض لوگ باوجود نماز پڑھنے کے پھر بدیاں کرتے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہے کہ وہ نمازیں پڑھتے ہیں مگر نہ روح اور راستی کے ساتھ۔‘‘ (صحیح طریقے سے نہیں پڑھتے، وہ روح نہیں ہوتی جو نماز پڑھنے کے لئے ہونی چاہئے) ’’ وہ صرف رسم اور عادت کے طور پر ٹکریں مارتے ہیں۔ ان کی روح مردہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام حسنات نہیں رکھا۔ اور یہاں جو حسنات کا لفظ رکھا اَلصَّلوٰۃ کا لفظ نہیں رکھا باوجودیکہ معنی وہی ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ تا نماز کی خوبی اور حسن و جمال کی طرف اشارہ کرے کہ وہ نماز بدیوں کو دُور کرتی ہے جو اپنے اندر ایک سچائی کی روح رکھتی ہے اور فیض کی تاثیر اس میں موجود ہے۔ وہ نماز یقیناً یقیناً برائیوں کو دور کرتی ہے۔ نماز نشست و برخاست کا نام نہیں ہے۔ نماز کا مغز اور روح وہ دعا ہے جو ایک لذّت اور سرور اپنے اندر رکھتی ہے۔

(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 164)

پس ایسی نمازیں ہمیں ادا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور جب ایسی نمازیں ادا ہوں گی تو انسان بدیوں اور بدکرداری سے اور گناہ سے بچے گا اور بنی نوع انسان کے لئے بھی مفید وجود بنے گا۔ اس کی دعائیں پھر بنی نوع انسان کے لئے ٹھنڈی چھاؤں بن جائیں گی۔ اس زمانے میں دنیا پر احسان کرنے کے لئے یہی نمازیں اور دعائیں ہیں جو ہمیں پڑھنی چاہئیں تا کہ دنیا فحشاء اور منکر سے باہر آئے۔

پھر تیسری چیز جس سے اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں منع فرمایا ہے بَغْی ہے۔ اَلْبَغْیُ یا بغیٌ کے معنی کسی چیز کی طلب میں میانہ روی کی حد سے تجاوز کی خواہش کرنا کے ہیں خواہ تجاوز کر سکے یا نہ۔ اور بَغْی کا استعمال کمیت اور کیفیت یعنی قدر اور وصف دونوں کے متعلق ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بَغَیْتُ الشَّیْئَ وَابْتَغَیْتُہ۔ کسی چیز کے حاصل کرنے میں جائز حد سے تجاوز کرنا۔ یَبْغُوْنَکُمُ الْفِتْنَۃَ۔ تم میں فساد ڈلوانے کی غرض سے ۔اور پھر اس کی آگے قسمیں بھی ہیں۔ بعض دفعہ اچھے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ برے معنوں میں بھی۔ الْبَغْیُ حد سے تجاوز کرنا ہے۔ پھر اس کا معنی ظلم اور فساد بھی ہے۔ پھر اس کے معنی فساد کا ارادہ کرنا بھی ہے۔ پھر اس کا معنی حد سے تجاوز کرنا بھی ہے۔ پھر اس کا معنی حسد کرنا بھی ہے۔ اور گھوڑے کا بے چین ہونا اور اکڑنا بھی ہے۔ بارش کا بہت زیادہ برسنا بھی ہے۔

(مفردات امام راغب، اقرب الموارد زیر مادہ بغی)

حضرت ابن عباس کے حوالے سے جلال الدین سیوطی کہتے ہیں کہ الْبَغْیُ سے مراد تکبر اور ظلم بھی ہے۔

(تفسیر در منثور جلد 5 صفحہ 140 مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت 2001ء)

علامہ اسماعیل حقّی اس کے معنی لکھتے ہیں کہ لوگوں پر بغیر کسی وجہ کے ظلم کرنا۔ ان پر قابض ہونا۔ ان کے مقابل پر اپنی بڑائی کا اظہار کرنا۔ اور ان کے عیبوں کی ٹوہ میںرہنا۔ اور ان کی غیبت کرنا۔ اور طعن و تشنیع کرنا۔ اور حق کو چھوڑ کر باطل کی طرف تجاوز کرنے کو بَغْی کہتے ہیں۔

(تفسیر روح البیان جلد 5 صفحہ 73 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)

گو لغت میں بغی کا لفظ اچھے رنگ میں بھی اور مذموم دونوں طرح استعمال ہوتا ہے۔ مگر قرآن پاک میں اکثر جگہ مذموم کے لئے استعمال ہوئے ہیں جیسے فرمایا یَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقّ(یونس24:)۔ وہ ملک میں ناحق شرارت کرنے لگتے ہیں۔ اِنَّمَا بَغْیُکُمْ عَلٰی اَنْفُسِکُمْ (یونس24:)۔ تمہاری شرارت کا وبال تمہاری ہی جانوں پر ہو گا۔ ثُمَّ بُغِیَ عَلَیْہِ لَیَنْصُرَنَّہٗ اللہُ (الحج61:)۔ کہ پھر اس شخص پر زیادتی کی جاتی ہے تو خدا اس کی مدد کرتا ہے۔ اِنَّ قَارُوْنَ کَانَ مِنْ قُوْمِ مُوْسیٰ فَبَغٰی عَلَیْھِمْ (القصص28:)۔ قارون موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں سے تھا اور ان پر تعدی کرتا تھا۔

بہرحال جو آیت میں نے تلاوت کی ہے اس میں بھی اللہ تعالیٰ نے بَغْی کا لفظ استعمال کر کے اس سے روکا ہے اور یہ منفی معنوں میں ہی ہے۔ روایت میں آتا ہے حضرت عبداللہؓ بن عمرو سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کونسا آدمی افضل ہے؟ آپ نے فرمایا صاف دل، زبان کا سچا۔ لوگوں نے کہا زبان کے سچے کو تو ہم پہچانتے ہیں لیکن صاف دل کون ہے؟ آپ نے فرمایا پرہیز گار پاک صاف جس کے دل میں نہ کوئی گناہ ہو، نہ بغاوت ہو اور نہ کینہ اور بغض ہو۔ اور نہ حسد ہو۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب الورع و التقویٰ حدیث 4216)

پھر ایک روایت ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مَا مِنْ ذَنْبٍ اَجْدَرُ اَنْ یُّعَجِّلَ اللہُ لِصَاحِبِہِ الْعَقُوْبَۃَ فِی الدُّنْیَا مَعَ مَا یَدَّخِرُلَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِثْلُ الْبَغْیِ وَقَطِیْعَۃِ الرَّحِمِ۔ بغاوت اور قطع رحمی کی مثال ایسے دو گناہوں کی ہے جن کے کرنے والوں کے لئے آخرت میں سزا کو ذخیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی اللہ تعالیٰ جلد سزا دیتا ہے۔ پس قطع رحمی کرنا، رشتوں کو نہ نبھانا، چھوٹی چھوٹی باتوں پر رشتے کاٹ دینا۔

(سنن ابو داؤد کتاب الادب باب فی النھی عن البغی حدیث4902)

بعض عورتیں خاص طور پر لکھتی ہیں کہ ان کے خاوند چھوٹی چھوٹی باتوں پر انہیں بھی قطع رحمی پر مجبور کرتے ہیں یا خود یہ رحمی رشتے چھوڑ دیتے ہیں۔ یا ان کو کہتے ہیں کہ تم نے اپنے رحمی رشتوں سے تعلق نہیں رکھنا۔ یہ گناہ ہے اور بَغْی کے زُمرہ میں آتا ہے۔

پھر ایک روایت ہے اُمّ المومنین حضرت عائشہؓ بیان فرماتی ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ بھلائی میں ثواب کے لحاظ سے تیزتر یہ دو چیزیں ہیں۔ نیکی کرنا اور صلہ رحمی کرنا۔ اور شر کی سزا کے لحاظ سے تیز تر یہ دو امر ہیں۔ بغاوت کرنا اور قطع تعلقی کرنا۔(سنن ابن ماجہ کتاب الزھد باب البغی حدیث 4212) بہت زیادہ انذار ہے۔

ایک حدیث میں آتا ہے کہ حضرت واثلہ بن اسقع بیان کرتے ہیں کہ مَیں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ایک مسلمان کا خون، اس کی عزت اور اس کا مال دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے۔ وہ اس پر ظلم نہیں کرتا اور نہ اسے مصیبت کے وقت چھوڑتا ہے۔ اور تقویٰ یہاں ہے۔ اور آپ نے اپنے ہاتھ سے دل کی طرف اشارہ کیا۔ فرمایا کہ کسی آدمی کے شریر ہونے کے لئے یہ کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے حقارت کے ساتھ پیش آئے۔

(مسند احمد بن حنبل جلد 5 صفحہ498 حدیث 16115 مطبوعہ عالم الکتب العلمیہ بیروت 1998ء)

دوسرے لفظوں میں اس سے باہر نکلنا باغی بنا دیتا ہے۔ آجکل جو مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ کر رہے ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فتوے کے نیچے آتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی سزا کے مورد بننے والے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوہ کیا ہے ؟اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر قسم کے ظلم اور زیادتی سے بچنے کے لئے کس طرح دعا مانگا کرتے تھے؟ اس بارے میں ایک روایت میں ہے۔

حضرت اُمّ سلمہ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے گھر سے نکلتے تو یہ دعا کرتے کہ اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ مَیں گمراہ ہو جاؤں یا مَیں پھسل جاؤں یا مَیں ظلم کروں یا میرے پر ظلم کیا جائے۔ یا مَیں جہالت کروں یا مجھ سے جہالت کا سلوک کیا جائے ۔

(سنن ابو داؤد کتاب الادب باب ما یقول اذا خرج من بیتہ حدیث 5094)

پس اس میں نفس کے شر سے بچنے اور گمراہی سے بچنے اور ظلم کرنے سے بچنے اور ظالم کے شر سے بچنے کے لئے تمام باتوں کا ذکر آ گیابلکہ ہر قسم کی برائی سے بچنے کا ذکر آ گیا۔

ایک روایت میں آتا ہے کہ عامر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت نعمان بن بشیر سے سنا وہ کہتے تھے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حلال بھی ظاہر ہے اور حرام بھی ظاہر ہے اور ان دونوں کے درمیان شبہ والی کچھ باتیں ہیں۔ اکثر لوگ انہیں نہیں جانتے ۔پس جو اِن مشتبہ باتوں سے بچا اس نے اپنے دین اور اپنی آبرو کو محفوظ رکھنے کے لئے پوری احتیاط سے کام لیا اور جو اِن مشتبہ امور میں جا پڑا تو وہ اس چرواہے کی مانند ہے جو اپنے ریوڑ رَکھ کے آس پاس چرا رہا ہے۔(سرکاری رَکھ ہے) اور قریب ہے کہ اس میں ریوڑ جا پڑے۔ دیکھو ہر بادشاہ کی ایک رَکھ ہوتی ہے۔ (اس کا اپنا علاقہ ہوتا ہے جس میں جانا منع ہے۔) خیال رکھنا کہ اللہ تعالیٰ کی رَکھ اس کی زمین میں اس کی حرام کی ہوئی باتیں ہیں۔ (جن چیزوں سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ان کو کرنا یہ اللہ تعالیٰ کی رَکھ میں جانا اور زیادتی کرنا ہے اور اس کی سزا بھی ملتی ہے۔) فرمایا خبر دار! اور جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے۔ اگر وہ ٹھیک ہے تو سارا جسم ٹھیک رہتا ہے۔ اگر وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے۔ تمہیں معلوم ہے کہ وہ دل ہے۔

(صحیح البخاری کتاب الایمان باب فضل من استبراء لدینہ حدیث52)

پس یہ گوشت کا ٹکڑا جو ہے دل ہی ہے اور جب دل بگڑتا ہے تو فحشائ اور مُنْکَر اور بَغْی سب انسان پر قبضہ جما لیتے ہیں۔ اور ان چیزوں سے انسان تبھی بچ سکتا ہے جب اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہو۔ اللہ تعالیٰ سے جب انسان مانگے تبھی بچ سکتا ہے۔ اس کی طرف جھکے۔ اور آجکل تو ہرقدم پر یہ چیزیں موجود ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رَکھ پہ لے جانے والی ہیں اور شیطان پوری قوت سے اپنے حملے کر رہا ہے۔ مختلف ذرائع ایسے ہیں جو پہلے فحشاء کی طرف لے جاتے ہیں۔ دین سے، اعلیٰ خُلق سے پیچھے ہٹانا شروع کر دیتے ہیں۔ دین کی بعض باتوں پر اعتراض پیدا ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ حالانکہ اسلام ایک ایسا دین ہے جو انسانی فطرت کے مطابق ہے۔ اور جب دجّال کے دجل میں آکر شیطان کی باتوں میں آکر جب چھوٹی چھوٹی باتوں سے انسان ہٹتا ہے تو پھر بڑی باتوں کو بھی یا اللہ تعالیٰ کی نواہی جو ہیں جن سے روکا گیا ہے پھر ان کو بھی کرنے لگ جاتا ہے۔ پھر بعض باتوں پر اعتراض کر کے دین سے مزید دور ہو جاتا ہے اور پھر بغاوت اور دین سے دُوری یہ ہوتی ہے کہ پھر دین کو ایک بوجھ سمجھنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس سے بغاوت شروع ہو جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر یا دین کے احکامات پر اعتراض شروع ہو جاتا ہے۔ اور بغاوت یہاں تک چلی جاتی ہے کہ پھر خدا تعالیٰ کے وجود سے ہی انسان منحرف ہو جاتا ہے۔ اور یہ جو دنیا دین سے ہٹ رہی ہے اس کی یہی وجہ ہے۔ کئی مسلمان بھی ایسے ہیں جن کو دینی احکامات کی سمجھ نہیں آتی تو سمجھتے ہیں کہ دین نئے زمانے کے لئے موزوں نہیں ہے اس میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ بلکہ صاف کہتے ہیں کہ ہم مسلمان اپنے نام کی وجہ سے ہیں یا جس خاندان میں پیدا ہوئے اس کی وجہ سے ہیں ورنہ اسلام پر ہمیں یقین کوئی نہیں۔مجھے ایسے لوگ ملتے رہتے ہیں تو ایسے حالات میں احمدیوں کو تو خاص طور پر کوشش کرنے کی ضرورت ہے کہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہد پر پہلے سے بڑھ کر قائم ہونا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی رَکھ کا خیال رکھیں اور اپنے دل کو خدا تعالیٰ کی طرف پہلے سے بڑھ کر جھکائیں۔

ایک روایت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعا بھی ملتی ہے۔ حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دعا میں یہ فرماتے تھے کہ اے میرے رب! میری مدد کر اور میرے خلاف کسی کی مدد مت کر اور میری تائید کر اور میرے مقابل کسی کی تائید مت کر اور میرے لئے تدبیر کر اور میرے خلاف تدبیر مت کر۔ اور مجھے ہدایت دے اور ہدایت کو میرے لئے آسان کر دے۔ اور اس شخص کے مقابلے میں جو مجھ پر ظلم کرے میری مدد کر۔ اے میرے رب مجھ کو اپنا شکر کرنے والا بنا۔ اور اپنا یاد کرنے والا بنا۔ اور اپنے سے ڈرنے والا اور اپنا تابعدار اور اپنی طرف گڑگڑانے والا بنا۔ نرم دل اور جھکنے والا بنا۔ اے میرے رب میری توبہ قبول کر اور میرے گناہ دھو ڈال اور میری دعا قبول کر اور میرے دل کو ہدایت دے اور میری زبان کو مضبوط کر اور میری دلیل کو مستحکم کر اور میرے دل سے بغض کونکال دے۔

(سنن ابو داؤد کتاب الوتر باب ما یقول الرجل اذا سلم حدیث1510)

پس یہ دعا ایمان میں مضبوطی کے لئے کرنی چاہئے۔ بڑی وسیع دعا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’چاہئے کہ تمام انسانوں کی ہمدردی تمہارا اصول ہو اور اپنے ہاتھوں اور اپنی زبانوں اور اپنے دل کے خیالات کو ہر ایک ناپاک منصوبہ اور فساد انگیز طریقوں اور خیانتوں سے بچاؤ۔ خدا سے ڈرو اور پاک دلی سے اس کی پرستش کرو اور ظلم اور تعدّی اور غبن اور رشوت اور حق تلفی اور بے جا طرفداری سے باز رہو۔ اور بد صحبت سے پرہیز کرو۔ اور آنکھوں کو بدنگاہوں سے بچاؤ ۔اور کانوں کو غیبت سننے سے محفوظ رکھو۔ اور کسی مذہب اور کسی قوم اور کسی گروہ کے آدمی کو بدی اور نقصان رسانی کا ارادہ مت کرو۔‘‘ کسی مذہب کسی گروہ کے آدمی کسی قوم اور کسی مذہب کسی قوم اور کسی گروہ کے آدمی کو بدی اور نقصان رسانی کا ارادہ مت کرو۔ کسی کو نقصان پہنچانے کا ارادہ کبھی نہ کر و ’’ اور ہر ایک کے لئے سچے ناصح بنو اور چاہئے کہ فساد انگیز لوگوں اور شریر اور بدمعاشوں اور بدچلنوں کو ہرگز تمہاری مجلس میں گزر نہ ہو۔ ہر ایک بدی سے بچو اور ہر ایک نیکی کے حاصل کرنے کے لئے کوشش کرو۔ اور چاہئے کہ تمہارے دل فریب سے پاک اور تمہارے ہاتھ ظلم سے بری اور تمہاری آنکھیں ناپاکی سے منزّہ ہوں اور تم میں کبھی بدی اور بغاوت کا منصوبہ نہ ہونے پاوے اور چاہئے کہ تم اس خدا کے پہچاننے کے لئے بہت کوشش کرو جس کا پانا عین نجات اور جس کا ملنا عین رستگاری ہے۔ وہ خدا اسی پر ظاہر ہوتا ہے جو دل کی سچائی اور محبت سے اس کو ڈھونڈتا ہے۔ وہ اسی پر تجلی فرماتا ہے جو اسی کا ہو جاتا ہے۔وہ دل جو پاک ہیں وہ اس کا تخت گاہ ہیں۔ اور وہ زبانیں جو جھوٹ اور گالی اور یاوہ گوئی سے منزّہ ہیں وہ اس کی وحی کی جگہ ہیں۔ اور ہر ایک جو اس کی رضا میں فنا ہوتا ہے اس کی اعجازی قدرت کا مظہر ہو جاتا ہے۔‘‘

(کشف الغطاء، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ187-188)

پھر ایک دوسری جگہ آپ نے فرمایا کہ :

’’اے میری جماعت خدا تعالیٰ آپ لوگوں کے ساتھ ہو۔ وہ قادر کریم آپ لوگوں کو سفر آخرت کے لئے ایسا تیار کرے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب تیار کئے گئے تھے۔ خوب یاد رکھو کہ دنیا کچھ چیز نہیں ہے۔ لعنتی ہے وہ زندگی جو محض دنیا کے لئے ہے اور بدقسمت ہے وہ جس کا تمام ہمّ و غم دنیا کے لئے ہے۔ ایسا انسان اگر میری جماعت میں ہے تو وہ عبث طور پر میری جماعت میں اپنے تئیں داخل کرتا ہے کیونکہ وہ اس خشک ٹہنی کی طرح ہے جو پھل نہیں لائے گی۔

اے سعادتمند لوگو! تم زور کے ساتھ اس تعلیم میں داخل ہو جو تمہاری نجات کے لئے مجھے دی گئی ہے۔ تم خدا کو واحد لاشریک سمجھو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک مت کرو۔ نہ آسمان میں سے، نہ زمین میں سے۔ خدا اسباب کے استعمال سے تمہیں منع نہیں کرتا۔ لیکن جو شخص خدا کو چھوڑ کر اسباب پر ہی بھروسہ کرتا ہے وہ مشرک ہے۔‘‘ (صرف دنیا ہی کی چیزوں پر بھروسہ کرنے والا جو ہے وہ مشرک ہے۔) ’’قدیم سے خدا کہتا چلا آیا ہے کہ پاک دل بننے کے سوا نجات نہیں۔ سو تم پاک دل بن جاؤ اور نفسانی کینوں اور غصّوں سے الگ ہو جاؤ۔ انسان کے نفس امّارہ میں کئی قسم کی پلیدیاں ہوتی ہیں مگر سب سے زیادہ تکبّر کی پلیدی ہے۔ اگر تکبر نہ ہوتا تو کوئی شخص کافر نہ رہتا۔ سوتم دل کے مسکین بن جاؤ۔ عام طور پر بنی نوع کی ہمدردی کرو۔ جبکہ تم انہیں بہشت دلانے کے لئے وعظ کرتے ہو سو یہ وعظ تمہارا کب صحیح ہو سکتا ہے اگر تم اس چند روزہ دنیا میں ان کی بدخواہی کرو۔ خدا تعالیٰ کے فرائض کو دلی خوف سے بجا لاؤ کہ تم ان سے پوچھے جاؤ گے۔ نمازوں میں بہت دعا کرو کہ تا خدا تمہیں اپنی طرف کھینچے اور تمہارے دلوں کو صاف کرے کیونکہ انسان کمزور ہے۔ ہر ایک بدی جو دُور ہوتی ہے وہ خدا تعالیٰ کی قوت سے دُور ہوتی ہے اور جب تک انسان خدا سے قوت نہ پاوے کسی بدی کے دُور کرنے پر قادر نہیں ہو سکتا۔ اسلام صرف یہ نہیں ہے کہ رسم کے طور پر اپنے تئیں کلمہ گو کہلاؤ بلکہ اسلام کی حقیقت یہ ہے کہ تمہاری روحیں خداتعالیٰ کے آستانہ پر گر جائیں اور خدا اور اس کے احکام ہر ایک پہلو کے رُو سے تمہاری دنیا پر تمہیں مقدم ہو جائیں۔‘‘

(تذکرۃ الشہادتین، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 63)

اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک ان لوگوں میں شامل ہو جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق اللہ تعالیٰ کی رَکھ میں قدم نہ رکھیں اور ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرتے ہوئے فحشاء سے بھی بچنے والے ہوں۔ کبھی منکرین میں شامل نہ ہوں اور کبھی دل میں اللہ تعالیٰ کے حکموں سے نافرمانی کا خیال نہ آئے۔ یہی وہ مقصد ہے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آئے تھے اور یہی وہ مقصد ہے جس کے حصول کے لئے ہم آپ کی بیعت میں شامل ہوئے ہیں۔ آپ نے کئی جگہ فرمایا ہے کہ مجھے زیادہ فکر ایمان اور اخلاق کی درستی کی ہے۔صرف تعداد بڑھانے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اگر ایمان اور اخلاق میں ترقی نہیں ہے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔اللہ تعالیٰ کرے کہ ہم میں سے ہر ایک اس معیار کو حاصل کرنے والے ہوں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ہم سے چاہتے ہیں۔

اب ہم دعا کریں گے۔ اللہ تعالیٰ سب کو جلسہ کی برکات سے دائمی فائدہ اٹھانے والا بنائے۔ جو اپنی خواہش کے باوجود نہیں آ سکے اللہ تعالیٰ انہیں بھی ان برکات سے حصہ دے۔ ایم ٹی اے کے ذریعہ دنیا بھر میں جو احمدی اس جلسہ میں شامل ہوئے ہیں اللہ تعالیٰ ان کو بھی ان برکات سے نوازے۔ اللہ تعالیٰ اسیران راہ مولیٰ کی جلد رہائی کے سامان پیدا فرمائے۔ جن جن ملکوں میں احمدیوں پر سختیاں وارد کی جا رہی ہیں اللہ تعالیٰ انہیں دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھے۔ شہداء کے درجات بلند فرمائے اور ان کی نسلوں کو بھی ایمان اور اخلاص میں بڑھائے۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے تمام مبلغین سلسلہ ،مربیان اور معلّمین کو پہلے سے بڑھ کر اخلاص ووفا کے ساتھ کام کرنے کی توفیق دیتا چلا جائے۔ جو بیعتیں حاصل ہو رہی ہیں اللہ تعالیٰ ان کی صحیح تربیت کرنے کی ہمیں توفیق عطا فرمائے اور ان نئے شامل ہونے والوں کے ایمان اور ایقان میں ترقی عطا فرمائے۔ تمام جماعتی کارکنان کو تقویٰ پر چلتے ہوئے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جماعت کے تمام کارکنان کو، جلسے کے تمام کارکنان کو اللہ تعالیٰ جزا دے اور اب وَائنڈاَپ کے کام کرنے والی جو ٹیم ہے انہیں بھی احسن رنگ میں خدمت کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی حفاظت میں رکھے۔

اللہ تعالیٰ آپ سب کو اپنی حفاظت میں رکھے اور خیریت سے اپنے اپنے گھروں میں جائیں۔ اب دعا کرلیں۔

(دعا)

(دعا کے بعد حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:)

السلام علیکم۔ حاضری جو انہوں نے دی ہے اس کے مطابق اس سال جلسہ میں 38510 افراد شامل ہوئے اور 115 ممالک کی نمائندگی ہے۔ پچھلے سال 114 ممالک کی نمائندگی تھی اور 37393 کی حاضری تھی۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button