خطاب حضور انور

جلسہ سالانہ برطانیہ 2018ء کے موقع پر حضرت امیرالمومنین خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا مستورات سے خطاب

(امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بںصرہ العزیز)

جماعت احمدیہ برطانیہ کے جلسہ سالانہ کے موقع پر04؍اگست2018ء بروز ہفتہ
امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا حدیقۃالمہدی (آلٹن) میں مستورات سے خطاب

(اس خطاب کا متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

اَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

یہ زمانہ جس میں سے ہم گزر رہے ہیں دنیاوی ترقیات کی انتہا کا زمانہ ہے اور اس دنیاوی ترقی نے جہاں انسان کو نئی سے نئی ایجادات کرنے کے مواقع میسر فرمائے ہیں۔ ہر روز اللہ تعالیٰ نے مواقع میسر فرمائے ہیں۔ ہر روز ایک نئی ایجاد سامنے آ رہی ہے یا پرانی ایجاد جو انسان نے اپنے آرام کے لئے کی اس میں مزید بہتری کر کے انسان کے لئے آرام دہ اور کارآمد بنایا جا رہا ہے۔ وہاں بعض ایجادات اور نئی چیزیں نقصان دہ بھی بن رہی ہیں۔ مثلاً فون ہے۔ انسان نے ایجاد کیا کہ پیغام رسانی کے ذرائع میسر آئیں اور فوراً اپنا پیغام دوسرے تک پہنچا دیا جائے۔ دنیا کو اس سے بہت فائدہ پہنچ رہا ہے اور اب اس فون کے نظام میں ایسی چیزیں شامل کر دی گئی ہیں کہ آپ اپنی تصویر اور تحریر کے ذریعہ سے بھی اپنے پیغام پہنچا دیتی ہیں۔ یہ موبائل فون یا سیل فون(Cell Phone)اتنے عام ہو گئے ہیں کہ غریب ملکوں کے لوگوں کے ہاتھوں میں بھی یہ نظر آتے ہیں۔ بلکہ بعض ملکوں میں یہ ریسرچ ہوئی کہ لوگ ایک وقت کا فاقہ تو کرلیں گے لیکن موبائل فون ضرور لیں گے اور اس کا استعمال کریں گے۔ مثلاً انڈیا میں سو (100) میں سے ستاسی (87) لوگ موبائل فون کا استعمال کرتے ہیں حالانکہ وہاں بڑی غربت ہے۔ پاکستان میں 75فیصد لوگ موبائل کا استعمال کرتے ہیں۔ کہتے ہیں وہاں مہنگائی بہت ہو گئی اس کے باوجود یہ حال ہے۔ برازیل بھی ایک غریب ملک ہے۔ آج کل تو اس کی معیشت کا بہت ہی برا حال ہو چکا ہے۔ لیکن وہاں بھی اوسطاً ہر شخص کے پاس ایک سے زیادہ فون ہے بلکہ ہر سو آدمی کے پاس 144 فون ہیں۔ اسی طرح ترقی یافتہ ممالک ہیں وہاں کا بھی یہی حال ہے۔ اب ایک طرف تو غریب ملک کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس کھانے کے لئے رقم نہیں۔ دوسری طرف موبائل لینے اور اس پر خرچ کرنے کے لئے جو بھی طریقہ اختیار کیا جاسکتا ہے کیا جاتا ہے۔ اس لئے کہ موبائل پر فیس بُک (Facebook) ، ٹوئٹر (Twitter) اور دوسری بہت سی لغویات موجود ہیں دلچسپی کے سامان ہیں۔ اور جو بھی چیزیں تفریح کے لئے یا خبر کے لئے یا فساد پیدا کرنے کے لئے ان فونوں پہ موجود ہیں جن کو ہم لغویات ہی کہیں گے اس کے متعلق بہت سارے جو فون بنانے والے ہیں یا فونوں کی ایپلی کیشنز (Applications) بنانے والے ہیں وہ خود تسلیم کر رہے ہیں کہ اس کا نقصان زیادہ ہے۔ بلکہ ایک بنانے والے نے تو یہ کہا غالباً فیس بُک والے نے ہی کہ میں کبھی اپنے بچوں کے لئے پسند نہیں کروں گا کہ وہ ان لغویات میں پڑیں۔ لیکن دوسروں کی تباہی کے سامان کرنے کے ذریعے پیدا کر رہے ہیں یا سامان کر رہے ہیں۔ دولت کمانے کے لئے یہ خود غرضی ہے جو اِن دنیاداروں میں نظر آتی ہے۔ کوئی فکر نہیں کہ دنیا ان چیزوں کے ناجائز استعمال سے کس فساد اور تباہی کی طرف جا رہی ہے۔ فکر ہے تو اپنی اور اپنے بچوں کی۔ اس کے مقابل پر اسلام کی تعلیم دیکھیں کتنی خوبصورت تعلیم ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے بھائی کے لئے بھی وہی چیز پسند کرو جو اپنے لئے پسند کرتے ہو۔

(صحیح البخاری کتاب الایمان باب من الایمان ان یحب لاخیہ مایحب لنفسہ حدیث 13)

اگر اس اصول پر عمل کرتے تو ان ایجادات کی خوبیوں سے تو فائدہ اٹھانے والے ہوتے مگر اس کے نقصانات سے بچ سکتے۔ یہ دنیادار جن کو کوئی رہنمائی نہیں ہے وہ ان نقصان دہ چیزوں میں پڑ کر اپنے آپ کو تباہ کر رہے ہیں تو ان کے بارے میں تو یہ بات سمجھ آتی ہے کہ دنیاوی جو چکاچوند ہے اس نے ان کو اپنی طرف کھینچا ہوا ہے۔ لیکن ہم احمدی جن کو قدم قدم پر رہنمائی ملتی ہے ایسی چیزوں میں پڑیں جو تباہی کی طرف لے جانے والی ہوں اور دنیا کی رَو میں بہہ کر ان نقصان دہ چیزوں سے اپنی زندگیاں برباد کر رہے ہوں تو انہیں کوئی عقل مند نہیں کہہ سکتا۔ ہر دنیاوی چیز کو بھیڑ چال میں اختیار نہیں کر لینا چاہئے۔ اپنی عقل بھی استعمال کرنی چاہئے سوچنا بھی چاہئے پھر جائز طور پر ضرورت سے زیادہ استعمال اور اس میں اتنا ڈوب جانا کہ جس طرح ایک نشہ باز کو نشہ میں ڈوب کر دنیاو مافیہا کی خبر نہیں ہوتی اسی طرح اکثر لوگ ہر وقت سیل فون یا آئی پیڈ وغیرہ لے کر بالکل نشہ کی حالت میں رہتے ہیںاور اس کا نقصان یہ ہے کہ گھر ٹوٹ رہے ہیں بچے بگڑ رہے ہیں۔ اب گھریلو زندگی میں ہی مائیں بچوں کو کھانے پر بلاتی ہیں تو اول تو بات نہیں مانتے اور پھر آ جائیں تو اس وقت بھی ہاتھ میں فون یا اس قسم کی چیزیں ہوتی ہیں جس میں کھیلیں ہیں، فلمیں ہیں اور وہ ہر وقت اس کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ پڑھائی کی طرف بعض بچے توجہ نہیں دیتے اور مائیں پھر فکر مند ہوتی ہیں۔ اب تو بعض عقل والے دنیا دار بھی یہ کہنے لگ گئے ہیں کہ ان ایجادات سے ہمارے گھر کی اِکائی ختم ہو گئی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب میاں بیوی بچے آپس میں بیٹھے باتیں کر لیا کرتے تھے۔ پھر ٹی وی آیا تو ٹی وی اکٹھے بیٹھ کر دیکھنے لگ گئے۔ کچھ نہ کچھ ایک اکائی تھی گھر کی۔ لیکن اس کمپیوٹر، سیل فون یا آئی پیڈ یا انڈرائڈ(Android) وغیرہ یہ جو ساری چیزیں ہیں انہوں نے تو رشتوں کو علیحدہ کر دیا، رشتوں کو توڑ دیا ہے۔ گھر کی اکائی ختم ہو کر رہ گئی ہے۔ تو یہ ایجادات ہر عقل مند کو پریشان کر رہی ہیں اور پھر ہمیں تو اور بھی زیادہ پریشان کرتی ہیں کہ بچوں، نوجوانوں بلکہ بڑوں کو بھی نمازوں کے اوقات کا ہوش نہیں رہتا۔ رات دیر تک ان چیزوں پر بیٹھے رہتے ہیں اور فجر کی نماز کے لئے ہی نہیں اٹھتے۔ جاگ ہی نہیں آتی ان کو۔مرد ظہر عصر کام پر ہونے کی وجہ سے باجماعت نماز نہیں پڑھ سکتے ۔ مغرب عشاء پر ان لغویات میں ڈوبنے کی وجہ سےباجماعت نمازیں نہیں پڑھ سکتے۔ غرض کہ ان چیزوں نے جہاں فائدہ پہنچایا ہے وہاں ان کے نقصانات بھی ہیں۔ فائدہ بھی یقیناً ہے۔ ہم ایم ٹی اے اور دوسرے دینی پروگرام، جماعت کے پروگرام، معلوماتی پروگرام وغیرہ ان پر دیکھ لیتے ہیں۔ وہاں ان کے غلط استعمال سے جیسا کہ مَیں نے کہا کہ فساد بھی پھیلا ہوا ہے۔ پس نئی ایجادات کا فائدہ بھی اس وقت تک ہے جب ان سے جائز فائدہ اٹھایا جائے۔ اب جلسوں پر بھی بعض لڑکے لڑکیاں جلسہ کے پروگرام سننے کی بجائے ان فونوں پر فون میسج کر رہے ہوتے ہیں یا کوئی اُوٹ پٹانگ چیز دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ یہ بھی شکایات آتی ہیں۔ اب یہاں آئے جلسہ سننے کے لئے لیکن یہاں بھی ہاتھوں میں سیل فون ہیں تو جلسہ کے ماحول میں تو خالص ہو کر اللہ اور اس کے رسول کی باتوں کی طرف توجہ دینی چاہئے۔ سیل فون اور آئی فون وغیرہ کی چاہت اتنی بڑھ گئی ہے کہ بعض بچے سات آٹھ نو سال کی عمر سے، نو سال تو زیادہ ہیں، بلکہ سات آٹھ سال کی عمر کے مجھے لکھتے ہیں کہ ہم اپنے ماں باپ کو کہتے ہیں کہ ہمیں فون لے کر دیں اور وہ ہمیں انکار کر دیتے ہیں کہ تم ابھی چھوٹے ہو۔ تو آپ بتائیں کہ کس عمر کے بچوں کو یہ فون استعمال کرنے چاہئیں۔ مجھ سے شاید اس لئے بھی پوچھتے ہیں کہ میں ہمدردی میں ان کو کہوں گا کہ ہاں اپنے ماں باپ کو کہو ضرور لے دیں اور پھر ان کو ایک لائسنس مل جائے گا۔ بہرحال میرا تو جواب یہی ہوتا ہے کہ بچوں کو سیل فون لے کر دینا ہی نہیں چاہئے۔ بعض پھر یہ بہانہ کرکے لکھتے ہیں کہ ہم نے سکول سے بعض ہنگامی حالت میں ماں باپ سے بات کرنی ہوتی ہے۔ اگر کوئی ہنگامی حالت ہو ایسی صورت پیدا ہو جائے تو سکول والے خود ہی اطلاع کر دیتے ہیں اس لئے اس قسم کے عذر بھی قابل غور نہیں ہیں۔ جو ماں باپ اپنے بچوں کو ان لغویات سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں وہ بہرحال قابل تعریف ہیں۔ ایسی بہت بڑی تعداد ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھی ہے ویسے بھی اب تحقیق یہی کہتی ہے کہ ایک گھنٹے سے زیادہ بچوں کو ٹی وی اور اس قسم کی سکرین وغیرہ کی دیکھنے والی چیزیں جو ہیں آئی پیڈ وغیرہ ان کو دیکھنے کی اجازت نہیں دینی چاہئے۔ ان سے نظریں خراب ہوتی ہیں بلکہ ان کی ڈویلپمنٹ متاثر ہوجاتی ہے۔ اس لئے بجائے اس کے کہ یہ چیزیں لے کر دیں بچوں کو کھلے میدان میں کھیلنے کی عادت ڈالیں یا پڑھنے کے وقت ان کو کتابیں پڑھنے کی عادت ڈالنی چاہئے۔ تو بہرحال یہ الیکٹرونک ڈیوائسز (Electronic Devices) یا چیزیں جو ہیں بعض حالات میں نقصان دہ بھی ہیں۔ فائدہ مند بھی ہیں۔ اور اب تو اکثر ان کا استعمال نقصان دہ ہوتا جا رہا ہے اور ہمارے بڑوں، عورتوں اور بچوں کو بھی اس کے بے جا استعمال سے بچنا چاہئے اور بچوں کو تو خاص طور پر بچنا چاہئے۔ جب بڑے اس کا بے جا استعمال کر رہے ہوں گے تو بچے تو پھر غلط باتیں سیکھیں گے۔

اللہ تعالیٰ کے فضل سے ماؤں کی ایک بڑی تعداد بچوں کی تربیت کا خیال رکھتی ہے اور کم از کم مجھے ملنے والی مائیں جو ہیں یا مجھے خطوط لکھنے والی مائیں جو ہیں ان سے یہی اظہار ہوتا ہے کہ وہ بچوں کے باپوں کی نسبت بچوں کی تربیت کے لئےزیادہ فکر مند ہیں اور فکر مندی کا اظہار کرتی ہیں کہ ان کی صحیح رنگ میں تربیت ہو سکے۔

آجکل کے ماحول میں جب بچے سکول میں بھی دوسرے بچوں سے دنیاوی باتیں زیادہ سیکھ رہے ہوتے ہیں۔ سکول میں آزادی کے نام پر بعض غیر ضروری باتوں کی تعلیم بھی دی جاتی ہے جن کا بچوں کی اس عمر سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ پھر یہ بھی کہا جانے لگ گیا ہے کہ بچوں کو آزاد ماحول میں پلنے بڑھنے دینا چاہئے اور کوئی دین اور مذہب نہیں سکھانا چاہئے۔ بچہ خود بڑا ہو کر فیصلہ کرے گا کہ اس نے دین اختیار کرنا ہے یانہیں اور کون سا دین اختیار کرنا ہے۔ تو جب ایسے حالات ہوں جب ہر طرف سے ایسا ماحول مل رہا ہو جو دنیا کی طرف لے جانے والا ہو تو ایسے میں اگلی نسل کی تربیت ایک بہت بڑا چیلنج ہے جس کا دین دار ماں باپ کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر ماحول اور تعلیمی درسگاہیں ماں باپ پر یہ پابندی لگانے لگ جائیں کہ بچوں کو دین نہیں سکھانا تو اس سے زیادہ خوفناک صورت اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ کل کو یہ لوگ یہ کہہ دیں گے کہ اخلاق سکھانے کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ بچے بڑے ہو کر خود ہی اچھے اور برے اخلاق کا تعین کر لیں گے۔ تو یقیناً یہ بے چین کر دینے والی باتیں ہیں۔ ان دنیا داروں کی اپنی بات میں بھی تضاد ہے اور ان کے تضاد کی حالت یہ ہے کہ ایک طرف لامذہب بلکہ خدا کو بھی نہ ماننے والے لوگ مذہب کے خلاف بہت بولتے ہیں دوسری طرف یہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ مذہب نے اخلاق اور civilization بھی سکھائی ہے۔ تو بہرحال مذہب کا انکار کرنے کے باوجود مذہب کی بعض باتوں کے مانے بغیر ان کو چارہ نہیں ہے۔

ایسے ماحول میں ہم جو زمانے کے امام کو ماننے والے ہیں ہم جو اس دعوے کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں کہ آخری زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبعوث ہونا تھا تا کہ دنیا کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرے تا کہ دنیا کو دین اسلام کی خوبیوں سے آگاہ کرے تو ہمیں تو بہت زیادہ اور محنت سے کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نے دنیا کی لغویات اور برائیوں سے نہ صرف اپنے آپ کو بچانا ہے بلکہ جیسا کہ میں نے کہا اگلی نسلوں کو بھی بچانا ہے اور ان کی ایسے طریق پر تربیت کرنی ہے کہ یہ جاگ آگے پھر لگتی چلی جائے اور ایک نسل کے بعد دوسری نسل اللہ تعالیٰ کے انعامات سے فائدہ اٹھانے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کا حق ادا کرنے والی بھی ہو۔ اس کی عبادت کرنے والی بھی ہو۔ اور اس کے احکامات پر عمل کرنے والی بھی بنتی چلی جائے۔ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا صرف کھڑے ہو کر زبانی عہد کرنے سے گزارا نہیں ہو گا۔ ہم صرف زبانی عہد کرنے والے نہ ہوں بلکہ اس کی عملی تصویر ہوں اور یہ چیز نہ ہم، نہ ہماری نسلیں اپنے زور بازو سے کر سکتی ہیں بلکہ اس کے لئے اللہ تعالیٰ کا فضل چاہئے اور اللہ تعالیٰ کا فضل چاہنے کے لئے اس کے آگے جھکنے کی ضرورت ہے۔ اس سے دعا کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے احکامات پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اپنی عملی حالتوں کو ٹھیک کرنے کی ضرور ت ہے۔ اپنے عقائد کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔

پس ہر عورت جو ماں ہے اور ہر لڑکی جس نے انشاء اللہ تعالیٰ ماں بننا ہے اللہ تعالیٰ کے حضور یہ دعا کرے کہ اللہ تعالیٰ اس ماحول میں محض اور محض اپنے فضل سے بچوں کی ایسی تربیت فرمائے کہ ان میں سے ہر ایک دین کو دنیا پر مقدم کرنے والا ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیںبار بار اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اولاد کی خواہش اور دعا صرف اس لئے نہ کرو کہ یہ ایک طبعی خواہش ہے۔ ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کی اولاد ہو اور صحت مند اولاد ہو۔ عورتیں تو خاص طور پر اس طبعی خواہش کے علاوہ اس وجہ سے بھی اولاد کے لئے فکرمند ہوتی ہیں کہ اولاد نہ ہو تو سسرال کی باتیں سننی پڑتی ہیں۔ بعض دفعہ خاوند کی طرف سے بھی سخت الفاظ سننے پڑتے ہیں۔ بلکہ بعض عورتوں کو اولاد نہ ہونے کی وجہ سے خاوند طلاق دینے کی یا سسرال طلاق دینے کی دھمکیاں دیتے ہیں تو یہ طبعی خواہش بھی اپنی جگہ ٹھیک ہے اور ان حالات میں تو خاص طور پر بالکل جائز ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر ایک مرد اور عورت کو اولاد کی خواہش اور اولاد ہونے کے بعد اس کی یہ فکر ہونی چاہئے کہ اولاد نیک، دیندار اور صالح ہو اور اس مقصد کو پورا کرنے والی ہو جو انسان کی پیدائش کا مقصد ہے اور وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار بنو۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس مضمون کو بیان فرماتے ہوئے فرمایا جس کا خلاصہ میں بیان کرتا ہوں کہ خود جب تک ماں باپ اس مقصد کو پورا نہیں کر رہے ہوں گے ان کی اولاد کے بارے میں یہ خواہش ایک فضول اور سطحی خواہش ہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 2 صفحہ 370-371)

پس اپنا نمونہ ایک انتہائی ضروری چیز ہے اور جب اپنے نمونے قائم ہوں گے تو اولاد بھی ان نمونوں پر چلنے والی ہو گی۔

ایک جگہ اولاد کی تربیت کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنی دعاؤں کی حالت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’ میری اپنی تو یہ حالت ہے کہ میری کوئی نماز ایسی نہیں ہے جس میں مَیں اپنے دوستوں اور اولاد اور بیوی کے لئے دعا نہیں کرتا‘‘۔ فرماتے ہیں’’ بہت سے والدین ایسے ہیں جو اپنی اولاد کو بری عادتیں سکھادیتے ہیں۔ ابتدا میں جب وہ بدی کرنا سیکھنے لگتے ہیں تو ان کو تنبیہ نہیں کرتے۔نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ دن بدن دلیر اور بے باک ہوتے جاتےہیں۔‘‘ فرماتے ہیںکہ ’’جب اولاد ہوتی ہے تو اس کی تربیت کا فکر نہیں کیا جاتا نہ اس کے عقائد کی اصلاح کی جاتی ہے اور نہ اخلاقی حالت کو درست کیا جاتا ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد 2 صفحہ 372-373)

پس عقائد کی اصلاح بھی انتہائی ضروری ہے مذہب سکھانا بھی انتہائی ضروری ہے اور پھر اس کے بعد اخلاق تو خود بخود آ جائیں گے اگر مذہب سیکھ لیں گے۔ پس تربیت کے لئے عقائد کی درستی اور اصلاح بہت ضروری چیزیں ہیں۔ یعنی دینی تعلیم اور تربیت کی فکر اور اس کے لئے انتظام ضروری ہے۔ اسی طرح اخلاقی حالت کی درستی بھی جیسا کہ میں نے کہا کہ بہت ضروری ہے۔

پس دعا کے ساتھ بچوں پر نظر رکھنا اور ان کو دین سکھانا، ان کے اخلاق بہتر کرنا انتہائی ضروری چیز ہے۔ اس دنیا دار ماحول میں رہ کر دینی تربیت انتہائی ضروری چیز ہے۔ بچوں میں یہ احساس پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ دین ہر چیز پر مقدم ہے۔ بچوں کو یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ صحیح اور حقیقی اخلاق وہ ہیں جو خدا تعالیٰ نے اور دین نے ہمیں سکھائے ہیں۔ سچائی کا معیار ہے تو وہ قول سدید ہے یعنی ہر بات کو کامل سچائی سے ادا کرنا بیان کرنا۔ کوئی پیچ دار بات بیچ میں نہ ہو۔ بالکل صاف اور ستھری بات ہو۔ اگر ماں باپ اس پر قائم نہیں تو بچوں پر بھی نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔ اسی طرح دوسری باتیں ہیں۔ بعض باتیں یہاں کے ماحول میں بری یا اخلاق سے ہٹ کر نہیں سمجھی جاتیں لیکن دین انہیں برا سمجھتا ہے اور غلط کہتا ہے۔ پس اچھے برے کی پہچان کروانا بھی والدین کا فرض ہے اور خاص طور پر جیسا کہ میں نے کہا جب سکولوں میں یہ باتیں سیکھتے ہیں تو متقیوں کا امام بننے کے لئے خود ماں باپ کو متقی بننا ہو گا۔

جس فکر سے دنیاوی تعلیم کا اظہار کیا جاتا ہے کہ یہ حاصل کر لیں اسی فکر کے ساتھ بچوں کی دینی تعلیم کی بہتری کا بھی اظہار ہونا چاہئے اور پھر اس کے لئے کوشش بھی ہونی چاہئے۔ دینی تربیت اور دین کی اہمیت اور عبادتوں کی اہمیت اور ضرورت کا ادراک پیدا کرنے کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اپنی اولاد کو سات سال کی عمر میں نماز کا حکم دو اور پھر دس سال کی عمر تک انہیں اس پر سختی سے کاربند کرو۔ نیز ان کے بستر الگ الگ بچھاؤ۔ (سنن ابو داؤد کتاب الصلوٰۃ باب متی یؤمر الغلام بالصلاۃ حدیث 495)۔ اس عمر میں مائیں بھی بچوں کی صحیح رنگ میں تربیت کر سکتی ہیں۔ اگر اس فرض کو صحیح رنگ میں ادا کرنے والی ہوں گی تو بچوں کی صحیح رنگ میں تربیت ہو سکتی ہے۔ آئندہ نسلوں میں پھر عبادالرحمٰن پیدا کرنے والی ہوں گی۔ ہماری اگلی نسلوںمیں جب رحمٰن خدا کے بندے بنیں گے تو شیطان سے دور ہوں گے اور دنیاوی ماحول میں جو قدم قدم پر اپنی تمام تر کوششوں کے ساتھ شیطان حملے کر رہا ہے اور دین سے دُور ہٹانے کے لئے کھڑا ہے اس سے بچنے کے لئے ایک صحیح حقیقی رنگ میں کوشش ہو رہی ہو گی اور یہ سکھانے کے ساتھ ساتھ جیسا کہ میں نے کہا دعائیں بہت ضروری ہیں کیونکہ اس سے صرف خدا تعالیٰ کے آگے جھک کر اور اس سے مدد مانگ کر ہی بچا جا سکتا ہے ورنہ شیطان کے حملے انتہائی خطر ناک ہیں۔ اس لئے تربیت کے لئے سب سے پہلے اپنی دعاؤں کو انتہا تک پہنچائیں اور پھر اپنے بچوں کو دعاؤں کی اہمیت بتائیں اور یہ بتا کر اللہ تعالیٰ سے جوڑنے والا بنائیں۔ یہی ہماری نسلوں کی شیطان کے حملوں سے بچنے کی ضمانت ہے۔ نماز پڑھنے کی تلقین کرنا اور نماز پڑھنے کا صحیح طریق سکھانا یہ ماں باپ کا اولین فرض ہے۔ کس طرح کھڑے ہونا ہے کس طرح نماز میں بیٹھنا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ بچوں کی انتہائی بچپن میں تربیت کیا کرتے تھے۔ اس بارے میں آجکل ماں باپ سمجھتے ہیں کہ جو ذیلی تنظیمیں ہیں خدام، اطفال، لجنہ یا ناصرات کی یہ ان کا کام ہے کہ ہمارے بچوں کی تربیت کریں اور انہیں نماز سکھائیں۔ انہیں نماز کے طریق سکھائیں یا انہیں اور دینی معلومات سکھائیں۔ بیشک یہ ذیلی تنظیمیں تربیت کرنے اور اکائی پیدا کرنے کے لئے بنائی گئی ہیں لیکن اس سے ماں باپ کی ذمہ داریاں کم نہیں ہو گئیں۔ بعض مائیںبچوں کو انتہائی بچپن میں دعائیں سکھا دیتی ہیں اور اپنی توتلی زبان میں وہ دعائیں پڑھتے ہوئے بڑے پیارے لگتے ہیں۔ لیکن اکثر جو ہیں اس توجہ سے تربیت نہیں کرتیں اور اس تربیت کو جو ان دعاؤں کو جو انہوں نے سکھائی ہیں وہ اس وقت تک قائم رکھ سکتی ہیں جب تک ساتھ اللہ تعالیٰ سے بھی ان کے لئے دعائیں مانگیں۔ اس تربیت کو جو بچوں کی مائیں کر رہی ہیں نمازوں اور دعاؤں کی اہمیت جو ان کو بتا رہی ہیں اس کو جوانی تک مسلسل جاری رکھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے تا کہ بڑے ہو کر بھی بچے اس اہمیت کو سمجھ سکیں اور جو ماں باپ یہ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے بچے دین سے جڑے رہتے ہیں دنیاوی چیزیں اور دنیاوی خواہشات ان کے لئے ثانوی حیثیت رکھتی ہیں۔ باپوںکو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ دس گیارہ سال کی عمر کے بعد لڑکوں کو خاص طور پر ان کی توجہ کی ضرورت ہوتی ہے اس بارہ میںمیں کئی دفعہ کہہ چکا ہوں اگر باپ اپنا ظاہر و باطن ایک رکھیں گے اپنے نمونے پیش کریں گے تو لڑکے بھی اسی طرح تربیت حاصل کریں گے۔ بہت سے ماں باپ ایسے ہیں جن کو بچوں کی دینی تربیت کی فکر نہیں ہوتی یا انہیں احساس بھی نہیں ہوتا کہ یہ بھی ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے جو انہوں نے ادا کرنی ہے۔ اگر یہ ذمہ داری ادا نہ کی تو بچے دنیا کی رو میں بہ کر دین سے دور ہٹ جائیں گے بلکہ خدا سے بھی دور ہو جائیں گے۔ پس بچوں کی دینی تربیت کے معاملے کو ماں باپ کو سرسری طور پر نہیں لینا چاہئے اس کے لئے خاص کوشش اور جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمیں دنیاوی تعلیم بھی حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور اس میں مقام پیداکرنا چاہئے اور اس کا شوق پیدا کرنے کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے اعلیٰ پوزیشن لینے والے بچوں اور بچیوںکے لئے گولڈ میڈل دینے کی سکیم شروع کروائی تھی۔ اب یہ تمام دنیا میں رائج ہے اور گولڈ میڈل تو شاید نہیں دئیے جاتے لیکن میڈل اور سندات دی جاتی ہیں۔ سوائے پاکستان اور انڈیا کے، وہاں گولڈ میڈل دئیے جاتے ہیں۔

آج یہاں بھی تقریب ہوئی ہے ایوارڈ تقسیم کئے گئے ہیں وہ اسی وجہ سے ہیں کہ بچیاں بھی دنیاوی تعلیم حاصل کرنے میں بھی اعلیٰ مقام پر پہنچیں لیکن یہ ہماری زندگی کا آخری مقصد نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب فرمایا کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ تیرے ماننے والے علم و معرفت میں کمال حاصل کرنے والے ہوں گے (ماخوذ از تجلیاتِ الٰہیہ، روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 409) تو اس میں دینی اور دنیاوی دونوں علم شامل ہیں۔ اگر ہم دین کو چھوڑ کر صرف دنیا کے پیچھے چل پڑے تو دین بھی ہاتھ سے جائے گا اور دنیا بھی اور پھر ایسی مائیں اور باپ سوائے اس کے کہ خود بھی دنیا میں ڈوب کر دین کو بھلا بیٹھے ہوں بچوں کے دین سے ہٹنے کی وجہ سے پریشان ہوتے ہیں۔ بڑھاپے میں جا کر پھر خیال آتا ہے کہ ہم سے غلطی ہو گئی ہم نے بچپن سے ہی تربیت کرکے ان کو خدا تعالیٰ سے نہیں جوڑا۔

پھر اس بات کو بھی تربیت کے نقطۂ نظر سے ماں باپ کو اپنے سامنے رکھنا چاہئے کہ گھر کا ماحول ایسا پاکیزہ اور سازگار ہو جیسا کہ میں نے کہا کہ ظاہر و باہر ایک ہو۔ دوعملی نظر نہ آئے۔ پھر ہی بچے صحیح طور پر تربیت حاصل کریں گے۔ سچائی ہو اور ہر معاملے میں قول سدید ہو۔ دین کو دنیا پر مقدم رکھنے کے نمونے ظاہر ہوں۔ ہم بچوں کو تو کہیں کہ آپس میں لڑنا نہیں، اللہ تعالیٰ کو یہ بات ناپسند ہے، دین اس کی اجازت نہیں دیتا اور اپنی زبان پر بیہودہ الفاظ خاوند بیوی سے اور بیوی خاوند سے اولاد کے سامنے کہہ رہے ہوں اور خود ماں باپ غصہ کی حالت میں جب لڑرہے ہوں تو ان کو پتہ ہی نہ ہو کہ کیا کیا غلط الفاظ ایک دوسرے کے لئے استعمال کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ایسے بھی خاندان ہیں۔

کئی بچے میرے پاس ایسے ماں باپ کی شکایت کرتے ہیں بلکہ خاص طور پر باپوں کی شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے باپ جو ہیں وہ ماں پر زیادتی کر جاتے ہیں اور غلط الفاظ بول جاتے ہیں جس کا ہم پر بڑا اثر ہے۔ مردوں کے اس پاگل پن سے بچوںکی تربیت کے لئے اگر عورتیں خاموش ہو جائیں اور ایک طرف ہو جائیں اور جواب نہ دیں تو کم از کم یہ خاموش طریق بچوں کو اچھے اور برے اخلاق کا پتہ تو دے دے گا۔ لیکن میری اس بات سے مرد یہ بھی نہ سمجھیں کہ انہیں بولنے اور غلط باتیں کہنے کی اجازت مل گئی ہے اور جو مرضی کہتے رہیں اور عورت کا یہ فرض ہے کہ وہ خاموش رہے اور صبر کرے۔ میرا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے۔ مرد کو بھی اپنے غصہ پر قابو رکھنا چاہئے۔ اپنے آپ کو بے تاج بادشاہ نہ سمجھیں بلکہ خدا تعالیٰ کا خوف دل میں پیدا کریں۔ یاد رکھیں کہ ان کی ہر بات کو اور ہم میں سے ہر ایک کی ہر بات کو اور ان کی زیادتیوں کو خدا تعالیٰ دیکھ رہا ہے اور جو بھی زیادتیاں وہ مرد کرتے ہیں ان کی ان کو اگر اس دنیا میں نہیں تو آخرت میں سزا ملے گی۔

پس ماں باپ دونوں بچوں کی اعلیٰ تربیت کے لئے اپنے گھر کے ماحول کو ایسا رکھیں کہ بچے اپنے ماں باپ کو اپنے لئے ایک نمونہ سمجھ کر ان کے قریب ہوں ۔

پھر اس بات کا بھی خیال رکھیں کہ احمدی ماں باپ کا فرض ہے کہ جماعتی اجلاسوں اور پروگراموں میں بچوں کو خود لے کر جائیں۔ بعض تو ایسے ماں باپ ہیں جیسا کہ میں نے ذکر کیا کہ سمجھتے ہیں کہ دینی تعلیم وتربیت صرف نظام جماعت کا کام ہے اور ہم نے کچھ نہیں کرنا اور وہ بچوں کو چھوڑ بھی جاتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو اس طرف توجہ ہی نہیں دیتے۔ خود بھی جماعتی پروگراموں میں شامل نہیں ہوتے اور بچوں کو بھی نہیں لاتے۔ پس خود بھی شامل ہوں اور بچوں کو بھی اس کی اہمیت بتائیں۔ پھر ان اجلاسوںمیں انتظامیہ کا بھی کام ہے کہ بچوں سے پیار اور شفقت کا سلوک کریں اور انہیں جماعت کے قریب تر کرنے کی کوشش کریں۔ انتظامیہ میں چاہے عورتیں ہیں یا مرد دوسرے کے بچے کو بھی اپنے بچوں کی طرح دیکھناچاہئے۔ ماں باپ نے جماعتی نظام پر اعتماد کر کے بچے آپ کے پاس بھیجے ہیں تو اس اعتماد پر پورا اتریں۔ بچوں کی تربیت کے لئے گھر اور باہر ہمیں من حیث الجماعت کوشش کرنی ہو گی اور کرنی چاہئے تا کہ اگلی نسل کو سنبھال سکیں اور وہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے والے ہوں۔

یہاں میں اس بات کا بھی ذ کر کر دوں کہ ذیلی تنظیمیں اگر بچوں کو سنبھالنے کے لئے پوری کوشش کر رہی ہیں تو جماعتی عہدیدار خاص طور پر مرد صدر جماعت یا کوئی اور عہدیدار بچوں سے ایسا رویّہ دکھاتے ہیں کہ بچے مسجد آنے سے بدکنے لگ جاتے ہیں۔ بعض ایسی شکایتیں بھی آتی ہیں۔ اب ماں باپ جتنی چاہے کوشش کر لیں ان کا کہنا اور ان کی تربیت کوئی فائدہ نہیں دیتی اور ان کی ساری تربیت پر یہ عہدیدار پانی پھیر دیتے ہیں۔

پس تربیت اولاد کے لئے اور دین سے جوڑنے کے لئے یہ ضروری چیز ہے کہ پورا ماحول مددگار ہو۔ لیکن اگر کوئی ایسی صورت پیدا ہو جائے جب بچہ کسی عہدیدار یا کسی بڑے کی وجہ سے جماعتی پروگراموں سے دور جا رہا ہے یا جماعت سے ہٹ رہا ہے تو ماں باپ کو اسے سمجھانا چاہئے کہ اس عہدیدار کی یہ ذاتی کمزوری ہے اس کی وجہ سے تم جماعت سے دور نہ ہو۔ اسی طرح اس عہدیدار کو بھی کہیں۔ ماں باپ خود بھی کہہ سکتے ہیں اور بالا انتظام کو بھی کہیں کہ ان عہدیداران کی اصلاح کی ضرورت ہے۔ لیکن بہرحال ماں باپ کا اگر بچے کے ساتھ ایک ذاتی تعلق ہو گا تو جو بھی ان کے ساتھ ہو رہا ہو گا وہ بات بھی ماں باپ کو بتائیں گے اور ان کے سمجھانے پر سمجھیں گے بھی۔ مَیں بار بار اس طرف توجہ دلاتا رہتا ہوں کہ اس ماحول اور معاشرے میں ماں باپ کا بچوں سے ذاتی تعلق اور ہر بات ماں باپ سے کرنا انتہائی ضروری ہے کیونکہ صرف اپنے ماحول اور پروگراموں کی بھی بات نہیں ہے بلکہ بچے جو گھر سے باہر دوسرے بچوںمیں وقت گزارتے ہیں وہاں بھی وہ مختلف قسم کی باتیں سنتے اور سیکھتے ہیں۔ اگر ماں باپ کے ساتھ وہ یہ باتیں شیئر(share) نہیں کر رہے ہوں گے تو اچھے برے کی تمیز انہیں پتہ نہیںلگے گی اور پھر ان میں اس جھجھک اور شرماہٹ کی وجہ سے ایک خلیج پیدا ہوتی چلی جائے گی جسے ختم کرنا پھر بہت مشکل ہو گا۔ ماں باپ اس خوش فہمی میں ہوتے ہیں کہ ہمارا بچہ یا بچی بڑے شریف ہیں باہر کے ماحول کا ان پر کوئی اثر نہیں ہو رہا۔ لیکن بعض دفعہ ایسی صورت پیدا ہو جاتی ہے کہ ماں باپ اس خوش فہمی یا غلط فہمی کو بعد میں تسلیم کرتے ہیں کہ ہمیں احساس نہیں ہوا کہ کب ہمارا بچہ دین سے دور ہٹ گیا۔ بچپن میں بچہ پاک فطرت ہوتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی فرمان ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں اور یہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ماحول اسے اچھا یا برا کرتا ہے (صحیح البخاری کتاب الجنائز باب اذا اسلم الصبی فمات … الخ حدیث1359)۔ دیندار یا دنیا دار بناتا ہے۔ پس ماں باپ کو اپنے بچوں پر یہ نظر رکھنی بھی ضروری ہے کہ بچہ باہر کہاں کھیلنے جا رہا ہے۔ کس قسم کے بچوں کے ساتھ کھیل رہا ہے۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ماں باپ صرف یہ نہ سمجھیں کہ بچوں پر باہر کے ماحول کے اثر پر بھی نظر رکھنی ہے بلکہ جیسا کہ میں نے کہا کہ ماں باپ کے ظاہر رویّوں اور ایک دوسرے سے سلوک کا اثر بھی بچوں پر ہوتا ہے اور وہ ان کی ظاہری حالت اور اخلاق کو دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح لاشعوری طور پر بچوں پرماں باپ کی دوسری برائیوں اور میلانات کا بھی اثر ہو رہا ہوتا ہے اور وہ ان کے میلانات سے اور برائیوں سے اثرلیتے ہیں۔ اس لئے ماں باپ کو اپنی اصلاح کرنے اور اپنی برائیوں سے اگلی نسل کو بچانے کے لئے کوشش بھی کرنی چاہئے اور دعا بھی کرنی چاہئے۔

پھر لڑکوں کی تربیت کے لئے بھی اور لڑکیوں کی تربیت کے لئے بھی یہ ضروری چیز ہے کہ ان میں انصاف قائم رکھا جائے۔ بعض لوگ لڑکوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اس سے جہاں لڑکوں میں خود غرضی پیدا ہوتی ہے، خود سری پیدا ہوتی ہے، خودپسندی پیدا ہو تی ہے اور آخر میں تکبر بھی پیدا ہو جاتا ہے انہی وجوہات کی وجہ سے جو انتہائی برائی ہے وہاں لڑکیوں میں احساس محرومی پیدا ہوجاتا ہے اور اس کو دور کرنے کے لئے وہ پھر بعض اوقات اپنے دوستوں اور سہیلیوں میں اٹھنا بیٹھنا شروع کر دیتی ہیں جو اپنی یعنی لڑکیوں کی آزادی اور اہمیت کے نام پر دین سے دور جانے والی بنا دیتی ہیں۔ پس ایک بچے سے امتیازی سلوک کی وجہ سے صرف ایک بچہ خراب نہیں ہو رہا بلکہ یہ امتیازی سلوک بھائی بہن دونوں کو دین سے دور کرنے والا بن جاتا ہے۔ اس کی طرف احمدی ماؤں کو خاص طور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

اسی طرح تربیت کا ایک پہلو یہ بھی سامنے رکھنا چاہئے کہ بچوں کی کوئی کمزوری یا غلطی دیکھ کر لوگوں کے سامنے انہیں سرزنش نہ کریں۔ انہیں اونچی آواز میں نہ کہیں بلکہ پیار سے وہاں ٹوک دیں اور بعد میں اچھی طرح سمجھا دیں۔ ان کی عزت قائم کریں۔ لیکن بعض لوگ بالکل ہی روک ٹوک نہیں کرتے۔ بچے کو اپنی غلطی کا احساس ضرور دلانا چاہئے۔

ایک بہت ضروری بات جو اس حوالے سے میں کہنا چاہتا ہوں وہ واقفین نو بچوںکے متعلق ہے۔ اکثر والدین کا خیال ہے کہ واقفین نو بچوں کو بچپن میں کچھ نہیں کہنا۔ وہ جو چاہے کرتے رہیں بڑے ہو کر خود ٹھیک ہو جائیں گے۔ یہ بڑی غلط سوچ ہے۔ آپ نے جب اپنے بچوں کو وقف کیا ہے تو اس دعا کے ساتھ کہ اے اللہ جو بچہ پیدا ہونے والا ہے اسے میں تیرے دین کی خاطر وقف کرتی ہوں۔ یہ دعا اوریہ اظہار خود اس بات کا متقاضی ہے کہ بچے کی تربیت کے لئے زیادہ کوشش کی ضرورت ہے اور اس تربیت کو کامیاب کرنے کے لئے زیادہ دعا کی ضرورت ہے۔ پس وقف نو بچوں کی تو خاص طور پر بچپن سے دینی تربیت کرنے کی ضرورت ہے، اخلاقی تربیت کرنے کی ضرور ت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت دل میں پیدا کرنے کی ضرورت ہے تا کہ بڑے ہو کر وہ دوسروں کی نسبت زیادہ ممتاز ہو کر ابھریں اور دنیاوی دلچسپیاں انہیں اپنی طرف نہ کھینچیں۔ ان کے اخلاق کے معیار دوسروں سے بلند ہوں نہ یہ کہ وہ اپنے بھائیوں کے ساتھ بدتمیزی کر رہے ہوں۔بچے اگر کسی کے گھر جائیں تو گھر والوں کے ناک میں دم کیا ہو۔ بعض مائیں کہہ دیتی ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے کہا تھا کہ واقف نو بچوں کو کچھ نہیں کہنا ان میں اعتماد پیدا کریں۔ ان کا کہنے کا قطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ انہیں بدتمیز بنا دیں۔ تین چار سال کی عمر سے ہی بچے کو پیار سے تربیت کی ضرورت ہے۔ بلا وجہ کی ڈانٹ ڈپٹ جو بعض مائیں اور باپ کرتے ہیں اور ان کو عادت ہوتی ہے اس سے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے روکا تھا کہ اس طرح نہ کیا کریں اور یہ ہر بچے کے لئے ضروری ہے چاہے وہ واقف نو ہے یا نہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع نے تو اس بات پر بڑی تفصیل سے بیان کیا ہوا ہے کہ ماں باپ بچوں کی بچپن میں صحیح تربیت نہیں کرتے اور جب بچے دوسروں کے گھر جاتے ہیںاور اودھم مچاتے ہیں تو اس کی کوئی حد نہیں ہوتی اور ان گھر والوں کوپریشان کر رہے ہوتے ہیں ۔ انہوں نے تو بچپن سے تربیت کی طرف توجہ دلائی تھی خاص طور پر واقفین نو کو انہوں نے کہا تھا کہ اگر بچے کو گھر میں ہی اخلاق سکھائے ہوں اور غیرضروری اچھل کود اور صوفوں اور چیزوں کو خراب کرنے سے منع کیا ہو تو دوسرے گھر جا کر وہ کبھی ایسی حرکتیں نہ کریں۔ بڑی تفصیل سے انہوں نے یہ باتیں بیان کی ہیں۔ پس یہ ان ماں باپ کی جہالت ہے جو یہ کہتے ہیں کہ بچے کو کچھ نہیں کہنا۔ا گر وقف نو بچے کی صحیح تربیت نہیں کرنی اور اسے بچپن سے ہی برائی اور اچھائی کی تمیز نہیں سکھانی اور بچوں پر زیادہ سختی کرنی ہے تو ایک تو آپس میں بہن بھائیوں میں اس وجہ سے Jealousy اور غلط سوچ پیدا ہو رہی ہو گی اور دوسرے اگر بچے رد عمل نہ بھی دکھائیں اور ماں باپ کی روک ٹوک سے تربیت حاصل کر لیں تو تب بھی دوسرے بچے جو ہیں جن کو روکا ٹوکا جاتا ہے وہ وقف نو بچوں سے زیادہ بہتر ہو جائیں گے اور جماعت کو تو ایسے بچوں کی ضرورت ہے نہ کہ وقف نو کا ٹائٹل لگا کر پھر یہ بداخلاق اور بیکار واقفین نو کی جماعت پیدا کرنا یہ جماعت کے کسی کام نہیں آ سکتے۔ پس مائیں اپنے وقف نو بچوں کی ایسی اٹھان کریں کہ وہ دین کے علم کے لحاظ سے بھی دنیاوی علم کے لحاظ سے بھی اور اخلاق کے معیار کے لحاظ سے بھی اور دنیا کی خدمت کے جذبہ کے لحاظ سے بھی اور روحانی لحاظ سے بھی اعلیٰ معیار پر پہنچیں۔ اس وقت دنیا میں ساٹھ ہزار سے زیادہ واقفین نو بچے ہیں۔ بہت سے بیس سال کی عمر سے اوپر ہیں۔ بہت سے ایسے ہیں جو میڈیسن اور دوسرے پیشہ ورانہ مضامین میں پڑھ کر میدان عمل میں آ گئے ہیں۔ کام کر رہے ہیں۔ لیکن ان لوگوں نے باقاعدہ طور پر جماعت کو اپنی خدمات پیش نہیں کیں ۔ ہمارے ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کی ضرورت ہے اور باوجود واقفین نو ڈاکٹروں کے ہم اپنی ضروریات پوری نہیںکر سکے۔ اسی طرح بعض دوسرے پیشے ہیں۔ ایسے وقف نو کا جماعت کو کیا فائدہ۔ بعض آتے بھی ہیں پھر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں کہ الاؤنس کم ہے، جماعت کم الاؤنس دیتی ہے۔ وقف تو نام ہی قربانی کا ہے۔ ماؤں کی اپنے بچوں کی اس نہج پر تربیت کی ضرورت ہے کہ تم نے پڑھ لکھ کر اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لئے پیش کرنا ہے اور اس کے لئے جتنی بھی بڑی سے بڑی قربانی دینی پڑے دینی ہے۔ تب ہم کہہ سکتے ہیں کہ ماؤںنے اپنے بچوں کے وقف کرنے کے عہد کو نبھایاہے۔ ورنہ ایک ظاہری امتیاز ہے وقف نو اور غیر وقف نو بچے کا جس کا جماعت کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ پس ان باتوں کی ماں باپ کو ضرورت ہے کہ اس سلسلہ میں خاص کوشش کریں اور جماعتی ضروریات کو پورا کرنے کی روح اپنے بچوں میں پیدا کریں۔ انہیں وقف کی اہمیت کا احساس دلائیں ۔ورنہ کسی معاملے میں بھی وقف نو بچے سپیشل نہیں ہیں کہ سپیشل ہونے کے نام پر ان کی تربیت ہی نہ کی جائے۔ سپیشل ہونے کی خصوصیات کا دو سال پہلے میں نے کینیڈا کے خطبہ میں ذکر کیا تھا اس کو سامنے رکھیں اور اسے لائحہ عمل بنا کر بچوں کی تربیت کریں۔

عمومی طور پر بچوں کی تربیت کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ گھروں میں نظام جماعت پر اعتراض یا غلط رنگ میں باتیں نہ ہوں۔یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ بچوں کے ذہنوں میں یہ باتیں بیٹھ جاتی ہیں اور پھر وہ سمجھتے ہیں کہ سارا نظام ہی ایسا ہے اور پھر وہ ایک قدم اور آگے جاتے ہیں اور خلیفۂ وقت پر اعتراض کرتے ہیں اور جب یہ اعتراض شروع ہو جاتے ہیں تو پھر وحدت سے علیحدہ ہو جاتے ہیں اور جماعت سے علیحدہ ہو جاتے ہیں۔ اس لئے خدا تعالیٰ کا خوف رکھتے ہوئے اور جماعت سے تعلق اور محبت کا اظہار کرتے ہوئے اور اپنے دل میں جماعت سے پیار اور محبت کا اگر جذبہ ہے تو اس کو ظاہر کرتے ہوئے اپنے گھروں میں ایسی باتوں سے پرہیز کریں۔ اگر کہیں یہ باتیں نہیں بھی ہو رہیں تو یہ سوچ نہیں ہونی چاہئے کہ ہماری شکایت نہ ہو جائے اور ہم پر کوئی ایکشن نہ لے لیا جائے بلکہ اس سوچ سے گھروں میں خلافت اور جماعت کے احترام کے متعلق باتیں کریں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا یہ حکم ہے۔ بندوں سے ڈرنے کی بجائے خدا تعالیٰ سے ڈریں۔ اور وحدت کے جس نظام کو ہم نے حاصل کیا ہے اسے ہم نے ضائع نہیں ہونے دینا۔ اگر کسی عہدیدار سے شکوہ ہے تو خلیفہ وقت تک اپنی بات پہنچا دیں اور پھر معاملہ خدا تعالیٰ پر چھوڑیں۔ یہی چیز ہے جو اگلی نسلوں کو جماعت اور خلافت سے جوڑ کر رکھے گی۔لڑکیوں کی تربیت کے لحاظ سے اس بات کو بھی سب سے زیادہ اہمیت دیں کہ ان میں حیا کا مادہ زیادہ سے زیادہ پیدا کرنا ہے۔ مغربی ماحول میں آزادی کے نام پر جو بے حیائی پھیل رہی ہے اور مغربی ماحول جو سر ننگے کروا رہا ہے تو آپ نے دین کے نام پر حیا کو قائم کرتے ہوئے سروں کو ڈھانکنا ہے اور ہوشمند لڑکیوں کو بھی یہ خیال رہنا چاہئے۔ خود ان کو یہ احساس ہونا چاہئے۔ اس کے لئے ماؤں کے اپنے نمونے سب سے زیادہ ضروری ہیں۔ بچہ تو ماں باپ کی نقل کرتا ہے جیسا کہ میں نے کہا اور لڑکیاں خاص طور ماؤں کی۔ گزشتہ دنوں ایک عزیزہ ملنے آئی اس کی دو اڑھائی سال کی بیٹی ہے، اپنی ماں کے منہ پر بار بار نقاب ڈال رہی تھی اور گھر کے ماحول کی وجہ سے ماں اسے اتار دیتی تھی تو بچی زبردستی اس کے منہ پر نقاب ڈال کر کہہ رہی تھی کہ وہ والا پردہ کریں۔ یعنی جو پردہ آپ باہر کرتی ہیں اور صحیح پردہ ہے وہ پردہ کرو۔ اب چھوٹی بچی کے ذہن میں یہ ہے کہ میری ماں کا یہ پردہ ہے اور یہ اس کے لباس کا حصہ ہے جب بھی اس ماں نے اپنے گھر سے نکلنا ہے چاہے کسی کے گھر بھی جائے تو ایسا پردہ ہونا چاہئے۔ پس جب تک مائیں اپنے بچوں کے سامنے ایسے نمونے رکھتی رہیں گی چھوٹی بچیوں میں بھی پردے کی اہمیت پیدا ہوتی رہے گی اور عورت کی حیا کے مقام کی اہمیت پیدا ہوتی رہے گی اور اس قرآنی حکم کی اہمیت پیدا ہوتی رہے گی۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اپنے سروں کو اوڑھنیوں سے ڈھانپو اور اپنی زینت غیر مردوں سے چھپاؤ۔ لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بہت سی عورتیں اور لڑکیاں جب مسجد میں اور جماعتی فنکشنز میں آتی ہیں تو بقول اس بچی کے جو اس چھوٹی بچی نے کہا تھا کہ ان کا وہ والا پردہ ہو تا ہے اور جب بازاروں میں پھر رہی ہوتی ہیں تو وہ والا پردہ تو علیحدہ بات ہے یہ والا پردہ بھی نہیں رہتا جو انتہائی خوفناک چیز ہے۔ اور وہ حیا اور وہ تقدس جو اسلام عورت کا قائم کرنا چاہتا ہے اس کو ماحول اور فیشن کے زیر اثر ختم کر دیتے ہیں یا پھر ماحول کی وجہ سے شرم آتی ہے اور پھر حیا سے جب شرم آنی شروع ہو جائے تو پھر بے حیائی پیدا ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ پس اگر شرم آنی چاہئے تو بے حیائی سے شرم آنی چاہئے نہ کہ اللہ تعالیٰ کے حکموں سے شرم آئے۔ یاد رکھیں اللہ تعالیٰ کے ایک حکم سے دوری بہت سے حکموں سے دوری کی طرف لے جاتی ہے۔ پس اگر اگلی نسلوں کی تربیت کرنی ہے تو اللہ تعالیٰ کے تمام احکامات پر سنجیدگی سے چلنے کی ضرورت ہے۔ اپنی نسلوں کی تربیت کے لئے اپنی دعاؤں کو قبول کروانا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کے احکامات پر چلنے کی ضرورت ہے۔ یہی اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ دعا کو قبول کروانے کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ (البقرۃ187:)۔ کہ یعنی میرے حکم کو قبول کرو اور مجھ پر ایمان لاؤ۔ اس پر عمل کی ضرورت ہے۔ پس ایمان بھی کامل اس وقت ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلا جائے اور جب ایمان اس معیار پر پہنچتا ہے جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے تو پھر دعائیں بھی قبول ہوتی ہیں۔ پس اگلی نسلوں کو سنبھالنے کے لئے اپنے نمونے کی بھی ضرورت ہے اور دعاؤں کی قبولیت کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کی بھی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی سب کو توفیق عطا فرمائے اور ہماری نسلیں ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے تعلق قائم کرنے والی پیدا ہوتی چلی جائیں۔
اب دعا کر لیں۔ (دعا)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button