متفرق مضامین

’شروطِ عمریہ‘ کی حقیقت

(ڈاکٹر مرزا سلطان احمد)

کچھ ماہ قبل اسلام آباد ہائیکورٹ کے برطرف ہونے والے جج شوکت عزیز صدیقی صاحب نے جماعت ِ احمدیہ کے خلاف ایک فیصلہ سنایا تھا۔ اس تفصیلی عدالتی فیصلے میں بہت سے تاریخی امور کا بھی ذکر تھا۔ ان کا تجزیہ پہلے الفضل انٹرنیشنل میں تیرہ اقساط میں شائع ہو چکا ہے۔ اس فیصلہ میں درج چند امور اسلام کے مخالفین کو مذہبِ فطرت ’اسلام‘ کے خلاف نا حق طور پربہت سا ’مصالحہ‘ فراہم کرنے کے مترادف ہو گا جس کو پھر یہ طبقہ اپنی اسلام مخالف مہم میں استعمال کر سکتا ہے۔ چنانچہ اس بارے میں حقائق کا جاننا اور ایسے امور کی مدلّل تردید کرنا ضروری محسوس ہوتاہے۔

فیصلہ مذکورہ بالا میںمسلمانوں اور شام کے عیسائیوں کے درمیان ہونے والے ایک معاہدہ کا بار بار حوالہ دیا گیا ہے۔ یہ معاہدہ ’شروطِ عمریہ‘ کے نام سے معروف ہے۔ اس معاہدے کے متعلق ایک گروہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ یہ دوسرے خلیفۂ راشد حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دَور میں طَے پایا تھا۔چنانچہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق جج شوکت عزیز صدیقی صاحب کے تفصیلی فیصلہ میں سب سے پہلے اس معاہدے کا ذکر صفحہ 19 پر ملتا ہے۔ اور یہاں پر Amicus Curiae (وہ ماہرین جنہیں عدالت اپنی اعانت کے لئے طلب کرتی ہے) میں سے حافظ حسین احمد مدنی صاحب کی آراء کا ذکر ہے۔ یہاں پر لکھا ہے کہ اجماع ِ صحابہ شروط ِ عمریہ سے یہ معلوم ہوتا ہے :

"Non-Muslims are not entitled to use the ShaairAllah, which are distinct and separate characteristics of Muslim Ummah and it is the responsibility of the Islamic State to protect and safeguard the same from incursion at the hands of the non-Muslims.” page 19

ترجمہ: غیر مسلموں کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ شعائر اللہ جو کہ مسلم امّہ کے ساتھ مخصوص ہیں اور ان کی پہچان ہیں انہیں استعمال کریں اور یہ اسلامی ریاست کا فرض ہے کہ ان کی حفاظت کرے اور انہیں غیر مسلموں کی دست برد سے بچائے ۔

پھر اس عدالتی فیصلہ کے صفحہ 140 پر حافظ حسین احمد مدنی صاحب کی یہ رائے لکھی ہے : شروط ِ عمریہ پر نہ صرف حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بلکہ آپ کے بعد حضرت عمر بن عبدالعزیز ، خلیفہ ہارون الرشید اور دیگر سلاطین کے دور میں بھی عمل کروایا گیا۔ ایک طرف تو مسلمانوں کے لئے یہ ضروری تھا کہ وہ اپنا علیحدہ تشخص برقرار رکھیں اور دوسری طرف غیر مسلموں پر بھی اس بات کی پابندی تھی کہ وہ مسلمانوں جیسی شناخت اپنائیں۔

اس کے بعد اپنے موقف میں وزن پیدا کرنے کے لئے مدنی صاحب نے کچھ قدیم مصنفین کے حوالے پیش کئے جن کے نزدیک شروط ِ عمریہ پر صحابہ رسول اللہ صلی اللہ علی و سلم کا اجماع ہوا تھا کیونکہ ان میں سے کسی نے ان شرائط پر اعتراض نہیں کیا۔

اسی طرح اس عدالتی فیصلہ کے صفحہ 27پر لکھا ہے کہ جب عدالت نے مفتی محمد حسین خلیل صاحب سے سوال کیا کہ اس مسئلہ پر ریاست کیا کر سکتی ہے تو انہوں نے کہا کہ اس مسئلہ پر ’شروطِ عمریہ‘ ایک راہنمادستاویز ہے۔ اور انہوں نے تمام اسلامی تاریخ میں اس کی اہمیت پر زور دیا۔

ان روایات کا ذکر صرف اس عدالتی فیصلہ میں نہیں کیا گیا بلکہ جب بھی جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین کو اپنے دلائل کے مردے میں جان ڈالنے کی ضرورت پیش آئے تو عموماََ ان روایات کا حوالہ دیتے ہیں۔ چنانچہ جب 1984ء میں چند احمدیوں نے شرعی عدالت میں جنرل ضیاء صاحب کی طرف سے جماعت ِاحمدیہ کے خلاف جاری ہونے والے آرڈیننس کو چیلنج کیا اور کئی روز پر محیط بحث میں مکرم مجیب الرحمٰن صاحب (ایڈووکیٹ) نے شرعی عدالت میں اس آرڈیننس کا غیر اسلامی ہونا ثابت کیا تو 23 ؍جولائی 1984ءکو جماعت احمدیہ کی مخالفت میں پیش ہونے والے قاضی مجیب صاحب نے اپنی ڈولتی ہوئی کشتی کو سنبھالنے کے لئے اسی معاہدے کا ذکر کیا تھا۔

چونکہ اس عدالتی فیصلہ میں ’شروط ِعمریہ‘ کے بارے میں ان عدالتی ماہرین کی آراء کو بہت نمایاں کر کے اور اہمیت دے کر درج کیا گیا ہے اور اس کو بنیاد بنا کر کچھ نتائج اخذ کئے گئے ہیں، اس لئے مناسب ہوگا کہ ان ماہرین کے نزدیک جو بھی ’شروط ِعمریہ‘ کی شرائط تھیں ان کے بارے میں مندرجہ ذیل امور کا تجزیہ پیش کیا جائے:

1۔اس دستاویز کے بنیادی نکات کیا ہیں اور اگر ان کو بنیاد بنا کر قانون سازی کی گئی تو اس کے کیا نتائج نکلیں گے؟

2۔کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت اس دستاویز میں بیان کردہ قواعد کی تائید کرتی ہے؟

3۔کیا جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اُس وقت غیر مسلموں سے مختلف معاہدات کئے تو اُن میں موجود شرائط اِس دستاویز میں مذکور شرائط سے کس حد تک مطابقت رکھتی ہیں؟

4۔ مختلف ماہرین اور مؤرخین کے نزدیک وہ روایات و رُواۃ جو اس معاہدے کی سند کا حصہ ہیں کس حد تک مستند ہیں؟

اس دستاویز کے بنیادی نکات

اب ہم اس دستاویز کے کچھ بنیادی نکات درج کرتے ہیں اور اس کے ساتھ یہ جائزہ بھی لیتے ہیں کہ اگر اب پاکستان یا کسی اور مسلمان ملک میں ان کو بنیاد بنا کر قانون سازی کی گئی تو اس کے کیا نتائج نکلیں گے۔

اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلہ کے صفحہ141 اور 142 پر اس دستاویز (شروط ِعمریہ)کے بنیادی نکات موجودہیں۔ ہم انہیں کو بنیاد بنا کر یہ تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ اس کی پہلی شرط یہ بیان کی گئی ہے:

"We made a condition on ourselves that we will neither erect in our areas a monastery, church, or a sanctuary for a monk, nor restore any place of worship that needs restoration.”

ترجمہ: ہم (یعنی معاہدہ کرنے والے شام کے عیسائی) اپنے اوپر یہ شرط لگاتے ہیں کہ ہم اپنے علاقہ میں کوئی خانقاہ، گرجا یا کوئی راہب خانہ تعمیر نہیں کریں گے اور نہ کسی عبادت کی جگہ کو جسے مرمت کی ضرورت ہو مرمت کریں گے۔

اگر اس دستاویز کو بنیاد بنا کر قانون سازی کی جائے یا عدالتیں فیصلہ کرنے لگیں تو اس کا پہلا نتیجہ یہ نکلے گا کہ پاکستان میں کسی غیر مسلم کو اپنی عبادت گاہ تعمیر کرنا تو درکنار انہیں اپنی پرانی عمارات کی مرمت کروانے کی اجازت بھی نہ ملے گی۔ اس پابندی کے بعد وہ اپنی عبادت گاہیں قائم نہیں رکھ سکتے۔ ہر عمارت مرورِ زمانہ سے شکست و ریخت کا شکار بنتی ہے۔ اگر اس اصول کے مطابق چلا جائے تو اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ وطنِ عزیز میں غیر مسلم اپنی عبادت گاہیں قائم نہ رکھ سکیں گے۔ اور اگر ایسا ہے تو پھر آئین کی تمہید میں ’عبادت کی آزادی‘ کے کیا معنی؟ اور اس دستاویز کے مطابق یہ شرط بھی لگائی گئی ہے کہ عیسائی چرچوں کے باہر صلیب آویزاں نہیں کی جائے گی۔ عدالتی فیصلہ میں’شروطِ عمریہ‘ کے متن میں یہ بھی لکھا ہے کہ اگر کوئی مسلمان دن کو یا رات کو عیسائیوں کے گرجے میں آرام کرنا چاہے گا تو اسے نہیں روکا جائے گا۔

پھر اس دستاویز میں لکھا ہے کہ شام کے عیسائیوں پر یہ شرط تھی کہ وہ اپنے بچوں کو قرآن نہیں پڑھا سکتے۔ اس کا یہ مطلب نکلے گا کہ کوئی بڑی عمر کا غیر مسلم بھی قرآن نہیں پڑھ سکتا۔ یہ شرط تو از خود تبلیغ اسلام کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر کسی غیر مسلم کو قرآن ِکریم پڑھایا ہی نہیں جا سکتا تو پھر اس کی تعلیم کو قبول کرنے کی دعوت کس طرح دی جا سکتی ہے؟

اس کے بعد یہ دلچسپ شرط لکھی ہوئی ہے کہ اگر غیر مسلم کہیں پر بیٹھے ہوں اور وہاں پر مسلمان بیٹھنا چاہیں تو غیر مسلم وہاں سے اُٹھ جائیں گے۔ یہاں پر یہ شرط بالکل نہیں کہ اس پابندی کا اطلاق کس جگہ پر ہوگا اور کس جگہ پر نہیں ہوگا۔ اس کا مطلب یہ نکلے گا کہ خواہ غیر مسلم اپنی ذاتی نشست گاہ ، اپنے ڈرائینگ روم میں بیٹھے ہوں اور مسلمان ارادہ کریں کہ وہاں اپنی مجلس لگائیں تو غیر مسلموں کا فرض ہوگا کہ وہاں سے اُٹھ جائیں ورنہ ان کو غدار شمار کیا جائے گا۔

لباس کے متعلق اس دستاویز میں یہ ہدایت پائی جاتی ہے کہ عیسائی مسلمانوں جیسا لباس، ٹوپی اور پگڑی نہیں پہنیں گے۔ بلکہ مسلمانوں جیسے جوتے بھی نہیں پہن سکیں گے۔ اب یہاں یہ سوال طبعی طور پر پیدا ہوتا ہے کہ آخر مسلمانوں جیسے لباس سے کیا مراد ہے؟ اگر ہم آج کے پاکستان کا جائزہ لیں تو پاکستان میں مسلمان شلوار قمیص پہنتے ہیں۔ غیر مسلم یا عیسائی پھر شلوار قمیص نہیں پہن سکیں گے۔ اور پاکستان میں ہی مسلمانوں کی بڑی تعداد مغربی طرز کی پتلون شرٹ بھی پہنتی ہے یا صاحب ِحیثیث مسلمان مغربی طرز کا سوٹ بھی پہنتے ہیں۔ اس قانون کا یہ نتیجہ بھی نکلے گا کہ غیر مسلم یہ بھی نہیں پہن سکیں گے۔ تو یہ سوال تو بہر حال اُ ٹھے گا کہ آخر وہ کیا پہنیں گے کہ اس تنگ نظر طبقہ کی دل آزار ی نہ ہو؟ اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلہ میں یا ان ماہرین کی آراء میں جو کہ اس فیصلہ کی زینت بنی ہیں اس اہم موضوع پر روشنی نہیں ڈالی گئی۔ یہ بھی واضح نہیں ہوتا کہ کیا غیر مسلم اپنا نیا لباس خود ڈیزائن کریں گے کہ یہ کام بھی پاکستان کی کوئی حکومت یا عدالت یا پارلیمنٹ سرانجام دے گی؟ یا از راہ ِ شفقت پاکستان کے غیر مسلموں کو اجازت ہوگی کہ کم از کم اپنا لباس وہ خود ڈیزائن کر لیں۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ کوٹ پتلون تو غیر مسلموں کا لباس ہے تو اس بارے میں نشاندہی کرنی ضروری ہے کہ پھر تو مسلمانوں پر یہ پابندی لگ جائے گی کہ وہ کوٹ پتلون نہ پہنیں کیونکہ اس عدالتی فیصلہ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کا حلیہ مختلف ہونا چاہیے۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ ہم نے یہ فیصلہ سنانےوالے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب کی تصویر جب بھی دیکھی ہے مغربی لباس میں ہی دیکھی ہے۔ اس معاہدے میں مزید یہ شرط درج ہے کہ عیسائی اپنا روایتی لباس پہنیں گے۔ اگر اس دَور میں ان شرائط کا اطلاق کیا جائے تو پہلے یہ طے کرنا پڑے گا کہ آخر پاکستان کے مسیحی احباب کا روایتی لباس ہے کیا؟

اور یہ احتیاط کہ مسلم اور غیر مسلم ایک جیسے نظر نہ آئیں صرف لباس تک محدود نہیں ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے اس فیصلہ میں ماہرین کی آراء درج کرتے ہوئے یہ بھی لکھا ہے کہ مسیحی مسلمانوں جیسا ہیئر سٹائل بھی نہیں بنائیں گے۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے ہیئر سٹائل سے کیا مراد ہے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ میں عدالتی ماہرین نے جو متن پیش کیا ہے اس میں تو ہیئر سٹائل کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں لیکن اس کے جو متن مہیا ہیں ان میں واضح طور پر مانگ نہ نکالنے کا ذکر ہے۔ یعنی ایک اسلامی ریاست میں مسیحیوں پر یہ پابندی ہے کہ وہ مانگ نہیں نکال سکتے۔ اور جو متن اس عدالتی فیصلہ میں درج ہے اس میں یہ وضاحت ہے کہ مسیحیوں کو سامنے کے بال کاٹ کر رکھنے ہوں گے۔ اگر اس کا مجموعی جائزہ پیش کریں تو یہ صورت ِحال سامنے آئے گی کہ مسیحیوں کے بالوں میں مانگ نہ نکالی گئی ہو اور سامنے کے بال کٹے ہوئے ہوں۔ اور اگر ایسا نہ کیا جائے تو کیا جرم ہوگا؟ اس دستاویز کی رو سے یہ ’غداری ‘کے زمرے میں شمار ہوگا۔ اور غیر مسلموں کے امن سے رہنے کی کوئی ضمانت نہیں ہوگی۔

پھر یہ پابندی ہے کہ مسیحی مسلمانوں جیسی زبان نہیں بول سکتے۔ یہ پابندی بھی بہت سی وضاحتوں کا تقاضا کرتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر پنجاب میں مسلمان پنجابی یا اردو بولتے ہیں تو کیا غیر مسلموں پر یہ پابندی ہو گی کہ وہ پنجابی یا اردو بول سکیں۔ اگر وہ کوئی اَور زبان بولیں گے تو وہ کون سی زبان ہو گی اور ان کو کس طرح سکھائی جائے گی؟ یا پھر انہیں کسی اور لب و لہجے میں بات کرنا سکھایا جائے گا۔ جب اس قدر پابندیاں ہیں تو اس نکتے پر بحث کی چنداں  ضرورت نہیں کہ اس دستاویز کی رُو سے مسیحی اپنی حفاظت کی غرض سے ہی سہی اسلحہ رکھنے کے مجاز بھی ہو سکتے ہیں یا نہیں!

رسول اللہ ﷺ کا اسوۂ حسنہ کیا تھا؟

اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیں کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ان شرائط اور پابندیوں کی تصدیق کرتی ہے یا معاملہ کچھ اَور ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دورمیں بھی تو بہت سے عیسائیوں اور یہودیوں سے معاہدات کئے گئے تھے۔ کتاب اللہ اور سنت رسول اسلامی قوانین کے سب سے اہم مآخذ ہیں۔ اور آئین کے آرٹیکل 227کی رو سے ایسا کوئی قانون نہیں بن سکتا جو کہ قرآن مجید کی تعلیمات اور نبی اکرم ﷺ کے تعامل کے خلاف ہو۔ اس لئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں یا ان کی طرف منسوب ہونے والے معاہدوں کے تجزیہ سے قبل یہ دیکھنا ضروری ہے کہ سنت رسول اس معاملہ میں کیا راہنمائی کرتی ہے؟

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دَور میں ایسا پہلا معاہدہ مدینہ کے یہود سے کیا گیا تھا۔ اور یہ معاہدہ ’میثاق ِمدینہ‘ کے نام سے معروف ہے۔ اس میں کہیں اِس قسم کی شرائط موجود نہیں کہ مدینہ کے یہود مسلمانوں کی طرح کا لباس نہیں پہن سکتے یا مسلمانوں کی طرح بال نہیں بناسکتے یا عربی زبان نہیں بول سکتے یا مسلمانوں کی طرح کلام نہیں کر سکتے۔ اور نہ اس معاہدے میں کہیں لکھا ہے کہ مدینہ کے یہود پر اپنے بچوں کو قرآن ِ کریم پڑھانے کی پابندی ہو گی۔

(سیرت ابن ِ ہشام ۔ اردو ترجمہ از سید یٰسین علی حسنی، جلد 1ناشر ادارہ اسلامیات مئی 1994ص336۔338)

اور اس کے علاوہ اور بہت سے معاہدات تھے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ِ مبارک میں یہود اور مسیحیوں سے کئے گئے۔ مزید برآں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی فرامین اور خطوط کے متون بھی تاریخ میں محفوظ ہیں جن معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود اور عیسائیوں کے بارے میں اس قسم کی ہدایات جاری فرمائی تھیں جن کا ذکر اس دستاویز میں ہے یا معاملہ اس کے بر عکس تھا۔

9ہجری میں حمیر (Himyar)کے رئیس نے اسلام قبول کیا۔ ان کے اطاعت کے خط کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خط بھجوایا اس میں مسلمانوں کے لئے زکوٰۃ کے احکامات درج فرمائے اور یہ ہدایت واضح طور پر فرمائی کہ کسی یہودی یا مسیحی کو اپنا مذہب ترک کرنے پر مجبور نہیں کیا جائے گا۔ اور یہودیوں اور مسیحیوںسے فی کس ایک دینا ر جزیہ وصول کیا جائے اور ان کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ اور اس کے رسول پر ہوگی۔

(تاریخ ِ طبری اردو ترجمہ از سید محمد ابراہیم جلد 2ناشر دارالاشاعت 2003ص387و388)

10ہجری میں بنو حارث میں جب اسلام پھیلا تو ان کے نام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیگر ہدایات کے ساتھ یہ ہدایت بھی بھجوائی کہ جو یہودی اور مسیحی اپنے مذہب پر قائم رہنا چاہے اسے ہر گز اپنا مذہب چھوڑنے پر مجبور نہ کیا جائے۔ اور ہر غیر مسلم شخص سے ایک دینار جزیہ لیا جائے۔

(تاریخ ِ طبری اردو ترجمہ از سید محمد ابراہیم جلد 2ناشر دارالاشاعت2003ص393و394)

ان دونوں حوالوں میں اس قسم کی شرائط کہیں پر مذکور نہیں کہ یہودی اور عیسائی مسلمانوں جیسا لباس نہیں پہن سکتے یا ان جیسے بال یا طرزِ خطابت نہیں رکھ سکتے۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو حارث کے پادری اور نجران کے پادریوں کے نام یہ فرمان بھجوایا تھا کہ جو زمین اور جائیداد ان گرجاگھروں، پادریوں اور درویشوں کے زیرِ انتظام ہے وہ اسی طرح ان کی ملکیت رہے گی۔ اس فرمان میں بھی ان شرائط کا کوئی ذکر نہیں پایا جاتا جن کا حوالہ جسٹس شوکت صدیقی صاحب کے فیصلہ میں دیا گیا ہے مثلاََ یہ کہ وہ اپنے گرجوں اور خانقاہوں کی مرمت بھی نہیں کروا سکتے اور نئے گرجے بھی نہیں بنا سکتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان میں تو بالکل برعکس مضمون بیان ہوا ہے۔ اور ملاحظہ ہو کہ نجران کے عیسائیوں کے لئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمان جاری فرمایا تھا کہ ان کی جان، مذہب، عبادت اور عبادت خانوں کی حفاظت کا ذمہ اللہ اور اس کے رسول پرہے۔ اس عہد کی عبارت یہ ہے:
’’اہل ِ نجران اور ان کے قرب و جوار کے لئے ان کی جان، مذہب، ملک و مال، حاضر و غائب، ان کے معابد و عبادات اللہ کی پناہ اور محمد نبی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذمہ داری میں ہیں نہ تو ان کے کسی اسقف (پادریوں کا سردار) کو تبدیل کیا جائے گا، نہ کسی راہب کو اس کی رہبانیت سے اور نہ کسی واقف کو وقفیت سے۔ اس قلیل یا کثیر مقدار میں کوئی تغیّر و تبدل نہ کیا جائے گا جو ان لوگوں کے قبضے میں ہے…‘‘

(طبقات ابن سعد اردو ترجمہ از عبد اللہ العمادی جلد اوّل ناشر دارالاشاعت 2003ص387 و404)

اگر کسی اور مذہب کے بانی کی طرف سے صاحبِ اقتدار ہوتے ہوئے دوسرے مذہب کی عبادت، عبادت خانوں اور مذہبی شخصیات کو اس قسم کی حفاظت کی ضمانت دی گئی ہے تو اس کی معیّن مثال حوالوں کے ساتھ پیش کرنی چاہیے۔

اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ’مقنا‘ (Maqna)کے یہود کو بھی خط تحریر فرمایا۔ اس میں انہیں امان دینے کا اور ان کی حفاظت کا وعدہ تھا۔ اور یہ عہد تھا کہ ان کے ساتھ کوئی ظلم اور زیادتی نہیں ہو گی۔ ان لوگوں پر واجب الادا ٹیکس کی تفصیلات بھی درج تھیں۔ لیکن اُن پابندیوں کا کوئی ذکر نہیں تھا جن کا ذکر پہلے کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح ‘’عریض‘ اور ’بنی غادیا‘ کے یہود کے نام فرمان عہد بھی تاریخ میں محفوظ ہیں۔ جس طرح مسلمانوں پر زکوٰۃ تھی غیر مسلموں کو جزیہ دینا ہوتا تھا۔ اس کے علاوہ ان پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی تھی۔

(طبقات ابن سعد اردو ترجمہ از عبد اللہ العمادی جلد اوّل ناشر دارالاشاعت 2003ص395 تا 397)

یہ مختصر سا تجزیہ اس بات کو واضح کر دیتا ہے کہ عہد ِ نبویؐ میں عیسائیوں یا یہودیوں پر اس قسم کی کوئی پابندیاں نہیں لگائی جاتی تھیں بلکہ ان کو امان دی جاتی تھی اور یہ عہد کیا جاتا تھا کہ ان پر کوئی ظلم نہیں ہوگا۔ ان پر مذہب تبدیل کرنے کے لئے کوئی دبائو نہیں ڈالا جائے گا۔ اور ان کے عبادت خانوں اور عبادت کی حفاظت کی جائے گی۔ ان کے پادریوں اور راہبوں اور واقفین کو ان کے کام سے نہیں ہٹایا جائے گا۔ ان کے مذہبی اداروں سے وابستہ جو جائیداد ہے وہ ان کے پاس ہی رہے گی۔ یہ واضح ہوجاتا ہے کہ جن شرائط کو عین اسلام قرار دے کر پیش کیا گیا ہے، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے خلاف ہیں۔

حضرت عمرؓ کے دَور میں ہونے والے معاہدے

ایک ضعیف حوالے کو بنیاد بنا کر تنگ نظر طبقہ یہ الزام لگا رہا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور ِ خلافت میں ایسا معاہدہ کیا گیا جس میں شام کے عیسائیوں کی مذہبی اور معاشرتی آزادی سلب کر لی گئی۔ اس معین حوالے کا تجزیہ پیش کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ یہ جائزہ لیا جائے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دَور میں جب دوسرے مذاہب کے لوگوں سے معاہدے کئے گئے تو کیا ان میں ان کی مذہبی آزادی سلب کی گئی تھی یا ان میں مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی تھی۔ حضرت عمرؓ کے دَور میں تو اسلامی سلطنت اتنے وسیع علاقے پر پھیل گئی تھی کہ یہ مضمون خفیہ رہ ہی نہیں سکتا کہ اُس وقت اس سلطنت میں غیر مسلموں کے ساتھ کیا رویّہ تھا؟ اس بارے میں جو بھی حقائق ہوں وہ کئی حوالوں سے ثابت ہونے چاہئیں۔

سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ جب ایلیاء (یروشلم) کے لوگوں سے صلح نامہ ہوا ہے تو اس کی کیا شرائط تھیں؟ یہ عیسائیوں کا مقدّس ترین مقام تھا اور اس حوالے سے اس کی ایک اہمیت ہے۔ اس شہر کے لوگوں سے مسلمانوں کا معاہدہ 15 ہجری میں ہوا تھا۔اس معاہدہ میں لکھا گیا تھا:

’’اللہ کے بندے عمر امیر المومنین نے ایلیا ء والوں کو امان دے دی ہے۔ ان کو، ان کی جانوں اور ان کے مالوں کو امان دی گئی ہے۔ ان کے عبادت خانے، صلیبیں، بیمار اور تندرست اور تمام مذاہب والے باشندے امن میں رہیں گے۔ ان کے گرجا گھروں کو کوئی مسلمان رہائش کے لئے استعمال نہیں کرے گا۔نہ ہی ان کو منہدم کیا جائے گا۔ اور نہ ہی ان کی عمارت اور زمین میں سے کمی کی جائے گی۔ اور نہ ہی ان کی صلیب اور ان کے مال میں سے کوئی کمی کی جائے گی۔ ان پر ان کے دین کے متعلق جبر نہیں کیا جائے گا۔ اور نہ ہی ان کے کسی فرد کو کوئی نقصان پہنچایا جائے گا…‘‘

(تاریخ ِ طبری اردو ترجمہ از سید محمد ابراہیم جلد 2ناشر دارالاشاعت2003ص807)

اس معاہدے میں تو حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ایلیاء کے باشندوںکی مذہبی آزادی کو یقینی بنایاہے۔ اور اس قسم کی شرائط جیسا کہ ’شروط ِعمریہ‘ نام کی دستاویز میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کی گئی ہیں اس میں ہر گز نہیں پائی جاتیں۔ پہلے اس علاقہ پر رومی مسیحی قابض تھے۔ اس معاہدے میں یہ بھی شامل تھا کہ جو کوئی رومیوں کے ساتھ جانا چاہے اسے اس کی آزادی ہو گی۔ اسی طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فلسطین کے باقی علاقوں سے جو معاہدے فرمائے ان میں یہ الفاظ شامل تھے:

’’ان کی جانوں اور ان کے مال و دولت، ان کے کلیسائوں اور ان کی صلیبوں، انکے بیمار اور صحتمند اور ان کے تمام مذاہب والوں کو امن دے دیا ہے۔ اور یہ کہ کم از کم عبادت خانوں کو رہائش کے لئے استعمال نہیں کیا جائے گا۔اور نہ ان کو منہدم کیا جائے گا۔ اور ان کی عمارت اور ان کی صلیبوں اور مال و متاع میں سے کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ ان کومذہب اور دین کے معاملے میں مجبور نہیں کیا جائے گا…‘‘

(تاریخ ِ طبری اردو ترجمہ از سید محمد ابراہیم جلد 2ناشر دارالاشاعت2003ص808و809)

یہ بات قابل ِ غور ہے کہ ’شروط ِعمریہ‘ میں تو یہ شرط درج ہے کہ اگر کوئی مسلمان رات کو یا دن کو گرجا میں آرام کرنا چاہے گا تو اسے نہیں روکا جائے گا۔ اور دوسری طرف اِن معاہدوں میں صاف یہ لکھا ہے کہ عیسائیوں کے عبادت خانوں کو رہائش کے لئے نہیں استعمال کیا جائے گا۔ اسی طرح حضرت عمرؓ کے دور میں اہل ِ مصر سے جو معاہدہ کیا گیا اس میںبھی ان کی مذہبی آزادی کی ضمانت دی گئی اور اُن توہین آمیز شرائط کا نام ونشان نہیں پایا جاتا جو کہ حضرت عمرؓ کی طرف منسوب کی جا رہی ہیں۔ اسی طرح جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں آرمینیا کے لوگوں سےمعاہدہ کیا گیا تو اس میں بھی یہ شرط موجود تھی کہ مسلمان ان کے مذہب کی بھی حفاظت کریں گے۔ اور اگر وہاں کے لوگ جنگ میں شرکت کریں گے تو پھر اُن سے جزیہ بھی وصول نہیں کیا جائے گا۔ اور اسی طرح آذر بائِیجان پر قبضہ کے بعد جو معاہدہ ہوا اس میں بھی یہ شرط شامل تھی کہ ان کے مذہب کی حفاظت کی جائے گی۔ یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ ابھی جن علاقوں کے حوالے دیئے گئے ہیں وہ تمام حضرت عمرؓ کے عہدِ مبارک میں ہی اسلامی سلطنت میں شامل ہوئے تھے ۔

(تاریخ ِ طبری اردو ترجمہ از سید محمد ابراہیم جلد3ناشر دارالاشاعت2003ص125و171و173)

’شروط ِعمریہ ‘کی حقیقت

یہ تو ثابت ہو گیا کہ جن شرائط کو ’شروط ِعمریہ ‘کا نام دے کر شہرت دی جاتی ہے یا تنگ نظر طبقہ اسے اپنے خیالات کی تائید میں پیش کر رہا ہے، وہ شرائط اُ ن شرائط سے بالکل مختلف ہیں جن کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم اور خود حضرت عمر رضی اللہ عنہ معاہدے کیا کرتے تھے۔ اور روایات کا ایک ذخیرہ اس روایت کی تردید کر رہا ہے۔ یہ نا ممکن تھا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ سے ہٹ کر کوئی معاہدہ کرتے۔

اب ہم اُ س روایت کا تجزیہ کرتے ہیں جس کے حوالہ سے یہ معاہدہ بیان کیا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ ابن ِ قیم الجوزیہ کی کتاب ’احکام ِ اہل ِ ذمۃ‘ میں بیان ہوا ہے۔ جو اس کی پہلی سند بیان ہوئی ہے اس کے راویوں میں پہلے راوی ابو شرحبیل عیسیٰ بن خالد مجہول الحال ہیں۔ یعنی ماہرین کے نزدیک ان کے حالات ہی معلوم نہیں کہ ان کی روایت پر اعتبار کیا جا سکتا ہے کہ نہیں۔ اور اس روایت کے مطابق انہوں نے اسماعیل بن عیاش سے روایت کی ہے۔ گو بعض نے انہیں ثقہ بھی قرار دیا ہے لیکن کئی آئمہ نے ان کی روایت کو ناقابل ِ اعتبار شمار کیا ہے۔ ان کو امام نسائی نے ضعیف قرار دیا ہے۔ اور ابنِ حبان نے لکھا ہے کہ یہ اکثر غلطی کر جاتے تھے۔ ابو حاتم نے انہیں ’لین ‘ قرار دیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ راوی پوری طرح ’ساقط‘ نہیں ہے لیکن اس میں کچھ قابل ِ اعتراض باتیں ایسی پائی گئی ہیں جن کی بنا پر وہ پوری طرح عادل نہیں قرار دیا جا سکتا۔

(ميزان الاعتدال فى نقد الرجال المؤلف: محمد بن أحمد بن عثمان بن قايماز الذهبي شمس الدين أبو عبد الله جلد اوّل ص 240تا 244)

(احکام اھل ذمۃ ، تالیف ابن ِ قیم الجوزیہ، الجزء اوّل ، ناشر دارالکتب العلمیہ بیروت ص 113و 114)

احکام اہلِ ذمۃ میں اسماعیل بن عیاش کے بعد یہ لکھا ہی نہیں ہوا کہ انہوں نے یہ روایت کس سے سنی تھی؟ اس مجموعی صورت ِ حال اور خاص طور پر روایت کے باقی روایات کے ذخیرے سے اختلاف ہمیں اسی نتیجہ پر لے جاتا ہے کہ اس روایت کو غلط اور جعلی شمار کیا جائے۔ مسلمان محققین اور مصنفین تو ایک طرف رہے خود مغربی مصنفین نے بھی اقرار کیا ہے کہ وہ روایات جن میں یہ معاہدہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا گیا ہے درست نہیں ہیں۔ ان میں سے ایک محقق A.S. Tritton اپنی کتاب The Caliphs and their non-Muslim Subjectsمیں ’شروط عمریہ‘ پر اپنی تحقیق پیش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ بات ہی اس کو عجیب بنا دیتی ہے کہ اسے لکھا ہی شام کے مسیحیوں نے تھا اور اپنے اوپر خود ہی یہ سخت پابندیاں لگا دی تھیں۔ جبکہ بالعموم فاتح افواج شرائط لکھتی ہیں۔ دوسری بات جو اسے غلط ظاہر کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس میں لکھا ہی نہیں کہ یہ معاہدہ کس شہر کے لوگوں سے ہوا تھا۔ اگر شام کے لوگوں سے ہوا تھا تو حضرت خالدؓ بن ولید نے دمشق کے لوگوں سے بالکل مختلف بلکہ ان شرائط سے متضاد شرائط پر معاہدہ کیا تھا۔ شام کے اس شہر سے جس کا نام بھی معلوم نہیں، آخر اتنی سخت شرائط پر کیوں معاہدہ ہوا اور وہ بھی اس فرضی شہر کے لوگوں کے اپنے ہاتھوں کا لکھا ہوا جبکہ شام ہی کے دوسرے شہروں سے بالکل اَور شرائط پر معاہدات کئے گئے۔

یہ تمام حقائق یہی نتیجہ نکالتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس معاہدے کا منسوب کرنا درست نہیں۔ وہ اپنی کتاب کے آخر میں یہ سوال اُٹھاتے ہیں کہ کیا وجہ ہے کہ اسلام کی پہلی صدی میں جب یہ ’فرضی معاہدہ‘ ہوا تھا اسے نظر انداز کر دیا گیا اور اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔

اور مسلمان جرنیلوں نے جو معاہدے کئے وہ ان شرائط کے مطابق نہیں تھے۔ اور 200 سال کے بعد اس کے بعض خدو خال نظر آنے شروع ہوتے ہیں۔ان کی کتاب کا آخری فقرہ یہ ہے :

The covenant was drawn up in the schools of law, and came to be ascribed, like so much else, to Umar I

ترجمہ: اس معاہدے کو فقہ کے مدرسوں میں تیار کیا گیا اور بہت سی دوسری چیزوں کی طرح عمر اوّل کی طرف منسوب کردیا گیا۔

THE CALIPHS AND THEIR NON-MUSLIM SUBJECTS -A Critical Study of the Covenant of ‘Umar-By A.S. Tritton, published by HUMPHREY MILFORD OXFORD UNIVERSITY PRESS LONDON BOMBAY CALCUTTA MADRAS 1930, p 5-18, 233

کیا یہ شرم کا مقام نہیں کہ جب اس جیسی ضعیف اور بے اصل روایت سامنے آتی ہے جس کے نتیجہ میں اسلام پر اور ایک خلیفۂ راشد پر الزام لگایا جاتا ہے کہ انہوں نے دوسرے مذاہب سے وابستہ لوگوں کے بنیادی حقوق بھی سلب کر لئے تو غیر مسلم مگر انصاف پسند مغربی مصنفین خلیفۂ راشد کی معصومیت کو ثابت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ روایات غلط ہیں۔ خلفائے راشدین کا سارا طرز ِ عمل اس بات کی تردید کرتا ہے کہ وہ اس قسم کا ظلم کریں۔ اور دوسری طرف پاکستان کے نام نہاد علماء اپنی اغراض کے لئے اور جماعت ِاحمدیہ کی دشمنی میں یہ اصرار کرتے ہیں کہ ہم نہیں مانیں گے یہی ایک روایت درست ہے اور نعوذباللہ خلفائے راشدین یہ مظالم روا رکھتے تھے۔ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی عدالت بجائے اس کی مذمت کرنے کے اپنے تفصیلی فیصلہ میں اسے نمایاں کر کے شامل کرتی ہے۔ اس طرح یہ لوگ خود اسلام کے دشمنوں کو اسلام پر اعتراض کا موقع فراہم کر رہے ہیں۔ عوام خود تو اس قسم کے معاملات میں تحقیق نہیں کر سکتے۔ یہ رویہ پاکستان کے عوام کو بھی یہی سکھا رہا ہے کہ اسلام کی تعلیم یہی ہے۔ پاکستان میں احمدیوں پر مختلف بہانوں سے ظلم تو روا رکھے ہی جا رہے ہیں، مگر خدا کے واسطے اس دشمنی میں اندھے ہو کراسلام پر اور اسلامی تعلیمات پر اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے خلفائے راشدین پرحملے کرنا تو بند کردیں۔ اس صورت ِحال میں انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھنے اور جماعت ِ احمدیہ کے ایک مخالف کا ہی شعر لکھنے کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان اب زبان ِ حال سے کہہ رہا ہے؎

میں اگر سوختہ ساماں ہوں تو یہ روز سیاہ
خود دکھایا ہے مرے گھر کے چراغاں نے مجھے

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button