خطاب حضور انور

جماعت احمدیہ برطانیہ کے جلسہ سالانہ 2018ء کے موقع پر امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا افتتاحی خطاب

(امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بںصرہ العزیز)

جماعت احمدیہ برطانیہ کے جلسہ سالانہ کے موقع پر03؍اگست2018ء بروز جمعۃ المبارک
امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا حدیقۃالمہدی( آلٹن) میں افتتاحی خطاب

(اس خطاب کا متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔
اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْٓئَ وَیَجْعَلُکُمْ خُلَفَآئَ الْاَرْضِ۔ أَاِلٰہٌ مَّعَ اللہِ۔ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ۔(النمل63:)

اس آیت کا یہ ترجمہ ہے کہ یا پھر وہ کون ہے جو بیقرار کی دعا قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارے اور تکلیف دور کر دیتا ہے اور تمہیں زمین کا وارث بناتا ہے؟ کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے؟ بہت کم ہے جو تم نصیحت پکڑتے ہو۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک موقع پر فرمایا کہ

’’ہمارا تو سارا دارومدار ہی دعا پر ہے۔ دعا ہی ایک ہتھیار ہے جس سے مومن ہر کام میں فتح پاسکتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے مومن کو دعا کرنے کی تاکید فرمائی ہے بلکہ وہ دعا کا منتظر رہتا ہے۔‘‘ ۔ (ملفوظات جلد 7صفحہ 51) یعنی اللہ تعالیٰ بھی انتظار میں ہے کہ مومن دعا کرے۔ پھر آپ نے ایک موقع پر فرمایا کہ ’’یہ زمانہ اس قسم کا آگیا ہے کہ انصاف اور دیانت سے کام نہیں لیا جاتا اور بہت ہی تھوڑے لوگ ہیں جن کے واسطے دلائل مفید ہو سکتے ہیں ورنہ دلائل کی پروا ہی نہیں کی جاتی۔‘‘ فرمایا ’’اس لئے مَیں سمجھتا ہوں کہ دعا سے آخری فتح ہو گی۔‘‘

(ملفوظات جلد 6 صفحہ 322-323)

پھر آپ نے فرمایا کہ ’’یہ سب مقاصد جو ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں صرف دعا کے ذریعہ سےحاصل ہو سکیں گے‘‘ فرمایا کہ’’ دعا میں خدا تعالیٰ نے بڑی قوتیں رکھی ہیں‘‘۔ فرماتے ہیں کہ ’’خدا تعالیٰ نے مجھے بار بار بذریعہ الہامات کے یہی فرمایا ہے کہ جو کچھ ہو گا دعا ہی کے ذریعہ سے ہو گا۔ ہمارا ہتھیار تو دعا ہی ہے اور اس کے سوائے اور کوئی ہتھیار میرے پاس نہیں۔‘‘فرمایا’’ جب ہماری دعائیںایک نقطے پر پہنچ جائیں گی تو جھوٹے خود بخود تباہ ہو جائیں گے‘‘۔

(ملفوظات جلد 9 صفحہ 27-28)

آپ نے کئی مواقع پر افراد جماعت کو بار بار تاکید فرمائی کہ تقویٰ پر قائم ہو۔ خدا تعالیٰ سے تعلق پیدا کرو۔ دعاؤں کی طرف توجہ کرو۔ پس یہ وہ بنیادی چیز ہے جسے ہمیں ہر وقت سامنے رکھنا چاہئے۔ دعاؤں کے معیار بلند کرنے اور دعاؤں کی طرف بہت زیادہ توجہ کی بہت ضرورت ہے۔

پس کسی احمدی کے دل میں کبھی یہ خیال نہیں آنا چاہئے کہ ان دنیاداروں کی طرف سے دی جانے والی تکالیف کا ہمیں دنیاوی طریق سے جواب دینا چاہئے۔ اگر ہم کبھی بھی یہ طریق اختیار کریں گے تو اس تعلیم کے خلاف چل رہے ہوں گے جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں دی ہے اور نہ صرف اس تعلیم کے خلاف چل رہے ہوں گے بلکہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے بھی محروم ہو رہے ہوں گے اور کبھی وہ نتائج حاصل نہیں کر سکتے جن کا وعدہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے ہے اور پھر اس کے علاوہ ہم بھی اس گروہ میں شامل ہو جائیں گے جو فساد پیدا کرنے والا ہے، دنیا کا امن و سکون برباد کرنے والا ہے کیونکہ بدلہ لینے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔

ہاں جیسا کہ حدیث میں دنیاوی تدبیر کے بارے میں آتا ہے کہ اونٹ کے پاؤں باندھنے کا بھی حکم ہے۔ (الجامع لشعب الایمان جزء ثانی حدیث 1161)۔ اس لئے ہم قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے دنیاوی وسائل بھی استعمال کرتے ہیں اور کرنے چاہئیں اور یہ بات اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے منشاء کے مطابق ہے لیکن سب بھروسہ اور سب توکّل ہمیں اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہے اور اس کے لئے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ جب ہماری دعائیں ایک نقطہ پر پہنچ جائیں گی تو جھوٹے خود بخود تباہ ہو جائیں گے۔ اگر ہم اپنا جائزہ لیں تو خود بخود پتہ چل جائے گا کہ کیا ہماری دعائیں اس نقطے پر یا اس کے قریب پہنچ رہی ہیں جو انقلاب لانے کا ذریعہ بنتی ہیں اور جس کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر فرمایا ہے جو میںنے ابھی تلاوت کی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مضطر کی دعا قبول کرتا ہوں اور ہم اس کا ترجمہ یہ کرتے ہیں جو پڑھا گیا کہ بیقرار کی دعا قبول کرتا ہوں۔

بہت سے لوگ کہہ دیتے ہیں کہ ہم بڑی بیقراری سے دعا کرتے ہیں لیکن وہ نتیجے نہیں نکل رہے جو نکلنے چاہئیں تو کیا ایسے لوگوں کی بات کو ہم سچ قرار دیں۔ یقیناً لوگوں کی باتیں غلط ہیں اور اللہ تعالیٰ کا کلام سچا ہے۔ پس اس بات کی تلاش کرنی ہو گی کہ کس طرح مُضْطر بننے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے ہمیںدیکھنا ہو گا کہ مضطر کے معنی کیا ہیں۔

مُضطر وہ ہے جو اپنے چاروں طرف مشکلات ہی مشکلات دیکھتا ہے اور کوئی دنیاوی اور مادی راستہ اسے ان مشکلات سے نکلنے کا نظر نہیں آتا اور ایسے میں صرف اسے ایک راستہ دکھائی دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف جانے کا راستہ ہے۔ اسے یہ یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ کے پاس جانے سے ہی مجھے پناہ ملے گی اور کوئی ذریعہ پناہ کا باقی نہیں رہا۔ گویا مُضطر وہ ہے جس کے سب سامان کٹ جائیں، سب وسیلے ختم ہو جائیں اور کوئی وسیلہ نہ رہے۔ اس یقین سے اور اس بیقراری سے انسان دعائیں کرے۔ پھر اللہ تعالیٰ بھی اپنی بات پوری فرماتا ہے کہ وہ تکالیف اور مشکلات دور کر دیتا ہے۔ اور پھر یہ بھی شرط ہے کہ مستقل مزاجی سے اللہ تعالیٰ کے ساتھ چمٹا رہے۔ اس کیفیت اور حالت میں جب کہ صرف خدا تعالیٰ کی ذات کے علاوہ اور کچھ نظر نہ آئے، یہ خیال نہ آئے کہ دنیاوی طریقے ہمیں بچا سکتے ہیں یا جیسا مخالف ہم سے کرتا ہے ہم بھی دنیاوی طریقے استعمال کر کے ویسا ہی کریں۔ نہیں۔ بلکہ ایسے حالات میں خدا تعالیٰ کو ہی ملجا اور ماوی سمجھیں۔ اس حالت کی دعا کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح بیان فرمایا ہے کہ لَا مَلْجَأَ وَلَا مَنْجَأَ مِنْکَ اِلَّا اِلَیْکَ۔

(صحیح البخاری کتاب الدعوات باب ما یقول اذا نام حدیث 6313)

اس دعا کا تشریحی ترجمہ حضرت مصلح موعودؓ نے اس طرح کیا ہے۔ بڑا خوبصورت ترجمہ ہے کہ’’ اے خدا … تیرے عذاب اور تیری طرف سے آنے والے ابتلاؤں سے کوئی پناہ کی جگہ نہیں، … سوائے اس کے کہ میں سب طرف سے مایوس ہو کر اور آنکھیں بند کر کے تیری طرف آ جاؤں ۔تو لَامَلْجَأَ وَلَا مَنْجَأَوالی جو حالت ہے یہی اضطرار کی کیفیت ہے۔‘‘

(خطبات محمود جلد 23 صفحہ 71 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مورخہ 10 اپریل 1942ء)

جب خدا تعالیٰ نے اس آیت میں یہ کہا ہے کہاَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ۔ تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ ایسے شخص کی دعا جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو ملجا اور ماویٰ نہیں سمجھتا اور اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو اپنا منجا ٔ قرار نہیں دیتا اس کو کسی اور ذریعہ سے نجات نہیں مل سکتی تو پھر وہ دعا ضرور سنی جاتی ہے۔

پس صرف رونے گڑگڑانے کا نام اضطرار نہیں اور نہ صرف رونا دعا کی قبولیت کی شرط ہے بلکہ پورا توکّل اور آسرا اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہونا اور اس کے لئے اضطراری کیفیت قبولیت کی شرط ہے۔ اللہ تعالیٰ کی رأفت اور رحمت کو جوش میں لانا ضروری ہے۔ حدیث میں جو آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو میری طرف ایک قدم بڑھاتا ہے اس کی طرف دو قدم بڑھاتا ہوں اور جو میری طرف چل کر آتا ہے مَیں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔

(صحیح البخاری کتاب التوحید باب قول اللہ تعالیٰ ایحذرکم اللہ نفسہ حدیث 7405)

تو اس کے لئے وہ کیفیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور مستقل دعاؤں کی ضرورت ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی رحمت و رأفت کو جوش میں لایا جائے اور وہ ہماری طرف دوڑ کر آئے۔ اگر ہماری یہ حالت ہو جائے گی تو نہ سیاستدان ہمارا کچھ بگاڑ سکتے ہیں نہ نام نہاد علماء، نہ سرکاری افسران جو ہم پرپاکستان میں خاص طور پر اور بعض دوسرے ملکوں میں بھی بعض جگہ مشکلات کھڑی کرتے ہیں یا تنگ کرتے ہیں یا ہم پر زمین تنگ کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام دعا کی قبولیت کے مضمون کو بیان فرماتے ہوئے ایک جگہ فرماتے ہیں کہ :

’’وہ وہی قادر خدا ہے جو بے قراروںکی دعا سنتا ہے اور امیدواروں کو نااُمید نہیں کرتا اور جو شخص اس کی پناہ چاہتا ہے اس کو ضائع نہیں کرتا۔ اسی کو حمد اور جلال اور عظمت ہے۔ اور اس کے نشانوں پر نظر ڈال کر حیرت دامنگیر ہوتی ہے اور آنکھیں چشم پُرآب ہو جاتی ہیں‘‘۔

(نجم الہدیٰ، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 142)

پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں :

’’یاد رکھو کہ خدا بڑا بے نیاز ہے۔ جب تک کثرت سے اور بار بار اضطراب سے دعا نہیں کی جاتی وہ پروا نہیں کرتا۔ دیکھو کسی کی بیوی یا بچہ بیمار ہو یا کسی پر سخت مقدمہ آجاوے تو ان باتوں کے واسطے اس کو کیسا اضطراب ہوتا ہے۔ پس دعا میں بھی جب تک سچی تڑپ اور حالت اضطراب پیدا نہ ہو تب تک وہ بالکل بے اثر اور بیہودہ کام ہے۔ قبولیت کے واسطے اضطراب شرط ہے۔ جیسا کہ فرمایا اَمَّنْ یُّجِیْبُ الْمُضْطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکْشِفُ السُّوْٓءَ۔‘‘

(الحکم جلد 12 نمبر 16 مورخہ 29فروری 1908ء صفحہ 5)

پھر آپؑ نے فرمایا کہ’’ جب انسان اخلاص اور توحید اور محبت اور صدق اور صفا کے قدم سے دعا کرتا کرتا فنا کی حالت تک پہنچ جاتا ہے تب وہ زندہ خدا اس پر ظاہر ہوتا ہے جو لوگوں سے پوشیدہ ہے۔ دعا کی ضرورت نہ صرف اس وجہ سے ہے کہ ہم اپنے دنیوی مطالب کو پاویں بلکہ کوئی انسان بغیر ان قدرتی نشانوں کے ظاہر ہونے کے جو دعا کے بعد ظاہر ہوتے ہیں اُس سچے ذوالجلال خدا کو پا ہی نہیں سکتا جس سے بہت سے دل دور پڑے ہوئے ہیں۔‘‘

(ایام الصلح، روحانی خزائن جلد 14 صفحہ 239)

پس یہ ہے اللہ تعالیٰ کے قبولیت دعا کے بارے میں ارشاد کی حقیقت اور یہ ہے دعاؤں کی قبولیت کے لئے اپنی حالت کو بنانے کا طریق جسے ہمیں مستقلاً اختیار کرنے اور اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔

الٰہی جماعتوں پر امتحان، مشکلات اور مصائب کے دَور آتے ہیں لیکن یہ بھی اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ دعاؤں سے اس کیفیت سے مومنوںکو نکالتا ہے اور نہ صرف نکالتا ہے اور تکالیف دور کرتا ہے بلکہ زمین کا وارث بھی بناتا ہے۔ پس ہمیں اللہ تعالیٰ کے قرب کے تلاش کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایمان و ایقان میں ترقی کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے آپ کو مضطر بنانے کی ضرورت ہے اور جتنی جلدی من حیث الجماعت ہم اپنی یہ حالت بنائیں گے اتنی جلد ہی دشمن کو ختم ہوتے اور ہوا میں اڑتے دیکھیں گے۔

بعض دن اور ماحول بعض چیزوں کے لئے سازگار ہوتے ہیں۔ آج کل جلسہ کے یہ دن بھی ہمیں اس طرف توجہ دلانے والے ہونے چاہئیں اور عملی طور پر بھی ہمیں اپنی حالتوں میں یہ کیفیت پیدا کرنے والے ہونے چاہئیں کہ ان دنوں میں خاص طور پر ہر بڑا چھوٹا مرد عورت دعاؤں کی طرف توجہ دیں۔ اپنا وقت فضول باتوں میں ضائع کرنے کے بجائے دعاؤں میں وقت گزاریں۔ نمازوں اور نوافل کے علاوہ چلتے پھرتے ذکر الٰہی کی طرف توجہ دیں۔ قرآنی دعاؤں کی طرف توجہ دیں۔ مسنون دعاؤں اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کا ورد کرتے رہیں۔ ایک اضطراب اور اضطرار کی کیفیت اپنے اندر پیدا کریں تا کہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جلد سے جلد اور پہلے سے بڑھ کر اترتا دیکھیں۔ دشمن کو تو اپنی طاقت اور اپنی اکثریت اور اپنی حکومت پر گھمنڈ ہے لیکن ہم ان حالات میں خالص ہو کر صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو اپنا ملجا و ماویٰ بنائیں۔

اس وقت میں بعض دعائیں آپ کے سامنے رکھوں گا جن کو یہ یاد ہیں وہ علاوہ اور دعاؤں کے ان کو بھی سامنے رکھیں۔ اسی طرح باقی افراد بھی، عورتیں بھی، مرد بھی، زیادہ وقت جو بھی دعائیں یاد ہیں انہیں دل میں پڑھتے رہیں۔ ذکر الٰہی کرتے رہیں اور درود شریف بھی ان دنوں میںبہت پڑھیں۔ جماعت کے خلاف جو دشمنی ہے وہ تو ہے ہی، آج کل پھر اس کے علاوہ بھی اس سے بھی بڑے صدمے کی جو بات ہے وہ یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق نازیبا الفاظ استعمال کئے جا رہے ہیں اور استہزاء کیا جا رہا ہے اور ایسی حرکتیں کی جا رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان مخالفین کے شر ان پر الٹائے۔ اس کے لئے درود شریف بھی بہت زیادہ پڑھیں۔ تو بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا اس وقت مَیں بعض دعائیں ان کی مختصر وضاحت کے ساتھ آپ کے سامنے رکھوں گا تا کہ ان دعاؤں کا کچھ اِدراک بھی ہو اور صرف منہ ہی سے نہ پڑھ رہے ہوں بلکہ ان کو پڑھتے ہوئے اضطرار اور اضطراب بھی پیدا ہو۔ یہ پیدا کرنے کے لئے ان دعاؤں کے مطالب اور معانی بھی سامنے ہونے چاہئیں۔

دعاؤں کی قبولیت کے لئے جو سب سے ضروری چیز ہے وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود کا بھیجا جانا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو دعا تم مجھ پر درود بھیجے بغیر کرتے ہو وہ زمین اور آسمان کے درمیان معلق ہو جاتی ہے، وہیں رک جاتی ہے۔

(تفسیر ابن کثیر جزء 6 سورہ الاحزاب زیر آیت 56)

پس عرش کو ہلانے کے لئے، اللہ تعالیٰ کی محبت کو، اس کی رحمت کو، اس کی رأفت کو جوش میں لانے کے لئے دعاؤں میں سب سے زیادہ ضروری دعا درود شریف ہے جس کا ورد کرتے رہنا چاہئے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا حکم تو خود اللہ تعالیٰ نے ہی ہمیں دیا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ۔ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔ (الاحزاب57:)یقیناً اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تم بھی اس پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ پس یہ اللہ تعالیٰ کا بھی حکم ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا جائے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک موقع پر فرمایا کہ’’ درود شریف کے فضائل اور تاثیرات اس قدر ہیں کہ بیان سے باہر ہیں۔ اس کا عامل نہ صرف ثوابِ عظیم کا مستحق ہوتا ہے بلکہ دنیا میں بھی معزز اور مؤقر ہوتا ہے‘‘۔

(سیرت المہدی جلد 2 حصہ چہارم روایت نمبر 1083)

پھر آپ نے درود شریف کی اہمیت اور اس کے پڑھنے کے طریق اور اس کی برکات اور اس کی روح کے بارے میں اپنے ایک خط میں جو میر عباس علی شاہ صاحب کو لکھا تھا یہ نصیحت فرمائی کہ

’’ آپ درود شریف کے پڑھنے میں بہت ہی متوجہ رہیں اور جیسا کوئی اپنے پیارے کے لئے فی الحقیقت برکت چاہتا ہے ایسے ہی ذوق اور اخلاص سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لئے برکت چاہیں اور بہت ہی تضرع سے چاہیں اور اُس تضرع اور دعا میں کچھ بناوٹ نہ ہوبلکہ چاہئے کہ حضرت نبی کریم( صلی اللہ علیہ وسلم )سے سچی دوستی اور محبت ہو اور فی الحقیقت روح کی سچائی سے وہ برکتیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مانگی جائیں کہ جو درود شریف میں مذکور ہیں۔ اگرچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی دوسرے کی دعا کی حاجت نہیں لیکن اس میں ایک نہایت عمیق بھید ہے۔ جو شخص ذاتی محبت سے کسی کے لئے رحمت اور برکت چاہتا ہے وہ بباعث علاقہ ذاتی محبت کے اُس شخص کے وجود کی ایک جز ہو جاتا ہے ۔ اور چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر فیضان حضرت احدیّت کے بے انتہا ہیں (سب سے زیادہ جو اللہ تعالیٰ کے فیضان ہیں وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پہ ہیں) اس لئے درود بھیجنے والوں کو کہ جو ذاتی محبت سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے برکت چاہتے ہیں بے انتہا برکتوں سے بقدر اپنے جوش کے حصہ ملتاہے۔ مگر بغیر روحانی جوش اور ذاتی محبت کے یہ فیضان بہت ہی کم ظاہر ہوتا ہے اور ذاتی محبت کی یہ نشانی ہے کہ انسان کبھی نہ تھکے اور نہ کبھی ملول ہو اور نہ اغراض نفسانی کا دخل ہو اور محض اسی غرض کے لئے پڑھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر خداوند کریم کے برکات ظاہرہوں۔( دنیاوی فوائد اٹھانے کے لئے درود شریف نہیں پڑھنا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود و برکات بھیجنے کے لئے درود شریف پڑھنا ہے۔) دوسرے اَورَاد بھی بدستور محفوظ رکھیں۔‘‘ (یعنی کہ دوسری دعائیں بھی پڑھتے رہیں۔)

(مکتوبات احمد جلد 1 صفحہ 534-535مکتوب نمبر 18 بنام میر عباس علی شاہ سن شائع شدہ 2008ء )

کون سا درود شریف پڑھنا چاہئے؟ اور کیسی کیفیت اس کے لئے پیدا ہونی چاہئے؟ اس کی وضاحت فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام یہ فرماتے ہیں:

’’درود شریف وہی بہتر ہے کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا ہے اور وہ یہ ہے کہ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلیٰ اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔اَللّٰھُمَّ بِارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاھِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاھِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔‘‘

فرماتے ہیں’’ غرض سب اقسام درود شریف سے یہی درود شریف زیادہ مبارک ہے۔ یہی اس عاجز کا ورد ہے اور کسی تعداد کی پابندی ضرور نہیں۔ اخلاص اور محبت اور حضور اور تضرع سے پڑھنا چاہئے اور اس وقت تک ضرور پڑھتے رہیں کہ جب تک ایک حالت رقّت اور بے خودی اور تاثر کی پیدا ہو جائے اور سینہ میں انشراح اور ذوق پایا جائے۔‘‘

(مکتوبات احمد جلد 1 صفحہ 526مکتوب نمبر 13 بنام میر عباس علی شاہ)

پس دلی جوش اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانوں کو یاد کر کے درود شریف پڑھا جائے تبھی رقت اور بے خودی پیدا ہو گی اور تبھی مضطر والی حالت پیدا ہو گی۔

درود شریف میں جو ایک دفعہاَللّٰھُمَّ صَلِّ اور دوسری دفعہاَللّٰھُمَّ بِارِکْ کے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ان کی حکمت اور گہرائی کی حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک موقع پر بڑی خوبصورت وضاحت فرمائی اور اگر یہ معنی سمجھ آ جائیں تو یہ سامنے رکھتے ہوئے مزید گہرائی سے درود شریف پڑھنے کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے۔

آپ نے ایک خطبہ میں بیان فرمایا تھا کہ’’ درود شریف سب مسلمان پڑھتے ہیں مگر اس کا اصل مفہوم اکثر نہیں سمجھتے۔ ان کو معلوم نہیں کہ ان کے درود پڑھنے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا فائدہ پہنچتا ہے اور ان کے اپنے ایمان کو کیا فائدہ ہوسکتا ہے۔( یعنی پڑھنے والے کے ایمان کو کیا فائدہ پہنچتا ہے یا ہو سکتا ہے) ایک بچہ روپے، ہیرے، جواہر کی قدر نہیں کرے گا مگر روٹی کے ٹکڑے کو منہ میں ڈال لے گا‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’اس وقت میں درود کے ظاہری الفاظ کو لے کر ان کی خوبی سناتا ہوں۔ درود میںصَلِّ پہلے رکھا ہے اور بَارِکْ بعد میں۔ مسلمانوں کو شاذ ہی خیال آیا ہو گا کہصَلِّ پہلے کیوں اور بَارِکْ بعد میں کیوں ہے اور اس ترتیب میں خوبی کیا ہے؟ جو شخص غور کرے گا اور علم سے اس پر نگاہ ڈالے گا اس پر اس کی حقیقت ظاہر ہو جاوے گی۔ عربی میں صلوٰۃ کے معنی دعا کے ہیں۔اَللّٰھُمَّ صَلِّ کے معنی ہوئے اے اللہ تو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے دعا کر۔ اب دعا دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک وہ شخص دعا کرتا ہے جس کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔ وہ دوسرے سے التجا کرتا ہے۔ جیسے ماں باپ یا دوست سے مدد طلب کرنا۔ اور دوسرے اس شخص کی دعا ہوتی ہے جس کا اپنا اختیار ہوتا ہے۔ اس کے معنی ہیں کہ وہ خود عطا کردیتا ہے‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’خدا تعالیٰ بادشاہ ہے…‘‘۔ یہاں جو فرمایا کہ اے اللہ تُو دعا کر تو ’’…خداتعالیٰ بادشاہ ہے۔ کبھی مانتا ہے کبھی نہیں۔ خدا تعالیٰ کی دعا کے معنی ہیں کہ وہ ہوا، پانی، زمین، پہاڑ غرضیکہ سب مخلوق کو کہتا ہے کہ میرے بندے کی تائید کرو۔ پساَللّٰھُمَّ صَلِّ کے یہ معنی ہوئے کہ اے اللہ تُو ہر ایک نیکی اور بھلائی اپنے رسول کے لئے چاہ۔ ایک ہی دفعہ کا پڑھا ہوا درود اگر قبول ہو جاوے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ ورنہ انسان جو دعا خود تجویز کرے گا‘‘ وہ کامل دعا نہیں ہو سکتی بلکہ اس میں نقص ہو گا۔ وہ ناقص ہو گی۔ ’’بندہ اپنی عقل سے جو چاہے گا وہ ضرور ناقص ہوگا۔ اس لئے بندہ خدا تعالیٰ سے کہتاہے کہ تُو چاہ۔ کیونکہ تیرا علم کامل ہے۔

بَارِکْ بَرَکَ سے نکلا ہے اس کے معنی اکٹھا ہونا، جمع ہونا ہیں۔ اس لئے بِرْکَۃ تالاب کو کہتے ہیں جہاں پانی جمع ہوتا ہے۔ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ کے معنی ہوئے اے اللہ تُو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اپنی رحمتیں، فضل اور انعامات جو تو نے ان پر کئے ہیں ان کو اتنا بڑھا کہ سارے جہاں کی رحمتیں اور برکتیں ان پر اکٹھی ہو جاویں۔ (پس)صَلِّ بطور بیج کے ہے اور بَارِکْ اس سے بڑھ کر ترقی ہے۔‘‘ ۔ (خطبات محمود جلد 7 صفحہ 77-78خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مورخہ 22 جولائی 1921ء)۔یعنی جو اللہ تعالیٰ نے چاہا جو نیکی اور بھلائی اور ترقی کا بیج ہے اس پر اب ایسے پھل لگتے چلے جائیں کہ یہ سلسلہ کبھی ختم نہ ہو۔

اس طرح بھی اس کو سمجھا جا سکتا ہے اور اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ کی دعاکا یہ معنی بھی ہے کہ اے اللہ! تُو اس دنیا میں محمدؐ کا ذکر بلند کر کے اور ان کے پیغام کو کامیابی اور غلبہ عطا فرما کر اور ان کی شریعت کے لئے بقا اور ہمیشگی مقرر کر کے عظمت عطا فرما۔ جبکہ آخرت میں ان کی اُمّت کے حق میں شفاعت کو قبول فرما کر اور ان کے اجر و ثواب کو کئی گنا بڑھا کر دینے کے ذریعہ سے انہیں عظمت سے ہمکنار فرما۔ اسی طرح اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ کے معنی یہ ہیں کہ اے اللہ تو نے جو بھی عزت و عظمت اور عظیم شان اور بزرگی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مقدر فرمائی ہوئی ہے اس کو ان کے لئے قائم فرما اور اسے ہمیشگی اور دوام بخش۔

یہ ترتیب ہے جو نہایت اعلیٰ ہے اور بالکل کامل ہے۔ پس اس حقیقت کو سمجھ کر جب ہم درود پڑھیں گے تو ان دعاؤں اور برکات سے ہمیں بھی حصہ ملتا رہے گا اور جب اللہ تعالیٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ درود پہنچائے گا تو آپ کی دعائیں بھی ہمیں پہنچیں گی۔ آج دشمن آپ کے خلاف دریدہ دہنی کر رہا ہے تو یہی اس کا حقیقی جواب ہے کہ زیادہ سے زیادہ درود پڑھا جائے۔

اب مَیں بعض اور دعائیں بھی آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ بعض دعائیں اکثر لوگوں کو یاد ہوں گی اس لئے آسانی سے ان کا ورد بھی کر سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دعا سکھائی ہے اور اللہ تعالیٰ نے جب دعا سکھائی ہے تو اس لئے کہ جب مومن کے دل سے یہ دعا نکلے تو انہیں قبول بھی فرمائے۔ قرآنی دعا یہ ہے کہ رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ (آل عمران 9:) اے ہمارے رب! ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ ہونے دے بعد اس کے کہ تُو ہمیں ہدایت دے چکا ہے اور ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر۔ یقیناً تو ہی ہے جو بہت عطا کرنے والا ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ کی صفت وَھّاب کا ذکر ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ وہ ہے جو انسان کی حالت اور عمل کے مطابق دیتا ہے اور جو بے انتہا دینے والا ہے اور اعلیٰ رنگ میںدینے والاہے۔ یہ بڑی ضروری اور اہم دعا سکھائی گئی ہے۔ اس میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اکثر ہوتا ہے کہ لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی نعمت اور فضل عطا ہوتے ہیں لیکن وہی انسان کی اپنی کمزوریوں اور بدقسمتی سے اس کے لئے ٹھوکر اور بگاڑ کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ وہ لوگ خدا تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت کا غلط استعمال کرنے لگ جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کو غلط معنی پہناتے ہیں اور نتیجۃً اپنی تباہی کے سامان کر لیتے ہیں۔ جس طرح بعض پہلے مذاہب کے لوگوں کے ساتھ ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ہوشیار کیا ہے کہ ایسی غلطیوں سے بچنے کی کوشش بھی کریں اور اللہ تعالیٰ سے دعا بھی کریں کہ اللہ تعالیٰ انہیں ایسی غلطیاں کرنے سے بچائے۔

اس دعا میں ایک لحاظ سے یہ پیشگوئی بھی ہے کہ مسلمانوں کا ایسی باتوں کی طرف رجحان اور میلان ہو جائے گا کہ چھوٹی چھوٹی باتوں اور مسائل کو لے کر وہ اس انتہا پر چلے جائیں گے کہ اصل اور واضح تعلیم کو بھلا دیں گے۔

روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مستقل اس دعا کو پڑھا کرتے تھے (سنن الترمذی کتاب الدعوات باب یا مقلب القلوب حدیث 3522) اور آپ کے اس دعا کے پڑھنے کا مطلب ہی یہ تھا کہ آپ صحابہ سے بھی یہ امید رکھتے تھے کہ وہ یہ دعا پڑھا کریں۔ یقیناً اس سے بڑھ کر کوئی بدقسمتی نہیں کہ کوئی شخص ہدایت پائے اور پھر اپنے صحیح راستے سے بھٹک جائے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا حاصل کرنے والا بن کر اس کی ناراضگی کا مورد بن جائے۔ بدقسمتی سے آجکل ہم مسلمانوں میں اکثریت میں یہ حالت دیکھتے ہیں کہ چھوٹے اور فروعی مسائل اور باتوں نے انہیں واضح اور حقیقی تعلیم سے دور کر دیا اور اس پر آجکل کے نام نہاد علماء مزید کام کر رہے ہیں کہ فرقہ بندیوں بلکہ فرقہ در فرقہ بندیوں نے دلوں کو پھاڑ دیا ہے جس کا نتیجہ ہم آج دیکھ رہے ہیں کہ مسلمان مسلمان کے خون کا پیاسا ہے۔ بے رحمانہ طور پر معصوموں اور بچوں کو قتل کیاجا رہا ہے۔ ان کا خون کیا جا رہا ہے۔ وہ تمام افضال اور نعمتیں جو مسلمانوں کا خاصہ تھیں ان سے محروم ہیں اور انہی باتوں نے ان لوگوں کواللہ تعالیٰ کی طرف سے بھیجے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام کو ماننے سے بھی محروم رکھا ہوا ہے۔

پس احمدیوں کو خاص طورپر یہ دعا کرنی چاہئے کہ حالات کی مشکل کی وجہ سے کہیں کسی کا دل ٹیڑھا نہ ہو جائے اور ٹیڑھا ہو کر پھر ان برکات سے محروم نہ ہو جائے جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے مقدر کی ہوئی ہیں۔

اس دعا اور آیت کے حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے حضرت صاحبزادہ عبداللطیف شہید صاحبؓ کا ایک واقعہ بیان فرمایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’کابل کے علماء امیر کے حکم سے مولوی صاحب کے ساتھ بحث کرنے کے لئے جمع ہوئے تھے۔ مولوی صاحب نے ان کو فرمایا کہ تمہارے دو خدا ہیں کیونکہ تم امیر سے ایسا ڈرتے ہو جیسا کہ خدا تعالیٰ سے ڈرنا چاہئے مگر میرا ایک خدا ہے اس لئے میں امیر سے نہیں ڈرتا۔ اور جب گھر میں تھے اور ابھی گرفتار نہیں ہوئے تھے اور نہ اس واقعہ کی کچھ خبر تھی اپنے دونوں ہاتھوں کو مخاطب کر کے (صاحبزادہ صاحب نے) فرمایا کہ اے میرے ہاتھو! کیا تم ہتھکڑیوں کی برداشت کرلو گے۔ ان کے گھر کے لوگوں نے پوچھا کہ یہ کیا بات آپ کے منہ سے نکلی ہے؟ تب فرمایا کہ نماز عصر کے بعد تمہیں معلوم ہو گا کہ یہ کیا بات ہے۔ تب نماز عصر کے بعد حاکم کے سپاہی آئے اور گرفتار کر لیا اور گھر کے لوگوں کو انہوں نے (صاحبزادہ صاحب نے) نصیحت کی کہ میں جاتا ہوں اور دیکھو ایسا نہ ہو کہ تم کوئی دوسری راہ اختیار کرو۔ جس ایمان اور عقیدے پرمَیں ہوں چاہئے کہ وہی تمہارا ایمان اور عقیدہ ہو۔ اور گرفتاری کے بعد راہ میں چلتے وقت کہا کہ میں اس مجمع کا نوشاہ ہوں۔ بحث کے وقت علماء نے پوچھا کہ تو اس قادیانی شخص کے حق میں کیا کہتا ہے جو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے؟ تو مولوی صاحب نے جواب دیا کہ ہم نے اس شخص کو دیکھا ہے اور اس کے امور میں بہت غور کی ہے۔ اس کی مانند زمین پر کوئی موجود نہیں اور بیشک اور بلا شبہ وہ مسیح موعود ہے اور وہ مُردوں کو زندہ کر رہا ہے۔ تب مُلّانوں نے شور کر کے کہا کہ وہ کافر اور تُو بھی کافر ہے اور ان کو امیر کی طرف سے بحالت نہ توبہ کرنے کے سنگسار کرنے کے لئے دھمکی دی گئی اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اب میں مروں گا تب یہ آیت پڑھی۔رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةً اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ (آل عمران 9:)۔‘‘ پھر آپ نے اسی کا ترجمہ فرمایا کہ ’’یعنی اے ہمارے خدا ہمارے دل کو لغزش سے بچا اور بعد اس کے جو تُو نے ہدایت دی ہمیں پھسلنے سے محفوظ رکھ اور اپنے پاس سے ہمیں رحمت عنایت کر کیونکہ ہر ایک رحمت کوتُو ہی بخشتا ہے۔ ‘‘

(علامات المقربین روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 126-127)

پس ایمان کی مضبوطی اور حالات کا مقابلہ کرنے اور اللہ تعالیٰ کے انعاموں کا وارث بننے کے لئے یہ دعا بہت ضروری ہے۔ یہ تو ایمان پر قائم رہنے کا ایک انتہائی اعلیٰ معیار تھا جو حضرت صاحبزادہ صاحبؓ نے دکھایا لیکن بعض دفعہ چھوٹے معاملات بھی ایسے آ جاتے ہیں جب انسان کا ایمان ڈانواں ڈول ہو جاتا ہے اس لئے ایسے حالات سے بچنے اور ان کا مقابلہ کرنے کے لئے یہ دعا بہت ضروری ہے۔

گناہوں سے بخشش، ثابت قدم رہنے اور کافر قوم کے خلاف مدد اور نصرت کے لئے اللہ تعالیٰ نے یہ دعا سکھائی ہے۔

پھر ایک دعا ہے کہ رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیْٓ اَمْرِنَا وَثَبِّتْ اَقْدَامَنَا وَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ۔(آل عمران148:)اے ہمارے رب! ہمارے گناہ بخش دے اور اپنے معاملہ میں ہماری زیادتی بھی اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور ہمیں کافر قوم کے خلاف نصرت عطا کر۔

اس دعا کی وضاحت فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک جگہ فرماتے ہیں:
’’سورۃ آل عمران میں خدا تعالیٰ نے اپنے بندوں کو یہ دعا سکھلائی ہے اور وہ یہ ہے: رَبَّنَا اغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَاِسْرَافَنَا فِیْٓ اَمْرِنَا۔ یعنی اے ہمارے خدا ہمارے گناہ بخش اور جو اپنے کاموں میں ہم حد سے گزر جاتے ہیں وہ بھی معاف فرما۔ پس ظاہر ہے کہ اگر خدا گناہ بخشنے والا نہ ہوتا تو ایسی دعا ہرگز نہ سکھلاتا۔ ‘‘

(چشمہ معرفت روحانی خزائن جلد 23 صفحہ 25)

انسان کمزوریوں کا پُتلا ہے۔ بہت سے معاملات میں کمزوریاں بلکہ گناہ سرزد ہو جاتے ہیں اور اس زمانے میں جب دنیا کی چمک انتہا کو پہنچی ہوئی ہے اور قدم قدم پر شیطان مورچے لگا کر بیٹھا ہوا ہے اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی مدد سے ہی انسان گناہوں سے بچ سکتا ہے۔ ذاتی برائیاں بعض دفعہ جماعتی برائیاں بن کر ترقی میں روک بن جاتی ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے گناہوں کی مغفرت اور اپنی حدود کے تجاوز کرنے کی وجہ سے ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے محروم رہنے سے بچنے کی یہ دعا سکھائی ہے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ دعا سکھلانے کا مقصد ہی یہ ہے کہ اپنی زیادتیوں اور گناہوں کا احساس ہونے پر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کریں تو اللہ تعالیٰ بخش دیتا ہے۔ لیکن اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ انسان بغیر احساس کے گناہ کرتا چلا جائے۔ پھر جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ یہ مومنین کو ایک دوسرے کے لئے دعاؤں سے مدد کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ یعنی انفرادی غلطیاں اور کمزوریاں جماعتی غلطیاں اور کمزوریاںبن کر ہمیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں سے محروم نہ کر دیں اور کافر اور مخالفین ہم پر زیادتیوں میں بڑھتے نہ چلے جائیں۔بلکہ ہم مِن حیث الجماعت تجھ سے مانگتے ہیں کہ ہماری ذاتی کمزوریوں اور گناہوں کو بھی بخش دے اور جماعتی کمزوریوں اور زیادتیوں کو بھی معاف فرما اور دشمن کے خلاف ہماری مدد فرما۔

پھر اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک دعا سکھائی جو استغفار کرنے، اللہ تعالیٰ سے بخشش مانگنے اور رحم مانگنے کے لئے ہے اور وہ دعا ہے: رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۔ (الاعراف24:) کہ اے ہمارے ربّ ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اور اگر تُو نے ہمیں معاف نہ کیا اور ہم پر رحم نہ کیا تو یقیناً ہم گھاٹا کھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

اس آیت کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ :

’’بہت لوگ ہیں کہ خدا پر شکوہ کرتے ہیں اور اپنے نفس کو نہیں دیکھتے۔ انسان کے اپنے نفس کے ہی ظلم ہوتے ہیں ورنہ اللہ تعالیٰ رحیم اور کریم ہے۔ بعض آدمی ایسے ہیں کہ ان کو گناہ کی خبر ہوتی ہے اور بعض ایسے کہ ان کو گناہ کی خبر بھی نہیں ہوتی۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے استغفار کا التزام کرایا ہے کہ انسان ہر ایک گناہ کے لئے خواہ وہ ظاہر کا ہو خواہ باطن کا، خواہ اسے علم ہو یا نہ ہو اور ہاتھ اور پاؤں اور زبان اور ناک اور کان اور آنکھ اور سب قسم کے گناہوں سے استغفار کرتا رہے۔‘‘ آپ فرماتے ہیں ’’آجکل آدم علیہ السلام کی دعا پڑھنی چاہئے۔ رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۔(الاعراف24:)‘‘ آپ فرماتے ہیں کہ ’’یہ دعا اوّل ہی قبول ہو چکی ہے۔‘‘

(البدر جلد 1 نمبر 9 مورخہ 26 دسمبر 1902ء صفحہ 66)

آج کل جس قدر شیطان کے حملے ہیں اس کی انتہا کوئی نہیں نظر آتی۔ ہر طرف سے دائیں بائیں آگے پیچھے سے شیطان حملے کر رہا ہے اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ انسان کا ہر عضو شیطان کے حملوں کی زد پر ہے۔ پس ایسے حالات میں استغفار کی بہت ضرورت ہے اور ہمارے سپرد جو کام ہوا ہے اس کے لئے تو قدم قدم پر اور لمحہ لمحہ اللہ تعالیٰ کی مدد کی ضرورت ہے۔ دنیا کی رہنمائی، دجال کے حملوں سے بچنے اور اس پر غالب آنے کے لئے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی خاص مدد ہی کام آسکتی ہے جس کے لئے ہمیں اپنی حالتوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سے بخشش اور رحم طلب کرنے کی ضرورت ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :

’’دعا ایسی شے ہے کہ جب آدم کا شیطان سے جنگ ہوا تو اُس وقت سوائے دعا کے اور کوئی حربہ کام نہ آیا۔ آخر شیطان پر آدمؑ نے فتح بذریعہ دعا کے پائی۔ رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۔(الاعراف24:)اور آخر میں بھی دجّال کے مارنے کے واسطے دعا ہی رکھی ہے۔ گویا اوّل بھی دعا اور آخر بھی دعا ہی دعا ہے۔ حالت موجودہ بھی یہی چاہتی ہے۔ تمام اسلامی طاقتیں کمزور ہیں اور ان موجودہ اسلحہ سے وہ کیا کام کر سکتی ہیں۔ اب اس کفر وغیرہ پر غالب آنے کے واسطے اسلحہ کی ضرورت بھی نہیں، آسمانی حربہ کی ضرورت ہے۔ ‘‘

(البدر جلد 2 نمبر 10 مورخہ 27 مارچ 1903ء صفحہ 77)

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس دعا کے پڑھنے کی طرف بھی بہت توجہ دلائی ہے کہ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّفِي الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ(البقرة 202:)اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی حسنہ عطا کر اور آخرت میں بھی حسنہ عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :

’’توبہ انسان کے واسطے کوئی زائد یا بے فائدہ چیز نہیں ہے اور اس کا اثر صرف قیامت پر ہی منحصر نہیں بلکہ اس سے انسان کی دنیا اور دین دونوں سنور جاتے ہیں اور اُسے اس جہان میں اور آنے والے جہان دونوں میں آرام اور خوشحالی نصیب ہوتی ہے۔ دیکھو قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّ فِي الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرة 202:) اے ہمارے ربّ ہمیں اس دنیا میں بھی آرام اور آسائش کے سامان عطا فرما اور آنے والے جہان میں بھی آرام اور راحت عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔‘‘ آپ فرماتے ہیں:’’ دیکھو دراصل رَبَّنَآ کے لفظ میں توبہ ہی کی طرف ایک باریک اشارہ ہے کیونکہ رَبَّنَآ کا لفظ چاہتا ہے کہ وہ بعض اور ربّوں کو جو اُس نے پہلے بنائے ہوئے تھے اُن سے بیزار ہو کر اس ربّ کی طرف آیا ہے اور یہ لفظ حقیقی درد اور گداز کے سوا انسان کے دل سے نکل ہی نہیں سکتا۔ ‘‘

پس جب رَبَّنَآ کہتے ہیں تو دل سے نکلنا چاہئے یہ سوچنا بھی چاہئے کہ سب ربّ چھوڑ دئیے۔ ایک ہی ربّ کے پاس میں آیا ہوں۔ آپ فرماتے ہیں:’’ رَبّ کہتے ہیں بتدریج کمال کو پہنچانے والے اور پرورش کرنے والے کو۔ اصل میں انسان نے بہت سے ارباب بنائے ہوئے ہوتے ہیں۔ اپنے حیلوں اور دغابازیوں پر اسے پورا بھروسہ ہوتا ہے تو وہی اس کے ربّ ہوتے ہیں ۔اگر اسے اپنے علم کا یا قوّت بازو کا گھمنڈ ہے تو وہی اس کے ربّ ہیں۔ اگر اسے اپنے حسن یا مال و دولت پر فخر ہے تو وہی اس کا ربّ ہے۔ غرض اس طرح کے ہزاروں اسباب اس کے ساتھ لگے ہوئے ہیں۔ جب تک ان سب کو ترک کر کے ان سے بیزار ہو کراس واحد لاشریک سچے اور حقیقی ربّ کے آگے سر نیاز نہ جھکائے اور رَبَّنَآ کی پُردرد اور دل کو پگھلانے والی آوازوں سے اس کے آستانہ پر نہ گرے تب تک وہ حقیقی ربّ کو نہیں سمجھا۔ پس جب ایسی دلسوزی اور جان گدازی سے اس کے حضور اپنے گناہوں کا اقرار کر کے توبہ کرتا اور اسے مخاطب کرتا ہے کہ رَبَّنَآ یعنی اصلی اور حقیقی ربّ تو تُو ہی تھا مگر ہم اپنی غلطی سے دوسری جگہ بہکتے پھرتے رہے۔ اب میں نے ان جھوٹے بتوں اور باطل معبودوںکو ترک کر دیا ہے اور صدق دل سے تیری ربوبیت کا اقرار کرتا ہوں۔ تیرے آستانہ پر آتا ہوں ۔‘‘

پھر آپ فرماتے ہیں ’’ایسے لوگ جن کو اپنی ہی حیلہ بازیوں پر اعتماد اور بھروسہ ہو تا ہے ان کو خدا سے استعانت اور دعا کر نے کی کیا حاجت ہے؟‘‘ فرماتے ہیں ’’دعا کی حا جت تو اسی کو ہو تی ہے جس کے سا رے راہ بند ہوں اور کو ئی راہ سوائے اس در کے نہ ہو۔ اسی کے دل سے دعا نکلتی ہے۔ غرض رَبَّنَآ اٰتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً۔ ایسی دعا کرنا صرف انہی لوگو ں کا کام ہے جو خداہی کو اپنا ربّ جان چکے ہیں اور ان کو یقین ہے کہ اُن کے ربّ کے سامنے اَور سارے ارباب باطلہ ہیچ ہیں‘‘۔فرمایا’’ آگ سے مراد صرف وہی آگ نہیں جو قیا مت کو ہو گی بلکہ دنیا میں بھی جو شخص ایک لمبی عمر پاتا ہے وہ دیکھ لیتا ہے کہ دنیا میں بھی ہزاروں طرح کی آگ ہے۔ تجربہ کار جانتے ہیں کہ قسم قسم کی آگ دنیا میں مو جود ہے۔ طرح طرح کے عذاب، خوف، حزن، فقرو فاقے، امراض، ناکامیاں، ذلّت وادبار کے اندیشے، ہزاروں قسم کے دکھ اولاد بیوی وغیر ہ کے متعلق تکالیف اور رشتہ داروں کے ساتھ معاملات میں الجھن۔ غرض یہ سب آگ ہیں۔ تو مومن دعا کرتا ہے کہ ساری قسم کی آگوں سے ہمیں بچا۔ جب ہم نے تیرا دامن پکڑا ہے تو ان سب عوارض سے جو انسانی زندگی کو تلخ کرنے والے ہیں اور انسان کے لئے بمنزلہ آگ ہیں بچائے رکھ۔

(ملفوظات جلد 5 صفحہ187 تا 190)

ان قرآنی دعاؤں کے علاوہ دو اور دعاؤں کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ یہ عموماً لوگوں کو یاد بھی ہیں۔ ان میں سے ایک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بتائی ہوئی دعا ہے اور دوسری حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعا دشمن کے شر سے بچنے کے لئے اور کامیابیوں کے لئے۔

جو دعا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سکھائی وہ یہ ہے۔ اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ۔حدیث میں آتا ہے ابوبردہ بن عبداللہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کسی قوم کی طرف سے کوئی خطرہ محسوس ہوتا تو آپ یہ دعا پڑھتے۔اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ۔ اے اللہ ہم تجھے ان کے سینوں میں ڈالتے ہیں اور ان کی شرارتوں سے تیری پناہ طلب کرتے ہیں۔

(سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب ما یقول الرجل اذا خاف قوما حدیث 1537)

آجکل خاص طور پر بعض ملکوں میں، جیسا کہ پہلے بھی مَیں نے کہا، جماعت کو خطرات کا پہلے سے زیادہ سامنا ہے۔ حکومت بھی اور عدلیہ بھی اور نام نہاد علماء بھی ہمارے خلاف ہیں اور ہر ذریعہ نقصان پہنچانے کا اپنے اختیارات کے تحت استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ پس ایسے حالات میں ہمارے لئے کوئی راستہ نہیں سوائے اس کے کہ پہلے سے بڑھ کر خدا تعالیٰ کے آگے جھکیں اور دشمن کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے، اس کے ختم ہونے کے لئے دعائیں کریں۔ نوافل میں بھی اور چلتے پھرتے بھی دعائیں کریں۔ ہمارے پاس کوئی ہتھیار نہیں ہے، کوئی طاقت نہیں ہے لیکن یہ دعا جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھائی ہے یقیناً یہ دشمن کے شر ان پر الٹا کر ان کو ختم کرنے کی طاقت رکھتی ہے بشرطیکہ سچے دل کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ پر کامل یقین رکھتے ہوئے ہم یہ دعا کریں۔ یقیناً ہماری دعائیں پھر دنیا کے لئے عبرت کا موجب بن جائیں گی۔دنیا عبرت حاصل کرنے والی ہو گی۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بھی ایک دعا ہے جس کے بارے میں آپ نے فرمایا کہ مجھے یہ دعا القاء ہوئی ہے یعنی رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ۔ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ ۔

آپ اس کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’رات کو میری ایسی حالت تھی کہ اگر خدا تعالیٰ کی وحی نہ ہوتی تو میرے اس خیال میں کوئی شک نہ تھا کہ میرا آخری وقت ہے۔ ایسی حالت میں میری آنکھ لگ گئی تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک جگہ پر مَیں ہوں اور وہ کوچہ سربستہ سا معلوم ہوتا ہے کہ تین بھینسے آئے ہیں۔ ایک اُن میں سے میری طرف آیا تو مَیں نے اسے مار کر ہٹا دیا۔ پھر دوسرا آیا تو اسے بھی ہٹا دیا۔ پھر تیسرا آیا اور وہ ایسا پُرزور معلوم ہوتا تھا کہ میں نے خیال کیا کہ اب اس سے مفر نہیں۔( اس سے نہیں بچا جا سکتا) خدا تعالیٰ کی قدرت کہ مجھے اندیشہ ہوا تو اس نے (یعنی بیل نے) اپنا منہ ایک طرف پھیر لیا۔ مَیں نے اُس وقت غنیمت سمجھا کہ اس کے ساتھ رگڑ کر نکل جاؤں۔ میں وہاں سے بھاگا اور بھاگتے ہوئے خیال آیا کہ وہ بھی میرے پیچھے بھاگے گا۔ مگر مَیں نے پھر کر نہ دیکھا۔ ( مڑ کر نہ دیکھا) اس وقت خواب میں خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے دل پر مندرجہ ذیل دعا القاء کی گئی۔ رَبِّ کُلُّ شَیْئٍ خَادِمُکَ۔ رَبِّ فَاحْفَظْنِیْ وَانْصُرْنِیْ وَارْحَمْنِیْ ۔ (یعنی اے میرے ربّ پس مجھے محفوظ رکھ اور میری مدد فرما اور مجھ پر رحم فرما) اور میرے دل میں ڈالا گیا کہ یہ اسم اعظم ہے اور یہ وہ کلمات ہیں کہ جو اسے پڑھے گا ہر ایک آفت سے نجات ہو گی‘‘۔ آپ فرماتے ہیں کہ’’ ایک آریہ میرے پاس دوا لینے آیا کرتا ہے۔ میں نے اسے یہ خواب سنا ئی تو اس نے کہا کہ مجھے بھی لکھ دو۔ میں نے لکھ دیا اور اس نے یاد کر لیا۔‘‘ اخبارمیں لکھنے والے نے لکھا ہے، رپورٹ دینے والے نے اس موقع کی بات لکھی ہے کہ ’’مغرب کی نماز پڑھ کر حضرت اقدس تشریف لے گئے اور کوئی ایک گھنٹے بعد مسجد میں تشریف لائے۔ فرمایا کہ آج جو خواب میں الہام سے کلمات بتلائے گئے ہیں میں نے ارادہ کیا ہے کہ اُن کو نماز میں دعا کے طور پر پڑھا جائے اور میں نے خود تو پڑھنے شروع کر دئیے ہیں ۔‘‘

(ملفوظات جلد 4 صفحہ 264-265)۔ اور جماعت کو بھی کہا کہ آپ پڑھیں۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’یہ دعا ایک حرز اور تعویذ ہے… ‘‘ پھر’’میں اس دعا کو اب التزاماً ہر نماز میں پڑھا کروں گا۔ آپ بھی پڑھا کریں۔

فرمایا کہ اس میں بڑی بات جو سچی توحید سکھاتی (ہے) یعنی اللہ جلّ شانہٗ کو ہی ضارّ اور نافع یقین دلاتی ہے، یہ ہے کہ اس میں سکھایا گیا ہے کہ ہر شےتیری خادم ہے یعنی کوئی موذی اور مضر شےتیرے ارادے اور اِذن کے بغیر کچھ بھی نقصان نہیں کر سکتی۔‘‘

(الحکم جلد 6 نمبر 44 مورخہ 10 دسمبر 1902ء صفحہ 10)

دعاؤں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ :

’’یاد رکھو رحمانیت کا خاصہ یہی ہے کہ وہ رحیمیت سے فیض اٹھانے کے قابل بنادے اس لئے خداتعالیٰ نے جو اُدْعُوْنِیْ اَسْتَجِبْ لَکُمْ فرمایا یہ نری لفاظی نہیں ہے بلکہ انسانی شرف اسی کا متقاضی ہے۔ مانگنا انسانی خاصہ ہے اور استجابت اللہ تعالیٰ کا جو نہیں مانتا وہ ظالم ہے۔ دعا ایک ایسی سرور بخش کیفیت ہے کہ مجھے افسوس ہوتاہے کہ میں کن الفاظ میں اس لذت اور سرور کو دنیا کو سمجھائوں۔ یہ تو محسوس کرنے ہی سے پتہ لگے گا۔ مختصر یہ کہ دعا کے لوازمات سے اول ضرور ی یہ ہے کہ اعمالِ صالحہ اور اعتقاد پیدا کریں کیونکہ جو شخص اپنے اعتقادات کو درست نہیں کرتا اور اعمال صالحہ سے کام نہیں لیتا او ردعا کرتا ہے وہ گویا خداتعالیٰ کی آزمائش کرتا ہے۔‘‘ فرمایا کہ’’ بات یہ ہے کہاِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی دعا میں یہ مقصود ہے کہ ہمارے اعمال کو اکمل اور اتم ّکر اور پھر یہ کہہ کر کہ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْاور بھی صراحت کردی کہ ہم اس صراط کی ہدایت چاہتے ہیں جو منعم علیہ گروہ کی راہ ہے اور مغضوب گروہ کی راہ سے بچا جن پر بداعمالیوں کی وجہ سے عذاب الٰہی آگیا اور اَلضَّالِّیْن کہہ کر یہ دعا تعلیم کی کہ اس سے بھی محفوظ رکھ کہ تیری حمایت کے بدوں بھٹکتے پھریں۔‘‘

(الحکم جلد 5 نمبر 33 مورخہ 10 ستمبر 1901ء صفحہ 1-2)

آپ فرماتے ہیں:’’ بہت سے لوگ دعا کو ایک معمولی چیز سمجھتے ہیں۔ سویادرکھنا چاہئے کہ دعا یہی نہیں کہ معمولی طور پر نماز پڑھ کر ہا تھ اٹھا کر بیٹھ گئے اور جو کچھ آیا منہ سے کہہ دیا۔ اس دعا سے کو ئی فائدہ نہیں ہو تا کیو نکہ یہ دعا نِری ایک منتر کی طرح ہو تی ہے۔( کہ منتر پڑھ لیا کوئی دل سے نہ نکلی آواز)نہ اس میں دل شریک ہو تا ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کی قدرتوں اور طاقتوں پر کو ئی ایمان ہوتا ہے۔

یادرکھو دعا ایک موت ہے اور جیسے موت کے وقت اضطراب اور بے قراری ہو تی ہے اسی طرح پر دعا کے لئے بھی ویسا ہی اضطراب اور جوش ہونا ضروری ہے۔ اس لئے دعا کے واسطے پورا پورا اضطراب اور گداز ش جب تک نہ ہو تو بات نہیں بنتی۔ پس چاہئے کہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر نہایت تضرع اور زاری وابتہال کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور اپنی مشکلات کو پیش کرے اور اس دعا کو اس حد تک پہنچاوے کہ ایک موت کی سی صورت واقع ہو جاوے۔ اس وقت دعا قبولیت کے درجہ تک پہنچتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 6 صفحہ 406)

اللہ تعالیٰ ہمیں دعاؤں کو ان کا حق ادا کرتے ہوئے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ان تین دنوں میں خاص طور پر جیسا کہ میں نے کہا اور پھر ہمیشہ دعاؤں کی طرف خاص توجہ دیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی پناہ میں لے لے۔ ہمیں دین پر قائم رکھے۔ ہمارے ایمانوں کو مضبوط کرے اور جماعت کی ترقیات کے نظارے ہمیں پہلے سے بڑھ کر دکھاتا چلا جائے۔ دشمن کے ہر منصوبے کو خاک میں ملا دے۔ اب دعا کر لیں۔ (دعا)

… … … … … … … …

ایک بات مَیں اَور کہنا چاہتا ہوں۔ دوپہر کو جمعہ کے خطبہ میں مَیں نے کہا تھا کہ یہاں آجکل زمینوں پہ خشک گھاس کی وجہ سے آگ کی کسی قسم کی چیز استعمال نہیں کرنی چاہئے۔ اور جو سگریٹ پینے والے جو ہیں وہ بھی خاص طور پر احتیاط کریں اور حدیقۃ المہدی کے حدود میں نہ پیئیں۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ باہر جا کے پیئیں۔ اب اردگرد ہمسایوں کی بھی زمینوں پہ وہی حالت ہے اور وہاں کوئی انتظام بھی نہیں ہے اس لئے ہمسائے کا بھی حق ہے۔ اس لئے کوشش یہی کریں کہ اگر کسی میں یہ برائی ہے تو ان تین دنوں میں اس برائی کو چھوڑنے کی بھی کوشش کریں اور کہیں میری بات سے یہ لائسنس نہ لے لیں کہ حدیقۃ المہدی میں نہیں پینا باہر جا کر جیسے مرضی پیتے رہیں۔ باہر ہمسایوں کی گراؤنڈز میں جا کے ان کے فارم پہ جا کے بالکل استعمال نہیں کرنا خاص طور پہ احتیاط کریں۔

السلام علیکم ورحمۃ اللہ
٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button