خطاب حضور انور

جلسہ سالانہ جرمنی 2018ء کے موقع پر امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا مستورات سے خطاب

(امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بںصرہ العزیز)

جلسہ سالانہ جرمنی 2018ء کے موقع پر امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا مستورات سے خطاب فرمودہ08؍ستمبر 2018ء بروز ہفتہ بمقام کالسروئے جرمنی

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ
وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

آج کی دنیا میں عموماً مذہب کی طرف زیادہ توجہ نہیں ہے نہ مذہب کی تاریخ جاننے کی طرف زیادہ توجہ ہے۔ عموماً یہ خیال کیا جاتا ہے کہ مذہبی دنیا میں یا مذہب کی تاریخ میں صرف مرد کی اہمیت ہے اور عورت کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی اور اس کو بعض اسلام مخالف لوگ یا مذہب مخالف لوگ زیادہ ہوا دیتے ہیں۔ خاص طور پر اسلام پر تو یہ اعتراض بار بار اٹھایا جاتا ہے کہ عورت ایک ثانوی حیثیت رکھتی ہے اور جو بھی اس کا کردار ہو یا اس کی قربانیاں ہوں ان کو مردوں سے کم درجہ پر رکھا جاتا ہے۔ مرد کے کردار اور کام کی ہمیشہ تعریف کی جاتی ہے اور عورت کے کردار اور کام کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی۔

لیکن جب ہم اس بات کا جائزہ لیں کہ کیا مذہب اور خاص طور پر اسلام عورت کی دین کے لئے خدمات، عورت کے دین کی ترقی کے لئے کردار، عورت کی دین کی خاطر قربانی کو مَردوں کی خدمات، ان کے کردار، ان کی خدمات سے کم سمجھتا ہے یا اسلام میں کم سمجھا جاتا ہے یا کم اہمیت دی جاتی ہے تو جواب نفی میںملے گا اور ہر علم رکھنے والی عورت یہ جانتی ہے۔

ایک مسلمان سب سے زیادہ تاریخی، واقعاتی اور علمی حقائق کے لئے جس چیز پر یا جس گواہی پر ایمان اور یقین رکھتا ہے یا اس کو ایمان اور یقین کی حد تک مانتا ہے وہ قرآن کریم ہے اور اس میں بیان کردہ واقعات و حقائق ہیں۔ اور قرآن کریم سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ مذہب کی تاریخ میں عورت کا بڑا مقام ہے اور عورت کے قابل تعریف کاموں کی اللہ تعالیٰ نے گواہی دی ہے اور بیان فرمایا ہے اور انہی قابل تعریف اور اہم کاموں کی وجہ سے عورت کو ان انعامات میں حصہ دار بنایا گیا ہے جن کاموں کی وجہ سے مرد اس کے اجر کے حق دار ٹھہرائے گئے ہیں یا نوازے گئے ہیں۔

پھر قرآن کریم کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ہیں اور آپ کی ہدایات عورت کی اہمیت اور اس کے تاریخی کردار پر روشنی ڈالتے ہیں۔

پھر جماعت احمدیہ مسلمہ میں تو اسلام اور احمدیت کی تاریخ بھی اس بات پر گواہ ہے اور اس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ عورت کے کردار اور قربانیوں کا کیا اہم مقام ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح مرد کی قربانیوں اور دین کی خاطر اہم کردار کو مذہب کی تاریخ اور خاص طور پر اسلام میں محفوظ کیا ہے وہاں عورت کی قربانیوں اور کردار کو بھی کم نہیں سمجھا اور محفوظ رکھا ہے۔ بلکہ ہم جائزہ لیں تو مذہب اسلام کی تو ابتدا ہی عورت کی قربانیوں سے شروع ہوتی ہے۔

جیسا کہ ہر مسلمان جانتا ہے کہ اسلام کی بنیاد اللہ تعالیٰ نے حضرت اسماعیل علیہ السلام سے رکھی اور اس بنیاد میں عورت کا حصہ شامل کیا گیا۔ قرآن کریم میں بھی یہ ذکر ہے اور حدیث میں بھی یہ تفصیل سے آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو رؤیا دکھایا کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پہلے اور کئی سال تک اکلوتے بیٹے تھے۔ حضرت اسحاق علیہ السلام تو کئی سال کے بعد پیدا ہوئے ہیں۔ بہرحال حضرت اسماعیل علیہ السلام ابھی چند سال کے ہی تھے جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ خواب دیکھی اور اسماعیل علیہ السلام کو سنائی کہ میں نے اس طرح دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں۔ وہ زمانہ تھا کہ جب لوگ بتوں کو خوش کرنے کے لئے انسانوںکی قربانیاں بھی کیا کرتے تھے اور خصوصاً بیٹوں کو ذبح کرنا ایک بہت بڑی قربانی سمجھا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خیال آیا کہ انسانی جان کو بتوں پر قربان کرنے کا رواج تو ہے تو اس خواب کا مطلب ہے کہ میں بھی اس رواج کے مطابق اپنے بیٹے کو خدا تعالیٰ کی خاطر قربان کروں اور یہی اللہ تعالیٰ مجھ سے چاہتا ہے، یہ ان کو خیال آیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب حضرت اسماعیل علیہ السلام سے ذکر کیا تو جیسا کہ قرآن کریم میں بھی آتا ہے حضرت اسماعیل علیہ السلام نے جواب دیا کہ آپ اپنی رؤیا کو پورا کریں مجھے انشاء اللہ اس پر صبر کرنے والا پائیں گے۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کو باہر جنگل میں لے گئے اور الٹا لِٹا دیا تا کہ ان کی تکلیف دیکھ کر ان کا کہیں یہ کام کرنے سے، ذبح کرنے سے ہاتھ نہ رک جائے۔ لیکن اس وقت جب آپ ذبح کرنے لگے تو قرآن کریم میں بھی آتا ہے اللہ تعالیٰ نے آپ کو الہاماً فرمایا کہ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا۔ یعنی جب تُو اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے تیار ہو گیا ہے تو تُو نے اپنی خواب پوری کر دی ہے اور یہ عمل صاف ظاہر کرتا ہے کہ تُو عملاً اپنے بیٹے کو ذبح کر سکتا ہے مگر اب تُو نے اسے ذبح نہیں کرنا اور اللہ تعالیٰ نے فرما دیا کہ آج سے انسانوں کو ذبح کرنے کا رواج ختم کیا جاتا ہے اور یہ طریق درست نہیں ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی خاطر قربانیوں کے نئے طریق رائج ہوں گے جو اس قربانی سے بہت بلند ہیں اور مستقل قربانی کرتے چلے جانے والے طریق ہیں۔ چنانچہ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو دوبارہ الہاماً فرمایا کہ حضرت ہاجرہ اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مکہ کے مقام پر لے جائیں اور وہاں چھوڑ آئیں۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو مکہ کے مقام پر لے گئے۔ اس وقت وہاں میلوں تک کوئی آبادی نہیں تھی۔ آپ اپنے ساتھ پانی کا ایک مشکیزہ اور کھجوروں کا ایک تھیلا لے کے گئے تھے۔ ان دونوں ماں بیٹے کے پاس وہ پانی اور کھجوروں کی تھیلی رکھ دی اور انہیں وہیں چھوڑ کر واپس چل پڑے۔ یہاں سے پھر اس مستقل قربانی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے ایک انسانی جان کی قربانی ختم کر کے شروع کروائی تھی۔ دراصل رؤیا میں اسی قربانی کا ذکر تھا، نہ کہ چھری پھیرنے والی قربانی، کہ ایسی جگہ چھوڑ آؤ جہاں نہ کھانے کو روٹی ملے، نہ پینے کو پانی ملے۔ گویا یہ تمہاری طرف سے ایک طرح سے ذبح کرنا ہی ہے۔ بہرحال جب حضرت ابراہیم علیہ السلام واپسی کے لئے مڑے تو بیوی اور بیٹے کی محبت کی وجہ سے چند قدم جا کر مڑ کر دیکھنے لگے۔ پھر چل پڑتے پھر رک کر دیکھنے لگتے۔ جب چند بار اس طرح مڑ کر دیکھتے رہے تو حضرت ہاجرہ جو بڑی فراست رکھنے والی خاتون تھیں انہیں خیال پیدا ہوا کہ آپ کسی معمولی کام کے لئے نہیں جا رہے۔ ہمیں یہاں چھوڑ کر یا اِدھر اُدھر کوئی جگہ دیکھنے، تلاش کرنے نہیں جا رہے بلکہ ضرور کوئی بات ہے کوئی راز ہے جو آپ ہم سے چھپا رہے ہیں۔ حضرت ہاجرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پیچھے گئیں اور کہا کہ آپ ہمیں یہاں اکیلے چھوڑ کر جارہے ہیں۔ انہوں نے اس کا کوئی جواب نہ دیا۔ حضرت ہاجرہ کچھ دُور تک آپ کے پیچھے جا کر یہی پوچھتی رہیں لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام کوئی جواب نہیں دیتے تھے۔ حضرت ہاجرہ سمجھ گئیں کہ جذبات اور دل کے درد کی وجہ سے کوئی جواب نہیں دے رہے۔ آخر حضرت ہاجرہ نے کہا کہ اے ابراہیم! آپ کس کے حکم سے ہمیں یہاں چھوڑ کرجارہے ہیں؟ حضرت ابراہیم جذبات کی وجہ سے کچھ بول تو نہ سکے البتہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر اشارہ کر دیا۔ اس پر حضرت ہاجرہ نے کہا کہ اگر آپ ہمیں یہاں خدا تعالیٰ کے حکم سے چھوڑ کر جا رہے ہیں تو فکر کی کوئی بات نہیں۔ اگر خدا تعالیٰ نے کہا ہے تو وہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔ اور یہ کہہ کر واپس چلی گئیں۔یہ ان کا ایمان کا معیار تھا۔ آخر وہ تھوڑا سا پانی اور کھجوریں چند دنوں میں ختم ہو گئیں۔ جب کھانے پینے کا سامان ختم ہو گیا تو حضرت اسماعیل علیہ السلام جب بھی کبھی پانی مانگتے یا کھانا مانگتے تو وہ کہاں سے دیتیں۔ میلوں تک آبادی کوئی نہیں تھی، نہ کوئی انتظام ہوسکتا تھا۔ آخر حضرت اسماعیل علیہ السلام پیاس اور بھوک کی وجہ سے بیہوش ہونا شروع ہو گئے۔ ہوش آتی تو پھر پانی مانگتے۔ پھر غشی طاری ہو جاتی۔ ماں بیٹے کی حالت دیکھ کر گھبرا کر قریب جو دو ٹیلے تھے صفا اور مروہ وہاں جاتیں اور ادھر پانی یا کسی گزرنے والے قافلے کو تلاش کرتیں۔ پہلے صفا پر چڑھ جاتیں وہاں سے کچھ نظر نہ آتا تو مَروہ پر دوڑ کر چڑھتیں۔ دوڑ کر چڑھنے کی وجہ ایک یہ بھی تھی کہ دو ٹیلوں کے درمیان جو نیچی جگہ تھی وہاں سے حضرت اسماعیل علیہ السلام نظر نہ آتے تھے۔ بے چین ہو کر اوپر چڑھتیں تا کہ بچے پر بھی نظر پڑتی رہے۔ جب آپ سات چکر لگا چکیں تو فرشتے کی آواز آئی کہ ہاجرہ جا اپنے بچے کے پاس اللہ تعالیٰ نے پانی کا انتظام کر دیا ہے۔ چنانچہ جب آپ بچے کے پاس پہنچیں تو دیکھا جہاں بچہ تڑپ رہا تھا وہاں پانی کا چشمہ پھوٹ پڑا اس طرح وہاں پانی کی وجہ سے پھر قافلے ٹھہرنے شروع ہو گئے اور مکہ کی بنیاد پڑی۔

(صحیح البخاری کتاب احادیث الانبیاء باب یزفون۔ النسلان فی المشی حدیث 3364)

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کی دوبارہ بنیادیں رکھیں تو یہ دعا کی کہ اے خدا اس شہر کے رہنے والوں اور میری اولاد میں سے ایسا نبی مبعوث فرما جو انہیں تیری آیات پڑھ کر سنائے۔ تیری کتاب سکھائے۔ اس کی حکمتیں بیان کرے اور ان کے دلوں کا تزکیہ کرے۔ انہیں پاک کرے ۔ یعنی مکہ کی جو بنیاد رکھی گئی وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے لئے تھی اور اس میں مرد اور عورت دونوں شامل تھے۔ حضرت ہاجرہ اگر اللہ تعالیٰ پر توکّل نہ کرتیں اور بچے کے ساتھ قربانی کے لئے تیار نہ ہوتیں تو انہیں کبھی وہ مقام نہ ملتا جو آج ہر مسلمان کے دل میںآپ کا ہے۔

پھر قرآن کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا ذکر ملتا ہے۔ ان کو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ ان کے ہاں ایک بچہ پیدا ہو گا۔ فرعون کیونکہ تم لوگوں کا دشمن ہے وہ اسے مارنے کا ارادہ کرے گا۔ اس لئے جب وہ پیدا ہو تو ایک ٹوکرے میں رکھ کر اسے دریا میں ڈال دینا اور جو نیکی اور تقویٰ اور خدا تعالیٰ کی ذات پر حضرت موسیٰ کی والدہ کو توکّل تھا اس وجہ سے انہوں نے ایسا ہی کیا اور یہ پروا نہ کی کہ دریا میں میرا بچہ ڈوب بھی سکتا ہے۔ یہ ٹوکرا جنگلوں میں پتہ نہیں کہاں کہاں جا سکتا ہے۔ کسی جانور کے ہتھے چڑھ سکتا ہے۔ فرعون سے تو شاید بچے کو بچانے کی کوئی ترکیب ہو سکتی تھی دریا میں تو کوئی امکان نہیں تھا۔ لیکن کامل توکّل تھا اللہ تعالیٰ کی ذات پر اس لئے فوری تعمیل کی۔ یہ ایسا جرأت والا قدم ہے جو شاید کروڑوں میں ایک عورت بھی نہ کر سکے کہ صرف ایک خواب کی وجہ سے بچے کو دریا میں ڈال دیا بلکہ نسلوں میں بھی شاید ایک ایسا شخص پیدا ہو جو یہ قربانی کر سکے۔ لیکن انہوں نے کی اور اسی سے پھر حضرت موسیٰ بچے۔

پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ضمن میں ہی ایک اور عورت کی قربانی کا ذکر ملتا ہے جو فرعون کی بیوی تھی جس نے پھر فرعون کو کسی طرح قائل کر کے اس دریا میں بہتے ہوئے بچے کو پرورش کے لئے لے لیا۔ فرعون کی بیوی بھی ہر وقت یہ دعا کرنے والی تھی کہ اے اللہ تُو شرک کی ظلمت کو دور کر دے اور سچائی کو دنیا میں قائم کر دے۔ اب دیکھیں کہ بادشاہ کی بیوی ہے ہر قسم کے آرام اور آسائش میں رہنے والی ہے۔ اور پھر فرعون جیسے شخص کے ساتھ رہنے والی ہے جو اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے مقابل پر کھڑا کرتا تھا۔ لیکن فطرت کی نیکی اور جرأت اور اللہ تعالیٰ سے تعلق نے ایسے حالات کے باوجود ان میں سب چیزوں کو ٹھکرا کر خدائے واحد کی حکومت قائم کرنے کا درد پیدا کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بھی اس عمل کو سراہا اور ایسا مقام عطا کیا کہ قرآن کریم میں اس کا ذکر کر دیا۔ اب یہ دونوں عورتیں بھی ایک مذہب کی بنیاد رکھنے میں کردار ادا کرنے والی تھیں۔

پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے بھی بڑی قربانیاں کیں۔ اپنے بیٹے کو صلیب پر لٹکتے دیکھا اور بڑی جرأت سے یہ نظارہ دیکھا۔ شاید ہی کوئی ماں ہو، کوئی عورت ہو جو یہ نظارہ اس طرح دیکھ سکے اور قربانی کے لئے تیار ہو۔ غرض کہ مذہب کی تاریخ نے عورت کے مقام اور قربانیوں کو محفوظ کیا ہے۔

پھر اسلام کی تاریخ میں ہم مزید یہ دیکھتے ہیں کہ حضرت خدیجہؓ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی وحی سے لے کر جب آپؐ نے دعویٰ کیا اور آپؐ کی مخالفت شروع ہوئی تیرہ سال تک شدید تکالیف میں آپؐ کا ساتھ دیا۔ ایک امیر ترین عورت جس نے نہ صرف اپنی تمام دولت اپنے خاوند کے سپرد کر دی بلکہ شعب ابی طالب میں سخت ترین حالات میں بھوکی پیاسی رہ کر قربانی کرتی رہیں اور یہ قربانی قریباً اڑھائی تین سال تک جاری رہی۔ اسی طرح اَور مسلمان عورتیں بھی اس دور میں تکلیف اور پریشانیوں سے گزری ہیں جن کی قربانیوں کو تاریخ نے محفوظ کیا ہے۔

پھر اگر علم و معرفت کی باتوں کا ذکر ہو تو یہ نہیں کہ عورت کو جاہل بنا دیا اور صرف مردوں کو ہی علم و معرفت کا سمجھنے والا سمجھا جاتا ہے۔ اسلام کی تاریخ نے عورت کی علم و معرفت کی باتوں کو بھی محفوظ کیا ہے۔ مثلاً آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی نے دین کا علم سیکھنا ہے تو نصف دین عائشہؓ سے سیکھو۔ (مرقاۃ المفاتیح جلد 11 صفحہ 338 حدیث 6194 کتاب المناقب باب مناقب ازواج النبیؐ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2001ء) یعنی میں نے اس کی ایسی تربیت کر دی ہے۔ اس میں ایسی صلاحیتیں پیدا ہو چکی ہیں کہ دین کے مسائل اور خاص طور پر عورتوں کے مسائل عائشہؓ سے سیکھو۔ چنانچہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ بہت ساری روایات عورتوں کے مسائل کے بارے میں بھی حضرت عائشہؓ سے ہمیں ملتی ہیں اور مردوں کی تربیت بھی حضرت عائشہ ؓنے کی ہے۔

قرآن کریم کو دیکھ لیں ہر جگہ مسائل کے بیان احکامات اور انعامات میں عورت اور مرد دونوں کا ذکر ہے۔ اگر مرد کی نیکی کا ذکر ہے تو عورت کو بھی نیک کہا گیا ہے۔ مرد کی عبادت کا ذکر ہے تو عورت کو بھی عبادت کرنے والی کہا گیا ہے۔ جنت میں مرد جائیں گے تو عورتیں بھی جائیں گی۔ جنت میں مرد اعلیٰ مقام حاصل کریں گے تو عورتیں بھی کریں گی۔ اگر کسی نیک مرد کی وجہ سے اس کی بیوی کم نیکی کے باوجود جنت میں جا سکتی ہے تو کسی اعلیٰ قسم کی نیکیاں کرنے والی عورت کی وجہ سے اس سے کم نیکی کرنے والا مرد بھی، خاوند بھی اس کی وجہ سے جنت میں جا سکتا ہے۔ حقیقت میں جنت میں اگر اعلیٰ مقام پر مرد اپنی نیکیوں کی وجہ سے ہوں گے جیسا کہ میں نے کہا تو اسی اعلیٰ مقام پر عورتیںبھی ہوں گی۔

پھر یہ بھی روایت ملتی ہے کہ ایک عورت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ مرد ہم سے زیادہ خدا تعالیٰ کے مقرب ہیں کہ وہ جہاد میں شامل ہوں اور ہم نہ ہوں۔ آپؐ نے فرمایا ٹھیک ہے تم بھی شامل ہو جاؤ۔ آپ نے اس کو انکار نہیں کیا۔ چنانچہ جب وہ شامل ہوئیں اور اس جنگ میں مسلمانوں کی فتح ہوئی تو باوجود مردوں کے یہ کہنے کے، صحابہ کے یہ کہنے کے کہ اس نے تو جنگ میں اتنا حصہ نہیں لیا جتنا ہم نے لیا ہے اور ہم لڑے ہیں اس لئے اس کو مال غنیمت میں حصہ دینے کی ضرورت نہیں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں اس کو بھی مال غنیمت میں حصہ دیا جائے گا۔ پھر اس کے بعد یہ طریق بن گیا کہ مرد جب جہاد پر جائیں تو مرہم پٹی کے لئے عورتیں بھی ساتھ جائیں۔ غرض کہ عورتوں نے باہر نکل کر جہاد بھی کیا اور تمام خطرات کے باوجود مردوں کے ساتھ متفرق ذمہ داریاں ادا کرنے کے لئے جہاد میں جاتی بھی تھیں۔ بلکہ یہ بھی روایات میں آتا ہے کہ فنون جنگ کی بھی انہوں نے تربیت حاصل کی۔

(ماخوذ از قرونِ اولیٰ کی نامور خواتین اور صحابیات کے ایمان افروز واقعات، انوار العلوم جلد 21 صفحہ 617-618)

یہ سوچ ان کی تھی کہ خدا تعالیٰ کی خاطر ہم نے ہر قربانی کے لئے تیار ہونا ہے۔ دین کی اولین ترجیح تھی۔ دنیا کی خواہشات کی ان کے نزدیک کوئی حیثیت نہیں تھی۔ پس آج بھی اگر ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم نے اسلام کی تعلیم کو دنیا کے چپے چپے پر پھیلانا ہے تو پھر ذاتی خواہشات کی قربانیاں کرنی پڑیں گی۔ اپنے خاوندوں اور اپنے بچوں کے اندر یہ احساس پیدا کرنے ہوں گے کہ دین اوّل ہے اور خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنا سب سے اوّل ترجیح ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت سب سے اوّل ہے اور باقی محبتیں بعد میں ہیں۔

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اول اور خاوند کی محبت بعد میں کے متعلق ایک عورت کا واقعہ بھی ہمیں تاریخ میں ملتا ہے۔ تاریخ نے اسے محفوظ کیا اس لئے کہ اس قربانی کو سراہا گیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں جب یہ خبر آئی کہ روما کی فوجیں عرب پر حملہ کرنے کے لئے آ رہی ہیں۔ عرب کے مقابلہ میں روما کی اس وقت ایسی طاقت تھی جیسی آجکل امریکہ یا کسی بڑے ملک کی ایک چھوٹے سے ملک پر ہے اور یہ بڑا ملک ایک چھوٹے سے ملک پر حملہ کرنے کے لئے تیار ہو کر فوجیں لے کے آرہا ہو۔ تو بہرحال ایسی بڑی طاقت کے متعلق خبر آئی کہ وہ اپنی فوجوں کے ساتھ حملہ کرنے کے لئے آ رہے ہیں۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ بجائے اس کے کہ روما کی فوجیں ہم پر حملہ آور ہوں مناسب ہو گا کہ ان کے مقابلے کے لئے ہم باہر جائیں۔ چنانچہ آپؐ دس بارہ ہزار کی فوج لے کر روما کے لشکر کے مقابلے کے لئے نکل پڑے۔ اس کی لاکھوں کی فوج تھی لیکن آپؐ کو اللہ تعالیٰ پر توکّل تھا اس لئے دس بارہ ہزار کی فوج کو کافی سمجھا۔ اور مسلمانوں کی طاقت بھی اتنی تھی۔ اس موقع پر آپؐ نے تمام مخلص مومنین کو جنگ میں شامل ہونے کا حکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت ایک صحابی کو پہلے کہیں کام کے لئے بھیجا ہوا تھا۔ وہ وہاں مدینہ میں موجود نہیں تھے اس لئے شامل نہیں ہو سکتے تھے۔ جب وہ صحابی واپس مدینہ لوٹے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے روانہ ہو چکے تھے۔ جب وہ واپس آئے تو انہیں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر کی تفصیلات کا علم نہیں تھا۔ صرف اتنا پتہ تھا کہ آپؐ کسی مہم کے لئے روانہ ہوئے ہیں۔ بہرحال گھر پہنچے۔ اپنے گھر آکر بیوی سے محبت کا اظہار کرنے لگے تو بیوی نے انہیں پرے ہٹا دیا کہ تمہیں شرم آنی چاہئے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک خطرناک مہم کے لئے گئے ہیں اور تمہیں گھر بیٹھ کر محبت کے اظہار کی سوجھی ہوئی ہے۔ اس بات کا ان صحابی پر ایسا اثر ہوا کہ فوری طور پر گھوڑے پر سوار ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے روانہ ہوئے۔

اب یہاں خاوند کی محبت اور خدا تعالیٰ کی محبت کا مقابلہ تھا۔ ان صحابیہؓ کو بھی اپنے خاوند سے محبت ہو گی وہ صحابیات بڑی وفادار اور پیار کرنے والی بیویاں تھیں۔ لیکن جب یہ سوال آیا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم تکلیف میں ہیں اور خاوند آرام میں ہے تو برداشت نہ کر سکیں۔

(ماخوذ از قرونِ اولیٰ کی نامور خواتین اور صحابیات کے ایمان افروز واقعات، انوار العلوم جلد 21 صفحہ 623-624)

پس اپنے جذبات کو قربان کرنے، اپنی جان کو قربان کرنے، اپنی اولاد کی قربانی کرنے کے واقعات اسلام کی تاریخ میں بھرے پڑے ہیں۔ کئی واقعات مَیں خطبات جمعہ میں بھی سنا چکا ہوں کس طرح انہوں نے کہا ہمیں اپنے بچوں کی فکر نہیں، بھائیوں کی فکر نہیں ہمیں فکر ہے تو صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی فکر ہے۔

صرف بڑے اور اہم لوگوں کی مثالوں کو تاریخ نے محفوظ نہیں کیا بلکہ غریب اور بے بس لوگوں کی قربانیوں کو بھی اسلام کی تاریخ نے محفوظ کیا ہے۔ مثلاً لبینہؓ ایک صحابیہ خاتون تھیں۔ بنو عدی کی ایک لونڈی تھیں۔ اسلام لانے سے پہلے عمر انہیں اتنا مارتے تھے کہ مارتے مارتے تھک جاتے تھے اور پھر دم لے کر انہیں مارنے لگ جاتے تھے۔ حضرت لبینہ سامنے سے صرف اتنا کہتی تھیں کہ عمر اگر تم نے اسلام قبول نہ کیا تو خدا اس ظلم کو بے انتقام نہیں چھوڑے گا۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پر بھی ان کو یہ توکل تھا۔

پھر زنیرہؓ ایک خاتون تھیں بنو مخزوم کی لونڈی تھیں اور ابوجہل نے اس بے دردری سے ان کو مارا پیٹا، منہ پر بھی مارا کہ ان کی آنکھیں جاتی رہیں، نظر ختم ہو گئی۔

اسی طرح حضرت عمارؓ کی والدہ حضرت سمیہؓ جو بوڑھی تھیں ان کی ران میں اسلام دشمنی کی وجہ سے ابوجہل نے اس طرح نیزہ مارا کہ ان کے پیٹ سے باہر نکل گیا اور شہید ہو گئیں۔

(الکامل فی التاریخ جلد اوّل صفحہ 591، 589 مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت 2003ء)

غرض کہ مسلمان عورتوں کی قربانیوں کے اور بھی بے شمار واقعات ہیں۔

یہ واقعات کیوں محفوظ کئے گئے، اس لئے کہ بعد میں آنے والے اپنی تاریخ جان سکیں۔ انہیں پتہ چلے کہ خدا کی خاطر اور خدا کے دین کی عظمت کی خاطر قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور عورت اور مرد کی قربانیوں سے ہی قومیں بنا کرتی ہیں۔ صرف مرد کی قربانی سے قومیں نہیں بنتیں۔ نہ صرف عورت کی قربانی سے قومیں بنتی ہیں۔ بلکہ دونوں کو قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور اللہ تعالیٰ کے دین کی عظمت بھی دونوں کی قربانیوں کی وجہ سے قائم ہوتی ہے، دونوں کا کردار ہے۔ اور ہم احمدی تو اس لحاظ سے بھی خوش قسمت ہیں کہ اس زمانے میں جبکہ اسلام کے احیائے نو کا زمانہ ہے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو بھیجا ہے تا کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا میں پھیلائیں۔ جب آپؑ نے دعویٰ کیا تو مسلمانوں اور غیر مسلموں اور سب نے آپؑ کی مخالفت کی۔ مسلمان علماء نے آپؑ پر اور آپؑ کی جماعت پر قتل کے فتوے دئیے کہ ایک تو آپؑ نے نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے جو ہم کسی طرح ماننے کو تیار نہیں دوسرے تلوار کے جہاد کو اب اس زمانے میں غلط قرار دیا ہے۔ تو آپؑ نے بڑا واضح فرمایا کہ میرا دعویٰ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں غیر شرعی نبی ہونے کا ہے۔

(ماخوذ از ایک غلطی کا ازالہ، روحانی خزائن جلد 18 صفحہ211)

میں نے اگر نبوت کا دعویٰ کیا ہے تو آپؐ کے غلام نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ غیرشرعی نبی ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ آپؐ کی شریعت کو پھیلانے کے لئے دعویٰ کیا ہے۔ اور اسلام کی تعلیم کو دنیا میں غالب کرنے کے لئے دعویٰ ہے۔ اور خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آنے والے مسیح موعود کو نَبِیُّ اللہ کہا ہے۔

(صحیح مسلم کتاب الفتن باب ذکر الدجال حدیث 7372)

اسی طرح جہاد کا جو تصور تم پیش کرتے ہو اس کی اس زمانے میں اس لئے ضرورت نہیں ہے کہ اسلام پر حملے اب کتابوں اور لٹریچر اور دوسرے ذرائع سے ہو رہے ہیں۔ وہی ذریعہ تم استعمال کرو اور اسلام کی خوبصورت تعلیم دنیا کو بتاؤ اور یہی آنے والے مسیح موعود کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ وہ جنگوں کا خاتمہ کرے گا۔

(صحیح البخاری کتاب احادیث الانبیاء باب نزول عیسیٰ بن مریمؑ حدیث 3448)

اور جو جہاد ہے وہ اب تبلیغ سے اور لٹریچر سے اور دوسرے میڈیا کے ذرائع سے ہو گا اور اس میں مردوں کو بھی حصہ لینے کی ضرورت ہے اور عورتوں کو بھی حصہ لینے کی ضرورت ہے۔ لیکن اس بات کو نام نہاد علماء ماننے کو تیار نہیں تھے اور اس وجہ سے انہوں نے احمدیوں پر ظلم کئے۔ احمدیوں کو قربانیاں دینی پڑیں اور مردوں کے ساتھ عورتوں نے بھی جان مال کی قربانیاں دیں اور دین کی اشاعت کے لئے اپنے جذبات اپنی اولاد کی بھی قربانیاں دیں۔ اپنے مال کی بھی قربانیاں دیں تا کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے ہمیں ملی وہ دنیا میں پہنچے۔ آج مردوں کے ساتھ احمدی عورتوں کی قربانیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ دنیا کے دو سو دس سے زائد ممالک میں احمدیت اور حقیقی اسلام کا پیغام پہنچ چکا ہے۔ آج اسلام کو اگر پرامن مذہب کے نام پر کہیں دنیا میں جانا جاتا ہے تو وہ احمدیت کی وجہ سے ہے۔ پس آپ لوگ جو آج یہاں میرے سامنے بیٹھی ہیں اس بات کو یاد رکھیں کہ آپ لوگوں کا یہاں آنا بھی احمدی مردوں اور عورتوں کی قربانی کی وجہ سے ہے۔ احمدیت کا دنیا میں پھیلنا دنیا میں رہنے والی عورتوں اور مردوں کی قربانی کی وجہ سے ہے۔ خاص طور پر جن جگہوں پر جن ملکوں میں احمدیوں پر ظلم ہورہے ہیں وہاں احمدی مردوں اور عورتوں دونوں نے قربانیاں دی ہیں۔

آپ لوگوں کا یہاں آنا ان عورتوں کی قربانی اور دین کی حفاظت کی وجہ سے ہے اور اب تک یہ قربانیوں کا سلسلہ چل رہا ہے۔ بعض ایسی ایسی قربانیاں ہیں عورتوں کی کہ قرون اولیٰ کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔ بعض مثالیں مَیں عورتوں کی قربانیوں کی پیش کروں گا۔ ان قربانیوںکو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ صرف پاکستان میں ہی نہیں دنیا میں مختلف جگہوں پر یہ سلسلہ جاری ہے۔ دین کو دنیا پر مقدم کرنے اور دین کی خاطر اپنے خاندانوں اور اپنے بچوں تک کی پروا نہ کرنے تک کی مثالیں ہیں۔ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کرنے کی مثالیں ہیں۔ مثلاً ڈاکٹر نورین صاحبہ تھیں پاکستان میں جن کی عمر صرف 28 سال تھی اور ان کے خاوند ڈاکٹر شیراز 37 سال کے تھے۔ دونوں اپنی اپنی فیلڈ میں، میڈیکل کی فیلڈ میں شعبہ میں ماہر تھے۔ ملتان میں انہیں صرف اس لئے شہید کیا گیا کہ یہ دونوں امام وقت کو ماننے والے تھے۔ ظالمانہ طریق پر ان کا گلا گھونٹ کر مارا گیا۔ پھر 2010ءمیں جب دارالذکر اور ماڈل ٹاؤن میں ہماری مساجد پر حملے ہوئے ہیں، بڑی تعداد میں احمدی شہید کئے گئے تو بعض نوجوان بچے بھی اس راہ میں قربان ہوئے اور اس پر ماؤں کے ردّ عمل یہ تھے کہ ہم ہر قربانی کے لئے تیار ہیں۔ ایک ماں نے کہا کہ میں نے اپنی گود سے جواں سال بیٹا خدا کی گود میں رکھ دیا۔ ایک ماں باپ کی تین بیٹیاں تھیں اور اکلوتا بیٹا تھا جو میڈیکل کالج میں پڑھتا تھا وہ شہید ہوا تو ماں باپ نے کہا کہ ہم بھی جماعت کی خاطر قربان ہونے کے لئے تیار ہیں۔

2011ء میں لیّہ میں ایک احمدی گھر پر مخالفین نے حملہ کیا تو احمدی خاتون جن کا نام مریم خاتون تھا ان کو کسّی کے وار کر کر کے شہید کر دیا اور ظلم یہ کہ اس وقت کی انتظامیہ نے ملزمان کی مدد کی کیونکہ پاکستان میں قانون ملزموں کو احمدیوں کو قتل کرنے سے بری الذمہ قرار دیتا ہے۔ پھر صرف پاکستان کی حد تک ہی بات نہیں ۔ پاکستان میں ظلم ہو رہے ہیں تو اس کے نتیجے میں بہت سے احمدی بیرون ملک بھی چلے گئے ہیں۔ آپ لوگ بھی جیسا کہ میں نے کہا یہاں بیٹھے ہیں اور اکثر کے بہتر حالات اللہ تعالیٰ نے کر دئیے ہیں۔ پس اس بات کی شکر گزاری آپ لوگوں کو کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے بہتر حالات یہاں کر دئیے ہیں اور ان قربانی کرنے والوں کی قربانیوں کے پھل آپ کھا رہی ہیں۔ آپ کے خاوند اور آپ کے بچے کھا رہے ہیں اور اس بات کو آپ کو مزید قربانیوں میں بڑھانا چاہئے۔ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہد کو پورا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے نہ کہ دنیا کی رنگینیوں اور چکا چوند میں ڈوب جائیں، دنیامیں گم ہو جائیں اور دین کا کچھ پتہ ہی نہ ہو۔ جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ بھی یاد رکھیں کہ صرف پاکستان میں ہی مخالفین احمدیت احمدیوں پر ظلم نہیں کر رہے بلکہ دنیا میں اور جگہوں پر بھی احمدیوں پر احمدیت کی وجہ سے ظلم ہوتا ہے۔ ہاں پاکستان میں جیسا کہ میں نے کہا ملک کا قانون اور آئین ان ظلم کرنے والوں کی مدد کرتا ہے جس کی وجہ سے دین کے نام نہاد ٹھیکیدار بے لگام ہوئے ہوئے ہیں۔ لیکن میرے پاس دنیا کے دوسرے ملکوں سے بھی دین کی خاطر قربانی کرنے والوں کے حالات آتے رہتے ہیں اور ان واقعات کو بھی ہم نے اپنی تاریخ میں محفوظ رکھنا ہے تا کہ آج بھی اور آئندہ بھی احمدی اس بات کو جانیں کہ احمدیت کی ترقی میں احمدی عورتوں نے بھی بیشمار قربانیاں دی ہیں اور احمدیت کی دنیا میں ترقی میں تمام دنیا کی احمدی عورتوں کا کردار ہے۔ احمدی عورتوں نے اپنے ایمان کو بچایا۔ مخالفین کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے۔

اور ایسی قربانی کرنے والوں کی مثالوں میں ایک احمدی خاتون کا ذکر جماعت کی تاریخ میں ملتا ہے جن کا نام پھوپھی سید صاحبہ تھا۔ 1946ء میں یہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانے میں حضرت مصلح موعود کی تصویر دیکھ کر احمدی ہوئی تھیں۔ اس وقت اس خاتون کی عمر 80 سال تھی۔ بیوہ اور بے اولاد تھیں اور گاؤں کے بچوں کو قرآن کریم پڑھاتی تھیں۔ بہت سارے بچے بچیاں ان کے پاس پڑھتے تھے۔ بیعت کرتے ہی لوگوں نے ان سے بچے پڑھائی کرنے سے اٹھوا لئے کہ تم احمدی ہو گئی ہو، کافر ہو گئی ہو اب قرآن کریم تم سے نہیں پڑھوانا اور وہ اپنے گاؤں میں بالکل بے سہارا ہو گئیں۔ آپ کے قبول احمدیت کی شہرت ہوئی تو ان کے بھائی وزیر علی شاہ ان کو اپنے پاس رَن مل شریف گجرات میں لے گئے اور ایک کمرے میں وہاں لا کر ان کو بند کر دیا اور ان کا کھانا پینا بند کردیا۔ اس طرح یہ بھوکی پیاسی کئی دنوں کے فاقے اور بھوک اور پیاس کی وجہ سے اپنے مولیٰ کے حضور حاضر ہو گئیں۔ انہوں نے کوئی آہ و بکا نہیں کی۔ کوئی احتجاج نہیں کیا اور نہ ہی احمدیت چھوڑی۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے بھوکی پیاسی مر جاؤں گی لیکن احمدیت نہیں چھوڑوں گی یہ قربانیاں ہیں ان لوگوں کی۔

پھر ہندوستان کی ایک خاتون کی قربانی کے متعلق شولہ پور مہاراشٹرا کے سرکل انچارج لکھتے ہیں کہ شولہ پور شہر سے قریباً 35 کلو میٹر دور ایک دیہات وڈ گاؤںمیں مخالفین احمدیت نے احمدیوں کو طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر کے احمدیت سے توبہ کرنے پر مجبور کیا اور زمین جائیداد سے بے دخل کر دیا، سوشل بائیکاٹ کر دیا۔ چنانچہ جو کمزور ایمان والے تھے وہ تو ہٹ گئے اور جو سچے ایمان والے تھے وہ قائم رہے۔ ایک مزدور پیشہ بیوہ عورت عظمت بی صاحبہ تھیں ان کو انہوں نے کام دینا بند کر دیا۔ جب وہ محتاج ہو گئیں تو اپنے بھائیوں کے پاس مدد کے لئے گئیں۔ ان کے بھائی بھی جماعت کے شدید مخالف تھے۔ انہوں نے کہا کہ اگر تم احمدیت سے توبہ کر لو تو ہم تمہیں کسی چیز کی کمی نہیں ہونے دیںگے۔ لیکن موصوفہ نے ان سے کہا کہ میں بھوکی پیاسی تڑپ تڑپ کر جان دے دوں گی مگر احمدیت کی جو نعمت مجھے ملی ہے اس کا انکار نہیں کروں گی۔ اللہ تعالیٰ نے فضل فرمایا اور اس بیوہ کے پھر غیب سے سامان پیدا فرمائے۔ کئی سالوں کا ان کا رکا ہوا جو خرچ تھا جو بیوگان کو سرکاری طور پر ملتا تھا وہ مل گیا اور اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے فضل سے سرکاری الاؤنس کی وجہ سے موصوفہ کی مالی تنگی بھی دور ہو گئی اور اللہ تعالیٰ نے ان پر بے انتہا فضل فرمایا۔

پھر ہندوستان میں بنگال کے ہمارے ایک سرکل انچارج ہیں وہ لکھتے ہیں کہ ایک فضیلہ بی بی صاحبہ ہیں جو قیام الدین صاحب کی زوجہ ہیں صوبہ بنگال میں انہوں نے احمدیت قبول کی اور احمدیت قبول کرنے کے بعد رشتہ داروں کی طرف سے نیز مخالفین کی طرف سے بہت تکالیف دی گئیں۔ موصوفہ کا گھر توڑ دیا گیا، دیہات میں رہنے والی تھیں، تمام جانور ان کے چوری کر لئے گئے یہاں تک کہ مار مار کر موصوفہ کا ہاتھ بھی توڑ دیا۔ باوجود شدید مخالفت کے انہوں نے احمدیت نہیں چھوڑی اور احمدیت پر قائم رہیں اور ہر تکلیف برداشت کی۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ایسا فضل کیا کہ ان کے سامنے ان کے مخالفین کو جنہوں نے ان کو تکالیف دی تھیں چن چن کر ذلیل و رسوا کیا اور بعد میں پھر ان کی غربت کی حالت بھی جاتی رہی، ہاتھ بھی ان کا ٹھیک ہو گیا جو دشمنان نے توڑا تھا اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے صحتیاب ہو گئیں اور اب مالی حالات بھی ٹھیک ہو گئے۔

پھر ایک خاتون کی قربانی کا ذکر کرتے ہوئے بنگلہ دیش کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ بنگلہ دیش کے گاؤں خودروپارا میں ایک خاتون ثمینہ صاحبہ کو ان کے خاوند نے احمدیت قبول کرنے کی وجہ سے اتنا مارا کہ وہ ساری رات بیہوش زمین پر پڑی رہیں۔ پھر اس کے بعد ان کے خاوند نے ان کو گھر سے نکال دیا۔ موصوفہ کا ایک لڑکا تھا جو کہ بچپن میں وفات پا چکا تھا جس کے بعد قریباً تیس پینتیس سال اس خاتون نے اکیلے ہی گزارے مگر احمدیت پر ثابت قدم رہیں اس عرصہ میں انہوں نے خود اپنی کوشش سے قرآن کریم کو سمجھنے کے لئے بنگلہ زبان سیکھی۔ اَن پڑھ تھیں۔ پھر ترجمہ کے ساتھ بہت ساری مسنون دعائیں بھی یاد کیں۔ بچوں کو بھی پڑھاتیں اور مقامی جماعت میں مختلف پروگرامز منعقد کرتیں۔ نیک کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتیں مہمانوں کا خیال رکھتیں۔ پہلے ان کی مقامی جماعت میں معلم نہ تھا مگر وہ سب کام انتہائی ذمہ دار طریقے سے کرکے معلم، مبلغ کی کمی پوری کر لیتی تھیں۔ مئی 2011ء میں ان کی وفات ہوئی ہے۔ ان کو حکومت کی طرف سے ایک مکان ملا تھا جو انہوں نے وفات سے پہلے جماعت کو دے دیا۔

پھر یہی نہیں کہ غریب ممالک میں جماعت کی خاطر قربانیاں کرنے والی ہیں۔ ہمیں احمدیت میں شامل ہونے والی ان خواتین کا بھی ذکر ملتا ہے جو یہاں ترقی یافتہ ممالک میں رہنے والی ہیں۔ ایک دو کا میں ذکر کر دیتا ہوں جنہوں نے احمدیت قبول کرنے کے بعد نہ صرف اسلامی تعلیمات کو اپنایا ہے یا اپنے پرانے طرز زندگی کو چھوڑا ہے بلکہ اس کو قائم رکھنے کے لئے ان سے قربانی کا مطالبہ کیا گیا تو انہوں نے دنیا کو دھتکار دیا اور اللہ اور اس کے رسول کے حکم کو ترجیح دی اور قربانی کے لئے تیار ہو گئیں۔

چنانچہ یہیں جرمنی کی ایک جرمن خاتون ماریہ صاحبہ ہیں۔ انہوں نے خود بیان کیا ہے کہ احمدیت قبول کرنے کے بعد حجاب لینا شروع کر دیا۔ اس وقت جرمنی کے ایک ہسپتال میں ملازمت کرتی تھیں۔ ہسپتال کی انتظامیہ نے یہ کہنا شروع کیا کہ یہاں پر ہائی جین (Hygiene) کی وجوہات کی وجہ سے وہ حجاب نہیں لے سکتیں۔ اس صورتحال میں انہوں نے مجھے بھی دعا کے لئے لکھا تو بہرحال میرا جواب ان کو گیا کہ اللہ تعالیٰ کرے کہ آپ کوپُرامن طریقے سے کام کے صحیح حالات میسر آجائیں۔ ہسپتال کی انتظامیہ نے بہرحال ہائی جین (Hygiene) کو وجہ بنا کے ان کو حجاب لینے سے منع کیا۔ آخر انہوں نے تنگ آ کر اپنی اس نوکری سے اس ملازمت سے استعفیٰ دے دیا لیکن اپنے ایمان پر آنچ نہیں آنے دی۔ اور اس کے کچھ عرصہ بعد ہی اللہ تعالیٰ نے ایسے سامان پیدا کئے جس سے انہیں زیادہ اچھی اور بہتر ملازمت مل گئی اور ماحول بھی زیادہ بہتر تھا۔

پس یہ سبق ہے ان احمدی لڑکیوں اور عورتوں کے لئے بھی جو اِن مغربی ممالک میں آکر دنیا کی طرف جھک کر اپنے پردے اتار دیتی ہیں، حجاب اور سکارف اتار دیتی ہیں۔ یاد رکھیں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وہی وارث بنیں گے جو اللہ تعالیٰ کی خاطر تکلیف برداشت کرنے کو ترجیح دیں گے اور اس کے حکموں پر چلیں گے۔ پھر اللہ تعالیٰ نوازتا ہے اور بے انتہا نوازتا ہے۔

اسی طرح جماعت میں شامل ہونے والی ایک خاتون کے بارے میں قازقستان کے مبلغ لکھتے ہیں کہ گوذیل (Goozel) صاحبہ اپنے خاندان سمیت 2001ء میں بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئیں۔ 2002ء میں انہوں نے عرب کویتی یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا اور پڑھائی کے دوران ان کے والدین کو بھی یونیورسٹی میں کام مل گیا۔ جب اساتذہ کو ان کے احمدی ہونے کا علم ہوا تو پہلے تو انہوں نے ان پر دباؤ ڈالنا شروع کیا کہ احمدیت چھوڑ دو۔ اساتذہ نے گفتگو کے ذریعہ ان کو احمدیت سے ہٹانے کی بہت کوشش کی۔ مگر جب کسی طرح بھی بات نہیں بنی تو انہوں نے باقاعدہ گروہ بندی کر کے ان کی مخالفت شروع کر دی اور بائیکاٹ کا اعلان کر دیا اور سب کو کہا کہ ان سے بات تک نہ کریں اور نہ سلام کریں۔ لیکن یہ بچی احمدیت پر قائم رہی اور کسی مخالفت کی پروا نہیں کی۔ اس مخالفت کی وجہ سے ان کے والد نے انتظامیہ کو کہا کہ آپ لوگوں نے میری بیٹی پر دباؤ ڈالنا بند نہ کیا تو اللہ تعالیٰ یونیورسٹی بند کر دے۔ عربوں کے پیسے سے یونیورسٹی چل رہی تھی۔ اب اللہ تعالیٰ نے بھی دیکھیں کس طرح اس شخص کی بات کو پورا کیا اور اس ظلم کا بدلہ لیا کہ 2005ء میں ایسے حالات پیدا ہوئے کہ وہ یونیورسٹی بند ہو گئی۔

تویہ ہے ایمان کی مضبوطی کی حالت جسے ہر احمدی عورت اور مرد کو حاصل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ یہ ہے وہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کی حالت جس کا ہر احمدی عورت اور ہر احمدی مرد عہد کرتے ہیں۔ پس جب تک اس عہد پر قائم رہیں گی اللہ تعالیٰ بھی مدد فرماتا رہے گا۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو توفیق دے کہ ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کے عہد کو پورا کرتی رہیں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت سب محبتوں پر غالب رہے۔ اسلام کی تعلیم کے حقیقی نمونے احمدی عورتوں میں نظر آتے ہوں۔ احمدیت کی خوبصورت تعلیم کا اظہار اپنے ہر قول و فعل سے کرنے والی ہوں۔ اور اس عملی اظہار کے ذریعہ لوگوں کے دل جیتنے والی ہوں ۔ احمدیت کی خاطر ہر قربانی کے لئے تیار ہوں۔ یہاں آ کر دنیا کی ہواو ہوس کی بجائے اللہ تعالیٰ کی محبت کا جذبہ، اس کے احکامات پر چلنے کا جذبہ ہر جذبے اور ہر خواہش پر حاوی ہو جائے۔

پس ان قربانی کے واقعات اور اپنی تاریخ کو صرف علمی اور وقتی حظ اٹھانے کے لئے نہ سنیں اور پڑھیں بلکہ یہ عزم کریں کہ ہم نے اپنے مقصد پیدائش کو پانا ہے اور اپنی نسلوں کو بھی اس کو حاصل کرنے والا بنانا ہے اور وہ ہے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی محبت اور اللہ تعالیٰ کا حقیقی عابد بننا۔ اللہ تعالیٰ اس کی سب کو توفیق عطا فرمائے۔

اب دعا کر لیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button