الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔

…………………………

نبی کریم ﷺ کا حُسنِ مزاح

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ14 نومبر 2012ء میں مکرم حافظ مظفر احمد صاحب کے قلم سے ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ میں سے حُسنِ مزاح اور بے تکلّفی سے متعلق پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

رسول کریم ﷺ اپنے صحابہ کو تلقین فرماتے تھے کہ کسی نیکی کو حقیر مت سمجھو خواہ اپنے بھائی سے خندہ پیشانی اور مسکراہٹ سے پیش آنے کی نیکی ہو۔ حضرت جابر ؓ کی روایت ہے کہ رسول کریمؐ پر جب وحی آتی یا جب آپؐ وعظ فرماتے تو آپؐ ایک ایسی قوم کے ڈرانے والے معلوم ہوتے جس پر عذاب آنے والا ہو مگر آپؐ کی عمومی کیفیت یہ ہوتی تھی کہ سب سے زیادہ مسکراتا ہوا حسین چہرہ آپؐ کا ہوتاتھا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ گھر میں ہمیشہ خوش اور ہنستے مسکراتے وقت گزارتے تھے۔

آنحضور ﷺ کی حسّ مزاح بہت لطیف تھی۔ آپؐ صاف ستھرا اور سچا مذاق کرتے تھے۔ فرماتے تھے کہ مَیں مذاق میں بھی جھوٹ نہیں کہتا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہؐ بہت مزاح کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ سچے مزاح کرنے والے پر ناراض نہیں ہوتا۔

صحابہؓ بیان کرتے تھے کہ نبی کریمؐہماری مجلس میں آکر بیٹھ جاتے تھے، کبھی ایسانہیںہوا کہ ہم ہنسی خوشی بیٹھے ہوں اورآپؐ نے کوئی مایوسی یا غم والی بات کردی ہو۔ آپؐہمارے ساتھ اُٹھتے بیٹھتے تھے اور خوش ہوتے تھے، لطیفے وغیرہ سنتے اور سناتے تھے۔ حضرت جابرؓ بن سمرہ کہتے ہیں کہ اصحاب آپؐ کے سامنے اعلیٰ اشعار اور جاہلیت کی دیگر متفرق باتیں بیان کرتے۔ رسولؐاللہ خاموشی سے اُن کی باتیں سنتے اور بسااوقات تبسّم بھی فرماتے۔

حضرت زید بن ثابتؓ بیان کرتے ہیں کہ رسولؐاللہ کی مجالس میں جب ہم دنیاداری کی باتوں کا ذکر کرتے تو آپؐ ہمارے ساتھ اس میں شریک ہوتے۔ جب ہم کھانے وغیرہ کی باتیں کرتے تو اس میں بھی حصّہ لیتے۔

حضرت عبداللہ ابن عباسؓ سے جب کسی نے پوچھا کہ رسول اللہ ﷺ کیسا مذاق فرمایا کرتے تھے؟ تو انہوں نے مثال دی کہ ایک دفعہ اپنی ایک زوجہ محترمہ کو ایک کپڑا اوڑھاکرفرمایا: اللہ کی حمدوثنا کرو اور دلہنوں کی طرح اپنا دامن گھسیٹ کر چلو۔

حضرت انس بن مالکؓ خادم رسولؐ بیان کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ بچوں کے ساتھ سب سے زیادہ مزاح اور بے تکلفی کی باتیں کرتے تھے۔ چنانچہ رسول اللہ کبھی پیار سے اپنے خادم انس ؓکو یوں پکارتے کہ ’اے دوکانوں والے ذرا ادھر تو آنا‘۔ اس مزاح میں یہ لطیف فلسفہ بھی پنہاں تھا کہ اطاعت شعار انسؓ رسول اللہؐ کے ارشاد پر کان لگائے رکھتے تھے۔ اسی طرح ایک مرتبہ لمبے قد کے آدمی کو ’’ذوالیدین‘‘ یعنی لمبے ہاتھوں والا کہہ کر یاد فرمایا۔

ایک دفعہ ایک صحابی حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا مجھے سواری کے لئے اونٹنی کی ضرورت ہے۔ آپؐ نے فرمایا میرے پاس تو اونٹ کا بچہ ہے۔ اُس شخص نے عرض کیا۔ حضورؐ میں اونٹ کا بچہ لے کر کیا کروں گا؟ فرمایا: اونٹ بھی تو اونٹ کا بچہ ہی ہوتا ہے۔ پھر ایک اونٹ اس کے حوالے کردیا۔

حضرت سفینہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول کریمؐ کے ساتھ ایک سفر میں شریک تھے، جب بھی ہمارا کوئی ساتھی تھک جاتا تو وہ اپناسامان، تلوار ڈھال یا نیزہ مجھے پکڑا دیتا یہاں تک کہ میرے پاس بہت سا سامان جمع ہوگیا۔اس پر نبی کریم ﷺ نے، جو یہ سب دیکھ رہے تھے، فرمایا کہ تم واقعی سفینہ (یعنی کشتی) ہو جس نے سب مسافروں کا سامان سنبھال رکھا ہے۔

ایک دفعہ ایک بڑھیا عورت آنحضور ﷺ سے ملنے آئی۔ آپؐ نے فرمایا: بوڑھی عورتیں تو جنت میں نہ ہوں گی۔ یہ سُن کر وہ رونے لگی تو آپؐ نے فرمایا: تم جوان ہوکر جنت میں جائوگی (یعنی وہاں بڑھاپا نہیں ہوگا)۔ اس پر وہ خوش ہوگئی۔آپؐ نے اپنی بات کی تائید میں سورۃالواقعہ کی آیت بھی تلاوت فرمائی کہ ہم نے جنت کی عورتوں کو نو عمر اور کنواریاں بنایا ہے۔

ابو رمشہ ؓ اپنے والد کے ساتھ رسول اللہؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضورؐ نے ازراہ تعارف ان کے والد سے پوچھا یہ تمہارا بیٹا ہے؟ حضورؐ کا زور ’یہ‘ پر تھا، انہوں نے اپنی سادگی میں سمجھا کہ پوچھ رہے ہیں واقعی تمہاراہی بیٹا ہے۔ نہایت سنجیدگی سے کہنے لگے۔ربّ کعبہ کی قسم یہ میرا ہی بیٹا ہے۔ حضورؐ معاملہ سمجھ گئے مگر ان کے اصرار پر ازراہ تفنّن فرمایا واقعی پکی بات ہے؟ وہ اس پر اور سنجیدہ ہوکر کہنے لگے: حضورؐ! میں پختہ قسم کھاکر کہہ سکتا ہوں کہ یہ میرا ہی بیٹا ہے۔ رسول کریمؐ یہ سن کر بہت محظوظ ہوئے اور ہنستے مسکراتے رہے۔ خصوصاً ابو رمشہؓ کے باپ کی قسمیں کھانے کی وجہ سے حضورؐ بہت محظوظ ہوئے،کیونکہ بچے کی شباہت والد سے اتنی ملتی تھی کہ اس کے نسب میں کسی شبہ کا احتمال نہ ہوسکتا تھا۔

آنحضورﷺ اپنے خادم انسؓ کے ہاں گئے اور ان کے چھوٹے بھائی کو اداس دیکھ کر سبب پوچھا تو پتہ چلا کہ اُس کی پالتو مَینا مرگئی ہے۔آپؐ اس کے گھر جاتے تو اُسے محبت سے چھیڑتے اور کنیت سے یاد فرماکر کہتے: اے ابوعمیر (عمیر کے ابّا) تمہاری مَینا کا کیا ہوا؟

حضرت محمود بن ربیعؓ فرماتے تھے کہ میری عمرپانچ سال تھی حضورؐ ہمارے ڈیرے پر تشریف لائے۔ ہمارے کنوئیں سے پانی پیا اور بے تکلّفی سے میرے ساتھ کھیلتے ہوئے ڈول سے پانی کی کُلّی میرے اوپر پھینکی۔

ایک اور صحابی بیان کرتے ہیں کہ میں چھوٹا سا تھا کہ میرے والد مجھے رسول اللہؐ کے پاس لے کر آئے۔ حضورؐ کے دونوں شانوں کے درمیان گوشت کا ابھرا ہوا ایک ٹکڑا، کبوتری کے انڈے کے برابر تھا۔ پرانی کتابوں میں اس نشان کو مُہر نبوت کا نام دیا گیا تھا جو آنحضور ﷺ کی شناخت کی ایک جسمانی علامت تھی۔ مَیں نے قمیص میں سے وہ گوشت کا ٹکڑا دیکھا تو اُس سے کھیلنے لگ گیا۔ والد نے مجھے ڈانٹ دیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا بچہ ہے اسے کچھ نہ کہو، کھیلنے دو۔

صحابہ جانتے تھے کہ اگر وہ مزاح کے رنگ میں حضورؐ سے بات کریں گے تو حضور خوش ہوں گے ،ناراض نہ ہوں گے۔ عوف بن مالک ؓ کہتے ہیں کہ میں غزوۂ تبوک میں رسول کریمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپؐ چمڑے کے ایک چھوٹے سے خیمے میں تھے، مَیں نے سلام عرض کیا تو آپؐ نے فرمایا اندر آجائو۔ مَیں نے خیمہ کے چھوٹے سائز پر طنز کرتے ہوئے عرض کیا کہ کیا سارے کا سارا ہی آجائوں؟ آپؐ نے فرمایا: ہاں سارے کے سارے ہی آجائو۔

ایک دفعہ حضرت صہیب ؓرسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔حضورؐ کے سامنے کھجوریں اور روٹی پڑی تھی۔ آپؐ نے صہیبؓکو بھی دعوتِ طعام دی۔ صہیبؓ روٹی کی بجائے کھجور زیادہ شوق سے کھانے لگے۔ رسول کریمؐ نے ان کی آنکھ میں سوزش دیکھ کر فرمایا کہ تمہاری ایک آنکھ دُکھتی ہے۔ اس میں اشارہ تھا کہ کھجور کھانے میں احتیاط چاہئے۔ انہوں نے عرض کیا: یارسول اللہؐ! مَیں صحت مند آنکھ والی طرف سے کھارہا ہوں۔ نبی کریم ﷺ اس مزاح اور حاضرجوابی سے بہت محظوظ ہوئے۔

حضرت خوات بن جُبیرؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک سفر میں مَیں نے رسول کریمؐ کے ساتھ پڑائو کیا۔اپنے خیمہ سے نکلا تو کیا دیکھتا ہوں کہ عورتیں ایک طرف بیٹھی باتیں کررہی ہیں۔ مَیں اپنے خیمہ میں واپس آیا اور اپنی ریشمی پوشاک پہن کر ان عورتوں کے قریب آکر بیٹھ گیا۔ دریں اثناء رسول اللہؐ اپنے خیمہ سے باہر تشریف لائے۔ مجھے دیکھا تو فرمانے لگے: اے ابوعبداللہ! تم ان عورتوں کے قریب آکر کیوں بیٹھے ہو؟ مَیں نے رسولؐاللہ کے رُعب سے ڈر کر جلدی میں یہ عذر گھڑلیاکہ اے اللہ کے رسولؐ! میرا اونٹ آوارہ سا ہے، اسے باندھنے کو رسّی ڈھونڈتا ہوں۔ رسول کریم ﷺ نے اپنی چادر اوپر لی اور درختوں کے جھنڈ میں قضائے حاجت کے لئے تشریف لے گئے۔ پھر وضو فرماکر واپس آئے تو مجھے چھیڑتے ہوئے فرمانے لگے کہ ’’ابوعبداللہ! تمہارے اونٹ کی آوارگی کا کیا حال ہے؟‘‘۔ خوّاتؓ دل ہی دل میں سخت نادم ہوئے۔ وہ کہتے ہیں ہم نے وہاں سے کُوچ کیا تو رسول کریمؐ ہرپڑائو پر مجھے دیکھتے ہی فرماتے:’’السلام علیکم اے ابوعبداللہ! تمہارے اونٹ کی آوارگی کا کیا حال ہے؟‘‘۔ خیر خداخدا کرکے مدینہ پہنچے۔ اب مَیں رسول کریمؐ سے آنکھیں بچانے لگا اور رسولؐاللہ کی مجالس سے بھی کنی کتراجاتا۔ جب کچھ عرصہ گزرگیا تو ایک روز مَیں نے مسجد میں تنہائی کا وقت تلاش کرکے نماز پڑھنے لگا۔ اتنے میں رسول کریمؐ اپنے گھر سے مسجد میں تشریف لائے اور آکر نماز پڑھنے لگے۔ آپؐ نے دو رکعت نماز مختصر سی پڑھی اور انتظار میں بیٹھ رہے۔ میں نے نماز لمبی کردی کہ شایدحضورؐ گھر تشریف لے جائیں۔ آپؐ نے یہ بھانپ کر فرمایا:’’اے ابوعبداللہ! نماز جتنی مرضی لمبی کرلو، مَیں بھی آج تمہارے سلام پھیرنے سے پہلے نہیں اٹھوں گا‘‘۔ مَیں نے دل میں سوچا کہ خدا کی قسم! اب تو مجھے رسول اللہؐ سے معذرت کرکے بہرحال آپؐ کو راضی کرنا ہوگا۔ جونہی مَیں نے سلام پھیرا۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: السلام علیکم، اے ابوعبداللہ! تمہارے اونٹ کی آوارگی اب کیسی ہے؟ مَیں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسولؐ! اُس ذات کی قسم جس نے آپؐ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے۔ جب سے مَیں مسلمان ہوا ہوںمیرا اونٹ کبھی نہیں بھاگا۔ رسولؐاللہ نے فرمایا: ’’اللہ تم پر رحم کرے‘‘۔ آپؐ نے دو یا تین مرتبہ یہ دعا دی اور اس کے بعد آپؐ نے میرے ساتھ کبھی یہ مذاق نہیں فرمایا۔

حضرت براءؓ بن عازب بیان کرتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ ’’تمہارے پاس اس رستہ سے یمن کا ایک بہترین شخص آئے گا اُس کے چہرہ پر سرداری کے آثار ہیں‘‘۔ چنانچہ 10 ہجری میں وہ شخص بجیلہ قبیلہ کا وفد لے کر آیا اور ہجرت پر آپؐ کی بیعت کی اور آپؐ کے پوچھنے پر اُس نے بتایا کہ وہ جریر بن عبداللہ البجلی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کے لئے دعا کرتے ہوئے برکت کے لئے ان پر ہاتھ پھیرا۔

حضرت جریرؓبن عبداللہ البجلی خود بیان کرتے تھے کہ قبول اسلام کے بعد کبھی ایسا نہیں ہوا کہ رسولؐاللہ نے مجھے دیکھا ہو اور مسکرائے نہ ہوں۔ اور یہ کہ حضورؐ نے مجھے اپنی چادر بچھاکر اس پر بٹھایا تھا اور صحابہ سے فرمایاتھا کہ جب کسی قوم کا معزز شخص آئے تو اس کی عزت کیا کرو۔

جریرؓ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسولؐاللہ کی خدمت میں عرض کیا کہ مَیں گھوڑے پر جم کر بیٹھ نہیں سکتا۔ اس پر رسولؐاللہ نے میرے سینے میں ہاتھ مارا اور دعا کی۔ جس کے بعد مَیں کبھی گھوڑے سے نہیں گرا۔

…٭…٭…٭…

ماہنامہ ’’النور‘‘ امریکہ اپریل 2012ء میں شامل اشاعت مکرمہ ڈاکٹر فہمیدہ منیر صاحبہ کی ایک طویل نعت میں سے انتخاب پیش ہے:

مَیں اپنے حوالے سے تیرے لئے کیا لکھوں
دنیا سے الگ ہو لوں تب صلِّ علیٰ لکھوں
لفظوں میں کہاں طاقت ، سب ہیچ ہیں ادنیٰ ہیں
اے کاش تری خاطر اک حرفِ رسا لکھوں

وہ جُود و سخا لکھوں وہ فہم و ذکا لکھوں
کردار کی وہ عظمت یا شرم و حیا لکھوں
لکھتی ہی رہوں گی مَیں اِک عمر اگر لکھوں
دنیا نے جو لکھا ہے مَیں اُس سے سِوا لکھوں

مَیں خاکِ کفِ پا ہوں ، اِک ادنیٰ سی ہستی ہوں
احکام تیرے سارے سر آنکھوں پہ رکھتی ہوں
ماریں گے بھلا مجھ کو کیا لوگ یہ دیوانے؟
اس نام پہ جیتی ہوں اس نام پہ مرتی ہوں

وہ نُور بھرا چہرہ دِکھلانے کو پھر آ جا
اس دین کی عظمتؔ کو منوانے کو پھر آ جا
اِس دَور کے بدّو ہیں صحراؤں میں بیٹھے ہیں
صدیاں ہوئی روتے ہیں بہلانے کو پھر آ جا

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9؍اکتوبر 2012ء میں مکرم طاہر محمود احمد صاحب کی ایک نعت شاملِ اشاعت ہے۔ اس نعتیہ کلام میں سے انتخاب پیش ہے:

چمن میں ذکرِ محمدؐ سے یوں بہار آئے
کہ جیسے پھولوں پہ شبنم سے پھر نکھار آئے
ہیں آپؐ جن کو ملا ہے مقامِ محمودی
وگرنہ دنیا میں مُرسل تو بے شمار آئے
ستارے بن گئے روحانی آسماں کے تمام
کبھی جو آپؐ کی صحبت میں دن گزار آئے
ہوئے تھے دنیا سے بے دل خدا کو دل دے کر
رہی تھی جان تو وہ بھی خدا پہ وار آئے
درود پڑھنے سے بے چینیوں کے عالَم میں
دلِ حزین و پریشان کو قرار آئے

٭۔۔۔٭۔۔۔٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button