خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ مورخہ 02؍ نومبر 2018ء

(امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بںصرہ العزیز)

خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 02؍ نومبر 2018ء بمطابق02؍نبوت 1397 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الرحمٰن ،میری ینڈ(Maryland)،امریکہ

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ اھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ
وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔

ہر شخص مرد یا عورت جو اپنے آپ کو احمدی کہتا ہے اس کا صرف اتنا اعلان ہی اسے حقیقی احمدی نہیں بنا دیتا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مانتا ہے، آپؑ کے دعوے کو مانتا ہے۔ بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک حقیقی احمدی بننے کے لئے بعض شرائط رکھی ہیں، بعض ذمہ داریاں ڈالی ہیں، بعض فرائض کی طرف توجہ دلائی ہے کہ اگر ان پر عمل کرو گے، ان کو ادا کرو گے تو تبھی حقیقی رنگ میں میری جماعت میں شمار ہو گے۔ گویا احمدی بننے کے لئے صرف اعتقادی تبدیلی کافی نہیں ہے یا صرف اس بات پر اکتفا نہیں کر لینا کہ میرے والدین احمدی تھے تو مَیں بھی احمدی ہوں۔ یا میں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی کو سچا مانا تو میں نے مان لیا اور میں احمدی ہوں۔ یہ اعتقادی لحاظ سے تو بیشک ایک شخص کو احمدی بناتا ہے لیکن عملی احمدی بننے کے لئے اپنی تمام تر صلاحیتوں اور استعدادوں کے ساتھ ان باتوں پر عمل کرنا ضروری ہے جن کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک احمدی سے توقع فرمائی ہے۔ آپؑ نے بڑا واضح طور پر فرمایا کہ اگر تم اپنی تمام استعدادوں کے ساتھ ان باتوں پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کر رہے تو پھر تمہارا دعویٰ صرف منہ کا دعویٰ ہے، زبانی باتیں ہیں۔ آپؑ نے فرمایا:

’’بیعت سے مراد خدا تعالیٰ کو جان سپرد کرنا ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہم نے اپنی جان آج خدا تعالیٰ کے ہاتھ بیچ دی۔‘‘

(ملفوظات جلد7 صفحہ29۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس یہ کوئی معمولی کام نہیں ہے۔ جب ہم اپنی کوئی چیز کسی کو بیچتے ہیں تو پھر اس پر ہمارا کوئی حق نہیں رہتا بلکہ جس کے پاس بیچی ہو وہ اس کا مالک بن جاتا ہے اور پھر اسے اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتا ہے۔ پس یہ وہ حالت ہے جو ہمیں اپنے اوپر طاری کرنی چاہئے اور یہ وہ سوچ ہے جو ہمیں اپنی جانوں کے بارے میں رکھنی چاہئے۔ اس سوچ اور اس حالت کو حاصل کرنے کے لئے آپؑ نے فرمایا کہ:

’’بیعت کنندہ کو اوّل انکساری اور عجز اختیار کرنی پڑتی ہے اور اپنی خودی اور نفسانیت سے الگ ہونا پڑتا ہے۔‘‘ اب یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الفاظ ہیں کہ خودی اور نفسانیت سے الگ ہونا پڑتا ہے۔ بعض لوگوں میں خودی اور نفسانیت کی یہ حالت ہے کہ ایک عہدے دار دوسرے عہدے دار سے ناراض ہو کر ایک جگہ میری موجودگی کے باوجود مسجد میں نمازوں کے لئے حاضر نہیں ہوا۔ اس لئے کہ اس عہدے دار سے اس کے تعلقات ٹھیک نہیں تھے۔ خودی اور نفسانیت اس حد تک بڑھ گئی کہ خلافت کی بیعت کا دعویٰ تو ہے لیکن کوئی اس کا پاس نہیں ہے۔ پس حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اگر بیعت کی ہے تو خودی اور نفسانیت سے الگ ہونا پڑے گا۔ فرمایا کہ ’’تب وہ نشوونما کے قابل ہوتا ہے لیکن جو بیعت کے ساتھ نفسانیت بھی رکھتا ہے اسے ہرگز فیض حاصل نہیں ہوتا۔‘‘

(ملفوظات جلد6 صفحہ173۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

زبانی دعویٰ تو ہے۔ ملیں گے تو بڑے احترام سے بھی ملیں گے۔ لیکن آپس میں رنجشوں کی وجہ سے اس بات کی بھی کوئی پرواہ نہیں کہ خلیفہ وقت وہاں موجود ہے اور اس کے پیچھے نمازیں پڑھنے جانا ہے نہ کہ کسی عہدیدار کی خاطر مسجد میں آنا ہے، اور خود بھی عہدیدار ہے۔ تو یہ حالت اگر ہو تو پھر ایسے احمدی ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔ پس جان بیچنا یہ ہے کہ عاجزی اور انکساری پیدا ہو۔ اَنا کو مارنا پڑتا ہے۔ خودی اور نفسانیت سے الگ ہونا پڑتا ہے۔ انسان کا اپنا کچھ نہ ہو اور ہر چیز خدا تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہو۔ اور جب یہ حالت ہو تو پھر یہ نہیں کہ خدا تعالیٰ اس جان کو ضائع کر دے۔ جب اللہ تعالیٰ کو جان دے دی اللہ تعالیٰ ایسی جان کی قدر کرتا ہے اور ہر لحاظ سے اس کی حفاظت فرماتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ:

’’اگر بیعت کے وقت وعدہ اَور ہے اور پھر عمل اَور ہے تو دیکھو کتنا فرق ہے‘‘ کتنا بڑا تضاد ہے تمہاری باتوں میں۔ ’’اگر تم خدا سے فرق رکھو گے تو وہ تم سے فرق رکھے گا۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ70-71۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

آپؑ نے فرمایا ’’…اس لئے تم اپنے ایمانوں اور اعمال کا محاسبہ کرو کہ کیا ایسی تبدیلی اور صفائی کر لی ہے کہ تمہارا دل خدا تعالیٰ کا عرش ہو جائے اور تم اس کی حفاظت کے سایہ میں آجاؤ۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ70 حاشیہ۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

آپ ؑنے فرمایا کہ:

’’میں نے بارہا اپنی جماعت کو کہا ہے کہ تم نِرے اس بیعت پر ہی بھروسہ نہ کرنا۔ اس کی حقیقت تک جب تک نہ پہنچو گے تب تک نجات نہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ232-233۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

آپؑ نے فرمایا کہ:

’’میں تمہیں بار بار یہی نصیحت کرتا ہوں کہ تم ایسے پاک صاف ہو جاؤ جیسے صحابہؓ نے اپنی تبدیلی کی۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ70 حاشیہ۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس صحابہؓ کو دیکھیں کیا پاک تبدیلیاں تھیں۔ انہوں نے سالوں بلکہ نسلوں کی دشمنیوں کو صرف خدا تعالیٰ کی خاطر محبت، پیار اور بھائی چارے میں بدل دیا کجا یہ کہ چند منٹ کی رنجش سے مسجدوں میںآنا چھوڑ دیں۔ اپنی جانوں کو بیچا تو جو بالکل جاہل لوگ تھے، تعلیم یافتہ ہوئے، تعلیم یافتہ سے باخدا انسان بنے۔ انہوں نے دل و جان سے اس بات کو مانا کہ آج سے ہمارا اپنا کچھ نہیں سب کچھ خدا تعالیٰ کا ہے۔ انہوں نے جب شرک سے توبہ کی تو مخفی تر شرک جو تھا اس سے بھی بچنے کی کوشش کی۔ مخفی شرک کیا ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:۔

’’شرک سے یہی مراد نہیں کہ پتھروں وغیرہ کی پرستش کی جاوے بلکہ یہ ایک شرک ہے کہ اسباب کی پرستش کی جاوے اور معبودات دنیا پر زور دیا جاوے۔‘‘

(ملفوظات جلد6 صفحہ18-19۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

معبودات دنیا کیا ہیں؟ دنیاوی مفادات ہیں جن کی خاطر انسان دین کے احکامات اور خدا تعالیٰ کے احکامات کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اعمال میں ریاء سے کام لینا، دکھاوے سے کام لینا اور مخفی خواہشات میں مبتلا ہونا یہ بھی شرک ہے۔

(مستدرک للحاکم جلد4 صفحہ366 کتاب الرقاق حدیث7940 مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت 2002ء)

اگر کوئی شخص دینی حکم کو پس پشت ڈال کر دنیاوی خواہشات کو پورا کرتا ہے تو شرک کا مرتکب ہوتا ہے۔ صحابہ میں اللہ تعالیٰ کی اس قدر خشیت تھی کہ ایک صحابی کا ذکر آتا ہے ایک دفعہ وہ بیٹھے رو رہے تھے۔ کسی نے رونے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات یاد آ گئی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں اپنی امت کے بارے میں شرک اور مخفی خواہشات سے ڈرتا ہوں۔

(مسند احمد بن حنبل جلد5 صفحہ835 مسند شداد بن اوس حدیث17250 مطبوعہ عالم الکتب بیروت1998ء)

یہ وہ مقام تھا صحابہ کا اللہ تعالیٰ کے خوف کا اور شرک سے بچنے کا۔ بلکہ دوسروں کے بارے میں بھی ایک احساس تھا ایک فکر تھی کہ امت میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوں گے جو مخفی شرک کریں۔ ایک خیال آیا دل میں ان کے اور اس خیال پر ہی جسم پر لرزہ طاری ہو گیا، فکر پیدا ہو گئی، رونا شروع کر دیا اور یہی وہ حالت ہے جس سے انسان حقیقی طور پر موحد اور ایک خدا کی عبادت کرنے والا بنتا ہے یا بن سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:

’’توحید صرف اس بات کا نام نہیں کہ منہ سے لا الہ الا اللہ کہیں اور دل میں ہزاروں بت جمع ہوں بلکہ جو شخص کسی اپنے کام اور مکر اور فریب اور تدبیر کو خدا کی سی عظمت دیتا ہے یا کسی انسان پر بھروسہ رکھتا ہے جو خدا تعالیٰ پر رکھنا چاہئے یا اپنے نفس کو وہ عظمت دیتا ہے جو خدا کو دینی چاہئے ان سب صورتوں میں وہ خدا تعالیٰ کے نزدیک بت پرست ہے۔‘‘ فرمایا ’’…ہر ایک چیز یا قول یا فعل جس کو وہ عظمت دیجائے جو خدا تعالیٰ کا حق ہے وہ خدا تعالیٰ کی نگہ میں بت ہے۔ …یاد رہے کہ حقیقی توحیدجس کا اقرار خدا ہم سے چاہتا ہے اور جس کے اقرار سے نجات وابستہ ہے یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کو اپنی ذات میں ہر ایک شریک سے خواہ بت ہو خواہ انسان ہو خواہ سورج ہو یا چاند ہو یا اپنا نفس یا اپنی تدبیر اور مکر فریب ہو منزہ سمجھنا اور اس کے مقابل پر کوئی قادر تجویز نہ کرنا،کوئی رازق نہ ماننا، کوئی مُعِزّ اور مُذِلّ خیال نہ کرنا۔‘‘

(سراج الدین عیسائی کے چار سوالوں کا جواب روحانی خزائن جلد12 صفحہ349-350)

کوئی عزت دینے والا اور کسی کو ذلیل کرنے والا خیال نہ کرنا کہ ان لوگوں سے میری عزت اور ذلت وابستہ ہے بلکہ صرف اور صرف خدا تعالیٰ پہ ہی ان باتوں کا انحصار ہو۔ پس یہ چیز ہے جو اسلام کی بنیادی شرط ہے، جو احمدی احمدیت اور حقیقی اسلام کی بنیادی شرط ہے۔

کسی نے مجھے کہا کہ لوگ خلافت یا خلیفہ وقت کو اس حد تک اونچا مقام دے دیتے ہیں کہ گویا وہ شرک کی حد تک چلے گئے ہیں۔ واضح ہو کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی میں دنیا سے شرک ختم کرنے آئے تھے۔ پس یہ کسی طرح بھی ممکن نہیں کہ آپؑ کی سچی خلافت کسی بھی قسم کے شرک کو بڑھانے والی ہو یا ہوا دینے والی ہو۔ خلافت کا تو بنیادی کام ہی شرک کا خاتمہ اور توحید کا قیام ہے اور اس مشن کی تکمیل کرنا ہے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے۔ اگر کوئی کسی شخص کے خلیفہ وقت سے عزت و احترام کے طریق سے ملنے سے یہ اثر لیتا ہے تو پھر اس کو بجائے رائے قائم کرنے کے سوچنا چاہئے کہ کہیں وہ بدظنی تو نہیں کر رہا۔ اس لئے اگر بدظنی ہے تو بدظنی کرنے والوں کو بدظنیوں سے بچنا چاہئے اور اگر کوئی واقعی اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ جہاں لوگوں میں اس کی وجہ سے یہ تاثر پیدا ہو کہ خلیفہ وقت کو نعوذ باللہ شرک کی حد تک مقام دیا جا رہا ہے تو اس کو استغفار بھی کرنی چاہئے اور احتیاط بھی کرنی چاہئے۔ نہ مَیں ایسے پسند کرتا ہوں اور نہ کبھی کیا ہے نہ میرے سے پہلے خلفاء نے کیا ہے اور نہ انشاء اللہ آئندہ آنے والے خلفاء کبھی یہ پسند کر سکتے ہیں کہ ان کی ذات کی کوئی اہمیت ہے۔ ہاں خلافت کا احترام قائم کرنا خلیفہ وقت کا کام ہے اور وہ اس کی ذمہ داری ہے اور وہ کرے گا اور اس لئے کرے گا کہ اللہ تعالیٰ کے وعدوں کے مطابق اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق خلافت کے ذریعہ توحید کا پیغام دنیا میں پھیلنا ہے اور دنیا سے شرک کا خاتمہ ہونا ہے۔ پس بعض کچے دماغوں میں جو ایسے خیالات تربیت کی کمی کی وجہ سے ابھرتے ہیں وہ انہیں اپنے ذہنوں سے نکال دیں۔

توحید کے قیام کی کوشش اور شرک سے اپنے ماننے والوں کے دلوں کو پاک کرنے کے اہم کام کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں جو توجہ دلائی اور جس پر ہماری بیعت لی وہ جھوٹ اور اخلاقی برائیوں سے بچنا ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے کہ

فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ۔ (الحج31:)

کہ پس بتوں کی پلیدی سے احتراز کرو اور جھوٹ کہنے سے بچو۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ

’’قرآن شریف نے جھوٹ کو بھی ایک نجاست اور رجس قرار دیا ہے۔‘‘ گندی چیز قرار دی ہے، ناپاک چیز قرار دی ہے۔آپؑ فرماتے ہیں ’’…دیکھو یہاں( یعنی اس آیت میں) جھوٹ کو بُت کے مقابل رکھا ہے اور حقیقت میں جھوٹ بھی ایک بُت ہی ہے۔ ورنہ کیوں سچائی کو چھوڑ کر دوسری طرف جاتا ہے۔ جیسے بت کے نیچے کوئی حقیقت نہیں ہوتی اسی طرح جھوٹ کے نیچے بجز ملمع سازی کے اور کچھ بھی نہیں ہوتا۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ350۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

جھوٹ کے نیچے صرف ایک بناوٹ ہے، ظاہری الفاظ کو sugar-coatکر کے پیش کیا جاتا ہے یا کوئی تحریر ہے تو اس کو اس طرح پیش کیا جاتا ہے، خوبصورت کر کے دکھایا جاتا ہے اس کے اندر کچھ بھی نہیں ہوتا۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ:

’’جھوٹ بھی ایک بت ہے جس پر یہ بھروسہ کرنے والا خدا کا بھروسہ چھوڑ دیتا ہے۔ سو جھوٹ بولنے سے خدا بھی ہاتھ سے جاتا ہے۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد10 صفحہ361)

پس اگر توحید کا دعویٰ ہے، اگر خدا تعالیٰ کی عبادت کا دعویٰ ہے، اگر حقیقی مسلمان بننے کا دعویٰ ہے تو پھر جھوٹ کو اپنے اندر سے ہمیں نکالنا ہو گا اور جھوٹے کو بھی نکالنا ہو گا۔ بعض لوگ معمولی باتوں پر غلط بیانی سے کام لے لیتے ہیں۔ یہ ایک مومن کی شان نہیں ہے۔ یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ بعض چھوٹی چھوٹی غلط بیانیاں جھوٹ نہیں ہیں یہ جھوٹ ہیں اور توحید سے دور لے جانے والی ہیں۔ بہت سے آپس کے مسائل ہیں، جھگڑے ہیں، ایسی باتیں ہیں جن میں انسان جھوٹ سے کام لے کر اپنے حق میں بعض فیصلے کروا لیتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کس باریکی سے جھوٹ سے ہوشیار فرمایا ہے اگر انسان اس پر غور کرے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے کسی چھوٹے بچے کو کہا کہ آؤ میں تمہیں کچھ دیتا ہوں اور پھر وہ اسے دیتا کچھ نہیں تو یہ جھوٹ میں شمار ہو گا۔

(سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی التشدید فی الکذب حدیث4991)

گویا کہ مذاق میں بھی جو جھوٹ ہے وہ بھی جھوٹ ہے۔ پھر آپؐ نے فرمایا کہ جھوٹ گناہ اور فسق و فجور کی طرف لے جاتا ہے اور فسق و فجور جہنم کی طرف۔ فسق و فجور کا مطلب یہ ہے کہ سچائی سے بہت دور ہٹنے والا اور انتہائی گناہگار، گناہ کرنے والا۔ پس ہمیں ہر وقت اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ ہم سچائی کے کس اعلیٰ معیار ہیں یا سچائی کے اس اعلیٰ معیار پر قائم ہیں جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا جس کے بارے میں آپؐ نے یہ فرمایا کہ یہ جنت کی طرف لے جاتی ہے۔

( سنن ابی داؤد کتاب الادب باب فی التشدید فی الکذب حدیث4989)

پھر ایک برائی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خاص طور پر بیان فرمائی ہے، اپنے ماننے والوں کو اس سے بچنے کی خاطر خاص طور پر نصیحت فرمائی ہے بلکہ بیعت کی شرائط میں سے بھی ہے وہ زنا ہے۔

(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد3 صفحہ563)

اب زنا صرف ظاہری زنا نہیں ہے جو ظاہری غلط جنسی تعلقات کی وجہ سے زنا ہوتا ہے بلکہ آپؑ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جو فرماتا ہے کہ وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا۔ یعنی ’’زنا کے قریب مت جاؤ یعنی ایسی تقریبوں سے دور رہو‘‘ ایسے کوئی بھی مواقع سے دُور رہو ’’جن سے یہ خیال بھی دل میں پیدا ہو سکتا ہو‘‘ عملاً نہیں بلکہ خیال بھی دل میں پیدا ہوتا ہو توان راہوں کو اختیار نہ کرو۔ فرمایا ’’اور ان راہوں کو اختیار نہ کرو جن سے اس گناہ کے وقوع کا اندیشہ ہو۔‘‘

(اسلامی اصول کی فلاسفی روحانی خزائن جلد10 صفحہ342)

کوئی بھی امکان ہو، کوئی بھی خطرہ ہو کہ انسان زنا کی طرف جا سکتا ہے۔ آجکل کے زمانے میں ٹی وی ہے انٹرنیٹ ہے اس پر ایسی غلط قسم کی فلمیں دکھائی جاتی ہیں جن میں کھلے عام زنا کی تحریک کی جاتی ہے۔ پس ایسی چیزوں سے بچنا ہر احمدی کا کام ہے۔ کئی گھروں میں اس وجہ سے لڑائی جھگڑے ہیں، کئی گھر اس وجہ سے ٹوٹ رہے ہیں یا ٹوٹ چکے ہیں کہ خاوند جو ہے بیٹھا ہے فلمیں دیکھ رہا ہے یا انٹرنیٹ پر بیٹھا ہوا ہے اور غلط سوچیں پیدا ہو رہی ہیں۔ کئی نوجوان اس وجہ سے برباد ہو رہے ہیں اور غلط صحبت میں پڑ رہے ہیں کیونکہ ننگی اور غلط فلموں کو دیکھنے کی عادت ہے۔ یہ نام نہاد ترقی یافتہ معاشرہ اس کو آزاد خیالی اور ترقی سمجھتا ہے لیکن ہم نے اپنے آپ کو ان برائیوں سے بچانا ہے۔ خود یہ لوگ اب کہتے ہیں کہ اس کے نقصانات ہیں اور اگر آپ خود جاکے پورنوگرافی کی فلموں کی انفارمیشن لیں تو اس میں آپ کو یہ مل جائے گا کہ یہ زنا کی طرف لے جا رہا ہے، ڈومیسٹک وائلنس (domestic violence)کی طرف لے کے جا رہی ہے۔ اور غلط تعلقات ہو رہے ہیں۔ بچوں سے زیادتی کے واقعات ہو رہے ہیں اور یہ سب ان گندی فلموں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ خیال بھی دل میں نہ آئے۔اگر خیال بھی دل میںآتا ہے تو اس سے بچو ۔ تو اب یہ ثابت ہو رہا ہے کہ ان چیزوں کو دیکھنے سے یہ سب کچھ غلط ہو رہا ہے۔ پس ایک احمدی کو خاص طور پر ان چیزوں سے بچنا چاہئے۔

پھر ایک حقیقی احمدی بننے کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہر قسم کے ظلم سے بچنے کی طرف بھی خاص توجہ خاص طور پر دلائی ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ اگر میری طرف منسوب ہونا ہے تو پھر کسی شرارت اور ظلم اور فساد اور فتنہ کا خیال بھی دل میں نہ لاؤ۔

(ماخوذ از مجموعہ اشتہارات جلد3 صفحہ46-47)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ سب سے بڑا ظلم کون سا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے بھائی کے حق میں سے ایک ہاتھ زمین دبا لے یعنی اس پہ قبضہ کر لے۔ اس زمین کا ایک کنکر بھی جو ہے، ایک چھوٹا سا ٹکڑا جو دو انگلیوں میں آ جاتا ہے جو اس نے ظلم کی وجہ سے لیا ہو گا، کسی چھوٹی سے چھوٹی چیز کو بھی قبضہ کیا ہو گا تو اس کے نیچے کی زمین کے تمام طبقات یعنی اس زمین کے نیچے زمین کی جتنی تہیں ہیں ان کے طوق بنا کر اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔ جب اس کا حساب کتاب ہو گا ایک ہار بنایا جائے گا اور وہ ہار گلے میں ڈال دیا جائے گا۔

(مسند احمد بن حنبل جلد2 صفحہ59-60 مسند عبد اللہ بن مسعود حدیث3767)

اب زمین کے نیچے ایک سرے سے دوسرے سرے تک ہزاروں میل کے طبقات میں، اب انسان یہ تصور کرے کہ اس وجہ سے کتنے بڑے بوجھ انسان پر ڈلیں گے۔ اتنی بڑی سزا ہے کہ اس کا تصوّر بھی انسان نہیں کر سکتا۔ پس کسی کے حقوق دبانا بہت بڑا ظلم اور گناہ ہے۔ غیروں کو ہم اسلام کی خوبیاں بتاتے ہیں تو کہتے ہیں کہ بندوں کے حقوق کی ادائیگی کے اعلیٰ ترین معیار اسلام کی تعلیم میں ہیں۔ اسلام حقوق لینے کی بجائے حقوق کی ادائیگی کی طرف توجہ دلاتا ہے۔ لوگوں کو تو ہم بڑے بڑھ بڑھ کے یہ باتیں کہتے ہیں اور اگر ہمارے عمل اس سے مختلف ہیں تو ہم گناہگار ہیں اور جھوٹ بول رہے ہیں۔ پس اس کا بھی باریکی کے ساتھ ہر احمدی کو جائزہ لینا چاہئے۔ ہمارے عمل ہماری تعلیم کے مطابق ہوں گے تو ہماری تبلیغ بھی پھل دار ہو گی۔ ہمارے اثرات لوگوں پر اچھے ہوں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو معیار مقرر فرمایا ہے اور جیسا کہ یہ بیان ہوا ہے کہ ظلم کا خیال بھی دل میں نہیں لانا کجا یہ کہ کسی پر کسی بھی طرح ظلم کیا جائے۔

پھر اللہ تعالیٰ کی عبادت ایک مومن ہونے کی اہم شرط ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش کا مقصد بھی عبادت قرار دیا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’اے وے تمام لوگو! جو اپنے تئیں میری جماعت شمار کرتے ہو آسمان پر تم اس وقت میری جماعت شمار کئے جاؤ گے جب سچ مچ تقویٰ کی راہوں پر قدم مارو گے سو اپنی پنجوقتہ نمازوں کو ایسے خوف اور حضور سے ادا کرو کہ گویا تم خدا تعالیٰ کو دیکھتے ہو۔‘‘

(کشتی نوح روحانی خزائن جلد19 صفحہ15)

پھر آپؑ نے فرمایا نماز ہر ایک مسلمان پر فرض ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک قوم اسلام لائی اور عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز معاف فرما دی جائے کیونکہ ہم کاروباری آدمی ہیں، ہمارا پانچ وقت نمازیں پڑھنا بڑا مشکل کام ہے۔ مویشی وغیرہ بھی ہمارے ساتھ ہیں، بڑے بڑے herd رکھے ہوئے ہیں جو چراتے ہیں۔ باہر کا کام ہے، محنت کا کام ہے۔ کپڑے بھی ہمارے خراب ہو جاتے ہیں اس کا اعتماد کوئی نہیں ہے اور پھر یہ ہے کہ اس مصروفیت کی وجہ سے فرصت بھی نہیں ہوتی کہ پانچ نمازیں ادا کریں تو آپؐ نےان کو جواب میں فرمایا کہ دیکھو جب نماز نہیں ہے تو ہے ہی کیا۔ وہ دین ہی نہیں جس میں نماز نہیں۔ فرماتے ہیں نماز کیا ہے؟ یہی کہ اپنے عجز و نیاز اور کمزوریوں کو خدا کے سامنے پیش کرنا اور اسی سے اپنی حاجت روائی چاہنا، اُسی سے مانگنا۔ فرماتے ہیں خدا کی محبت ،اس کا خوف، اس کی یاد میں دل لگا رہنے کا نام نماز ہے اور یہی دین ہے۔ فرماتے ہیں کہ پھر جو شخص نماز سے ہی فراغت حاصل کرنی چاہتا ہے تو اس نے حیوانوں سے بڑھ کر کیا کیا۔ اس کی پھر جانوروں والی حالت ہے۔ وہی کھانا پینا اور حیوانوں کی طرح سو رہنا یہ تو دین ہرگز نہیں۔ یہ سیرت کفار ہے۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد5 صفحہ253-254۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پس حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے واضح طور پر فرما دیا کہ جانور اور انسان میں فرق کرنے والی چیز جو ہے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور نماز ہے۔ اگر ہم میں نماز پڑھنے کی طرف توجہ نہیں ہو رہی تو خود ہی اندازہ کر سکتے ہیں کہ کس زمرے میں آتے ہیں۔ کئی مرتبہ میں اس طرف توجہ دلا چکا ہوں اور دلاتا رہتا ہوں کہ اگر نماز سینٹر یا مسجد دُور ہے تو قریب کے چند گھر آپس میں مل کر ایک جگہ مقرر کر لیں جہاں نماز ادا کی جا سکتی ہو۔ اس سے جہاں نماز باجماعت کا ثواب ملے گا وہاں نمازوں کی طرف توجہ بھی رہے گی اور اگلی نسلوں کو بھی اس حوالے سے توجہ رہے گی اور ان کی اصلاح ہوتی رہے گی۔ ان کی بھی نمازوں کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ ہم مسجد بنانے کی طرف توجہ کر رہے ہیں، مسجدیں بنا رہے ہیں۔ اب کل ورجینیا میں انشاء اللہ تعالیٰ مسجد کا افتتاح ہو گا لیکن اگر ہمارا عبادتوں کی طرف رجحان نہیں ہے تو ان مسجدوں کے بنانے کا کیا فائدہ؟ میں بار بار کہتا ہوں کہ اگر عہدے دار، ہر تنظیم کے عہدے دار اور جماعتی سطح کے عہدیدار ہر سطح پر نمازوں کی حاضری کی طرف بھرپور توجہ دیں تو حاضری کئی گنا بہتر ہوسکتی ہے اور ہماری اگلی نسلوں کی بھی تربیت ہو سکتی ہے۔

نماز کی اہمیت کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ارشاد ایسا ہے جو یقیناً ہمارے دلوں کو ہلا دینے والا ہے۔ آپؐ فرماتے ہیں کہ قیامت کے دن سب سے پہلے جس چیز کا بندوں سے حساب لیا جائے گا وہ نماز ہے۔ اگر یہ حساب ٹھیک رہا تو وہ کامیاب ہو گیا اور نجات پا لی اگر یہ حساب خراب ہوا تو وہ ناکام ہو گیا اور گھاٹے میں رہا۔

(سنن النسائی کتاب الصلاۃ باب المحاسبۃ علی الصلاۃ حدیث466)

پس یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ نماز پر توجہ کا جو حق ہے وہ ادا نہ کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو یہ حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور حق صرف فرض نمازوں سے ہی ادا نہیں ہوگا بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ تہجد اور نفل پڑھنے کی طرف بھی توجہ ہونی چاہئے۔( ماخوذ از ملفوظات جلد3 صفحہ245۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تمہارے فرائض نمازوں میں جو بعض دفعہ کمی رہ جاتی ہے اللہ تعالیٰ انہیں نفلوں کے ذریعہ سے پوری فرما دیتا ہے۔ (سنن النسائی کتاب الصلاۃ باب المحاسبۃ علی الصلاۃ حدیث466)اگر نفلوں کی عادت ہو۔ پس نوافل اور تہجد کی ادائیگی بھی اہم چیز ہے۔ اس کی طرف توجہ ہونی چاہئے۔

پھر ایک انتہائی ضروری بات جس پر ہر احمدی کو نظر رکھنی چاہئے وہ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کی طرف مستقل توجہ ہے۔ انسان کمزور ہے۔ بعض دفعہ غلطیوں سے بچنے کی کوشش کے باوجود غلطیاں ہو جاتی ہیں اور اللہ تعالیٰ ایسا نہیں ہے کہ اپنے بندوں کی صرف غلطیوں کو پکڑنے والا ہے اور سزا دینے والا ہے یا اس نے انہی پر نظر رکھی ہوئی ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ان غلطیوں کی معافی اور آئندہ ان سے بچنے کا طریقہ بھی ہمیں بتایا ہے اور وہ استغفار ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ لوگوں کو عذاب دے جبکہ وہ استغفار کر رہے ہوں۔(الانفال34:)

چند لوگ بھی استغفار کرنے والے ہوں تو بہت ساروں کی سزا معاف ہو جاتی ہے ان کی وجہ سے دوسرے بھی بچائے جاتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس بارے میںفرماتے ہیں کہ بعض آدمی ایسے ہیں کہ ان کو گناہ کی خبر ہوتی ہے اور بعض ایسے ہیں کہ ان کو گناہ کی خبر بھی نہیں ہوتی اس لئے اللہ تعالیٰ نے ہمیشہ کے لئے استغفار کا التزام کروایا ہے۔ خبر ہو یا نہ ہو انسان استغفار کرتا رہے کوئی پتہ نہیں کس وقت کیا غلطی ہو رہی ہے، انجانے میں گناہ ہو جاتے ہیں۔ فرمایا کہ استغفار کا التزام کروایا ہے کہ انسان ہر ایک گناہ کے لئے خواہ وہ ظاہر کا ہو خواہ باطن کا اسے علم ہو یا نہ ہو اور ہاتھ اور پاؤں اور زبان اور ناک اور کان اور آنکھ اور سب قسم کے گناہوں سے استغفار کرتا رہے۔ یعنی انسان کے سارے جو اعضاء ہیں، مختلف اعضاء ہیں وہ گناہ کا ذریعہ بن جاتے ہیں۔ اس لئے ہرایک عضو کو گناہ سے بچانے کے لئے استغفار کرتے رہو۔ گناہ کا ذریعہ بن جاتے ہیں اس لئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی پناہ میں رہنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے یہ دعا سکھائی کہ اس زمانے میں، جو آجکل کا زمانہ ہے قرآن کریم کی یہ دعا پڑھتے رہنا چاہئے اور وہ دعا ہے

رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد4 صفحہ275)

کہ اے اللہ ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا اگر تو ہمیں نہ بخشے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو ہم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔

رَبَّنَا ظَلَمْنَآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ۔

(الاعراف24:)

آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’جب خدا سے طاقت طلب کریں یعنی استغفار کریں تو روح القدس کی تائید سے ان کی کمزوری دور ہو سکتی ہے۔‘‘

(کشتی نوح روحانی خزائن جلد19 صفحہ34)

پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ماننے والوں کے لئے یہ بھی بنیادی شرط رکھی ہے کہ وہ حقوق العباد کی ادائیگی کرنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو کسی بھی قسم کی تکلیف پہنچانے سے گریز کریں۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام جلد3 صفحہ564)

آپؑ نے ہمیں ہر وقت اپنے دلوںکو ٹٹولنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کیا تمہارے اندر اللہ تعالیٰ کا خوف، اس کی خشیت اور اس کے نتیجہ میں اس کی مخلوق کی ہمدردی اور خیر خواہی ہے؟ ایک حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آپس میں حسد مت کرو۔ آپس میں نہ جھگڑو۔ آپس میں بغض نہ رکھو۔ ایک دوسرے سے دشمنیاں مت رکھو۔ اور تم میں سے کوئی ایک دوسرے کے سودے پر سودہ نہ کرے۔ آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔ مسلمان اپنے بھائی پر ظلم نہیں کرتا۔ اسے ذلیل نہیں کرتا۔ اور اسے حقیر نہیں جانتا۔ کسی آدمی کے شرّ کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کو حقیر جانے۔ ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہے۔

(صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ باب تحریم ظلم المسلم… حدیث6541)

یہ وہ بات ہے جو آج سب سے زیادہ ہم احمدیوں سے ظاہر ہونی چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے کافی حد تک ہو رہی ہے۔ اگر تمام مسلمان آج اس حقیقت کو سمجھ لیں اور اس پر عمل کرنے والے ہوں اور مسلمانوں کی حکومتیں اس پر عمل کرنے والی ہوں تو آجکل مسلمان مسلمان پر جو ظلم کر کے ان کے جان و مال کو تباہ کر رہا ہے، ہزاروں لاکھوں بچے یتیم ہو رہے ہیں، لاکھوں عورتیں بیوہ ہو رہی ہیں ،بوڑھے مر رہے ہیں یہ کچھ بھی نہ ہو۔

پھر تکبّر ایک بہت بڑی برائی ہے جس سے بچنے کی اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن کریم میں تلقین فرمائی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں بہت توجہ دلائی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں نہیں جا سکے گا۔

(صحیح مسلم کتاب الایمان باب تحریم الکبر وبیانہ حدیث267)

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:

’’میرے نزدیک پاک ہونے کا یہ عمدہ طریق ہے اور ممکن نہیں کہ اس سے بہتر کوئی اور طریق مل سکے کہ انسان کسی قسم کا تکبر اور فخر نہ کرے نہ علمی ،نہ خاندانی ،نہ مالی۔‘‘

(ملفوظات جلد7 صفحہ276۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر آپؑ فرماتے ہیں:

’’مَیں اپنی جماعت کو نصیحت کرتا ہوں کہ تکبر سے بچو کیونکہ تکبر ہمارے خداوند ذوالجلال کی آنکھوں میںسخت مکروہ ہے۔‘‘

(نزول المسیح روحانی خزائن جلد18 صفحہ402)

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا تھا کہ تم تمام انسان خواہ کسی قوم اور کسی حیثیت کے ہو انسان ہونے کے لحاظ سے ایک درجہ رکھتے ہو۔ سب برابر ہو۔ اور کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پراور عرب کو غیر عرب پر اور غیر عرب کو عرب پر کوئی برتری نہیں ہے۔

(الجامع لشعب الایمان جلد7 صفحہ132 حدیث4774مکتبۃ الرشد ناشرون 2003ء)

پس ہمارے لئے تو عاجزی کی یہ تعلیم ہے، برابری کی یہ تعلیم ہے۔ تکبر سے بچنے کی اور فخر سے بچنے کی یہ تعلیم ہے جس پر ہر ایک کو ہم میں عمل کرنا چاہئے۔ غیر مسلم دنیا میں تو گورے کالے کا فرق کیا جاتا ہے اور اب یہ دعویٰ بھی بعض سفید فام لیڈر کرتے ہیں کہ سفید فام کی جو دماغی استعدادیں ہیں اور صلاحیتیں ہیں وہ غیر سفید فام سے زیادہ ہیں۔ یہ ان کے تکبر کی حالت ہے۔ ہر احمدی کو اس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

دو مختلف مواقع پر میرے ساتھ مجالس میں یہاں امریکہ کی لڑکیوں کی طرف سے یہ اظہار کیا گیا ہے کہ جماعت میں بعض قسم کا نسلی امتیاز ہے۔ اگر کسی بھی وجہ سے نوجوان نسل میں یہ خیال پیدا ہو رہا ہے تو انتہائی غلط ہے۔ لجنہ کو بھی، خدام کو بھی، انصار کو بھی اور جماعتی تربیتی نظام کو بھی اس بات کا جائزہ لینا چاہئے کہ یہ سوال کیوں اٹھ رہے ہیں۔ اور اگر اس میں کوئی حقیقت ہے تو حکمت سے اور پیار سے یہ خیالات اور احساسات دور کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور تربیت بھی کرنی چاہئے۔ کسی بھی تنظیم اور عہدیدار کو جلد بازی سے اس بارے میں کام لینے یا فیصلہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے یا اس جستجو میں نہ پڑ جائے کس نے کہا اور کس نے نہیں کہا بلکہ یہ دیکھیں کہ کیا حقیقت ہے یا نہیں ہے۔ پس یہ دیکھنا چاہئے کہ حقیقت ہے یا اگر نہیں ہے تو کیوں سوال اٹھ رہے ہیں۔ ذاتی رنجشیں تو نہیں ہیں جس کی وجہ سے یہ باتیں پیدا ہو رہی ہیں۔ بہرحال جو بھی وجہ ہے پیار اور حکمت سے اس برائی کو ہمیں اپنے اندر سے نکالنا چاہئے۔ یہاں جس بچی نے مجھے یہ کہا تھا اسے بھی میں نے یہی کہا ہے کہ مجھے تفصیل لکھ کر بھیجے کہ کس وجہ سے تمہارے اندر یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ جماعت میں نسلی امتیاز پیدا ہو رہا ہے۔ بہرحال یہ بھی تکبر کی ایک قسم ہے اور ہم نے ہر قسم کے تکبر سے بچنا ہے۔

ایک بات جس کی طرف حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے توجہ دلائی اور جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے بھی حکم فرمایا ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی ارشادات ہیں وہ مالی قربانی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا بھر کی جماعتیں مالی قربانیوں میں بڑھ رہی ہیں۔ ہنگامی اور وقتی مالی قربانی میں امریکہ کی جماعتیں بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بھرپور حصہ لینے کی کوشش کرتی ہیں لیکن جوچندہ آمد وغیرہ کا باقاعدہ مالی نظام ہے ،اس میں یہاں بھی جو اعداد و شمار سامنے آتے ہیں یا آ رہے ہیں اس کو دیکھنے سے پتہ لگتا ہے کہ بہت کمی ہے۔ اس طرف توجہ کی ضرورت ہے۔ ایک غریب شخص تو اپنی مجبوری بتا کر چندے کی ادائیگی کم کرنے یا شرح کم کرنے کے لئے کہہ سکتا ہے، اجازت لے سکتا ہے لیکن جو اچھی آمد کے لوگ ہیں ان کو اپنے جائزے لینے چاہئیں کہ وہ اپنی آمد کے مطابق چندہ دے رہے ہیں یا نہیں۔ صرف یہ نہیں کہ جس طرح ٹیکس دینے کے لئے بہت ساری کٹوتیاں کر لیتے ہیں چندے کے لئے بھی کر لیں۔ اپنی آمد کو دیکھیں۔ کیونکہ یہ چندے کا معاملہ خدا تعالیٰ کے ساتھ معاملہ ہے۔ سیکرٹری مال کو یا نظام کو تو پتہ نہیں ہے کہ کسی کی آمد کیا ہے جو چندہ دے رہا ہے۔ لیکن خدا تعالیٰ کو تو پتہ ہے ۔وہ تو دلوں کا حال جانتا ہے۔ اگر صحیح شرح سے چندہ دینا شروع کریں تو میں سمجھتا ہوں کہ مساجد کی تعمیر اور دوسرے جماعتی کاموں کے لئے پھر بہت کم علیحدہ تحریک کرنی پڑے گی۔ پس اس لحاظ سے اپنے جائزے لیں اور اپنے چندہ عام کے بجٹ کا دوبارہ جائزہ لے کر لکھوائیں، جنہوں نے کم لکھوائے ہوئے ہیں۔

میں مختلف ملکوں کے نومبائعین کے واقعات بھی بیان کرتا رہتا ہوں کہ کس طرح وہ احمدیت قبول کرنے کے بعد اپنے اندر تبدیلیاں پیدا کر رہے ہیں، روحانی تبدیلیاں بھی پیدا کر رہے ہیں عملی طور پر عبادتوں کی طرف بھی توجہ کر رہے ہیں اور مالی قربانیوں کی بھی اہمیت کو سمجھ رہے ہیں۔ اور پھر اللہ تعالیٰ بھی باوجود ان کی غربت کے ان کو مالی کشائش عطا فرما رہا ہے اور اس وجہ سے وہ اپنے ایمان اور اخلاص میں بڑھ رہے ہیں۔ قربانی کا لفظ ہی واضح طور پر یہ معنی دیتا ہے کہ اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال کر کوئی کام کرنا اور یہاں تکلیف میں ڈال کر اللہ تعالیٰ کے دین کی ضروریات کے لئے دینا۔ پس جو صرف اپنی سہولت سے تھوڑا بہت دے کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے قربانی کی وہ قربانی نہیں ہے نہ ہی ایسے لوگوں کا کوئی اللہ تعالیٰ پر احسان ہے۔ اگر وہ نہ بھی دیں گے تو بھی اللہ تعالیٰ دین کی ضروریات پورا کرنے کے سامان کردے گا اور کرتا رہتا ہے اور کر رہا ہے اور کرتا رہے گا انشاء اللہ۔ پس میں ان لوگوں کو جو کشائش ہونے کے باوجود اپنی آمدنی کے مطابق چندہ نہیں دیتے توجہ دلانی چاہتا ہوں تا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے وارث بنیں۔

آج آخری بات جس کی طرف میں توجہ دلانی چاہتا ہوں وہ اطاعت ہے۔ قرآن کریم میں بے شمار جگہ پر اللہ اور رسول کی اطاعت کا حکم آیا ہے اور پھر اولی الامر کی اطاعت کا بھی حکم ہے۔ پھر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی شرط بیعت میں بھی اطاعت کے بارے میں شرط رکھی ہے، شرائط بیعت میں شرط رکھی ہے کہ اطاعت در معروف کے اقرار پر مرتے دم تک قائم رہیں گے۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد3 صفحہ564)

ہمارے، مختلف تنظیموں کے جو عہد ہیں ان عہدوں میں یہ الفاط ہیں کہ خلیفہ وقت جو بھی معروف فیصلہ کریں گے اس کی پابندی کرنی ضروری سمجھوں گا۔ بعض ٹیڑھے مزاج کے لوگ یا منافقانہ سوچ رکھنے والے لوگ یہ کہتے رہتے ہیں کہ معروف فیصلہ پر عہد ہے اور بعض یہ کہتے ہیں کہ خلیفہ وقت کے بعض فیصلے معروف نہیں ہوتے یا بعض ان کی نظر میں معروف نہیں ہیں۔ یہ تاویلیں پیش کر دیتے ہیں، دنیا میں مختلف جگہوں پر یہ سوچ ہے۔ بیشک اگر ایک دو ہی ہوں، شاید لاکھ میں سے ایک ہو لیکن اس سوچ کا ردّ ضروری ہے کیونکہ نوجوان نسل کو پھر یہ سوچ زہر آلود کرتی ہے۔ اگر اس طرح پر کوئی خود معروف فیصلے کی تشریح کرنے لگ جائے تو پھر جماعت کی وحدت قائم نہیں رہ سکتی۔ پھر اس بات پر بحث شروع ہو جائے گی کہ کیا معروف ہے اور کیا غیرمعروف ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاول نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے ایک جگہ فرمایا کہ

’’ایک اور غلطی ہے وہ اطاعت در معروف کے سمجھنے میں ہے۔‘‘ کہ معروف فیصلے کی اطاعت کرنا۔ فرمایا ’’کہ جن کاموں کو ہم معروف نہیں سمجھتے اس میں اطاعت نہ کریںگے۔‘‘ آپ ؓفرماتے ہیں کہ ’’یہ لفظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی آیا ہے۔‘‘ اور قرآن کریم میں آتا ہے کہ ’’وَلَایَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ۔‘‘اور معروف باتوں میں تیری نافرمانی نہیں کریں گے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’اب کیا ایسے لوگوں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عیوب کی بھی کوئی فہرست بنا لی ہے۔‘‘ (حقائق الفرقان جلد4 صفحہ75-76 زیر آیت الممتحنۃ13: زیر لایعصینک فی معروف)کہ کون سی بات آپ صحیح کہیں گے اور کون سی غلط کہیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام امر بالمعروف کی تفسیر میں یہ فرماتے ہیں کہ:

’’یہ نبی ان باتوں کے لئے حکم دیتا ہے جو خلاف عقل نہیں ہیں۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد21 صفحہ420)

یعنی معروف باتیں وہ ہیں جو خلاف عقل نہیں ہیں اور وہ قرآن کریم کے حکموں کے مطابق بھی ہیں۔ پھر ایک حدیث میں واقعہ آیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ ایک قافلہ بھیجا۔ وہاں پہنچ کر ایک جگہ لوگوں نے آگ جلائی تو جوامیر قافلہ تھا اس نے ازراہ مذاق کہہ دیا کہ اگر میں تمہیں اس آگ میں کودنے کا حکم دوں تو کود جاؤ گے؟ بعض لوگوں نے کہا بالکل غلط چیز ہے، یہ تو خود کشی ہے۔ بعض نے کہا امیر کی اطاعت ضروری ہے۔ لیکن بہرحال بعد میں اس نے کہا میں مذاق کر رہا تھا۔ معاملہ ختم ہو گیا۔ مدینہ واپس پہنچے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ واقعہ بتایا تو آپؐ نے فرمایا کہ امراء میں سے جو شخص تمہیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم دے اس کی اطاعت نہ کرو۔

(سنن ابی داؤد کتاب الجہاد باب فی الطاعۃ حدیث2625)

یہ معروف کی تفصیل ہے کہ جو اللہ کا حکم ہے اس کے خلاف اگر حکم ہے تو وہ معروف نہیں ہے۔ لیکن جو اللہ اور اس کے رسول کے احکامات ہیں، ان کے مطابق حکم ہے تو وہ معروف ہے۔ اور پس یہ واضح ہو گیا کہ طاعت در معروف یا معروف فیصلہ جس کی پابندی ضروری ہے وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات ہیں۔ اور پھر اس کے رسول کے احکامات ہیں۔ پس جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق حقیقی خلافت قائم ہے اور یہ انشاء اللہ قائم رہنی ہے تو یہ خلافت جو ہے کبھی بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکموں کے خلاف فیصلہ نہیں کرے گی، جو قرآن اور سنت ہے اس کے مطابق ہی چلے گی۔

یہ الفاظ طاعت در معروف یا معروف فیصلہ کی اطاعت کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں استعمال کئے جیسا کہ بیان ہوا۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اپنی شرائط بیعت میں اس کو رکھا ہے اور خلافت احمدیہ میں بھی ہر عہد میں یہ شامل کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو جاری کرنا اور جماعت کو اس کی تلقین کرنا اور ہر شخص جو اپنے آپ کو جماعت کا حصہ سمجھتا ہے اس کا یہ فرض ہے کہ اس عہد کی پابندی کرتے ہوئے خلیفہ وقت کی جو جماعت سے متعلق ہدایات ہیں ان پر عمل کرے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے بھی یہی فرمایا ہے کہ یہ کبھی نہیں ہو سکتا، اگر کبھی کوئی غلط ہدایت ہو گی بھی تو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خلافت کی حفاظت کرنی ہے اس لئے اس کے نتائج اللہ تعالیٰ کبھی برے نہیں ہونے دے گا اور ایسے حالات پیدا کر دے گا کہ اس کے بہتر نتائج پیدا ہوں۔

(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد6 صفحہ376-377زیر آیت النور56:)

اس لئے معروف فیصلہ کی تشریح کرنا کسی شخص کا کام نہیں ہے معروف فیصلہ وہ ہے جو قرآن کے مطابق ہے اور سنت کے مطابق ہے اور حدیث کے مطابق ہے اور اس زمانے کے حکم عدل کے احکامات کے مطابق ہے۔ اور یہی وہ ذریعہ ہے جس سے جماعت کی وحدت قائم رہ سکتی ہے۔ اور یہی وہ مقصد ہے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے کہ وحدت پیدا کی جائے اور مخلصین اور اطاعت گزار لوگوں کی ایک جماعت پیدا ہو۔ ورنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے واضح فرمایا ہے کہ مجھے تعداد بڑھانے سے کوئی غرض نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد بڑھاتا رہوں، جو میرے ساتھ شامل ہوتے رہیں لیکن اطاعت کرنا نہ جانتے ہوں۔ آپؑ نے فرمایا کہ اگر میری طرف منسوب ہونے والوں اور میری بیعت میں آنے والوں کی اصلاح نہیں ہوتی اور وہ اللہ اور اس کے رسول کی تعلیم کے مطابق اپنی زندگیاں نہیں گزارتے تو ایسی بیعت بے فائدہ ہے۔

(ماخوذ از مواہب الرحمن روحانی خزائن جلد19 صفحہ276)(ماخوذ از ملفوظات جلد6صفحہ142، ملفوظات جلد10 صفحہ334)

پس ہمارے احمدی ہونے کا فائدہ تبھی ہے جب ہم اس حقیقت کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اپنی تمام تر صلاحیت کے ساتھ کوشش کریں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:۔
’’اطاعت کوئی چھوٹی سی بات نہیں اور سہل امر نہیں۔‘‘ یہ کوئی اتنا آسان کام نہیں ہے ’’یہ بھی ایک موت ہوتی ہے…‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ74 حاشیہ۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

جو شخص پورے طور پر اطاعت نہیں کرتا وہ اس سلسلہ کو بدنام کرتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ74۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

آپ فرماتے ہیں کہ:

’’میں نے بارہا اپنی جماعت کو کہا ہے کہ تم نِرے اس بیعت پر ہی بھروسہ نہ کرنا اس کی حقیقت تک جب تک نہ پہنچو گے‘‘ یعنی بیعت کی حقیقت تک ’’تب تک نجات نہیں۔ ‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ232-233۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلام کی حقیقی تعلیم کو سمجھتے ہوئے اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آنے کے حق کو ادا کرنے والے ہم ہوں اور ہمیشہ خلافت سے مکمل اطاعت کے ساتھ وابستہ رہیں اور خلیفہ وقت کے تمام معروف فیصلوں پر سچے دل کے ساتھ اور کامل اطاعت کے ساتھ عمل کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق دے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button