متفرق مضامین

وہ جس پہ رات ستارے لئے اترتی ہے (قسط پانزدہم۔ آخری)

(آصف محمود باسط)

خلیفۂ وقت کا اپنی جماعت کے ہر فرد کے ساتھ جو تعلق ہے، اس کی بنیاد محبت، شفقت اور ہمدردی پر ہی ہوتی ہے۔ اگر کہیں کسی سے بظاہر ناراضگی ہو بھی تو اس کا رنگ بالعموم ایسا ہی ہوتا ہےجیسے والدین اپنے بچے سے اس کی اصلاح کی خاطر ناخوشی کا اظہار کریں۔ اسے توجہ بھی دلا دی جائے اور اسے معاملہ کی سنگینی کا بھی اندازہ ہو، تاکہ آئندہ احتیاط کرے۔ خلیفۂ وقت کے دل میں نفرت نام کی چیز تو ہوتی ہی نہیں۔

گزشتہ جلسہ سالانہ کے موقع پر ہم ایک پروگرام بنارہے تھے جس میں ایک ادارہ کی تاریخ کے حوالہ سے مختلف احباب کے انٹرویو ریکارڈ کرنے تھے۔ ایک صاحب ایسے تھے جو ابتدا سے اس ادارہ کے فعال رکن رہے تھے مگر پھر حالات کچھ ایسے ہوگئے کہ ان کا تعلق اس ادارہ سے منقطع ہوگیا ۔ عام تأثر یہی تھا کہ یہ انقطاع ناخوشگوار حالات میں ہوا تھا(یہ 1994ءکی بات ہے)۔سمجھ نہیں آتا تھا کہ اجازت مانگنا مناسب بھی ہو گا یا نہیں۔ مگر ایک دن ہمت کر کے عرض کرہی دی کہ ان صاحب کا انٹرویو ریکارڈ کرنا بھی مفید ہو سکتا ہے، مگر۔۔۔

فرمایا’’مگر کیا؟ جو اُن کا کردار رہا ہے ، اس سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا۔ وہ (اس ادارہ کی) ابتدا سے اس کے ساتھ تھے، ان کے پاس جو معلومات ہیں وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ ان سے کیوں محروم رہا جائے۔ ضرور کرو!‘‘

ہم نے یہ انٹرویو ریکارڈ کرلیا اور اللہ کے فضل سے بہت ابتدائی دَور کی باتیں ریکارڈ اور تاریخ کا حصہ بن گئیں۔اور ساتھ یہ بھی معلوم ہوگیا کہ خلیفۂ وقت کے فیصلوں کو کبھی اپنی محدود عقل اور فہم کے مطابق خود ہی تصور نہیں کرلینا چاہیے۔ وہاں وہ متوسّط راہیں ہیں جن پر چلنے کے لئے ہمیں ہر دم اسی ہستی کی طرف دیکھنے کی ضرورت ہے۔

میں نے ان صاحب کو بتایا کہ حضور انورنے ان کے انٹرویو کی اجازت دی ہے تو وہ خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔ ان کی آنکھوں سے آنسو رواں تھے۔ انہوں نے بتایا کہ کچھ روز قبل وہ ملاقات کے لئے بھی حاضر ہوئے تھے۔اپنی ملاقات کا احوال بھی سناتے رہے۔ ساتھ روتے جاتے اور بتاتے جاتے کہ اس ملاقات میں حضور نے ان سے کس قدر شفقت کا سلوک فرمایا تھا۔اس کےدو ماہ بعد اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ الحمد للہ کہ زندگی کی ڈھلتی شام میں اپنے امام کو خود سے خوش دیکھ کر گئے۔ان کا انٹرویوایم ٹی اے پر آگیا۔ ساری دنیا نےانٹرویو تو دیکھ ہی لیامگر ساتھ یہ بھی دیکھ لیا کہ خلیفۂ وقت کی ذات سراپا شفقت اور محبت ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو کبھی ایک لمحہ کے لئے بھی اس شفقت اور محبت سے محروم نہ کرے۔

… … … … … … … … …

اسی سے ملتا جلتا ایک اور واقعہ یاد آتا ہے۔ ایک نوجوان ہمارے ایم ٹی اے کے پروگراموں میں آتے تھے ۔ایک مرتبہ کسی پروگرام میں ان کی شمولیت کی منظوری چاہی۔ حضور کے جواب سے محسوس ہوا کہ ان سےمتعلق کچھ شکایت حضور کے علم میں آئی ہے لہذا فی الحال کسی اور کو لے لیا جائے۔یوں کچھ عرصہ وہ ہمارے پروگراموں میں نہ آئے۔ میں پوچھنے سے بھی گریز کرتا رہا۔ ایک روز کسی پروگرام کے لئے خاکسار کو لگا کہ ان کی شمولیت اچھی ہوسکتی تھی۔ نام تجویز کئے تو عرض کر دی کہ وہ نوجوان مناسب ہوسکتے تھے، مگر شایدان کا کوئی مسئلہ تھا۔ فرمایا ’’وہ بات تو اب ختم ہو گئی ۔

جَزَاءُ سَیِّئّۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُہَا ۔

اب بے شک بلالو۔‘‘

جہاں اس کی اصلاح ضروری خیال فرمائی وہاں اصلاح فرمادی۔ اور پھرجب وہ معاملہ گزر گیا تو گزرگیا۔مَیں عینی شاہد ہوں کہ حضور کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اس نوجوان کی اصلاح کا سامان فرمایااور اس کی طبیعت میں ایک بہت مثبت تبدیلی آگئی۔ہمارے لئے بھی سبق کا سامان پیدا ہوا کہ حضور معالج ہیں۔ کبھی دوا کڑوی بھی لگے، تو یہ یاد رہنا چاہیے کہ ہمارا کوئی مرض ہے جس کے علاج کے لئے جو دوا دی گئی ہے، اس کا ذائقہ جیسا بھی لگے، اس کی تاثیر ہمارے لئے ضرور اچھی ہوگی۔ اور یہ کہ علاج بقدرِ مرض، اور محض بغرضِ علاج۔ خلیفۂ وقت کی محبت کا تسلسل کہیں نہیں ٹوٹتا۔ دریا نشیب و فراز سے گزرتا ہے، مگر اس کی روانی نہیں ٹوٹتی۔ سو اس محبت کے دریا کا طَور بھی یہی دیکھا ۔ اللہ ہم سب کو استفادہ اور تقلید کی توفیق بھی عطا فرمائے۔

… … … … … … … … …

اب یہ بات ہو رہی ہے تو ایک اور واقعہ بھی پیش کرتا ہوں۔خاکسار کے والد محترم عبدالباسط شاہد صاحب نے جامعہ احمدیہ سے شاہد کی ڈگری کے حصول کے لئے جو مقالہ تحریر کیا تھا(غالباً 1956 ءکی بات ہوگی)، انہیں اسے شائع کروانے کی تحریک پیدا ہوئی۔ اس کا موضوع حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ کی سیرت اور سوانح تھا۔اس کی ایک قابلِ ذکر بات یہ تھی کہ یہ جس دور میں تحریر کیا گیا، تب نہ تو ’حیاتِ نور‘ منظرِ عام پر آئی تھی اور نہ ہی تاریخ احمدیت کی تیسری جلد۔ سارا مواد اخبارات اور عبدالمنان عمر صاحب (ابن حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ) کے ذاتی طور پر جمع کردہ مواد پر مشتمل تھا۔ وہ اُس وقت جامعہ احمدیہ ربوہ میں استاد تھے اوریوں میرے والد صاحب کے مقالہ نگران بھی۔ بعد میں جو حالات پیدا ہوئے اور جماعت سے ان کا تعلق کس طرح منقطع ہوگیا، اس کی تفصیل کا محل ہے نہ ضرورت۔ یہ قطعِ تعلق نہایت ناخوشگوار حالات میں ہوا تھا۔میرے والد صاحب نے ، جو کہ میری کم عقلی اور نالائقی سے سب سے بڑھ کر واقف ہیں،شایدمیری دلجوئی کے لئے مسودہ نظرِ ثانی کے لئے مجھے دیا تو مجھے لگا کہ جہاں باربار استاذی المکرم عبدالمنان عمر صاحب کا ذکر تھا، اسے بار بار دہرانے کی ضرورت نہیں۔ انہوں نے میری ناچیز رائے پر یہ ذکر بہت کم کردیا۔ کسی اوربات کے ضمن میں جب خاکسار نے یہ بات حضور انور کے سامنے عرض کی تو فرمایا’’رہنے دیتے۔ جس کو جس کام کا کریڈٹ ملنا چاہیے،وہ اسے دے دینے میں کوئی ہرج نہیں ۔ جب وہ ان کے استاد تھے اور مقالہ نگران تھے، تب تو کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ذکر کر دیا تھا تو کوئی بات نہیں تھی‘‘۔

ہم تنگ نظر ہوکرسوچتے ہیں۔ مگر خلیفۂ وقت کا دل عدل سے بھی بڑھ کر رحم اور احسان کی طرف جھکا ہوتا ہے۔جو خلافت کے منکر ہو کرالگ ہو گئے، ان کے ساتھ عقائد کے نظریاتی اختلاف کے باوجود حضرت مصلح موعودؓ اور آپ ؓ کے بعدآنے والے خلفاء کے بھی احسانات ہی کا سلوک نظر آتا ہے۔ایسے بہت سے واقعات سن تو رکھے تھے، مگر بذاتِ خود اس کا مشاہدہ بھی اللہ کے خاص فضل سے حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات کےطفیل حاصل ہوا۔

… … … … … … … … …

جب جامعہ احمدیہ یوکے کی پہلی کلاس فارغ التحصیل ہوئی تو ان کی پوسٹنگز کا مرحلہ تھا۔ فرمایا ’’تمہیں تو کوئی مربی نہیں چاہیے؟‘‘۔ اُس وقت تک میرے کام کی نوعیت ایسی نہیں تھی کہ ساتھ کُل وقتی مربی کی درخواست کی جاتی۔ مگرمنشا ءمبارک معلوم نہ ہو تو انکار کرنا بھی مناسب نہیں۔ ابھی کچھ عرض نہیں کیا تھا کہ فرمایا ’’مجھے لگتا ہے تمہیں اگلی کلاس میں سے چاہیے ہوں گے۔ اگلے سال مانگو گے۔ ہے نا؟‘‘ ۔ عرض کی کہ جی حضور۔

جو اگلی کلاس تھی اس کےبہت سے طلبا پروگراموں کی تیاری کے حوالہ سےکئی سال سےمعاونت کررہے تھے۔ حضورکے علم میں بھی یہ بات تھی۔ سو یہ بات یہیں ختم ہوگئی۔آئندہ سال جب اگلی کلاس کی باری آئی تو یہ سوچ کر کہ حضور نے خود بھی فرمایا تھا اور اب ضرورت بھی ہے ، لہذا مناسب ہے کہ اب درخواست کردوں۔اگرچہ ان کی کلاس نے ابھی ربوہ، سپین اور افریقہ ٹریننگ کی غرض سے جانا تھا۔ مگرایک روز عرض کر دی کہ حضور اس کلاس میں سے ایک مربی کی پوسٹنگ ہو جائے تو سہولت ہو جائےگی۔ فرمایا’’وہ سنا ہوا ہے جو ایسے موقع پر پنجابی میں کہتے ہیں؟‘‘۔ پھر فرمایا ’’پِنڈ ہلے وسیا نئیں، تو اچکے پہلے ای آ گئے‘‘(گاؤں ابھی آباد نہیں ہوا اور چور پہلے ہی پڑگئے)‘‘۔

پھر فرمایا کہ ’’یہ ہوکر آجائیں تو دیکھتے ہیں۔ بعد میں لکھ کر دے دینا‘‘۔

ہوا یوں تھا کہ اس اثنا میں یہ بھی تبدیلی آگئی تھی کہ حضور انور نے ایم ٹی اے کے انتظامی ڈھانچہ میں مکمل تبدیلی فرمادی تھی۔ ہر شعبہ کا ایک ڈائریکٹر مقرر فرمایا جو اپنے شعبہ کے کام کا براہ راست حضور انور کو جوابدہ ہے۔ خاکسار کو شعبہ پروگرامنگ کی ذمہ داری سپرد ہوئی۔ دیگر تمام شعبہ جات پہلے سے ہی کسی نہ کسی شکل میں موجود تھے۔ شعبہ پروگرامنگ ایک بالکل نیا شعبہ تھا اور میں اس شعبہ کا ذمہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا واحد کُل وقتی سٹاف بھی تھا۔ صبح سے شام تک پروگرام دیکھنے اور چیک کرنے اور درست کروانے کا کام رہتا۔ رات کو سوتے میں بھی مساجد کے افتتاح، دورہ جات کی جھلکیاں، مختلف مذاکرے اور گفتگو کے پروگرام ذہن میں جھلملاتے رہتے۔ تقاضا کرنے کی مجال نہیں تھی۔ ویسے بھی حضور کے علم میں ساری صورتحال تھی ہی۔مگر ایک وقت ایسا آیا کہ مجھے محسوس ہوا کہ کہیں کام کا معیار متاثر نہ ہو۔ لہذا اس روز اس بلینک چیک کو بھر کر جمع کروانے کا سوچا جو حضور نے گزشتہ سال عنایت فرمایا تھا۔ سو حضور کی خدمت میں خط تحریر کیا اور درخواست کی کہ اگر کوئی ساتھ کام کرنے والا میسر آجائے تو کام میں بہتری آسکتی ہے۔خط پر جواب آیا’’اور محنت کی عادت ڈالیں‘‘۔اس فرمان کی بدولت اللہ تعالیٰ نے توفیق بڑھا دی اور کام جاری رہا۔

کچھ عرصہ بعد یہ کلاس افریقہ سےواپس آئی تو انہیں حضور انور سے اجتماعی ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ حضورکو معلوم تھا کہ میں کن دو مربیان میں سے ایک کی درخواست کرنا چاہوں گا۔ ان دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’میں نے تمہیں باسط صاحب کے پاس نہیں بھیجنا۔ اُن کو بھی بتا دینا تا کہ انہیں خوش فہمی نہ رہے‘‘۔

جب پیغام موصول ہوا تو رہی سہی خوش فہمی بھی جاتی رہی۔اللہ تعالیٰ سے یہی دعا رہتی کہ توفیق کو بڑھائے اور محنت کی عادت بھی اس طرح پڑ جائے جس طرح حضور کا منشاءمبارک ہے۔اسی طرح وقت گزررہا تھا کہ ایک روز خبر پھیلی کہ آج اس کلاس کی پوسٹنگ کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ پھر خبر آئی کہ انہی دو مربیان میں سے ایک کی پوسٹنگ شعبہ پروگرامنگ میں ہوئی ہے۔حضور کے لئے دل سے دعا نکلی۔ سال پرانی بات حضور کو یاد تھی۔ پھر وہی ایک مربی جوزمانہ طالب علمی میں درجہ ثانیہ سے بہت باقاعدگی سےمختلف پروگراموں کے سلسلہ میں بہت محنت سے کام کرتا رہا تھا۔ ساری فائلنگ انہی نے کی ہوئی تھی لہذا ارشادات اور ہدایات سے بھی واقفیت تھی۔ ان کی ابتدائی ٹریننگ پر ایک دن بھی نہیں لگانا پڑا(ساتھ ساتھ ٹریننگ تو ہم سب کی چلتی ہے)۔ یہ تھے بھی انہی دو میں سے جن کے بارہ میں خواہش تھی کہ ان کی پوسٹنگ ہو جائے۔مگر میرے لئے اس سارے واقعہ میں کئی سبق تھے۔ حتی الوسع تقاضا نہ کرنا، خود محنت کی عادت ڈالنا اور ڈالتے چلے جانا، اپنے کام کو دعا کے سہارے چلانا، مگر سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ اور اللہ کے خلیفہ سے اچھی امید باندھے رکھنا۔

رفتہ رفتہ حضور انور کی نظرِ شفقت و محبت اور توجہ کے طفیل یہ شعبہ ایک فرد سے بڑھا اور کئی ٹیمیں تشکیل پائیں۔ پہلے قاصد معین احمد صاحب پھر عزیزم مدبر دین صاحب (مربیانِ سلسلہ) کو بھی حضور نے اس شعبہ میں تعینات فرمایا۔ اور سٹاف میں نجم السما صاحب اور وجاہت بلوچ صاحب بھی شامل ہوئے۔ شعبہ کو شعبہ کی شکل حضور انور کی توجہ اور رہنمائی کے طفیل ملی(اللہ ہمیں کام بھی کرنے کی توفیق عطا فرمائے)۔

… … … … … … … … …

جب راہِ ہُدیٰ ، فقہی مسائل، تاریخی حقائق، بِیکن آف ٹروتھ وغیرہ حضور انور کی ہدایت کی روشنی میں شروع کئے گئے تو خاکسار ان پروگراموں کے پروڈیوسر کی ذمہ داری ادا کرنے کی توفیق پاتا تھا۔ مگر شعبہ پروگرامنگ کی ذمہ داری سپرد ہونے کا مطلب تھا ایم ٹی اے کے تمام پروگراموں کےمواد کی ذمہ داری۔ یوں عملاً خود کچھ پروگراموں کا پروڈیوسر رہنا مناسب نہ تھا کیونکہ دیگر پروگراموں کے پہلے سے پروڈیوسر مقرر تھے ۔ حضور کی خدمت میں عرض کی کہ یوں کچھ پروگراموں کا خود پروڈیوسر رہنے سے ان پروگراموں سے زیادہ لگاؤ رہنے کا اندیشہ ہے۔حضور انور کی اجازت سے راہِ ہُدیٰ کے پروڈیوسر برادرم محترم عطا المومن زاہد صاحب مقرر ہوئے، دینی و فقہی مسائل کے برادرم وسیم احمد فضل صاحب اور بِیکن آف ٹروتھ کے برادرم محترم ایاز محمود خان صاحب۔

یعنی ایم ٹی اے کے اس شعبہ کی ابتدا میں خاکسار تنہا تھا اور حضور انور کو معلوم تھا۔ تنہا ہونے کی صورت میں پوری طاقت اور ہمت لگا کرمحنت کرنے کی طرف توجہ بھی مبذول کروادی اور جب ضرورت محسوس فرمائی تو مربیان کی پوسٹنگ بھی فرما دی ۔پھرپروگراموں کے پروڈیوسر بھی مقرر فرمانے کی اجازت مرحمت فرمائی تا کہ کام ایک نظام کے تحت چلنے لگے۔ اور یوں درمیانی راہوں کی طرف دیکھنے اور انہیں سمجھنے کا ایک اور موقع میسر آیا۔

جب ساتھ کام کرنے والے مہیا ہو جائیں تو یہ خدشہ بھی رہتا ہے کہ انسان کوئی غلطی ہو جانے کی صورت میں اپنے ساتھیوں کی کوتاہی تلاش کرتا پھرتا ہے۔ اس کا تدارک بھی ایک روز یوں ارشاد فرما کر کر دیا کہ ’’ایم ٹی اے پر جو کچھ بھی آتا ہے، میں نے تمہیں پکڑنا ہے۔ یہ نہیں سننا کہ اِس نے کیا تھا ،اُس نےکیا تھا!‘‘

اس ارشاد کے ساتھ خاکسار نے خود کو اسی حالت میں واپس محسوس کیا جو تب تھی جب حضور نے فرمایا تھا کہ ’’خود محنت کی عادت ڈالیں‘‘۔ بلکہ اس سے بھی کچھ زیادہ کیونکہ تب تو کام بھی خود کرنا تھا اور جوابدہ بھی خود ہونا تھا۔ مگر اب حضور انور کی شفقت سے شعبہ پروگرامنگ میں ٹیمیں تشکیل پا رہی تھیں، ان کے سپرد مختلف کام کئے جارہے تھے، مگر اس کام کا جوابدہ خودخاکسار ہی تھا۔ یوں ازراہ شفقت ٹیمیں بنانے کی اجازت بھی مرحمت فرمائی، کام میں بہت زیادہ سہولت کا سامان بھی مہیا فرمایا مگر اس احتمال سے کہ کہیں غفلت نہ ہوجائے یا تساہل پیدا نہ ہو، ذمہ داری کا احساس یوں اجاگر فرمایا کہ میں ہجوم میں بھی تنہا ہوگیا۔ یہ حضور ہی کا کمال ہے۔دنیا داری میں اسے انتظامی قابلیت کہتے ہوں گے، مگرمجھےیہ ہمیشہ حضور انور کی خدادادکرشمہ سازی لگی، کیونکہ ایسے پُر حکمت ارشادات سے دنیا بھر میں بے شمار لوگ ہیں جو مستفیض ہوتے ہیں اور جماعت کے کام اس طرز پر چلتے رہتے ہیں جو جماعت کے لئے اس وقت بہترین طرز ہوتی ہے۔اور یہ اوسط امور کی راہیں جماعت کو کامیابی و کامرانی کی راہوں پر گامزن رکھتی ہیں۔ صرف اور صرف حضرت خلیفۃ المسیح کی برکت سے، ورنہ اس میں کسی فرد کا کوئی بھی کمال نہیں۔

… … … … … … … … …

حضور انور کا ہمیشہ سے یہی ارشاد رہا کہ ایم ٹی اے کے پروگراموں میں کہیں موسیقی شامل نہیں ہوگی۔ یہ بات حضور نے ہمیشہ بڑی صراحت کے ساتھ ذہن نشین کروائی۔ ایک پروگرام کی نوعیت ایسی تھی کہ اس میں نئی نئی تکنیکی ایجادات پرگفتگو ہوتی تھی۔ اس میں کہیں کسی کمپنی کی طرف سے تیار کردہ وڈیو بھی شامل کرنے کی اجازت مل جاتی ۔ چونکہ یہ وڈیو پیکج خود کمپنیاں تیار کرکے مہیا کرتیں، سو ان میں موسیقی شامل ہوتی۔

اس سلسلہ میں خاکسارنے حضور کی خدمت میں رہنمائی کی درخواست کی۔ حضور کا منشاء مبارک جو موسیقی سے متعلق مجھے سمجھ آیا تھا ، اس کی روشنی میں یہ تجویز بھی عرض کر دی کہ ایسے وڈیو پیکج کے بارہ میں متعلقہ ادارہ سے اجازت لے لی جائے کہ ہم اسے بغیر آڈیو کے شامل کریں گے۔ مگر حضور نے فرمایا کہ’’ اگر وہ وڈیو پیکج معلوماتی ہے اورشامل کرنا ضروری ہے،تو پھر اسے موسیقی سمیت شامل کرلو۔ اسے ہم تو نہیں تیار کررہے۔ ایک معلوماتی پروگرام میں شامل کر رہے ہیں۔ مولویت سے بھی بچنا چاہیے‘‘۔

یوں موقع اور محل کی مناسبت سے ہدایات اور رہنمائی کی یہ روشنی عطا ہوتی رہتی ہے۔ الحمد للہ علیٰ ذالک۔ عملِ صالح ایسے عمل کا نام ہے جو موقع کی مناسبت سے سب سے بہتراور نیک نتائج کا حامل ہو۔ جہاں اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں مومنوں سے خلافت کی نعمت کا وعدہ فرمایا ہے، وہاں اعمالِ صالحہ کی شرط بھی رکھی ہے۔ شاید اللہ تعالیٰ نے یہ اشارہ دیا ہے کہ مومنین کی وہ جماعت جو خلافت کے دامن کو تھام لیتی ہے، اس قوم میں اعمالِ صالحہ کا potential، یا اردو میں اسے توفیق کہہ لیں، بڑھ جاتا ہے۔اور اگر وہ ہر قدم اٹھانے سے پہلے خلیفۂ وقت کی طرف اپنی نگاہ کرلیں، تو وہ اعمالِ صالحہ کی راہوں پر گامزن ہو جاتے ہیں۔

حضور انور تو اشاروں میں بات سمجھا دیتے ہیں۔ ہم سمجھ پاتے ہیں یا نہیں، اس کے مطابق عمل کرتے ہیں یا نہیں، یہ ہمارے مقدر، ہماری کوشش اور اللہ کے خاص فضل پر منحصرہے۔ یہاں بھی ہمیں اسی وجود کی دعا کی ضرورت پڑتی ہے، جو ہمارے لئے ہر خیر اور ہر برکت کا موجب ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حضور انور کے منشا ءکے مطابق قدم اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button