جماعتِ احمدیہ برطانیہ کی تیرھویں سالانہ امن کانفرنس میں امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بابرکت شمولیت اسلام کی خوبصورت اور بے مثال تعلیم کے مطابق دنیا میں قیامِ امن کے بارہ میں بصیرت افروز خطاب
٭…بعض لوگ اسلام کو ایک شدّت پسند مذہب سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اسلام خود کش حملوں کی یا دہشت گردی کی اجازت دیتا ہے۔لیکن درحقیقت اِس میں کوئی سچائی نہیں ۔ ٭… آج کے دور کی جنگیں اسلامی یا مذہبی جنگیں نہیں ہیں بلکہ یہ جنگیں معاشی یا سیاسی فوائد حاصل کرنے کی نیت سے لڑی جا رہی ہیں ۔اور اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہی ہیں ۔ ٭…سچے اور حقیقی اسلام سے کسی قسم کا خوف کھانے کی ضرورت نہیں کیونکہ اسلام کی حقیقی تعلیمات امن کے قیام، برداشت اور ایک دوسرے کی عزت کرنے کی ترغیب دینے کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اسلامی تعلیمات انسانی اقدار کو قائم کرتی ہیں اور تمام انسانوں کی عزت، وقار،اور آزادی کی علمبردار ہیں ۔ ٭…اسلامی عقائد مذہبی آزادی اورآزادیٔ ضمیرکے علمبردار ہیں ۔ اسلام میں ہر فرد کو نہ صرف اپنی مرضی کا مذہب اختیار کرنے کی اجازت ہے بلکہ اس مذہب کی تبلیغ کرنے کی بھی کھلی اجازت ہے۔ ٭… ہر شخص چاہے وہ مذہبی رجحان رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو اسے اسلام قبول کرنے کی آزادی ہے۔ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ اس کا اسلام قبول کرنا اس کی اپنی مرضی سے ہو اور وہ یہ فیصلہ بغیر کسی دباؤ کے کرے۔ بالکل اسی طرح اگر کوئی مسلمان اسلام کو چھوڑنا چاہے تو قرآنی تعلیمات کے مطابق ایسے آدمی یا عورت کو اسلام کو چھوڑنے کا بھی حق حاصل ہے۔ ٭… یہ بات کہ اسلام میں مرتد ہونے کی سزا ہے ایک غلط اور بے بنیاد الزام ہے۔ ٭…اس میں کوئی شک نہیں کہ میڈیا لوگوں کی عمومی رائے قائم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس لیے میڈیا کو اپنی اس طاقت کا استعمال ذمہ داری کے ساتھ بھلائی اور امن کے قیام کے لئے کرنا چاہئے۔ ٭… ہم دیکھتے ہیں کہ ہر قسم کے ظلم و ستم اور جنگیں جن میں مسلمان ملوّث ہوں ان کو فورًاا سلامی تعلیمات سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ جبکہ ان لوگوں اورجماعتوں کی آوازیں جو اسلام کی سچی اور امن پسند تعلیمات کو پھیلانے کی جدو جہد کر رہی ہیں ان کی آواز کو یا توسنا ہی نہیں جاتا اورپھر نہ ہی ان کی کوئی وسیع پیمانے پر مناسب تشہیر کی جاتی ہے۔ میرے نزدیک یہ بات نہایت غیر منصفانہ اور منفی نتائج کی حامل ہے۔ ٭… عالمی سیاست میں دہشت گردی کو شکست دینے کے لئے ضروری ہے کہ امن کا قیام ہمارا انتہائی مقصد ہو۔ اور اس کے لئے سب لوگوں کا اتفاق ضروری ہے۔ ٭… میرا یہ اعتقاد ہے کہ جب تک دنیا اپنے خالق کو نہیں پہچانتی اور اسے تمام جہانوں کا رب تسلیم نہیں کرتی حقیقی انصاف غالب نہیں آسکتا۔ نہ صرف یہ کہ حقیقی انصاف غالب نہیں آئے گا بلکہ دنیا ایک نہایت ہی خوفناک اور تباہ کن نیوکلیئر جنگ کا سامنا کرے گی جس کے نتائج ہماری مستقبل کی نسلوں کو دیکھنے پڑیں گے۔
تقریب میں ممبرانِ پارلیمنٹ، وزرائے مملکت، مختلف ممالک کے سفارتکار، سرکاری عہدیداران، میئرز و دیگر معززین کی شرکت
جماعت احمدیہ برطانیہ کے زیراہتمام 19؍ مارچ 2016ء کی شام مسجد بیت الفتوح میں تیرھویں سالانہ امن کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ اس تقریب میں سیکرٹریانِ سٹیٹ، ممبرانِ پارلیمنٹ، وزرائے مملکت، تیس سے زائد ممالک کے سفارتکاروں ،جرنلسٹس، مختلف شعبہ ہائے تعلیم کے ماہرین اور مفکرین، سرکاری عہدیداران، میئرز و مختلف مذاہب، چیریٹیز اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے احمدی، غیر احمدی و غیر مسلم معزز خواتین و حضرات نے شرکت کی۔ مسجد تشریف لانے والے مہمان آمد پر رجسٹریشن کے بعد کانفرنس ہال میں تشریف لاتے۔ اس موقع پر بعض مہمانوں کو مسجد بیت الفتوح کے مختلف حصوں کا تعارفی دورہ بھی کروایا گیا۔

حضورِ انور نے طاہر ہال مسجد بیت الفتوح میں تقریب کے آغاز سے قبل بعض معززین کو الگ سے شرفِ ملاقات بخشا اور سات بجکر پچیس منٹ پر طاہر ہال میں رونق افروز ہوئے۔ حضورِ انور کے ہال میں تشریف لانے پرحاضرین نے کھڑے ہو کر حضورِ انور کا استقبال کیا۔ اس تقریب میں ماڈریٹر کی خدمات محترم فرید احمد صاحب سیکرٹری امورِ خارجہ جماعت احمدیہ انگلستان نے سرانجام دیں ۔تقریب کا باقاعدہ آغاز تلاوتِ قرآنِ کریم سے ہوا۔ نصر احمد ارشد صاحب طالبعلم جامعہ احمدیہ انگلستان نے سورۃ المائدہ کی آیات 8تا 10کی تلاوت کی جن کا انگریزی ترجمہ احمد نور الدین جہانگیر خان صاحب طالب علم جامعہ احمدیہ انگلستان نے پیش کیا۔
اس کے بعد محترم رفیق احمد حیات صاحب امیرجماعت احمدیہ برطانیہ نے ایک مختصر تعارفی تقریر میں تمام مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے بتایا کہ دنیا میں امنِ عامہ کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور ان خراب سے خراب تر ہونے والے حالات کو بہتر بنانے کے لئے حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز متعدد ممالک میں اسلامی راہنما اصولوں پر مبنی تقاریر و لیکچرز فرما چکے ہیں ۔ انہوں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے گزشتہ 107سال سے بدستور جماعتِ احمدیہ خلافتِ احمدیہ کی سرکردگی میں امن اور محبت اور بھائی چارہ کے پیغام کو دنیا میں نہ صرف پھیلا رہی ہے بلکہ اس کی عملی تصویر بھی دنیا کے سامنے پیش کر رہی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حضورِ انور کی ہدایات کی روشنی میں انگلستان کے پچاس لاکھ کے قریب گھروں میں جماعتِ احمدیہ مسلمہ کا امن کا پیغام پہنچایا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ امسال اس امن کانفرنس کا عنوان Justice is the Foundation for Lasting Peaceہے۔
اس کے بعد مکرم فرید احمد صاحب سیکرٹری امورِ خارجہ جماعت احمدیہ برطانیہ نے ویٹیکن(Vatican)سے تعلق رکنے والے پونٹیفکل کاؤنسل فار جسٹس اینڈ پیس (Pontifical Council for Justice and Peace)کے صدر H.Em. Card. Peter Kodwo Appiah Turksonکے پیغام سے کچھ حصہ پڑھ کر سنایا جس میں انہوں نے جماعتِ احمدیہ مسلمہ کی بین المذاہب ہم آہنگی پیدا کرنے کے لئے کی جانے والی کوششوں کو سراہتے ہوئے انہیں مبارکباد پیش کی۔ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا کہ دنیا میں امن کے قیام کے لئے جماعتِ احمدیہ بہت عمدہ خدمات سرانجام دے رہی ہے۔ اور پوپ فرانسس کی دی ہوئی اجازت سے مَیں آپ لوگوں کی ان کاوشوں کو سراہتا اور ان کی پُرزور تائید کرتا ہوں ۔
اس کے بعد لندن کے علاقہ مچم اور مورڈن (Mitcham & Morden) سے منتخب ہونے والی ممبر آف پارلیمنٹ شیوون مکڈونہ(Siobhan McDonagh) اسٹیج پر تشریف لائیں ۔ شیوون برطانوی ایوانِ زیریں میں قائم آل پارٹی پارلیمنٹری گروپ فار دی احمدیہ مسلم کمیونٹی کی چیئر پرسن ہیں ۔ شیوون نے حال ہی میں پارلیمنٹ میں ’پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال‘ کے عنوان پر ایک تفصیلی نشست کروائی ہے۔
موصوفہ نے حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو خوش آمدید کہتے ہوئے آپ کو دنیا میں امن کے قیام کے لئے ایک مضبوط شخصیت قرار دیا۔ موصوفہ نے کہا کہ ان کی خوش نصیبی ہے کہ جماعتِ احمدیہ کی مرکزی مسجد مرٹن کاؤنسل (Borough of Merton)ّ میں واقع ہے۔موصوفہ نے جماعتِ احمدیہ کی خدماتِ انسانیت اور قیامِ امن کے لئے کی جانے والی خدمات کو سراہتے ہوئے ان کی بھرپور تائید کی۔
شیوون نے اپنی تقریر میں فروری 2016ء میں وفات پا جانے والے لارڈ ایوبری(Lord Eric Avebury) کا ذکر کرتے ہوئے ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے کہا کہ لارڈ ایوبری نے اپنی زندگی دنیا میں قیامِ امن اور اقلیتوں کے مذہبی و انسانی حقوق کی حفاظت کے لئے وقف کر رکھی تھی۔ لارڈ ایوبری2009ء میں جماعتِ احمدیہ کی طرف سے جاری کئے جانے والے Ahmadiyya Prize for Advancement of Peaceکے حقدار قرار پائے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے کائونسلر میکسی مارٹن (Councillor Maxi Martin)کے بیماری کی وجہ سے اس کانفرنس میں شامل نہ ہو سکنے پر حاضرین کو ان کے لئے دعا کے لئے کہا۔
اس کے بعد رچمنڈپارک(Richmond Park) سے منتخب ہونے والے ممبر پارلیمنٹ زیک گولڈ سمتھ(Frank Zacharias Robin Goldsmith) اسٹیج پر تشریف لائے۔ موصوف برطانیہ کی conservativeپارٹی کے ممبر ہیں ۔ آپ پیشہ کے لحاظ سے ایک صحافی ہیں ۔ اور 2016ء کے دوران ہونے والے انتخابات میں میئر آف لندن کے لئے امیدوار ہیں ۔
Zac Goldsmith نے اس کانفرنس پر مدعو کرنے پر حضورِ انور کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے اپنی تقریر میں ذکر کیا کہ جماعتِ احمدیہ ایک بہت ہی متأثر کرنے والی جماعت ہے۔ مسجد بیت الفتوح میں لگنے والی آگ کے بعد بھی آپ لوگوں کے حوصلے بلند تھے۔ آپ لوگ کبھی برٹش لیجنز کے لئے poppiesفروخت کرتے نظر آتے ہیں اور کہیں آپ حکومتی ایوانوں میں شدّت پسندی کے سدِّ باب کے لئے کوششیں کرتے دکھائی دیتے ہیں اور کبھی آپ کی طرف سے لندن کی بسوں پر یہ پیغام لکھا دکھائی دیتا ہے ‘United against extremism’۔آپ کا ماٹو love for all, hatred for noneتو پورے گریٹر لندن کا ماٹو ہونا چاہیے۔
بعدازاں لارڈ طارق احمد بی ٹی آف ومبلڈن جن کو پہلے مسلمان Lord in waiting to her Majesty the Queenہونے کا اعزاز حاصل ہے تشریف لائے۔ آپ سال2014-15میں آپ گورنمنٹ منسٹر فار کمیونیٹیز رہے ہیں ۔ اور اس وقت آپ گورنمنٹ منسٹر برائے Countering Extremismاور منسٹر برائے ٹرانسپورٹ کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کہا کہ میں بطور منسٹر فار کاؤنٹرنگ ایکسٹریمزم یہ کہنا چاہتا ہوں کہ احمدیہ مسلم کمیونٹی شدّت پسندی سے نجات حاصل کرنے کے لئے ایک مثال کے طور پر ہے کیونکہ یہ جماعت اللہ تعالیٰ سے رہنمائی پانے والی خلافت کی سربراہی میں نہ صرف اپنی باتوں یا تقریروں سے بلکہ اپنے عملی نمونہ سے ایک ماڈل پیش کرتی ہے کہ شدّت پسندی کا سدِ باب کس طرح کیا جاسکتا ہے۔ حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی کاوشیں صرف مقامی طور پر ہی نہیں بلکہ دنیا بھر کے متعدد ممالک کے شاہی ایوانوں تک پھیلی ہوئی ہیں ۔ اور آپ کے الفاظ اپنے اندر ایک خاص اثر رکھتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہم سب یہاں بہت کچھ سیکھنے کے لئے اکٹھے ہوئے ہیں اورہم سب حضرت امیر المومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے خطاب کے منتظر ہیں ۔
آخری مہمان مقرر کی تقریر سے قبل ماڈریٹر صاحب امورِ خارجہ نے بعض مہمانوں کا تعارف کروایا جو آج کی اس تقریب میں موجود تھے۔ ان میں مرٹن کاؤنسل کے لیڈر Stephet Alambritis، یوروپین پارلیمنٹ کی ممبرJean Lambert، منسٹر فار پبلک ہیلتھ Jane Ellison،ممبر آف یوروپین پارلیمنٹ Julie Ward، سابق اٹارنی جنرل Rt. Hon. Dominic Grieve، Stephen Hammond، Baroness Shas Sheehanو دیگر معز زین شامل تھے۔
اس کے بعد Rt. Hon. Justine Greeningممبر آف پارلیمنٹ و انٹرنیشنل سیکرٹری فار انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ تقریر کے لئے تشریف لائیں ۔ انہوں نے ذکر کیا کہ آج کی دنیا میں ایک سو پچیس ملین لوگ ایسے ہیں جن کا محض زندہ رہنے کے لئے امدادی ساز و سامان پر انحصار ہے۔یہ لوگ گویا کہ ایک ملک کی آبادی کے برابر ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ یو کے دنیا بھر میں موجود غرباء کے لئے بہت کام کرتا ہے۔ میں نے یو کے گورنمنٹ اس لیے نہیں کہا کیونکہ ہم یہ کام اس وقت تک نہیں کر سکتے جب تک ہمیں یو کے کے لوگ اور یہاں پر قائم مختلف خیراتی ادارہ جات (Charities)سپورٹ نہ کریں ۔ انہوں نے اس ضمن میں خاص طور پر ہیومینٹی فرسٹ اور مجلس خدام الاحمدیہ یو کے کا نام لے کر ان کی خدمات کو سراہا اور شکریہ ادا کیا۔
خطاب حضرت امیر المومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
اس کے بعد امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃالمسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ڈائس پر تشریف لائے اوراس موقع پر اپنے صدارتی خطاب کا آغاز بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اور اس کے انگریزی ترجمہ کے ساتھ فرمایا۔
حضورِ انور نے حاضرین کو السلام علیکم کا تحفہ پیش فرمایا او ر تہہِ دِل سے تمام معزز مہمانوں کی تشریف آوری کا شکریہ ادا فرمایا۔ حضور نے فرمایا کہ موجودہ حالات میں آپ کا یہاں آکر اس کانفرنس میں شمولیت اختیار کرناخاص طور پر قابلِ ذکر ہے کیونکہ آجکل مختلف دہشت گرد گروہ اسلام کے نام پر انتہائی تکلیف دہ کام کر کے اسلام کے خوبصورت نام کو بدنام کررہے ہیں ۔حضورِ انور نے نومبر 2015ء میں ہونے والے حملہ پیرس اور دیگر ممالک میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کا ذکر کر کے فرمایا کہ برطانیہ میں پولیس کے اسسٹنٹ کمشنر نے ایک حالیہ بیان میں متنبہ کیا ہے کہ داعش یہاں برطانیہ میں بھی خوفناک حملے کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی تھی جس میں اہم مراکز اور پبلک مقامات کو نشانہ بنانے کی سازش تھی۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ گزشتہ سال کے دوران یورپ میں اچانک بڑی تعداد میں مہاجرین کی آمد ہوئی ہے جس سے یہاں کے بہت سے باشند ے خوف و ہراس، تذبذب اور سراسیمگی کے جذبات محسوس کر رہے ہیں ۔ایسے حالات میں آپ لوگوں کا جو مسلمان نہیں مسلمانوں کی طرف سے منعقد کی جانے والی اس تقریب میں شامل ہونا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ آپ جرأتمند، روادار اور کھلا دل رکھنے والے لوگ ہیں ۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ اسلام کی سچی تعلیمات سے کسی کوڈرنے کی ضرورت نہیں ۔ بعض لوگ اسلام کو ایک شدّت پسند مذہب سمجھتے ہیں اور خیال کرتے ہیں کہ اسلام خود کش حملوں کی یا دہشت گردی کی اجازت دیتا ہے۔لیکن درحقیقت اِس میں کوئی سچائی نہیں ۔ حال ہی میں ایک ناموَر کالم نگار نے ایک اخبار میں اسلاموفوبیا (اسلام سے خوف )کے بڑھتے ہوئے رجحان پر ایک آرٹیکل لکھا ہے۔ اس میں انہوں نے لکھا ہے کہ خود کش حملوں پر ایک بہت لمبی تحقیق کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ پہلا خود کش حملہ 1980ء کی دہائی میں ہوا۔ جبکہ اسلام کو آئے ہوئے تیرہ سو برس گزر چکے تھے۔ انہوں نے اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اسلام میں اگر خود کش حملے جائز ہوتے تو یہ حرکات تیرہ سو سال پہلے ہی شروع ہو جا تیں اور اسلامی تاریخ میں ہمیں ضرور ایسے واقعات نظر آتے رہتے۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ ان کی یہ دلیل بہت معقول ہے اور بہت مناسب انداز میں اسے پیش کیا گیا ہے۔ اور اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ خود کش حملے اس زمانہ میں ایجاد کی جانے والی ایک برائی ہے اور اِن کا اسلام کی حقیقی اور پُر امن تعلیم سے دُور کا بھی تعلق نہیں ۔ اسلام ہر قسم کی خود کشی سے واضح طور پر منع کرتا ہے۔ اس لئے کسی بھی خود کش حملے یا دہشت گردی کی اجازت نہیں دے سکتا۔ اِس قسم کے حملوں کے نتیجہ میں بِلا تفریق معصوم عورتوں ، بچوں اور نہتے عوام کو ظالمانہ طریق پر موت کے گھاٹ اُتار دیا جاتا ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ حال ہی میں رائس یونیورسٹی ہیوسٹن ٹیکساس (Rice University Houston Texas)کے پروفیسر ڈاکٹر کونسڈائن(Dr. Craig Considine)نے اپنے ایک تحقیقی مقالہ میں یہ ثابت کیا ہے کہ نام نہاد اسلامک اسٹیٹ(داعش) کی طرف سے عیسائیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کا جواز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و تحریرات سے کسی صورت حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اسلامی معاشرہ کا تصور پیش کیا تھا اس کی بنیاد تمام مذاہب کے مابین رواداری اور شہریوں کے حقوق کے تحفظ پر رکھی گئی تھی۔ چنانچہ یہ واضح ہو جانا چاہیے کہ یہ شدت پسندوں کی کارروائیاں اسلامی اصول کے سراسر خلاف ہیں ۔ اسلام نے اگر کبھی جنگ کی اجازت بھی دی ہے تو اپنے دفاع کے لئے دی ہے، ایسی صورت میں جبکہ آپ پر جنگ مسلط کی جارہی ہو۔مثلًا قرآنِ کریم کی سورت الحج کی آیت 40میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جن سے(بلاوجہ) جنگ کی جا رہی ہے ان کو بھی (جنگ کرنے کی )اجازت دی جاتی ہے۔ اور اسی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مذہب کی خاطر لڑی جانے والی جنگوں میں اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے گا جو مظلوم ہوں گے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ ابتدائے اسلام میں جو جنگیں لڑی گئیں وہ خالص مذہبی جنگیں تھیں جو کہ مذہب کی آزادی کو قائم کرنے کے لئے لڑی گئیں ۔ چنانچہ تاریخ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس نیت سے لڑی جانے والی جنگوں میں جہاں دشمن مکمل طور پر مسلح اور مسلمانوں سے تعداد میں کئی گنا زیادہ تعداد میں ہوتا تھا اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو تعداد میں کم ہونے اور پوری طرح مسلح نہ ہونے کے باوجود فتح سے نوازتا رہا۔
حضور انور نے فرمایا کہ بطور ایک مسلمان کے اگرمَیں آج کے دَور میں لڑی جانے والی مسلمانوں کی جنگوں کا تجزیہ کروں تو مَیں یہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ جنگیں مذہبی جنگیں نہیں ۔اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ ہے کہ ان میں سے زیادہ تر جنگیں یا توممالک کے اندرونی ہنگاموں کی وجہ سے ہوئیں یا ہمسایہ مسلمان ممالک سے لڑی گئیں ۔ اورجو جنگیں غیر مسلم ممالک سے بھی ہوئیں ان کو مذہبی جنگیں قرار نہیں دیا گیا۔ اور دونوں فریقوں میں مسلمان فوجی لڑتے رہے۔یہ بات واضح رہے کہ آج کے دور کی جنگیں اسلامی یا مذہبی جنگیں نہیں ہیں بلکہ یہ جنگیں معاشی یا سیاسی فوائد حاصل کرنے کی نیت سے لڑی جا رہی ہیں ۔اور اسلام کی بدنامی کا باعث بن رہی ہیں ۔
حضور انور نے فرمایا کہ جو کچھ ابھی تک میں نے کہا ہے اس سے آپ پر یہ واضح ہو گیا ہو گا کہ سچے اور حقیقی اسلام سے کسی قسم کا خوف کھانے کی ضرورت نہیں ، اسلام شدّت پسندی، خود کش حملوں اور بے دریغ قتل ِ عام کی بالکل اجازت نہیں دیتا۔ اسلاموفوبیا کا کوئی جواز نہیں بنتا کیونکہ اسلام کی حقیقی تعلیمات امن کے قیام، برداشت اور ایک دوسرے کی عزت کرنے کی ترغیب دینے کے سوا اور کچھ نہیں ۔ اسلامی تعلیمات انسانی اقدار کو قائم کرتی ہیں اور تمام انسانوں کی عزت، وقار،اور آزادی کی علمبردار ہیں ۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ ان تمام باتوں کے باوجود ہم سب یہ بھی جانتے ہیں کہ بعض شدّت پسنداور ظالم لوگ اسی خوبصورت اسلام کے نام پر نہایت ظالمانہ کارروائیاں بھی کر رہے ہیں ۔ بہر صورت جو آیت میں نے آپ کے سامنے پیش کی ہے اس بات کو اچھی طرح واضح کر دیتی ہے کہ خواہ کیسے ہی حالات درپیش ہوں اسلام ایسی حرکتوں کی کسی صورت اجازت نہیں دیتا۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ ایک اور چیز جو مجھے مسلمان ہونے کے ناطے جنگوں کی طرف راغب ہونے کی بجائے تمام انسانوں سے محبت کرنے پر مجبور کرتی ہے وہ یہ ہے کہ قرآنِ کریم کے بالکل شروع میں ، دوسری ہی آیت میں اللہ تعالیٰ اپنے آپ کو ’ربُّ العالمین‘ فرماتا ہے۔ اور تیسری آیت میں فرماتا ہے کہ وہ ’بے حد کرم کرنے والا، بار بار رحم کرنے والا‘ہے۔ چنانچہ اگر اللہ تعالیٰ اپنے آپ کو تمام انسانوں کا ربّ فرماتا ہے اور بے حد کرم کرنے والا، بار بار رحم کرنے والا فرماتا ہے تو یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ ان لوگوں کو جو اس پر ایمان لے آئے ہیں کہے کہ وہ اس کی مخلوق کو ظالمانہ طور پر قتل کریں اور ان کوکسی بھی طرح کی تکالیف میں ڈالیں ؟لازماً اس سوال کا جواب یہی ہو گا کہ ایسا حکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہو سکتا۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اِس کے بر عکس یہ بات بالکل درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ظلم، غیر انسانی حرکات اور نا انصافی کے خلاف کارروائی کرنے کا حکم دے رکھا ہے۔ اسلام کی تعلیمات کے مطابق ایک مسلمان کو ظالم کے ہاتھ کو ظلم سے روکنے، ناانصافی کی تمام اقسام کو اور ہر قسم کی زیادتی کو معاشرے سے ختم کرنے کی کوشش کرنے کی ہدایت ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق یہ کام دو طرح سے کیا جا سکتا ہے۔اوّل یہ طریق ہے کہ باہمی گفت و شنید اور معاملہ فہمی کے ساتھ معاملات کو طے کیا جائے۔ اور یہ پسندیدہ طریق ہے۔ لیکن اگر ایسا ممکن نہ ہو تب دوسرا طریق اختیار کرنے کا حکم ہے کہ طاقت سے ظلم کو روکو تاکہ معاشرہ میں دیر پا امن کا قیام ممکن ہو سکے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ مذہب کے علاوہ دیگر دائروں میں بھی بعض قواعد و ضوابط ہوتے ہیں ، اور ان کی خلاف ورزی پر سزا دی جاتی ہے۔ اگر اصلاح بغیر سزا دیے ممکن ہو یا معمولی سزادینے سے ہو سکتی ہو تو یہ سب سے بہتر ہے۔ لیکن اگر اصلاح کے لئے سخت سزا دینا ضروری ہوجائے تو معاشرے کی بہتری اور دوسروں کی عبرت کے لئے وہ سزا دی جاتی ہے۔ اب اس بات کو مذہبی تناظر میں دیکھیں تو ہمیں معلوم ہو گا کہ اسلامی تعلیمات میں جرم کی سزا بدلہ لینے کے لئے یا محض تکلیف پہنچانے کے لئے نہیں دی جاتی۔ بلکہ اس کا مقصد ظلم کو ختم کرنا اور مثبت انداز میں لوگوں کی اصلاح کرنا ہے۔ قرآن کریم کے مطابق اگر کسی فردِ واحد یا گروہ کی اصلاح معاف کرنے یا رحم سے کام لینے سے ہو سکتی ہو تو یہی طریق اختیار کرنا چاہیے۔ لیکن اگر عفو و درگذر سے اصلاح کا مقصد حاصل نہ ہو سکتا ہو تو پھرمعاشرے کی اصلاح اور بہتری کے لئے سزا نافذ ہونی چاہیے۔ اس لئے اسلام میں سزا کا تصوّر ایک منفرد اور دُور اندیش تصور کا حامل ہے کیونکہ ا س کا مقصد معاشرہ کی بہتری کے لئے لوگوں کی تربیت کرنا ہے، اور اعلیٰ انسانی اقدار کو معاشرہ میں رائج کرنا ہے تا کہ لوگ اپنے خالق کی صفات کو اپنے اندر پیدا کر کے ایک دوسرے کا خیال کرنے لگ جائیں ۔ اس لئے اسلام میں کسی فردِ واحد یا کسی گروہ کے حقوق غصب ہونے پر غاصب کو اس کے جرم کے مطابق سزا دینے کا حکم ہے۔ لیکن دوسری جانب اگر سزا کے بغیر معاشرہ میں اصلاح ہو سکتی ہو تو اس طریق کو زیادہ بہتر قرار دیا گیا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ قرآن کریم کی سورۃ النّور کی آیت 23 میں فرماتا ہے کہ ’اور چاہیے کہ کہ وہ عفو سے کام لیں اور درگذر کریں ‘۔ اسی طرح سورۃ آل عمران کی آیت 135 میں فرماتا ہے کہ ’غصّہ کو دبانے والوں اور لوگوں کو معاف کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ محبت کرتا ہے۔‘اس کے علاوہ قرآنِ کریم میں متعدد مقامات پر یہ حکم موجود ہے کہ انسان کو جہاں تک ممکن ہو عفو و درگذر سے کام لینا چاہیے کیونکہ حقیقی مقصد اخلاق میں بہتری اور اصلاح ہے، نہ کہ بدلہ لینا۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ ممالک یا گروہوں کے باہم اختلافات کے تصفیہ اور پھر انصاف کے دیرپا قیام کے لئے اللہ تعالیٰ سورۃ الحجرات آیت10میں ایک سنہری اصول بیان فرماتا ہے کہ ’اگر دو ممالک یا گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ایک غیر جانبدار گروہ ان کے مابین معاملہ کو پر امن طور پر حل کرواتے ہوئے صلح کروائے۔ اگر ان کے مابین معاہدہ ہو جائے تو سب کے ساتھ برابری کی سطح پر سلوک کیا جائے۔ لیکن ان میں سے کوئی گروہ معاہدہ کی خلاف ورزی کرے اور دوسرے پر چڑھائی کر دے تو دیگر تمام گروہ یا ممالک مل کر ظالم کو روکنے کے لئے اس کے خلاف طاقت کا استعمال کرتے ہوئے چڑھائی کر دیں ۔لیکن اگر وہ زیادتی کرنے والا گروہ اپنی زیادتی اور ظلم سے باز آ جائے توانصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ان دونوں گروہوں کے درمیان صلح کروا دو اور اس زیادتی کرنے والے کو بطور ایک آزاد حکومت یا قوم کے ترقی کرنے کی پوری طرح اجازت دو۔ ان تمام اصولوں کو دیکھ کر ہم پر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ تمام انسانوں کا رب، اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ ہم سب لوگ امن کے ساتھ، انصاف کو قائم کرتے ہوئے ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر، اکٹھے رہیں ۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ جہاں تک مذہبی تعلیمات کا تعلق ہے، اسلامی عقائد مذہبی آزادی اورآزادیٔ ضمیرکے علمبردار ہیں ۔ اسلام میں ہر فرد کو نہ صرف اپنی مرضی کا مذہب اختیار کرنے کی اجازت ہے بلکہ اس مذہب کی تبلیغ کرنے کی بھی کھلی اجازت ہے۔ ’مذہب‘ اور ’ایمان‘ تو دل کا معاملہ ہے۔ اس لئے مذہب کے اختیار میں کوئی زبردستی نہیں ۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے اسلام کو ایک کامل مذہب بنایا ہے کسی کو اختیار نہیں کہ وہ اس میں لوگوں کو زبردستی شامل کرے۔ ہر شخص چاہے وہ مذہبی رجحان رکھتا ہو یا نہ رکھتا ہو اسے اسلام قبول کرنے کی آزادی ہے۔ لیکن بنیادی بات یہ ہے کہ اس کا اسلام قبول کرنا اس کی اپنی مرضی سے ہو اور وہ یہ فیصلہ بغیر کسی دباؤ کے کرے۔ بالکل اسی طرح اگر کوئی مسلمان اسلام کو چھوڑنا چاہے تو قرآنی تعلیمات کے مطابق ایسے آدمی یا عورت کو اسلام کو چھوڑنے کا بھی حق حاصل ہے۔ جبکہ ہمیں یقین ہے کہ اسلام ایک عالمی مذہب ہے اور اس کی تعلیمات کامل ہیں کوئی بھی شخص اگر اسے چھوڑنا چاہتا ہے تو یہ اس کی مرضی ہے اور اسے یہ فیصلہ کرنے کا اختیار ہے۔ سورۃ المائدہ کی آیت 55میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگرتم میں سے کوئی شخص اس دین سے پھرنا چاہے تو اسے جانے دو۔اللہ تعالیٰ اس کی جگہ مزید بہتراور زیادہ مخلص لوگوں کو تم میں شامل کر دے گا۔ چنانچہ کسی حکومت، گروہ یا فردِ واحد کو حق نہیں کہ وہ اسے کسی قسم کی کوئی سزا دیں یا اس پر کوئی پابندی عائد کریں ۔ چنانچہ یہ بات کہ اسلام میں مرتد ہونے کی سزا ہے ایک غلط اور بے بنیاد الزام ہے۔ اسلامی تعلیمات کا محور اور مرکز اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اللہ تعالیٰ تمام انسانوں کا رب ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ اسلام کے نام پر تشدد اور ظالمانہ کارروائیاں کر رہے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کو ’رب العالمین نہیں مانتے۔یا یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کے رب العالمین ہونے پر ایمان تو رکھتے ہیں لیکن انہیں اس کا ادراک ہی نہیں اور اسی وجہ سے وہ اسلام کی حقیقی تعلیمات سے بہت دُور جا پڑے ہیں ۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ ہم احمدی یہ ایمان رکھتے ہیں کہ ایسی ہی غلطیوں کو درست کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے امام الزمان حضرت بانی ٔ سلسلہ عالیہ احمدیہ کومبعوث فرمایا تھا۔ انہوں نے ہمیں بتایا کہ مذہبی جنگوں کا زمانہ اب گزر چکا ہے اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ انسان امن و آشتی کے ساتھ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرتے ہوئے مل جل کر زندگی گزاریں ۔اس بار ہ میں اپنی جماعت کو نصیحت فرماتے ہوئے حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک مرتبہ فرمایا کہ اسلام کی حقیقی تعلیمات کی رو سے دین کے دو حصے ہیں یا یہ کہا جاسکتا ہے کہ مذہب کی بنیاد دو ستونوں پر قائم ہے۔ پہلا یہ کہ خدائے واحد کو پورے یقین کے ساتھ پہچانیں اور پورے خلوص سے اس سے محبت کریں اور محبت اور اطاعت کے تمام تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کی فرمانبرداری اختیار کریں ۔ دوسرا یہ کہ اس کی مخلوق کی خدمت کریں اور اپنی تمام صلاحیتیوں اور استعدادوں کو دوسروں کی خدمت میں لگائیں ۔ اور جو آپ سے نیکی کرتا ہے اس کے عوض میں آپ بھی اس کے شکرگزار ہوتے ہوئے اس سے نیک سلوک کریں خواہ وہ بادشاہ ہوں یا حکمران یا عام لوگ۔ اور ان سے ہمیشہ محبت کا تعلق استوار کریں ۔
پھر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سورۃ النحل کی آیت 91 جس کا ترجمہ یہ ہے ’اللہ یقیناً عدل کا اور احسان کا اور (غیر رشتہ داروں کو بھی) قرابت والے (شخص) کی طرح (جاننے اور اسی طرح مدد) دینے کا حکم دیتا ہے۔‘ اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ خدا تم سے یہ چاہتا ہے کہ تم تمام بنی نوع انسان سے عدل کے ساتھ پیش آیا کرو۔ اس سے مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اُن سے بھی نیکی کریں جنہوں نے تم سے کوئی نیکی نہیں کی۔ پھر آپ نے یہ بھی فرمایا کہ یہ آپ ایک مسلمان سے تقاضا کرتی ہے کہ وہ مخلوقِ خدا سے ایسی ہمدردی کے ساتھ پیش آئے گویا وہ اس کے حقیقی رشتہ دار ہیں ۔ جیسا کہ مائیں اپنے بچوں سے پیش آتی ہیں ۔‘ یہاں حضور علیہ السلام یہ فرما رہے ہیں کہ ہر مسلمان دوسرے انسانوں سے ان کے رنگ و نسل، ذات پات اور مذہب کی پروا کیے بغیر ایسے محبت کرے جیسا کہ ایک ماں اپنے بچوں سے محبت رکھتی ہے۔ کیونکہ یہ محبت کی خالص اور اعلیٰ ترین قسم ہے کیونکہ دوسرے درجہ میں جہاں انسان سے کسی سے احسان کا سلوک کرتا ہے وہاں اس بات کا امکان ہے کہ احسان کرنے والا کبھی اپنے احسان کو جتلا بھی دے اور بدلے میں احسان کا طلبگار بھی ہو۔ تاہم ماں کی محبت بے غرض ہوتی ہے اور اس کا اپنے بچے سے محبت کا رشتہ ایسا منفرد ہو تا ہے کہ وہ اس کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے پر آمادہ رہتی ہے۔ اسے کسی بدلہ کی طلب نہیں ہوتی اور نہ ہی اسے کسی تعریف کی کوئی خواہش ہوتی ہے۔ اس لئے یہ وہ انتہائی معیار ہے جس کی اسلام تعلیم دیتا ہے جس کی رُو سے مسلمانوں کو تمام نوعِ انسانی سے ایسے محبت کرنے کی تعلیم دی گئی ہے جیسے ایک ماں بچے سے محبت کرتی ہے۔ یہی اسلام کی حقیقی تعلیمات ہیں ۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا یہ حکم ہے کہ وہ جو اس پر ایمان لاتے ہیں انہیں چاہئے کہ وہ اس کی صفات کو اپنائیں ، لہٰذا ایک سچے مسلمان کے لئے ممکن ہی نہیں کہ وہ ظلم کرے۔ اور اسی طرح یہ ناممکن ہے کہ اسلام کسی قسم کی ناانصافی، تشدد اور انتہا پسندی کی اجازت دے۔
حضورِ انور نے فرمایا:گزشتہ کئی سالوں سے میں بارہا اسلام کی بنیادی تعلیمات کے ان نکات کو بیان کر چکا ہوں ۔ حضورِ انور نے فرمایا کہ میں نے متعدد مرتبہ قرآنِ کریم کے حوالہ جات سے یہ ثابت کیا ہے کہ مَیں جو کچھ کہہ رہا ہوں وہ اسلام کی مستند تعلیمات ہیں ۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ہمارے امن کے پیغام کو میڈیا میں وسیع پیمانہ پر کوریج نہیں دی جاتی۔ جبکہ اس مقابل پر ان معدودے چند لوگوں کو جو ہر قسم کے ظلم و ستم اور قتل و غارت میں ملوّث ہیں انہیں عالمی میڈیا میں مسلسل کوریج دی جاتی ہے اور بہت توجہ دی جاتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ میڈیا لوگوں کی عمومی رائے قائم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس لیے میڈیا کو اپنی اس طاقت کا استعمال ذمہ داری کے ساتھ بھلائی او رامن کے قیام کے لئے کرنا چاہئے۔انہیں چاہئے کہ وہ اسلام کی حقیقی تصویر دنیا کے سامنے رکھیں ۔ بجائے اس کے کہ میڈیا ایک اقلیت کے ظالمانہ اعمال پر اپنی توجہ مر کو زرکھے۔دہشت گرد اور انتہا پسند گروپس کی ایسی حرکتوں کی تشہیر ان کے لئے آکسیجن کا کام دیتی ہے۔اس لئے مجھے اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جیسا کہ میں نے کہا ہے اگر میڈیا اس بات کی طرف توجہ کرے تو ہم دیکھیں گے کہ بہت جلد ہی ظلم و بربریت اور دہشتگردی جو دنیا پر مسلّط ہے ختم ہونا شروع ہو جائے گی۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ میں ذاتی طور پر اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوں کہ انتہاء پسند لوگ جنہوں نے اسلام اور اس کی اعلیٰ تعلیمات سے روگردانی کی ہے وہ اپنی ان قابلِ نفرت حرکات کا جواز اسلام سے کس طرح حاصل کرسکتے ہیں ۔ اسلام کی پر امن تعلیمات تو ہر قسم کی انتہا پسندی سے اس حد تک روکتی ہیں کہ جائز جنگ کے دوران بھی اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ سزا جرم کے مطابق دی جائے۔ اور یہ کہ بہتر یہ ہے کہ صبر سے کام لیا جائے او رمعافی کا اظہار کیا جائے۔ پس وہ تمام نام نہاد مسلمان جو تشدد، ناانصافی اور بربریت میں ملوّث ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی ناراضگی کو دعوت دے رہے ہیں ۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ اِس دور میں جبکہ اسلام کا خوف لوگوں کے دلوں میں مسلسل بڑھ رہا ہے مَیں اس بات کو بڑے زور کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ قرآن کریم نے بار بار محبت، شفقت اور رأفت پر زور دیا ہے۔ اگر بعض انتہائی ناگزیر حالات میں قرآنِ کریم نے دفاعی جنگ کی اجازت بھی دی ہے تو وہ محض امن کے قیام کی خاطر تھی۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ اکثر حکومتیں اور گروپس خواہ وہ مسلمان ہیں یا غیر مسلم جو جنگ میں ملوث ہیں وہ بھی یہی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ امن کے قیام کی خاطر جنگ کر رہے ہیں ۔ عمومی تاثر یہی ہے کہ اکثر لوگ بڑی طاقتوں کی طرف سے جو جنگیں کی جا رہی ہیں ان سے صرفِ نظر کرتے ہیں یا کم از کم ان کے افعال کو کسی مذہب یا عقیدے کے ساتھ نہیں جوڑتے۔ تاہم چونکہ ہم ایک ایسے ماحول میں رہ رہے ہیں جس میں اسلامی تعلیمات کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ہم دیکھتے ہیں کہ ہر قسم کے ظلم و ستم اور جنگیں جن میں مسلمان ملوّث ہوں ان کو فورًاا سلامی تعلیمات سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ جبکہ ان لوگوں اورجماعتوں کی آوازیں جو اسلام کی سچی اور امن پسند تعلیمات کو پھیلانے کی جدو جہد کر رہی ہیں ان کی آواز کو یا توسنا ہی نہیں جاتا اورپھر نہ ہی ان کی کوئی وسیع پیمانے پر مناسب تشہیر کی جاتی ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ میرے نزدیک یہ بات نہایت غیر منصفانہ اور منفی نتائج کی حامل ہے۔ اس قسم کے عالمی بحران کے موقع پر ہمیں یہ بنیادی اصول یاد رکھنا چاہیے کہ ہر قسم کی بدی اور ظلم کو دبایا جائے اور ہر قسم کی نیکی اور انسانیت کو پھیلایا جائے۔ اس طرح بدی زیادہ دور تک نہیں پھیل سکے گی جبکہ نیکی اور امن دور دور تک پھیلے گا اور ہمارے معاشرہ کو خوبصورت بنا دے گا۔ اگر ہم اس اچھائی کو جو دنیا میں ہے مزیدبڑھائیں تو اس طرح ہم ان لوگوں پر غالب آ سکتے ہیں جو امن اور انسانیت کی اعلیٰ اقدار کو مسخ کرنا چاہتے ہیں ۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا اس اصول کو قبول کرنے اور سمجھنے سے قاصر ہے اور یہی وجہ ہے کہ میڈیا امنِ عالم کے قیام پر اپنے اخبارات کی سرکولیشن میں اضافے اور اپنے ناظرین کی تعداد میں اضافہ کو ترجیح دیتاہے۔ وہ میڈیا جو بڑھ چڑھ کر اقلیت کے ظلم و ستم کی تشہیر کرتا ہے وہ دراصل داعش جیسے برے گروپس کی پراپیگنڈا مہم کو مدد دینے کا باعث بن رہا ہے جبکہ اس کا فرض یہ بنتا ہے کہ وہ دنیا میں مو جود اچھائیوں کو نمایاں کرے اور وہ اپنے اس کام میں ناکام ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
حضور نے فرمایا کہ یہ ایک ایسی نا انصافی ہے جو مزید تقسیم اور جھگڑے کے بیج بو رہی ہے۔ عالمی سیاست میں دہشت گردی کو شکست دینے کے لئے ضروری ہے کہ امن کا قیام ہمارا انتہائی مقصد ہو۔ اور اس کے لئے سب لوگوں کا اتفاق ضروری ہے۔ اگر آپ ایک مسلمان کی بات پر اعتماد نہیں کرتے تو میں آپ کے سامنے بعض ممتاز غیر مسلموں کے بیانات پیش کرتا ہوں جو سیاسیات کے ماہر ہیں اور دنیا میں امن کے خواہاں ہیں ۔ مثال کے طور پر جب ہم یہ کہتے ہیں کہ انتہا پسندی کو اور خاص طور پر داعش جیسے دہشت گرد گروپس کو کس طرح شکست دی جائے تو آسٹریا کے وزیرِ خارجہ نے حال ہی میں یہ کہا ہے کہ ہمیں دانشمندانہ حکمتِ عملی کی ضرورت ہے جس میں اسلامک اسٹیٹ (ISIS) سے جنگ کرنے کے لئے شام کے صدر اسد کو بھی اپنے ساتھ ملایا جائے۔وہ کہتے ہیں کہ میرے نزدیک ترجیح دہشتگردی کے خلاف جنگ ہے اور یہ بڑی طاقتوں مثلاً رشیا اور ایران کے تعاون کے بغیر ناممکن ہے۔
اسی طرح پروفیسر جان گرے(John Gray)جو ایک ریٹائرڈ سیاسی فلسفہ دان ہیں جنہوں نے کئی سال تک لندن اسکول آف اکنامکس میں پڑھایا ہے انہوں نے حال ہی میں ’’موجودہ سیاسی نظام پر امن کی ترجیح ‘‘کی اہمیت کے بارے میں لکھا کہ ’حکومتی نظام خواہ جمہوری ہو، آمرانہ ہو، بادشاہت کا ہو یا ریپبلیکن، یہ سب امن کے قیام کے مقابلہ میں کم اہمیت رکھتے ہیں ۔‘
حضورِ انور نے فرمایا کہ میری رائے میں یہ ایک بہت ہی بصیرت افروز تبصرہ ہے۔ لیکن اس کے باوجود بڑی طاقتوں نے ان ممالک میں جو اس سے قبل نسبتًا مستحکم تھیں ، حکومت(regime)کی تبدیلی کو زیادہ اہمیت دی۔ مثلاً مغرب اس بات پر تلا ہوا تھا کہ عراق سے صدام کو ہٹایا جائے۔ چنانچہ اس تیرہ سالہ جنگ کے نہایت تکلیف دہ نتائج آج بھی محسوس کیے جا سکتے ہیں ۔ ایک اور نمایاں مثال لیبیا کی ہے جہاں صدر قذافی کو 2011ء میں زبردستی ہٹایا گیااور اس وقت سے لیبیا مسلسل لاقانونیت اور تباہی میں دھنستا چلا جا رہا ہے۔لیبیا میں اس سیاسی خلا کا براہِ راست نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب داعش نے وہاں دہشت گردی کی مضبوط بنیاد اور جال پھیلا دیا ہے جو مسلسل مضبوط ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اب صورتحال بہت خطرناک ہو چکی ہے۔ اور یہ خطرہ اس علاقہ کے لئے ہی نہیں بلکہ یورپ کے لئے بھی ہے جس کے بارہ میں مَیں نے چند سال پہلے متنبہ کر دیا تھا۔ اس لئے ایسے ممالک میں ترجیح حکومت (regime)کو تبدیل کرنے پر نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ عوام الناس کو ان کے بنیادی حقوق ملیں اور دیرپا امن کا قیام ہو۔
شام (Syria) کی طرف واپس لوٹتے ہوئے مَیں آسٹریا کے وزیر خارجہ کی اس بات سے بالکل متفق ہوں کہ اوّلین مقصد امن کا قیام ہونا چاہیے۔ اس لئے بڑی طاقتوں کو شام کی حکومت کے ساتھ رابطہ کے ذرائع کھلے رکھنے چاہئیں اور دوسرے ہمسایہ ممالک کی مدد بھی حاصل کرنی چاہیے جن کا اس علاقہ پر اثر و رسوخ ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا یاد رکھیں کہ مثبت تبدیلی صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب وسیع تر مفاد کی خاطر ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھا جائے اور ہمہ وقت انصاف کے ساتھ کام کیا جائے۔ جیسا کہ میں کہہ چکا ہوں کہ
اسلام یہ کہتا ہے کہ انصاف وہ بنیاد ہے جس پر امن کی عمارت تعمیر ہوتی ہے۔ سو ہمیں وقت کی فوری ضرورت کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ کئی سالوں سے مَیں متنبہ کررہا ہوں کہ دنیا ایک اَور عالمی جنگ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اور اب دوسرے لوگ بھی اسی نتیجہ پر پہنچ رہے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ اب بعض اہم لوگ یہ کہنے لگے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ تاہم میں پھر بھی یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے پاس اس جنگ کو روکنے کے لئے ابھی کچھ وقت ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم عدل و انصاف سے کام لیں اور اپنے دیگر ہر قسم کے مفادات کو ایک طرف رکھ دیں ۔قبل ازیں بہت سے مواقع پر میں نے انتہا پسند گروپوں کی فنڈنگ اور ان کی سپلائی لائن کو کاٹنے کے متعلق بات کی ہے۔ تا ہم ابھی بھی یہ کہا نہیں جا سکتا کہ اس پہلو سے تمام تر کوششیں کی جا چکی ہیں ۔ مثلاً ایک حالیہ خصوصی تحقیقاتی رپورٹ میں جو وال سٹریٹ جرنل (Wall Street Journal)میں کہا گیا ہے کہ داعش عراق کے سنٹرل بنک کے زیرِ انتظام نیلامی سے بہت بڑی تعداد میں امریکن ڈالر حاصل کر رہا ہے۔یہی ڈالر عراق کو امریکہ کے فیڈرل ریزرو سے براہِ راست مہیا کیے گئے تھے۔ اس مضمون میں بیان کیا گیا ہے کہ امریکن حکومت اس صورتحال سے کم از کم جون 2015ء میں پوری طرح باخبر تھی۔ حضور انور نے فرمایا کہ ذاتی طور پر میں یہ سمجھتا ہوں کہ دنیا کی بڑی طاقتوں کو اس تجارت کے بارہ میں بہت پہلے سے علم تھا۔
حضور انور نے فرمایا کہ علاوہ ازیں تیل کی فروخت کے بارے میں یہ بات سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ مختلف گروپس یہاں تک کہ حکومتیں بھی داعش سے تیل خرید رہی ہیں ۔ یہ تجارت کیوں روکی نہیں گئی؟ کیوں ایسی ڈیلز (deals) پر جامع قسم کی پابندیاں عائد نہیں کی گئیں ؟ معلوم ہوتا ہے کہ جب تیل کے حصول کا معاملہ ہو تو اخلاقیات کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے! یہ وہ نکتہ ہے جو کنگز کالج لندن کے پروفیسر لیف وینر(Leif Wenar)نے اپنے ایک حالیہ مقالہ میں بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ دنیا تیل حاصل کرنے کی خاطر ہر قسم کے ظلم و زیادتی کو برداشت کرنے پر آمادہ ہے۔ چنانچہ ملکوں نے داعش سے بھی تیل خریدا اور سوڈان سے بھی جہاں پر بہت سے انسانی حقوق کا استحصال کیا گیا ہے۔ یہ بات تجارتی مارکیٹ کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے جس کے مطابق تشدّد کے نتیجہ میں ملکیتی حقوق قائم نہیں کیے جا سکتے۔
حضور انور نے فرمایا کہ علاوہ ازیں حال ہی میں ڈائریکٹر عراق انرجی انسٹیٹیوٹ نے اپنے ایک مقالہ میں بیان کیاہے کہ داعش والے کس طرح تیل فروخت کر رہے تھے۔ مضمون نگار لکھتا ہے کہ تیل ٹینکرز کے ذریعہ انبارؔ صوبہ سے اردن بھیجا جاتا ہے اور کردستان کے ذریعہ ایران اور موصل کے ذریعہ ترکی اور شام کی مقامی مارکیٹ میں بھی فروخت ہوتا ہے۔ اور اسی طرح عراق کے کردستان ریجن میں بھی جہاں پر اس کا بہت سا حصہ مقامی طور پر ریفائن (refine)کیا جاتا ہے۔ عقل اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کہ ان ملکوں کی حکومتی انتظامیہ اس تمام سلسلہ سے بے خبر ہو گی۔ اس لئے جب یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کو ختم کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی جاری ہے، تو حقائق اس دعویٰ کو درست ثابت نہیں کرتے۔ ان سب باتوں کے پیشِ نظر کیسے کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں حقیقی انصاف ہے۔ یہ کس طرح دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ دیانت اور امانت کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔
حضور انور نے فرمایا کہ اسی طرح حال ہی میں عالمی سطح پر اسلحہ کے پھیلاؤ کے بارہ میں بھی متعدد رپورٹس میڈیا میں آئی ہیں ۔ سرکاری اور معتبر رپورٹس کے مطابق گزشتہ سال کے دوران امریکہ نے 46.6ارب ڈالرز کا اسلحہ مارکیٹ میں فروخت کیا۔ جو گزشتہ سال کے مقابل پر 12ارب ڈالر زیادہ تھا۔ اور ان رپورٹس میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ یہ اسلحہ زیادہ تر ان ممالک کو فروخت ہوا جو مڈل ایسٹ میں ہیں ۔ اور اس طرح وہ شام، عراق اور یمن میں جنگ کو مزید ہوا دے رہے تھے۔
حضور انور نے فرمایا کہ میں پھر یہ کہتا ہوں کہ اگر ایسی تجارت ہو رہی ہے تو دنیا میں امن اور انصاف کا قیام ہونا کس طرح ممکن ہے؟یہ جو میں نے چند مثالیں دی ہیں ان کی رسائی ہر ایک تک ہے۔ اور یہ ممتاز تجزیہ نگاروں اور تبصرہ نگاروں کے خیالات پر مشتمل ہیں ۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ جب تک معاشرہ کی ہر سطح پراور قوموں کے درمیان بھی انصاف کے اصولوں کا اطلاق نہیں کیا جاتا ہم دنیا میں حقیقی امن نہیں دیکھ سکتے۔ انصاف کے بغیر داعش اور اس قسم کے دوسرے انتہا پسند گروپس کو شکست دینے کے لئے دسیوں سال درکار ہوں گے۔ تاہم اگر دنیا اس پیغام پر توجہ دے اور انصاف کے اوپر قائم ہو جائے اور دہشتگردی کی فنڈنگ اور سپلائی کو روکنے کے لئے حقیقی معنوں میں کوشش کرے تو میں سمجھتا ہوں کہ ایک ریٹائرڈ امریکی جنرل کے اس بیان کے برعکس جس میں اس نے یہ کہاتھا کہ داعش کے خلاف جنگ دس سے بیس سال تک جاری رہے گی، مَیں یہ سمجھتا ہوں کہ دہشتگردی کا نیٹ ورک بہت جلد تباہ کیا جا سکتا ہے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ آخر پر میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ میرا یہ اعتقاد ہے کہ جب تک دنیا اپنے خالق کو نہیں پہچانتی اور اسے تمام جہانوں کا رب تسلیم نہیں کرتی حقیقی انصاف غالب نہیں آ سکتا۔ نہ صرف یہ کہ حقیقی انصاف غالب نہیں آئے گا بلکہ دنیا ایک نہایت ہی خوفناک اور تباہ کن نیوکلیئر جنگ کا سامنا کرے گی جس کے نتائج ہماری مستقبل کی نسلوں کو دیکھنے پڑیں گے۔
حضورِ انور نے فرمایا کہ میری دعا ہے کہ دنیا اس حقیقت کو سمجھ جائے۔ مَیں دعا کرتا ہوں کہ ہم سب انسانیت کے حقیقی مقاصد کو حاصل کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں اور میں دعا کرتا ہوں کہ حقیقی امن جو انصاف پر مبنی ہو دنیا کے تمام حصوں میں قائم ہو جائے۔ ان الفاظ کے ساتھ مَیں ایک دفعہ پھر آپ سب مہمانوں کا شکر گزار ہوں جو آج کی اس شام میں ہمارے ساتھ شامل ہوئے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب پر اپنی برکات نازل فرمائے۔ بہت بہت شکریہ۔
اس خطاب کے بعد حضورِ انورنے اجتماعی دعا کروائی۔
……………………………
اس پیس کانفرنس میں حضورِ انور نے محترمہ حدیل قاسم صاحبہ(Hadeel Qassim)کواحمدیہ مسلم پرائز فار دی ایڈوانسمنٹ آف پیس (Ahmadiyya Muslim Prize for the Advancement of Peace) بھی عطا فرمایا۔ موصوفہ مشرقِ وسطی کے ناگزیر حالات میں مہاجربچوں کی فلاح و بہبود کے لئے غیرمعمولی خدمات سرانجام دے رہی ہیں ۔



