اُس سے مانگ کے دیکھ کبھی، اے مُورکھ سے انسان جوکہ جل تھل کر سکتا ہے، پیاس کے ریگستان جس خورشید کو دیکھ کے پگھلیں، برف کے بلتستان جس کا وصل مٹا دیتا ہے، ہجر کے راجِھستان ساری دنیا چھوڑ چھاڑ کے، اُس سے جا کے مل رو رو اپنا حال سنا، اور رکھ قدموں میں دل پاؤں اس کے پڑ کے کہنا، اے نوروں کے نور جس نے کاٹے کشت ہزاروں، میں ہوں وہ مزدور گرتے پڑتے آیا ہوں، میں گھائل چُور و چُور کر دے گھپ اندھیرے مجھ سے، میلوں صدیوں دور بخش دے مجھ کو، دیکھ نہ میرا نامۂ اعمال میرے ہاتھ نہ پلّے کچھ بھی، ایسا ہوں کنگال دُکھ کے ببر شیر ہیں پیچھے، بن جا میری ڈھال پھر نہ دنیا مُڑ کے دیکھوں، ایک نظر وہ ڈال تیرے ہاتھ میں بخشش کے ہیں، اربوں بحرِ ہند رحمت کا اک چھڑک وہ قطرہ، جی اُٹھے یہ جِند (مبارک صدیقی)